جگر کی شاعری اور ان کا رنگ تغزل
سعود عالم
جگربنیادی طور پرایک رومانی شاعرہیں۔ ان کا عشق ایک رومانی عشق ہے۔ان کی شاعری خواب اور حقیقت کی ترجمان ہے۔جگر کے بارے میں عمومی رائے ہے کہ انھوں نے ساری عمر حسن اور عشق کے نغمے گائے ہیں۔ ان کے اس حسن وعشق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ان کے معاصرین کے کلام سے واقفیت ضروری ہے۔جگر اوران کے معاصر اصغر اور حسرت بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ غزل کی شاعری میں حسن وعشق کامدارداخلی کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ بایں ہمہ غزل میں حسن وعشق کا رشتہ مزیدمضبوط اور اٹوٹ ہوجاتا ہے تاہم جگر کے حسن کا تصور اصغر کے حسن سے مختلف ہے۔ وہ اصغر کے بجائے حسرت سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ جگراور حسرت میں بہت زیادہ یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دونوں قدیم بھی ہیں اور جدید بھی۔ دونوں امید کے شاعر ہیں اورغزل کے بھی۔دونوں نے زندگی کو جیسا پایا، بیان کردیا۔ فرق صرف اتناہے کہ حسرت نے حقیقت میں رومان تلاش کیا ہے اور جگر نے حقیقت کو رومان بنادیا ہے۔
غزل فطرت انسانی کی سب سے زیادہ نازک اور لطیف صنف سخن ہے۔لہٰذا اس سوز وساز اور دردوداغ کی تان کو جگر مرادآبادی نے جس جوش وخروش اور جستجووآرزو کے ساتھ چھیڑا تھا کہ ان کے سامنے ان کے معاصرین کی آوازیں بالکل پست ہوکر رہ گئی تھیں۔ دراصل شعر وشاعری جگر کو وراثت میں ملی تھی۔ ان کے والد مولوی علی نظر مرحوم ایک شاعر تھے۔وہ خواجہ وزیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ ان کا ایک دیوان بھی ’باغ نظر‘ کے نام سے موجود ہے۔جگر کے چچا مولوی علی ظفر بھی شاعری میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ ظفران کا تخلص تھا۔ ان کے دادا حافظ محمد نور کو بھی شعر وشاعری سے شغف تھا۔ جگر کے چھوٹے بھائی علی مظفر بھی شاعر تھے اور دل تخلص کیا کرتے تھے۔ غرض ان کاپورا خاندان شعری مذاق کا پیروکار ودلدادہ تھا۔ایسے میں جگر کی شاعری میں تغزل کا ہونابجا تھا۔آل احمد سرورجگر کے تغزل سے متعلق رقم طراز ہیں :
’’جگر کا تغزل غزل کا جانا پہنچانا تغزل ہے۔ حالی یا اقبال کے تجربات جگر کی شاعری میں ڈھونڈنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ جگر جس ماحول اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ داغ، امیراللہ تسلیم اور رسا کا ماحول ہے۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جگر نے داغ، امیراللہ تسلیم اور رسا جیسے اہم شعراسے فیض اٹھایاہے۔ باوجود اس کے شاعری ان کی گھٹی میں رچی بسی ہوئی تھی۔جگر نے اپنے کلام کی اصلاح کی شروعات اپنے والد سے کی۔ ان کی وفات کے بعد انھوں نے داغ دہلوی سے تلمذ کا شرف حاصل کیا۔ان کی شاعری میں داغ کا اثر نمایاں ہے اور آخر میں چند غزلوں میں جگر نے رسا اور تسلیم سے بھی اصلاح لی۔ استادی وشاگردی اس زمانے کا رواج تھا۔شعراان چیزوں پر فخر کیا کرتے تھے۔جبکہ جگر کا حقیقی استاد خود ان کااپنا وجدان اوران کا مذاق تھا۔ وہ نکتہ سنج اور بلاغت شناس شاعرتھے۔ سرورصاحب کلیات جگر میں ان کی شاعری کی کیفیت وکمیت سے متعلق کچھ یوں گویا ہیں:
’’جگر کے مزاج میں وہ فلسفیانہ گہرائی، وہ وحدتِ ذہنی، وہ سنجیدہ فکرنہیں ہے جو مثلاً غالب اور اقبال کے کلام میں ہے۔ اس لیے جگر کو غالب یا اقبال کے معیار پر پرکھنا غلط ہوگا۔وہ میرومومن، داغ وحسرت کے دبستان کے شاعر ہیں۔ان سب شعرا کے یہاں ایک ایسی شدید جذباتیت ملتی ہے کہ وہ ان کی زندگی بن جاتی ہے مگر اس جذباتیت کو فلسفہ نہ سمجھنا چاہیے، مزاج قرار دینا چاہیے یعنی جگر مزاج کے اعتبار سے جمال پرست ہیں۔وہ حسن کے پجاری ہیں اور حسن کے اداشناس۔‘‘
یہ بات درست ہے کہ جگر کی شاعری میں جوش وجذبے کی بہتات ہے اور وہ ان چیزوں کواپنے فخریہ کارناموں میں شمار کرتے تھے اور انھیں اپنی شاعری میں کلی طور پراستعمال بھی کرتے تھے۔لیکن یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ جوشیلا یا جذباتی شاعر فلسفی نہیں بن سکتا یا جگر کو اقبال کی شاعری کے تناظر میں نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔
حاصل کلام یہ کہ جوش بیان شاعری کا حسن ہے اور بندش کی چستی،الفاظ کی نشست، فقروں کا دروبست، خیالات کی رفعت یہ سب اس کے اجزا وعناصر ہیں جو شاعری کے اسلوب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس طرح جز کل میں شامل ہوکر ہی منفرد اورمستحکم ہوتاجاتا ہے۔بقول آتش:
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
متذکرہ بالا کلیہ کے تحت جب آپ جگر کی شاعری کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اس میں اقبال کا عکس نظرآئے گا۔ جگر اقبال کے ہم عصر شاعرتھے۔اس لیے دونوں کی شاعری، اسلوب اور انداز بیان کا ایک جیسا ہونا کوئی بعید نہیں، البتہ دونوں کا طرز تخاطب اور طرز ادا جداگانہ تھا۔ اقبال تحت اللفظ پڑھا کرتے تھے جبکہ جگرمترنم تھے۔ان کے پڑھنے کا ایک خاص اور منفردلحن تھاجس کی گھن گرج آج بھی لوگوں میں سنائی پڑتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبال بنیادی طور پر نظم کے شاعرتھے اور جگر غزل کے۔اقبال فلسفی کے ساتھ ساتھ ایک آفاقی شاعربن گئے اورجگر نہ فلسفی تھے اور نہ آفاقی تاہم جگرایک مقبول اورخاص و عام شاعر ضرور تھے۔ ایسے میں جگر کی شاعری کا اقبال اور حالی کی شاعری سے لگا کھانا کوئی بعید نہیں۔ ہم جگر کو اقبال کا جانشین تو ہرگز نہیں کہہ سکتے اور نہ جگر کی شاعری پر اقبال کے اثرات کا الزام دھر سکتے۔البتہ مطالعے سے دونوں کے کلام اور طرز ادا میں مماثلت ضرورنظرآجاتی ہے۔قارئین کی تفہیم کے لیے ذیل میں دونوں کے کلام سے چند اشعار پیش کیے جارہے ہیں:
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا
اب اقبال کے شعر کو دیکھیے:
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
ایک دوسری مثال :
مقاماتِ اربابِ جاں اور بھی ہیں
مکاں اور بھی، لامکاں اور بھی ہیں
صبا خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
انھیں جب سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بدگماں اور بھی ہیں
اب اقبال کا انداز دیکھیے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بوٗ پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
دونوں شعرا کے کلام کا انداز ایک، زیر وبم ایک، حتیٰ کہ دونوں کی ردیف اور قافیہ بھی ایک جیسے ہیں۔اسی طرح دونوں شعرا کے کلام میں بہت سے الفاظ، تشبیہ، اشارہ کنایہ اور تلمیحات ایک جیسے نظرآتے ہیں۔مثال کے طور پر’خضر‘منصور،لالہ وگل،وغیرہ وغیرہ۔
جگر ایک ایسے غزل گو شاعر ہیں کہ ان کی شاعری کا مختلف نوعیت سے مطالعہ کیا جا سکتاہے۔ ’داغ جگر‘ اور ’شعلۂ طور‘ یہ دونوں ان کے ابتدائی دور کی شاعری ہے۔ یہ دونوں مجموعے خالص حسن وعشق کا مرقع ہیں۔لیکن تیسرا مجموعہ’آتش گل‘ تک آتے آتے جگر کی شاعری اپنے عروج تک پہنچ جاتی ہے۔اس مجموعے کو ان کاشاہکارتسلیم کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جگر کی شاعری یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنا رخ بدل دیتی ہے۔ان کے اس دور کی شاعری میں حسن وعشق کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور تصوف کا رنگ نمایاں ہوجاتاہے۔اس مجموعے میں ان کی غزلوں کے علاوہ سیاسی نظمیں اور گیت بھی نظر آتے ہیں۔ذیل میں ان کی مشہور غزل سے چند اشعار پیش کیے جارہے ہیں جس سے قارئین کو ان کی شاعری سمجھنے میں آسانی ہوگی
دل میں کسی کے راہ کیے جارہا ہوں میں
کتنا حسین گناہ کیے جارہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کیے جارہا ہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں
151151151
دنیا کے ستم یاد، نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو، لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آگئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھوٗلی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
151151151
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ضد پہ عشق اگر آجائے
پانی چھڑکے، آگ لگ جائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت!
روح اگر تسکین نہ پائے
اسی طرح ان کے چند دوسرے اشعار ملاحظہ ہوں جو ہر خاص وعام کی زبان زد ہیں
وہ چہرہ ہے پُر نور کہ اللہ کی قدرت
وہ آنکھ ہے مخمور کہ حافظ کی غزل ہے
151151
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
151151
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
151151
لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن
تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا
151151
کبھی شاخ وسبزہ وبرگ پر، کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں، مرا حق ہے فصل بہار پر
151151
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
151151
یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہوجائے
جسے جینا ہو،مرنے کے لیے تیار ہوجائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خود کشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت کا بار ہوجائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اٹھے
نظر تلوار بن جائے نفس جھنکار ہوجائے
یہ روز وشب، یہ صبح وشام، یہ بستی، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں، انساں اگر بیدار ہوجائے
جگرکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جذباتی طور پر رندی کے پجاری تھے لیکن ذہنی طور پر اپنی قدروں کے دلدادہ نظرآتے ہیں۔ان کی شاعری اپنی تہذیب کی امین ہے۔اسی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جگر اردو کے آخری کلاسیکی شاعرہیں۔تاہم ان چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کی رندی شاعری کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی رندی شاعری کے مقابلے ان کے آخری دور کی شاعری پھیکی نظرآتی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے آخری دورکی شاعری بے کیف وبے کار ہے بلکہ اس کے دیکھنے کا پیمانہ ذرا مختلف ہے۔اس کو اگر دوسرے نظریہ سے دیکھا جائے تو جگر کے آخری دور کی شاعری پہلے دور کی شاعری سے کہیں زیادہ مقبول عام شاعری ہے۔ان کے اس دور کی شاعری میں رنگ تغزل کے ساتھ ساتھ تصوف اور عرفان کا پرتو نظرآتا ہے۔ مثال کے طور پر جگر کے مشہور زمانہ شعرکو کون بھول سکتا ہے جس کا تذکرہ مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ’پرانے چراغ ‘ میں جگر کے حوالے سے ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ مولانا نے اس مضمون میں جگر سے متعلق بہت سارے واقعات کا ذکر کیا ہے جس کی تفصیل میں نہ جاکر یہاں صرف ان کے پسندیدہ شعرکو نقل کرنا ہی کافی سمجھوں گا
اللہ اگر توفیق نہ دے، انسان کے بس کا کام نہیں
پیغام محبت عام سہی، عرفان محبت عام نہیں
جگرکی شاعری کو ایک دوسرے انداز سے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب ہم ان کی شاعری کوان کی ذاتیات سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یہاں بھی ان کی شاعری دو حصوں میں منقسم نظرآتی ہے۔ایک شادی سے پہلے کی اور دوسری شادی کے بعد کی شاعری۔ جہاں تک شادی کے بعد کی شاعری کا تعلق ہے تو اس کی بہترین مثال ان کی ایک مقبول عام غزل ہے جس کو انھوں نے تسنیم سے دوبارہ نکاح کرنے کے بعد لکھا تھا۔وہ کہتے ہیں
کام آخر جذبۂ بے اختیار آہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آہی گیا
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
یہ غزل ان کی زندگی اور شاعری دونوں میں میل کا پتھر ثابت ہوئی۔اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جگر صاحب نے اس کے بعد کبھی بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اوراس طرح انھوں نے اپنی شاعری کا رجحان تصوف اور مذہبی شاعری کی طرف کرلیا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جگرکی شاعری شروع شروع میں دردہجر اور شوق وصال تک محدود تھی لیکن شادی کے بعد ان کی بے قراری کو قرارآہی آگیا جس کا واضح اور بین ثبوت ان کے بعد کے دور کی شاعری ہے۔ جگرکی محبت پہلے ذاتیات تک محدود تھی،بعد میں اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا اور اس طرح آہستہ آہستہ ان کے موضوعات شاعری میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔
B.114, Okhla Main Market, Jamia Nagar
New Delhi -110025
saudalam1983@gmail.com
Mob: 8076495936
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں