7/5/25

نالاڈیار (کلاسیکی تامل شلوکوں کا مجموعہ)، مترجم: غازی حمیداللہ خاں

 اردو دنیا، فروری 2025


تامل ہندوستان کی ایک قدیم  زبان ہے، ماہرینِ لسانیات اسے دنیا کی دوسری قدیم زبانوں مثلاً سنسکرت، یونانی، لاطینی، فارسی اور عربی کا ہم پلہ و ہم رتبہ قرار دیتے ہیں۔ تاریخی کتبات اور دوسرے شواہد بھی اس کی قدامت کو ثابت کرتے ہیں۔ آج بھی یہ زبان جنوبی ہندوستان کے وسیع علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ریاست تامل ناڈو میں اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔

تامل زبان میں کئی کتابیں ایسی ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہزاروں سال پرانی ہیں، نالاڈیار کے متعلق بھی ایسا ہی دعویٰ ہے۔ پشپارتھ چیٹی کی شائع کردہ شرح میں اس بات کی خاص طور پر وضاحت کی گئی ہے۔

وہ قدیم تامل کتابیں جن کی ادبی حیثیت مسلم ہے، 36 ہیں اور انھیں دو حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ ’پت پاٹ‘ اور ’ایٹ توگھئی‘ قدیم ترین 18 کتابوں پر مشتمل ہیں۔ ان کو ’میل کنک‘ کہتے ہیں، اسی طرح باقی 18 کتابوں کو مجموعی طور پر کیڑکنک کہتے ہیں اور یہ میل کنک سے کچھ بعد کی ہیں۔ نالاڈیار کو کیٹرکنک میں شمار کیا جاتا ہے، تامل کی مشہور ترین کتاب کر بھی ’کیٹرکنک‘ کتابوں میں سے ایک ہے۔ ان تمام قدیم ادبی شاہکاروں کی فہرست جو مندرجہ ذیل ہیں، ایک تامل شلوک میں دی گئی ہیں:

نالاڈیار نان منی، نال ناپدو، این دِنئی، مپال (کرل)، کڈوکم، کووئی پڑموڑی، مامولم، کل وڑی، انا انی یوئی، تِنی مالئی، مدوموڑی کانچی اوز ایلادی۔

نالاڈیار کا نام اس میں ہے، اسی سے اس کی اہمیت ظاہر ہے۔ ایک تامل شلوک میں کرل اور نالاڈیار دونوں کو ہم پلہ قرار دیتے ہوئے ان کی عظمت کا اس طرح اعتراف کیا گیا ہے جس طرح بڑ اور نیم کے درختوں کی دَتون سے دانتوں کو طاقت ملتی ہے۔ اسی طرح نالاڈیار اور کرل کے شلوکوں کا حوالہ دینے سے بات زیادہ قابل قبول ہوجاتی ہے۔‘‘

یہ شلوک اس بات کا ثبوت ہیں کہ زمانۂ قدیم ہی سے نالاڈیار کے شلوکوں کو حوالے اور سند کے لائق سمجھا گیا ہے۔

نالاڈیارکے متعلق ایک نہایت ہی دلچسپ قصہ مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں مدورا کے شمال میں قحط پڑا تھا، لہٰذا وہاں کے باکمال آدمی مدورا آکر بس گئے تھے۔ مقامی راجا کو ان کی عالمانہ صحبت اس قدر پسند آئی کہ جب کچھ عرصے بعد انھوں نے وطن جانے کا خیال ظاہر کیا تو اسے بہت رنج ہوا اور اس نے انھیں مدورا چھوڑنے کی اجازت نہ دی، لہٰذا وہ لوگ راجا کے ڈر سے رات کے اندھیرے میں مدورا سے بھاگ نکلے۔ جاتے وقت ان میں سے ہر ایک تاڑ کے پتوں پر ایک ایک شلوک لکھ کر چھوڑ گیا۔ اگلی صبح جب راجا کو ان کے چلے جانے علم ہوا تو اس نے وہ تمام تاڑ پتر منگوائے اور انھیں مقامی دریا ویگئی میں ڈال دینے کا حکم دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے 400 تاڑ پتر دریا کے دھارے کے بہاؤ کے خلاف بجائے نیچے کی طرف بہنے کے اوپر کی طرف بہنے لگے اور ایک جگہ کنارے سے لگ گئے۔ انھیں پھر راجا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسی مجموعے کو نالاڈیار کہتے ہیں۔ اس کہانی میں سچائی کس حد تک ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ ایک بات البتہ ظاہر ہے کہ یہ 1400 شلوک تامل ادب عالیہ میں اتنا بلند مقام رکھتے ہیں کہ زمانے کے تھپیڑوں نے بھی انھیں برباد نہ کیا اور اہلِ علم و دانش نے انھیں ہمیشہ یاد رکھا اور ان کا درس دیا۔ نالاڈیار کو ’ویلالرویدم‘ بھی کہتے ہیں یعنی ’مقامی آدمیوں کا وید‘۔

پوپ (G.U. Pope)  کا خیال ہے کہ نالاڈیار اور دیگر تامل ادبی شہ پارے آٹھویں صدی عیسوی اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان لکھے گئے ہوں گے، لیکن مشہور تامل محقق ڈاکٹر وردراجنار کا خیال ہے کہ نالاڈیار تیسری یا چوتھی صدی عیسوی میں ضبط تحریر میں آئی۔ کپو سوامی مدلیار کا خیال ہے کہ کرل اور نالاڈیار دونو ںپہلی صدی عیسوی میں لکھی گئی ہوں گی کیونکہ یہ مدورا کے تیسرے سنگم کے ادبی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ مدورا کا تیسرا سنگم پہلی صدی عیسوی کے اواخر اور دوسری صدی عیسوی کے شروع میں قائم تھا۔بہرحال یہ بات ظاہر ہے کہ نالاڈیار ایک قدیم ادبی کارنامہ ہے اور صدیوں سے لوگ اسے سینے سے لگائے چلے آتے ہیں۔

نالاڈیا رکو ایک مشہور تامل پدومنار نے ترتیب دیا اور اس کے شلوکوں کو کرل کی طرح مختلف سرخیوں کے تحت یکجا کرکے سارے مجموعے کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ’پدومنار‘ نے نالاڈیار کے مجموعے کے شروع میں خود اپنا ایک شلوک بھی شامل کیا ہے جس میں مالک حقیقی کی حمد و ثنا کی گئی ہے۔

نالاڈیا چار سوشلوکوں کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے اسے تامل میں اکثر نالاڈی۔ نانور یا چار سو شلوک کہتے ہیں۔ تامل زبان میں ’نالاڈیار‘ لفظ کا مطلب یہی چار مصرعوں والا شلوک ہے۔ ظاہر ہے کہ قدیم زمانے میں شلوکوں کا اس سے بہتر مجموعہ تامل زبان میں نہیں تھا۔ یہ شلوک ایک گلدستہ ہے اور اس میں بہت سے شاعروں کا کلام شامل ہے جن کے نام تک کسی کو معلوم نہیں، لیکن عام خیال یہ ہے کہ یہ شلوک جین شعرا کے تصنیف کردہ ہیں۔ کپو سوامی مدلیار، ڈاکٹر دردراجنار دونو ںکا یہی خیال ہے۔ پوپ کی بھی یہی رائے ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ سب شلوک شاید جین شعرا کے نہ ہوں۔

ان شلوکوں میں جو مضامین نظم کیے گئے ہیں وہ سب اخلاقیات سے متعلق ہیں۔ اگرچہ کہیں کہیں ہجر و فراق کا ذکر بھی آگیا ہے۔ ان میں انسانی جسم کی ناپائیداری، ترکِ علائق، گذشتہ اعمال کا پھل، صبر کی تلقین، انکساری، سخاوت، قرابت داروں کے ساتھ سلوک، استقلال اور دانشمندی اور دوسرے اخلاقی موضوعات کا بیان ملتا ہے۔ استعارے اور تشبیہات مقامی رنگ لیے ہوئے ہیں۔

یہ ترجمہ میں نے براہِ راست تامل سے کیا ہے۔ اس کتاب کی شرحیں بھی دیکھی ہیں اور جہاں کہیں شارحین میں اختلافِ رائے نظر آیا تو ان پر خود غور کیا ہے۔ اس ترجمے کے سلسلے میں ای۔ را۔سبرامنیم پلے مرحوم وی۔ ایس سبیا، ڈاکٹر وجے لکشمی اور ڈاکٹر چوپڑا نے میری بہت ہمت افزائی کی۔ محترمی حبیب الرحمن صدیقی مرحوم نے پہلے 26 شلوکوں کا ترجمہ دیکھا اور اس سلسلے میں مجھے مفید مشورے دیے۔ برادرم محمد مجاہد اللہ خاں نے بھی اس کام میں میری مد دکی ہے سب سے زیادہ مدد مجھے والد محترم سے ملی تھی۔ والد محترم محمدسعداللہ خاں صاحب مرحوم نے ان شلوکو ںکے ترجمے کو دیکھا اور ان پر نظر ثانی کی اور بہت سے مفید مشورے دیے۔ الفاظ، محاورات، تشبیہات اور استعارے، جملوں کی تراکیب، غرض ہرطرح والد مرحوم نے ان شلوکوں کے سلسلے میں میری رہبری کی۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس اسی بات کا ہے کہ وہ اس کتاب کے شائع ہونے کی حسرت اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ اگر انھوں نے ہر قدم پر میری ہمت افزائی نہ کی ہوتی تو یہ کام کبھی تکمیل کو نہ پہنچتا۔

ترجمہ ایک مشکل کام ہے اور یہ کام مشکل ترین اس وقت ہوجاتا ہے ،جب کسی قدیم معیاری کتاب کا ترجمہ کیا جائے۔ تامل زبان سے اردو میں بہت کم کتابیں منتقل ہوئی ہیں۔ ’اردو سے تامل‘ یا ’تامل سے اردو‘ کوئی لغت تک نہیں ہے، اس لیے ہر قدم پر مشکلات اور پیچیدگیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

بہرحال میری یہ محنت کہاں تک پذیرائی کے قابل ہے، اس کا فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔

نیکی کی طاقت

v             جو اندر ہیں وہ رحمت کے سایے میں ہیں‘ یہ کہہ کے وہ سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہیں، مگر داخل نہیں ہوپاتے، ان کی جگہ دروازے کے باہر ہے جہاں وہ بڑے عذاب میں ہوں گے کیونکہ وہ پچھلے جنم  میں ریاضت و عبادت نہیں کرتے تھے اور اس جنم میںبھی تپسیا نہیں کرتے ۔

v             اے دل نادان! یہ نہ کہہ کہ ہم دولت کی فراوانی کی ہوس کرکے خوش حال رہیں گے اور نیکیوں کو نظرانداز کرکے مرجائیں گے۔ ان تھک محنت اور مشقت کرنے کے بعد تو ضرور خوش حال ہوگا لیکن یہ تو بتا کہ خوش حالی کے دن گزر جانے پر تو کیا کرے گا؟

v             جب اعمال کا پھل ملنے کا وقت آتا ہے تو کم عقل سرد آہیں بھرنے لگتا ہے او راس کا دل ڈوبنے لگتا ہے، لیکن جو دانشمند اس مسئلے پر غور کرتے ہیں، وہ کشمکش حیات کی بندشوں سے نکل جائیں گے۔

v             بڑی مشکل سے حاصل ہونے والے اس جسم کو نیکی کی توفیق جب بھی میسر ہو تو اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رہو۔ گنے سے نکلے ہوئے رس کی طرح یہ نیکیاں بھی بعد میں بہت کام آئیں گی کیونکہ گنے کے چھلکے کی طرح یہ جسم بھی ایک دن پھینک دیا جائے گا۔

v             رس نکالے ہوئے گنے کے چھلکوں کے ڈھیر میں آگ لگانے کا کسی کو افسوس نہ ہوگا، ایسے ہی جن لوگوں نے اپنی جدوجہد سے اس جسم کا پھل حاصل کرلیا ہے، موت کے آنے پر وہ بھی افسوس کرنے والوں میں سے نہ ہوں گے۔

v             آج، کل، کس دن موت آئے گی؟ یہی سوچتے نہ رہو بلکہ یہی سوچتے رہو کہ موت تمھارے پیچھے ہی کھڑی ہے۔ برائیوں سے بچو اور ہر ممکن طریقے سے اسلاف کی بتائی ہوئی نیکیوں کو اختیار کرو۔

v             اگر غور کرو تو انسان کے روپ میں پیدا ہونے کے بہت سے فائدے ہیں لیکن اس جسم کی آسائش کے کام ہی نہ کرتے رہو بلکہ ایسے کام بھی کرو جس سے عقبی میں بھی نعمتیں حاصل ہوں۔

v             بڑ کے درخت کا ایک چھوٹا سا بیج بڑھ کر ایک زبردست سایہ دار درخت بن جاتا ہے، اسی طرح نیکی خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو ا س کا پھل اگر معقول آدمیوں کے ہاتھ پڑجائے تو سارے آسمان پر حاوی ہوسکتا ہے۔

v             وہ روزانہ، دن گزرتے دیکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے بلکہ فرطِ خوشی سے کہتے ہیں کہ (یہ) دن، تو دن ڈوبے تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ روزانہ اپنی زندگی کے دنوں میں ایک دن کی کمی ہوتی جارہی ہے اس کا خیال نہیں کرتے۔

v             عزت جیسے نادر جوہر کو قربان کرکے میں ایک فقیر کی سی ذلیل زندگی بسر کروں گا، اگر اس ذلت سے مجھے اتنا کھانا ملے جو جسم کو اتنی طاقت فراہم کرے کہ وہ ایک زمانے تک برقرار رہے۔

انکساری

v             جو ہماری عزت کرتے ہیں انھیں جانے دو، جو ہماری عزت نہیں کرتے انھیں بھی جانے دو۔ اگر ایک گندی مکھی سر پر آبیٹھے تو یہ بات معلوم ہونے پر بھی غصے سے احتراز کرنا ہی بہتر ہے۔

v             جب ذلت ایسی گھرکر آئے کہ اس کے خلاف ایک قدم بھی نہ اٹھا سکیں تو جن لوگو ںنے کسی کام کو انجام دینے کا تہیہ کرلیا ہے اور جو لازوال خوبیوں کے مالک ہیں کیا اپنی پیاری جان کو قربان کردیں گے کہ انھیں ہر جگہ برائی نظر آتی ہے۔

v             اگر بلا سوچے سمجھے کوئی آدمی اپنا منھ کھول کر کچھ کہہ بیٹھے تو اس کے یہ الفاظ ہمیشہ اس کے دل میں کھٹکتے رہیں گے۔ جو لوگ گفتگو میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور قدیم علوم میں بھی دسترس رکھتے ہیں، غصے سے مشتعل ہوکر بھی ایسے سخت الفاظ اپنے منھ سے کبھی نہیں نکالیں گے۔

v             ذلیل آدمی، سامنے کھڑے ہوکر کوئی نازیبا بات بھی کہہ دے تو عالی ظرف اشتعال میں نہیں آتے لیکن کبھی کسی رذیل آدمی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو وہ ہمیشہ اسی کے متعلق سوچتارہے گا اور اسی کا ذکر کرتا رہے گا۔

v             نوجوانو ںکا تحمل ہی اصل تحمل ہے۔ جن کے پاس دولت کے ذخیرے نہ ہوں ان کا دیا ہو ا ہی اصل تحفہ ہے جس میں ہر شخص کو سزا دینے کی طاقت ہو، اس کا صبر کرلینا ہی دراصل صبر ہے۔

v             رذیل آدمیوں کے منھ سے نکلے ہوئے سخت الفاظ ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی نے پتھر پھینکے ہوں، لیکن شرفا انھیں سب کے سامنے برداشت کرلیتے ہیں اور ان کا خیال نہ کرتے ہوئے اپنی خاندانی شرافت کے سبب ،  ضبط عمل سے کام لیتے ہیں جیسے ناگ مقدس راکھ ڈالنے پر اپنا پھن زمین پرڈال دیتا ہے۔

v             اگر دشمن اپنی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صف آراہوں اور چھیڑ چھاڑ شروع کریں تو بھی جنگ و جدل سے بچنا عاقلوں کے نزدیک کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ اگر وہ مقابل آکر نقصان بھی پہنچائیں تو انھیں نقصان پہنچانے کے بجائے برداشت سے کام لینا ہی بہتر ہے۔

v             رذیل آدمیوں کا غصہ،مدت تک برقرار رہتا ہے، وہ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، لیکن نیک طینت اور اعلیٰ ظرف آدمیوں کا غصہ برتن میں کھولتے ہوئے پانی کی طرح جلد ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔

v             اعلیٰ خاندان کے سپوت جن کے خاندان کی شہرت عالم بالا تک پہنچی ہو، احسان فراموش آدمیوں کے ساتھ بھی نیکی سے ہی پیش آتے ہیں۔ لوگوں کی احسان فراموشی کے باوجود ان سے سختی سے پیش نہیں آتے۔

v             ایسے آدمی تو اس دنیا میں کہیں بھی نہ ملیں گے جو یہ دیکھ کر کہ ایک پاگل کتے نے انھیں کاٹ لیا ہے خود اپنے منھ سے اس پاگل کتے کو کاٹنے لگیں۔ اسی طرح جب ذلیل آدمی اپنے منھ سے نازیبا الفاظ نکالتے ہیں توکیا عالی رتبہ آدمی، انتقاماً خود اپنے منھ سے ایسے ہی (نازیبا) الفاظ ادا کریں گے؟

صبر

v             ایسے سرسبز و شاداب ملک کے والی جہاں بلند پہاڑوں کے دامن میں پھولوں کے ہاروں کے مانند آبشار ہیں— کم عقل سے کسی قسم کی بات نہ کرو کیونکہ کم عقل تم سے گفتگو کرنے کے بعد تمھاری باتوں کو توڑ مروڑ کر ان کا غلط مطلب نکالے گا۔ بہتر ہوگا کہ اس سے حتی المقدور دور رہو۔

v             جو لوگ ہمارے ہم رتبہ نہ ہو ںاگر وہ اپنی زبان سے نازیبا الفاظ نکالیں تو انھیں برداشت کرلینا ہی عین دانشمندی ہے۔ یہ دنیا، جس کے گرد سمندر کا پانی لہریں مار رہا ہے، اس کے علاوہ کسی اور طریقۂ کار کو قابل تعریف نہیں قرار دیتی بلکہ شرمناک تصور کرتی ہے۔

v             ہمدرد دوستوں کے منہ سے نکلے ہوئے سخت الفاظ انجام و نتائج کے پیش نظر غیروں کے تصنع آمیز میٹھے بولوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ اے مواج و ملبب سمندر کے سرد ساحل کے والی! جہاں بھونرے کوڑے کے خوشنما اور نوشگفتہ پھولوں کے گرد منڈلاتے ہوں۔

v             جو کچھ کہ جاننا چاہیے وہ جاننے والے، اور اپنے علم سے متانت و سنجیدگی حاصل کرنے والے، جن چیزوں سے احتراز کرنا چاہیے، ان سے احتراز کرنے والے، جو لوگ حتی المقدر دنیا میں خوشی اور مسرت پھیلاتے ہیں، اور جن کی فطرت میں (تمام) بھلائیوں پر خوشی کا اظہار کرنا شامل ہے، تم انھیں شاذ و نادر ہی مصائب میں مبتلا پاؤ گے۔

v             جب دو آدمی دوستی کے رشتے میں منسلک ہوجائیں کہ باہمی اختلافا ت نہ رہیں اور بعد میں کبھی ان دونوں میں سے کسی ایک شخص سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہوجائے تو دوسرے کو چاہیے کہ حتی الامکان اسے نظرانداز کرے اور جب برداشت نہ کرسکے توبھی اس کی تشہیر نہ کرے بلکہ خود ایسی باتوں سے دور ہی رہے۔

v             اگر وہ برائی بھی کریں تواسے اچھائی ہی سمجھو خود کو ہی الزام دو اور غصہ سے بچو۔ جن کے ساتھ تم دوستی کے رشتے میں منسلک ہو ان کی دوستی کو ترک نہ کرو۔ اے کوہستانی ملک کے والی! جدائی جانوروں پر بھی شاق گزرتی ہے۔

v             دنیا کے سب لوگ بڑے آدمیوں کے ساتھ گہری دوستی کے خواہش مند اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی خامیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ اے دلکش کوہستانی علاقے کے والی! جہاں اونچے پہاڑوں سے دھواں دھار آبشار گرتے ہیں۔ کیا نیک کام کرنے والوں کو بھی دوستوں کی کمی ہوئی ہے؟

v             اگر تمھارا جسم بھوک کے مارے بہت کمزور ہوجائے تو بھی اپنی بھوک کا ذکر ان سے نہ کرو جو انسانی ہمدردی کی خوبیوں سے عاری ہوں لیکن جن لوگوں میں برداشت کی طاقت نہ ہو تو وہ اپنے افلاس کا ذکر ان لوگوں سے کرسکتے ہیں جو ان کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔

v             جہاں گناہوں سے لذت حاصل ہو وہاں مصیبت بھی سر پر آسکتی ہے۔ اے لذت کی خواہش کرنے والے اگر لذت دیر پا بھی نظر آئے تو— اے اونچے آبشاروں والے ملک کے والی!— وہ ذہنی طرزِ عمل بہتر ہے جو گناہوں سے پاک ہو۔

v             چاہے تمھیں خود نقصان اٹھانا پڑے مگر پھر بھی قابل آدمیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ سوچو۔ اگر تمھارا جسم کمزور ہوجائے تو بھی کسی نالائق کے ہاتھو ںکا دیا ہوا نہ کھاؤ۔ اگر چاہے تمھیں وہ ساری زمین مل جائے جس پر آسمان چھایا ہوا ہے تو بھی سچ میں جھوٹ ملا کر کوئی بات نہ کہو۔

n

ماخذ:نالاڈیار (کلاسیکی تامل شلوکوں کا مجموعہ)، مترجم: غازی حمیداللہ خاں، دوسرا ایڈیشن: 2003، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...