کرشن چندر کے افسانوں میں کردار سازی
شبنم حمید
کرشن چندر اردو فکشن میں ایک ایسا نام ہے جس کے تذکرے کے بغیر تاریخ افسانہ مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ کرشن چندر نثری ادب میں وہ ادیب ہیں جنھوں نے ناول، افسانہ، انشائیے، مزاحیہ و طنزیہ مضامین، تنقیدی مضامین، خطبات، ڈرامے، رپورتاژ، تمثیلیں اور شخصی خاکے لکھے۔ نثری ادب کی کوئی ایسی صنف نہیں جسے انھوں نے اپنے جذبات کا وسیلہ اظہار نہ بنایا ہو کرشن چندر کے افسانوں کے تراجم 65 زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان کی مشہور شخصیت کے پس منظر میں ان کا فن ہے یہ وہ فن ہے جس کی بنیاد میں ہندوستانی تہذیب کی اعلی ترین روایات شامل ہیں یعنی انسان دوستی اور شخصی عقیدے کا احترام۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے لیے کشمیر کا پس منظر یقیناًمنتخب کیا اور ان کی بیشتر کہانیاں خصوصاً نظارے میں شامل کہانیاں کشمیر سے ہی متعلق ہیں۔ والد کی ملازمت کے سبب کشمیر سے زیادہ وابستگی رہی ایک وجہ سے بھی کہ جب وہ لکھ رہے تھے تو اس وقت کشمیر راجا ہری سنگھ کے زیراقتدار تھا اور وہاں کے عوام جاگیرداری نظام کے خلاف جدو جہد کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے پھر اس کے بعد بیش تر کہانیوں میں شہری تمدنی زندگی کا پس منظر رکھا ہے چاہے وہ دو فرلانگ لمبی سڑک یا تین غنڈے یا اسی قبیل کے دوسرے افسانے۔ ان کے کردار مثالی نہیں ہوتے جسے تنقیدی اصطلاح میں عینیت پرستی سے تعبیر کیا جا سکے۔ وہ بے شک اشتراکی نظریات کے علمبردار ہیں۔
کرشن چندر کی کردار سازی کا نقش اول ان کا طنزیہ مضمون ہے جس کو انھوں نے فارسی کے استاد ماسٹر بلاقی رام کے خلاف لکھا تھا جس کا عنوان پروفیسر بلیکی رکھا۔ ان دنوں کرشن چندر دسویں جماعت میں تھے۔ رسالہ ریاست میں دیوان سنگھ مفتون جو ایڈیٹر تھے اسے شائع کردیا۔والد ناراض ہوئے اور پھر انھوں نے ایم اے کی تعلیم تک کچھ نہیں لکھا۔
کرشن چندر کا پہلا افسانہ یرقان 1936 میں شائع ہوا جس میں خود کو شائد کردار تصور کیا کیونکہ ایک بار ان کو یرقان ہوا تھا۔ ان کے کردار تخیلی نہیں ہوتے بلکہ خود پر آزمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کا فن رمزیت، ایمائیت اور علامت کافن ہے۔ مثلاً جب وہ جھیلم ناؤ پر افسانہ لکھتے ہیں اس افسانے میں جس دور کا نظام حیات تھا اس کی علامت تحصیل دار اور تھانیدار وغیرہ وغیرہ ہیں اور دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو استحصال کا شکار ہے۔ بعد کے افسانوں میں یہ رنگ زیادہ واضح ہے۔ پہلا افسانہ جھیلم ناؤ پر ایک سفر کی کہانی ہے۔کرشن چندر نے لاہور اور کشمیر کے درمیان کا سفر کیا یہی سفران کے ابتدائی افسانوں کا موضوع خاص بنا۔ ان کے کردار ان کی طرح ہی سفرکرتے ہیں۔ پہلے لاری میں سفر کرتے ہیں۔ چاہے تحصیل دار ہوں یا تھانیدار یا بوڑھی یا دو ادھیڑ عورتیں ہوں۔ سبھی کو اپنے ساتھ سفر میں شامل کرتے ہیں۔کرشن چندر اس افسانے میں متوسط طبقے کے کرداروں کی کہانی سناتے ہیں۔ دوسرا سفر ناؤ کا ہے۔ یہاں خوبصورت تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ اس کا بھائی مانجھی ہے۔ ایک بوڑھا باریش آدمی ہے۔ کرشن چندر ایک مصور کی طرح نظر آتے ہیں جو کردار کی مناسبت سے منظر اور فضا کی کی تخلیق کرتے ہیں۔ کرشن چندر اپنے کرداروں کا حسن بیان کرنے میں تشبیہات کا سہارا لینے کے بجائے جذبوں سے ان رنگوں کو اجاگر کرتے ہیں جنھوں نے لڑکی کو خوبصورت بنایا ہے۔افسانے کی یہ سطریں دیکھیے:
’’وہ کشمیر کے حسن صبح کا ایک نادر نمونہ تھی دلکش خدو خال سرو قد دلآویز رنگت لیکن جس چیز نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی ظاہری خوب صورتی سے بھی بڑھ کر اس کی نگاہوں کوحزن و ملال تھا جسے میں ایک جھلک ہی میں پا گیا اف، وہ المناک گہرائیاں اس ایک لمحہ میں مجھے76 ایسا محسوس ہوا کہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ کسی گہرے سمندر میں ڈوبا جا رہا ہوں‘‘
آنگی ان کا دوسرا اہم افسانہ ہے۔ آنگی پہاڑی گاؤں کی ان پڑھ سیدھی سادی معصوم لڑکی ہے۔ ایک مسافر کو دل دے بیٹھتی ہے اور مسافر اس معصوم کو بغیر اطلاع دیے چلا جاتا ہے۔ آنگی کا کردار کرشن چندر کے رومانوی افسانوں کا پیش رو ہے۔ افسانہ مجھے کتے کاٹا میں ہمارا سامناڈاکٹر سے ہوتا ہے جو کسان کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔’تالاب کی حسینہ میں‘ گونگی کمہاری ہے جو بے حد حسین ہے۔ صرف ایک آنہ‘ کا سروش ہے جو مسلسل بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آکر بھکاریوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ ’گوما‘ کی گومتی ہے ، نور حسن ہے۔ جس نے تھانیدار کو اس کی مٹھی گرم کی تھی۔ ’مصور کی محبت‘ میں بگی ہے جو گوالن ہے۔ درج بالا کرداروں کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کرشن چندر کا حساس دل اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوا ہوگا،دکھا ہوگا اور جھنجھلا کر کچھ حل نکالنے کی کوشش بھی کی ہوگی۔ یہ انتہائی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ کرشن چندر نے کہیں افسانہ میں خود کو رکھا کہیں اپنے ساتھی کو رکھا ، کہیں اپنے علاقہ کو رکھا،کہیں اپنے شہر کو رکھا اور کہیں انسانیت کے دائرے کو رکھا۔کردار سازی کے لیے کسی مخصوص دور میں جانے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ کسی مخصوص طبقہ کا مطالعہ نہیں کیا۔ کسی مخصوص انسان کو اپنے افسانے کے دربار میں زینت نہیں بخشی۔ بلکہ زندگی کے سفر میں چلتے جا رہے ہیں اور جو بھی مل رہا ہے اس کا ذکر اپنی زندگی کی ڈائری میں کرتے جارہے ہیں۔
مہالکشمی کے پل میں واضح طور پر زندگی کی دو تصویریں پیش کرتے ہیں ایک جو پل کے داہنی طرف کی ہے جو زندگی میں آرام ہے سہولتیں ہیں تعیش ہے لیکن ان کرداروں میں انسانیت کے دل کی دھڑکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس مہالکشمی کے پل کے بائیں طرف کی زندگی میں گالیاں ہیں۔ آپس میں لڑائی جھگڑا ہے۔ لڑیا ہے جو پریم چندر کے کردار دھنیا کی طرح گالیاں بھی کھاتی رہتی ہے۔ توتا بھی ہے جو گالیاں سن سن کر اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ خود بھی ٹے ٹے گالیاں بکتا رہتا ہے۔ یہی کرشن چندر کے فن کا سب سے اہم پہلو ہے کہ وہ کردار سازی میں ضمنی کردار کے ذریعہ بنیادی کرداروں کی خصوصیات کو ابھارتے اور جلا دیتے ہیں۔ نظارے میں کرشن چندر کا ہی نہیں اردو ادب کا اہم افسانہ دو فرلانگ لمبی سڑک شامل ہے، کرشن چندر کا یہ افسانہ 1938 میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں کرشن چندر نے تکنیک کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ممتاز شیریں لکھتی ہیں:
’’اس زمانے میں جب کرشن چندر نے پہلے پہل لکھنا شروع کیا تھا اور جو ہمارے نئے ادب اور افسانے کا ابتدائی زمانہ تھا۔ کرشن چندر نے مغربی افسانے سے متاثر ہو کر کئی ایک نئے تجربے کیے بلکہ ان کا ہر افسانہ ایک نیا تجربہ تھا............ کرشن چندر کے پاس ذہانت تھی کسی چیز کا فوری اثر قبول کر لینے والا مزاج ایک زود نویس، تیز رفتار قلم، چلتی ہوئی، رنگین زبان جس سے انھیں اظہار میں کوئی مشکل نہ ہوتی تھی لہٰذا وہ جس مغربی افسانے سے بھی متاثر ہوئے۔ اسی طرز کے افسانے کو فوراً اردو میں منتقل کیا۔ اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ کرشن چندر کے افسانوں کے چربے ہوتے تھے بلکہ یہ ان میں یہ صلاحیت تھی کہ مختلف طرز کے مغربی افسانوں سے بیک وقت اثر قبول کریں اور فوری طور پر انھیں اردو میں تخلیق کریں۔‘‘
کرشن چندر نے دو فرلانگ لمبی سڑک روایتی انداز سے ہٹ کر لکھا ہے اس کو اردو کا پہلا علامتی افسانہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ کرشن چندر بھی دوسری جنگ عظیم کے سانحہ سے اثر انداز ہوئے۔ وہ ایک ذہین اور حساس فنکار تھے ان کا مشاہدہ تیز نگاہ عمیق زبان میں تلخی اور طنز بھی تیز دھار بن کر ان کے فن میں شامل ہو گیا۔ دو فرلانگ لمبی سڑک کچہری سے لا کالج تک جانے والی معمولی سڑک ہے۔ جو ہندوستان کے اس وقت کے حالات کی ترجمانی کرتی ہے۔ بقول صلاح الدین حیدر:
’’بظاہر یہ ایک معمولی سڑک کا بیان ہے۔ مگر فن کار کی دوراندیشی اس ایک جھلک سے سارے افسانے کی فضا تیار کر لیتی ہے، بلکہ میری ناچیز رائے میں ہر ٹکڑا اپنے اندر زندگی کی وہ ساری سختی اور سیاہی اور ہمارے معاشرے کی وہ سنگدلانہ ناہمواری اور ہمارے نظام مجلسی کی وہ بے رحمانہ تپش اور کرختگی رکھتا ہے جس کے خلاف اس افسانے کے مختلف مناظر میں احتجاج کیا گیا ہے۔‘‘
اس افسانے میں دوفرلانگ لمبی سڑک پر چلنے والے لوگ کرشن چندر کی کردار سازی کے منتظر رہتے ہیں۔ اس سڑک پر معاشرے کی کئی تصویریں نظر آتی ہیں یہاں گدا گری ہے کوئی اندھا کوئی لنجا ، کسی کی ٹانگ پر خطرناگ زخم، افسانہ نگارنے کتنی گہرائی اور گیرائی سے ٹانگ کے زخم کا کرب محسوس کیا۔ کوئی عورت دو تین بچے گود میں لیے مسرت سے راہ گیروں کی طرف دیکھ رہی ہے یہ کتنا بڑا طنز ہے۔ یہ نئے نظام کا احتجاج ہے۔ یہ گداگیری اس کاہل قوم کی علامت ہے جس کے احساس مٹ چکے ہیں۔ جن کے ہاتھ کٹ گئے ہیں جن کے پیر میں زخم ہے۔ جن کی عورتوں کی گود میں بچے ہیں یہ وہ قوم ہے جو محنت نہیں کرنا چاہتی دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنا چاہتی ہے۔ دوسروں سے مدد کی طلبگار ہے۔ کرشن چندر کے یہاں عصری مسائل سے واقفیت بھی ہے اور مستقبل کے اشارے بھی ہیں۔ وہ اپنے ایسے کرداروں سے جھنجھلا جاتے ہیں۔ طنز کرتے ہیں اور جملے ہی جملے میں چوٹ کرتے ہیں۔ مثلاً ایک بوڑھا آدمی شاندار فٹن میں، ایک بھکارن، ایک کتا اس کا کچلنا، پھر خوبصورت عورت کا سامنے آنا، حریص بوڑھا علامت ہے سرمایہ داری کا۔ دو فرلانگ لمبی سڑک میں شعور کی رو کی تکنیک کو استعمال کیا ہے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے زندگی کی تضادو تصادم اور زندگی کے ارتقائی تصور کا آئینہ ہے۔ زندگی سفر ہے، سڑک پر یہ سفر طے ہوتا ہے یہ زندگی دو نفس کی اور سڑک دو فرلانگ کی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
کرشن چندر کی انسان دوستی اور فرقہ پرستی کے خلاف جہاد کا نمونہ’ ہم وحشی ہیں‘ کی کہانیوں میں لال باغ، پیشاور ایکسپریس وغیرہ ہیں۔ لیکن ان کہانیوں میں کردار سازی اور کردار نگاری دونوں کا پہلو پیشاور ایکسپریس میں دکھائی دیتا ہے.....
’تین غنڈے‘ عبدالصمد رحمن اور سکھ کسان کا افسانہ ہے کرشن چندر اپنے کرداروں کے ذریعہ موجودہ نظام کو جی بھر کر کھری کھوٹی سناتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے سرخ نظریات کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ افسانے کا یہ حصہ دیکھیں:
’’اس کے ہاتھ میں کانگریس اور لیگ دونوں کے جھنڈے تھے اور جب دو گولیاں کھا مرجاتا ہے تو اس کے خون سے لیگ کا سبز جھنڈا اور کانگریس کا سفید سبز زعفرانی جھنڈا دونوں اس کے خون سے ایسے سرخ ہوگئے تھے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کون سا جھنڈا کس کا ہے۔‘‘
کرشن چندر کا دل مساوات اور انسان دوستی کے لیے دھڑکتا ہے۔ پیشاور ایکسپریس میں وہ ایکسپریس کے ذریعے کہانی سناتے ہیں۔ ٹرین سے لوگ ہجرت کر کے دوسرے ملک جا رہے ہیں۔ راستے میں فساد ہوتا ہے۔ کرشن چندر اس خوں ریزی پر تیکھا طنز کرتے ہیں۔
’’پندرہ آدمی فائر سے گر گئے۔ یہ تکشیلا کا اسٹیشن تھا۔ بیس اور آدمی گر گئے۔ یہاں ایشیاء کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی اور لاکھوں طالب علم اس تہذیب و تمدن سے کسب فیض کرتے تھے۔
پچاس اور مارے گئے۔
تکشیلا نے عجائب گھر میں اتنے خوبصورت بت تھے اتنے سنگ تراشی کے نادر نمونے ، قدیم تہذیب کے جھلملاتے ہو چراغ...‘‘
کرشن چندر کے کرداروں نے اشتراکیت کے گیت گائے ہیں۔ ’پھول سرخ ہیں‘ ایک اندھے لڑکے کی کہانی ہے۔ وہ مزدور کا بیٹا ہے۔ سنیما کے گیتوں کی کتاب بیچتا ہے۔ اور جب مل کے مزدوروں کی ہڑتال ہوتی ہے اور وہ مزدورں کے ہڑتال میں شامل ہو جاتا ہے۔ کردار سازی میں کرشن چندر کمال فن پر نظر آتے ہیں۔ چاہے ’بت جاگے ہیں، ہو، ایک گرجا ایک خندق، انجیئر اور ’بارود اور چیری کے پھول‘ ہو کردار سازی اس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کرشن چندر کے کردار اپنی کمزوریوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ نیکی اور برائی دونوں ان میں ہے۔ وہ اس دنیا کے گوشت پوشت کے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً چال کے تمام مزدور کا درواز بند کرنا اور بڑھیا (سیتو کی ماں) کا گولی لگنا نظر آتا ہے۔ جس سے کردار کی کمی نظر آتی ہے۔
کرشن چندر کا درد مند دل ان معصوم کرداروں کی پریشانی سے دکھتا ہے۔ وہ جھلاہٹ میں گالی نہیں دیتے بلکہ آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ افسانہ شہتوت کے درخت میں ملاحظہ ہو:
’’یہ ہولے ہولے چلتے ہوئے مایوس اداس قدم جو اپنی محنت سے سونا اگلتے ہیں۔ وہ کھیت بوتے ہیں جوتتے ہیں اور کائنات کی بسیط برفیلی فضا میں بہار کا پیغام لاتے ہیں کیا سچ مچ انھیں کبھی ڈولی نہ ملے گی۔ کبھی جھولا نہ ملے گا۔ کبھی حنا کی لکیر میسر نہ ہوگی۔ مندروں سے لے کر مسجدوں تک یوں ہی گزر جانے والے قدم کیا ہمیشہ یوں ہی چلتے رہیں گے بے سواری بے آسرا۔‘‘
اس طرح کی مثالیں ہم کو مچھلی جال ، ایک عورت ہزار دیوانے، شمع کے سامنے، میں مل جائیں گے۔ کرشن چندر کے پاس ایک نئے سماج کے تعمیر و تشکیل کا تصور اور بدلتی زندگی کا احساس آخر تک پایا جاتا ہے۔ 1955 کے بعد حقیقت نگاری کا اثر ختم سا ہوگیا۔ لیکن سماج کو بدلنے کا احساس ابھی کارفرما ہے۔ مرد کرداروں پر جو افسانے اہمیت کے حامل ہیں ان میں کالو بھنگی، ڈوڈو، دو عشق، دلیپ کمار کی نانی، سپنوں کا قیدی، مس نینی تال، سو روپے، گلشن گلشن ڈھونڈا، دانی، قیدی، مکئی کے دانے، چور، گلنار،چندرو کی دنیا شامل ہے۔
کالو بھنگی کردار نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ کرشن چندر پر یہ الزام ہے کہ ان کے کردار جیتے جاگتے نہیں ہوتے لیکن تائی ایسری کی طرح کالو بھنگی ایک ایسا کردار ہے جو کردار نگاری کے خلا کو پر کرتا ہے۔ مصنف کا بار بار یہ کہنا کہ میں اس پر لکھنا نہیں چاہتا، لیکن یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اس کردار کو اتنے قریب سے جانتے ہیں۔ شاید ذاتی طور پر بھی اس کردار سے بہت بار ملے ہوں گے۔ کیونکہ اپنی بیٹی کی بیماری کے سلسلے میں ان کو ان حالات سے بار بار گذرنا پڑا تھا۔ کرشن چندر کالو بھنگی کو غیر اہم قرار دے کر اس کی اہمیت کو اورواضح کرتے ہیں۔ کالوبھنگی میں اپنے ساتھ اس کا موجود رہنا اور ایک لمحہ کے لیے بھی ساتھ نہ چھوڑنا اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ سماج کے ان کرداروں کی طرف کتنا جھکاؤ محسوس کرتے ہیں۔ سماج کی انھیں طبقے سے کردار کا انتخاب کرتے ہیں۔ افسانے میں خود کو کردار کے قریب دکھاتے ہیں۔ کالو بھنگی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’جب میں نے آنگی کے افسانے میں چاندی کی کلیاں سجائی تھیں اور یرقانیت کے رومانی نظریے سے دنیا کو دیکھا تھا اس وقت بھی یہ وہیں کھڑا تھا جب میں نے رومانیت سے آگے سفر اختیار کیا۔ حسن و حیوان کی بوقلموں کیفیتیں دیکھتا ہوا ٹوٹے ہوئے تاروں کو چھونے لگا۔ اس وقت بھی یہ وہیں تھا جب میں نے بالکونی سے جھانک کر ان داتاؤں کی غیرت دیکھی اور پنجاب کی سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی دیکھ کر اپنے وحشی ہونے کا علم حاصل کیا اس وقت بھی یہ وہیں میرے ذہن کے دروازے پر کھڑا تھا صم بکم۔‘‘
کرشن چندر اپنے کرداروں کے ذریعہ خود بولتے ہیں کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے کہ جو انکی فسادات کے موضوع کی کہانیاں ہیں اس کا کردار کوئی دوسرا نہیں ہے خود کرشن چندر ہیں وہ بمبئی والا جسے مار کر کوٹا پورا کر دیا جاتا ہے وہاں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ کوئی اور نہیں کرشن چندر ہی فساد کا شکار ہوگئے ہیں کرشن چندر کردار میں جیتے ہیں۔ فسادات پر لکھی گئی ان کی کہانیاں اس کے کردار انسان دوستی فرقہ وارانہ تصادم اور ہندوستان کی وحدت کے لیے ایک بہترین پیغام ہیں وہ اس طرح اپنے آرٹ کو اور موضوعات کے آہنگ کو سامنے لاتے ہیں کہ قاری میں انسانی اقدار حیات کے لیے جو تصادم کشمکش جدوجہد ہے کرشن چندر کا ہم نوا ہو جاتا ہے ان کے افسانوں میں بالکل عام انسان ملتے ہیں کالو بھنگی ہو یا مہا لکشمی کا توتا یا دادر پل کے بچے کا بھگوان۔
Prof. Shabnam Hameed
Head of Dept. Dept. of Urdu
Allahabad University
Allahabad - 211002 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں