18/1/19

وجودیت اور اردو ناول مضمون نگار:۔ سفینہ بیگم




وجودیت اور اردو ناول


سفینہ بیگم



وروپی مفکرین اور فلسفیوں کے زیر اثرپروان چڑھنے والے متعدد افکار و نظریات کے تحت زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اور زندگی کے متعلق سقراط اور افلاطون کے نقطہ نظر کی روشنی میں چند نکات کے رد و قبول اور ترمیم و اضافے کے ساتھ فلسفہ حیات کی تفہیم میں مزید وسعت پیدا ہوئی ہے۔دنیا میں ہونے والے فسادات پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پیدا شدہ حالات نے انسانی وجود کی شناخت اور اس کی اہمیت پر بہت سے سوالیہ نشان لگائے۔ عقلیت کی بنا پر مادہ پرستی کے غالب رجحان نے انسانی وجود کی عظمت کو پس پشت ڈال دیا۔ مسائل و مصائب سے نبردآزما ہوتے ہوئے ذات کے انخلا کو پر کرنے کے لیے انسان اپنی زندگی کے معانی و مطالب تلاش کرنے میں سر گرداں تھا۔لہذا اس وقت فلسفہ وجودیت نے عوام کو زندگی کے معنی فراہم کرتے ہوئے وجود کی اہمیت کو تمام اشیا پر فوقیت دی۔اور بتایا کہ زندگی میں رونما ہونے والی تمام مشکلات اور اپنے اعمال کاذمے دارانسان خودہے۔
انیسویں صدی میں پیدا ہونے والے Soren kierkegaardاورFriedrich Nietzsche کوفلسفہ وجودیت کا موجد قرار دیا جاتا ہے، ان کے ساتھponty Marcel,Karl jaspers, Merleau ,Jean-paul sartre,Martin heidgger,Albert camus,Simon de beauvoir بھی فلسفہ وجودیت کے اہم ستو ن اور وجودیت پرست ادیب کے طور پر جانے جاتے ہیں۔وجودیت کے ضمن میں ان تمام نظریہ ساز مفکرین و ادیب کی آرا کے درمیان فرق ہے۔لیکن ان کا طرز فکر یکساں ہے جو وجودیت کے غوامض کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ان مفکرین نے داخلیت پر زور دیتے ہوئے وجود کی اصل حقیقت کی شناخت کی جانب توجہ دلائی اورکہا،''I am therefore i think''، ’’میرا وجود ہے اس لیے میں سوچتا ہوں‘‘۔اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ انسان کاوجود اصل چیز ہے اور اس کی وجہ سے ہی خیالات و افکار اور دیگر عوامل وجود میں آتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انسان اپنے تجربات کی بنیاد پر ہی اشیا سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور آگہی تک پہنچتا ہے۔اس کا وجود کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل نہیں کرتا بلکہ اس کا فوری عمل اور انتخاب اس کو تجربات سے ہمکنار کرکے جوہر کی تخلیق کرواتا ہے۔وجودیت پرست مفکرین انسان کو اس کی فطرت (Nature) کے مطابق جانچنے کے بجائے اعمال(Actions) کے ذریعے اس کا تعین قدر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ اقدار اور رسم و رواج پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ 
فلسفہ وجودیت کا بنیادی مقصداپنے وجود کو معنی فراہم کرتے ہوئے انسان کی مکمل آزادی پر زور دینا ہے۔ ایسی آزادی جو اس پر کسی بھی قسم کے پہرے نہ بٹھائے اور نہ ہی کوئی پابندی عائدکرے بلکہ اپنی زندگی کی سمت متعین کرنے کے لیے انتخاب کی آزادی دے۔ اسی اعتبار سے انسان اپنی منتخب کردہ راہ پر چلنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذمے دار بھی خود ہوتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے سبب ہونے والی تباہی و بربادی اور اموات کا جوRatio سامنے آیا تھا اس نے انسان کے ذہن و دل میں اس بات کو مرتسم کردیا تھا کہ زندگی محض لایعنیت اور مہملیت کے سوا کچھ نہیں۔اگر زندگی کے کوئی معنی ہیں تو پھر یہ جنگیں اور فسادات کیوں ہوتے ہیں۔اگر خدا موجود ہے اور اس نے کائنات کو صحیح طور پر چلانے کے کچھ اصول متعین کر رکھے ہیں تو پھر زمین پر یہ بگاڑ کیسا۔اس کشمکش نے انسان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا۔فرد اور سماج کا باہمی تعلق منقطع ہونے لگا انسان خود اور خدا سے بیگانگیت کا شکار ہونے لگا۔لہذا اسی کے سبب نطشے نے ’خدا کی موت‘ کا اعلان کیا اور اپنے وجود کو اصل اور سب سے اہم بتاکر زندگی کی معنویت کی طرف توجہ دلائی اور انسانی وجود کو انفرادی حیثیت عطا کی۔ وجودیت کے ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ درج بالا تمام فلسفیوں میں کامیو،سارتر،پانٹی اور ہیڈگرخدا کے وجود کے قائل نہیں تھے لیکن اس کے باوجود تمام مفکرین وجودی فکر کے سلسلے میں چندبنیادی نکات کو اہم قرار دیتے ہیں۔Thomas R.Flynn نے ان تمام وجودیت پرست فلسفیوں کے نظریات کی روشنی میں وجودیت کی بنیاد درج ذیل تھیم پر رکھی ہے۔اور اس کو وجودیت کی اساس قرار دیا ہے۔
1. Existence precedes essence. what you are (your essence) is the result of your choices(your existence) rather than the reverse. Essence is not destiny.you are what you make yoursell to be.
2. Time is of the essence. We are fundamentally time-bound beings.Unlike measurable,'clock' time,lived time is qualitative:the 'not yet' the 'already' and the'present' differ among themselves in meaning and value.
3. Humanism. Existentialism is a person-centered philosophy. Though not anti-science, its focus is on the human individual's pursuit of identify and meaning amidst the social and economic pressures of mass society for superficiality and confirmism.
4. Freedom/responsibility. Existentialism is a philosophy of freedom. Its basis is that fact that we can stand back from our lives and reflect on what we have been doing. In this sense, we are always 'more' than ourselves.But we are as responsible as we are free.
5. Ethical consideration are paramount. Though each existentialist understands the ethical, as with 'freedom' in his or her own way, the underlying concern is to invite us to examine the authenticity of our personal lives and of our society. (1)
ان تمام نکات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وجودیت پرست،جوہر کی تخلیق پر فرد کے وجود کو اہمیت دیتے ہیں۔مطلب یہ کہ انسان کا وجود ہی جوہر کی تخلیق کا سبب ہے۔اس کے بغیر جوہر/تصورات/خیالات کی کوئی اہمیت نہیں۔وجودی طرز فکر رکھنے والوں کے لیے وقت ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔جس میں فرد لمحہ لمحہ زندگی جیتا ہے اور اس سے استفادہ کرتا ہے۔ماضی سے متعلق یادیں اور مستقبل سے وابستہ خواب انسان کو جذباتی بنا دیتے ہیں اور یہ صورت حال فرد کے لیے دائمی عذاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔یہی جذبات فرد کو جنون، تشویش، خوف اور خواہش وغیرہ میں مبتلا کرکے وجود کی اہمیت کو اسفل سطح پر پہنچاکر خود غالب آجاتے ہیں۔ لہٰذا وجودی طرز فکران تمام باتوں سے آزادی دلاکر فرد کو اساسی حیثیت عطا کرتی ہے۔یہ فلسفہ فرد کی انفرادیت اس کی شناخت اور اس کی آزادی پر زور دیتے ہوئے اپنے افعال و اعمال کا ذمے دار بھی فرد کو قرار دیتا ہے اور صداقت کی بنیادپر اپنی زندگی میں ہونے والے تجربات کا جائزہ بھی لیتا ہے۔ڈی جے کوناچر،سارتر پر اپنے مضمون میں وجود کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے:
’’آدمی کے لیے اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ ’ہے‘بلکہ یہ کہ وہ ’’ایک صورت حال میں ہے‘‘جو اس کے ماحول کے متعدد حالات،حیاتیاتی،اقتصادی،سیاسی، تہذیبی، کے تحت تشکیل پاتی ہے۔آدمی کو دوسرے مظاہر فطرت کے بر خلاف جو چیز بطور خاص عطا ہوئی ہے،وہ اپنا ’جوہر‘ خود تخلیق کرنے کی آزادی ہے۔یعنی اپنی مخصوص صورت حال میں رہ کر اپنے انتخابات اور اعمال کے ذریعے،اسے خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی بننا چاہتا ہے۔لہٰذا بنیادی طور پر ’’اپنے آزاد فیصلوں اور اعمال کے مجموعے کے سوا آدمی اور کچھ نہیں ہے‘‘۔اور اس کی صورت حال میں ایسی کوئی شے نہیں ہوتی،جو کسی قدر کی حامل ہو،سوائے اس کے کہ وہ خود اپنے انتخابات کے وسیلے سے کوئی قدر تخلیق کرلے۔نتیجتاً آدمی کی زندگی کا سب سے بڑا بنیادی تجربہ اپنی آزادی کی مطلقیت کا احساس ہے۔اس آزادی کا جتنا کم احساس اس کو ہوتا ہے،اتنا ہی زیادہ وہ اپنی صورت حال کا غلام ہوتا ہے،اور اتنا ہی زیادہ اس حالت فطرت کی دوسری ’اشیا‘ سے قریب ہوتی ہے....بہر کیف اپنی صورت حال کی سمجھ،اس صورت حال کے پیش نظر اپنے انتخابات کے ذریعے اقدار و معانی کی تخلیق کی مکمل ذمے داری کی آگہی...یہ وہ باتیں ہیں،جو ان اعمال کے لیے لازمی اساس فراہم کرتی ہیں،جن کے سبب آدمی اپنی آزادی کا اعلان کرتا ہے اور اپنی تشکیل کرتا ہے۔‘‘2
وجودیت کے متعلق ان تمام مباحث کے زیراثر مغرب میں ادب تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔کامیو اور سارتر کی تحریریں فلسفہ وجودیت کی تفہیم میں مزید معاون ثابت ہوئی ہیں۔جنھوں نے کردار اور ان کی صورت حال کو وجودی طرز فکر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔مغربی ناولوں کے مقابلے میں بر صغیر میں ایک بھی مکمل اردو ناول وجودی نقطہ نظر کے حوالے سے تشکیل نہیں دیاگیا ہے۔ لیکن چند ناولوں میں وجودی عناصر کی کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جن میں بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ،عبداللہ حسین کا اداس نسلیں اورخالدہ حسین کا کاغذی گھاٹ قابل ذکر ہیں اور انھیں تینوں ناولوں کے حوالے سے وجودیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔
مغرب میں دوسری جنگ عظیم اور مشرق میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات انسانی وجود کے کرب کا باعث بنے۔بانو قدسیہ نے اپنے ناول راجہ گدھ میں انسانی ذات کے کرب و انتشار،تنہائی، وجود کی بے وقعتی، روحانی اضطراب اور ذہنی پیچیدگیوں کو موضوع بناتے ہوئے، صورت حال کی عکاسی کی ہے جس سے اس دور کا ہر شخص نبردآزما تھا۔اس ناول میں قیوم، سیمی اور امتل وجودی فکر کے نمائندہ کردار ہیں۔جو زندگی کی معنویت کو سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنے انتخاب کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔سیمی کا کردار محبت میں ناکامی کے سبب وجود کی شکست و ریخت کا شکارر ہوکر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔آفتاب سے بچھڑنے کے بعد اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔وہ اپنے جسم و جان کی اہمیت سے بے بہرہ ہو جاتی ہے۔ قیوم سے جسمانی تعلق قائم کرکے اور اس سے آفتاب کی باتیں کرکے وہ ایسا خود ساختہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے جو آفتاب کی یادوں کو زندہ رکھ سکے۔وہ خود کشی کرنا چاہتی ہے اور بیماری کی حالت میں زیادہ تعداد میں نیند کی گولیاں کھا کراپنی جان دے دیتی ہے۔آفتاب اور سیمی محبت میں باہمی کشش کے باوجود ایک دوسرے سے عدم توافق رکھتے ہیں۔عشق لا حاصل کی یہ منزل سارتر کے نزدیک محبت کا ایک وجودی تجربہ ہے۔پروفیسرخورشید احمد سارتر کے اس نظریے کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’سارتر کے نزدیک محبت بھی موت کی طرح انفرادی وجودی تجربہ ہے۔سارتر کے ناولوں اور افسانوں میں جس نظریہ محبت کا اظہار ہوا ہے،وہ یہ ہے کہ دو محبت کرنے والے بیک وقت ایک دوسرے کو اپنا مکمل معروض بنانا بھی چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کی آزادی کو چھیننا بھی نہیں چاہتے۔لیکن دوسرے کو اپنا معروض بنانے اور ساتھ ہی اس کے حق آزادی کو قبول کرنے میں جو تضاد ہے،اس کی وجہ سے محبت ٹوٹنے اور بکھرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے محبت کا رشتہ ناکامی پر منتج ہوتا ہے اور محبت ایک لاحاصل جذبہ نظر آتی ہے۔‘‘ 3
سیمی کی موت کے بعدقیوم کا کردار زندگی کی بے معنویت کا بوجھ اٹھائے،نفسیاتی بحران کے سبب اپنے تشخص کی پامالی کا احساس لیے خواہشات کے حصول میں راندۂ درگاہ نظر آتاہے۔ جبلی قوتوں کا باہمی تصادم،اپنے وجود کی بے سمتی اور انفرادی شناخت سے بیگانگی اس کو سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔وہ کہتا ہے؛
’’میں کون ہوں؟
’’کہاں سے آیا ہوں ؟
’’مجھے یہاں سے کہاں جانا ہے؟اور اگر مجھے کہیں نہیں جانا اور اس مٹی میں نائیٹروجن کی بھاری مقدار بن کر واپس لوٹنا ہے تو پھر یہ ساری تگ و دو کیوں؟...یہ سارا عذاب کس لیے؟
کائنات کیا ہے؟ 
اس کائنات سے پرے کون چھپا بیٹھا ہے؟کیا کائنات والے سے ہمارا بے حقیقت ذرات کا کوئی تعلق ہے؟ کیا اس نے ہمیں صرف اپنی تفنن طبع کے لیے بنایا ہے؟‘‘4
ایک جگہ اس انداز سے کہتا ہے؛
’’یہ سب کیا ہے؟
انسانی رشتے؟۔۔۔نفرتیں محبتیں؟
یہ سب کچھ کیا ہے۔
زندگی کا سفر؟
ہمیں کیا چاہیے؟۔۔ایک دوسرے سے؟۔۔اپنے آپ سے؟
عمر کا فریب،عقل کا فریب،محبت کا فریب... معاشرہ اور فرد... فرد اور قانون... قانون اورقانونِ فطرت..... ان سب کی حدیں کون سی ہیں؟‘‘5
انسانی وجود ایک پیچیدہ اکائی ہے لہذا وجودی کرب کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر دور میں اس قسم کے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ قیوم کا کردار بھی ذات کی نا آسودگی اور محبت میں زیاں کا احساس لیے زندگی کے وجودی تجربے سے روشناس (ہمکنار)ہوتا ہے اور اس راز سے آگاہی حاصل کرتا ہے کہ انسان محض خواہشات کا غلام ہے جس کو پانے کے لیے وہ موت تک تگ و دو کرتا رہتا ہے اور صرف موت ہی اس کو خواہشات اور آرزوؤں سے آزادی دلا سکتی ہے۔قیوم وجودی فکر پر محمول خیالات کا بیان اس طور سے کرتا ہے:
’’شادی سے چند دن پہلے مجھ میں دو خواہشیں آگاہی کے ساتھ ابھری تھیں۔اب مجھ پر یہ حقیقت بھی کھل رہی تھی کہ انسان جب تک چاہے جانے کی،رب بننے کی آرزو رکھتا ہے،وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔چاہا جانا اور آزاد رہنا صلیب کے بازو ہیں جن پر آدمی مصلوب ہو جاتا ہے۔پہلی مرتبہ مجھے مہاتما بدھ کی سمجھ آئی کہ وہ کیوں خواہشات کو ختم کرکے اپنی مکتی چاہتا تھا۔جب تک انسان میں ہلکی سی خواہش بھی ہووہ تابع رہتا ہے،خواہش کی وجہ سے قیدی ہوتا ہے۔کبھی حاکم نہیں ہو سکتا۔خواہش سے آزادی کیونکر ممکن ہے؟
کیونکر کیسے؟
موت سے پہلے موت... زندگی کے ساتھ زندگی کی نفی... آخری نجات سے پہلے کلی فرار۔
نجات کی آرزو تک سے۔۔ہر مسلک سے،ہر بت سے چھٹکاراحاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان ہر قسم کے بت توڑ دے،ہر مسلک سے آزاد ہو جائے۔ کسی ملت میں شامل نہ ہو۔کسی ملک کا باشندہ نہ ہو۔کسی معاشرے کا فرد نہ ہو۔کسی کلچر سے وابستہ نہ ہو۔کسی خاندان کا فرد نہ ہو۔نہ کسی کا عاشق ہو نہ محبوب۔ہر کیفیت سے آزاد...ایسی حالت میں وہ سوائے موت کے اور کسی کا مرہون منت نہیں ہوگا۔کسی اور کا عاشق نہ ہوگا۔موت جو یقینی ہے۔موت سے پہلے موت‘‘۔6
وجودی عناصرکے ضمن میں امتل کا کردار بھی قابل توجہ ہے جو ایک طوائف ہے۔ اوراپنی زندگی میں رونما ہونے والے حالات کے باوجوداپنی ذات کی ناآسودگی اور خلا کو پر کرنے کے لیے اپنے پیشے سے باز نہیں آتی اور اپنے وجود کے استقرار کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ مرد کے ذریعے کیے جانے والے استحصال کے نتیجے میں وہ جسمانی اور ذہنی اضمحلال میں مبتلا تونظر آتی ہے لیکن اپنی آزادانہ روش سے مایوس نہ ہوکر قیوم کو اپنے تمام حالات سے آگاہ کرکے اس سے ہمدردی کا رشتہ بھی قائم رکھنا چاہتی ہے۔ماضی کے متعلق یادوں کی،اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔وہ کوئی بھی کام سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں کرتی ہے۔اپنے شکستہ و درماندہ وجودکی کرچیاں اور زخم خوردہ دل کو سنبھالے ہوئے آزادانہ طور پرآگے بڑھتی رہتی ہے۔امتل کے تئیں قیوم کے خیالات ملاحظہ ہوں:
’’وہ بچوں کی طرح Sustained emotion کے قابل نہ تھی۔اس کا لڑنا جھگڑنا پیار محبت،نفرت سب موڈ کے تابع تھے۔کسی تھیوری،مسلک،دباؤ کے تحت وہ کچھ نہ کر سکتی تھی۔وہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے کرتی۔جی چاہا مدد کر دی،دل میں آیا گالی دے دی۔کسی کو کھانا کھلا دیا،نیا پرس عطا کر دیا۔۔۔۔۔۔ وہ وقت،ضابطے اور طریقے کی پابند نہیں تھی۔اس کا سارا نظام Impulses پر چلتا تھا۔ اسی لیے اس کی رائے پر چلنا مشکل تھا۔کیونکہ اس کی دوستی، دشمنی نظریے سب منٹ کی سوئی کے تابع تھے۔کچھ بھی گھنٹوں،دنوں،سالوں پر محیط نہ تھا۔‘‘7
عبد اللہ حسین کے ناول اداس نسلیں میں بھی وجودی عناصر کی کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے۔جس میں مذہب اور موت کے وجودی طرز فکر پر کی گئی فلسفہ طرازی وجودیت پرست مفکرین کے نظریات سے مطابقت رکھتی ہے ساتھ ہی ناول کا مرکزی کردار نعیم کا ذہنی رویہ،کامیو کے ناول Outsiderکے مرکزی کردار مرسال کے Attitude سے قدرے مشابہت رکھتا ہے۔مرسال کا کردار وجودی فکر کے زیر اثر تراشا گیا ہے جو کوئی بھی کام بغیر سوچے سمجھے انجام دیتا ہے۔جس میں ایک عربی کا قتل اورشادی کے متعلق قردونہ کے دریافت کرنے پر اس کا اس لیے حامی بھر لینا کیونکہ قردونہ اس سے شادی کرنے کی خواہشمند ہے قابل ذکر ہے۔ اداس نسلیں میں جب شیلا نعیم سے شادی کی خواہش ظاہر کرتی ہے اور اس کے توسط سے حسین خیالات بیان کرتی ہے تو نعیم بھی بغیر کسی سوچ کے تحت اس کی تمام باتوں کو تسلیم کر لیتا ہے۔لیکن جلد ہی اس کو تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ساتھ ہی ایک سپاہی کا قتل بھی بغیر منصوبہ کے تحت انجام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی مثبت اور منفی پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھ کر نعیم کانگریس کے ایسے خفیہ گروہ میں شامل ہوجاتا ہے جہاں جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔موت کو نہایت قریب سے دیکھنے،ذات کی شکست و ہزیمت اورپے در پے رونما ہونے والے حالات کے مدوجزر سے نعیم کا وجود شدیدتنہائی اور خلا کا شکار ہو جاتا ہے۔ فالج کا اثراس کے وجود کو مزید مضمحل اور منتشر کر دیتا ہے۔عذرا اس کو علاج کی غرض سے روشن محل لے آتی ہے اور ظاہرو باطن دونوں قسم کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔نعیم ڈاکٹر انصاری کے زیر علاج رہتا ہے وہ اس کو مذہب کے متعلق ان باتوں سے آگاہ کرتا ہے جو اس کے درد کا مداوا کر سکے اور وہ مذہبی فکر،فلسفہ وجودیت سے ہم آہنگ ہے۔ جس کا تعلق روحانیت سے وابستگی کے سبب اپنے وجود کی شناخت ہے۔نعیم سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر انصاری کہتا ہے؛
’’مذہب کا سب سے بڑا آلہ عبادت ہے۔ عبادت،جو انسان کی شخصیت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک جذبہ بن جاتی ہے، جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی استطاعت بخشتی ہے۔ آج تک جس کسی نے اپنے آپ کو جانا اور پہچانا ہے اس کی بساط عبادت نے اس میں پیدا کی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر چلتا ہوا آدمی ساری دنیا میں گھوم گھام کر پھر اپنے آپ تک آ پہنچتا ہے۔ وہ خفیہ اور تنگ راستہ جو انسان کی اپنی ذات پر آکر ختم ہو جاتا ہے اور پھر اندر اتر جاتا ہے اور جب آدمی ڈرتا ہوا،جھجھکتا ہوا اپنی ذات میں داخل ہوتا ہے تو راستہ روشن اور کشادہ ہوتا جاتا ہے اور اس مقدس روشنی تک پہنچنے کا جذبہ،جو راستے کے اختتام پر نظر آتی ہے،اس کو پالینے کی دیوانی خواہش انسان کو آگے چلاتی جاتی ہے اور اسے ایک مقصد عطا کرتی ہے اور جب وہ مقصد شخصیت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے تو انسان اپنی ذات میں گم ہو جاتا ہے۔پہلے شعور کے پردے اٹھتے ہیں،پھر آہستہ آہستہ لاشعور کے در وا ہوتے ہیں اور جب وہ آفاقی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو ماورا ء میں دیکھنے اور اسے جاننے لگتا ہے....‘‘8
مزید کہتا ہے؛
’’تخیل کو تم بغیر کسی وجہ کے عمل میں نہیں لا سکتے۔ ذہن کو اور خیالات کو مرنے سے بچانے کے لیے تمھارے پاس کوئی وجہ، کوئی دلیل ہونی چاہیے اور تبھی اس کے جواز کے طور پر تم سوچ سکتے ہو اور اپنے دماغ کو تباہی سے بچا سکتے ہو۔خیالات کی بنیاد تمNothingnessپر نہیں رکھ سکتے۔ایسا اگر کبھی کروگے تو کسی خاص سمت میں بڑھنے کے بجائے تمھارے خیالات تیزی سے ادھر ادھر بکھر جائیں گے اور دماغ کو پاش پاش کر دیں گے۔سمت جو خیالات کو ملتی ہے اسی تلاش سے آتی ہے۔جو آدمی اپنے وجود کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے جاری کرتا ہے۔ اس کے بغیر تخیل بیکار ہے‘‘9
وجودی مفکرین میں Karl Jaspers اور Gabriel Marcel اپنے وجود کی انفرادی شناخت میں مذہب کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔اور تجربات کی روشنی میں اپنی روحانی (داخلی)ذات سے آشنا ہوکر منزل و مقصود کے حصول کو انسانی فکر کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔خالدہ حسین کا ناول ’’کاغذی گھاٹ ‘‘ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے وجود کی معنویت تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت ذہنی کشمکش کا شکارنظر آتی ہے۔اپنے ارد گرد موجودٹھوس نظریہ کے متحمل لوگوں کی زندگیوں کا تجزیہ اس کو کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔عائشہ اور افروز اس کی بہترین مثالیں ہیں جو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خواہش میں ان راستوں کا انتخاب کرتی ہیں جن پر چل کر وہ اپنی شناخت اور مقصد سے محروم ہوجاتی ہیں۔مونا اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے واقعات، صورت حال اوراپنے گھر کی روایت و اقدار کے پاس و لحاظ میں جکڑی ہوئی اپنے وجود کے اثبات کی کوئی راہ نہیں پاتی ہے۔اوران تمام صورت حال کو تقدیر کا لکھا ہوا قرار دینے لگتی ہے۔اچانک اپنے وجود سے ادراک کی کیفیت اس کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے وہ ایک اچھی تخلیق کار ہے،لکھنا اس کا پسندیدہ عمل ہے۔اور وہ اپنے وجود کی سچائی اوراس کے برحق ہونے کے جوازکا مطالبہ چاہتی ہے جو اس کے’’لکھنے‘‘ میں مضمر ہے۔اور اس کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ زمین پر اس کے وجود کا جواز محض لکھنا ہی ہے۔یہاں مونا کا کردار سارتر کی سوچ سے مماثل نظر آتا ہے۔سارتر کا بھی یہی ماننا تھا کہ وہ صرف لکھنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔زندگی میں رونما ہونے والے تضادات کے پیش نظرمونا کو سارتر کے نظریہ انتخاب سے اکثر الجھن محسوس ہوتی۔وہ حسن سے اس کے متعلق بحث بھی کرتی ہے:
’’اس کو سارتر کے انتخاب کا تصور بے حد الجھاتا۔ وہ اکثر چلتے چلتے رک جاتی۔انسان ہر قدم پر انتخاب کرتا ہے۔ مگر وہ انتخاب ہی دراصل پہلے سے طے شدہ ہے۔ اس نے حسن کو بتایا۔’’نہیں وہ طے شدہ نہیں ہے۔اس لیے کہ مستقبل ایک خلا ہے۔جس میں واقعات اور عمل تخلیق کیے جاتے ہیں۔یہی اس کا نیا پن ہے۔وہ اوریجنل ہے۔‘‘
’’مستقبل ہرگز اوریجنل نہیں۔اس لیے کہ سب کچھ پہلے سے ہو چکاہے۔یہ سب ایکشن ری پلے ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ بازیافت۔ کائنات کی Retrospection ہے۔ ہمیں یہ سب کچھ معلوم نہ ہوتا تو اور بات ہے۔ ہمارے لیے سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے۔۔حقیقت میں ایسا نہیں۔‘‘
’’توپھر انسان کی سعی ؟‘‘
’’یہ اس کی مجبوری ہے‘‘
’’مگر یہ انتخاب کا مسئلہ واقعی بہت الجھا ہوا تھا۔جبر و قدر کی مقدار اور کیفیت۔کبھی کسی سے حل ہوئی ہوگی۔‘‘
حسن،مونا کو اس کی تخلیقی صلاحیت کی اہمیت و افادیت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔اور بتاتا ہے کہ لکھنے میں ہی اس کے وجود کے اثبات کا راز پوشیدہ ہے۔بڑے بھائی اس کے لکھنے کو پسند نہیں کرتے لیکن ابا اس کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔حسن کے بار بار زور دینے پر مونا اپنی تخلیقی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ نکھارنے کی کوشش کرتی ہے۔یہاں سارتر کے فلسفہ آزادی انتخاب کے سبب مونا وجودی فکر کے حوالے سے اپنا جوہر خود تخلیق کرتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی وجود ہر چیز کی تخلیق کا اصل سبب ہے۔ ساتھ ہی کبھی کبھی مونا کے ذہن میں تقدیر کا جبر اور مسلسل و پیہم اس کا سنگین وار سوچ کے رخ کو دوسرے موڑ پر لے جاتا۔ وہ افروز اور عائشہ کے ساتھ پیش آنے والے حالات کے متعلق اکثر سوچا کرتی۔لیکن پھراپنی تخلیق کی جانب یکسوئی سے توجہ دے کر اپنے وجود کو معنی فراہم کرتی ہے۔اپنی تحریر کے بارے میں کہتی ہے:
’’میرے لیے تو لکھناایک غیر شعوری اور اضطراری عمل ہے‘‘۔
’’واہ‘‘اب وہ بھی اس قابل ہو گئی تھی کہ لوگ اس سے پوچھتے تم کیوں لکھتی ہو،کس کے لیے لکھتی ہو۔اور وہ ہر گز نہ جانتی تھی کہ وہ کیوں لکھتی ہے۔یہ تو ایک خود غرض غیر شعوری عمل تھا۔شاید وہ اپنی ذات کی بے پناہ کمزوریوں کی تلافی میں لکھتی تھی۔وہ اس لیے لکھتی تھی کہ وہ وہ نہیں، جو اسے ہونا چاہیے تھااور اس کے باہر بھی دنیا وہ نہیں جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔شاید وہ اس لیے لکھتی تھی کہ وہ ایک معمولی ناقابل توجہ وجود تھی اور قابل بننا چاہتی تھی۔شاید وہ اس لیے لکھتی تھی کہ وہ ایک غریب پسماندہ قوم اور ملک کی فرد تھی جو شاندار تاریخ کا دعوی دار تھا۔تاریخ جو محض ایک طلسم تھی۔اور اس کا وافر حصہ ایسا تھا جس کویہ ملک اپنانے یا رد کرنے کے مخمصے میں تھا۔شاید وہ اس لیے لکھتی تھی کہ وہ ایک شکست خوردہ ملک کی باسی تھی جو بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سر اٹھا کے زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔جس کا وجود اور مستقبل دونوں مشکوک تھے اور شاید بڑی طاقتوں کے یہاں گروی بھی کیونکہ اس کے دانشور اس کے بارے میں دوغلے تھے۔اور عوام، بھیڑ،وہ جم غفیر جس سے یہ دھرتی معمور تھی،صبح شام زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار۔ذلت کا منشور ان کے لیے قسام ازل نے تیار کر رکھا تھاجس سے سر مو ادھر ادھر ہونا ممکن نہ تھاشاید وہ اس لیے لکھتی تھی... 11
درج بالا اقتباس میں صورت حال اور اس سے پیدا شدہ نتائج کے حوالے سے مونا کے لکھنے کے پیچھے اسباب کو بیان کیا گیا ہے۔ جو رسم ورواج کی قید وبند اور پابندی سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔ بعض اوقات اپنے ذہن کی افترا پردازی میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔اورعائشہ اور افروز کی زندگی سے خود کا موازنہ کرنے لگتی ہے تو اس کے ابا اسے سمجھاتے ہیں:
’’دیکھو بیٹا بات سیدھی سی ہے۔‘‘بالآخر ابا نے کہا۔’’کسی تخلیقی عمل کو اگر دلیل کی دار پر چڑھا ؤگی تو وہ ختم ہو جائے گا۔یہ سارا عمل وہبی ہے۔اس میں کیوں اور کیسے نہیں آتا۔جو تم پر اترتا ہے لکھتی جاؤ۔منطق اور تجزیوں کے بکھیڑوں میں کیوں پڑتی ہو۔‘‘12
اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ کاغذی گھاٹ میں وجودی طرز فکر کو مد نظر رکھتے ہوئے کرداروں کی تشکیل میں مدد لی گئی ہے۔بیسویں صدی سے ہی فلسفہ وجودیت ایک مکتب فکرکی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس میں انتخاب کی آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا درد وکرب،نا امیدی، مایوسی کے سبب ہمت نہ ہارنا اور اپنے وجود کو معنویت دینے اور سمت متعین کرنے کی غرض سے تجربات کی روشنی میں مسلسل جدوجہد کرتے رہنے کووجودیت کی اساس قرار دیاگیا ہے اور وجود کو ہر شے پر مقدم تسلیم کیا گیا ہے۔ فلسفہ وجودیت کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے ان ناولوں کے علاوہ کئی دیگرناولوں میں بھی وجودی فکر کے عناصر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔تاکہ ناول تنقید کے مزید امکانات پیدا ہو سکیں۔
حواشی:
(1) Existentialism, A very short introduction, Thomas R.Flynn, oxford university press, Newyork, 2006 p.8
(2) فلولا جیکل کواٹرلی،اکتوبر 1954، ص409، 410 ، بحوالہ اردو افسانے پر مغربی اثرات،خورشید احمد،شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ،2002، ص 105,106
(3) اردو افسانے پر مغربی اثرات، خورشید احمد،شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ، 2002، ص113
(4) راجہ گدھ،بانو قدسیہ، شانِ ہند پبلی کیشنز، دہلی، 1988، ص 252
(5) ایضاً، ص 330
(6) ایضاً، ص 493، 494
(7) ایضاً،ص407
(8) اداس نسلیں، عبد اللہ حسین، بسمہ کتاب گھر دہلی، 2012، ص 403، 404
(9) ایضاً، ص404
(10) کاغذی گھاٹ، خالدہ حسین، ص79، 80 
http://allurdupdfnovels.blogspot.in/
(11) ایضاً،ص 199
(12) ایضاً، ص 120

Safeena Begum
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. بہت بہتریں۔۔۔ وجودیت ایک نیا اور ذرا مشکل پہلو ہے آپ نے اس
    موضوع ر پر لکھ کر بڑا اچھا مواد فراہم کیا۔

    جواب دیںحذف کریں