5/2/19

داغ کی شاعری میں خوف کی جمالیات مضمون نگار:۔ قمر جمالی



داغ کی شاعری میں خوف کی جمالیات

قمر جمالی
’خوف‘
اس لفظ میں بڑی پراسراریت ہے۔
خوف سے خوف زدہ ہوجانا ایک عام سی بات ہے۔ مزید برآں کہ اس کی رمزیت کی تلاش تشویش کن ہے۔ اس لیے عام صورتِ حال میں اتنا ہی کافی ہے بجائے اس کی گرہیں کھول کر مزید خوف زدہ ہوں اسے جوں کا توں قبول کرلیا جائے اور اس سے حَظ اٹھایا جائے۔
کیونکہ خوف کی بھی جمالیات ہوتی ہے خوف ایک ایسا جذبہ ہے جو اگر شدید ہو تو انسانی وجود کو تہس نہس کرسکتا ہے۔
مگراس کا دوسرا رخ خوبصورت ہے جسے ہم ’خوف کی جمالیات‘ یعنی 'The Aesthetics of Apprehension' سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس جذبے میں گرمی تو ہے ہی نرمی کے ساتھ ہراسانی، پریشانی، اندیشہ، وسوسہ، اپنا کچھ کھونے یا اس میں تصرف کا خدشہ بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جذبے سے ایک حساس انسان، ایک فنکار، ایک شاعر، ادیب یا پھر151 ایک عاشق بار بار نبرد آزما ہوتا ہے۔ ’خوف‘ جبر و قدر کے درمیان ایک میزان بھی ہے جو ایمان کی استقامت کی ضامن ہے۔ حدیث ہے:
اَلْاِیْمَانُ بَینَْ الْجَبْر وَالْقَدْر
’’ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے۔‘‘
’خوف‘ تہذیب کا حصہ بھی ہے۔ بالخصوص ہندوستانی تہذیب کا بہت اہم حصہ۔ اگر ہم ہندوستانی تہذیبوں کے ارتقائی سفر کا مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ ہندوستانی تہذیب دنیا کی دیگر تہذیبوں سے کئی معنوں میں ماورا ہے۔ ہماری تہذیب میں چاہت اور محبت میں خودسپردگی کا جذبہ غالب رہتا ہے جس کی کوکھ سے خوف جنم لیتا ہے۔ اس جذبے کی شدت کو ہم اورنگ آباد کے ان غاروں میں جہاں پتھر بولتے ہیں اور اڑیسہ کے سورج دیوتا کے ’کونارک‘ مندر کی مورتیوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے محسوس کرسکتے ہیں۔ کسی کو پانے یا کھونے کا خوف، کسی کے ہوجانے پھر بچھڑنے کا خوف، محبوب کی خوشنودی یا ناراضگی کا خوف، عشقِ مجازی کی سلامتی، استقامت اور ٹوٹنے بکھرنے کا خوف یا پھر151
عشقِ حقیقی میں اپنے رب کو ناراض کرنے کا خوف۔
ان سب پر قابو پانے کے لیے ہم جس حسنِ ظن سے کام لیتے ہیں وہی دراصل خوف کی جمالیات، The Aesthetics of Apprehension' ہے۔
لغوی طور پر:
.1 فیروز اللغات (اردو جامع) نیا ایڈیشن، مرتبہ الحاج مولوی فیروز الدین، فیروز سیریز (لاہور، راولپنڈی) کے مطابق151 ڈر، دہشت، ہراس اور ہول ہے۔
.2 فرہنگِ آصفیہ جلد اوّل (جملہ جلدیں تین) مولفہ خان صاحب مولوی سید احمد دلوی ترقئ اردو بیورو، نئی دہلی۔ سلسلہ مطبوعات نمبر 553 کے مطابق151 ڈر، اندیشہ، ہول، بھٹے، دہشت، ہراس اور ہیبت ہے۔
.3 دی آرین پور پروگریسو انگلش۔ پرشین ڈکشنری، مرتبہ منوچہر آرین پور۔
(The Aryanpur Progressive English- Persean Dictionary, Edited by: Manoochaher Aryanpur) کے مطابق دستگیری، دریابی، بیم، تشویش اور واہمہ۔
.4 انگریزی کی آکسفورڈ ڈکشنری، مرتبہ Archie Hobson کے مطابق Something bad sr. unpleasant will happen 
ان تمام معنوں پر غور کریں تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ خوف ایک ایسا جذبہ ہے جس میں کچھ کھونے پانے،ٹوٹنے بکھرنے، کسی کے چھوٹ جانے کا اندیشہ کسی کی ناراضگی کا خدشہ یعنی امید و بیم کے درمیان احساس کا ایسا حصہ جس میں غم و غصے اور مایوسی کے ساتھ محبت بھی شامل ہے۔
