21/1/19

عصرحاضر میں تصویری صحافت کی معنویت مضمون نگار:۔۔ محمد وصی اللّٰہ حسینی



عصرحاضر میں تصویری صحافت کی معنویت


محمد وصی اللّٰہ حسینی


عصر حاضر میں تصویری صحافت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اچھے اور بڑے اخبار اس پر کافی توجہ دے رہے ہیں۔ ایسا بلا وجہ نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فوٹو جرنلزم سے ذرائع ابلاغ کے اثر وافادیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ اظہار و ترسیل میں بصری ذریعہ سمعی ذریعے سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ الفاظ کے ذریعے اتنی آسانی سے اپنی بات نہیں کہی جاسکتی ہے جتنی آسانی سے تصویروں کی زبانی۔ اسی لیے ڈرامے کو ترسیل کا سب سے طاقتور ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے’ شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘۔ 
تصویری صحافت کا رواج انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں بہت پہلے ہوچکا تھا۔ اردو میں اس کا چلن بہت بعدمیں ہوا۔ ایسا تکنیکی مجبوری کے سبب ہوا۔ اردو اخبارات چوں کہ لیتھو پر چھپتے تھے اس وجہ سے تصویرکی اشاعت بہت مشکل تھی۔ جبکہ انگریزی اور یورپی زبانوں کے اخبارات ورسائل ٹائپ میں شائع ہوتے تھے۔ فوٹو جرنلزم کی تاریخ میں قلمی تصویروں کا رواج 1607سے ہوچکا تھا۔ لیکن 1839میں فوٹو گرافی کی باقاعدہ ایجاد سے تصویری صحافت میں انقلاب آگیا۔ امریکہ کے مقبول عام رسالوں لائف، لُک اور پریڈ، انگلستان کے پینی میگزین، السٹر یٹیڈ لندن نیوز، پیرس کے لاالسٹریشن، جرمنی کے السٹرائٹ زیتنگ اور ہندوستان کے السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا نے تصویری صحافت کے فروغ میں ناقابل فراموش کرداراداکیا۔ اردو میں تصویری صحافت کے فروغ میں پیسہ لاہور، الہلال کلکتہ، ہفت روزہ ریاست، روزنامہ احسان لاہور، ہفت روزہ ہمارا پنجاب، ہفتہ وار باتصویر، شمع نئی دہلی اوربلٹزبمبئی کا اہم مقام ہے۔ اردومیں بلاک پرنٹنگ کے بعد تصویری صحافت کا آغاز ہوا لیکن آفسیٹ طباعت کے بعد اس میں انقلاب آگیا۔ آفسیٹ طریقہ طباعت کے بعد تصویری صحافت کے شعبے میں اردو کسی زبان سے پیچھے نہیں رہی۔آج ڈیجیٹل فوٹوگرافی کادورہے۔اس تکنیک کے آنے سے تصویروں کے معیارمیں کافی بہتری آگئی ہے۔اسی تکنیک کی وجہ سے شہری صحافت (Citizan Journalism) کو بھی کافی فروغ حاصل ہوا۔آج کوئی بھی شخص جسے تھوڑابہت نیوزاورفوٹو سینس ہے وہ بڑی آسانی سے شہری صحافی بن سکتاہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کا متبادل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آج ہر اخبار کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اہم خبر کے ساتھ تصویر ضرور ہو۔ اس کے بغیر خبر ادھوری سی لگتی ہے۔ در اصل تصویر دیکھ کر آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ واردات، واقعہ یا حادثہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ کچھ حادثات یا واقعات ایسے ہوتے ہیں جنہیں تصاویر کے بغیر واضح نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کبھی ایساہوتاہے کہ کسی معاملے میں کچھ کہنامناسب نہیں معلوم ہوتااور قاری کو باخبررکھنا بھی ضروری ہوتاہے۔ ایسے وقت تصویریں بہت کام آتی ہیں کیونکہ وہ بغیر کہے سب کچھ بتادیتی ہیں بلکہ اور موثر طریقے سے واقعے کو بیان کردیتی ہیں۔قلم اور کیمرے کا رشتہ بے حد حساس ہوتا ہے۔ ان کا بڑی احتیاط اور تخلیقیت کے ساتھ استعمال ہوگا تبھی کام بنے گا۔ ذراسی بے حتیاطی کسی بھی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ خبر اور فوٹو میں ایک بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ خبرکو توڑا مروڑا جا سکتا ہے۔ مگر فوٹو میں ایسا ممکن نہیں۔ فوٹو بغیر کچھ کہے سب کچھ بیان کردیتا ہے۔ کہاوت ہے ’کیمرے کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولتی‘۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اخبار پڑھنے کے لیے خواندہ ہونا ضروری ہے۔ جب کہ تصویر دیکھنے کے لیے خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ناخواندہ شخص صرف تصویر دیکھ کر بہت کچھ جان اور سمجھ سکتا ہے۔ سروے کے مطابق ہر دس قارئین میں سے نو تصاویر سے دلچسپی لیتے ہیں۔ 
جس طرح ایک صحافی کے لیے ’نیوز سینس‘ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک فوٹو گرافر کے لیے ’فوٹوسینس ‘کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک فوٹو جرنلسٹ کے پاس صرف کیمرہ ہونا ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے پاس وہ’ نظر ‘ بھی ہونا چاہیے جو تصویروں کی پرکھ رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ فوٹوگرافر کو روشنی کی سمجھ، حسب ضرورت لینس استعمال کرنے کی صلاحیت بھی لازمی ہے۔ جب فوٹو جرنلسٹ دل و دماغ دونوں سے کام کرے گا تبھی ایک اچھی تصویر وجود میں آسکتی ہے۔ اردو اخباروں میں عام طورسے تصویرکے معیار پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔اسی طرح اس کی ہیئت بھی عموماً غیر موزوں ہوتی ہے۔ آدمی اظہار تعزیت کررہاہے تو ہنستی ہوئی تصویر لگی ہے۔ غصے میں زہر اگل رہا ہے تو مسکراتی ہوئی یا جامد و ساکت تصویرلگی ہے۔ جبکہ تصویر کا انتخاب خبر کی نوعیت، ماہیت، کیفیت اور موقع و محل کے اعتبار سے کیاجاتاہے۔ 
پہلے اخبارات میں صرف مخصوص تصویریں ہی شائع کی جاتی تھیں لیکن اب ہر طرح کی تصویریں شائع ہونے لگی ہیں۔ مثلاً سیاسی و سماجی او رثقافتی و مذہبی جلسوں، روزمرہ کی زندگی سے متعلق دھرنا، احتجاج، موسم، حادثات، کھیل، جرائم اور تفریح وغیرہ کی تصاویر۔ عام تصاویر کے علاوہ متحرک تصاویر۔ کارٹون، کامکس،نقشے، خاکے، گراف اور قلمی تصاویر جدید صحافت کا اہم حصہ ہیں۔ تصویر جتنی بڑی ہوتی ہے اتنی ہی دلکش ہوتی ہے۔ 
اخبار میں شائع ہونے والی تصویر کی پہلی خصوصیت یہ ہونا چاہیے کہ وہ Action Photoیعنی بولتی تصویر ہو۔ساکن تصاویر بھی شائع کی جاتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس زاویے سے لی جائیں کہ زبان حال سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ کسی بھی اخباری تصویر کا ایک موضوع ہونا ضروری ہے۔ اخبار میں شائع ہونے والی تصویر اصل ہونا چاہیے۔ اصل تصویر میں ترمیم و تنسیخ مناسب نہیں۔ تصویر کشی کے وقت اگر کوئی چیز غیر ضروری محسوس ہوتو تصویر کھینچنے سے پہلے درخواست کر کے اسے ہٹوادینا چاہیے۔ بعد میں تبدیلی غیر اخلاقی بات ہے۔ ایسا کرنے سے فوٹو گرافر اور اخبار دونوں کا وقار مجروح ہوگا۔ کبھی کبھی خاص مواقع پر کئی تصویروں کو یکجا کرکے شائع کیا جاتاہے تاکہ خاص موقع کی اہمیت میں اضافہ ہو۔ صحافتی اصطلاح میں اسے فوٹومونٹیج (Photo Montage)کہتے ہیں۔ مثلا یو م جمہوریہ، یو م آزادی، عیدین، ہولی و دیوالی، کرسمس اور دیگر تیوہار۔ کسی سرکردہ شخصیت کے انتقال پر بھی کئی تصاویر یکجا شائع کی جاتی ہیں۔ 
جس طرح خبر کی اشاعت سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے اسی طرح تصویر کی اشاعت سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ تصویر کے انتخاب کے لیے عام طورپر دو باتوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک فوٹو میں خبر کی اہمیت اور دوسرے نیوز پرنٹ پر شائع ہونے کی صلاحیت۔تصویر میں خبر کی کیا اہمیت ہے، یہ عموماً تین باتوں پر منحصر ہے۔ (الف) شخصیت (ب) خبر یا اطلاع کی اہمیت (ج) ہدف جامد ہے یا حر کت میں۔ تصویر میں خبر کی اہمیت فی الواقع چار انسانی حوالوں پر منحصر ہوتی ہے۔ بنی نوع انسان کا وجود، محبت و نفرت کا جذبہ، کچھ کر گذر نے کی خواہش، زندگی سے فرار کی کوشش۔ 
تصویری صحافت میں متحرک تصویر کو ساکت تصویر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔بولتی تصویروں سے خبر میں جان پڑجاتی ہے۔ایکشن فوٹو گرافی کے دائرے میں عموماً کھیل، اہم شخصیات،چرند وپرند، معصوم بچے اور مجرمانہ واقعات آتے ہیں۔ایکشن فوٹو گرافی سے قبل احتیاط کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔تصویر کشی دراصل وقت کو قید کرنے کا فن ہے۔تصویر خبر یا واقعے کو صرف معتبریاموثر ہی نہیں بناتی بلکہ اس میں ایک کشش بھی پیداکرتی ہے۔خوبصورت،زندہ،حقیقی اور معتبر تصاویر کے لیے فوٹوگرافر کو کیمرہ اور اس کے تمام سازوسامان کی معلومات ہوناچاہیے۔ کیمرے کی کوالٹی، فلم اور روشنی کے علاوہ کئی تکنیکی باتوں کا خیال رکھنا پڑتاہے۔ فوٹو گرافر کو پہلے ہی کیمرے اور اس کے متعلقات کی بخوبی جانچ کرکے ایک مقام متعین کرلینا چاہیے تاکہ بھیڑ میں کسی مخصوص شخص پر فوکس کرکے تصویر لی جاسکے۔ایسی صورت میں تصویر کشی بھی ہوجائے گی اور متعلقہ شخص کو خبر بھی نہ ہوگی۔ایکشن فوٹو گرافی میں چوں کہ وقت بہت کم ہوتاہے اس وجہ سے چوکسی اور مستعدی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔جیسے ہی موضوع سامنے سے گزرے گااسے فوراً ہی فوکس کرکے بٹن دبانا ہوگا۔ ایکشن فوٹو گرافی میں خود اعتمادی،دوراندیشی،سوجھ بوجھ اور تیز رفتاری سے کام کرناہوگاورنہ پلک جھپکتے ہی موضوع ہاتھ سے نکل سکتاہے۔موضوع کے درمیان میں آنے والی رکاوٹوں کو پہلے ہی دورکرناہوگاکیوں کہ گیاوقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ اکثر فسادات اور مظاہروں میں تصادم کے دوران فائرنگ، خشت باری، آنسوگیس، چاقوزنی اور املاک کے نقصان کی تصویر کشی کے وقت کافی دشواریوں کا سامنا کرناپڑتاہے۔بارہاناخوشگوارحالات کے دوران خفیہ تصویر کھینچنے کے لیے جان تک خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ایسے حالات میں بڑی دانشمندی سے محفوظ مقام کا انتخاب کرناچاہیے۔بہت دورتک مارکرنے والے ٹیلی لینس کا استعمال کیا جاسکتاہے۔ ویسے اچھے فوٹو گرافر کسی شخص کے چہرے کی کیفیت کو دیکھ کر اپنے کیمرے میں قید کر لیتے ہیں۔ انسان خواہ جامد و ساکت ہی کیوں نہ بیٹھا ہو اس کی جذباتیت اور چہرے کے نقوش میں ایک طرح کی حرکت ہوتی ہے جو تصویر کو پر کشش اور دلچسپ بناتی ہے۔ اس طرح کی تصویر کو کینڈ ڈ فوٹو گراف (Candid Photograph) کہتے ہیں۔ 
تصویر میں خبر کی اہمیت کے بعد یہ غور کیا جاتا ہے کہ فوٹو نیوز پرنٹ پر شائع ہو پائے گا یا نہیں۔ اس کے لیے فوٹو میں تین اہم خصوصیا ت ہونا ضروری ہے۔ 
(1) تصویری ہدف فوکس میں ہونا چاہیے۔ وہ پس منظر یا آس پاس کی اشیا میں گڈ مڈ یا دھندلا نہ نظر آئے۔ تصویر کی آؤٹ لائن بھی واضح ہونا چاہیے۔
(2) اگر تصویری ہدف کے ساتھ آس پاس کی چیزوں کو بھی واضح دکھایا جانا ضروری ہوا ور فوٹو گرافر ایسا دکھانے سے قاصررہا ہو تو تصویر اشاعت کے قابل نہیں رہتی۔ 
(3) فوٹو کے رنگوں یا ٹونس میں کنٹراسٹ وافر ہونا چاہیے۔ 
کسی بھی اخبا رمیں صفحہ اول کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کسی میگزین کے کورپیچ کو۔ اسے اتنا خوبصورت اور پر کشش ہونا چاہیے کہ قاری دیکھتے ہی خرید نے پر مجبور ہوجائے۔ لیڈ نیوز کے ساتھ اچھی تصویر تو ضروری ہے ہی لیکن صفحے پر دیگر خبروں کے ساتھ یا آزادانہ طورپر مزید تصویریں بھی موزوں مقامات پر ہونا چاہئیں۔ آج کل اس بات کا بھی بڑا رواج ہے کہ اندرونی صفحات پر شائع ہونے والی تصاویر صفحہ اول پر اخبار کے نام کی پٹی پر بھی رنگین چھوٹی سائز میں شائع کی جاتی ہیں۔ اس کا صفحہ نمبر بھی درج کیا جاتا ہے۔ اس سے قاری کو اندر کے صفحات پر شائع ہونے والی خبریں پڑھنے کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے۔ عموماً صفحہ اول پر ایک بڑی اور خوبصورت تصویر شائع کی جاتی ہے۔ صفحہ اول پر ایسی تصویر شائع کر نے سے گریز کیا جاتا ہے جسے دیکھتے ہی قاری کا دل مکدر یا مضطرب ہوجائے۔ فحش،خون اورمسخ شدہ لاش کی تصویر شائع کرنے سے گریزکرناچاہیے۔
نیوز فیچر کے لیے بھی تصویر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسی تصویر کو اصل خبر شائع ہونے کے کچھ دن بعد بھی اخبار کے اندر کے صفحات پر شائع کیا جا سکتا ہے۔ عام طورپر ایسی صورت میں ایسے واقعات سے متعلق ایک اچھی تصویر منتخب کر لی جاتی ہے جسے پہلے دن خاص طور سے شائع کیا گیا تھا۔ اس تصویر کو آئندہ دنوں میں اسی واقعہ سے متعلق خبروں اور مضامین کے ساتھ بار بار شائع کیا جاتا ہے تاکہ تصویر کو دیکھتے ہی قارئین سمجھ جائیں کہ یہ خبر اس واقعہ سے متعلق ہے۔ مبنی بر خبر مضامین کے لیے نئی تصاویر اخبار کی فوٹو لائبریری سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ کبھی کبھی’ آف بیٹ‘ تصاویر بھی اس لیے شائع کی جاتی ہیں تاکہ اخبار میں کچھ نیا پن کا احساس ہو۔ کیوں کہ عموماً اخبار سیاسی یاجرائم کی خبروں اور تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ تازگی کا احساس دلانے کے لیے ایسی تصویریں شائع کی جاتی ہیں۔ 
تصویر کے ساتھ اس کا کیپشن بھی بیحد ضروری ہے۔ فوٹو کا کیپشن اور عنوان اسی فوٹو گرافر کے ذریعے لکھا جاتا ہے جس نے وہ فوٹو کھینچا ہے۔ لیکن فوٹو ایڈیٹر اسے مزید بہتر بنا سکتا ہے۔ کیپشن لکھتے وقت کم سے کم الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس میںیہ معلومات ضروری ہے کہ تصویر میں کیا دکھا یا گیا ہے، اسے کہاں اور کیوں کھینچا گیا ہے۔ اکثر اخبارات تصویر کے اوپری حصے میں ایک سرخی دیتے ہیں جسے اوور لائن (Over Line)کہتے ہیں۔ تصویر کے نیچے جو وضاحت دی جاتی ہے اسے کٹ لائن (Cut Line)یا کیپشن (Caption)کہا جاتا ہے۔ تصویر کا کیپشن لکھنا خبر کی سرخی لکھنے کی طرح ایک تخلیقی فن ہے۔ تصویر کے نیچے دی جانے والی وضاحت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر عام قاری تصویر کی تفصیل سمجھنے سے قاصر رہے گا۔ عام قاعدہ ہے کہ کیپشن دو سطروں سے زیادہ نہ ہو۔ اگر بہت ضروری ہو تو تین سطروں کی اجازت ہے۔ تصویر میں نظر آنے والے افراد کی شناخت کے لیے دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں لکھنا ضروری ہے۔ اگر گروپ فوٹو میں قطاریں ہوں تو پہلی قطار اور دوسری قطار ضرور درج کیا جائے۔ 
عام طورسے فوٹو کا انتخاب اخبار یا میگزین کی پالیسی یا خبر کی اہمیت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر بڑے اخباروں میں تصاویر کے انتخاب اور ان کے صفحات کے تعین کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی جاتی ہے جس میں نیوز ایڈیٹر، فوٹو ایڈیٹر یا چیف فوٹو گرافر اور نیوز کو آرڈینیٹر یا اسسٹنٹ ایڈیٹر رکن بنائے جاتے ہیں۔ لیکن بعض اخباروں میں یہ کام اکیلے فوٹو ایڈیٹر یا چیف فوٹو گرافر انجام دیتاہے۔ اگر ایسی صورت حال ہو تو تصویر کے صحیح انتخاب اور موزوں مقام پر اس کی اشاعت کے لیے فوٹو ایڈیٹر یا چیف فوٹوگرافر کو شعبہ ادارت سے تعاون لینا چاہیے۔ کبھی کبھی فوٹو میں تصویری ہدف کے علاوہ غیر ضروری اشیا بھی آجاتی ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں فوٹو ایڈیٹر پرنٹ پر ان غیر ضروری حصوں پر نشان لگا کر اسے الگ کر دیتے ہیں۔ 
آج کل فوٹو ایڈیٹنگ کے لیے کمپیوٹر سافٹ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ نگیٹیو کو بھی نگیٹیو اسکینر سے اسکین کرکے کمپیوٹر پر فوٹو کی ایڈیٹنگ ممکن ہے۔ اس وقت ڈیجیٹل کیمرے کا زیادہ رواج ہے۔ ایسی صورت میں کیمرے کی فلاپی یا میموری اسٹک (Memory Stick) سے کمپیوٹر پر ایڈیٹنگ کی جاتی ہے۔ فوٹو ایڈیٹنگ کے وقت صحافتی اقدار کا خیال رکھا جانا بہت ضروری ہے تاکہ اخبار کی وقعت میں کوئی کمی نہ آئے۔ سافٹ ویئر کی مدد سے ایڈیٹنگ کر تے وقت تکنیکی طورپر فوٹو کو پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی اس کے کنسٹراسٹ وغیرہ کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں دکھائے گئے صحافت کے حقیقی پہلو میں کوئی رد و بدل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فوٹو ایڈیٹ کر تے وقت ایسا بھی کچھ نہیں کر نا چاہیے جس سے فوٹو کے بارے میں قاری کے دل میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو۔ 
اخبارات کے لیے تصویر کشی کوئی آسان کام نہیں۔ خبر کے مطابق تصویر کی فراہمی کے لیے فوٹو گرافر کو بڑی جد و جہد، تگ ودو اور جستجو کرنا پڑتی ہے۔ خوب سے خوب تر تصویریں کیمرے میں قید کرنے کے لیے موسم کی پروا کیے بغیر سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ بلکہ موسم جتنا خراب ہوگا تصویر کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی اور فوٹو گرافر کی تگ و دو مزید بڑھ جائے گی۔ لکھنؤ کے سینئر فوٹو جرنلسٹ تر لوچن سنگھ اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تپتی دوپہر میں سڑک پر چند گنتی کے راہ گیر نظر آرہے تھے جو سورج کی تپش اور لو کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے اپنے سروں اور چہروں کو کپڑے سے ڈھکے ہوئے تھے۔ انھیں افراد کے بیچ سے اسکوٹر چلاتے ہوئے میں اس پر تپش موسم کی تصویر تلاش کرنے نکلا تھا۔ تصویر کی تلاش و جستجو میں گومتی کے کنارے ایک درخت کی چھاؤں میں چائے کی گمٹی دیکھ کر چائے پینے کی طلب جاگ گئی۔ چائے دیتے دکان دار نے ریڈیوکی سوئچ گھمادی اور کانوں میں ایک پرانا فلمی نغمہ’ تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی ‘ بج اٹھا تو بے ساختہ کہہ اٹھا یہی تو میں کہنا چاہ رہا تھا۔ چائے پی کر تازہ دم ہوا دفعتاً نظریں گومتی کے پانی میں ہوا بھرے ٹیوب پر کھڑے ہوکر ڈبکی لگانے جارہے کچھ بچوں پر پڑی اور کیمرہ آنکھوں سے جا لگا اور پھر تو تصویریں فلم پر قید ہوتی چلی گئیں۔ 44ڈگری درجہ حرارت کی خبر کے ساتھ تصویر اخبار کے پہلے صفحے پر جگہ پائی۔تصویر کشی کے پیشے میں ہر سنجیدہ نیوز فوٹو گرافر کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ کبھی تصویریں مل جاتی ہیں تو کبھی اس کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے ‘‘۔ 
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ یہ ویب جرنلزم کا بھی دور ہے۔ بلکہ یہ کہنا شایدبیجا نہ ہوگا کہ مستقبل ویب جرنلزم کا ہی زیادہ تابناک نظر آرہا ہے۔ نوجوان نسل کا رجحان ویب میڈیا کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور موبائل فون ہے۔ وہ جب اور جہاں چاہے خبروں اوردیگر مواد کو پڑھ اور دیکھ سکتا ہے۔ پرنٹ اور ویب میڈیا کی تصاویرمیں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے۔ ویب جرنلزم میں بھی اسی طرح تصاویر حاصل کی جاتی ہیں جس طرح پرنٹ میڈیا میں۔ البتہ ویب سائٹ پر تصاویر کی پیشکش میں کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ بی بی سی نیوز ویب سائٹ کے پکچر ایڈیٹر فل کومز کہتے ہیں :
’’وہ واحد چیز جو آپ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ ایسی تصویر لیں جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور وہ آپ کی کہانی پر توجہ مر کوز کرلیں۔ یہ تصویر ایسی ہو جو اپنی طرف مائل کرلے، معلومات فراہم کرے اور بعض اوقات اس لمحے کے جذبات بھی اپنے اندر سمولے۔‘‘
بی بی سی نیوز ویب سائٹ نے اپنی تصاویر کے لیے کچھ رہنما اصول مقرر کیے ہیں۔ہم ذیل میں ان کا مختصراً ذکرکریں گے تاکہ اس سے معلوم ہو سکے کہ ویب کے لیے کس طرح کی تصاویر اچھی،مفید اور موثر ہوتی ہیں۔
بی بی سی کے ہدایت نامے کے مطابق منصوبہ بند کمپوزیشن، روشنی کا صحیح استعمال، شکل رنگ اور تناظر ایسی چیزیں ہیں جن سے اچھی تصویر یں لینے میں مدد ملے گی۔ یہ بات یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ ویب پر زیادہ تر تصاویر لینڈ اسکیپ فارمیٹ میں رہتی ہیں۔ اس لیے اگر عمودی (پورٹریٹ فارمیٹ)میں تصویر لی گئی ہے تو اسے ویب پر دکھانے میں دشواری آسکتی ہے۔ اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ تصویر لیتے وقت کیمرہ نہ ہلے کیونکہ کہ ممکن ہے شڑا اسپیڈ سست ہو۔ اسمارٹ فون کیمرے اچھی روشنی میں تو بہتر کام کرتے ہیں لیکن کم روشنی میں ان کی کار کردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ لہذا اس بات کو بھی ذہن میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔تصویر کے اندر شکل کے عنصر کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ توازن، قطری خطوط (Diagonal)اور فریم ایسے ہی چند عناصر ہیں۔ سادہ الفاظ میں آپ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دیکھنے والی آنکھ مر کزی موضوع کی طرف کھنچے۔ آپ شوخ رنگوں کی مدد سے بھی دیکھنے والے کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ سادہ شکلوں پر مبنی اور بھیڑبھاڑسے پاک تصویر عام طور سے اچھے نتائج دیتی ہے۔ پوٹریٹ لیتے وقت کو شش کیجیے کہ تصویر تھوڑا اوپر سے لی جائے تاکہ موضوع اوپر نطر آرہا ہو۔ اس طرح زیادہ بہتر تصویر آتی ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ دہری ٹھوڑی نظر نہ آئے۔ ایک تہائی کا اصول اپنانے۔ایک تہائی کا سادہ لیکن موثر اصول اچھی کمپوزیشن کے لیے کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک تہائی کا اصول یہ ہے کہ تصویر پر دو لکیریں عمودی اور دو افقی سمت میں لگائیں۔ اس طرح آپ کا منظر نو حصوں میں بٹ جائے گا۔ اپنے مرکزی موضوع کو ان لکیروں کے کسی ایک سنگم پر رکھیں۔ موضوع تصویر کے بالکل بیچوں بیچ ہونے کی بجائے اگر ایک طرف کو ہو تو اس سے زیادہ متوازن اور بہتر تصویر بنتی ہے۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کے موضوع کے دیکھنے کی جگہ بچے۔ مثال کے طورپر اگر ایک تیز رفتار کار دکھانا چاہتے ہیں تو کار کے پیچھے کے مقابلے سامنے زیادہ جگہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ ضرورت کے تحت اس اصول کو توڑا جا سکتا ہے۔ 
اگر آپ تصویر وں کی زبانی کہانی بیان کر نا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو پہلے سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ایک ہی منظر کی کئی تصویریں لیں۔پہلی تصویر ممکنہ طورپر تفصیلی تصویر (وائیڈ شاٹ )ہوسکتی ہے جس میں منظر کا محل وقوع دکھائی دے۔ لیکن ہر چیز شامل کرنے کی کوشش نہ کریں۔اس کے علاوہ کہانی کے کرداروں کی دلچسپ اور مختلف تصاویر نیز متعلقہ چیزوں کی قریب سے تصاویر۔
ویب کے لیے تصاویر کی ایڈ یٹنگ بھی ایک مشکل امر ہے۔ تصاویر کا انتخاب کسی امتحان سے کم نہیں۔ اس کے لیے گہری نظر، مہارت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویب کے لیے تصاویر کی ایڈ یٹنگ کے لیے سب سے اچھی تصویریں منتخب کریں، انھیں احتیاط سے کاٹیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ خبر کی سرخی سے ہم آہنگ ہوں۔ بی بی سی نیوز کے پکچر ایڈیٹر فل کومز تصاویر ایڈٹ کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں :
* آپ نے جو تصاویر لی ہیں یا اپنی اسٹوری کے لیے جمع کی ہیں ان کا غور سے جائزہ لیں۔ انھیں مختلف طریقوں سے کاٹ کر دیکھیں کہ آپ کی کہانی کے لیے ان میں کون سی موزوں ترین ہے۔ 
* تصویر کاٹتے وقت احتیاط سے کام لیں۔ اگر چھوٹی سی تصویر استعمال کرنا ہے تو بہت نزدیک سے کاٹیں۔ لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ آپ کی کہانی کی اچھے طریقے سے نمائندگی کرتی ہو تاکہ دیکھنے والے متوجہ ہوسکیں۔ 
* اندرونی صفحات پر تصاویر ایسی ہوں جو کہانی کو آگے بڑھائیں، نہ کہ اس میں اس قدر روڑے اٹکائیں کہ قاری دلچسپی کھو بیٹھے۔ ضرورت سے زیادہ تصاویر لگانا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کوئی تصویر نہ لگانا۔ ایک اچھی تصویر کئی عامیانہ تصاویر سے بہتر ہے۔ 
* اندرونی صفحے پر کہانی کی مناسبت سے آپ لینڈ اسکیپ، پورٹریٹ، چھوٹی یا بڑی تصویر لگاسکتے ہیں۔ 
* اگر آپ فوٹو شاپ استعمال کر رہے ہیں تو’ لیولز‘ کی مدد سے تصویر کو کم یا زیادہ روشن کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس بات کا دھیان رکھیں کہ سفید حصے سفید دکھائی دیں نہ کہ ہلکے گرے رنگ کے، اور کالے حصے بالکل سیاہ ہوں، نہ کہ گہرے گرے۔
* تصاویر کو جے پیگ (Jpeg)فارمیٹ میں سیو کرنا چاہیے۔ اگر آپ فوٹو شاپ یا اس سے ملتا جلتا کوئی پروگرام استعمال کر رہے ہیں تو تصویر کو زیادہ کمپریس نہ کریں۔ بلکہ اسے ’ہائی‘کی سیٹنگ پر سیوکریں۔ 
مختلف سائٹوں پر مختلف سائز کی تصاویر استعمال ہوتی ہیں لیکن بی بی سی 16:9تناسب کی تصاویر استعمال کرتی ہے اس لیے اپنی تصاویر کو 10802351920پکسل پر سیو کریں۔ بی بی سی کی تصاویر میں فلٹر کا بھی استعمال نہیں کیاجاتا۔
اگر آپ تھرڈ پارٹی کی تصاویر استعمال کررہے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس اسے ہر طرح سے استعمال کرنے کے حقوق موجود ہیں۔ اگر ذرا بھی شک ہو تو انھیں استعمال نہ کریں۔ آج کل بغیر اجازت کے دوسروں کی تصویروں کے استعمال کا چلن عام ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔اب ایسا سافٹ ویئر وجودمیںآگیا ہے جو کاپی رائٹ والے مواد اور تصاویر کی چوری بتادیتا ہے لہٰذا بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ 
کسی بھی شعبے کی طرح تصویری صحافت کے شعبے میں بھی مہارت پیدا کرنے کے لیے خود کو وقف کردینے کا جذبہ پیداکرنا ضروری ہے۔ تصویری صحافت ایک دلچسپ اور جرأت مندانہ پیشہ ہے۔ فوٹو جرنلسٹ بہت خطرات بھی اٹھاتے ہیں۔ اس میدان میں زیادہ تر وہی لوگ کا میاب ہوتے ہیں جو اپنے کام ایمان داری سے انجام دیتے ہیں اور اسے محض پیشہ نہ سمجھ کر ہر ایک تصویر کو باقاعدگی سے کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو فوٹو جرنلسٹ اس جذبے سے کام کرتے ہیں وہ بہت جلد کامیاب ہوجاتے ہیں۔ آج کل خبر رساں ایجنسیاں بھی تصویریں فراہم کرتی ہیں لیکن بڑے میڈیاہاؤسز اپنے فوٹو گرافر کی الگ الگ زاویوں سے کھینچی گئی تصاویر کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کی انفرادیت بر قرار رہے۔ 

Mohd.Wasiullah Husaini
53/4,Shutur Khana,
Udai Ganj,
Lucknow-226001
Cell: 9307282929
Email.: wasihusaini@gmail.com









قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں