18/1/19

موجودہ تعلیمی نظام میں سوشل ورک پروفیشن کی اہمیت و افادیت مضمون نگار:۔ ابو اسامہ



موجودہ تعلیمی نظام میں سوشل ورک پروفیشن کی اہمیت و افادیت


 ابو اسامہ

صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کے درمیان انتہائی گہرا ربط ہے اور یہ دونوں ہی مظاہر جدید دنیا کی بنیاد ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے ماقبل نظام یعنی جاگیردارانہ معاشرے کے بیشتر عناصر میں جارحانہ تبدیلیاں پیدا کیں ۔ ان میں سے ایک بڑی تبدیلی مزدور طبقے کی آمد تھی۔ (یہ تبدیلی بنیادی طور پر شہروں میں واقع فیکٹریوں میں واقع ہوئیں جہاں مزدوروں کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کی تکمیل روزگار کی تلاش میں شہر کا رخ کرنے والے افراد کرتے تھے جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے۔ مزید برآں اس طبقے کے پاس اپنی محنت کے سوا اور کوئی مالی یا معاشی ذریعہ نہیں تھا) یہ تمام تر تبدیلیاں عظیم انگلستان میں ہورہی تھیں جہاں سب سے پہلے صنعتی انقلاب برپا ہوا۔یورپ کی نشأۃ ثانیہ اور ملکوں کی دریافت نے یورپی ممالک کو سرمایہ داری اور سامراجیت پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں تاجروں اور امراپر مشتمل ایک خاص طبقہ وجود میں آیا جس نے علمی وسائل، اقتدار اور دولت کے ایک بڑے حصے پر اجارہ داری قائم کر لی تھی۔ اشرافیہ اورحکمراں دونوں ہی طبقے ایک دوسرے کواختیار اور اور وسائل پر دسترس کے سلسلے میں تقویت دے رہے تھے۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ ان مراعات سے محروم رہا مگر ساتھ ہی ساتھ فلاح و بہبود پر مبنی جذبہ بھی پیدا ہوا۔ اسی جذبے کے تحت انگلینڈ اور امریکہ میں با قاعدہ طور پر ایک عمل کا ظہور ہوا جسے ہم پیشہ ورانہ سوشل ورک کے نام سے جانتے ہیں۔ دور حاضر میں ہندوستان اور بیرونی ممالک کے قومی اور بین ا لا قوامی اداروں میں ایک ڈسپلن کے طور پر سوشل ورک کی تدریس خصوصی توجہ کی حامل ہے۔
اس مختصر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ سوشل ورک کے بنیادی پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے اور مختصر طور پر اس ڈسپلن کے وسیع دائرہ کار اور اس کی نوعیت و خد و خال کی وضاحت کی جائے۔ دراصل سوشل ورک کے موضوعات کی فہرست طویل اور جامع ہے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر انسانی ترقی، انسانی حقوق، پسماندگی، غریبی اور اس کے اسباب، غریبی سے پیدا ہونے والے مسائل جیسے روٹی کپڑا مکان، تعلیم، روزگار، صحت، سہولیات کی دستیابی وغیرہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام مسائل سوشل ورک کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ سوشل ورک کی ابتدائی فلسفیانہ اساس مذہبی جذبات اور تاثرات پر مبنی تھی جس میں منظم اور پیشہ ورانہ (مہارت، اخلاقیات ، اقدار، اصول و ضوابط اور خاص علمی مواد) پہلوکے بجائے ہمدردی اور نیک نیتی کا غلبہ زیادہ تھا۔
سوشل ورک پروفیشن کی ابتدا انگلینڈ اور امریکہ میں ہوئی اور سو سال سے زائد عرصے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں مختلف مراحل سے گزرتا ہوا عصر حاضر میں یہ ایک نہایت اہم ڈسپلن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سوشل ورک کو بطور ڈسپلن تو مقبولیت حاصل ہوگئی لیکن اسے بطورپروفیشن مسلمہ حیثیت حاصل کرنے میں طویل عرصہ لگا۔ روز مرہ کی سرگرمیوں پر تکیہ کرنے کے رویہ کی مخالفت کرتے ہوئے سوشل ورک کے قائدین نے ایک متحدہ پیشہ ورانہ تنظیم کی بنیاد ڈالنے پر زور دیا۔ National Conference on Charities and Correction کی میٹنگ میں ابراہیم فلیکسنر نے 'is Social Work a Profession'? کے نام سے لکچر دیا۔ ابراہم فلیکسنر خود گریجویٹ تعلیم پر ایک اتھارٹی تھے اور ان کی شاندار اسٹڈی کی بدولت میڈیکل تعلیم میں خاصی تبدیلیاں آئی تھیں۔ اس کانفرنس کے ذمے داروں کو یہ امید تھی کہ ڈاکٹر فلیکسنر اب سوشل ورک کو ایک پروفیشن کا درجہ دے دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں کیونکہ انھوں نے پروفیشن کے اجزائے ترکیبی کا ذکر کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سوشل ورک ابھی پورے طور پر پروفیشن کہلانے کا اہل نہیں ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ سوشل ورک کو اپنی پہچان بنانے کے لیے ایک طویل علمی اور عملی سفر طے کرنا ہوگا۔ اس طرح اگلے کئی برسو ں تک سوشل ورکرز اس مشورے پر کام کرتے رہے۔
ارنیسٹ گرین ووڈ کا اہم ترین کام Attributes of a profession کے نام سے1957 میں شائع ہوا۔ گرین ووڈ نے Relative Approach کا استعمال کرتے ہوئے پروفیشن کی پانچ اہم خصوصیات کی شناخت کی جو مندرجہ ذیل ہیں:
(a) اصولوں کا ایک منظم نظام/ باڈی
(b) پروفیشنل اتھارٹی 
(c) کمیونٹی/ آبادی کی منظوری 
(d) اخلاقیات کا کوڈ 
(e) پروفیشنل کلچر
انھوں نے سوشل ورک میں ان پانچو ں خصوصیات کی موجودگی کو ثابت کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ سوشل ورک ایک پروفیشن ہے۔ ووڈ نے کہا کہ ’’جب ہم پروفیشنز کے موجودہ ماڈل کے تحت سوشل ورک کو دیکھتے ہیں تو اسے سمجھنے میں ہمیں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
ہمیں زیادہ وقت یہ صرف کرنے میں نہیں لگتا کہ ہم اسے پیشہ ور یا غیر پیشہ ور او کیو پیشن میں رکھیں۔ کیونکہ سوشل ورک پہلے سے ہی ایک پروفیشن ہے اور اس کے پاس کئی ایسے نکا ت ہیں جن کی بنا پر ہم اس پروفیشن کو موجودہ تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
اس طرح ڈاکٹر فلیکسنر کے نظریے کی گرین ووڈ نے با قاعدہ طور پر تردید کر دی۔ 1958میں National Association of Social Workers نے سوشل ورک پریکٹس کی ایک عملی تعریف Definition working شائع کی جس پر گورڈن نے زبردست تنقید کی اور جس کے نتیجے میں علم، اقدار اور پریکٹس کے طریقہ کار میں تبدیلیاں کی گئیں۔ 1960میں NASW نے اخلاقیات کے کوڈ کو اپنا یا تاکہ یہ پیشہ وروں کے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ بن سکے۔ موجودہ زمانے میں سوشل ورک ایک باقاعدہ طور پر تسلیم شدہ پروفیشن بن گیا ہے۔ ہندوستان میں سوشل ورک کی تعلیم کی با قاعدہ شروعات 1936 میں کلفورڈ منشارڈت کی قیادت میں دوراب جی ٹاٹا گریجویٹ اسکول آف سوشل ورک سے ہوئی۔ جو بعد میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسزکے نام سے مشہور ہوا ۔ پھر وقتا فوقتا مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں اس کورس کا آغاز ہوا اور آج یہ کورس کئی اعتبارسے اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان میں سوشل ورک تعلیم ابتدا سے ہی بہت دلچسپ رہی ہے۔ ابتدائی سوشل ورک میں والنٹری سوشل ورک کی روایت رہی ہے جس میں سوشل ورکر یا سماجی خدمت گار شوق اور لگن سے اپنی سماجی خدمات کو انجام دیتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف شہروں جیسے دہلی، راج گری، ادے پور، ممبئی، مدراس اور اندور میں عیسائی مشنریوں کی جانب سے سوشل ورک اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسری طرف گاندھیائی فلسفے سے متاثر ہو کر وارانسی اور احمدآباد میں بھی سوشل ورک کے ادارے کھولے گئے۔
ہندوستان میں سوشل ورک اسکولوں اور سوشل ورک تعلیم کی بتدریج ترقی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے:
.1 ابتدائی دور (1936-1946) 
.2 تجرباتی دور (1947-1956) 
.3 توسیعی دور (1957-1976)
.4 درمیانی دور (1977-1986)
.5 تیز توسیعی دور (1987 سے اب تک )
1986میں محض 72 سوشل ورک اسکولوں کی فہرست 2005 میں 172 کی تعداد تک پہنچ گئی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں تقریبا 526 ادارے اس میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ادارے، صوبائی ادارے، اداروں سے منسلک ادارے، پرائیویٹ ادارے اور پرائیویٹ کالجوں اور اداروں میں سوشل ورک تعلیم کے کورسز چلائے جاتے ہیں۔ (سنجے بھٹ ، 2016)
اس کورس کی پہچان ایک جدید اور اہم کورس کی صورت میں ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بدلتے دور میں در پیش نئے مسائل کے پس منظر میں اس کورس کی مانگ توقع سے زیادہ نظر آ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک جیسے ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، جاپان ، تھائی لینڈ ، ویتنام وغیرہ میں بھی یہ پروفیشن بخوبی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے جہاں سوشل ورک مختلف سطحوں پر اپنا کام انجام دے رہا ہے۔ آج زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
پروفیسر ہاجرہ کمار اپنی کتاب سوشل ورک اینڈ ڈیولپمنٹل ایشوز میں لکھتی ہیں کہ ’’کیا کسی سڑک کی تعمیر سوشل ورک سرگرمی ہے؟ نہیں لیکن اس سڑک پر کام کر رہے مزدوروں کے حق کی لڑائی بلا شبہ سوشل ورک کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ کوئی اسکول کھولنا سوشل ورک نہیں ہے۔ ہاں ، مگر اس میں سماجی خدمت یا کونسلنگ پروگرام کرنا، ایک سوشل ورک کا عمل ہے۔‘‘
سوشل ورک کا تعلق سماجی علوم سے ہے۔ سماجیات، نفسیات، معاشیات،سیاسیات اور دیگر علوم جیسے مینجمنٹ ، قانون وغیرہ کو ملا کر اس کورس کو نہایت ہی چابکدستی اور خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ ان معلومات کو استعمال میں لا کر سماجی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ بہت سارے تعلیمی اداروں میں سوشل ورک کی تعلیم گریجویشن کی سطح پر ہے مگر بیشتر اداروں میں پوسٹ گریجویشن سے اس کی شروعات ہوتی ہے ۔
یہاں اس سوال کی گنجائش ہے کہ کیا غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے کام کرنے میں مخصوص مہارتوں اورتکنیکوں کی ضرورت ہے؟ سوشل ورک اور سوشل سروس میں خط امتیاز کھینچنے والی لکیر سائنٹفک اور منظم طریقہ کار ہے۔ چونکہ سوشل سروس میں جذبات اور گہرے لگاؤ کے ساتھ غریب یا ضرورت مند لوگوں کے لیے کام کیا جاتا ہے جس میں ضروری نہیں کہ مہارت، ٹکنیک، منظم طریقہ کار اور بنیادی معلومات کے ساتھ کام کیا جائے جبکہ سوشل ورک مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مکمل تیاری، منصوبہ بندی ، لائحہ عمل اور اصول و ضوابط کے ساتھ ضرورت مند لوگوں کے ساتھ کام کرنے پر زور دیتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ سماجی علوم کے دیگر مضامین اور سوشل ورک میں قابل ذکر فرق کیا ہے؟ ایک سرسری جائزہ لینے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ نظریہ (Theory) اور عمل (Practical) کے امتزاج سے یہ پیشہ ایک پیکج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ فیلڈ ورک سوشل ورک کا ایک لازمی جزوہے۔ اسے انسانی زندگی کے زمینی مسائل اور ان کے ابعادسے رو بہ رو کرانے کی غرض سے رکھا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی انسانی تجربہ گاہ ہے جہاں ایک طالب علم لوگوں سے مل کر، مشاہدہ کر کے اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر بہت کچھ سیکھتا ہے اور سوشل ورک کی ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔ اس کے پس پشت سوشل ورک کا یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ طلبا اس کورس سے فراغت کے بعد لوگوں کو با اختیار بنانے اور ان کو انسانی ترقی کے تمام پہلوؤں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ در اصل فیلڈ ورک معاشرے کے بنیادی اصولوں، سیاسی ڈھانچہ اور معاشی جدلیات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ پھر مسائل کو سمجھ کر ان پر کام کرنے کے لیے بنیادی مہارتوں کو حاصل کرتا ہے۔
سوشل ورک لٹریچر پر نظر ڈالی جائے تو ایک بنیادی عنصر نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے جو کئی بار سوشل ورک کے اولین فرائض میں شامل رہتا ہے اور وہ ہے مظلوم اور پسماندہ لوگوں کی نمائندگی اور ان کے حقوق کے لیے جد و جہد کا سلسلہ۔ اس پر عمل کرنے کے لیے با قاعدہ ٹریننگ اور مخصوص مہارتوں کی حصولیابی نا گزیر ہے۔ اس پروفیشن کو دوسرے سماجی علوم سے منفرد ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں تھیوری اور پریکٹکل کے درمیان ہم آہنگی اور مضبوط ربط کا ایک لا متنا ہی سلسلہ ہے جو اس مضمون کی عمدہ نوعیت میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جہاں انسان نے زبردست دنیاوی کامیابی حاصل کی ہے وہیں دوسری طرف اتنے زیادہ مسائل بھی سامنے آئے ہیں جن کے سامنے بسا اوقات ماہرین علوم بے بس نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں سوشل ورک کا پیشہ نہایت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مختلف اور نت نئے علوم کو اپنے اندر سمیٹ لینے اور اس کو ضرورت کے وقت استعمال کرنے کی بدولت یہ ایک اہم اور ہم گیر ڈسپلن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
یہ امر یہاں ملحوظ خاطر رہے کہ سوشل ورک کا مکمل تصور اورتوجہ انسانی مسائل پر مرکوزہے۔ یہ اپنے وجود میں آنے سے لے کر اب تک لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہے۔ سوشل ورک لٹریچر پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو اس کی ہمہ گیریت اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک پائیدار معاشرے کی تعمیر کے لیے سوشل ورک کس طرح سے انسان کے نفسیاتی ،سماجی اور معاشی مسائل پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سوشل ورک کی ذمے داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ غریبی، بے روزگاری، ذات پات، علاقائیت ، مذہبی تنگ نظری وغیرہ ایسے مسائل ہیں جہاں سوشل ورک کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ غریبی جس کے نتیجے میں جرائم ، بے روزگاری (فرد کی ترقی اور معاشی ترقی میں رکاوٹ) ذات پات اور مذہبی تنگ نظری کی وجہ سے مجموعی اعتبار سے معاشرے کے سبھی کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور انسانی بھائی چارہ اور امن و امان ختم ہو جاتا ہے۔
در اصل ایک ایماندار سوشل ورکر کا فرض یہ ہے کہ وہ سماجی نا انصافی کو دور کرنے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرے تاکہ مظلوم عوام کو ان کا حق مل سکے۔ دوسری طرف ایک طالب علم کو ضرورت مند فرد، گروپ یا کمیونٹی اور وسائل کے درمیان فاصلوں (اور اس فاصلے کی سماجی، سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں ) کو کم کرنے کے لیے منظم طریقوں کو اپنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ روایتی سوشل ورک کے فرائض اور ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے جہاں ضرورت مند لوگوں (یہ ضرورت ذہنی، جسمانی، جذباتی، معاشی، سماجی، ان میں سے کوئی ایک یا سبھی ہو سکتی ہیں) کی شمولیت کے ساتھ مسائل سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا اور سرکاری اداروں اور با اختیار لوگوں کے تئیں بہتر اور پر خلوص رویہ رکھنا سوشل ورک تعلیم کی اخلاقیات کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر عالمانہ طور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ پیدا شدہ مسائل کی وجوہات اور جڑیں کہاں پیوست ہیں اور اس کی تدابیر ایسے منظم طریقوں سے کرتا ہے کہ دوبارہ یہ صورت حال نہ پیدا ہو۔اس کے برعکس کئی ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کی نگہبان ہوتی ہیں اور اپنے شہریوں کو ہر طرح کی آزادی کا حق فراہم کر تی ہیں۔ مزید برآں یہ فرد کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں۔ فرد اور ریاست کے اس مثالی رشتے کو برقرار رکھنا اس پروفیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
یہاں ایک اور نکتے کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ سوشل ورک اداروں سے جڑے تمام ہی لوگ انسان کی بحیثیت مجموعی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ قطع نظر اس حقیقت سے کہ مختلف مکتب فکر کے حامل حضرات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرد کی ذہنی، جسمانی اور معاشی ترقی ہی ایک پائیدار معاشرے کی ضامن ہے جیسا کہ بین ا لا قوامی سوشل ورک کی تعریف سے اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے، ایک سوشل ورکر اس وقت لوگو ں کے درمیان داخل ہوتا ہے جب وہ مختلف قسم کی پریشانیوں سے گھرے ہوتے ہیں یا جب دو یا دو سے زیادہ لوگ ہی پریشا ن ہوتے ہیں۔ 
قومی انجمن برائے سوشل ورکرز (NASW) 1973 میں سوشل ورک کی ابتدائی صورت حال اور نوعیت کے پس منظر میں کہا گیا ہے کہ ’’سوشل ورک افراد، گروپ یا مختلف طبقات کی مدد کے لیے ایک پیشہ ورانہ عمل ہے جو کہ ان کے سماجی تعامل کی استعداد کو بڑھا سکے یا بحال کر سکے اور ایسے حالات پیدا کر سکے جو اس کے مقاصد کے حصول کے لیے کار آمد ہوں۔‘‘
اس اکیڈمک پیشہ کی دو بڑی تنظیمیں بین ا لاقوامی فیڈریشن برائے سوشل ورکز (IFSW) اوراسکولوں کی بین ا لاقوامی انجمن برائے سوشل ورک (IASSW) مستقل اس پیشے کے دائرہ کار اورموضوع بحث مسائل کی شمولیت کے سلسلے میں غور و فکر کرتی رہتی ہیں اور تمام دنیا کے پیشہ وروں اور سوشل ورک کے معلمین سے رابطے میں رہتی ہیں۔سنہ 2004 میں ان دونوں تنظیموں نے سوشل ورک کی ایک جامع تفہیم کی اور کہا کہ ’’سوشل ورک ایک عمل پر منحصر پیشہ ہے اور ایک ایسا مضمون ہے جو سماجی تبدیلی اور ترقی، سماجی ہم آہنگی اور لوگوں کی آزادی اور خود مختاری کو فروغ دیتا ہے۔ سماجی انصاف، سماجی حقوق، اجتماعی ذمے داری اور یگانگت کے لیے احترام اس مضمون کے مرکزی موضوع ہیں۔‘‘
2014 میں ان بین الاقوامی تنظیموں نے انسانی زندگی کے دوسرے اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ’’سوشل ورک ایک عمل پر منحصر پیشہ ہے اور ایک ایسا اکیڈمک مضمون ہے جو سماجی تبدیلی اور ترقی، سماجی پیوستگی اور لوگوں کی آزادی اور خود مختاری کو فروغ دیتا ہے۔ سماجی انصاف، سماجی حقوق، اجتماعی ذمے داری اور یگانگت کے لیے احترام اس مضمون کے مرکزی موضوعات ہیں۔ سوشل ورک، سماجی علوم، انسانی علوم اور مقامی علوم کے مباحث سے لیس ہے اور لوگوں کے عوامی مسائل اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ان کو اداروں شامل کرتا ہے۔‘‘ بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ان تعریفات میں اضافے کی گنجائش برقرار رہے گی۔
مندرجہ بالا بحث سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ درحقیقت سوشل ورک کی روح اس کے فلسفے میں ہی پنہاں ہے۔ صاحب ثروت اور مقتدر طبقے کے ناجائز اور غیر مناسب رویے اور معاشرے میں معاشی، سماجی اور سیاسی عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھانا ایک ایماندار سوشل ورکر کا فرض ہے اور یہ جنگ مقامی منظر نامے سے لے کر عالمی پیمانے تک جاری رہتی ہے۔ موجودہ سماجی اور معاشی مسائل کے تناظر میں سوشل ورک ایک کلیدی رول کا حامل ہے۔ ایک پروفیشن کی تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر انسان دوستی کے عناصر سے بھرپور یہ مضمون علمی و تعلیمی میدان میں بھی اپنی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی مسائل کے مختلف پہلوؤں، انسانی رشتوں اور روز مرہ کی زندگی پر اس پروفیشن کی گہری نظر ہے۔
حوالہ جات:
www.ifsw.org
www.iassw.org



Abu Osama
Asst. Prof. Dept of Social Work
MANUU, Hyderabad- 500032 (Telangana)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں