13/5/25

فانی بدایونی کی فارسی غزل گوئی، مضمون نگار: نیلوفر حفیظ

 اردو دنیا، فروری، 2025

فانی بدایونی ایسے شاعروں کی فہرست میں سرفہرست ہیں جن کاہمہ کلام خواہ اردو ہو یافارسی، عالم گیر شہرت اور آفاقیت کا حامل قرار دیا جاتارہا ہے اور ہر عہدومکتب فکرکے لوگوں کے لیے مسحور کن، اثر انگیز، لائق تفکراور دلپذیررہا ہے اگر اردوشعر و ادب میں فانی  کے مقام ومرتبے کی بات کی جائے تو وہ ہمیں اس زبان کے ایک بہترین شہ سوار اور فلک ادب کے آفتاب لازوال کی حیثیت سے نظر آئیں گے لیکن یہ بھی ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ اردوادب میں بھی ان کے صحیح مقام و مرتبے کا تعین ابھی تک نہیں کیاجا سکا ہے، زمانے کی ستم ظریفی کا نتیجہ کہویا فانی کی خرابی قسمت کہ آج بھی ان کا بیشتر کلام تشریح طلب اور وضاحت کا متقاضی نظرآتا ہے اردوزبان و ادب میں ان کی بے پناہ شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف تو بے شک کیا گیا ہے لیکن ان کی شاعرکی اصل روح تک رسائی پانے کی جانب کما حقہ توجہ ابھی تک بھی نہیں دی گئی ہے بلکہ ستم بالائے ستم تویہ کہ انھیں شاعر مردم بیزار کہہ کر ان کی ہمہ شاعری کو مرثیہ گوئی پر محمول کرتے ہوئے ادبی و فنی اعتبار سے اس کی قدرو قیمت متعین کرنے کے لیے وہ مساعی جمیلہ اختیار ہی نہیں کی گئیں جو کہ کی جانی چاہیے تھی۔ اس حقیقت کا اعتراف کلرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ فانی بدایونی کے کلام کا بیشتر حصہ رنج و غم، افسردگی وسوگواری، جزن و ملا ل کی کیفیت لیے ہوئے ہے لیکن ان کے دردو کرب کی حدت، جذبات و احساسات کی سوزش، رنج والم کی شدت ،ہجرو فراق کی تکالیف ،پرسوزوپردرد دل کی شررباری، اشک ہائے گرم اور آتش ہائے دروں کی اضطرابی،زمانے کا شکوہ و شکایت اور خرابی قسمت کی کی آہ وزاری وغیرہ ہی ان کی شاعری کی نمایاںخصوصیات ہیں اور یہی وہ انفرادی خصوصیات ہیں جو ان کوروایتی شاعروں کی بھیڑ میں ایک ممتاز اور انفرادی مقام ومرتبہ عطا کرتی ہیں ۔ ہمارا یہ شاعر بزرگ معاصرین شاعروں کی طرح کسی خیالی یا تصوراتی دنیا میں رہ کر غیر حقیقی اور بعید از امکان ،شعرو سخن سے سامعین وقارئین کو ایک جھوٹی اور خیالی دنیا میں سیر کرانے کے بجائے زندگی کے تلخ اور حقیقی صداقتوں سے روبرو کراتاہے تاکہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سربلندی اور شان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ پیدا ہو سکے ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے فانی کی شاعرانہ خصوصیات کے بارے میں بالکل درست فرمایا ہے:

’’...وہ دنیا کے قہقہوں کاکفارہ اپنے آنسوئوں سے ادا کرتا ہے اس کے یہاں کلبہ احزاں، لذت غم، تیرگی شام اور منزل،فناکا نشان شکستہ نمایش نہیں بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق ہیں جن کو شعریت نے اورزیادہ اجاگر کر دیا ہے۔‘‘1

فانی بدایونی کی شاعری میں ان کے اندرونی جذبات و احساسات کی جو حقیقی تصویر کشی پائی جاتی ہے وہ قاری پر ایک متاثر کن بلکہ سحر کن کیفیت طاری کر دیتی ہے ان کا بیان کردہ ہر خیال یا احساس بہ شکل شعر ان کے جذبات ومشاہدات کی صداقت کا آئینہ دار ہے وہ دنیا سے بیزار نہیں بلکہ بے نیاز نظر آتے ہیں ،شعر وسخن سے ان کا مقصد اپنا اخفائے حال ہرگز بھی نہیں ہے،اور نہ ہی انھیںاس دنیائے بے وفا کے لوگوں سے کچھ لینادینا ہے بلکہ ان کا مقصدتو صرف اور صرف اپنی دلی کیفیات اور احساسات کو خودہی سے بیان کرنا اور غم کے بحر بیکراں سے ابھر نے کی ایک کوشش خام اور جہد ناتمام کرناہے، شدت غم میں جو کچھ بھی ان کے دل ناتواں پرجو کچھ بھی گزرتی ہے اس کو ایماندارانہ انداز میں کہہ دینا ہی ان کی شاعری کے شانداروجاندار ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے:

ـ’’...وہ جو کچھ کہتے تھے وہ بہ فحوائے قلندر’’ہر چہ گویددیدہ گوید‘‘اپنے ذاتی تجربات کی بناپر کہتے تھے اور خود محسوس کر کے کہتے تھے...یہ نیا انداز فکر اور یہ انوکھا اسلوب بیان ایک روایتی شاعر کے اختیار سے باہر ہے۔‘‘2

کلیات فانی مرتبہ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی‘ میں فانی بدایونی کی فقط گیارہ فارسی غزلیںاور دو رباعیات ہی درج ہیں لہٰذاان کے اسی مختصر سرمایے کی روشنی میں ان کی فارسی شعر گوئی سے متعلق گفتگو کرنے کی کوشش کررہی ہوں، قسمت نے فانی پرجہاں بے انتہا ظلم کیے وہیں ایک ستم روح فرسایہ بھی کیا تھاکہ ان کا بہت سا اردو فارسی کلام حادثات زمانہ کی نذر ہوکر ضائع ہو گیا اور ان کی برسوں کی محنت خاک میں مل گئی لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی بلکہ تقدیر کے ہر ستم کا مردانہ و ارمقابلہ کرتے رہے اور یہ انھیں کی ہمت وکوشش تھی کہ قسمت کی تمام تر سفاکیت و بربریت اور ظلم وستم کے باوجودبھی اس جریدئہ کائنات پر ہمیشہ کے لیے اپنا نقش دوام ثبت کر گئے پروفیسر عبدالشکور نے ان کے کلام کے متعلق لکھا ہے:

’’افسوس ہے کہ فانی کا بہت سا کلام ضائع ہو گیا، ابتدا میں جو کچھ کہا اور جمع کیا تھا والد بزرگوارنے نذرآتش کر دیا پھر1906 میں دوبارہ کلام جمع کیا وہ چوری ہو گیاآگرہ چھوڑتے وقت سامان کے ساتھ فارسی دیوان بھی ایک کرائے کے مکان میں مقفل کر گئے تھے چنانچہ سامان کے ساتھ دیوان بھی ضائع ہوا مگر با ایں ہمہ جو کچھ چھوڑ اور ان کو حیات دوام بخشنے کے لیے کافی ہے۔‘‘3

بہرحال ان کی چند فارسی غزلیات اور رباعیات کی روشنی میں یہ اندازہ لگانے میں چنداں دشواری محسوس نہیں ہوتی ہے کہ فانی کی اردو شاعری ہی کی طرح ان کی فارسی شاعری بھی ہمارے شاعر کے دل کی صدائے دردناک اور حیات کی تفسیر سوزناک ہے ان کے فارسی مجموعہ غزلیات کو ایک ایسے کاسہ قندونبات سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو اپنی شیرنی و عذوبت کے سبب ذوق کے کام و دہن کو ایک پر کیف، سرور بخش لذت سے ہمکنارکرتا ہے اس حقیقت کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتاکہ ان کے ہمہ فارسی اشعار میں کم و بیش وہی مضامین بیان کیے گئے ہیں جو ان کی اردو غزلیات کا طرئہ امتیاز مانے جاتے ہیں یعنی ان کے فارسی اشعار بھی اردواشعارہی کی طرح ان کی زندگی کاآئینہ ہیں جن میں ایک طرف حرماں نصیبی،مایوسی،ناکامی،بے بسی بیچارگی و نامرادی نظر آتی ہے تو وہیں طرف و دیگر سلاست و روانی، حسن بیان، سوز و گداز، جدت و ندرت بھی اپنے پورے طمطراق سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ حالات نامساعدی اور تلاش معاش کے سبب انہیں اپنے عزیز از جان وطن سے ہجرت کر کے حیدر آباد آنا پڑا فانی کو تا عمر اس اس بات کا بڑا قلق رہا کہ اگر ان کے اپنوں اور اہل وطن نے ان کی غمخواری اورمد گاری کی ہوتی تو ان کو اس طرح بے وطن نہ ہونا پڑتا ان کی فارسی غزل کا ایک مقطع ملاحظہ کیجیے        ؎

 این گناہیست کہ عفوم نہ کنندش فانی   

  کہ من از خاک بدایوں وطنی ساختہ ام

فانی کو ساری عمر اپنے وطن سے جدائی کا صدمہ ستاتا رہا ان کا ایک اور فارسی شعر دیکھیے جس میں اپنے وطن عزیز سے بے پناہ محبت ہونے کا احساس تو مضمرہے ہی ساتھ ہی اہل وطن کی بے اعتنائی اور نارسائی کا چھپا ہوا شکوہ بھی موجود ہے، وہ اپنے انفردی لب ولہجے کو بروئے کار لاتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ مسافرت اتنی تکلیف دہ اور لا متناہی ہے جس کی کوئی حداور کنارہ نظر نہیں آتا لہٰذا میں نے اپنے دل کی سوکھی زمین کی تشنگی کوسیراب کرنے کی غرض سے ہر قریے کو اپنا ہی وطن تصورکر لیتاہوں مندرجہ ذیل شعر میں پائی جانے والے طنزاور تلخی کے ساتھ ساتھ نشتریت کی چبھن کوبھی بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے       ؎

بہ غربتم کہ بہ ہر قریہ ام طن پیداست

بہ ہر زمین کہ شدم زیر آسمان من است

فانی بدایونی نے بے وطنی کا شکوہ صرف اپنے فارسی اشعار ہی میں نہیں کیا ہے کا بلکہ اردواشعار میں بھی انھوں نے بار بار اس موضوع کو بیان کیا ہے یہاں ان کا فقط دو اردو شعر نقل کر رہی ہوںجس میں موجود جذبات کی صداقت اور حدت دل میں بے ساختہ کسک اور ہل چل پیدا کردیتی ہے         ؎

زمین حشر فانی کیا قیامت ہے معاذاللہ 

مجھے اپنے وطن کی سی زمین معلوم ہوتی ہے

فانی کی سوانح حیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام حیدر آبادہی میں گزارے اور آخر عمر تک ہم وطنوں سے شکوہ کناں رہے لہٰذا ایک شعر میں کچھ اس طرح سخن سرا ہوتے ہیں          ؎

لو آج مرگ فانی بیکس سے مٹ گئی        

وہ ایک خلش جو خاطر اہل وطن میں تھی     

فانی ان شعرا میں سے ہیں جنہیں ہجوم غم اور کثرت رنج میں ہی زندگی کی اصل لذت اور حقیقی خوشی کا احساس ہوتا ہے وہ مصائب و مشاکل ا ور دکھوں وتکلیفوں سے راہ گریز اختیار نہیں کرتے بلکہ مسکراتے ہوئے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ یہ رنج والم ہی ان کی زندگی کا کل سر مایہ ہے انھیں غموں کی گود میں سر رکھ کر ہی سکون و طمانیت کا سر ور بخش احساس ہوتا ہے۔ ان کے یہاں غم کا عرفان اپنی پوری سحر آفرینی کے ساتھ جلوہ گرہوتا ہوا نظر آتا ہے جو غم کو نہ صرف خوشی و شادمانی میں بدل دیتا ہے بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ وقرینہ بھی سکھاتا ہے یہ ہی سبب ہے کہ اپنے ایک اردو شعر میں کچھ اس طرحگویا ہوتے ہیں        ؎

  موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی       

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

فانی بدایونی ’ہر کہ از دوست می رسیدنکواست‘ کے مقولے پرسختی کے ساتھ کاربند نظر آتے ہیں اورہمیشہ اس پر ناز کرتے ہیںکہ بارگاہ ایزدی میں انہیں اس قدر معتبر سمجھا گیاکہ ان کے ناتواں شانوں پر غم کے کوہ گراں کا بار ڈالا جا سکے وہ اپنے بے وفا محبوب کی جانب سے ملنے والی ہمہ تکالیف کا شکوہ شکایت کرنے کے بجائے اس کا شکریہ اداکرتے ہیں کیونکہ دوست کی طرف سے ملنے والی ہر چیز ان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے یقین اور صداقت کے ساتھ کہتے ہیں          ؎

نازم بہ تکیہ کردن فانی بہ لطف دوست

اے واغیور ومغرور زیستن

وہ ہم دنیا دارعام انسانوں کی طرح رنج والم ملنے پر گریہ وزاری یا شکوہ و شکایت نہیں کرتے ہیں بلکہ مسلسل ملنے والے اس ذاتی و حقیقی غم کو اپنی فلسفیانہ فکر کا موضوع بنا کردنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس طرح عام اور کمزور انسان کو قوت وطاقت فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ زندگی کے حقائق سے راہ گریز اختیار کرنے کے بجائے ان کا  مقابلہ کرے اس سلسلے میں خانم تاج بیگم صاحبہ کی آرا نقل کر دینا ضروری معلوم ہوتاہے جس میں وہ فانی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہتی ہیں:

’’غم نے ان کو ایسا گھیراکہ یہ غم ہی کے ہورہے فانی غم تلاش کرتے ہیں،غم کی پرورش کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک اور لاعلاج بات یہ ہے کہ غم ہی میں سکون پاتے ہیں۔‘‘

فانی دنیاوی عیش و نشاط اور راحت وآرام کو بے معنی اور حقیر تصور کرتے ہیں حالانکہ انھیں اس دنیامیں حاصل ہونے والے عیش و آرام کے نعمت ہونے سے انحراف تو ہرگزبھی نہیں ہے لیکن وہ زندگی میں ملنے والے غموں کی لذت کو دنیاوی عیش پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک دنیاوی نعمتوں کا لطف اپنی جگہ ہے، لیکن رنجہائے مسلسل کی جو لذت ہے وہ دنیاوی راحت وسکون میں کبھی بھی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے ان کا شعرملاحظہ کیجیے        ؎

نعمتی ست عیش،  اما نعمتی و پایانی

     نعمتی ست بی پایاں لذت غم از من پرس

ہمارے اس شاعر بیدار کا ماننا ہے کہ زندگی کوعیش و عشرت کی طمع میں زندگی گزارنے والا شخص در حقیقت ہمہ عمر خود کو فریب دیتارہتا ہے کیونکہ تمام مادی چیزیں جن کو انسان اپنی خوش حالی اور راحت کا ضامن سمجھتاہے وہ حقیقتاً فریب اور دھوکہ دینے والی ہیں جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ صرف اور صرف غم ہی حاصل نشاط ہے۔

جب لوگ ان کو غموں میں راحت وخوشی حاصل کرتا ہوا پاتے ہیں تو ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیونکر کوئی انسان حادثات مسلسل کے باوجود اس قدر قانع اور پرسکون رہ سکتاہے تو فانی ایسے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حقیقتاً موت ہی زندگی کا راز ہے جب تک لوگ زندگی سے محبت اور موت سے راہ گریز اختیار کرتے رہیں گے تب تک وہ حقیقی مسرت سے ہمکنار نہیں ہو سکتے لہٰذا بڑے ہی موثر اور دلنشین انداز میں کہتے ہیں          ؎

 فانی زحیات من آشفتہ چہ پرسند

مرگی  است کہ از ہستی جاوید پیام است

جب ذہنی خلفشار، دلی کرب اور نفسیاتی الجھن حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو اپنے سوز دروں کی تپش کو فرو کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی بد قسمتی کا ذمے دار اس چرخ کج رفتار کو بتاتے ہوئے اپنے درد کو کچھ اس طرح ظاہر کرتے ہیں         ؎

طالعم گردش افلاک بسوخت

اختر مارہ صد اختر زد

فانی کی ذاتی زندگی کے تلخ حقائق، محرو میوں اور مایوسیوں نے انھیں اس قدر شکستہ و ناامید کر دیا تھا کہ ان کی تمام تر پامردی اور دلیری بھی بعض موقع پر متزلزل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور بے اختیار و غیرارادی طور پر ان کے قلم سے مندرجہ ذیل رباعی تراوش کر جاتی ہے جس میں وہ فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ میں نے اس طرح زندگی گزاری جیسے کہ میرا خدا ہی نہیں یاپھر میری آواز اس کی بارگاہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکی سمندر میں جس طرح مسلسل موجیں اٹھتی رہتی ہیں ٹھیک اسی طرح غموں کی موجوں نے میری زندگی کے سمندر کو ہمیشہ بے قرار رکھاجیسے کوئی میری فریاد سننے والا ہی نہ ہو    ؎

آواز جہاں گذشت کہ آخر خدا نبود

او آنچنان بزیست کہ گوئی خدانداشت

طغیانی نازبین کہ کوح مزاراو

ثبت است سال رحلت فانی خدانداشت

مذکورہ بالا رباعی کو بنیاد بنا کرفانی کی ذات پر مختلف النوع اعتراضات بھی وارد کیے گئے انھیں کمزرو عقیدہ، کم ہمت اوربے صبر وغیرہ جیسے القابات سے بھی نوازہ گیااور ان کی ذات کو زبردست تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا گیااور ان کو خالق کائنات سے منحرف ایک گناہ گار انسان تصورکیا گیا جیسا کہ محترمہ تاج بیگم مذکورہ بالا رباعی کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’خدانداشت‘‘ یہ ہی الفاط فانی کی سب بڑی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں ایک اچھے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ غم ہستی کو شدید طور پر محسوس کرے لیکن بے صبرانہ ہواوربے صبری کی حالت میں خالق ہستی کے وجودسے انکار نہ کر بیٹھے اور اس کی شان میں ناملائم و نازبیا کلمات زبان پر نہ لائے اس قسم کی بے صبری شخصی کمزوری اور تنگ ظرفی کو ظاہر کرتی ہیــ۔‘‘5

لیکن فانی کی عملی زندگی محترمہ تاج بیگم صاحبہ کے مذکورہ بالا خیال کی تردید کرتی ہے ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ باور کرنے کودل نہیں چاہتاہے کہ وہ شخص جس نے تاعمر مصا ئب و مسائل کو فخر یہ انداز میں برداشت کیا ہو،کبھی کسی کے در پر جبیں سائی کرنے کا گناہ گوارانہ کیا خدانے جس گردن کو بلند پیدا کیاوہ اس کو سید ھا خدا کے پاس ہی لے گئے شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی خلوتیں تسبیح و مصلی سے ہمیشہ آراستہ و پیراستہ رہیں جن کا ماننا یہ ہو کہ         ؎

درہا کشودہ از فقیر و از غنا

مائم و شاد مردن در رنجور زیستن

بہ عنوان نفس رنجے زغیبم می رسدا ما

بہر فرمان غیبم می رسد از دوست پیغامی

وہ بھلااس خالق کائنات کی شان میں ناشکری یا گستاخی بھلا کیسے کر سکتاہے ان کاہمہ کلام گواہ ہے کہ ان کے دل کی کلی کبھی متبسم نہ ہوئی اور نہ ہی کاتب قسمت کی جانب سے عطاکیے گئے رنج و تکالیف کے بحر بیکراں سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ پاسکے باوجوداین ہمہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا         ؎

 یا رب تری رحمت سے مایوس نہیں فانی

لیکن تیری رحمت کی تاخیر کو کیا کہئے

جس کو عرفان حق کی سعادت حاصل ہوگئی،بے نیازی و خود سپردگی جس کا شیوہ رہاہو وہ کیونکر اس قدر برگشتہ خاطر ہو سکتا تھا کہ وجود پروردگار سے خائف بلکہ منحرف ہو جائے، بظاہراس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے غم مسلسل اور چرخ بیدار گر کے یک بعد دیگر ظلم و ستم بعض اوقات انسان کو سودائی اور دیوانہ بنا دیتے ہیں صرف فانی ہی نہیں متعدد اساتذہ کے یہاں اس قسم کی متعد مثالیں مل جائیں گی جن میں خالق کائنات سے شکوہ وشکایت کی گئی ہے مثلاً مرزا غالب نے شدت غم کی تاب نہ لا کر مندرجہ ذیل شعر کہاتھا        ؎

زندگی اپنی گر اس رنگ سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

 لہٰذاصرف ان کی ایک رباعی کی بنیاد پر یہ کہنا کہ فانی کافر اور زندیق ہو گئے تھے اور وجود خالق کائنات سے انکار کر بیٹھے تھے، قطعاً بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ انھوں نے تو ہمہ عمر اس راحت جہاں کو سراب اور بے حیثیت تصور کیا اور غموں کی تپش میں خود کو جلا کر ہیرا بنایااور کہا       ؎

از راحت زمانہ جراحت عبارتست

آبی نوشتہ اندو سرابی نوشتہ ایم

ان جیسی ہستی سے یہ توقع کیونکر کی جا سکتی ہے کہ وہ خدائی کا منحرف ہو جائے اور کثرت غم کی تاب نہ لاکر اپنا توازن گنوا بیٹھے جنھوں  نے لوگوں کو ہمشہ یہ سیکھایا اور بتایا ہوکہ راہ راست پر چلنا کسی ملک عظیم کابادشاہ ہونے سے بھی زیادہ دشواراور مشکل ہے        ؎

 کج کن کلاہ خسروی دل بہ رغم ہوش

سہل است ہمچو قیصر و فغفور زیستن

وہ کیونکر اتنے بڑے گناہ کامرتکب ہو گیا بہر حال اس بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے میں اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتی ہوں فانی کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور قدم قدم پر انھیں خوف خدا دامن گیر رہتا تھا وہ صرف اپنے کردہ ہی نہیں بلکہ نا کردہ گناہوں کی معافی کے لیے بھی بارگاہ ایزدی میں سر بہ سجدہ نظر آتے ہیں اور بڑی ہی عاجزی و انکساری سے کہتے ہیں          ؎

 بہ رنج خستگیم بخش و از گناہ مپرس

بگو کہ فانی عاصی زخستگان من است

فانی بدایونی کی فارسی غزلیات کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں عشق کا ہمہ گیر جذبہ بھی بڑی شدت کے ساتھ جلوہ گر نظرآتاہے عشق میں عاشق صادق پر گزرنے والی ہر کیفیت اور رنگ ان کے یہاں موجود ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عشق خواہ حقیقی ہو یا پھرمجازی اپنا ایک انفرادی رنگ رکھتا ہے فانی کے یہاں بھی عشق کا جذبہ الگ الگ حیثیتوں سے نظر آتاہے لیکن ان کا عشق حقیقی ہو یا پھر مجازی پاکیزہ،پر لطف، باوقاراور سنجیدگی کا رنگ لیے ہوئے ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے لکھا ہے:

’’انھوں نے جہاں عشق یا معشوق کا ذکر کیا ہے وہاں ٹھہرے اور سلجھے ہوئے بلکہ پاکیزہ اور بلند جذبات کی ترجمانی کی ہے...‘‘ 6

ان کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمایئے جن کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے عشق کی نیرنگیوں کو محسوس کرتے ہیںبلکہ جذباتی بے ساختگی کے ساتھ سلیس انداز بیان کے پیرائے میں قاری کو ہمہ تن متوجہ کر لینے کا سلیقہ بھی خوب جانتے ہیں ان کی فارسی غزل کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے       ؎

فتنہ عشق بہ دلہا بسر زد

حسن حالم بہ تماشا ارزد

شررعشق کہ شعرشناسند

زدلم جست و بہ جانہاارزد

فانی کا بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ابنائے دہر کی ناقدری وسردمہری کے ساتھ ساتھ عشق و محبت کی ناکامیوںسے بھی غمگین ہونے کے بجائے لذت ومسرت حاصل کرنا سیکھاہے عشق نے ہی ان کی نا مکمل ذات کی تکمیل کی ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ غم عشق میں فراوانی دیکھ کر مایوسی و تلخی کا شکار ہونے کے بجائے خوشی و شادمانی محسوس کرتے ہیں اور یہی ان کے فارسی اوراردو کلام کی سب سے اہم اور نمایاں انفرادیت ہے جو ان کو یگانگت و انفرادیت بخشتی ہے:

’’فانی کی زندگی عشق ہے اور راہ عاشقی میں اس کا ایک ہی تجربہ ہے وہ تجربہ ہے غم فانی کی شاعری میں اس تلخ تجربہ کا ایک انکشاف ہے ان معنوں میں فانی کے جذبات مستعار بہت کم ہیں۔۔۔۔‘‘ 7

فانی بدایونی کا مندجہ ذیل شعر سنیے جس میں وہ خود نعمت عشق کے لذت بخش احساس سے سر شار ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ میرے لیے معشوق کا وصال تمام نعمتوں میں افضل ہے حتیٰ کہ مجھے جنت کی بھی خواہش باقی نہیں رہ جائے گی اگر قرب معشوق کی دولت سے میں سرافرازکر دیا جائوں          ؎

زلف دوست مرانیمہ نگاہ بس است

متاع خلدنہ جویم کہ رائگاں من است

انھیں اپنے عشق پر بڑانازاور فخر ہے کیونکہ غم جاناں ہی کی بدولت وہ غم روزگار کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکے یعنی ان کا ماننا ہے کہ وہ عشق کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر ستم ہائے روزگارسے مکمل طور پر فراغت وفرصت پالیتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ بے اختیار ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ شکر ہے کہ تیرے نازواندازاور بے نیازی وسردمہری میرے لیے مصیبت یا بلا نہیں ہیں بلکہ نعمت ہے کیونکہ اس کی بدولت مجھ کو ایسا درد جاودانی حاصل ہو گیاہے جس کی کوئی دوا نہیں ہے اس لیے میں اپنے عشق اور معشوق کی بیوفائی کا بڑا احسان مند ہوں         ؎

نازم بہ جمال تو برق وبلانیست

سازم بہ غم عشق کہ درداست و دوانیست      

بیشتر مواقع پر فانی کے عشق کا مفہومــ عشق الٰہی سے تعبیر ہے۔ انھوں نے عشق الٰہی کومحض رسمی طورپر یا کسی کی تقلید میں نہیں اپنایاہے بلکہ حوادث غم اور واقعات روح فرسانے ان کے دل میں حقیقتاً خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا دیا تھا اور جب ان کے دلی جذبات شعر کی شکل اختیار کر تے ہیں تو ان میں ذرا سی بھی ظاہرداری، تصنع یاد کھاوا نہیں ہوتا ہے بلکہ حرف بہ حرف صداقت کی مہک آتی ہے بعض سہل پسند اور جانبدارقسم کے دانشوران ادب نے ان کے عشقیہ جذبات واحساسات یعنی صوفیانہ افکار و خیالات کو بے معنی،بے حیثیت اور تقلید ی کہہ کر ان کے پاکیزہ و بے لوث جذبوں کو در گزر کرنے کی کوشش ِناکام کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تصوف ان کے صوفی صادق ہونے کا ترجمان ہے جس نے ان کی شاعری کو ایک طہارت اور پاکیزگی عطا کی ہے کلیات فانی کے مرتب نے فانی کے عشقیہ جذبات کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’فانی کی شاعری کا محور غم و عشق ہے عشق سے مراد عشق الٰہی ہے اور یہ ہی تصوف کی اساس ہے بعض معترضین نے فانی کے غم کی طرح ان کے تصوف کو بھی نمائش اور ہمت شکن تعلیم سے تعبیر کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نظر یہ تصوف نے اگر ایک طرف ان کو سہارا دیا تو دوسری طرف فلسفیانہ فکر بھی عطا کی ہے۔‘‘  8

ان کی ایک اور فارسی رباعی ملاحظہ کیجیے جس میں اہمیت انسانی کا فلسفہ اور زیادہ شدت کے ساتھ جلوہ گر ہے مضمون تووہ ہی فر سودہ  اور کہنہ ہے جوشاعروں کی طرف سے بارہا نظم کیا گیا ہے مگر فانی کے یہاں اچھوتے اسلوب کے سبب زیادہ خوبصورت ، حسین ا و ر دل کش محسوس ہوتا ہے      ؎

خاک پائے بندگان در گہہ عشقیم ما

ہر کجا صیدے بدام اوست صیاد من است

 می ندانم تا بہ محشر اعتبار سجدہ چیست

ایں قدر دانم کہ ہیچ است و جبین زاد من است

مختصر یہ کہ مذکورہ بالا سطور میں فانی بدایونی کی فارسی شاعری کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا گیا ہے اس کا مقصد صرف اس امر کی وضاحت کرناہے کہ فانی کو اردو زبان کی ہی طرح فارسی زبان پر بھی حاکمانہ قدرت ا ور دسترس حاصل تھی یہ درست ہے کہ ان کی فارسی شاعری کمیت کے اعتبار سے بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے مترادف ہے لیکن  ان چند اشعار کو بھی کسی بڑے فارسی کے کلام سے کم مرتبہ قرار نہیں دیا جا سکتاہے اگر دست برد زمانہ کے سبب ان کا فارسی کلام ضائع نہ ہو ا ہوتا تو بلا شبہ آج ان کو ایرانی شاعروں کی صف میں نمایاں مقام دیا جا سکتا تھا مگر افسوس کہ یہ ممکن نہیں ہو سکا البتہ ان کی فارسی شاعری کے متعلق اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ اس میں حلاوت، عذوبت موسیقیت، نغمگی اور جداگانہ انداز بیان ان کے قادر الکلا م فا رسی گو شاعر ہونے کا شاہد ہے مگراس میں ان کے اردو کلام کی سی بے ساختگی نہیں ہے با این ہمہ ان کی فارسی غزلیات ’کہتر بہ قیمت بہتر‘ کی مصداق ہیں۔ اس میں نرمی ،گھلاوٹ اورشیرنی کا جو احساس ملتا ہے وہ داخلی و خارجی،درد و غم کی تصویر کشی کے لیے بے حد مناسب و موزوں ہے لیکن ان کی ادبی اختراعات کا سکہ جس طرح سلطنت اردو میں چلتا ہے وہ فارسی کے قلمرو میں نہیں چل سکا بہر حال فانی کی اس خوبصورت رباعی کے ساتھ مضمون کو اختتام پذیر کرنے کی اجازت چاہتی ہوں         ؎

یا رب صلہ رنج فراوانم

تعبیر حیات خواب سامانم کو

کو جلوہ کہ جان نذربقائی تو کنم

قربان تو عید،عید قربانم

مآ خذ  ومصادر

1             ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی :فانی کی شاعر،سر فراز قومی پریس لکھنؤ، 1969، ص 123

2             ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی:فانی کی شاعری، سرفراز قومی پریس لکھنؤ، ص 66

3             پروفیسر عبدالشکور مرتب ، فانی، فاروقی پریس لال کنواں، دہلی،1947، ص 34

4             تاج بیگم:مضمون فانی ، علی گڑھ میگزین فانی نمبر1943، ص 152

5             ایضاً

6             ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی:فانی کی شاعری، ص 57

7             تاج بیگم:مضمون فانی ، ص 152

8             ڈاکٹر ظہیر احمد مرتب :  کلیات فانی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2009، ص 40

 

Dr. Neelofar Hafeez

Department of Urdu and Persian,

University of Allahabad,

Pryagraj- 211002 (UP)

Mob.: 7500984444   

neelofarhafeez82@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...