پطرس بخاری کی طنز و مزاح نگاری
ظفر گلزار
مزاح نگار کی نظر سماج اور آس پاس کے ماحول پر ہوتی ہے اس لیے اردو نثر میں طنزومزاح کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس کا مقصد اپنے معاشرے کی ناہمواریوں اور تضادات کو اس انداز میں بیان کرنا ہوتا ہے کہ قاری ان سے محظوظ بھی ہو اور حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی حاصل کر سکے۔ طنز و مزاح میں تعمیری پہلو بھی غالب ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف طنز زندگی اور ماحول سے برہمی اور عدم تشفی کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ طنز نگار جس واقعہ پر ہنستا ہے اس کو پسند نہیں کرتا ہے اور اس کو بدل دینے کا آرزومند ہوتا ہے۔ طنزومزاح نگاروں نے ابتدا سے ہی تضادات،معاشرتی اور سیاسی برائیوں،مذہبی بنیاد پرستی،توہم پرستی اور فرسودہ روایات کو نشانہ بنایا ہے۔ جعفر زٹلی سے لے کر دور حاضر تک یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس ضمن میں رتن ناتھ سرشار، اکبر الٰہ آبادی،منشی سجاد حسین، خواجہ حسن نظامی، مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کرشن چندر، شوکت تھانوی، فرقت کاکوروی، کنہیا لال کپور،مشتاق احمد یوسفی،شفیقہ فرحت اور مجتبیٰ حسین کے نام قابل ذکرہیں۔اس تعلق سے وزیر آغا کا ماننا ہے کہ زندگی کی ناہمواریوں کے ہمدردانہ شعور اوران کے فنکارانہ اظہار کا نام مزاح ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’مزاح نگار اپنی نگاہ دور بین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویہ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔
(اردو ادب میں طنزومزاح۔وزیر آغا، ص:47)
پطرس بخاری کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے صورت واقعہ سے مزاح پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔وہ دوسرے پر طنز کے تیر چلانے کی بجاے خود کو ہی تختۂ مشق بناتے ہیں اور قاری کو ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔وہ اپنے مضامین کی شگفتگی،برجستگی،روانی اورتوانائی کی وجہ سے اردو طنزومزاح کی تاریخ میں نہایت بلند مقام کے حامل ہیں۔ وہ مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ مغربی ادب اور طرز فکر سے بھی بخوبی واقف تھے جس کی جھلک ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔پطرس کی تحریروں میں یوں تو مزاح کا رنگ گہرا ہے لیکن ان کے بعض مضامین میں اعلیٰ معیا رکا طنز ملتا ہے۔جہاں کہیں انھوں نے طنز کا سہارا لیا ہے وہاں اس کی کاٹ بھی زبردست ہے۔وہ طنز کو مزاح کی شیرینی میں اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ طنز کی تلخی زیر لب تبسم میں بدل جاتی ہے۔’کتے‘ اور ’لاہور کا جغرافیہ‘ ان کے لطیف طنزکی عمدہ مثالیں ہیں۔
پطرس اردو طنز ومزاح میں ایک نئے اسلوب کے خالق ہیں۔ان کا اسلوب شوخی، شائستگی اور ظرافت کا حسین مرقع ہے۔ان کے مزاحیہ مضامین میں انسانی نفسیات کی گرہیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ان کے کردار اپنی حرکت و عمل سے ہمیں مسکرانے اور بعض اوقات قہقہے لگانے پر مجبورکر دیتے ہیں۔مضامین پطرس کے مطالعے سے ان کی ذہنی طباعی،انسانی نفسیات پر ان کی بھرپور گرفت،زبردست قوت مشاہدہ اور تخیل کی بلند پروازی کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کی تحریروں میں کسی قسم کی بناوٹ یا تصنع نہیں ملتا بلکہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ فطری بات ہے۔ وہ واقعات اور کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ خود بخود مزاح پیدا ہوجاتاہے۔ ان کی ظرافت میں تجربہ اور مشاہدہ شامل ہوتے ہیں۔وہ انسانی کردار کا نہایت گہرائی سے نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جزئیات پربھی ان کی نظر رہتی ہے۔ان کے کردار بتدریج ارتقا کے مراحل طے کرتے ہیں۔ ان کی کردار نگاری بہت معیاری ہے اور فن مزاح کی صناعی کا بہترین نمونہ ہے۔ پطرس کے مزاح میں تمسخر اور مضحکہ کا دخل نہیں ہے۔ انھوں نے بڑی ہمدردی کے ساتھ زندگی کے مزاح انگیز پہلوؤں کی عکاسی کی ہے اور قارئین کے لیے شائستہ مزاح کا سامان فراہم کیا ہے۔
پطرس کے زیادہ تر مضامین کا مرکزی کردار واحد متکلم ہے۔اس سے انھوں نے بڑا کام لیا ہے اور اپنے مضامین کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔ان مضامین میں جووا قعات بیان کیے گئے ہیں ان میں خود مصنف کے شامل رہنے سے ان کے حقیقی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اپنی کمزوریوں اور تضادات کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرلینا، ان پر خود بھی ہنسنا اور دوسروں کو بھی قہقہے لگانے پر مجبور کردینے کا حوصلہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ان واقعات میں اتنا فطری پن ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔واحد متکلم کے حرکت و عمل کی مدد سے انھوں نے زندگی کی ناہمواری، عدم توازن اور تضادات کو اجاگر کرکے مزاحیہ صورت حال پیدا کی ہے۔یہ پطرس کی مزاح نگاری کی انفرادیت ہے جس میں کوئی ان کا شریک نہیں۔وہ مزاح کو ایک شائستہ فن تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مزاحیہ تحریروں میں شائستگی اور وقار کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان کے مضامین کا فطری اتار چڑھاؤ، مکالمے اور روانی سب مل کر ایک معمولی سے خیال کو بھی بہت خاص بنا دیتے ہیں۔ ان کا پلاٹ فطری انداز میں اپنے گردوپیش کے مناظر سے ہم آہنگ ہو کر ارتقا کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔کبھی وہ جملوں کی ترتیب اور الفاظ کی تراکیب سے مزاح پیدا کرتے ہیں اور کبھی برجستگی اور ندرت سے ہمیں مسکرانے کا موقع عطا کرتے ہیں۔
ان کے مضمون ’ہاسٹل میں پڑھنا‘ میں ایک ایسے طالب علم کی تصویر پیش کی گئی ہے جس کو پڑھنے لکھنے سے زیادہ ہاسٹل میں رہنے کا شوق ہے تاکہ وہاں کی آزاد فضا میں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے۔اس مضمون میں ایک ایسے خوش حال اور صاحب استطاعت خاندان کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو بے حد قدامت پسند ہے اورتعلیم کی اہمیت اور تعلیمی اداروں کے حالات سے بالکل واقف نہیں ہے۔اس خاندان میں جدید دور کی ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔لڑکے نے انٹرنس کا امتحان تیسرے درجے میں پاس کیا ہے۔ خوشیاں منائی جا رہی ہیں اور مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں۔مگر لڑکے کو آگے کی تعلیم کے لیے ولایت اس لیے نہیں بھیجا جاتا کہ آس پاس کے علاقے سے کسی کے ولایت جانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ گھر والے مشکل سے اس بات پر رضامند ہوتے ہیں کہ لڑکے کو پڑھنے کے لیے لاہور بھیجا جائے۔لیکن وہاں اسے ہاسٹل میں داخل کرنے کی بجاے ایک ایسے رشتے دار کے یہاں رکھنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جس سے رشتے داری کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے خاندانی شجرہ دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔اس کے باوجود گھر کو ہاسٹل پر اس لیے فوقیت دی جاتی ہے کہ ’’گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ کا ایک دوزخ ہے۔‘‘ لڑکا انھیں سمجھاتاہے، ہاسٹل میں رہنے کے فوائد گنواتا ہے اور اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے اسے لازمی قرار دیتا ہے لیکن خاندان کے لوگ اس کی دلیلوں سے قائل نہیں ہوتے۔ آخرکار دور کے رشتے کے ایک ماموں جن کے یہاں اس کے قیام کا بندوبست کیا جاتا ہے جو کہ والدین سے بھی زیادہ محتاط اور سخت گیر ثابت ہوتے ہیں۔طالب علم پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ امتحانات میں مسلسل ناکامی،بے راہ روی اور سگریٹ نوشی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ آخر طالب علم کی پے درپے ناکامیوں کے بعد والدین کو جھکنا ہی پڑتا ہے اور وہ اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔لیکن اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب بی اے کا رزلٹ آتا ہے اور وہ پاس ہو جاتا ہے۔
’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘کا مرکزی کردار بھی واحد متکلم کی شکل میں وہی طالب علم ہے جسے ہاسٹل میں رہنے کا بڑا ارمان تھا اور جسے پڑھنے لکھنے کے علاوہ ہر کام سے دلچسپی ہے۔امتحان کا زمانہ آتا ہے تو تیاری کے لیے صبح اٹھ کر پڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکر جی سے صبح جگانے کی درخواست کرتا ہے۔لالہ جی بھی اتنے مستعد اور صبح خیز ہیں کہ رات کے تین بجے ہی جگا دیتے ہیں۔لڑکا اتنی جلدی جگادینے کے لیے انھیں برا بھلا کہتا ہے اور پھر جو سوتا ہے تو صبح دس بجے آنکھ کھلتی ہے۔چونکہ امتحان قریب تھے اور تیاری ضروری تھی،اس لیے لالہ جی سے پھر سے جگانے کی گذارش کی۔ لالہ جی ناراض تو تھے لیکن شریف آدمی تھے اس لیے مان گئے اور صبح چھ بجے جگانے پر رضا مند ہو گئے۔انھوں نے مقررہ وقت پر جگایا تو لڑکے نے ان سے کہا کہ ہاں وہ جاگ گیا ہے لیکن جب بیدار ہوا تو دس بجے تھے۔اس نے لالہ جی کا شکریہ اداکیا تو پوچھنے لگے کہ میں نے آپ کو آواز دی تھی لیکن آپ کچھ بولے نہیں اور کوئی بہانہ نہ سوجھا تو کہہ دیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔اس طرح راوی کاجاگنا نمبر ایک چھ بجے اور جاگنا نمبر دو دس بجے قرار پایااور لالہ جی پوچھیں تو نماز کا بہانہ بنا دیا۔
’میں ایک میاں ہوں ‘میں شوہر اور بیوی کے تعلقات،شوہر کے دوستوں پر اعتراضات کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے۔بیوی کے میکے جانے پر شوہر خوش ہوتا ہے کہ کچھ دن کے لیے آزادی ملی۔لیکن چند دنوں میں ہی بیوی کی یاد میں اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نکلنے لگتے ہیں۔اسے ٹیلی گرام کرتا ہے کہ تم جلدی آجاؤ، تمھارے بغیر میں بہت اداس ہوں۔اس کے بعد اس کے سبھی دوست ایک ایک کرکے اسی کے گھر آدھمکتے ہیں اور خوب شور مچاتے ہیں۔ وہ خود بھی اس میں پیش پیش ہے۔اسی درمیان بیوی آجاتی ہے۔اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ میاں کو اس حالت میں دیکھ کر بیچاری بیوی کیا سمجھی ہوگی اور شوہر پر کیا گزری ہو گی۔
’مرید پور کا پیر‘میں سیاست دانوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔لیڈر کیسے بنتے اور بنائے جاتے ہیں اس کی تفصیل اس میں اس قدر خوبصورتی سے پیش کی گئی ہے کہ بیساختہ ہنسی آجاتی ہے۔
مصنف نے ’سنیما کا عشق‘میں ایک ایسے دوست کا خاکہ کھینچا ہے جو ہمیشہ دیر سے سنیما ہال پہنچتا ہے۔یہ خاموش فلموں کے زمانے کی بات ہے جب فلم کا کچھ حصہ چھوٹ جاتا تھا تو کہانی سمجھنا محال ہو جاتا تھا۔راوی وقت کا پابند ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ بھی ہمیشہ تاخیر سے پہنچتا ہے۔ وہ اپنے دوست مرزاکی اس عادت سے پریشان ہے لیکن اپنی عادت سے مجبور بھی ہے کہ وہ اکیلے فلم دیکھنے جا نہیں سکتا۔ اسی لیے جب کوئی نئی فلم آتی ہے تو وہ مرزا سے پوچھتا ہے’’کیوں بھئی مرزا، اگلی جمعرات سنیما چلو گے نا؟‘‘ وہ اشارے کنائے میں اور کبھی کبھی براہ راست مرزاسے وقت پر پہنچنے کی تنبیہہ بھی کرتا ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتااور وہ بدستور تاخیر سے ہی سنیما ہال پہنچتے ہیں۔
’میبل اور میں‘میں کیمبرج کے ایک طالب علم اور ایک طالبہ کو کردار بنا کر انسانی نفسیات کی گرہ کھولی گئی ہے۔میبل اکثر کہانی کے راوی کو کچھ نئی کتابیں دے جاتی ہے اور پھر بعدمیں ان کتابوں پر دونوں آپس میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔راوی کے لیے ہفتے میں دس بارہ کتابیں پڑھنا ایک مشکل کام ہے لیکن وہ ایک لڑکی کے سامنے یہ اعتراف کرنا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے کہ وہ یہ کتابیں نہیں پڑھ سکا۔چنانچہ وہ بغیر پڑھے ان پر عمومی قسم کا تبصرہ کرتا ہے۔ایک بار وہ بیمار ہوتا ہے اور میبل اس کی تیمارداری کو آتی ہے تو اسے بے حد ندامت کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اتنی اچھی لڑکی کو دھوکہ دیتا رہا۔وہ میبل سے اپنے اس عمل کے لیے معذرت کا اظہار کرتا ہے۔میبل اسے معاف کردیتی ہے۔ جاتے وقت وہ پچھلی بار دی گئی کتابیں مانگتی ہے۔راوی چاہتا ہے کہ اب ایمانداری سے کتابیں پڑھ کران کے بارے میں میبل سے بحث کرے گا۔اس لیے اس سے پوچھتا ہے کہ ’تم یہ کتابیں پڑھ چکی ہو ‘تو وہ جواب دیتی ہے:
’’ہاں میں توپڑھ چکی ہوں۔‘‘
اس کے چلے جانے کے بعد میں نے ان کتابوں کو پہلی دفعہ کھولا۔تینوں میں سے کسی ایک کے بھی ورق تک نہ کٹے تھے۔میبل نے بھی انھیں ابھی تک نہ پڑھا تھا۔
مجھے مرد اور عورت دونوں کی برابری میں کوئی شک باقی نہ رہا۔‘‘ (پطرس کے مضامین،صفحہ 127)
’مرحوم کی یاد میں ‘کا شمار اردو مزاحیہ ادب کی بہترین تحریروں میں ہوتا ہے۔راوی ایک موٹر کار لینا چاہتا ہے۔ وہ جب اپنے دوست مرزا سے اس خیال کا اظہار کرتا ہے تو وہ اسے موٹر کی بجاے سائیکل لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ وہ بڑھا چڑھا کر سائیکل کی خوبیاں بیان کرتا ہے اور راوی کو اپنے جال میں پھانس لیتا ہے۔وہ اپنی ایک نہایت پرانی کھٹارا سائیکل اس کے گلے منڈھ دیتا ہے۔راوی جواپنی طبعی شرافت سے مجبور ہے، مرزا کی چال کو سمجھ نہیں پاتا اور چالیس روپیے اس کی جیب میں رکھ دیتا ہے۔سائیکل کا سودا کرکے اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ دل میں ارادہ کرتا ہے کہ اب شہر کے تمام تاریخی مقامات کی سیر کروں گا۔صبح ہوا خوری کے لیے نہر تک جاؤں گا۔شام کو’’میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا۔‘‘ لیکن جب سائیکل اس کے گھر آتی ہے تو اسے دیکھ کر راوی کے سارے خواب چکناچور ہو جاتے ہیں۔وہ سائیکل اتنی پرانی ہے کہ عجائب گھر میں رکھنے کے قابل ہے۔ وہ رہٹ اور چرخہ سے بھی پہلے کی ایجاد معلوم ہوتی تھی۔ سائیکل کی سواری راوی کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔وہ اس کی مرمت کرانے مستری کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کی ہیئت دیکھ کر ہنستا ہے۔اس کو ٹھیک کرنے کے لیے وہ چالیس روپئے اور دس پندرہ دن کا وقت مانگتا ہے۔تنگ آکر اسے بیچنے کا ارادہ کرتا ہے تو تین روپئے کی پیش کش کی جاتی ہے۔راوی غصے میں وہاں سے چل پڑتا ہے۔تھوڑی ہی دور جاتا ہے کہ سائیکل کا اگلا پہیہ نکل جاتا ہے اور وہ دھڑام سے زمین پر گر جاتا ہے۔ آس پاس بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ لوگ مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ راوی خاموشی سے سائیکل کے دونوں حصے اٹھاتا ہے اور چلتے چلتے دریا کے پل پر پہنچ جاتا ہے۔
’’پل کے اوپر کھڑے ہو کرمیں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کر کے اس بے پروائی کے ساتھ پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے اور شہر روانہ ہو گیا۔
سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔دروازہ کھٹکھٹایا۔
مرزا بولے۔’’ اندر آجاؤ۔‘‘
میں نے کہا’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔میں آپ جیسے خدارسیدہ بزرگ کے گھر میں وضو کیے بغیر کیسے داخل ہو سکتا ہوں۔‘‘
باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار ان کی خدمت میں پیش کردیا جوانھوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمایا تھا۔اور کہا،
’’مرزا صاحب! آپ ہی اس اوزار سے شوق فرمایا کیجیے۔میں اب اس سے بے نیاز ہو چکا ہوں۔‘‘
(ایضاً، ص: 150)
اس مضمون میں راوی کا کردار جہاں ایک نہایت سادہ لوح اور معصوم انسان کا ہے وہیں مرزا ایسے عیار دوستوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے دوستوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔
’لاہور کا جغرافیہ‘میں درسی کتابوں کی پیروڈی کی گئی ہے جو سالہا سال سے ایک ہی ڈھرے پر لکھی اور پڑھائی جا رہی ہے۔ اس میں لاہور کی بہت سی چیزوں پر بہت خوبصورت طنز بھی کیا گیا ہے۔مثلاًلاہورکی فضائی آلودگی، ٹوٹی سڑکیں،ہر عمارت پر مختلف قسم کے اشتہارات، رسالہ بازی اور انجمن سازی وغیرہ۔لاہور کی پیداوار کے بارے میں پطرس نے لکھا ہے:
’’لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلبہ ہیں جو کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے اور عموماًاواخر بَہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: 158)
انشائیہ ’کتے‘ نہ صرف پطرس بخاری کا بلکہ اردو میں طنز و مزاح کا ادبی شاہکار ہے۔ اس لیے یہ مکمل توجہ کا متقاضی ہے۔ اس میں شوخی، شگفتگی اور طنزومزاح کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ پورے مضمون میں دلچسپی کا عنصر موجود ہے۔ اس میں نہ کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے اور نہ کوئی ڈرامائی منظر پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود پہلی سطر سے آخری سطر تک قاری کی توجہ اور کشش میں کہیں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس انشائیے کا آغاز جتنا پرکشش ہے اختتام بھی اتنا ہی دلچسپ ہے۔ چنانچہ آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سرکھپاتے رہے۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجیے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔تو ہم لنڈورے ہی بھلے، کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انھوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھیے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ ‘‘ ( ایضاً، ص:67)
اس انشائیے کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پطرس نے کتوں کی حرکات و سکنات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔ کتے ہر اجنبی کو اور کوٹ پتلون پہنے ہوئے کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ بیچ سڑک پر لیٹ جانا‘ ہارن بجانے پر بھی نہ اٹھنا۔ دیسی اور امپورٹڈ کتوں کا فرق ‘ بھونکنے میں دن اور رات میں کوئی تمیز نہ کرنا‘ بڑے کتوں اور چھوٹے کتوں کے بھونکنے میں فرق کو پطرس نے اس قدر دلکش انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کی قوت مشاہدہ اور جزئیات نگاری کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔
’کتے‘ میں طنز کا نہایت بلیغ استعمال ہوا ہے۔ اس میں مشاعروں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جہاں شعرا سامعین کی داد‘ بیداد اور ہوٹنگ سے بے پروا کلام پر کلام سنائے جاتے ہیں۔ ایک بار مائک پر آگئے تو پھر مائک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایک غزل‘ دوسری غزل‘ تیسری غزل‘ مختلف تمہیدوں کے ساتھ سناتے ہیں۔ اکثر کا کلام یوں ہی واجبی سا ہوتا ہے۔ سامعین خود پر جبر کرتے ہوئے ان کا کلام سننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کتوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھی موقع و محل سے بے نیاز بھونکتے جاتے ہیں۔ اس موقعے پر کوئی ان کو ڈانٹے تو یہ چپ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ وہ آگے لکھتے ہیں:
’’ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ ’آرڈر آرڈر‘ پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھیے کہ میاں تمھیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔‘‘ (ایضاً، ص: 68)
’آرڈر آرڈر‘ سے قاری کا ذہن فوراً عدالت کے کمرے کی طرف جاتا ہے جہاں خود وکیلوں کی نوک جھونک زیادہ بڑھ جاتی ہے تو جج کوآرڈر آرڈر کی آواز لگانی پڑتی ہے۔ عدالت میں توہینِ عدالت کی دفعہ لگ جانے کے خوف سے وکلا اور دیگر افراد خاموش ہوجاتے ہیں لیکن گلی محلے کے کتوں کو کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ بے تکان اور بلا خوف و خطر بھونکتے چلے جاتے ہیں۔
پطرس نے اس مضمون میں گلی کے آوارہ یعنی دیسی کتوں اور صاحب لوگوں کے بنگلوں پر رہنے والے ولایتی کتوں کا نہایت ہی دلچسپ موازنہ کیا ہے۔ دیسی کتوں کی بدتمیزی اور بداخلاقی اور ولایتی کتوں کی شائستگی کا ذکروہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی ’بخ‘کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر ’بخ‘ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سْر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بیتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کیے جاتے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص: 68)
پطرس نے ’کتے‘ میں ان نام نہاد قوم پرست لیڈروں کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے جو محض انگریزی لباس دیکھ کر بھڑک اٹھتے ہیں اور لعن طعن کا شکار بناتے ہیں۔ پطرس کی مزاح نگاری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ واحد متکلم کے صیغے میں بات کرتے ہیں اور اکثرخود کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ ’کتے‘ میں بھی وہ اپنی بزدلی کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں‘‘ والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ جتا رہے ہیں کہ و ہ ڈرپوک نہیں ہیں لیکن انداز ایسا ہے کہ قاری کے لبوں پر تبسم کی کیفیت فطری طور پر پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے:
’’ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اس وقت دیکھیں تو یقیناًیہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سْروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اْتر جائے گی اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔‘‘ ( ایضاً، ص:69)
کتے کے یک بیک سامنے آجانے یا بھونکنے پر انسان کی جو ذہنی و نفسیاتی حالت ہوتی ہے اس کی حقیقی عکاسی پطرس کتے میں کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مشاہدہ کتنا گہرا ہے اور وہ مختلف چیزوں کو کتنا غور سے دیکھتے ہیں۔ یہی باریک بینی اور قوت مشاہدہ ہے کہ ان کی تحریر یں پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے ہی تجربات و مشاہدات کو پطرس نے اپنے الفاظ میں پیش کردیا ہے۔
پطرس کتوں کے بھونکنے کی عادت کو متعدی مرض قرار دیتے ہیں انھیں اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ بڑے کتے تو خیر چلیے ہو سکتا ہے کہ اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لیے بھونکتے ہوں لیکن یہ دو دو تین تین دن کے پلّے بھی پوری قوت سے بھونکتے ہیں۔ ذرا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے لیے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہونا چاہیے۔) لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذراسا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دْم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آآکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔‘‘(ایضاً، ص:70)
پطرس جہاں کتوں کی مختلف عادتوں سے ہمیں کہیں طنزیہ اور کہیں مزاحیہ انداز میں واقف کروا رہے ہیں وہیں مختلف قسم کے کتوں کے بارے میں بتا بھی ر ہے ہیں۔ انھیں میں سے کتے کی ایک قسم وہ ہے جو بیچ سڑک پر آنکھیں بند کیے لیٹے رہتے ہیں۔ وہ ہارن بجانے پر بھی نہیں ہٹتے اور کسی نے ایک آدھ چھڑی رسید کر دی تو بھی آہستہ سے اٹھ کر تھوڑی سی دوری پر جاکر لیٹ جاتے ہیں۔ پطرس ایسے کتوں کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں:
’’ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بندکرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سرکو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورت حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیاتو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اْٹھ کر ایک گز پرے جالیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص: 71-72)
مضمون نگار کتوں کی حرکتوں سے اس قدر نالاں اور بیزار ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ وہ کہتا ہے کہ:
’’اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے لیے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے لیے کسولی پہنچ جائیں۔‘‘ (ایضاً، ص: 73)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پطرس بخاری کے تمام مضامین کی زبان میں روانی‘ برجستگی‘ بے تکلفی‘ محاوروں میں تعریف‘ زبان کے چٹخارے‘ طنز کی نشتریت اور مزاح کی گدگدی کی بنا پرطنز و مزاح میں وہ ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔
n
Dr. Zafar Gulzar
Directorate of Translation & Publications
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad -500032 (Telangana)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
ماشااللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریں