8/5/25

رامائن کا ایک مترجم، شنکر دیال فرحت لکھنوی، مضمون نگار: افتخار احمد

 اردو دنیا، فروری  2025

رامائن ایک مقدس کتاب ہے۔قدیم ہندوستانی تہذیب و تمدن،ثقافت و مذہب کی شناخت اور اس سے جڑے ہوئے اہم سوالات کی ترسیل کا خوبصورت وسیلہ ہے۔اس کتاب کی شہرت صرف ہندو مت سے انسلاک کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے کہانی یا کتھا کی صورت میں مختلف موقعوں پر سنایا جاتا ہے اور اس سے جڑی باتوں کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب کی شہرت کی وجہ اس میں موجود مذہبی مواد کے علاوہ ادب اور فن بھی ہے۔ کسی نے اس کتاب کو بطور کہانی پیش کیا تو کسی نے رزمیہ نظموں کے خدو خال میں اسے جانچا اور پرکھا ہے۔گیتا، اوپنیشد اور مہابھارت کی طرح سناتن دھرم میں رامائن کا پڑھنا، سننا اورسنانا نیز اس کا پاٹھ کرنا وغیرہ، روحانی ترقی کا ضامن اورشری رام جی سے بے پناہ دلی محبت کاپر تیک مانا جاتا ہے۔ بیشتر اہلِ ہنود کے گھروں میں رامائن موجود ہوتا ہے۔یہ کتاب سنسکرت میںہے لیکن اس کے تراجم ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں دستیاب ہیں اور لوگ اپنی سہولت اور زبان دانی کے لحاظ سے اس کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ جس طرح تراجم میں فرق ہے ٹھیک اسی طرح اس کی بہت سی کہانیوں میں بھی واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف ادوار میں کہانیوں کے باز گو حضرت یا نقل کرنے والوں نے کہانیوں کی صحت کا خیال نہیں رکھا۔ رامائن کے نسخوں کی ترتیب و تدوین کے وقت تحقیقی اصولوں کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔ بالمیکی جی نے 30 ماقبل مسیح رامائن سنسکرت زبان میں لکھ دی تھی اس کے باوجود تلسی داس نے رام چندر جی کی حیات کو اپنے انداز میںقلمبند کیا ہے۔تلسی اور بالمیکی کے علاوہ دیگر دانشوروں نے بھی اپنی اپنی زبانوں میں رامائن نظم کیا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف اشخاص  کے ذریعے منظوم یا منثور رامائن لکھے جانے کی وجہ سے کئی بنیادی اختلافات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

رامائن ہندوؤں کی اہم مقدس کتابوں میں ایک ہے۔مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی علم دوستی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔رامائن کا ترجمہ اس سلسلے کی بہترین کڑی ہے جن کی بدولت رامائن ترجمے کی شکل میں دنیا کے دیگر حصوں میں پہنچا۔ رامائن کے کئی تراجم فارسی زبان میں موجود ہیں۔ عبد القادر بدایونی کو فارسی زبان کا پہلا رامائینی مترجم سمجھا جاتا ہے۔ منشی پر میسوری سہائے سرور لالہ نے1891میں بعنوان وظیفۃ الفیضی منظوم ترجمہ کیا۔ مکمل ترین رامائن کا نثری ترجمہ امر سنگھ نے اورنگ زیب کے آخری عہد میں انجام دیا۔ اس کے علاوہ گوپال فرزند سری گوبند، چندر من کایتہ مدھو پوری، لالہ امانت رائے  لالپوری، منشی رام داس، مکھن لال ظفر، منشی جگن کشور فیروز آبادی، منشی بانکے لال زار، ہر بلبھ سیتا، عشرت کرن، لالہ چندا مل چاند، منشی ہر لال رسو، رائے مہادیو دریا بادی، آنند کہن خوش، ترکی نور محلّی اور گوہر داس وغیرہ نے فارسی زبان میں رامائنی داستانوں کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان میں سے بیشتر مصنّفین کو مسلم بادشاہوں، نوابوں، اور زمینداروں کی سر پرستی حاصل تھی۔ اس کے بعد کئی تراجم عالم وجود میں آئے ان میں کچھ ضائع ہوئے تو کچھ ناقص حالت میں ہی رہ گئے۔فارسی تراجم میں مسیح پانی پتی کا ترجمہ بہتر مانا جاتا ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔ہندوستان میں جب اردو زبان کو ترقی حاصل ہوئی تو اس زبان کے ادبا و شعرا نے بھی رامائن کے منثور و منظوم تراجم پیش کیے۔ ان مترجمین میں منشی دوارکا پر شاد کا ـ’رامائن یک قافیہ‘، حکیم وائسرائے وہمی کا ’رامائن منظوم تُلسی کرت‘، پریم پال اشک کا ’رامائن منظوم‘، نفیس خلیلی کا ’منظوم رامائن ‘، منشی گوری شنکر کا ’رامائن منظوم‘، رائے سدھ ناتھ فراقی کا ’بالمیکی رامائین منظوم‘، جگیشور ناتھ بیتاب بریلوی کا منظوم راماین ’امر کہانی‘، لالہ نانک چند صاحب کھتری کا ’رامائن بعنوان مطلع نور یعنی فروغ اودھ‘ اورشنکر دیال فرحت لکھنوی کا ’رامائن نظم اردو حرف حرف مطابق تلسی کرت ‘ وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

منشی شنکر دیال فرحت لکھنوی کا تعلق کائستھ خاندان سے تھا جو 1844 میں پیدا ہوئے۔ان کے والد منشی پورن کائستھ سکسینہ چند برسوں لکھنؤ کے نوابوں کے دربار سے وابستہ رہے اور فن شاعری کو مستفیض کرتے رہے اور انھیں جواہر سنگھ کی شاگردی حاصل تھی۔ ان  کے آباو اجداد قانون گو رہے تھے۔ بڑا پڑھا لکھا خاندان تھا۔ ان کے والد صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ نوابوں کے دربار میں کئی عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے تھے۔ منشی شنکر دیال فرحت کو اردو، فارسی،ہندی پر دسترس حاصل تھی اور انگریزی زبان کی خوب واقفیت تھی۔وہ بڑے ہی ذہین و فطین واقع ہوئے تھے، شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ علم و ادب کے دلدادہ تھے یہی وجہ ہے کہ امریکن مشن لکھنؤ میں منصری کے عہدے پر فائز مطبع سنگی کے کام کاج دیکھا کرتے تھے۔ فرحت کے شاگردوں کی تعداد بہت ہے جن میں منشی رام سہائے تمنا اور منشی دوارکا پرشاد افق وغیرہ کو شہرت دوام حاصل ہے۔

فرحت نے تلسی کی لکھی ہوئی رامائن کا منظوم ترجمہ 1866 میں کیا جس کے حوالے سے آگے باتیں ہونی ہیں۔ اس کے علاوہ  انھوں نے شیو پرُان،پریم ساگر، جانکی بجیٔ، گنیش پُران،گوری منگل، پدم پُران، اُو بھت رامائن، مکت چالیسا، ویشنو سہسر وغیرہ جیسی مذہبی تصنیفات کا  اردو ترجمہ بھکتی کی چاشنی میں ڈوب کر کیا جو ان کی شہرت اور بلند عظمت کے وسیلے ثابت ہوئے۔ ہندو مذہب کی ترویج و ترقی میں ان کی حصے داری تا قیامت قائم رہے گی۔ان کتابوں کے تراجم کی مذہبی اہمیت اپنی جگہ لیکن اردو زبان و ادب کے شعری سرمایے میں ایک اضافہ ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اردو ادب کی بے لوث خدمت کی اور اپنی فکری صلاحیت کو اشعار میں ڈھالا کیونکہ وہ ایک پر گو شاعر تھے۔وہ خود ایک ہندو تھے لہٰذا، ان کے یہاں اس بات کی کوشش کارفرما رہی کہ ترجمے کے قالب میں مذہب کی اصل روح کو منتقل کر سکیں۔زبان کی لطافت اور شیرینی کمال کے درجے پر ہے۔ روانی و برجستگی شفاف پانی کے دھاروں کا روپ لیے کھڑی ہے۔زبان میںفصاحت و بلاغت کا موجِ تلاطم ہے۔ ترجمے میں مشکل الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا ہے۔ پُر پیچ تراکیب سے نظریںچراتے ہیں۔ ادق اور بھاری بھرکم لفظیات سے دامن بچاتے ہیں۔چونکہ انھوں نے زبان کو ادق اور بھاری بھرکم الفاظ و تراکیب سے آزاد رکھا ہے جس کی وجہ ہے کہ قاری ترجمے کی قرأت کے دوران اصل کی چاشنی میں گم، بلا اٹکے، کھٹکے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ رامائن کے ترجمے کا آغاز بہت ہی خوبصورت ہے۔شری گنیش اوم نمہ کا عنوان لگا گر رام چندر جی کی تعریف و توصیف بیان کی ہے اور انھیں یوں منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے        ؎

زباں پر ہر نفس ہے رام کا نام

نمو را م  و نمو رام و نمو رام

دوئی سے دور یکتا ہے وہی ذات

وجودِ جود و احسان و کرامات

وہی گم ہے وہی ہے آشکارا

وہی مردم  کی عین آنکھوں کا تارا

کرے گر مثل صندل جبہ سائی

تو ہو اوس گُل میں بوئے آشنائی

کہاں انساں کہاں وہ ذات اقدس

وہ دریائے رواں یہ صورت خس

 

(ص2)

اس کے بعد اس نے اپنے اشعار میںرا مائن کے تمام مصنفین کو یاد کیا ہے۔ پھرصحرا کا واقعہ نظم کیا ہے اور رام کا امتحانات سے گزرنے کا واقعہ ہے جو نہایت خوش اسلوبی سے نظم کیا گیا ہے۔بالمیکی رامائن اور تلسی  داس کی کتھاؤں میں فرق ہے لیکن مر کزی خیال ایک ہی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایودھیا کے راجہ دشرتھ کی پہلی بیوی رانی کو شلیا کے بطن سے رام کی پیدائش ہوئی تھی۔یہ چار بھائی تھے جن میں رام و لچھمن اور بھرت و شتروگھن کو جوڑے کی شکل میں ساتھ رہتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک دن ایک رشی وشوا متر راجہ دشرتھ کے دربار میں یہ شکایت لے کر آیا کہ آشرم میں راکھشس اسے تکلیف پہنچاتے ہیں۔ راکھشس کے وجود کے تعلق سے باتیں ہوئیں جن کا راجہ راون تھا جو کہ لنکاپر راج کرتا تھا اوراس کے پاس راکھشسوں کی فوج تھی جوعام انسانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔وشوا متردر اصل وہ ان راکھشسوں کو سزا دلوانا چاہتے تھے اور اسی غرض سے وہ رام کو لے کر سفر پر نکلے۔اس واقعہ کو نظم کرنے میں فرحت کا قلم منظر نگاری کا جادو جگاتاہے۔اشعاردیکھیں   ؎

جنابِ رام ادھر بھی سایۂ فیض

ہم ہو سر بسر سرمایۂ فیض

بہار لالۂ خود رو عجب تھی

نگاہِ نرگسِ شہلا غضب تھی

بچھا صحرا میں فرشِ سبزۂ تر

رواں ہر سو نسیمِ روح پرور

ہوئی رونق فضا آکر جو بن میں

بہار جاوداں آئی چمن میں

کہیں پر ایک دشت خوشنما تھا

وسیع و دلپسند و دلکشا تھا

 

(ص10)

 کئی دنوں تک سفر کرنے کے بعد اثنائے راہ ’تاڑکا‘ نامی راکھشس کو رام نے تیر مار کر ہلاک کیا اور اس طرح رشی وشوامتر اور دونوں راج کمار متھلا سلطنت کے شہر جنک پور پہنچے جہاں کا راجہ صوفی منش ’جنک ‘تھا اور ان کی ایک راجکماری تھی۔ اُن کا نام سیتا تھا۔ وہ بہت ہی خوبصورت تھی اور قرب و جوار کے شہزادے ان سے بیاہ رچانے کے خواہاں تھے۔آخر میںسیتا سے بیاہ رچانے کی شرط یہ ٹھہری کہ طالب کو دھنش اُٹھا کر خود کو بلوان ثابت کرنا ہوگا۔ آس پاس کے شہزادے دھنک اُٹھانے سے عاجز تھے لیکن رام نے زور و بل لگائے بغیر دھنش کو ایسے اٹھا لیا جیسے سوکھی لکڑی ہو۔ راجہ جنک اور جانکی کے تعلق سے بھی واقعات نظم ہوئے ہیں۔ شہر جنک پور کا نقشہ عمدگی سے کھینچا گیا ہے۔ رام اور سیتا کے حوالے سے جو واقعات نظم ہوئے ہیں بہت ہی شائستہ ہیں۔ دربار کا آراستہ ہونا اور رام و لکشمن کا وہاں براجمان ہونا۔رام کادھنش توڑنا، اشخاص کاانگشت بدنداں ہونا۔ایک مہیب آواز کا گونجنا۔ پرندوں کا خوف زدہ ہوکر محوِ پرواز ہونا۔ چرندوں کا اس ہنگامی صورتِ حال کے تحت دبک کر بیٹھ جانا۔ طلسم کے  ٹوٹتے ہی چہار طرف سے آفرین کی صداؤں کا بلند ہونا وغیرہ شاعری کی توقیر میں چار چاند لگاتے ہیں۔ یہاں دیکھیے کہ منظر نگاری میں فرحت کا قلم کس قدر مشّاق ہے   ؎

دھنک کو توڑ کر  پھینکا  زمیں پر

اندھیرا چھا گیا عرشِ بریں پر

مہِ خورشید پر زردی سی چھائی

قمر کے منہ پہ اڑتی تھی ہوائی

درندے دب رہے سب جی چھپا کر

پرندے اڑ گئے اوج ہوا پر

بدن میں دیوتا پھولے جزو کل

تو کی اوجِ فلک سے بارش گل

بہ ہمراہ جلیسا حسب آئیں

جنابِ جانکی محفل میں آئیں

جناب رام کے قریب آکے فی الحال

پہنادی  بھول کر  پھولوں کی جے مال

دھنک کا ہوگیا مضموں سب انجام

بگوشِ دل سنو ذکر سری رام

 

(ص31)

دھنش ٹوٹنے کے بعد راجہ جنک نے راجہ دشرتھ کو خط لکھا جس میں دھنش کے تعلق سے وقوعہ احوال بیان کیے گئے تھے۔بادشاہ نے اپنے مراسلے میں سیتا جی سے رام کے لگن کے متمنی ہوئے اور ساتھ ہی جنک پور کی سرزمین ایودھیا باسیوں کے ساتھ دیگرتمام مہمانوں کی آمد پر استقبال کے لیے چشمِ براہ ہونے کا عزم کیا۔ راجہ دشرتھ نے بھی مراسلے کا جواب بھیج دیااور اپنا وعدہ ایفا کرنے کی تیاری شروع کی    ؎

مجھے اک عہد منظور نظر تھا

جو لوح دل پہ نقش کالحجر تھا

خلائق بیرہ کے پروانے ہوئے جمع

پتنگے  اڑ کے آ پہنچے  پئے شمع

ہر اک نے مقدر آزمائی

سر مو نوس نے جنبش نہ پائی

پئے دیدار لطف محفل عام

ہوئے یاں جلوہ افگن لچھمن و رام

جواب نامہ دے کر حسب دستور

کیا رخصت اودھ سے شاد و مسرور

 

 ( ص33-34)

 راجہ دشرتھ متھلا دیش کی راجدھانی جنک پور آئے۔ رام کی شادی سیتا سے ہوئی۔ رانی کیکئی کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا اجودھیا کے تخت پر بیٹھے لہذا نوکرانی کی باتوں میں آکر اس نے رام کو بن باس ہونے پر مجبور کیا۔ رام نے جنگل کی راہ لی۔ لکشمن اور سیتا جی بھی ان کے ہمراہ تھے۔چتر کورٹ کی پہاڑیوں پر قیام رہا۔ بھرت رام کی تلاش میں جنگل میں آئے، ملاقات کے بعد رام نے بھرت سے جلد لوٹ آنے کا وعدہ کیا اور بھرت کو واپس ایودھیا بھیج دیاتاکہ وہ رام کی واپسی تک سلطنت کے کاموں کو انجام دیتے رہیں۔ ایک دن شری رام اور سیتا اپنی جھونپڑی کے دروازے پر بیٹھے ہوئے پھولوں، درختوں اور پرندوں کو دیکھ رہے تھے کہ جنگل میں ایک راکھشش سنہرا ہرن کا روپ دھارے ان کے سامنے سے گزرا، سیتا کی خواہش پر رام پکڑنے دوڑے،لکشمن نے منع کیا لیکن رام نکل پڑے۔ رام نے ہرن کو تیر مارا مگر وہ ماریچ نامی راکھشس تھا جو راون کے بچھائے ہوئے جال کے مطابق کام کر رہا تھا۔تیر ماریچ کے دل کے پار ہو چلا تھا مرنے سے پہلے اس نے ــ شری رام کی آواز میں ’’آہ سیتا اور آہ لکشمن کی آواز لگا ئی۔ آواز کے سنتے ہی سیتا نے اضطراب کی حالت میں لکشمن کو سخت و سست کہا اور رام کی مدد کو بھیجا۔ لکشمن، رام کی تلاش میں معینہ جگہ سے دور نکل آئے۔دوسری طرف راون نے ایک فقیر کا بھیس بدلا اور سیتا جی کی جھونپڑی کے پاس آپہنچا اور سیتا جی کو لکشمن ریکھا سے باہر نکل کر بھکچھا دینے پر مجبور کیا۔ سیتا جی اکیلی تھیں جونہی انھوں نے لکشمن ریکھا عبور کیا،راون نے سیتا جی کو زبردستی پشپک رتھ میں ڈالا اور لنکا لے گیا۔

سیتا جی کو پشپک لیے اڑتا رہا اور وہ مدد کو پکارتی رہیں۔ جٹا یو نامی پرندے نے مدد کی کوشش کی لیکن وہ راون کے تیر کا شکار ہوا۔ سیتا  راہ میں اپنے زیور پھینکتی رہیں تاکہ رہائی کے لیے نشان راہ بنے۔ رام کی ملاقات لکشمن سے ہوئی اور دونوں نے خدشات کا اظہار کیا اور سیتا کی طرف دوڑ پڑے۔ یہاں جھونپڑی خالی دیکھ کر ماتھا ٹھنکا اور سیتا کی جستجو میں جنگلوں میں گھومتے اور آوازیں لگاتے رہے۔اثنائے راہ جٹایو نامی زخمی پرندے سے ملاقات ہوئی اور اس نے صحیح صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ رشیوں کے مشورے پر رشیہ مُوک پہاڑی پر پہنچے۔رام کو سیتا جی کے زیورات ملے۔سمپانی نامی ایک سمندری پرندے نے بانروں کو بتایا کہ راون پشپک رتھ میں بزور بازو ایک عورت کو بٹھا کر لنکا کے جزیرے کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہنومان لنکا پہنچا اور سیتا سے ملاقات کی اور انھیں اطمینان دلایا اور مزید خاطر جمع رکھنے کی تاکید کے ساتھ رام کی انگوٹھی نشانی کے طور پر دیکھائی۔ ہنومان نے رہائی کی پیشکش کی لیکن سیتا چاہتی تھی کہ رام خود آکر اس بے عزتی کا بدلہ راون سے لے اور اسے آزاد کروائے۔ہنومان  لنکا سے واپس ہوا اور رام کے ساتھ مل کر بندروں کی فوج بنائی اور سیتا کی رہائی کے لیے لنکا پر حملہ آور ہوااور میدان کار زار میں راون کو شکست فاش دی۔ یہاں فرحت کا قلم جنگ کا نقشہ کھینچنے پر خوب قادر ہے۔ جنگی لوازمات میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی اس کی نظر ہے۔ما فوق الفطرت داستانوں کی جنگ بھی غیر معمولی ہوا کرتی ہے۔بہت سی باتیں انسانی عقل کی رسائی سے پرے ہوتی ہیں، اس کے باوجود جس طرح سے اس جنگ کو نظم کیا گیا ہے قابل ستائش ہے۔راون کی پہلی شکست کا منظر  دیکھیں           ؎

ثوابت ہا شکست فاش پائی

پھری خورشید اعظم کی دُہائی

پریشاں مضطر و ناکام و د لگیر

ہراسانی کا نقشہ غم کی تصویر

قدم ہو رزم گہ میں لاکھ من کا

عوض لیتا ہے چل کر کمبہ کرن کا

سُنا جب شہِ راون کا ارشاد

ہوئے لیس افسران فتنۂ ایجاد

ہزاروں گرز بردارانِ پر  جوش

ہزاروں شہسوارانِ زرہ پوش

کیے تاجِ جواہر زینتِ سر

لیے گرزِ گراں و تیر خنجر

کہیں گرجا کہیں تڑپا تعب سے

کہیں ضیغم صفت گونجا غضب سے

کہیں چمکائی شمشیرِ شرر ریز

کسی پر آب خنجر کو کیا تیز

شکست فاش جب راون نے پائی

پریشانی سے سر پر خاک اُڑائی

 

(ص121-126)

 رام نے سلطنت لنکیشور کو تباہ و برباد کیا اور تزک و احتشام کے ساتھ سیتاجی کو لے کر ایودھیا لوٹے۔ فرحت نے ایک ایک واقعہ باریک بینی سے بیان کیا ہے۔وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بیان کرنے پر قادر ہیں۔ جہاں جوش و ولولہ ہے وہاں متناسب لفظیات لائی گئی ہیں۔سیتا کی غمزدہ دنیا کی منظر کشی اس قدر متاثر کن ہے کہ معمولی انسان بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔تشبیہات و استعارات کا عمدہ التزام اشعار میں کیف کا تلاطم پیش کرتا ہے۔محاکاتِ شعری کو بروئے کار لاکر تراجم میں سچی جان ڈال دی ہے۔محاورات کا بر محل استعمال ملتا ہے۔فرحت نے رامائن کاخاتمہ نہایت ہی شاندار طریقے سے کیا ہے رام کی ایودھیا میں واپسی،وہاں کے طرب و خوشی کے مناظر یوں نظم کیے ہیں کہ عمدہ مصوری کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے اور قارئین اپنے آپ کو ماضی میں کھڑا ہواپاتے ہیں         ؎

جنابِ رام لچھمن کا کرم ہو

سیا جی کی عنایت دم بدم ہو

اجودھیا میں یکا یک مچ گئی دھوم

بدن میں  پھول اُٹھے سب پیر و معصوم

خبر یہ آمد آمد کی جو پائی

چلے سب گھر سے بہرِ پیشوائی

ہوئے سب فیض مقدم سے شجر سبز

معطر تازہ و سیراب و سر سبز

برای حاصلِ نظارۂ رام

ہوا کوسوں تلک ایک مجمع عام

اُٹھے خوابِ لطافت سے سری رام

ہوئے زینت فزائے محفلِ عام

رکھا دی سیم سلطانی کو سر پر

ہوئے زینت فزا اورنگ زر پر

جنابِ رام نے با خاطر شاد

نئے سرے سے کیا خلقت کو آباد

بڑھائی رونقِ دربار شاہی

ہوئے مصروف کاروبار شاہی 

 

(ص131-33)

مختصر یہ کہ جتنے رامائنی منظومات اردو اور فارسی ادب میں موجود ہیں ان میں فرحت کا ترجمہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ ان نسخوں کو دوبارہ تدوین کرنے کی ضرورت ہے۔بیشتر ترجموں کی زبان سادہ اور سلیس ہے لیکن قدیم املا اور ہجے کی وجہ سے قاری کہیں کہیں دشواریوں کا شکار ہوتا ہے۔ منظوم اور منثور ترجموں میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ منظوم ترجموں میں شاعری میں زور بیان پیدا کرنے کی کوشش کے سبب، نگاہ اصل کہانی سے ہٹ جاتی ہے اور یہی وہ خاص نقطہ ہے جو بیشتر منظوم رامائنی ترجموں میں پایا جاتا ہے۔ گرچہ فرحت نے ترجمے کے آغاز میں ہی لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کا دعویٰ ثبوت بہم نہیں پہنچاتا اس کے باوجود اس ترجمے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔

منابع

.1            رامائن منظومہ، منشی شنکر دیال فرحت، مطبع نول کشور کانپور، 1881

.2            اردو شاعری کے ارتقا میں ہندو شعرا کا حصہ، (ص471)گنپت سہائے سریواستو، برج باسی لال گوڑ، بادشاہی منڈی، الہ آباد، 1969

 

Dr. Iftekhar Ahmed

Associate Professor, Department of Persian

& Central Asian Studies, School of Languages

Linguistics & Indology, MANUU

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 9433114692

kazimdu@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...