18/1/19

اردو ادب میں سائنس کی شمولیت مضمون نگار:۔ توصیف خان



اردو ادب میں سائنس کی شمولیت   
مضمون نگار:۔ توصیف خان

انسانی زندگی میں سائنس کی اہمیت روزاوّل سے ہی مسلّم ہے لیکن اس طرف توجہ کافی بعد میں دی گئی۔ ماضی میں سائنس کی مدد سے جو پیشین گوئیاں کی گئیں وہ نہ جانے کتنے سائنس دانوں اور دانشوروں کی موت کا فرمان ثابت ہوئیں۔ دھیرے دھیرے انسان کا مزاح بدلا اور جب اسے سائنس کی افادیت کا اندازہ ہوا تب اس نے سائنس کو کھلے دل سے قبول کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور آگے بھی رہے گا۔ سائنس نے جہاں انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا وہیں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔ دنیا کے ہر ادب میں وقتاً فوقتاً سائنس کی شمولیت ہوتی چلی گئی۔ اردو شاعری اور فکشن میں یہ سلسلہ دور قدیم سے جاری ہے۔ہم میر و غالب کے اشعار میں بھی سائنس کاپہلوتلاش کر سکتے ہیں اور طلسم ہوش ربا اور باغ و بہار جیسی داستانوں میں بھی۔
اردو ادب میں سائنس کی ایجادات اور نظریات وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے گئے۔ان کا مطالعہ کریں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ ہم نے ادب میں کس طرح کے سائنسی عناصر شامل کیے ہیں اور دور حاضر کے تقاضے کیا ہیں۔
.1 غالباًہرزبان کا سائنسی ادب نئی نئی ایجادات کو ضرور پیش کرتا ہے خواہ وہ منظر عام پر آئی ہوں یا نہیں۔اکثر سائنس فکشن لکھنے والے ادیبوں نے صرف قاری کی دلچسپی اور تجسس برقراررکھنے کے لیے اس طرح کے آلات یا مشینری کا استعمال اپنے ناولوں یا افسانوں میں کیا ہے۔خورشید اقبال صاحب نے اپنی کتاب ’اردو میں سائنس فکشن کی روایت‘ میں متحیر کرنے والی کئی ایجادات کے متعلق لکھا ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر آپ نے ’قانون والا‘کے جاسوسی ناول پڑھے ہیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ کیپٹن سیما کے پاس ایک ننھا سا زیرو نائن ٹرانسمیٹر ہوا کرتا تھاجس سے وہ نامساعد حالات میں کرنل زاہد سے باتیں کیا کرتی تھی۔اس قسم کے آلات کا تصوراس زمانے کے بے شمار جاسوسی اور سائنسی ناولوں میں پیش کیا گیا تھا۔‘‘ 1
.2 کسی بھی سائنس فکشن میں اگر کسی جنگ یا کوئی چھوٹے موٹے گروہوں کی جھڑپ کا منظر پیش کیا جاتا ہے تو عجیب و غریب قسم کے آلات کی وجہ سے ہیرو یا ڈٹیکٹو بچ کر بدمعاشوں کو شکست دے دیتا ہے یا کسی سائنسی ناول میں جنگ کا سین ہے تو وہ ریڈیائی یا دیگر جدید اسلحوں سے لڑی جاتی دکھائی دیتی ہے۔
.3 سائنس کی ترقی کی وجہ سے آج کمیونکیشن میں جو آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں وہ اب سے کچھ سال پہلے نہیں تھیں لیکن ہمارے سائنس فکشن لکھنے والے ادیبوں نے کافی پہلے سے ہی موبائل،کمپیوٹر،انٹرنیٹ،ویڈیو کالنگ شاید ہی ایسا کچھ ہو جس کا استعمال انھوں نے اپنے ناولوں یا افسانوں میں نہ کیا ہو۔آج ہم کسی سے رابطہ کرنے کے لیے یا اپنی بات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے طرح طرح کے Chatting Apps اورSocial Sites کا استعمال کرتے ہیں۔سائنس فکشن میں ان سب کا ذکر بہت پہلے سے کیا جا رہاہے۔اس ضمن میں اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے دوران ایک دوسرے کی تصویریں اسکرین پر دیکھتے ہوئے بات چیت کرنا آج ایک عام سی بات ہے کسی بھی اسمارٹ موبائل فون میں یہ خوبی موجود ہے اور آپ مخاطب کی تصویر اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔لیکن سب سے پہلے یہ تصورایک سائنس فکشن نگار کے ہی ذہن میں آیا۔1911 میں Hugo Gernsback نے اپنے ناول Ralph124 C 41+ میں پیش کیا۔اس کے 53 سال کے بعد 1964 میں AT&Tکمپنی نے پکچر فون کا پہلا نمونہ نیو یارک ورلڈ فئیر میں پیش کیا تھا اور آج Skype نامی سروس کی مدد سے ہم بڑی آسانی سے اپنے موبائل فون،لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھتے ہوئے باتیں کرتے ہیں۔‘‘ 2
.4 پرانے زمانے میں مختلف قسم کے Gadjets یا آلات تجسس کا سامان ہوتے تھے لیکن عہدِحاضر میں اس طرح کے Gadjets سے وہ تاثر نہیں پڑ تا دوسرے یہ کہ کبھی کبھی ایسا بھی لگنے لگتا ہے کہ ان Gadjets یا Products کی صرف تشہیر کی جا رہی ہے۔آج کل فلموں میں باقاعدہ معاہدے کے تحت یہ کام ہوتا ہے۔
.5 بعض اوقات سائنس فکشن پر مبنی فلموں کو دیکھنے یاجاسوسی ناولوں کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ سامعین کوصرف مرعوب کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔
.6 ادب ہمیشہ سے انسان کے لیے Entertainment کا ذریعہ رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب بامقصد زندگی کا ذریعہ بنتا گیا۔اگر ہم ادب کا بہ نظرِغائر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس فکشن میں صرف تجسس اور Adventure نظر آتا ہے مقصد نہیں۔ کسی سائنسی ناول میں کوئی جاسوس یا ڈٹیکٹو اپنی ہوشیاری اور جدید آلات کی مدد سے کامیابی حاصل کر لے یا کوئی کیس سلجھا لے تو اس میں Adventure اور تفریح طبع تو ہے لیکن مقصد نہیں۔
اب ہم سائنسی ادب (سائنس فکشن/ شاعری) سے دور حاضر کے تقاضےPoint out کرنے کی کوشش کریں گے۔یہ حصہ اس مضمون کااصل موقف بھی ہے۔
رفاہِ عامّہ اور اردو سائنسی ادب
یا
دور حاضر میں اردو سائنس فکشن سے تقاضے
.1 گلوبل وارمنگ(Global Warming )
.2 ایکو ٹیررزم(Ecoterrorism )
.3 آلودگی(Pollution)۔فضائی آلودگی/ ہوائی آلودگی،صوتی آلودگی،زمینی آلودگی،آبی آلودگی،ریڈیائی آلودگی وغیرہ۔
.4 اوزون پرت(Ozone Layer)
.5 نفسیات کا مثبت ارتقا (Positive Psychological Development)
.6 نظم و ضبط،انداز اور آداب کا ارتقاء (Discipline, Manner & Eticates Development 
.1 پوری دنیا کے لیے گلوبل وارمنگ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔اس کی وجہ سے سمندرکی سطح تیزی سے اوپر اٹھ رہی ہے جس کے سبب آس پاس کی بستیوںیا پھر جزیروں پر بسنے والے لوگوں کے لیے پانی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کِریباتی جزیرے پرپانی کی سطح اس قدر اوپر اٹھ گئی ہے کہ وہاں کے صدر نے فِجی میں زمین خرید کر اپنے ملک کے لوگوں کو وہاں بسانے کا اعلان کیا۔
کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا جب سائنسی ادب میں Global Warming کے متعلق لکھا جانا چاہیے۔۔۔؟ جس سے لوگ بیدار ہوں۔
.2 ایکو ٹیررزم(Ecoterrorism )ایک ایسی دہشت گردی کو کہتے ہیں جو Ecosystem اور Environment کو بری طرح متاثر کرے۔اس میں صارفیت (Consumerism )،Industries اور Colonialism کافی حد تک ذمے دار ہیں۔کیا آج سائنسی ادب میں Ecoterrorism جیسا موضوع شامل ہے؟اس طرح کے موضوع شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔انور قمر اردو افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ان کا ایک افسانہ ’ہاتھیوں کی قطار‘ Ecoterrorism کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’گزشتہ دس سالوں سے بیرام جی محسوس کر رہے تھے کہ ان کے کھیل اور تفریح کے میدان،وہ بنگلے،وہ پہاڑیاں،وہ بل کھاتی سڑکیں رفتہ رفتہ غائب ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ دیو پیکر،آہنی سنگلاخ کی سیدھی اور سپاٹ عمارتیں کھڑی ہوتی جا رہی ہیں۔رفتہ رفتہ قدرتی حسن پامال ہو رہا ہے۔اب نہ تو سبزہ ہے نہ درخت،نہ پھول ہیں نہ پتے،نہ چڑیاں ہیں نہ گلہریاں،نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے،نہ گرگٹ ہیں نہ ٹڈّے،کچھ بھی تو نظر نہیں آتا!او گاڈ،وہ سب کہاں گئے؟کیا ہوئے؟انھیں زمین کھا گئی یاآسمان نگل گیا؟کئی دنوں تک وہ بڑے فکر مند رہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟کیوں ہو رہا ہے؟کیسے ہو رہا ہے؟کتنا ہو چکا ہے؟اور کتنا ہونا باقی ہے؟اس کی کوئی انتہا بھی ہے؟اس کا کوئی خاتمہ بھی ہے؟ یا یہ اسٹیل اور سیمنٹ کا جنگل جو ہر لمحہ اور ہر پل اپنے پھیلاؤ میں بڑھتا ہی جا رہا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ہر سانس کا احاطہ کر لے اور اس کا جینا دوبھر کر دے یہ تو اس کے ذہن،قلب اور روح پر ظلم کا پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا ہے؟مجھے اس کی مخالفت کرنی ہی پڑے گی۔‘‘ 3
راشد انور راشد کے شعری مجموعے ’گیت سناتی ہے ہوا‘کی ساری نظمیں اور غزلیںEcofriendly یاکہہ سکتے ہیں کہ Ecosystem کی حمایت میں تخلیق کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل سے دوشعرملاحظہ فرمائیں:
چہار سمت سے اب کاٹتا ہے جنگل کو
یہی قبیلہ کسی وقت پوجتا تھا درخت
نہ کر سکا وہ مسافر کا دل سے استقبال
خود اپنی چھاؤں سے محروم ہو چکا تھا درخت
ہمیں اپنے سائنسی ادب کا احتساب کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارا سائنسی ادب Ecofriendly ہے بھی یا نہیں۔آج ہمیں ماحولیات کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے،اس کام میں سائنسی ادب بھی اپنا مثبت رول ادا کر سکتا ہے۔
.3 آلودگی ۔ماحولیات کے کسی بھی جز مثلاً ہوا، پانی، زمین وغیرہ کوCFC،Aerocel،Fogg اور دیگر گیسوں کی زیادتی سے جو نقصان ہوتا ہے یا فضائی تناسب بگڑتا ہے اسے آلودگی کہتے ہیں۔اس کی کئی اقسام ہیں:
(۱)فضائی آلودگی،(ب)زمینی آلودگی،(ج)آبی آلودگی،(د)صوتی آلودگی،(ہ)ریڈیائی آلودگی وغیرہ۔
ان تمام اقسام کی آلودگی پر لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن مضمون کی طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے مذکورہ بالا آلودگیوں کے متعلق تفصیل نہ پیش کرتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ جن سائنسی ناولوں میں مختلف قسم کے اسلحے،آلات،ریڈیائی اسلحے،کیمیکل اور گیسیں دشمنوں پر فتح کے لیے ڈٹیکٹو یا ہیرو استعمال کرتا ہے اور یہ سب کچھ ہمارے تحیر و تجسس کو برقرار رکھتا ہے۔کیا ایسے ناولوں میںآلودگی کی طرف توجہ دلانے کی زحمت گوارہ کی گئی ہے۔۔۔؟
.4 اوزون پرت(Ozone layer )۔آفتابی حدّت اور UV شعاعوں سے ہمیں محفوظ رکھتی ہے لیکن اب اس پرت کو دن بہ دن نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے Global Warming میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جتنے بھی Luxries Life Styles ہیں،ان کی وجہ سے Pollution بڑھ رہا ہے، وہ چاہےRefrigerater ہوں یاAC،حالانکہ دیگر چیزیں بھی اس کے لیے ذمے دار ہیں جیسے: ریل،ہوائی جہاز، ملوں،فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، Missile experiment اور خلامیں بھیجے گئے راکٹ سے نکلنے والا دھواں یا گیس وغیرہ۔کیا سائنسی ادب میں اوزون کو ہو رہے نقصان اور بڑھتی ہوئی حدت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔۔۔؟اگر نہیں تو اب ایسا ہونا چاہیے۔
.5 نفسیات کا مثبت ارتقاء (Positive Psychological Development) کوئی بھی ادب صرف تفریح طبع کا سامان نہیں ہو سکتا اس سے کسی نہ کسی طرح کے افادی پہلو کی توقع تو رہتی ہی ہے۔ہو سکتا ہے کہ حصۂ اوّل میں جن نکات کا ذکر آیا ہے ان کا مقصد اُس وقت میں یہی رہا ہو کہ جدید طرز کی مشینری یا آلات سے لوگوں کی واقفیت کرائی جائے۔انواع و اقسام کے Gadjets، ترسیل عامّہ کے مختلف ذرائع یا نئی نئی ایجادات نے انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ لٹریچر کا (کتابوں یا فلموں)کسی بھی طرح سے انسانوں پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑتا ہے،بالخصوص TV کے ذریعے۔ اکثر رپورٹس میں آتا رہتا ہے کہ بچوں کو Violent فلمیں نہ دکھائی جائیں،ان کا بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور یہ اثر صرف بچوں پر ہی نہیں بلکہ بڑوں پر بھی ہوتا ہے اور خیالات بر انگیختہ ہو سکتے ہیں۔اب ایک اور نکتہ یہ زیر بحث لایا جا سکتا ہے یا توقع کی جا سکتی ہے کہ سائنسی ادب سے قارئین کی نفسیات کامثبت ارتقا کیوں نہیں ہوسکا؟ اس طرح کے سائنسی عناصر ادب میں کیوں شامل نہیں کیے گئے؟ مار دھاڑ کے بجائے امن و سکون کا پیغام کیوں نہیں دیا گیا؟ جن سے کوئی مثبت فکر سامنے آتی اور قارئین یا فلم دیکھنے والے ناظرین فیضیاب ہوتے۔
.6 نظم و ضبط، انداز اور آداب کا ارتقا (Discipline, Manner & Eticates Development )۔ ایک زمانے میں’ شکتی مان‘ سیریل نے بچوں کو ’سچ ‘کی تعلیم تو دی ہی ساتھ ہی شکتی مان کے گھوم کر اڑنے کے اسٹائل کی وجہ سے کئی بچے مجروح ہوئے اور کچھ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔آج ہم دیکھیں تو ’بالبیر‘،’ڈوریمان‘،’ننجا ہتھوڑی ‘اور’موٹو پتلو‘اسی طرح کے کچھ سیریل بچوں کو ایک طرف تو بہت کچھ اچھے آداب و اطوارسکھاتے ہیں تو دوسری طرف بچے خود کو بالبیر، ڈوریمان یا ننجا ہتھوڑی سمجھنے لگتے ہیں اور انھیں لگنے لگتا ہے کہ وہ ہر مشکل کام کو آسانی سے کر سکتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہExcitements کے علاوہ ان Half science fictional serials یا فلموں کے ذریعے بچوں اورجوانوں کو Manners، Eticates اور Discipline کی طرف بھی مائل کیا جا سکے۔۔۔؟حالاں کہ شکتی مان سیریل نے کافی بعد میں ’چھوٹی چھوٹی مگر موٹی باتیں‘ایک چھوٹے سے Session کے تحت اخلاقی باتیں بچوں تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
مذکورہ بالانکات کی بنا پر دور حاضر میں سائنسی ادب سے جو توقعات کی جا سکتی ہیں ان کو پیش کیا گیا ہے اور سائنسی ادب کو دیگر زاویوں سے دیکھنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔سائنسی ادب کے افادی پہلوؤں کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارا سائنسی ادب دور حاضر میں مثبت رول ادا کر بھی رہا ہے یا نہیں؟اب وقت آ گیا ہے کہ سائنسی ادب صرف تجسس کی چیز بن کر نہ رہے بلکہ اسے رفاہِ عامّہ کے لیے کسی Tool یاآلے کی طرح استعمال بھی کیا جاسکے۔آج کے سائنسی ادب سے کیا کیا تقاضے ہو سکتے ہیں جن کا مختصراًذکر کیا گیا ہے اسی طرح کے اور بھی نکات تلاشے جا سکتے ہیں۔مندرجہ بالا بحث کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ سائنسی ادب بالخصوص ’سائنس فکشن‘کو دور حاضر میں اپنے اغراض و مقاصد بدلنے ہوں گے جو انسانیت کے لیے خوش آئند بات ثابت ہو اور سائنسی ادب کے لیے مثبت اور بہترین تبدیلی بھی۔
حواشی:
.1 اردو میں سائنس فکشن کی روایت، خورشید اقبال،عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،ص40-41
.2 ایضاً،ص45-46
.3 جادوگر(انور قمر کے منتخب افسانے)،انتخاب و ترتیب:مظہر سلیم، عامر قریشی، تکمیل پبلی کیشنز، ممبئی، نومبر2015، ص60-61
.4 گیت سناتی ہے ہوا، راشد انور راشد، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2015، ص31-32

Tauseef Bareilvi
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University, 
Aligarh - 202001 (UP)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم ! حضور والا یہ رہنمائی فرما دیجیے کہ" اردو ناول میں سائنسی عناصر" کے عنوان پر کوئی مقالہ ہو چکا ہے یا نہیں ؟ اور کیا یہ پی ایچ ڈی کا موضوع بن سکتا ہے یا نہیں ؟

    جواب دیںحذف کریں