اردو دنیا، فروری 2025
بھگوت گیتا اہلِ ہند کے نام شری کرشن جی کا پیام ہے جس
کو وید ویاس نے لکھا ہے جو اپنی قابلیت کی بنا پر مہارشی کہلاتے ہیں۔ گیتا اٹھارہ
باب اور (701) شلوکوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ اور مذہبی گیت ہے اور اس سے
ہندوستان کے مخصوص تخیل پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ سنسکرت ادب میں گیتا کو امتیازی حیثیت
حاصل ہے۔ ہندوستان میں یہ سب سے زیادہ مشہور مذہبی نظم ہے۔ ہندوؤں کے تقریباً
تمام فرقوں میں اس کو مقدّس مانا جاتا ہے۔ لوگوں کے بے پناہ جذبۂ عقیدت میں
ہزاروں سال کے بعد بھی کوئی کمی اس کتاب کے متعلق نہیں ہوئی۔ اس کے اعلیٰ فلسفیانہ
خیالات کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں اس کے مماثل
بہت کم نظمیں موجود ہیں۔ اس کی حیثیت الہامی نہیں ہے بلکہ روایتی ہے۔ لیکن اگر
ہندوستانی تخیل پر کسی چیز کا گہرا اثر پڑا ہے تو وہ بھگوت گیتا ہی ہے۔
بھگوت گیتا کا پیام بہت سادہ ہے اور ا س کی تعلیمات ایسی
ہیں جن پر امیر و غریب سب عمل کرسکتے ہیں۔ اس کی تعلیمات ہندو مت کی فلسفیانہ بنیاد
ہیں۔ اس کا مصنف عمیق و وسیع نظر کا حامل ہے۔ اس کا نقطۂ نظر تنقیدی نہیں ہے، وہ
کسی خاص جماعت کو مخاطب نہیں کرتا اور نہ کوئی نیا دبستان قائم کرتا ہے۔ وہ ہر قسم
کی عبادت کو تسلیم کرتا ہے اور کسی بھی طریقے کی مخالفت نہیں کرتا۔
اس امر کا تعین بہت مشکل ہے کہ بھگوت گیتا کب لکھی گئی
اس کے متعلق مختلف محققین کے مختلف نظریے ہیں۔ گو یہ مہا بھارت کا ایک جز ہے، لیکن
بعض محققین کی رائے ہے کہ یہ بہت بعد کی تصنیف ہے اور اس میں مہا بھارت کے قصے کو
پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
بھگوت گیتا کی طرزِ تحریر، قافیہ پیمائی اور دیگر خصوصیات
سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لگ بھگ تیسری صدی قبل مسیح میں لکھی گئی تھی۔
اگر بھگوت گیتا سے ہندوؤں کی دوسری مذہبی کتابوں کا
مقابلہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کا مصنف اس زمانے کے کم و بیش تمام مذہبی اور
فلسفیانہ نظریوں سے متاثر ہوا ہے۔ بھگوت گیتا ویدوں کے احکام کی مخالفت نہیں کرتی
بلکہ اس کی تعلیمات کے بموجب کوئی شخص ویدوں کے احکام کی پیروی کیے بغیر کمال حاصل
ہی نہیں کرسکتا۔ البتہ وید کے خداؤں کی عظمت و بزرگی کو بھگوت گیتا تسلیم نہیں
کرتی۔
بھگوت گیتا کا فلسفیانہ ماخذاُپنشدہے۔ بعض اشعار
توبھگوت گیتا اور اپنشد دونوںمیں مشترک ہیں۔
بھگوت گیتا میں بدھ مت کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن بعض خیالات
وہی ہیں جو بُدھ مت نے پیش کیے ہیں۔ دونوں ویدوں کی قطعیت سے انکار کرتے ہیں اور
ذات پات کی سخت بندشوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ دونوں ان ہی مذہبی جذبات کے ترجمان ہیں
جنھوں نے رسوماتی مذہب کا تختہ الٹ دیا۔ اس یکسانیت کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ
ہوگا کہ بدھ مت کے مقابلے میں بھگوت گیتا کا نقطۂ نظر قدامت پسندانہ ہے۔
بھگوت گیتا کی ایک اور خصوصیت کی طرف کم لوگ توجہ کرتے
ہیں۔ اس نظم کی تمہید کچھ ایسی نزاکت سے باندھی گئی ہے کہ گو یہ شروع سے آخر تک
کرشن جی اور ارجن کی گفتگو معلوم ہوتی ہے۔ لیکن در اصل تمام نظم ایک علمِ کشف کے
جاننے والے (سنجے) کی زبانی ہے۔ جودھرت راشٹر کو میدان جنگ کے واقعات اپنی ہتھیلی
میں دیکھ کر بتا رہا ہے۔ نظم لکھنے والا بیان کی صداقت اور عدم صداقت کا ذمے دار
نہیں اور نہ کسی ایک لفظ کے لیے بھی قابلِ گرفت ہے۔
تعلیمات:عمل سے متعلق بھگوت گیتا کی تعلیمات خاص ہیں۔
اس کی یہ تعلیم نہیں کہ دنیا اور دنیوی کاروبار کو ترک کر دیا جائے اور نہ ہی دنیوی
کاروبار اور خواہشات کو مستحسن قرار دیتی ہے۔ بظاہر یہ دو چیزیں متضاد نظر آتی ہیں۔
لیکن خود بھگوت گیتا نے اس مسئلے کو نہایت ہوشیاری سے حل کیا ہے۔ جب ہم کسی فعل کو
انجام دیتے ہیں تو پہلے دماغ میں اس فعل کے کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی
اس فعل کا نتیجہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ در اصل اس نتیجے کو ہی سامنے رکھ کر انسان
فعل کو، خواہ وہ محنت طلب اور بظاہر مشکل ہی کیوں نہ نظر آئے، انجام دیتا ہے۔
بھگوت گیتا کی یہ تعلیم ہے کہ انسان کو چاہیے کہ جسمانی طور پر تو کام کو انجام دے
لیکن ذہن میں اس کے نتیجے یا اجر کو نہ لائے۔ بلکہ بالکل بے تعلق ہو کر کام کرے۔
ظاہر ہے کہ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک معمولی انسان کا کھانا، پینا،
اٹھنا، بیٹھنا غرضیکہ ذرا ذرا سی حرکت بھی کسی نہ کسی مفاد کے پیشِ نظر ہوتی ہے
اور اس کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور واقعہ تو یہ ہے کہ رنج اور
تکلیف کی جڑ یہی ہے۔ اس لیے بھگوت گیتا بے غرض کام کرنے اور خواہشات اور جذبات سے
آزاد ہونے کی مختلف طریقوں سے تعلیم دیتی ہے اور بار بار اسی پر زور دیتی ہے۔
بھگوت گیتا کی ایک نمایاں تعلیم وجودِ باری کا تصور ہے۔
بھگوت گیتا کا تصور یہ ہے کہ خدا ہر چیز کے اندر موجود اور وہی ہر ایک کا مبداو
ملجا ہے۔ سب کچھ فنا ہونے کے لیے اس میں ضم ہوجاتا ہے اس لیے ہر انسان کی کوشش ہونی
چاہیے کہ جلد خدا سے واصل ہونے کے ذرائع اختیار کرے۔ جو شخص خاص اصول اور معیار پر
زندگی بسر کرتا ہے، خواہشات کو ترک کرتا اور نتیجے سے بے فکر رہتا ہے۔ وہ مرتے ہی
خدا سے واصل ہوجاتا ہے اور موت و حیات کی کشمکش (تناسخ) میں گرفتار نہیں رہتا۔ اس
کے برعکس جو شخص خواہشات کا غلام رہتا ہے وہ بار بار اس دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ عمل
کی معراج یہ ہے کہ انسان اپنی اعلیٰ ترین حقیقت کو پہچان کر واصل بہ حق ہوجائے۔ یعنی
خودی کی تکمیل ہی عمل کی معراج ہے۔
بھگوت گیتا انسان کو خواہشات اور جذبات سے بالاتر،
ہرحال میں یکساں اور غیر متاثر رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔
تاریخی پس منظر: بھگوت گیتا ، مہا بھارت کے لکھے جانے
کے بہت زمانہ بعد وجود میں آئی لیکن جس وقت بھگوت گیتا لکھی گئی تو مہا بھارت ہی
وہ واحد کتاب تھی جو پورے ہندوستان میں حد سے زیادہ مقبول تھی۔ اس طرح مہا بھارت کی
اس شہرت سے فائدہ اٹھانے اور بھگوت گیتا کو عوام تک پہنچانے کی غرض سے اس کا تاریخی
پس منظر مہا بھارت سے لیا گیا ہے۔ ذیل میں مختصراً اس کی وضاحت کی گئی ہے تاکہ
بھگوت گیتا کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
خاندانِ کورو کے بادشاہ شانتنو کو پہلی بیوی سے ایک بیٹا
بھیشم اور دوسری بیوی سے دو بیٹے چترانگد اور وچترویریہ تھے۔ بھیشم نے عمر بھر
مجرد رہنے کا عہد کیا تھا اور چترانگد کا شادی سے قبل ہی انتقال ہوگیا تھا۔ وچتر ویریہ
کے دو بیٹے دھرت راشٹر اور پانڈو تھے جن میں سے اول الذکر پیدائشی نابینا تھا۔
وچتر ویریہ کے انتقال کے بعد دھرت راشٹر کو حکومت ملی۔ لیکن پانڈو نے تمام
انتظامات سنبھالے۔ پانڈو کا انتقال دھرت راشٹر کی زندگی ہی میں ہوگیا اور اس نے
پانچ بیٹے یودھشٹر، بھیم، ارجن، نکُل اور سہدیو چھوڑے جن میں سے اوّل الذکر تین
پانڈو کی پہلی بیوی کُنتی سے تھے اور موخر الذکر دو بیٹے دوسری بیوی مادری سے تھے
اور یہ دونوں توأم تھے۔ دھرت راشٹر کے سو بیٹے تھے جن میں سب سے بڑا دریودھن تھا۔
پانڈو کے انتقال کے بعد بھیشم نے شہزادوں کے سنِ بلوغ کو پہنچنے تک حکومت کے
انتظامات کو سنبھالنے کا ذمہ لیا اور اس وقت تک درونا چاریہ کے ذریعے ان کی تعلیم
کا معقول انتظام کیا گیا۔ جب شہزادے سنِ بلوغ کو پہنچے تو یہ سوال پیش ہوا کہ دریودھن
اور یودھشٹر میں سے کس کو حکومت ملے۔ خاندان کے بزرگوں نے سلطنت کی تقسیم کا مشورہ
دیا اور دھرت راشٹر نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا۔ لیکن دریودھن نے جو لالچی اور
بدطینت تھا خفیہ منصوبہ بنایا اور قمار بازی کے ذریعے یودھشٹر سے سلطنت چھین لی
اور یہ شرط پیش کی کہ پانڈو کے سب بیٹے بارہ سال تک جنگل میں جلا وطن رہیں اور اس
کے بعد ایک سال تک گمنامی کی زندگی بسر کریں۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد پانڈو کے بیٹوں
نے اپنے حصۂ حکومت کا مطالبہ کیا اور قتل و غارت گری اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیے
یودھشٹر نے اپنے گزارے کے لیے پانچ قصبات لینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ لیکن دریودھن
نے سوئی کی نوک کے برابر زمین دینے سے بھی انکار کیا اور جنگ ناگزیر ہوگئی۔ جب
دونوں جانب کی فوجیں جنگ کے لیے ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں تو ارجن نے کرشن سے جو
ان کے ماموں زاد بھائی اور بڑے دوست تھے اور اس جنگ میں ان کی رتھ بانی کا کام کر
رہے تھے یہ خواہش کی کہ وہ دونوں فوجوں کے درمیان ان کے رتھ کو لے جائیں تاکہ وہ
دونوں فوجوں کا معائنہ کرسکیں۔ دونوں جانب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو دیکھ کر
ارجن بہت متاثر ہوئے حتیٰ کہ جنگ سے باز رہنے کے خیالات بھی ان کے ذہن میں پیدا
ہوئے تاکہ سلطنت کے حصول کی خواہش میں عزیزوں اور دوستوں کا خون بہانا نہ پڑے۔ اس
موقع پر کرشن ان اقوال کے ذریعے ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں
ادراک تصفیہ کرنے کے بعد مختلف جذبات کے تحت اس کو نہ بدلیں۔
ماخذ: شریمد بھگوت گیتا، مصنف: وید ویاس، مترجم: حسن
الدین احمد، پانچویں طباعت: 2021، ناشر:
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں