9/5/25

طوطی ہند امیر خسرو کی شخصیت اور شاعری، مضمون نگار: حامد اشرف

 اردو دنیا، فروری 2025

گزشتہ 700 برسوں کی تاریخ میں فارسی، ہندی ، عربی، سنسکرت اور بھاشا کا جید عالم، بے مثل شاعر، نامور ادیب اورماہر ِ موسیقارِ امیر خسرو ہیں۔ غزل،  مثنوی، قصیدہ ، قطعہ ،رباعی ،قوالی ،ترانہ ،دوہا ،ڈھکوسلہ اورکہہ مکرنی جیسی شعری اصناف کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ انھوں نے امتزاج سے موسیقی کی دنیا کو رنگین اور دلکش بنایا۔نئی دھنیں اورنئے راگ ایجادکر کے عشق و محبت اور سوز وگداز کے حامل انسانوں کی دل کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔امیر خسرو کو قوالی کا ’ باوا آدم ‘ کہا جاتا ہے۔ عشق مجازی اور عشق حقیقی،دونوں میں امیر خسرو اپنی مثال آپ ہیں۔

ابوالحسن لقب، نام یمین الدین اور امیر خسرو عرفیت ہے۔ 651 ھ موافق 1253 میں قصبہ پٹیالی ضلع ایٹہ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ 72سال کی عمر میں 725 ھ موافق 1325بمقام دہلی وفات پائی۔ (1)حضرت خواجہ نظام الدین اولیا( دہلوی )کے چہیتے مرید تھے۔

آٹھ برس کی عمر میں ہی امیر خسرو یتیم ہو گئے۔ ان کی کفالت، تعلیم و تربیت کی ذمے داری ان کے نانا نے بحسن و خوبی انجام دی۔ غیاث الدین بلبن کے دور ِ حکومت میںامیر خسرو کے نانا کا شمار سلطنت کے چار اہم ستونوں میںہوتا تھا۔ درباری آداب ولوازمات ، نشست و برخاست، گفت و شنید اور امارت و ثروت کا ماحول جو بادشاہوں اور بڑے بڑے امرا کا تھا، اسی ماحول میں امیر خسرو کی پرورش ہوئی۔بچپن سے ہی انھیں علم و ادب اور موسیقی سے بھری محفلوں کا ماحول ملا۔ نانا نے کبھی انہیں باپ کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ آگے چل کر امیر خسرو نے مذہب، تصوف، فقہ، علم نجوم، ہیئت، صرف و نحو، خطاطی اور خوش نویسی میں مہارت حاصل کر لی اور اردو ؍ ہندی کے پہلے شاعر بنے۔ موسیقی کی کئی دھنوں،پہیلیوں، دوہوں اور گیتوں کے خالق ہیں اور ان کی تحریریں لوک ادب کا حصہ بن گئی ہیں۔  موسیقی کے لطیف فن پر جب  انھوں نے توجہ کی تو اس کو آسمان پر پہنچایا۔ستار اور طبلے کی ایجاد کا سہرہ انہی کے سر ہے۔ انھوں نے ستار میں ایک تار کا اضافہ کیا اور بے شمار راگ ایجاد کیے۔شبلی نعمانی کے مطابق وہ موسیقی کے ’ نایک‘ ہیں اور دربار ِ اکبری کے تان سین سے زیادہ  بڑے موسیقار ہیں۔

امیر خسرو کی ملازمت کا آغاز سلطان غیاث الدین بلبن کے امیر کشلو خان عرف چھجو خان کی ملازمت سے ہوا۔بعد میں بغرا خان(شہزادہ غیاث الدین بلبن) کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ایک ترک غلام کی بنگال میں ہوئی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے بغرا خان اپنے ساتھ امیر خسرو کو بھی لے گئے اور بغاوت فرو کی۔بلبن نے بغرا خان کو بنگال کا حاکم مقرر کیا۔  بغرا خان چاہتا تھا کہ امیر خسرو وہیں بنگال میں رہیں، مگر امیر خسرو کا وہاں دل نہیں لگا۔ وہ اپنی ماں اور دہلی سے بہت محبت کرتے تھے۔چناں چہ وہ واپس آ گئے۔کچھ عرصے بعد بلبن کے بڑے بیٹے سلطان محمود( حاکم ملتان) کے ساتھ ملتان گئے۔پانچ سال وہاں رہے۔1284میں سلطان محمودتاتاریوںسے جنگ کرتے ہوئے مارا گیا۔امیر خسرو کو بھی گرفتار کیا گیا۔قریب دو سال وہ تاتاریوں کی قیدمیں رہے۔ اس دوران انہوںنے نہایت پر درد مرثیے لکھے اور دہلی بھیجے۔ان مرثیوں کے اشعار مہینوں تک لوگ گھر گھر پڑھتے اور اپنے مقتول عزیزوں کا ماتم کرتے۔ سلطان محمود پر لکھا ہوا مرثیہ سن کر دہلی والوں کے ہوش اڑ گئے۔غیاث الدین بلبن اس قدر رویا کہ اس کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ اسی صدمے میںانتقال کر گیا۔دہلی آنے کے بعد امیر خسرو سلطان کیقباد کے دربار سے بحیثیت ملک الشعرا وابستہ ہوئے۔ پھر جلال الدین فیروز خلجی اور اس کے بعد 21 برس علاء الدین خلجی کے دربار سے منسلک رہے۔بعد ازاں علاء الدین خلجی کے جا نشیں قطب الدین مبارک خلجی کا  زمانہ دیکھا۔جب خلجی خاندان کا خاتمہ ہوا تو غیاث الدین تغلق بادشاہ بنا۔ دوسرے بادشاہوں کی طرح اس نے بھی امیر خسرو کی قدر دانی کی۔ امیر خسرو نے دو قصیدے محمد تغلق کی مدح میں لکھے۔

امیر خسرو نے اپنے دیوان ’غرۃ الکمال‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ’’ میرے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے کہ میں نے شعر گوئی کی ابتدا کی۔ ‘‘2؎  ایک اور دیوان ’ تحفت الصغر ‘ کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ جب سن ِ تمیز کو پہنچے تو مکتب میں داخل کیے گئے۔ جہاں ان کے استاد قاضی سعد الدین ان کو خطاطی سکھانے میں ان کی پیٹھ پر درّے لگاتے، لیکن ان کے سر پر زلف پیچاں ( شعر گوئی ) کی دھن سوار تھی۔چنانچہ 20 برس کی عمر میں امیر خسرو نے اپنا پہلا دیوان’تحفت الصغر‘  مرتب  کیا۔  ایجاد و اختراع کی جانب ان کا ذہن بچپن سے مائل تھا۔ ان کی حاضر جوابی اور مترنم آوازسے ان کے دور کے سلاطین،ٗ امرا و عمائدین بہت متاثر ہوئے۔ امیر خسرو نے پہلے ’سلطانی ‘ تخلص اختیار کیا۔ بعد میں ’خسرو ‘ اختیار کیا۔انہوں نے 72 برس کی طویل عمر پائی اور گیارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ درباری شاعر بنے۔ شہزادوں کے استاد رہے۔ زمانے کی تلخیاں بھی برداشت کیں اور ناز و نعمتیں بھی ان کا مقدر بنیں۔  بغرا خان نے امیر خسرو کی شاعری سن کرکشتی بھر کر روپیہ پیسہ دیا۔ سلطان جلال الدین عارض نے معقول مشاہرہ مقرر کیا۔ اپنا لباس عنایت کیا۔ندیم ِ خاص بنایا۔مصحف داری کا عہدہ دیا اور ’ امیر‘ کا خطاب عطا کیا۔سلطان علاؤ الدین خلجی نے امیر خسرو کوسالانہ ایک ہزار تنکہ مقرر کیا تھا اور ایک قصیدہ لکھنے پر ایک گائوں بطور انعام دیا۔قطب الدین مبارک بن علاؤ الدین خلجی نے مثنوی ’نہ سپہر‘ لکھنے پر ہاتھی برابر تول کر روپے پیسے دیے۔ تذکرہ نویسوں کے مطابق امیر خسرو کے فارسی اشعار کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے انھیں ’سلطان الشعراٗ برہان الفضلا اور شاعری میں ’یگانہ ٔ عالم ‘ کے القاب سے یاد کیا ہے۔حضرت سعدی شیرازی، ملا عبدالقادر بدایونی اور ضیاء الدین برنی جیسے اہل علم نے امیر خسرو کے کمالات ِ شاعری پر تحسین پیش کی ہے۔ مولانا جامی نے بتایا کہ ’خمسہ ٔ نظامی ‘ کا اگر کہیں جواب ملتا ہے تو وہ خسرو کی مثنویوں میں ہے۔دولت شاہ سمر قندی نے اپنے ’تذکرہ‘میں امیر خسرو کو ’ خاتم الکلام فی آخر الزماں ‘ اور ’دُرّ دریائے معنیٰ‘ کہا ہے۔

 محمد قدرت اللہ گویاموی نے ’تذکرہ نتائج الافکار‘ میں امیر خسرو کی شیریں بیانی کا ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک روزامیر خسرو نے اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیا کی خدمت میں ایک قصیدہ پڑھا۔مرشد قبلہ کو قصیدہ بہت پسند آیا۔پوچھا کہ کیا انعام چاہتے ہو؟۔امیر خسرو نے کہا مجھے شیرینیِ کلام عطا ہو جائے۔حضرت شیخ نے فرمایا۔میرے پلنگ کے نیچے شکر سے بھرا ہوا ایک برتن ہے۔ اسے اپنے سر پر انڈیل لو اور اس میں سے تھوڑی شکر حلق میں ڈال لو۔خسرو نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔محمد قدرت اللہ گوپاموی لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد امیر خسرو کے کلام میں شیرینی،  فنکاری،  خوش اسلوبی اور حسن آرائی کا اضافہ ہوا۔

مولانا آزاد بلگرامی نے امیر خسرو کو شاعری میں معاملہ بندی کا موجد قرار دیا ہے۔مولانا الطاف حسین حالی نے امیر خسرو کو غزل کے علاوہ دیگر اصنافِ سخن میں سعدی شیرازی سے بہتر قرار دیا ہے اور غزل گوئی میں انھیں سعدی کا پیرو بتایا ہے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ’حیات ِ خسرو‘ کی تقریظ میں تحریر کیا ہے کہ :

’’اس سر زمین سے حضرت امیر خسرو جیسا صاحب ِ ذوق ذی کمال و جامع صفات شخص اب تک پیدا نہیں ہوا۔ وہ فارسی کے نہایت بلند پایہ شاعر ہیں۔ استاد ِغزل سعدی مانے ہوئے ہیں۔لیکن اگر کسی کو ان کی ہمسری کا دعویٰ ہو سکتا ہے تو وہ حضرت امیر خسرو ہیں۔ان کے کلام کی فصاحت ٗ روانی اور خاص کر سوز و گداز جس میں تصوف کی چاشنی بھی شامل ہے ٗ اپنا جواب نہیں رکھتی۔ یوں تو سب اہلِ زبان کو اپنی ہی زبان کا غرّہ ہوتا ہے ٗ لیکن اہلِ ایران اس معاملے میں بطور ِخاص ممتاز ہیں۔ وہ کسی غیر ایرانی کے کلام کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن حضرت امیر خسرو کے سامنے انہیں بھی جھکنا پڑا۔‘‘3

امیر خسرو کی فنکارانہ صلاحیتوں کا معترف تو سارا زمانہ ہے۔ انھوں نے شعری ذوق کی آبیاری میں اپنا خون ِ جگر صرف کیااور خدادادذہانت و فطانت سے پوری ایشیائی شاعری کا دامن وسیع کر دیا۔ امیر خسرو کی زبان میں حلاوت تھی،  محاورہ اور روزمرہ پر عبور اور کلام کی روانی اور دلکشی دیکھ کر کر لوگ انہیں ’ سعدی ِ ہند ‘اور ’طوطیِ شیریں مقال‘ کہتے تھے۔ ان کا نعتیہ کلام نہایت متاثر کن،  روح افزا اور ایمان پرور ہے۔جس کا مطالعہ خسروکو ادب شناسِ محبت اور رمزگاہ ِ حقیقت ثابت کرتا ہے۔ ان کی شاعری میںفلسفہ اور حکمت کا اظہار اور حسن و عشق کا برملا اظہار پایا جاتا ہے۔ عشق کی راگنی اور حسن کے نغموں سے وہ اپنی شاعری میں رومان بھر دیتے ہیں۔  ان کی فارسی شاعری کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی رقمطراز ہیں:

’’ایران میں جس قدر شعرا گزرے ہیں، خاص خاص اصناف ِ شاعری میںکمال رکھتے تھے۔ مثلاً فردوسی، نظامی مثنوی میں،  انوری اور کمال قصائد میں،  سعدی اور حافظ غزل میں۔یہی لوگ جب دوسری صنف میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے امیر خسرو قصائد، مثنوی، غزل تینوں میں ایک درجہ رکھتے ہیں۔مثنوی میں نظامی کے بعد آج تک ان کا جواب نہیں ہوا۔غزل میں سعدی کے دوش بدوش ہیں۔قصائد میں ان کی چنداں شہرت نہیں ہوئی ، لیکن کلام موجود ہے۔مقابلہ کر کے دیکھ لو۔کمال اور ظہیر سے ایک قدم پیچھے نہیں۔‘‘4

پانچ فارسی دیوان  تحفۃ الصغر، وسط الحیات، غرۃ الکمال، بقیہ نقیہ، نہایۃ الکمال ایک ہندوی دیوان ’ جواہر ِ خسروی، جملہ10 مثنویاں، قران السیدین، مطلع الانوار،  شیریں خسرو،  لیلیٰ مجنوں،  ہشت بہشت، یہ پورا خمسہ فارسی شاعر نظامی گنجوی کے جواب میں لکھا گیا ہے جو سلطان علاء الدین خلجی کے نام معنون ہے۔جس میں کل اٹھارہ ہزار اشعار ہیں۔یہ خمسہ دو سال کی مدت میں تحریر ہوا ہے۔ مزید پانچ مثنویاں تاج الفتوح،  نُہ سپہر،دول رانی و خضر خان، ساقیانہ، عاشقہ( ہندی مثنوی) ہیں۔ ’افضل الفوائد‘( ملفوظات ٗ حضرت نظام الدین اولیا) ’اعجاز ِ خسروی‘ ( تین جلدوں میں ہے۔ نثر نویسی اور قواعد کے اصول اور سیکڑوں صنعتیں اختراع کی گئی ہیں) ’ تغلق نامہ‘ ( غیاث الدین تغلق کے حالات و فتوحات) ’ خزائن الفتوح‘ ( سلطان علاء الدین کی فتوحات) ’قصہ چہار درویش‘ ( پیر و مرشد کی بیماری کے دوران تفریحِ طبع کے لیے تحریر کیا گیا) ’مناقب ہند‘، تاریخ ِ ہند) اور ’خالق ِ باری (فارسی اور ہندی دیوان کی لغت)‘  قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ فن ِ حساب اور فن موسیقی پر بھی امیر خسرو کی تصانیف ملتی ہیں۔

ایرانی شاعر رکن الدین اوحدی کے مطابق امیر خسرو کا جتنا کلام فارسی میں موجود ہے، اسی قدر اردو؍ ہندوی میں بھی لکھا گیا ہے۔لیکن یہ کلام ہمیں دستیاب نہیں ہے۔ دیوان ’جواہر ِ خسروی‘ میں جو اردو؍ ہندوی کلام ملتا ہے وہ بھی فارسی کلام جیسا کیف و مستی کا مظہر ہے۔عشق حقیقی کا آئینہ دار،  تصوف کی چاشنی میںڈوبا ، آدمیت کو انسانیت سے قریب کرنے والا کلام ہے۔ درج ذیل غزل کو زبان ِ ریختہ کی پہلی غزل کہا جاتا ہے۔ جس میں امیر خسرو نے ایک مصرع فارسی میں تو دوسرا ہندوی میں لکھا ہے۔یہ ایک مشہور عشقیہ غزل ہے ٗ جس کی نغمگی اور الفاظ کا درو بست سننے والے کو مدہوش کرتا ہے۔ جسے قوالی کے طور پر بھی گایا جاتا ہے      ؎

زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز ِ وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

ہمارا ملک ہندوستان!  جنت نشان ہے، جس کی مٹی ہمیشہ سونا اُگلتی ہے۔  یہاں کے دریائوں میں مو تی اور پہا ڑ وں میںکوہ ِ نور پا ئے جاتے ہیں۔ اس ملک کے کو نے کو نے میںزعفران و صندل کی مہک پا ئی جا تی ہے۔ بالخصوص کشمیر میں چمن کی بہار، گلو ں کا نکھار، سبزے کی مہک،  جھر نوں کی مو سیقی، بل کھا تی وا دیاں، برف پوش پہا ڑیاں، جھو متے لہرا تے درخت، شبنم میں بھیگی،  ا وس کھا ئی فضا ئوں اور آگ لگاتے چناروں کو دیکھ کر حضرت امیر خسرو پکار اٹھے کہ     ؎

اگر فردوس بر روئے زمیں است

ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اسی طرح ان کا ایک اور شعر بھی زبان زد و خاص و عام ہے۔یا یوں کہیے کہ اس شعر کا پہلا مصرع بیشتر عاشق اپنے معشوق کے لیے آج بھی استعمال کرتے ہیں      ؎

زبان ِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم

چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہان ِ من

’’ میرے محبوب کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا ٗ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس کی زبان میرے منہ میں ہوتی۔‘‘

امیر خسرو ایک ایسے شاعر،  مدبر،  فلسفی،  حکیم اور موسیقار ہیں جن کی شہرت ان کے دور ِ جوانی ہی سے پورے ہندوستان بلکہ ایشیائی ممالک تک پھیل گئی تھی۔ ان کے فارسی کلام کے تراجم دنیا کی بیشتر زبانوں میںکیے گئے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ بے شمار سمینار،  ان کی ذات سے متعلق کیے گئے۔ان کی تحریروں کو گایا، سنا اور پڑھا گیا۔ ٹی۔ وی سیریل بنائے گئے۔1975 میں ان کی سات سو سالہ تقریبات منائی گئیں۔ انٹر نیٹ پر امیر خسرو کی شخصیت اور خدماتِ ادب کا ایک خزانہ پایا جاتا ہے۔ جہاں سے چندفارسی اشعارکے ترجمے ملاحظہ ہوں        ؎

من تو شدم تو من شدی ،من تن شدم تو جاں شدی

تا کس نہ گوئد بعد ِ ازیں ، من دیگرم تو دیگری

’’ میںتو بن گیا ہوں اور تومیں بن گیا ہے۔میں جسم ہوں اور تو جاں ہے۔پس اس کے بعد کوئی نہ کہے کہ میں اور ہوںتو اور ہے۔‘‘

نمی دانم کہ منزل بود ٗ شب جائے کہ من بودم

بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود ٗ شب جائے کہ من بودم

’’ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی ٗ جہاں کل رات میں تھا۔ہر طرف رقص ِ بسمل ہو رہا تھا جہاں کل رات میں تھا۔‘‘

پری پیکر نگارے ،سرو قدے،  لالہ رخسارے

سراپا آفتِ  دل بود،  شب جائے کہ من بودم

’’پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا ٗ اس کا قد سرو کی طرح اور رخسار لالہ کی طرح تھے۔وہ سراپا آفت ِ دل تھا ٗ جہاں کل رات میں تھا۔‘‘

امیر خسرو کے ہندوی کلام کی مقبولیت اس لیے ہے کہ انھوں نے دیہاتی اور عام فہم زبان استعمال کی اور زندگی کے ہر دور اور ہر موسم کو اپنے اشعار اور گیتوں کا موضوع بنایا۔برسات کے موسم میں باغوں میں جھولے ڈالنا، موسم بہار کی رنگ رلیاں منانا ٗبیٹی کا باپ کے گھر سے رخصت ہونا، عاشق و معشوق کا بچھڑنا،  جدائی اور برہا کے گیت گانا، دوہے، پہیلیاں بولنا اور ڈھکوسلے کہنا یہ سب قدیم دور کے لوگوں کی زندگی تھی۔ جس کو پوری سچائی اور سوزو گداز کے ساتھ امیر خسرو نے سات آٹھ سو سال پہلے تحریر کیا تھا مگر آج بھی پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا      ؎

کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھی بابل مورے

بھائیوں کو دیے محلے دو محلے ہم کو دیا پردیس

کاہے کو بیاہی بدیس رے

ہم تو ہیں بابل تیرے کھونٹے کی گائیاں

جدھر ہانکو ہنک جائیں

ہم تو ہیںبابل تیرے بیلے کی کلیاں

گھر گھر مانگی جائیں       

ہم تو ہیں بابل تیرے پنجرے کی چڑیاں

               

بھور بھئے اڑ جائیں

کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھی بابل مورے

امیر خسرو نے ایک طرف کھڑی بولی میں عربی،  فارسی اور ترکی کے الفاظ کے استعمال سے ’ریختہ ‘ میں شاعری کی تو دوسری طرف فارسی الفاظ میں برج بھاشا  اور اودھی زبان کے الفاظ کا بہت خوبصورت استعمال کیا۔ جس کی مثال درج ِ ذیل گیتوں میں ملتی ہے       ؎

چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں ملائی کے

اپنی ہی کر لی نی موسے نیناں ملائی کے                            

پریم بھٹی کا مدھوا پلا کر

متوالی کر لی نی موسے نینا ملائی کے

خسرو ںطام کے بل بل جائوں

اپنے ہی رنگ میں رنگ لی نی رے موسے نیناں ملائی کے

سکل بن پھول رہی سرسوں

بن بن پھول رہی سرسوں

امبوا پھوٹے ٹیسو پھولے

کوئل بولے ڈار ڈار

اور گوری کرت سنگھار

ملنیاں گڈھوا لے آئیں کر سوں

سکل بن پھول رہی برسوں

 امیر خسرو کے دوہے بھی بہت اہم ہیں، درج ِ ذیل میں کچھ دوہے ملاحظہ ہوں           ؎

کھیر پکائی جتن سے چرکھا دیا جلا

کتا آیا کھیر کھایا تو بیٹھی ڈھول بجا

خسرو دریا پریم کا ، الٹی واں کی دھار

جو اترا سو ڈوب گیا ، جو ڈوبا سو پار

گوری سووے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیس

 چل خسرو گھر آپنے، رین بھئی چہوں دیس

امیر خسرو نے فارسی زبان میں جوپہیلیاں اور لطیفے تحریر کیے ہیں ان تک ہماری رسائی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ  ہندوی زبان میں قطعات اور ظریفانہ نظمیں بھی ان سے یادگار ہیں ٗ جن پر ابھی تک کوئی خاطر خواہ تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔نیز شاعری کی جو صنعتیں انھوں نے ایجاد کی ہیں اور جو صنائع بدائع پیش کیے ہیں ان پر بھی تحقیقی کام کیا جا سکتا ہے۔ ممتاز حسین نے امیر خسرو کے متعلق لکھا ہے:

’’خسرو کی ہندوی شاعری کا بیشتر حصہ نغز گوئی،  چیستان گوئی، لطیفہ گوئی اور لفظوں کے کھیل تماشے پر مبنی ہے... خسرو ایک درباری، صوفی  اور سپاہی ہی نہیں بلکہ ایک خوش بیان بذلہ سنج، لطیفہ گو، بدیہہ گو  اور ظریف آدمی بھی تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ عاشق مزاج اور عشق باز تھے۔ وہ گائک اور نایک بھی تھے اور ان کی صحبت ڈھاڑی، ڈفالی، سازندوں کے ساتھ بھی رہتی اور وہ صوفیوں، قلندروں، علماو فضلاکے ساتھ بھی رہتے اور شاعروں کے ساتھ بھی۔اُن کو سفر کرنے سے عشق تھا ٗ گوشہ نشینی سے سخت نفرت تھی۔ایسا شخص کہاں کہاں نہیں پہنچا ہوگا۔میخانہ ہو کہ سرا،  طرب گاہ ہو کہ خانقاہ ، ان کا گزر ہر جگہ ہوتا۔ایسی کوئی اور ہشت پہل شخصیت مشکل ہی سے ملے گی۔‘‘5

حواشی

.1            دیوان ِ امیر خسرو: ڈاکٹر نور الحسن، نولکشور بک ڈپو، لکھنؤ 1967، ص 9

.2            امیر خسرو : فرد اور تاریخ۔ معین الدین عقیل، ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان 1997، ص 8

 .3           حیات امیر خسرو : نقی محمد خان،مطبوعہ ٹائمز پریس کراچی، مولفہ نقی محمد خان، ص 3

.4            بیانِ خسرو۔از مولوی شبلی نعمانی، الناظر بک ایجنسی ، لکھنؤ 1914، ص 75

.5              امیر خسرو دہلوی: حیات اور شاعری: پروفیسر ممتاز حسین، ناشر، پاکستان ہیرالڈ لمیٹیڈ کراچی۔ اکتوبر 1975، ص 34 

 

Dr. Hamid Ashraf

Professor & Head Dept of Urdu

Maharashtra udayagiri College (UGPG)

Udgir, Distt: Latur -413517 (Maharashtra)

Mob.: 9423351351

hamidashraf689@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...