19/2/19

غالب کی ایک غزل مضمون نگار:۔ ابوظہیر ربانی



غالب کی ایک غزل
ابوظہیر ربانی

مرزاغالب کا شمار انیسویں صدی کے بدلتے ہندوستان کے ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جن کی گرفت ماضی، حال اورمستقبل پریکساں ہے۔ غالب کی شاعری کی جڑیں تینوں زمانوں میں پیوست ہیں۔گویا غالب ایک شاعرہی نہیں بلکہ ایک عہداورایک تہذیب کی علامت بھی ہیں۔ یوں تونظیراکبرآبادی کی طرح غالب کو بھی اپنے جیتے جی ناموری حاصل نہیں ہونے کا افسوس رہا لیکن بعد کے دنوں میں ان کی مقبولیت نے اردو شاعری کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ دراصل غالب کے ہمعصر شاعروں کا کلام بڑی حد تک روایتی موضوعات کا پابند تھا اورقاری اسی اندازکو پسند کرتے تھے لیکن غالب کی شاعری کا انسانی زندگی کے معمولی اور غیر معمولی رویوں کے ساتھ ایک گہرا رشتہ بھی استوارتھاجو دیگر شعراکے یہاں ناپید تھا۔ لیکن حالات تو ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ انسانی جذبات بھی بدلتے رہتے ہیں۔قاری کے سوچنے سمجھنے کے انداز بھی بدلتے ہیں۔ قاری کو سمجھتے دیر نہ لگی کہ عظیم شاعری تووہی ہوسکتی ہے جس میں تجربۂ حیات وکائنات اور رموزِ محسوسات کی نشاندہی ملتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی اورسچی شاعری قاری کی گوناگوں نفسیات کے تقاضے پوری کرتی ہے۔ غالب کے اشعار فکرکی گہرائی اور زندگی کے وسیع و عمیق تجربوں کی ترجمانی پردال ہیں۔ اپنی شاعری کی معنویت سے متعلق غالب اپنے ایک شعر میں یوں اشارہ کرتے ہیں ؂
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ،غالب! مرے اشعارمیں آوے
اگرغالب کی شاعری صرف حسن وعشق تک محدودہوتی تو ان کی شاعری سے قاری کی دلچسپی نہیں بڑھتی۔ غالب نے انسانی قلوب کی وہ کیفیات بیان کی ہیں جوچشم عالم سے پنہاں تھیں۔ دراصل غالب کی شاعری زندگی کی ہزار داستان بیان کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دو صدی گزر جانے کے بعد بھی غالب کی تخلیقی بساط قابل قدراورقابل فخر ہے اور غالب فہمی میں تبدیلئ زمانہ کے ساتھ روز افزوں نوبہ نو جہات کا اضافہ ہورہا ہے۔جتنے قارئین، ناقدین اور شارحین ہیں اتنے ہی رنگ میں غالب ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ بقول غالب ؂
ہوں گرمئ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
غالب کے عشق نے نہ جانے کتنے روپ بدلے، جن کے ہزاروں رنگ ان کی غزلوں میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن وہ عشق کے لیے ذات کی فنا میںیقین نہیں رکھتے بلکہ اسی دنیا میں رہتے ہوئے اپنے عشق کی تکمیل چاہتے ہیں۔ زندگی کے مختلف مسائل اورحالات سے پوری واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں اورقارئین کواپناشریک سفر بناتے ہیں۔
عشق میں انسان اپنے ہوش وحواس کھودیتاہے۔ غالب کی دیوانگئ عشق کی بھی یہی کیفیت ہے۔ زیر عنوان غزل کے مطلع سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؂
دیوانگی سے، دوش پہ زناّر بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب میں اک تار بھی نہیں
عشق کی حالت میں عاشق کو زنار کا پہننالازمی ہے لیکن عشق کے جنون کا یہ عالم ہے کہ اس کے دوش پہ زناربھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنا گریبان بھی چاک کردیتا ہے اور ایک تار بھی باقی نہیں رکھتا۔اگرایک تار (دھاگا) بھی باقی رہ جاتا تو وہی زناّر کا کام دیتا۔
اس شعر کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ عشق کے جنون میں عاشق اپنا زنار توڑکر پھینک دیتا ہے اوراس پرطرہ یہ کہ اپنے گریبان کی بھی پروا نہیں کرتا اوراس کے بھی اتنے پرزے اڑادیتا ہے کہ ایک تاربھی گریبان میں باقی نہیں رہتا۔ مرکزی خیال یہی ہے کہ غالب کے نزدیک عاشق کا مذہب صنم پرستی ہے اس لیے اس کے لیے زنارپہننااز روئے مذہب عشق لازمی ہے۔
غالب کی شاعری میں جذبات اورخیالات غیرمنقسم اورلا ینفک ہوتے ہیں۔ جو کچھ ان پرگزرا انہوں نے بیان کردیا۔ غزل کا دوسرا شعرملاحظہ کیجیے ؂
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کرچکے 
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
عاشق نے اپنے محبوب کے دیدار کی آرزو میں اپنے دل کو گھلا گھلا کر برباد کردیا ہے، لیکن بعدمیں اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے اندردیدار کی طاقت بھی نہیں ہے۔ وہ خودکوکوستا ہے۔ اپنے وقت کے برباد ہونے کا ماتم کرتاہے لیکن اپنی غلطی کااعتراف بھی کرتاہے جو ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
غالب کے بعض اشعار کو سمجھنے کے لیے ہمیں ذہنی ورزش کرنی پڑتی ہے۔ الفاظ کے لفظی معانی کے بجائے اس کے مجاز اور الفاظ کی ترتیب پرغور کرنا ضروری ہے۔ اسی بات کو نہ سمجھنے کی بنا پر غالب کی شاعری کو غالب کی مشکل پسندی سے تعبیرکیا جاتاہے۔ بقول غالب ؂
یا رب! نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اوردل ان کو، جو نہ دے مجھ کوزباں اور
غالب کے ہاں سہل ممتنع کی بھی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ شعر دیکھیے ؂
ملنا ترا اگر نہیں آساں، تو سہل ہے
دشوارتو یہی ہے کہ، دشوار بھی نہیں
یہاںآسان اور دشوار جیسے ضدین کے استعمال سے تھوڑی دیر کے لیے شعرکا حل کرنا دشوارہوجاتا ہے۔عاشق اپنے محبوب سے مخاطب ہے اورکہتا ہے اے محبوب! اگرمجھ سے ملنے میں دشواری ہوتی ہے یعنی تیرا ملنا آسان نہیں تواس حالت میں صبر کرلیتا اور ملنے کی آرزو اورکوشش سے باز آجاتا۔ لیکن مشکل تویہ ہے کہ اغیارکے لیے دشوارنہیں صرف میرے لیے ہی دشوارہے۔اس لیے شوق وصال کبھی ختم نہیں ہوتا۔اس شعر کو حقیقت اورمجاز دونوں پرمحمول کیا جاسکتا ہے۔ 
اگلا شعر ملاحظہ کیجیے ؂
بے عشق عمرکٹ نہیں سکتی ہے اوریاں
طاقت بقدرِ لذتِ آزار بھی نہیں
غالب کے نزدیک زندگی بغیرعشق کے بدمزہ اور بیکار ہے۔ عشق کرناانسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن عشق میں جواذیتیں اور تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں ا س کا بھی ہر انسان کو اندازہ ہوتا ہے۔ عشق کی تکلیف برداشت کرنا یہاں عاشق کے لیے مشکل ہورہا ہے لیکن عشق کے بغیر بسرکرنا بھی اسے گوارہ نہیں۔ آخر اس کا ازالہ ہو توکیسے ہو؟ عشق نہیں کریں توبھی مصیبت اورکریں توسہا بھی نہیں جائے۔ یہ شعرانسان بطور عاشق کی داخلی کشمکش کوواضح کرتا ہے۔
اب غزل کا پانچواں شعرملاحظہ کیجیے جس میں عاشق کو مختلف حالات سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ؂
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر،وبالِ دوش
صحرا میں، اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
دیوانگئ عشق کوئی اچھی چیز نہیں۔عاشق عشق میں دیوانہ ہوگیا ہے۔ شدت جنوں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ اس کی زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔ وہ صحرا میں مارا مارا پھررہا ہے ؂
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
عشق کے جنون میں ا س کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ سربھی کندھوں پر بوجھ معلوم ہورہا ہے۔ وہ اپنا سرپھوڑکر مرجانا چاہتاہے۔ وہ مجبوری کی حالت میں خدا سے مخاطب ہے کہ اگر صحرا میں کوئی دیوار نظرآتی تو میں اپنا سرپھوڑ کر سر سے نجات پاجاتا۔ یعنی دیوانگئ عشق میں انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا ہے۔ اس تعلق سے غالب کایہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے ؂
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں، یا رب ! کیا نہ تھی دیوارپتھر کی؟
اب چھٹاشعر ملاحظہ کیجیے ؂
گنجائشِ عداوتِ اغیار، یک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یاربھی نہیں
جوانی کا زمانہ جوش وولولے کا ہوتا ہے۔ اس عہد میں انسان ہرچیز کے انجام دینے پرقادر ہوتا ہے۔ جب انسان جوانی سے ضعیفی کی طرف بڑھنے لگتا ہے تواس کے تمام اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔ چنانچہ عاشق کادل بھی ضعف کی وجہ سے کمزورہوگیا ہے وہ کسی کام کو انجام دینے سے قاصرہے۔ یہاں تک کہ اس میں کثرت ضعف سے محبوب کی ہوس بھی باقی نہیں رہی۔ جب اسے سب سے عزیز چیز محبوب سے ملنا بھی ناگوارگزرتا ہے توایسی حالت میں اپنے دشمنوں سے عداوت کا خیال کیسے پیدا ہوسکتاہے۔ شعر کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جوانی کے زمانہ میں انسان جو چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے توحدیث میں بتایا گیا ہے کہ جوانی کی عبادت جلد قبول ہوتی ہے۔ غزل کا ساتواں شعر دیکھیے ؂
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
گریہ وزاری، نالہ وفریاد،شکوہ عاشق کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اس شعرمیں عاشق اپنے محبوب کی بے توجہی کا ذکرکرتاہے۔ وہ اپنا حال دل بیان کرتاہے لیکن معشوق کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ عاشق اپنے محبوب سے مخاطب ہوکراس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ تجھے میرے نالہ ہائے زار سے ڈرنا چاہئے اورخدا سے خوف کھاناچاہئے کیونکہ میرے نالے مرغ گرفتار کی آواز نہیں کہ اثرنہ کریں۔وہ ضرور اثرکریں گے۔ اسی بات کو اقبال نے یوں کہا ہے ؂
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پرنہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
آٹھواں شعر ملاحظہ کیجیے ؂
دل میں ہے یارکی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آنکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
عاشق میں اب پہلی سی طاقت، جوش وخروش اورولولہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ضعف سے اس کا برا حال ہے۔ یہاں تک کہ وہ کانٹے کی خلش بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتااورصفِ مژگاں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیارہے(یہاں صفِ مژگاں کنایہ ہے اس سے مراد عشق کے میدان میں اترنا ہے)مذکورہ بالا شعر کے حوالے سے نظرعلامہ اقبال کے اس مصرعہ کی طرف جاتی ہے یعنی ’’پیری شباب ہے اگرتمناجواں رہے۔‘‘ اگلا شعر ملاحظہ کیجیے ؂
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے، اے خدا!
لڑتے ہیں، اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
عاشق اپنے محبوب کی سادگی پرفدا ہے۔ اس بات کا احساس اسے شب وصل میں ہوتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔یہاں لڑنے سے مراد اختلاط میں ہاتھا پائی ہے۔ عاشق کو یہ ادا بہت پسندہے۔ اس لیے وہ خداسے مخاطب ہوکرکہتا ہے کہ اے خدا! محبوب کی سادگی پرکون نہ مرجائے کہ وہ لڑتے ہیں اورہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔(ہاتھ میں تلوارکا نہیں ہونا کنایہ ہے نزاکت جسمانی ) شعرکا مرکزی خیال محبوب کی ادائے عشق پرقربان ہونا ہے۔
غالب کی شاعری میں خیالات و نظریات کے علاوہ جذبات واحساسات کا تجربہ بھی محسوس کیا جاسکتاہے۔ یعنی غالب دل اور دماغ دونوں کے شاعر ہیں۔ ایسے مقام پرغالب نفسیات سے جڑے ہوئے نظرآتے ہیں۔
غزل کا مقطع ملاحظہ کیجیے ؂
دیکھا اسد کو خلوت وجلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے، توہشیار بھی نہیں
اس شعرمیں غالب اپنی نفسیاتی کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی وہ دیوانہ ہے یا ہوشیار کے اختلاف کو دورکرنا چاہتے ہیں۔ وہ خودجواب دیتے ہیں کہ اگرآپ مجھے دیوانہ نہیں کہہ سکتے چونکہ میں اپنے ساتھ ایک مقصد رکھتا ہوں، تو مجھے ہوشیاربھی نہیں کہاجاسکتا اس لیے کہ مجھے خلوت اورجلوت یعنی محفلوں اور تنہائی دونوں جگہوں میں پایا گیا ہے۔ لہٰذا اگرکوئی مجھے دیوانہ نہیں کہہ سکتا تومجھے ہوشیاربھی کہنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ میری ساری زندگی حماقتوں سے پُرہے۔
غالب کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ہمارے دل ودماغ دونوں کی آسودگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ وہ ہر بار ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ان کے یہاں بلندمضامین سے لے کرعام زندگی کے موضوعات تک کا اظہار ملتا ہے جس طرح ان کی شادمانی کا ایک معیارہے، اسی طرح ان کے غم کا بھی ایک معیارہے۔ انسانی جذبات واحساسات کے ان گوشوں کو ابھارنے کی کوشش ان کی شاعری میں ملتی ہے جو ہرنسل اورہرطبقے میں مشترک ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ غالب کے مشکل اشعارسے بھی قاری کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہوگا کہ غالب کی شاعری ہرزمانے میں بامعنی اور پرکشش رہے گی اور حالات کے مطابق ہرعہدمیں اپنی شعری اہمیت کا احساس دلاتی رہے گی۔
مختصر یہ کہ غالب نے اردو غزل کو نازک اور لطیف احساسات و جذبات کے ساتھ تفکر اور تفلسف نیز زندگی کے گہرے سوالات سے روشناس کرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہردور کے فنکاروں نے فکری اور ذہنی طورپر ان سے فیض حاصل کیا ہے اورآج بھی نئی نسلوں پران کی شاعری کے اثرات واضح طورپر نظر آتے ہی۔ کہہ سکتے ہیں کہ آج جب بھی سنجیدگی سے ان کی شاعری پڑھی جائے گی گنجینۂ معنیٰ کا ایک نیا دفتر ہمارے سامنے وا ہوجائے گا۔

Dr. Abu Zaheer Rabbani
Dept of Urdu, Dyal Singh
Lodhi Rd, Pragati Vihar
Delhi 110003





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...