15/2/19

غلام محمد یحییٰ: اپنی ذات میں ایک انجمن مضمون نگار:۔ قسیم اختر





غلام محمد یحییٰ

 اپنی ذات میں ایک انجمن


قسیم اختر

غلام محمد یحییٰ ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے سماجی اور ادبی سطح پر بہت سی خدمات انجام دی ہیں۔ دوسری طرف وہ ایک صوفی اور ولی بھی تھے۔ہمارے لیے غور وفکر کی بات یہی ہے کہ انہوں نے ایک طرف اپنے مالک حقیقی سے پورے طور پر لو لگائے رکھا اور دوسری طرف ادب اورسماج کی خدمت میں بھی بھرپور طور پر مصروف عمل رہے۔ ایسی شخصیتیں کم ہی پیداہوتی ہیں۔ انھیں فرامو ش کرنا ناسپاسی اور ناقدری ہوگی۔
غلام محمد یحییٰ کو ہم سے جداہوئے بہت دن نہیں ہوئے۔ یہی کوئی سات سال۔ ان کی یادیں آج بھی بہت سے دلوں میں بالکل تازہ ہوں گی اوررہیں گی۔ چونکہ غلام محمد یحییٰ کی شخصیت ایسی نہ تھی کہ انھیں فراموش کردیاجائے۔ 
غلام محمدیحییٰ یکم جنوری1951 کو بیگانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ والد نے ان کا نام شمس الضحیٰ محمد یحییٰ رکھا تھا لیکن بعدمیں انھوں نے اپنانام خود غلام محمد یحییٰ رکھ لیا اور اسی نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ان کے والد منشی توحید حسین بذات خود ذی علم اوربا شعور انسان تھے۔ مدرسی ان کا پیشہ تھا اور اپنی علمی لیاقت وصلاحیت کی بدولت علاقے میں مشہور تھے۔ غلام محمد یحییٰ کی والدہ ماجدہ کانام زینب تھا اور وہ نواب غلام شہید (اندھوا کولہا) کی دختر نیک تھیں۔غلام یحییٰ کے بڑے ابا جو ان کے خسر بھی تھے حکیم تجمل حسین پورنیہ کمشنری کے معروف حکیم اور صوفی تھے۔ ان کے مریدوں کا سلسلہ بہار، بنگال اور نیپال تک پھیلا ہوا ہے۔ حکیم تجمل حسین کے بعد غلام محمد یحییٰ سجادہ نشیں ہوئے۔ غلام یحییٰ کی شخصیت کی تعمیر وتربیت میں تجمل حسین کا بڑا عمل دخل تھا۔ غلام یحییٰ کے بھائی ماسٹر ظہیر انور بھی ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں۔ یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس شجر ثمر آور سے مزید گل بوٹے کھلنے والے ہیں کیوں کہ ان کے صاحبزادے خالد مبشرایک نامور شاعر اور ناقد کی حیثیت سے اردودنیا میں متعارف ہیں اور وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں۔
غلام محمد یحییٰ کی شخصیت پر جن دو شخصیات کاگہر ااثر پڑا، وہ ہیں نامور شاعر مایۂ ناز ناقد اور ناول نگار شمس بمن گرامی جو ان کے استاد تھے اور دوسرے جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا ان کے بڑے ابا سجادہ نشیں حکیم تجمل حسین۔ ان دو شخصیات کے زیر سایہ تربیت پاکر غلام محمدیحییٰ ایک شجر ثمرآور بنے تھے۔ سیمانچل کی تاریخ میں وہ ایک ایسی معتبر شخصیت کے طو رپر جانے او رمانے جاتے ہیں جنھیں فراموش کرنا سیمانچل کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ غلام محمد یحییٰ ایک شاعر ادیب اور صوفی ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک انقلاب کے نقیب بھی تھے۔ سیمانچل کی معروف او رکامیاب عوامی تحریک سماج سدھار کرانتی سمیتی کے وہ روح رواں بھی تھے جس کی بدولت سیمانچل میں ایک بڑا کام ہوا۔ غلام محمد یحییٰ بھی معلمی کے پیشے سے وابستہ رہے۔ انہیں علم عروض میں مہارت حاصل تھی اور مدرسے میں علم عروض پڑھایاکرتے تھے اور و ہ ایک معتبر اور مقبول استاد تھے۔ غلام محمدیحییٰ کے اندر ایک خوبی اور تھی اور وہ تھی حکیمی۔ اس فن میں بھی وہ مہارت رکھتے تھے ۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی تھی۔ لیکن قضا کسے چھوڑتی ہے۔ غلام محمدیحییٰ بھی 27فروری2011 کواس دار فانی سے کوچ کرکے مالک حقیقی سے جاملے۔
غلام محمدیحییٰ نے بھرپور انداز میں شاعری کی ہے۔ انھوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں اور غزلیں بھی۔ نعت، حمد، رباعی اور سانیٹ کے فن سے بھی ان کاواسطہ رہا۔ خصوصاً نعتیہ کلام میں خوب جوہر دکھائے ہیں۔ غلام یحییٰ کی شاعری پر علامہ اقبال کارنگ بھی نظر آتا ہے۔ چونکہ وہ خود ایک صوفی تھے اور انسانیت کی فلاح وبہبود چاہتے تھے تو وہ بھلا اقبال سے کیوں متاثر نہ ہوتے۔ہر شاعر اپنی استعداد کے مطابق بڑی شخصیتوں سے متاثر ہوتاہے اور اثرات بھی قبول کرتاہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا غلام محمدیحییٰ نے اقبال کی تقلید محض کی ہے یاان کے پاس اپنا بھی کچھ تھا۔ آئیے ان کی نظم’باطل کے مقابل میں‘ کے دوبند ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اقبال سے متاثر ہونے کے باوجود وہ کس طرح ان سے الگ ہیں ؂
اے صاحب اسرار خداوند ذوالجلال
آتی ہے صدا پردۂ گردوں سے دمادم
تو وہ کہ تیری زندہ ضمیری تھی بے مثال
تووہ کہ بصد حیف ترا آج یہ عالم
توحید کی لے سے ہیں تیری مسجدیں خالی
تومست سجانے میں ہے محراب کی جالی
آجائے کسی روح کو لرزش تو کہاں سے
کچھ تیری اذانوں میں نہیں سوز بلالی
ان اشعار کو پڑھ کر اقبال کااثر محسوس کیاجاسکتاہے لیکن ذرا ٹھہرئیے کہ بظاہردمادم اور ضمیری جیسے الفاظ میں اقبال کا رنگ ہے لیکن اس کی روح میں غلام محمدیحییٰ کے دل کی کسک بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ اقبال کے عہد سے نہیں بلکہ اپنے عہد کے حالات سے نالاں ہیں۔ اقبال اگر کہتے کہ اللہ کے شیروں کوآتی نہیں روباہی تو غلام یحییٰ اس سے آگے بڑھ کر یہ فرماتے ہیں کہ اس کے لیے ہم خود ذمہ دار ہیں ۔ ہم نے خود روبا ہ کو یہ موقع فراہم کیاہے وہ زمام کار سنبھالے۔ یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں ؂
تیرگی صبح ثقافت کی جگہ لیتی ہے
قوم آوارہ شرافت کی جگہ لیتی ہے
شیر جب نیند کی مستی میں ہوا ہوتاہے
روبہی مفت امامت کی جگہ لیتی ہے
غلام محمد یحییٰ اپنے سینے میں ایک در دمند دل رکھتے تھے اورانسانوں کی حالت زار سے ان کا دل پیچ و تاب کھاتا تھا۔ آپ وہ واقعہ یاد کریں جب پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مویشی کے تاجروں پر گولی باری کردی تھی۔یہ ایک ظالمانہ انکاؤنٹرتھا۔اس وقت تحریک سماج سدھار کرانتی سمیتی شباب پرتھی اور غلام محمدیحییٰ سر گرم عمل تھے۔ انھوں نے ان حالات سے متاثر ہوکر بڑے اچھے انداز میں پولیس کی یکطرفہ کارروائی پر انگشت نمائی کی تھی۔یہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ اقبال کی وہ لفظیات ترک کرچکے ہیں جو ان کی پہچان ہے بلکہ غلام یحییٰ کاقلم ان کی زبانی ان کے دل کی ترجمانی کررہاہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؂
گولیاں سینۂ انساں پہ چلانے والو
خون اس امن کی دھرتی پہ بہانے والو
یک بہ یک تم کسی وحشت پہ نہ اترے ہوتے
ہم اگر قتل سے پہلے ہی یہ سوچے ہوتے
جانے بیوہ کی شب زیست کیوں کربسر ہوگی
درد فرزند میں روتوں کی کیوں کر سحر ہوگی

ہم توسمجھے تھے محافظ ہو حفاظت ہوگی
کیا خبر تھی کہ تمہیں ہم سے عداوت ہوگی
توتورکشک کے لبادے میں لٹیرے نکلے
صبح کے روپ میں راتوں کے اندھیرے نکلے
غلام محمدیحییٰ کے یہاں رومانی شاعری بھی پائی جاتی ہے۔ یہاں وہ رومانیت کی جھلک ملتی ہے جو اسرارالحق مجاز اور ساحر لدھیانوی کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی جوش ملیح آبادی کا سا انداز تکلم بھی دیکھاجاسکتاہے۔ اس ضمن میں ایک دو بند ملاحظہ فرمائیں ؂
تیرا ملبوس وفا تیری ادا شرح نیاز
تیرے ہر انگ میں آدم کی تمنا کا گداز
حسن اول کی ودیعت پہ نظرساز دمک
تیرے ہر سانس میں مریم کے تقدس کی مہک
تیرے عارض، تیری آنکھیں ، تیری سیمائے حسیں
صبح کا ذکر کیا جائے تو تو یاد آئے
برق گرتی ہے تیرے جسم کی انگڑائی سے
تیری ہستی سے فروزاں ہے شبستان وجود
تواگرچھیڑ دے شائستہ سااگر نغمہ کوئی
دفعتاً ٹوٹ کے رہ جائے زمانے کاجمود
تو اگر اپنی نمائش نہ کرے عام تو پھر
ساری دنیا تیری عفت کے ترانے گائے
حسن کا نام لیا جائے تو تو یاد آئے
یہ بند دیکھیں جس میں جوش کاانداز تکلم اور لفظیات کاعکس دکھائی دے گا ؂
جان من صورت حال مگر ٹھیک نہیں
آہوئے شوق ہے محصور تقاضائے حیات
چاہ کی راہ میں ہے کاہش دوراں حائل
کشتۂ درد ہوممکن ہے محبت کی برات
کاش دریا کے کناروں کو میسر ہوملن
ڈوبتی ناؤ کسی طوربھنور سے نکلے
ہوں دعاگو کہ اتر جائے حوادث کاگہن
پیار کا چاند اندھیروں کے اثر سے نکلے
اس سے پتہ ملتاہے کہ غلام محمدیحییٰ اپنے آخری دنوں میں شکیل بدایونی سے متاثر تھے۔ انہوں نے بہادر گنج کے ایک نوعمر شاعر جہانگیر نایاب سے کلیات شکیل بدایونی منگائی تھی اور اس کامطالعہ کیاتھا۔ان دنوں و ہ صاحب فراش تھے اور چلنے پھرنے سے معذور ہورہے تھے۔ شکیل کے معروف مصرعہ
مرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے درد دل کی دوانہ دے
کی تضمین کی تھی۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ؂
میراحال نہ پوچھ بے وفا مجھے بولنے کی سزا نہ دے
مجھے ضبط غم نے گھلا دیا میرا غم کسی کو خدا نہ دے
ان باتوں سے الگ ہٹ کرغلام محمدیحییٰ کے کلام میں ان کا درد مند دل موجود نظر آتا ہے۔ اور ان کااپنا انداز بھی ہے۔ اور ہمارا اصل موضوع یہی ہے۔کیوں کہ کسی بھی شاعر کی یہ پہچان نہیں ہوتی کہ اس نے کس بڑے شاعر کی پیروی کی ہے۔ یوں تو غالب نے بھی بیدل کا طرز اختیا رکرنا چاہا۔ میر کی استاد ی کی داد بھی دی۔ ابتدائی دنوں میں غالب نے یہ بھی کہا کہ ؂
چلتاہوں تھوڑی دور ہراک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
لیکن بعد میں غالب نے اس راہ بر کو پالیا۔ وہ خود اس کی اپنی ذات تھی۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غلام محمد یحییٰ کے یہاں مختلف استاد شعرا کا رنگ گاہے گاہے نظر آتا ہے لیکن ان کااپناایک رنگ بھی ہے اوران کااپنا انداز ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا کہ وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے اوراپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتے تھے۔ جو انہیں اپنے عہدکے حالات اور مسائل پر غور وخوض کرنے ، سوچنے سمجھنے اور عملی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرتاتھا۔ اسی سبب سے انھوں نے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی شاعری میں اسے موضوع بھی بنایا۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ؂
فلک دہشت زدہ ہے آج پھر یحییٰ نہ جانے کیوں
یقیناًپھر کوئی سرکش کہیں بارود بوتاہے
تو یہ خالص ان کے عہدکا مسئلہ ہوتاہے اوریہ صر ف اور صرف ان کا انداز ہوتا ہے۔یہی وہ رنگ ہے جس سے غلام یحییٰ کی پہچان ہوتی ہے او رہونی چاہیے۔یہ بند ملاحظہ فرمائیں جس میں ان کاپرسوز دل گاتا ہوا نظر آتا ہے ؂
یہ اک بیابان خاک ہے محتاج التفات
شاید کہ واشگاف ہو عکس غم حیات
دیکھا کہ میرے سامنے ہے ایک گلستاں
ہے جس کے درمیان کا منظر دھواں دھواں
خون بہار سے در و دیوار نوحہ خواں 
رہ رہ کے جابجا سے ابھرتی ہیں سسکیاں
غلام یحییٰ کی غزلوں میں ان کا شاعرانہ تیور بھی ملاحظہ کرتے چلیں جس میں معشوق سے نوک جھونک او راس کی بے التفاتی کاشکوہ ہے ؂
بے رخی میں نے ہی کی یہ سچ نہیں
آپ کاتیور بھی تھا بدلا ہوا
بجلیاں نظروں سے برسانے کے بعد
مسکرا کر پوچھتے ہیں کیاہوا
غلام محمدیحییٰ کااصل جوہر غزلوں میں نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پرایک غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں بے ساختگی، برجستگی اور انوکھاپن نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی منفرد انداز انہیں ایک شناخت دلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک غزل کے دو تین اشعار دیکھیں جس میں ان کی جدت طرازی محسوس کی جاسکتی ہے ؂
کل تک نہ تھی کسی کوبھی اس بات کی خبر
رنگین شام لائے گی سہمی ہوئی سحر 
صد چاک پیرہن بھی بدن سے اترنہ جائے
چھیڑا کرے مجھے یونہی عفریت وقت اگر
پت جھڑ کی رت شکست انا کی دلیل ہے
ایسی کہاں بہار کی چبھتی ہوئی نظر
ان اشعار میں سہمی ہوئی سحر،صد چاک پیرہن کے بدن سے اترنے کی بات، پت جھڑ کی رت کا شکست انا کی دلیل ہونا اور بہار کی چبھتی ہوئی نظر وہ ترکیبیں ہیں جو غلام محمد یحییٰ کے ایک قادرالکلام شاعر ہونے کی دلیل ہیں۔ان کے یہاں اس طرح کے بہت سے اشعار موجود ہیں۔ اسی سلسلے میں ان کے یہ اشعار سماعت پربھاری نہ ہوں گے کہ ؂
حصار غم سے نکل کے آ
خوشی کے سانچے میں ڈھل کے آ
نہ ڈگمگا یوں قدم قدم
یہ کوئے دل ہے سنبھل کے آ
سلگ رہاہے قرار دل
توموم ہے توپگھل کے آ
حساب سودو زیاں نہ کر
بہ ایک جنبش مچل کے آ
یہاں قافیہ اور ردیف کاانتخاب اور چست بندشیں کسی معتبر اور ہنر مند شاعرکا پتہ دیتی ہیں۔
غلام یحییٰ کی شاعری کی خوبی ان اشعار میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو خالص مسائل اور غم حیات پرمبنی ہیں۔ یا وہ مقامات جہاں گنگا جمنی تہذیب پرورش پاتی ہے، ان کی آبیاری میں بھی غلام یحییٰ ایک خاص ہنر سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
غلام یحییٰ سوالیہ انداز میں کہتے ہیں ؂

کیامیں گدائے بے نوا اپنے وطن میں ہوں
حق اپنا کیوں بصورت صدقہ ملا مجھے
ظالم سزا تو دے چکے لیکن سوال ہے
کیا میں قصوروار تھا سچ سچ بتامجھے
یادیر وحرم میں یکساں طورپر الفت کی شمع جلانے والوں کے لیے یہ پیغام محبت بھی سناجاسکتاہے ؂
یحییٰ حرم ہو، دیر ہو، الفت کے ہیں مقام
ان میں نہ کوئی خطبۂ نفرت سنا مجھے
غلام محمدیحییٰ کے رنگ کی تصدیق ان کی حمد سے بھی ہوتی ہے۔ اپنی ایک نظم حمد باری تعالیٰ میں وہ جس طرح اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں اوراس کے لیے الفاظ کاانتخاب کرتے ہیں اس کی مثال دوسری جگہ نہیں ملتی ۔ حمد کاایک بند ملاحظہ فرمائیں ؂
خلا فضا ہوا دوا جزا سزا وفا جفا
بلا شفا حیا ادا غذا مزا صبا صدا
ذکی غبی غنی گدا، چمن بدن عبا قبا
یہ جلوہ ہائے خوشنما، بہت حسین و دلربا
یہ جس کی قدرتیں ہیں سب وہ بالیقیں خداکا ہی ہے
اس مصرع میں ’کا‘ کا زائد ہے۔ اصل مصرع یوں ہوگا ؂
یہ جس کی قدرتیں ہیں سب وہ بالیقیں خدا ہی ہے
وہ لم یزل و لایزال ذات کبریا ہی ہے
اسی طرح جب و ہ نعت کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں بھی اپنی قادرالکلامی کا لوہا منواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نعت کافن ایک ایسافن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مساوی ہے۔ بالیقیں اس راہ سے سب کے لیے گزرنا آسان نہیں۔کیونکہ ایک طرف نبی رحمت ﷺ کی مرتبت اور عظمت کا خیال رکھنا ہوتا ہے دوسری طرف حد اعتدال بھی لازم ہوتا ۔ اس سلسلے میں غلام محمد یحییٰ کی ایک نعت کے دوتین اشعار ملاحظہ فرمائیں جس سے یہ بات آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنا انداز بیان رکھتے ہیں بلکہ نعت کہنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ وہ ایسے معانی بھی پیدا کرتے ہیں جوخود شاعر کے لیے راحت جاں ہے۔ یہ اشعار یقیناًملاحظہ کے قابل ہیں ؂
وہ نور حق سکون جاں وہ دُرّ بحر لامکاں
سرور اولیں وہی نشاط آخریں وہی
وہی جمال زندگی بہار عالمیں وہی
انھیں کے صدقے ایں وآں
انھیں کے صدقے روح وجاں
جو وہ نہیں تو کچھ نہیں نہ یہ زمیں نہ آسماں
یہ وہ شاعری ہے جو یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ غلام محمد یحییٰ نے اپنا خون جگر صرف کرکے ان اشعار میں اپنے دل کی صدا قید کردی ہے۔ہماری یہ کوتاہی اور ناقدری ہوگی کہ ہم انہیں فراموش کردیں۔ 

Dr. Quaseem Akhtar
At. Bahader Pur
Po.- Amour, Dist. Purnea
Pin. 854315
Mob. 9470120116
E-mail: qaseemakhtar786@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں