18/1/19

منیر نیازی کی غزل کے فکری و فنی سروکار مضمون نگار:۔ ظفر النقی




منیر نیازی کی غزل کے فکری و فنی سروکار

ظفر النقی
منیر نیازی کی شعری کائنات میں نظموں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے تاہم ان کی غزلیں بھی اپنے منفرد اور علامتی اسلوب اور تازہ فکر کے حوالے سے بار بار قرأت پر اصرار کرتی ہیں۔ منیر نیازی کی غزل کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خود اپنی سوچ اور اظہار کے سانچے وضع کیے۔ ان کی شاعری تقسیم کے بعد پورے عہد کے طرز احساس اور بدلتے ہوئے رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں ایک طرح کی معصومیت، حیرت و استعجاب کی کیفیت اور ماضی کے گم شدہ تجربوں کی بازیافت ہونا کچھ ایسے شعری رویے ہیں جو اس عہد کے دوسرے شاعروں کے یہاں کم نظر آتے ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری اپنے معاصرین سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں علامتوں کے ذریعے گہرے اور پیچیدہ معانی و مفاہیم پیدا کیے ہیں۔ ان کی شاعری میں مرکزی علامتوں کے طور پر سفر، شہر، ہوا، شام، جنگل، مکان، چاند سورج، پانی، شجر، آئینہ اور خواب وغیرہ ہیں۔ انھوں نے ان علامتوں اور استعاروں کے ذریعے فطرت، انسانی رویوں، معاشرے اور شہری زندگی کے تصادم کو پیش کیا ہے ؂
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیر
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھنا
نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگِ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
خوف دیتا ہے یہاں ابر میں تنہا ہونا
شہر در بند میں دیواروں کی کثرت دیکھو
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
ان شعروں میں جس طرح جنگل، رستہ، پیچھے مڑ کر مت دیکھنا، دشت مرگ، شہر دربند، شہر کا سانپ کی طرح سونا اور چاند کا ڈھلنا جیسی لفظیات و تراکیب سے مخصوص طرح کی امیجری تخلیق کی گئی ہے اور ان مخصوص پیکروں کی مدد سے جو ایک پُر اسرار داستانوی فضا کی تشکیل کی گئی ہے وہ منیر نیازی سے مخصوص ہے۔ یہ فضا سازی اور منظر کی تعمیر ان کے علامتی مزاج کی زائیدہ ہے۔ ان کی غزلوں میں جنگل اتنے روپ بدل کر آتا ہے کہ یہ سارے جنگل آفت زدہ شہر کو محیط ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ منیر نیازی کے عہد کا شہر بنیادی طور پر مادی ترقی اور تمام طرح کی آسائش و آرام کی فراہمی کے باوجود ڈپریشن، ذہنی دباؤ، اجنبیت اور تنہائی کی دہشت سے عبارت ہے۔ شہر منیر نیازی کو دشمن کی طرح پریشان کرتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد نظام زر پر رکھی گئی ہے اور یہ نظام زر شہری زندگی پر اس قدر حاوی ہے کہ اس سے فرد کے اندر بے گانگی کے جذبے سر ابھارتے ہیں جو پوری شہری زندگی کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور در حقیقت یہ زوال ہماری اجتماعی زندگی کے توسط سے معاشرے کا حصہ بن کر فرد کے وجود کے زوال کا المیہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے بہ قول انتظار حسین ’’منیر نیازی عہد کی شاعری کرنے والوں سے زیادہ عہد کا شاعر نظر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اندر رہ کر ’آفت زدہ شہر‘ دریافت کیا ہے۔‘‘
منیر نیازی کی شاعری اس لیے بھی اہم بن جاتی ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کی معنویت کے ساتھ ساتھ فضا سازی کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ اپنے شعروں میں جس طرح کی صورتِ حال کو پیش کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ایک مختلف طرح کی فضا آفرینی کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے اور یہ ایسی فضا ہے جو دہشت ناک ہونے کے ساتھ خوابناک اور پُراسرار بھی ہے۔ در اصل منیر نیازی اس فضا آفرینی کے لیے مکان اور اس کے لوازم کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ان لوازم کے بیان کے ذریعے ایک خاص طرح کی فضا تخلیق کرتے ہیں۔ ان کے یہاں مکان اور اس کے لوازم اپنی مکمل تخلیقی قوت کے ساتھ پہلی بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی خوبی کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسرانیس اشفاق نے لکھا ہے کہ:
’’۔۔۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ منیر نے ’مکان‘ کے لوازم کو پہلی بار مکمل قوت کے ساتھ پیش کیا۔ اس پیش کش میں گزشتہ زمانوں کی یاد، ان زمانوں کے آثار اور ان کی نوحہ خوانی موجود ہے۔‘‘
منیر نیازی اپنی شاعری میں علامتوں اور استعاروں کے ذریعے مکان اور اس کے لوازم سے تعمیر منظر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں آفت زدہ شہر کا عکس مکمل طور سے ابھرآتا ہے۔ اسی لیے موجودہ بستی کی ویرانی قدیم بستیوں کو مزید ویران اور دہشت ناک بنا دیتی ہے:
رات اک اجڑے مکاں پہ جاکے اک آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے
اس شعر میں رات، اجڑے مکان اور بام و در ایک بصری پیکر پیش کرتے ہیں اور آواز سماعی پیکر۔ وہیں اجڑے مکان میں شاعر کی آواز گونجنے سے شعر کے تمام پیکر حرکی پیکر میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور شعر میں جامد صورتِ حال متحرک نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ صورتِ حال جس میں وقت رات میں تبدیل ہوچکا ہے، مکان اجڑ چکے میں اور بام و در شکستہ ہو چکے ہیں لیکن شاعر ابھی اطراف و جوانب کے ماحول سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اپنے درون کی آواز پر آواز دے رہا ہے۔ اس کی آواز کا اثر اجڑی ہوئی صورتِ حال کو بھی متحرک بنا دیتا ہے اور مکان کے کھنڈرات بھی شاعر کی آواز کے ساتھ گونجنے لگتے ہیں:
اک آسیبِ زر ان مکانوں میں ہے 
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے
آزادی کے بعد ہماری تاریخ دو ہجرتوں سے عبادت ہے۔ پہلی ہجرت پاکستان کے وجود کے بعد کی ہے اور دوسری ہجرت بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں ہوئی۔ لیکن دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پہلی ہجرت اپنی جان اور عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے تھی اور ہجرت اپنے آرام و آسائش اور دولت و زر کے وسائل کی فراہمی کے لیے مغربی ممالک کی طرف تھی۔ منیر نیازی کا درجہ بالا شعر دوسری ہجرت کے منظر نامے کو پیش کرتا ہے کہ اب مکان عالیشان ہوگئے ہیں تاہم مکان اپنے مکینوں سے خالی ہیں اور مکان کی یہی ویرانی در اصل آسیب زر ہے۔ دوسرے مصرعے کی ساخت پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک مکان کے مکین واپس نہیں آئے ہیں۔ اس میں آسیب سے جو فضا مرتب ہوتی ہے وہ غیر انسانی اور داستانی فضا ہے کیوں کہ آسیب کے ساتھ ویرانی اور خوف کا تصور وابستہ ہے:
آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
اس شعر میں مکانی لوازم اپنی بھر پور رعایتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ چنانچہ بام اپنے مکان اور مکان اپنے مکین کے وجود کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اس شعر میں تشبیہ اپنی جدت اور ندرت کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ’’رنگ کا بازار‘‘ کی ترکیب ایک ایسا بصری پیکر پیش کرتی ہے جس میں گہما گہمی اور حرکت ہے، محبوب خوب صورت ہے اس کے بام پر آنے سے آسمان پر رنگوں کا بازار کھل گیا۔ رنگوں کے بازار سے ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ جو آسمان پر رنگوں کا بازار کھلا ہے اس میں محبوب کے چہرے، اس کی آنکھوں، اس کے گلابی لبوں، اس کے سیمیں بدن اور ا س کے تبسم، سبھی کے رنگ شامل ہیں اور یہاں رنگ کا بازار کھلنا محبوب کے سراپا کی رنگا رنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ سراپا کی اسی رنگا رنگی نے اسے عاشق کی نظروں میں دلآویز بنا دیا ہے:
اک چیل ایک ممٹی پر بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
اس شعرمیں دھوپ میں ممٹی پر بیٹھی ہوئی چیل کو اجڑی ہوئی گلیوں کا پاسباں کہہ کر ویرانی کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ اس کے لیے بھی منیر نیازی نے اپنے محبوب شعری حربے مکان اور اس کے لوازم سے کام لیا ہے۔ یہ گلیاں اس شہر کی ہیں جو منیر نیازی کے دل میں بستا ہے جسے وہ 1947 کے بعد چھوڑ آئے تھے۔ منیر نیازی کے یہاں آفت زدہ شہر کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا ہے۔ وہ شہر اور اس شہر کی وہ حویلی جو آباء واجداد کی نشانی تھی، وہ منیر نیازی کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غم و الم کی شدت کے باعث اس شعر میں طنز کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ گلیوں کے اجڑنے کے بعد چیل پاسبانی کا کام انجام دے رہی ہے جب کہ دھوپ اور چیل ویرانی کی ہولناکیوں اور اجڑی ہوئی بستیوں کی دہشت کو نمایاں کر رہے ہیں۔منیر نیازی شہر کی ہولناکی اور اس دہشت کو نمایاں کرنے کے لیے مختلف صورتیں پیدا کرتے ہیں:
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا 
شہر کا کسی سانپ کی طرح سونا اور چاند کا ڈھل جانا، در اصل شہر کی دہشت ناکی اور ہولناکی کو بیان کرتا ہے۔
ماضی کی روایتوں سے عدم وابستگی کی بنیاد پر تہذیبی بحران پیدا ہوگیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مشینی عہد نے انسان کی معصومانہ فطرت کو ختم کردیا ہے۔ اسی لیے منیر نیازی مادی چمک دمک میں گم ہو جانے والے انسان کو اپنے اصل جوہر سے محرومی کا افسوس کرتے ہیں اور اس کو کسی آسیب کا سایہ بتاتے ہیں۔ منیر نیازی کا درج ذیل اسی پس منظر میں ہے ؂
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ظاہری اورمادی چمک دمک کے باوجود انسان اخلاقی اور روحانی اعتبار سے رو بہ زوال ہے اسی لیے منیر نیازی اپنے ملک کو آسیب زدہ بتاتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو آسیب کا لفظ غیر انسانی فضا کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ یہ انسان مائل بہ ارتقا تو ہے لیکن یہ کیسا ارتقا ہے جس سے ایک مشینی اور جذبات و احساسات سے عاری معاشرے کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اس شعر میں ’حرکت‘ لفظ جہاں ایک بے معنی اور بے مقصدحرکت کا اشاریہ ہے وہیں ’سفر‘ ایک بامقصد اور بامعنی متحرک کا علامیہ ہے۔ اس شعر میں دنیا کے اخلاقی اور روحانی اقدار سے خالی ہو جانے کا نوحہ ہے یعنی انسان کی مادی ارتقاء کے باوجود روحانی اور اخلاقی اعتبار سے قعر مذلت میں گر چکا ہے۔ اور تہذیبی، ثقافتی اور انسانی اقدار کی عمارت کو مادیت کے فروغ نے مسمار کردیا ہے ؂
کس کو فکر گنبد قصر حباب 
آب جو پیہم چلے، پیہم چلے
’گنبد قصر حباب‘ کی ترکیب بصری پیکر کا منظر نامہ تشکیل دیتی ہے وہیں یہ ترکیب ہماری سماعی دنیا کو بھلی اور مانوس لگتی ہے۔ یہاں ’گنبد قصر حباب‘ اور ’آب جو‘ استعارہ نہ رہ کر علامتی نوعیت کے حامل ہو گئے ہیں۔ یہاں گنبد کا لفظ ایک مکمل تہذیبی مظاہر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں نہ جانے کتنے افراد کا خون جگر شامل ہے۔ لیکن ’آب جو‘ یعنی وقت جو اپنی روانی اور رفتار سے اس بلند اور مکمل تہذیبی مظاہر کو مسمار کرتا ہوا گزر رہا ہے۔ اس شعر میں ’گنبد قصر حباب‘ کی ترکیب سے ایک عظیم الشان عہد کے زوال کی مکمل تصویر نگاہوں میں پھر جاتی ہے اور یہی اس شعر کو المیاتی شعر بناتی ہے۔ اس شعر کی معنوی جہتیں اور نمایاں ہوں گی اگر ہم گنبد اور حباب کی صوری مناسبت پرغور کریں۔ یعنی صدیوں میں پروان چڑھی ہوئی تہذیب حباب کی طرح ختم ہوگئی اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ یہ شعر انسان اور اس کے عدم ثبات کا نوحہ ہے۔ اس تہذیبی عمارت کے مٹ جانے کا زیاں اور فزوں ہو جاتا ہے جب اس صنعتی اور مشینی عہد میں انسان اخلاقی اور روحانی اقدار سے عاری ہو کر صرف جسمانی آرام و آسائش کے لیے سب کچھ تعمیر کر رہا ہو۔
منیر نیازی کی غزلوں میں ہجرت کا تجربہ بھی ملتا ہے۔ اپنے عہد کے اہم شاعر ناصر کاظمی کی طرح خود بھی ہجرت کے تجربے سے دوچار ہوئے تھے اس لیے ماضی کے حوالے سے اپنی مٹی، اپنا گھر، اپنی زمین، اپنے لوگ، اپنا خاندان، اپنا بچپن اور اپنا دیار ان کے دل کی بستی میں پہلے جیسا ہی تھا اسی لیے وہ ان میں تبدیلیوں سے خوف زدہ تھے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہجرت کا تجربہ ان کے لیے ایک بھید بھی ہے اور ان کے تخلیقی عمل کو تحریک دینے والا سب سے طاقتور محرک بھی۔ اسی باعث ان کی شاعری میں پرانی بستی میں موجود گھروں، گلیوں اور راستوں کے نشان ملتے ہیں۔ منیر نیازی نے خصوصیت کے ساتھ ہجرت سے متعلق انوکھے تجربات کا اظہار کیا ہے ؂
ہجرتوں کا خوف تھا یا پرکشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کردیا
حیرت میں ہوں منیر میں شہر خیال دیکھ کر
گلیوں میں گھر نئے نئے، ان میں بشر نئے نئے
واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا
منیر نیازی کے یہاں ہجرت کا تجربہ، اپنے اندر ہجرت کے نتائج، دوستوں کے بچھڑ جانے اور زندگی اور تہذیب کے ایک پورے عہد کے گم ہو جانے کا احساس رکھتا ہے۔
منیر نیازی کی غزلوں میں وحشت و دہشت کی کیفیت ہو یا ماضی کی باز یافت کا انداز، گم شدہ زمانوں کے متعلق اشخاص اور احباب کا بچھڑ جانا ہو یا ان کی ہجرت کا تجربہ یہ سب کچھ زمانہ حال میں آکر با لکل ایک نیا پس منظر اختیار کرلیتا ہے۔ ان کے انداز بیان اور پراسرار کیفیت نے ہر صورت حال میں ان کی غزل کو فنی سرّیت اور رمزیہ اسلوب سے آشنا کیا ہے۔ اس اسلوب کی تشکیل میں ان کے سادہ انداز بیان کے اندر موجود علامتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

Zafrun Naqi
H.No.: 164/4, Jamalpur
Aligarh - 202002 (UP)
Mob.: 9639205647
Email.: drznaqi@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...