غالب جب امراؤ بیگم کو ورانڈے میں نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر اپنی جوتیاں بغل میں داب کر یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں151
’’سارے گھر کو مسجد بنا رکھا ہے۔‘‘
تو غالب کے اس احساسِ خوف میں ایک نرم جذبہ بھی مضمر ہے کہ کہیں وہ امراؤ بیگم کی نماز میں مخل نہ ہوں۔ اس جذبے میں غالب کا نماز کے تئیں احترام، امراؤ بیگم سے محبت اور ان کے روٹھنے کا خدشہ بھی شامل ہے۔
یہی اندیشہ ’خوف کی جمالیات‘ ہے۔
دراصل یہی میرے موضوع کا نفس مضمون ہے151
جمالیات کیا ہے151؟
ہماری نظر میں کسی بھی چیز، خواہ مرئی ہو یا غیرمرئی ہو، میں حسن کی تلاش۔کیونکہ،کائنات کی ہر شے اور انسانی احساسات کے ہر پہلو میں حسن مضمر ہے۔ بس ضرورت ہے تو نگاہِ بصیرت کی۔
شہنشاہِ جمالیات پروفیسر شکیل الرحمن صاحب نے اپنے شکیلیاتی اسلوب سے ’جمالیات‘ کو نہ صرف ایک نیا پیراہن عطا کیا بلکہ تحقیق و تنقید کے لیے ایک مستقل موضوع وضع کیا۔ شکیل الرحمن صاحب نے ہر ازم کی جمالیات دریافت کی اور اس کی گرہیں کھول کر قارئین کے دماغوں کو روشن کیا۔ مثلاً: مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات، امیر خسرو کی جمالیات، قلی قطب شاہ کی جمالیات، تصوف کی جمالیات، مولانا رومی کی جمالیات، غالب کی جمالیات، ہندوستانی جمالیات، فیض احمد فیض: المیہ کی جمالیات، اقبال: روشنی کی جمالیات، جمالیاتِ حافظ شیرازی، اور ’ہند اسلامی جمالیات ‘وغیرہ وغیرہ۔ پروفیسر شکیل الرحمن صاحب کی نظر میں کائنات کی ہر شے میں جمالیاتی حس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں محض جمالیاتی فکر و بصیرت کی وجہ سے ہی کائنات کا حسن برقرار ہے۔
اردو شاعری کا دامن اتنا وسیع ہے کہ ہمارے لیے صرف میر و غالب، اقبال، فیض، فراق تک پہنچنا ہی مشکل ہے کیونکہ ان کے یہاں جمالیاتی تجربے کا جہان آباد ہے جو اردو ادب کا عظیم سرمایہ ہے۔ اس لیے یہاں یہ اعتراف ضروری ہے کہ اردو ادب یا اردو شاعری میں جمالیاتی تصور پر بات کرنا مجھ جیسے ہیچمدان کے لیے جسارتِ کوہکن کے مترادف ہے۔
اس مضمون کے ذریعے صرف نواب مرزا داغ دہلوی کی شاعری میں خوف کی جمالیات تک پہنچنے کی سعی کی جارہی ہے۔
کسی بھی فن پارے میں جمالیاتی حس کی دریافت کرنی ہو تو پہلے اس فن پارے میں وجدانی کیفیت کو محسوس کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ جمالیاتی تصور دراصل وجدان پر ہی منحصر ہوتا ہے۔
داغ کی شاعری میں وجدانی نبض کو ٹٹولنے کے لیے ان حالات کا جاننا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے داغ کی شاعری پر عشقیہ شاعری کا ٹھپہ لگا ہوا ہے جو اپنی نزاکتوں یا کثافتوں کی باعث قابلِ تعریف رہی ہے تو قابلِ مذمت بھی رہی ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے اپنے مضمون ’کیا داغ محض عشقیہ شاعر ہیں؟‘ میں کئی سوالات قائم کیے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’آج اجتماعی تہذیب اور متنوع شاعری کے دور میں داغ کی انفرادی نوعیت کی شاعری ہمیں متوجہ نہیں کرتی بلکہ سوالات قائم کرتی ہے اور ہم انھیں محض چونچلے اور بوالہوسی کی شاعری کہہ کر الگ کردیتے ہیں۔ اس لیے کیا یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ...
.1 جن جذبات کا اظہار شعر میں ہوا ہے وہ کس قدر مصنوعی ہیں اور کس قدر حقیقی؟
.2 کیا یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ ان کیفیات کے درپردہ ایسے عناصر پوشیدہ ہیں جو داغ کی سنجیدگی، رنجیدگی اور افسردگی کو ظاہر کرتے ہیں؟‘‘ 
اور آخر میں خود وہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:
’’بہت سارے سماجی خیالات، عمرانی تصورات، عیش کی راہ سے گزرتے ہوئے کائنات پر چھا جاتے ہیں۔ عمدہ اور معیاری، عشقیہ شاعری اسے ہی سمجھی گئی جو اسرارِ حیات اور آزارِ کائنات کو سمجھنے میں مدد کرے اور ہماری زندگی کو بھرپور بنا دے۔ دعوتِ عشق دے تو دعوتِ عمل بھی دے۔ داغ کی شاعری بالکل ایسی تو نہ تھی لیکن ان کے سرمایے میں اس نوعیت کی اچھی خاصی شاعری بھی ہے جو محض عشقیہ شاعری نہیں ہے۔‘‘
(ماہنامہ آجکل، مئی 2016، ص 8)
داغ اس روایتِ شاعری کی آخری کڑی ہیں جو ولی دکنی سے شروع ہوکر امیر مینائی اور خود داغ پر ختم ہوتی ہے۔ گوکہ داغ کی شاعری کو جسم و جان کی شاعری یا جنسی شاعری کا نام دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مولانا حسرت موہانی نے اسے ’فاسقانہ شاعری‘ اور حالی نے ’غیراخلاقی‘ شاعری کا نام دیا ہے، داغ نے اپنے فصیح و بلیغ اندازِ بیاں، نزاکتِ احساس اور محاوراتی اظہار سے شاعری میں نہ صرف اپنے عصر کو زندہ جاوید کیا بلکہ رہتی دنیا تک عمدہ اور معیاری شاعروں میں اپنا نام درج کیا ہے ؂
داغ معجز بیاں ہے کیا کہنا
طرز سب سے جدا نکالی ہے
داغ دراصل دلی کی دم توڑتی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان حالات اور معاشرت اور تہذیبی ورثے، سمجھنا ضروری ہے جو اس وقت مروج تھے کیونکہ کوئی بھی شاعر، ادیب یا فکشن لکھنے والا اپنے عصر کا نقیب ہوتا ہے۔
نواب مرزا خان دہلوی 25 مئی 1831 کو دہلی کے محلے چاندنی چوک میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام تذکروں کے مطابق نواب شمس الدین احمد خان درج ہے کیونکہ داغ کی والدہ وزبرخانم عرف چھوٹی بیگم جو محمد یوسف کشمیری کی چھوٹی، حسین و جمیل بیٹی اور نواب شمس الدین احمد خان، والیِ فیروز پور و جھرکہ کی داشتہ تھیں۔ ’سخنِ شعرا‘ میں داغ کا تعارف ’داغ تخلص نواب مرماے دہلوی ولد چھوٹی بیگم‘ درج ہے۔
دولت ہندوستان عرف نواب فخرو1844 میں مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین فتح الملک بہادر ولی عہد سوم کی منکوحہ بنیں اور قلعہ معلی آئیں تو انھوں نے نواب مرزا داغ کو بھی قلعہ معلی اپنے پاس بلا لیا۔ نواب فخرو کوبھی شعر و شاعری سے شغف تھا۔ انھوں نے جب داغ سے ان کے اشعار سنے تو اپنے والد بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق دہلوی کی شاگردی میں دے دیا۔ نواب مرزا کا تخلص داغ بھی نواب فخرو کادیا ہوا ہے۔ تلمذ کا یہ سلسلہ وفاتِ ذوق 1856 تک جاری رہا۔
اس ساری حکایت عیش و طرب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ محاورتاً چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں مگر نواب مرزا داغ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ پیدائش سے چار سال تک نواب شمس الدین احمد خاں والیِ فیروزپور جھرکہ و لوہارو کے محل میں رہے۔ درمیان میں کچھ سال اپنی خالہ عمدہ بیگم کے ساتھ نواب محمد سعید خان والی رامپو رکے محل میں رہے۔ چودہ سال کی عمر میں لال قلعہ منتقل ہوئے تو شہزادوں کی سی زندگی جی۔
مگرعنفوانِ شباب کی کچی عمر میں انھوں نے ایک کے بعد ایک کئی مردوں کو عارضی باپ کی صورت ماں کی خواب گاہ میں آتے جاتے دیکھا تو اسی ماحول میں خود کو رنگ لیا۔ غیرمردوں کو ماں کے ساتھ دیکھ کر ان کی حمیت کو کوئی دھکا نہ لگا۔الٹا انھوں نے اس اندازِ زندگانی کو منفعت بخش محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔
جب چودہ سال کی عمر میں لال قلعہ منتقل ہوئے تو اٹھتی ہوئی جوانی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے انھیں ماحول سازگار املا اور وہ زندگی انھیں خوب راس آئی۔
لال قلعہ میں ا ن کی تربیت شہزادوں کے بیچ انھیں کی طرح ہوئی۔ ان کے معمولات بھی وہی ہوگئے جو اور شہزادوں کے تھے۔ چاروں طرف نوجوان لڑکیاں، شہزادیاں، خواص، مغلانیاں اور دل بہلانے والی طوائفیں۔ اس وقت قلعہ معلی کا ماحول عیش و نشاط میں ڈوبا ہوا تھا۔ داغ اُس ماحول میں شیر و شکر ہوگئے۔ وہاں انھوں نے جو کچھ دیکھا عملاً اس کے عادی ہوگئے۔
دوسرے شہزادوں کی طرح داغ نے بھی دوسرے فنونِ لطیفہ کی تربیت لی مگر شاعری ان کا پہلا عشق اور اظہار کا وسیلہ بن گئی۔ ظاہر ہے اپنے اشعار میں داغ نے وہی کچھ پیش کیا جس کا انھیں عملی تجربہ تھا۔ زندگی ان کے لیے عیش و نشاط کا مرکز بن گئی۔ کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
تارِ نگاہ و سوزنِ مژگاں سے حشر میں
منہ سی دیا نہ تم نے کسی داد خواہ کا
جھلکتی ہے خطِ عارض پہ اس کے روشنی کیسی
نرالا حسن ہے سائے میں نور ایسا نہیں ہوتا
شب ہجراں سے موت بہتر ہے
خوب آرام سے تو آئے گا
یوں نہ آئے گا ہاتھ گروہ صنم
ترک اسلام سے تو آئے گا
کمبخت یہ بھی دے نہ سکا رات بھر کا ساتھ
میں جاگتا رہا شبِ غم بخت سوگیا
کسی حسیں کو اگر دیکھتے تو مرجاتے
جنابِ خضرؐ کی پھر عمرِ جاوداں کیسی
ہستی میں ہیں عدم کے مزے عاشقوں کو داغ
قالب میں جان آتے ہی پہلو سے دل گیا
اے محتسب اک دم سے تری کتنی جفائیں
شیشہ کا منہ بند صراحی کا گلا بند
داغ زندگی کو بھرپور جینا چاہتے تھے اور ان کی زندگی کا بڑا حصہ جنس کی تسکین تھا۔ عیش میں بسر کرنا ہی ان کا مقصدِ حیات تھا ؂
نہیں مرنے کا اپنے غم، یہ غم ہے
کہ پھر آنا نہ ہوگا اس جہاں میں
داغ کی نفسیات پر ماں کا اتنا اثر رہا کہ عورت ہمیشہ ان کے اعصاب پر چھائی رہی۔
عورت محض کھیلنے کی چیز تھی جیسے ان کی ماں اور خالہ۔ فطرتِ داغ میں سچے عاشق کو ڈھونڈنا تلاشِ عبث تھی۔ بہ الفاظ دیگر داغ ایک ہرجائی عاشق تھے۔ اس بات کا اظہار ان اشعار میں دیکھیے:
اک نہ اک ہم لگائے رکھتے ہیں
تم نہ ملتے تو دوسرا ملتا
کیا ملے گا کوئی حسیں نہ کہیں
دل بہل جائے گا کہیں نہ کہیں
پوچھتے کیا ہو کیوں لگائی دیر
اک نئے آدمی سے ملنا تھا
1856 میں ولی عہد فخرو مرزا کا اچانک ہیضے میں انتقال ہوا تو نواب مرزا داغ کو اپنی والدہ وزیربیگم کے ہمراہ قلعہ معلی سے نکلنا پڑا۔ 1857 کی قیامت خیز تباہی نے قلعہ معلی کی عظمت کو تہس نہس کردیا مگر داغ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ ایک سال قبل قلعہ چھوڑ چکے تھے اور اپنی خالہ عمدہ بیگم کی سفارش پر رام پور کے محل میں پورے کر و فر سے رہ رہے تھے۔ بغاوت ختم ہوئی تو داغ دوبارہ دلی پہنچے مگر دلی اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی ؂
سرورِ عیش و نشاط کیسی، بدل گئے رنگ ہی جہاں کے
سنا نہ کانوں سے تھا جو ہم نے، وہ آنکھ سے انقلاب دیکھا
1889 میں بحالتِ مجبوری قسمت آزمائی کے لیے حیدرآباد جو اُس وقت مغلیہ تہذیب ہی کا نشان تھا وارد ہوئے۔ پہلی بار مایوسی ہوئی۔ دوسری بار 1890 میں انھیں دربار میں رسائی مل گئی اور نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے استاد مقرر ہوئے۔ ایک بار پھر وہ امیرانہ ٹھاٹ باٹ لوٹ آئے۔ 1894 میں نظام دکن نے انھیں ’بلبلِ ہندوستان، جہان استادِ دبیر الملک ناظم جنگ بہادر‘ کا خطاب اور ایک ہزار روپے مشاہرہ مقرر کیا۔ ساتھ ہی پچھلا بقایا ساٹھ ہزار روپے بھی ادا کیا۔ اب داغ کے لیے بس چاندنی ہی چاندنی تھی۔
داغ کی شاعری میں خوف، ہراس، ناامیدی، افسردگی، یاس و حسرت، کچھ کھونے، کسی کے چھوٹنے کا غم ناپید ہے۔ کیونکہ عشق مجازی کے تو وہ خود ہیرو تھے۔ اسی لیے طوائف مرکز حیات تھی جسے انھوں نے اس کی صفتی کمزوریوں کے ساتھ چاہا۔ انھیں اپنی معشوق کا ہرجائی ہونا گراں نہیں گزر تا تھا بلکہ وہ اپنی معشوق کی اس ادا سے حظ اٹھاتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے ؂
لڑی جاتی ہے غیر سے آنکھیں
مجھ سے بھی بات کرتے جاتے ہیں
دو دن بھی برابر وہ کسی سے نہیں ملتا
یہ اور قیامت ہے کہ مل کر نہیں ملتا
کیا رہیں ہم کہ تیرا چال چلن
پاس رہ کر نہیں دیکھا جاتا
تو یہ ہے کہ انھیں اپنی معشوق کے روٹھنے کا بھی کوئی افسوس نہ تھا، منانے کی بات تو در گزر
کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو
خوب رویوں سے جہاں خالی نہیں
یہ وہ دور تھا جب بادشاہِ وقت سلطنت کے نظم و نسق سے بے نیاز تھا۔ ظاہر عوام پر فرار کی صورت دو ہی راہیں کھلی تھیں۔ ایک نفس پرستی کی تو دوسری خدا پرستی کی۔ مذہب محض دکھاوا یا رسوم کی پابندی کا معاملہ بن گیا تھا۔ صوفیا اور مرشدین گنڈے تعویز کے ذریعے رقم بٹور رہے تھے۔ لال قلعہ تو اس علت میں بری طرح ڈوبا ہوا تھا۔ دافع بلّیات کے لیے خدا کے حضور جھکنے، گڑگڑانے کی جگہ تعویذ فلیتوں میں پناہ ڈھونڈی جاتی۔ نذر و نیاز چڑھائی جاتی کہ نہ کرنے سے کہیں کوئی آفت نہ ٹوٹے۔ داغ اپنے عصر کے نہایت ہی دیانت دار پیروکار تھے۔
ظاہر ہے داغ کے ہاں خوفِ خدا کا عنصر بھی ڈھونڈنے سے ہی مل پائے! گناہوں سے شرمسار ہونے کا خوف، حلال و حرام کے بیچ فرق مفقود نظر آتا ہے۔ ایسے میں خوفِ خدا کے زیراثر موزوں ہوئے اشعار میں خوف کی جمالیات کی تلاش مشکل تو ہے کیونکہ داغ خوف کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے بلکہ اس سے حظ اٹھاتے ہیں ؂
اس پر تو کرتا عمل تو دیکھتا
قطرۂ مے زاہدا تسبیح کا دانہ نہ تھا
لو اے بتو! سنو کہ وہ داغِ بت پرست
مسجد میں جا کے آج مسلمان ہوگیا
کی ترکِ مے تو قائل پندار ہوگیا
میں توبہ کرکے اور گنہگار ہوگیا
مے تو حلال ہے جو پیے ڈھب سے بادہ کش
میں توبہ کرکے اور پریشان ہوگیا
بقول جمیل جالبی:
’’درد و کرب میں مبتلا ہونا داغ کے مزاج اور ان کی فطرت نہیں ہے۔ وہ اسی ماحول میں رہ کر خلد بریں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ’فنا‘ ان کے تخلیقی دائرے میں شامل نہیں ہے اور وہ خود بھی اس کے علاوہ کسی اور پہلو پر غور نہیں کرتے۔ عشق کی ناکامی بھی ان کا مسئلہ نہیں ہے اور وہ اس لیے کہ ان کا معشوق طوائف ہے جو انھیں حاصل ہے یا حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی معشوق کے حسن و جمال سے کھیلنا، اس عشق کے نئے نئے تجربوں اور معاملات سے لطف اندوز ہونا ان کی زندگی کا بہترین مشغلہ ہے جس پر آخرِ عمر تک عمل پیرا ہے۔‘‘
(تاریخِ ادب اردو، جلد چہارم از جمیل جالبی، فصل چہارم، ص 1493)
بہار بن کے رہے ہم تو جس چمن میں رہے
کے مصداق داغ نے کسی بھی خوف کو اپنے دامن میں جگہ نہیں دی۔ ان تمام باتوں کے باوجودبحیثیت انسان داغ کی شاعری میں ایسے اشعار کا فقدان ضرور ہے جن میں خوف، پریشانی، پشیمانی اور پچھتاوے کا اظہار ہے مگر ناپید نہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ کریں ؂
تاثیر بچ کے سنگِ حوادث سے آئے کیا
میری دعا بھی ٹھوکریں کھاتی ہے راہ میں
ڈر ہے منہ پھیرے وقت ذبح نہ خنجر اس کا
پڑھ کے ہم سورۂ اخلاص کو دم کرتے ہیں
کرتا ہے رقیب ان کی شکایت مرے آگے
ڈرتا ہوں کہ مل کر نہ کہیں مجھ کو دعا دیں
بے اثر ٹھہری دعائیں سب کی سب
عمر بھر کی وہ وفائیں سب کی سب
ستیاناس ہو ترا اے دل
تو ہمارے نہ کام کا نکلا
نہیں اِس کے خوگر ہم اے آسماں
نہ دے ہم کو تکلیف راحت کے بعد
مجھ کو دھڑکا ہے کہیں قطع تعلق نہ کریں
اب جو ہر بات پہ تکرار وہ کم کرتے ہیں
یہ کیا کہا کہ میری بلا بھی نہ آئے گی
کیا تم نہ آؤ گے تو قضا بھی نہ آئے گی
مداوا ترے کشتگانِ ستم کا
خدا جانے عقبیٰ میں کیا ہورہا ہے
تحقیق کبھی حرفِ تمام نہیں ہوتی بلکہ فکر کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مضمون قارئین کو تشنہ لگے۔ پھر بھی ان خطوط پر سوچ کو مہمیز کرسکے کافی ہے۔

Qamar Jamali
'Rahat Kadah' H.No: 4-5
Himagiri Nagar Colony
Gandamguda
Hyderabad - 500091 (Telangana)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...