14/5/25

وقت کی نوک سے ٹپکتا لمحہ: بانی، مضمون نگار: شاذیہ عمیر

 اردو دنیا، فروری 2025


بیسویں صدی اپنے ساتھ واقعات وحادثات کا ایک لامتناہی سلسلہ لے کر آئی جس کے زخم آج بھی کسی نہ کسی شکل میں تازہ ہیں۔ اس بھرم کو سینے سے لگائے وہ خوش آئند دنوں کے گیت گانے میںمنہمک تھا کہ 1947 کے فسادات نے ایسا طوفان برپا کیا کہ اس کے خوابوں کا رنگ محل پلک جھپکتے ہی بکھرتا چلا گیا اور انسانی وجود نے یہ ثابت کردیا کہ اس کے اندر لاکھوں برس پہلے کا وہ حیوان ابھی زندہ ہے جو موقع ملتے ہی اینٹ اینٹ بجانے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔

اس سانحے نے کتنے ہی لوگوں کو گھر سے بے گھر کردیا۔ بستیاں ویران ہوگئیں۔ شہر کا شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔ تقسیم کی اس موج بلا نے محض پندرہ سال کی عمر میں راجندر دیپک کو ملتان سے اجاڑ کر دہلی کے ایک اجنبی ماحول میں بھٹکنے کے لیے مجبور کردیا جہاں نہ کوئی شناسا تھا اور نہ غم گسار، وہ محلہ، و ہ گلی، وہ چھت،وہ منڈیر وہ لوگ جنھیں دیکھ کر وہ جیتے تھے وقت کی آندھی نے آن کی آن میں سب کچھ نگاہوں سے اوجھل کردیا۔ باقی رہ گئے تو بس یادوں کے رِستے زخم جس کی سوزش انھیں کسی طرح چین نہیں لینے دیتی اور جب اس کی شدت سے وہ موم کی طرح قطرہ قطرہ پگھلنے لگتے تو گلی گلی دیوانوں کی طرح ان مانوس چہروں کو تلاش کرتے رہتے جو نہ جانے کہاں کھوگئے تھے۔ کہتے ہیں        ؎

وہ مانوس سلونے چہرے جانے اب کس حال میں ہیں

جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتا تھا

کیسے لوگ تھے چاہتے کیا تھے کیوں وہ یہاں سے چلے گئے

گنگ گھروںسے کچھ مت پوچھو شہر کا نقشہ دیکھو تم

لہٰذا گھر ان کے لیے مستقل استعارہ بن گیا جس سے جدائی کا غم ان کے لیے ایک ایسا قیمتی اثاثہ تھا جسے تمام عمر امانت کی طرح انھوں نے اپنے دل کے نہاں خانے میں سجا کر رکھااور مرتے دم تک اس سے دست کش نہ ہوسکے       ؎

نہ کوئی جاکے اسے دکھ مرے سنائے گا

نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا

پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

یوں بے گھری کے جان لیوا عذاب نے انھیں بھری دنیا میں تنہا کردیا لیکن یہ تنہائی تو ہر نابغہ کا مقدر ہے اس سے مفر کہاں۔ ناصر کاظمی کو بھی تقسیم ہند کے بعد ویران اداس بنجر دنوں کا جب سامنا کرنا پڑا تو بے اختیار ہوکر یہ کہہ اٹھے کہ          ؎

تنہا تنہا پھرتے ہیں دل ویراں آنکھیںبے نور

دوست بچھڑتے جاتے ہیں شوق لیے جاتاہے دور

بانی نے اکیلے پن کے جاں گسل لمحے کو شعر کے پیکر میں یوں پیش کیا ہے        ؎

دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا

میں کہ عکسِ منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا

لیکن یہی تنہائی بانی کے لیے ایک ایسا عطیہ ثابت ہوئی جس کی ضوفشانی میںا ن کی نگاہوں نے وہ وہ کچھ دیکھ لیاجہاں پہنچ کر تخیل کے پَر بھی جل اٹھتے ہیں۔ یوں ان کی ذات اور ہم زاد کے بیچ وہ فاصلہ رونما ہوا جس نے راجندر دیپک سے انھیں راجندر منچندا بانی بنا دیا۔ بقول من موہن تلخ:

’’1958میں جب میرا پہلا مجموعۂ کلام ’چراغ فکر‘ شائع ہوا تب تک بانی بانی نہ تھا بلکہ راجندر دیپک تھا۔۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ بانی اپنے کلام میں کسی ایسے رنگ اور انداز بیان کی تلاش میں تھا جو بعد میں نئی ڈکشن کے نام سے اس کے ساتھ منسوب کیا گیا۔‘‘

( آج کل، دسمبر1981)

بانی کو اس بات کا بھی اِدراک تھا کہ وہ کوئی عام شاعر نہیں لیکن ان کا زمانہ انھیں پہچاننے سے قاصر ہے اور یہ دکھ بانی ہی کیا اپنے عہد کے بیشتر شاعروں کا دکھ ہے جب میر جیسے خدائے سخن اور غالب جنھیں نجم الدولہ دبیرالملک کے خطاب کے باوجود زمانے کی بے التفاتی کا رنج اٹھانا پڑا تو بانی کو ا س سے فرار کہاں تھا۔ مجتبیٰ حسین ان کا قلمی چہرہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بانی اکثر اپنے دوستوں سے کہتے ہیں:

’’بھئی بانی صاحب کو تم جانتے بھی ہو وہ کیوں اس طرح کے مشاعروں میں جانے لگے۔ بانی صاحب کو لوگوں نے سمجھ کیا رکھا ہے۔بانی صاحب کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔‘‘

(آدمی نامہ، مجتبیٰ حسین،ص174، 1981، حسامی بک ڈپو، حیدر آباد)

اس عرفان وادراک نے انھیں ایسی بینائی عطا کی کہ وہ اپنی ذات سے نکل کر خود کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر قادر ہوگئے۔ فلسفے کی زبان میں جسے The Otherاور اردو شاعری میں جس کا ذکر ہم زاد کے طور پر بار بار آتا ہے اور جسے تیسری آنکھ کا بھی نام دیاگیا ہے، اس تیسری آنکھ سے خود کو دیکھنے کے تجربے کو جدید غزل میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اشعار دیکھیے       ؎

تو جسم کے اندر ہے کہ باہر ہے کدھر ہے

علوی مری جاں کب سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں

اب ظفر اقبال کا استفسار ملاحظہ کیجیے          ؎

میرے اندر وہ میرے سو اکون تھا

میں تو تھا ہی مگر دوسر اکون تھا

اسی دوسرے کی تلاش کرتے کرتے راجندر دیپک کو وہ شخص ملا جسے اردو دنیا بانی کے نام سے جانتی ہے اور جب راجندر دیپک کی ملاقات بانی سے ہوئی تو یہ تجربہ ان کے لیے خوشی وغم کا وہ مقام اتصال تھا جب رِ جھم آنکھوں کے ساتھ مسکراہٹ کی ایک مہین سی لکیر لبوں پر آویزاں ہوجاتی ہے یعنی آگہی کا ایسا تابندہ لمحہ وجود پذیر ہوا جو اشعار میں ڈھل کر اس طرح لَو دینے لگا          ؎

مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے

یہ کچھ تو ہے یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام

یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے

ایک الگ ذات میں ڈھلنے اور راہ بدلنے کے اس تجربے نے بانی کو وہ جرأت عطا کی کہ ایک ایسے سیال موضوع کو انھوں نے گرفت میں لینے کی کاوش کی جو بقول شہریار          ؎

عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں

کہ آنے پاتا نہیں اور بیت جاتا ہے

وقت کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سے عارف، صوفی اور فن کار کوشاں رہے ہیں۔ عام آدمی اسے ٹکڑوں اور خانوں میں تقسیم کرکے سمجھتا ہے یعنی ماضی، حال او رمستقبل کے روپ میں اور پھر اس کی چھوٹی اکائی صبح، شام اور رات کے خانے میں بانٹ کر۔

لیکن وقت کے بیکراں روپ سے جب بانی متعار ف ہوئے تو ان کے اندر ایک کہرام برپا ہواٹھا اور وقت کے ابتداء وانتہا کے بیچ عدم سے وجود تک اور پھر وجود سے عدم تک کی ایک پوری داستان فلم کی طرح ان کے سامنے رقص کرنے لگی اور بانی خود بھی اس لامحدود کہانی میںتجربے کا ایک کردار بن کر شامل ہوگئے       ؎

سیر شب لامکاں اور میں

ایک ہوئے رفتگاں اور میں

سانس خلاؤںنے لی سینہ بھر

پھیل گیا آسماں اور میں

خاک وخلا بے چراغ اور شب

نقش و نوا بے نشاں اور میں

سیر شب بانی کو یوں محسوس ہوا جیسے یہ کائنات وجود سے واپس عدم کی طرف مراجعت کرگئی ہو اورکائنات میں سوائے صفر کے کچھ بھی موجود نہ ہو۔ اور وہ خود بھی اس کا ایک حصہ بن کر اس کی ذات میں فنا ہوگئے ہوں،  لیکن دوسرے ہی لمحے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ  ع

سانس خلاؤں نے لی سینہ بھر

تودراصل خلا کا سانس لینا عدم سے دوبارہ وجود کی طرف کائنات کا قدم بڑھانا ہے یوں زمین وآسمان کے دوبارہ جنم لینے کے ساتھ بانی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا بھی نیا جنم ہوا ہے۔ گویا زندگی اور موت کے تجربے کو وہ ذرے سے لے کر کہکشاں تک میں اپنی تیسری آنکھ سے دیکھنے کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے اشعار میں اس تجربے کو  اس طرح بیان کرتے ہیں         ؎

زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے

میں ڈھیر ہوگیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے

دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر

یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرا ر کرتے ہوئے

میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں

عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے

پہلے شعر میں زماں ومکاں کے بکھرنے کاذکر ملتا ہے اور شاعر اس بکھراؤ کے دیدار سے خود بھی ڈھیر ہوکر رہ گیا ہے۔ دوسرے شعر میں لفظ لمحۂ خالی پر غور کریں تو یہ خالی لمحہ دراصل تخلیق کا منبع ہے تبھی تو اس کا عکس ایسا جاوداں اور لامحدود ہے کہ جس کی تفسیر نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ کچھ نہ ہونا دراصل ہونے کی دلیل ہے۔ یہ کائنات بھی عدم سے ہی وجود میں آئی ہے۔اگر عدم نہ ہو تو وجود بھی ایک واہمہ ہوجائے گا۔ بقول وزیر آغا:

’’عدم اور وجود ایک ہی دائرے کی دو کروٹیں ہیں۔ اس دائرے میں عدم کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں طویل عرصہ تک مکمل انجماد قائم رہتا ہے لیکن پھر ایک فطری اصول کے تحت اس کے بطن میں پہلا تحرک پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔ گویا کائنات وجود، عدم اور وجود کے دائرے کا  نام ہے۔‘‘

(اردو شاعری کامزاج،وزیر آغا، ص431-32،سیمانت پرکاشن، نئی دہلی 2000)

تیسرے شعر میں ماضی،حال اور مستقبل تینوں زمانے کے بیک وقت ایک اکائی کے طور پر دیدار کا تجربہ شامل ہے۔ اس طرح  وقت کے بیکراں ولامحدود روپ نے بانی کو لرزہ براندام کردیا۔ یوں آگہی کے کرب سے وہ کراہ بھی رہے ہیں اور اسے تخلیق کے پیکر میں ڈھال کر ایک انوکھی مسرت سے بھی ہم کنار ہیں۔نیز وقت کے لامحدود روپ کے دیدار اور ذرے سے لے کر کہکشاں تک کی داستان کو وہ اپنی گرفت میں لینے پر قادر نظر آتے ہیں۔ لیکن  ایسے بے پناہ آفاقی شعور(Cosmic Consciousness)کو اشعار کے پیکر میں ڈھالنا کوئی اتنا آسان کام نہیں۔ یہ بانی کی گہری نگاہ اور لا محدود شعور ہے جس نے ایک ایسے موضوع کو شعر کا پیکر عطا کیا جس کے بارے میں سوچنے سے ہی ذہن خالی اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔

 حیرت اس بات پر ہے کہ بانی نے محض آسمانی ڈرامے کو ہی اپنی نگاہوں کا مرکز ومحور نہیں بنایا بلکہ زمین اور اس سے جڑے ہررشتے کوبیک جنبش قلم مسترد کرنے کے بجاے ان کے کلام کا مطالعہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک جان ہار پجاری کی طرح انھوں نے زمین کی ہر خوشبو، ہر آہٹ اور ہر لمس کو منظر بہ منظر اپنے دل کی دھڑکن اور روح میںاتار لیا ہے۔اور یہی نہیں انھوں نے گوشت پوست کے دھڑکتے پھڑکتے وجود سے محبت بھی کی اور اس سے جدائی کا غم بھی سہا۔ اشعار دیکھیے       ؎

تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے

کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے

تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے

میںجانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے

وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا

تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

اب جدائی کے دکھ نے انھیں کیسا جاں بہ لب کردیا ہے، کچھ اس کے رنگ ملاحظہ کیجیے         ؎

کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا

نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت

جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا

اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا

علاوہ ازیں  قدر ت کے حسین منظر نے انھیں کیسی سرشاری عطا کی ہے کہ ہوا، بادل چاند ستارے، برگ سبز، شاخ تر، ڈوبتی ہوئی شام، سمندر کا کنارا، شفق کی لالی، تتلی کے پروں کے رنگ، گھٹاؤں کا بکھرنا، چاند کی روپہلی کرن، گلاب رتوں کی شادابی، بارش کے قطروں سے سیراب ہوتے درختوں کی قطار در قطار، موتی کے دانے کی طرح بکھرے شبنم کے قطرے، بیلے کے پھولوں کی طرح مہکتے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ، سنہری دھوپ میں گل بوٹوں پر گن گن کرتے بھنوروں کی ہر سنگیت، پیلی سرسوں کے کھیت میں لہراتی ہوئی پروائی، خوشبو کی مہکار، چڑیوں کی چہکار اور ایسے کتنے ہی مناظر ہیں جو بانی کے یہاں قطار در قطار کھڑے اپنا حسن بکھیرتے نظر آتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بانی ان تمام مناظر کو گھونٹ گھونٹ مشروب کی طرح اپنے اندر اتا ررہے ہوں، جس نے ان کے کلا م میں ایسی تروتازہ اور شاداب کیفیت پیدا کردی ہے جس کے مطالعے سے قاری ایک عجیب سی کیفیت میں گرفتار ہو جاتا ہے ا ور سرشاری کی ایک رو سی اس کے وجود میں سرایت کر جاتی ہے        ؎

خلا کے سارے رنگ سمیٹنے والی شام

شب کی مژہ پر خواب سجانے والا میں

فضا کا پہلا پھول کھلانے والی صبح

ہوا کے سر میں گیت ملانے والا میں

چھتوں پہ بارش دور پہاڑی ہلکی دھوپ

بھیگنے والا پنکھ سکھانے والا میں

شہر خزاں ہے زردی اوڑھے کھڑے ہیں پیڑ

منظر منظر نظر چبھانے والا میں

 ایک فطری بے قراری نے بانی کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ ان کی تمام عمر مسافرت میں گزری۔ لہٰذا ان کے کلام میں ایسی علامتوں کا ذکر بار بار آتاہے جس کا مقدر ہی حرکت و حرارت ہے۔ ان میں ایک لفظ ’پانی‘ ہے۔ پانی جو کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں۔ ازل سے ابد تک اس کا مقدر بے قراری ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک دریا میں دوبارہ پیر نہیں ڈالا جاسکتا۔ کیونکہ اس کا پانی ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ بانی بھی ہمہ وقت سفر میں رہے، ذات کے اندر بھی اور ذات کے باہر بھی۔لہٰذا لفظ  ’پانی‘ لاشعوری طور پر ان کے کلا م میں جابجا نظر آتا ہے        ؎

پیہم موج امکانی میں

اگلا پاؤں نئے پانی میں

آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی

کوئی تصویر روانی میں نہ تھی

دیکھیے کیا کیا ستم موسم کی من مانی کے ہیں

کیسے کیسے خشک خطے منتظر پانی کے ہیں

اسی طرح پرندے سے بھی انھیں خاص ربط تھا کیونکہ پرندہ بیک وقت زمین وآسمان دونوں سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ زمین سے رزق حاصل کرتا ہے لیکن اس کی اڑان آسمان کی طرف ہوتی ہے اور پھر ایک قوس سی بناکر زمین کی طرف لوٹ آتا ہے۔ لہٰذا اس کی واپسی ایک نئی بشارت، ایک نئی امید کی کرن پیدا کرتی ہے اور یہی امید بانی کے لیے جہان معنیٰ کے نئے دَر وا کرتی ہے       ؎

اڑ چلا وہ، اِک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا

صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا

ڈھانپ لیا سارا آکاش پرندے نے

کیا دل کش منظر تھا پَر پھیلانے کا

مست اُڑتے  پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے

آن کی آن میں سارے اوراقِ منظر بکھر جائیں گے

شہر زندگی کی ریاکاری، تصنع، صارفیت اور خود غرضی کو دیکھ کر دکھ کی ایک شدید لہر انھیں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک دوسرے سے اتنا الگ کیوں ہے۔ آخری دنوں میں جب وہ خود کو موت کے قریب محسوس کرنے لگے تو ایک نوع کے حزن وملال نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ بظاہر رشتوں میں گھرے رہنے کے باوجود ہر پل ہر لمحہ ان کا تنہا بسر ہوا۔ کمال یہ ہے کہ اس کے باوجود زندگی سے گہرے رشتے میں ان کے یہاں کبھی دراڑ پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر محض 49سال کے مختصر عرصے میںانھوں نے دنیا کو الوداع کہا لیکن اتنی کم مدت میں اردو شاعری کو وہ اثاثہ فراہم کر گئے جس کے لیے ایک زمانہ احساس مند رہے گا۔حالانکہ بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے کہ ان کا شعری سرمایہ بہت مختصر ہے جبکہ ایک ضخیم دیوان بھی ترتیب دیا جاسکتا تھا۔میرے خیال میں دیکھنا یہ چاہیے کہ شاعر نے جو سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے اس کی کیفیت وماہیت کیا ہے۔ کیا ان کی شاعری آفاقی شعور سے مزین ہے یا ہنگامی موضوعات کا ڈھیر ہے۔ اس پیمانے پر جب ہم ان کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو تخیل اور لفظیات دونوں اعتبار سے ان کا کلام ایک ایسے اچھوتے دیار سے ہمیں روشناس کراتا ہے جس کی درخشندگی نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے زمانے کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوگی۔

مآخذ و مصادر

.1            حرف معتبر،بانی،یونین پریس، نئی دہلی،1971

.2            حساب رنگ، ایضاً،1976

.3            شفق شجر، ایضاً، شعرستان، نئی دہلی،1982

.4            کلیات بانی، فکشن ہاؤس، لاہور،2013

.5            غزل کانیا منظر نامہ، شمیم حنفی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،1981

.6            جدید اردو غزل 1940کے بعد، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبری، پٹنہ، 1995

.7            اردو غزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب،گوپی چند نارنگ، این سی پی یوایل،2002

 

Dr. Shazia Omair

Asst. Prof., Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

drshaziaomair@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...