بچوں کی نظموں میں جدید موضوعات
عاتکہ ماہین
کسی بھی زبان کے ادب کی مقبولیت کا انحصار زیادہ تر اس کے شعری سرمائے پر ہوتا ہے۔مثلاً میر اور غالب کی جو مقبولیت ہے وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکتی یوں بھی نثر کے مقابلے میں شاعری زیادہ پر اثر واقع ہوئی ہے اور جلدی ذہنوں میں محفوظ ہو جانے والی ہے۔بچّہ جب آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اس کے کانوں میں جو آواز پہنچتی ہے وہ منظوم شکل میں ہی ہوتی ہے۔ماں کے منھ سے لوری سن کر پر سکون محسوس کرتا ہے گویا بچّے بھی ترنم اور موسیقی کی آوازوں سے محظوظ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظمیں ان کو لطف فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
شاعری نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچّوں کے اندر بھی جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے۔اکثر بچّے اس کو گنگنانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں چھوٹی جماعتوں کے بچّے نظم کو گاگا کر پڑھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں بچّوں کے ہاتھ میں ہی ملک کا مستقبل ہوتا ہے انھیں ہی بڑے ہوکر مختلف حیثیتوں سے ملک کی خدمت کا فریضہ انجام دینا ہے لہٰذاضروری ہے کہ ان کو اخلاقی طور پر اچھا انسان بنانے کے لیے ایسی نظمیں لکھی جائیں جن سے ان کی اصلاح بھی ہوسکے اور طبعی حظ بھی حاصل ہو سکے۔نظم کے موضوعات ایسے ہوں جو بچّے کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوں ۔دوسری بات یہ ہے کہ نثر کے با لمقابل نظم میں لفظوں کی کاریگری زیادہ اہمیت رکھتی ہے لہٰذاشاعری کے ذریعہ بچّے کے اندر لفظوں کے استعمال، ان کے بہتر انتخاب و ترتیب کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی نیز شاعری میں آوازوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والی موسیقی بچّوں کے لیے لطف فراہم کرتی ہے اور ان کے اندر شاعری کا شوق بھی پیدا کرتی ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں بھی بہترین نظمیں لکھی گئی ہیں اور بیشتر شعراء نے اپنی نظموں کے ذریعہ ادب اطفال کے ذخیرے میں اضافہ کیا ہے۔محمد حسین آزاد،حالی،اسمعیل میرٹھی، افسر میرٹھی، علّامہ اقبال اور فیض احمد فیض نے بچّوں کے لیے نظموں کی بہترین روایت قائم کی ہے۔لیکن ظاہر ہے تبدیلی کا عمل ہر میدان میں جاری و ساری رہتا ہے اور اگر تبدیلی نہ ہو تو چیزیں اپنی جگہ پر منجمد ہو کر رہ جائیں گی اور ترقی کے امکانات باقی نہ رہ سکیں گے۔
بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے موضوعات کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ جن کی اہمیت ہر دور میں مسلّم ہے۔ مثلاً بہادری، بلند حوصلگی،حبّ الوطنی ،دوستی،بھائی چارگی،علم، وقت کی پابندی، جانوروں،چڑیوں سے متعلق میلوں ٹھیلوں، مناظر فطرت، صبح، شام، دوپہر،موسموں، گرمی، سردی، برسات، مختلف تہواروں، عید، ہولی، دیوالی وغیرہ۔ دوسری قسم ان موضوعات کی ہے جو سیاسی،سماجی، جغرافیائی حالات کی تبدیلی اور جدید ایجادات و انکشافات سے متعلق ہیں۔مثلاًآزادی کے بعد سے 26 جنوری اور پندرہ اگست پر مستقل نظمیں کہی جا رہی ہیں۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ چیزیں بدلتی رہتی ہیں اورپہلے کے مقابلے میں مزید ترقی کے امکانات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ظاہر ہے ادب پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے اور نت نئے موضوعات ادب کے دامن کو وسیع کرتے ہیں۔ بچوں کو نئی نئی چیزوں سے واقف کرانے کی غرض سے ان کے ادب میں بھی نئے موضوعات شامل ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ادوار میں بچوں کے لیے جو ادب تخلیق ہوتا آیا ہے اس میں زیادہ تر جانوروں،چرند،پرند وغیرہ کے ذریعہ نصیحت سے پر اور سبق آموز کہانیاں پیش کی گئیں۔ جانوروں کے ذریعہ کہانی کو دلچسپ بنا کر پیش کرنے کی روایت بہت پرانی ہے ’پنچ تنتر‘کی کہانیاں اس قدیم روایت کی مثالیں ہیں ۔اس کتاب کا عربی ترجمہ’ کلیلہ و دمنہ ‘ کے نام سے ابن مقفع نے کیا اسی طرح جب بیسویں صدی میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں پر نظر ڈالتے ہیں تو چوہے،بلّی ،بندر،سانپ، بکری،چڑیا، طوطا ،مینا،کوئل وغیرہ سے متعلق ایک وافر ذخیرہ سامنے آتا ہے اور یہ روایت پرانی ہونے کے باوجودآج بھی اتنی ہی مقبول ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اکیسویں صدی میں نئی نئی تبدیلیوں ،ترقیوں اور نئے مسائل کوبچوں کے ادب میں برتا جا رہا ہے۔ادب اطفال میں ان موضوعات کی پیش کش کا مقصد انھیں اپنے عہد کے مسائل اور ضروریات سے باخبر رکھنا ہے۔اس لیے ہلکے پھلکے انداز اور سادہ زبان میں ان چیزوں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کی نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں تخیل سے کام لیا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر بھی تخیل کی صلاحیت پیدا ہو،موجودہ دور میں بھی تخیل پر مبنی نظمیں لکھی جا رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی نظموں کے لکھنے پر توجہ دی جا رہی ہے جو حقیقت پر مبنی ہوں ۔سائنس کا دور ہے نئی نئی ایجادات سامنے آر ہی ہیں اس لیے ایسی نظموں کا اضافہ ہوا ہے جو بچوں کے اندر سائنسی ذہن پیدا کرنے میں معاون ہوں۔جنوں اور پریوں کی جگہ راکیٹ اور روبوٹ نے لے لی ہے علاوہ ازیں اکیسویں صدی کے بچوں کے ذہنی رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔گزشتہ صدی کے بچوں کے مقابلے میں یہ زیادہ ذہین واقع ہوئے ہیں ان معنوں میں کہ آج کے بچے کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ چاند میں بڑھیا نہیں رہتی ایسی صورت میں اب چاند سے متعلق لکھی جانے والی نظم کا موضوع چاند میں بڑھیا اور چرخے تک محدود نہیں رہابلکہ وہ سائنسی کھوج بن گیا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ چاند پر بھی ایسی ہی زمین ہے جیسی ہمارے ارد گرد ہے۔ظفرگورکھپوری کی نظم
’چاند کوئی افسانہ نہیں‘ اس موضوع کی بہترین پیشکش ہے۔
اب تو علم کی پروازیں
اور ہی قصے کہتی ہیں
باجی اب تو مت بولو
چاند میں پریاں رہتی ہیں
چاند نہ اپنا ماموں ہے
اور نہ دیس وہ پریوں کا
چاند میں کوئی بڑھیا ہے
اور نہ بڑھیا کا چرخا
صدیوں صدیوں کھوج کے بعد
اب ہم نے یہ جانا ہے
چاند کوئی افسانہ نہیں
ایک حقیقی دنیا ہے
سردی گرمی دونوں تیز
آکسیجن کا نام نہیں
چٹانیں ہیں،کھائیاں ہیں
دھرتی سا آرام نہیں
ہو جائے گا پر اک روز
جی لینا آسان وہاں
اپنے جینے کا سامان
کر لے گا انسان وہاں
علم و ہنر کی دھارائیں
پیچھے کو کب بہتی ہیں
باجی اب تو مت بولو
چاند میں پریاں رہتی ہیں
اکیسویں صدی میں فطرت سے متعلق موضوعات میں جدّت یہ آئی ہے کہ آج کی بڑھتی ہوئی آبادی ،فیکٹری اور کارخانوں کی وجہ سے فضائی آلودگی بڑھ گئی ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہو رہی ہے ۔پیڑ پودوں کو کاٹ کر عالیشان عمارتیں اور فیکٹریاں قائم کی جارہی ہیں جس سے صاف ستھری اور تازہ ہوا میں سانس لینا محال ہو گیا ہے چنانچہ ایسی نظمیں تخلیق کی جا رہی ہیں جن سے بچوں کے اندر نیچر کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ پیڑوں کے فوائد اور ان کی اہمیت کا احساس پیدا ہو۔فریاد آزر کی نظم ’آؤ بچو پیڑ لگائیں‘ شجاع الدین شاہد کی ’بادل تم کیوں نہیں آتے‘ احمد سعیداطہر کی ’جنگلوں کی بہار‘ اور شفیق اعظمی کے مجموعے ’بچوں کی نظمیں ‘میں شامل ان کی نظم’پیڑ لگائیں‘ اسی نوع کی نظمیں ہیں۔فریاد آزر کی نظم ملاحظہ ہو
آؤ بچو پیڑ لگائیں /موسم کو گلزار بنائیں
آؤ بچو پیڑ لگائیں/دھرتی پر پانی برسائیں
پیڑوں سے سب کریں محبت
پیڑوں کی سب کریں حفاظت
دشمن ان کو کاٹ نہ پائیں/آؤ بچوپیڑ لگائیں
کمی آکسیجن کی نہ ہوگی
ہم سارے ہیں جس کے بھوگی
پیڑ صاف کرتے ہیں ہوائیں/آؤ بچو پیڑ لگائیں
فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمینی آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔سڑکوں اور چوراہوں پر کوڑے کرکٹ کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ صفائی کا خیال رکھے اور اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلائے تاکہ ا ن کے اندر اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا شعور پیدا ہوسکے اور بچوں کو اس طرف توجہ دلانے کا سب سے بہتر ذریعہ یہ ہے کہ انھیں اس موضوع سے متعلق کہانیاں یا نظمیں سنائی جائیں۔ بچوں کے ادب میں اس موضوع سے متعلق نظموں کا اضافہ ہوا ہے۔نظم ’آیا سنہ دو ہزار اٹھارہ‘ دیکھیے۔
صاف صفائی کا ہے نعرہ
اور ایکتا کا ملا اشارہ
امن و اماں کا ہو نظارہ
آیا سنہ دو ہزار اٹھارہ
رہے سوچھ یہ دیش ہمارا
اور ہو ہم کو جان سے پیارا
کھلی جگہ نہ ہو ناکارہ
آیا سنہ دو ہزار اٹھارہ
موجودہ دور میں ایسی ایجادات سامنے آئی ہیں جو روز مرّہ کی ضرورت بن گئی ہیں ان کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں مثال کے طور پر بچہ دنیا میں آتے ہی اپنے ارد گرد موبائل اور کمپیوٹر جیسی چیزیں دیکھتا ہے اور ان چیزوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث وہ کتابوں سے دور ہو رہا ہے۔وقت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔لہذا کمپیوٹر، موبائل،انٹرنیٹ کو ایک اہم موضوع کے طور پر برتا جا رہا ہے ا ور اس طرح کی نظموں میں ان چیزوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پیش کیا جا رہا ہے۔فراغ روہوی کی نظم ’کمپیوٹر‘ جمال اختر کی ’موبائل فون‘ عطا الرحمن طارق کی ’انٹرنیٹ‘ محمد غلام کاشف ربانی کی ’ڈیڈی جی ایک ڈبّہ لائے‘ غضنفر کی ’جادو کی ڈبیا‘ اس کے علاوہ حافظ کرناٹکی کی کی کتاب ’معصوم نغمے‘میں شامل ان کی نظم ’زمانہ ہر پل بدل رہا ہے‘ اس موضوع پر بہترین نظمیں ہیں۔حافظ کرناٹکی نے اپنی نظم میں آسان زبان میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تکنیکی دور میں قدم رکھ چکے ہیں اور نئی چیزیں پرانی چیزوں کابدل بن رہی ہیں ۔روزمرّہ کے استعمال میں آنے والی چھوٹی چھوٹی مشینوں اور موجودہ دور کے ترقیات کا ذکر کرنے کے ساتھ انھوں نے بچوں کو زمانے کے ساتھ چلنے اور تکنیکی علوم حاصل کرنے کی نصیحت بھی کی ہے۔غضنفر کی نظم ’جادو کی ڈبیا‘ ملاحظہ ہو
سنو اس میں جادو کی پڑیا پڑی ہے
یہاں کا وہاں کا تماشہ دکھائے
اسے جب گھماؤ تو دنیا گھمائے
یہ مشرق کو مغرب سے پل میں ملائے
یہ گھر بیٹھے بیٹھے سیاحت کرائے
بس اک آن میں دوریوں کو مٹائے
اسے کھٹکھٹاؤ تو گھونگھٹ اٹھائے
یہ فوٹو بھی بیٹھے ہی بیٹھے اتارے
ہمیں چاند سی اپنی صورت دکھائے
ہمارے بھی چہرے کا نقشہ ابھارے
اسے جب دباؤ تو یہ گنگنائے
یہ دیکھو تمھارا بھی فوٹو کھنچا ہے
انوکھی نرالی دھنیں یہ سنائے
تمھارے بھی چہروں کا نقشہ بنا ہے
بنا کچھ دبائے بھی یہ بولتی ہے
نہیں وقت کا صرف چکر چلائے
بنا کچھ ہلائے بھی یہ ڈولتی ہے
یہ ڈبیا تو تاریخ دن بھی بتائے
ضرورت ہو جس کی اسے یہ بلا دے
الارم کی دھن وقت پر یہ بجا ئے
آج کے اس مصروف دور میں لوگوں کی مشغولیات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں ہے ۔خاص طور سے جن گھروں میں ماں باپ دونوں ملازم ہیں ان گھروں میں بچہ با لکل نظر انداز ہو کر رہ گیا ہے والدین نوکروں کے رحم و کرم پر بچہ کو چھوڑ کر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔والدین کی اپنے بچوں کے تئیں عدم توجہی کے موضوع کو ظفر گورکھپوری نے اپنی نظم ’کہانی ایک بچے کی‘کا موضوع بنایا ہے۔
باپ اک کمپنی میں افسر ہے
ماں ملازم ہے ایک دفتر میں
گھر،مرے جاگنے سے پہلے ہی
چھوڑ د یتا ہے باپ روزانہ
ماں کا معمول بھی کچھ ایسا ہے
صبح کا جانا رات کو آنا
سورج آتا ہے جب دریچے میں
نوکرانی مجھے جگاتی ہے
ناشتہ دے کے دودھ اور پھل کا
مجھ کو اسکول چھوڑ آتی ہے
کیسی ہوتی ہے ماں کی چمکاریں؟
کیسی ہوتی ہے باپ کی شفقت؟
کون مجھ کو لگا ئے سینے سے
ماں کو فرصت نہ باپ کو مہلت
آج کے اس ڈیجیٹل دور میں بچے کتابوں سے دور ہوتے جاتے رہے ہیں چنانچہ ان کے اندر کتابوں کا شوق پیدا کرنے کی غرض سے بھی نظمیں لکھی گئی ہیں ۔فراغ روہوی کی نظم ’کتاب میلہ‘اس کی عمدہ مثال ہے۔گزشتہ صدی میں استاد کو جو عظمت حاصل تھی آج اس میں بھی کمی آئی ہے۔بچے اساتذہ کی قدر نہیں کرتے لہٰذا ایسی نظمیں بھی سامنے آئی ہیں جن میں بچوں کے لیے اساتذہ کے احترام کا سبق ہے۔حافظ کرناٹکی کی نظم ’استادوں کے دل پر چھاؤ‘ فراغ روہوی کی ’اسکول ٹیچر‘ اس موضوع پر بہترین نظمیں ہیں ۔اسی طرح فرقہ واریت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ زبانیں بھی اس کی زد میں آنے لگیں ہیں اور زبانوں کو بھی کمتری اور برتری کے پیمانوں پر تولا جا رہا ہے۔چنانچہ بچوں کے اندر اردو زبان سے لگاؤ پیدا کرنے کے لیے بھی نظمیں لکھی جا رہی ہیں ۔
مہنگائی کی وجہ سے استعمال کی اشیاء کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہو۔مظفر حنفی کی نظم ’’بچو تمہاری عیدی کیسے بڑھائی جائے‘‘ مہنگائی کے مسئلے کو پیش کرتی ہے۔
تم خود ہی کہہ رہے ہو مہنگائی بڑھ گئی ہے
عام آدمی بچارا کیا کھائے کیا بچائے
بچو تمھاری عیدی کیسے بڑھائی جائے
موجودہ سماج میں کسانوں کی حالت ابتر ہے۔ کسان جس پر اناج کی پیداوار کا انحصار ہے اس کی شرح اموات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح مزدور جو سماج کی خدمت کرتے ہیں لیکن انھیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتاان سے متعلق نظمیں کہی جا رہی ہیں تاکہ بچوں کے اند ر ان کی قدر پیدا ہوسکے۔کسان سے متعلق مظفر حنفی کی نظم ’چور چوہے اور بچے‘ ملاحظہ ہو
بنجر کو زرخیز بنا کر /کھیتوں میں فصلیں لہرا کر
جو کھلیانوں کو بھرتا ہے/وہ کسان بھوکوں مرتا ہے
غلّہ تو چوہے کھاتے ہیں
بچو ایسا کب تک ہوگا/ تم چاہوگے جب تک ہوگا
روکو اس سینہ زوری کو/محنت کش کو بھی کھانا دو
چوہے تم سے گھبراتے ہیں
ملک میں بچہ مزدوری کامسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔بڑے بڑے شہروں کے گلی کوچوں میں چائے کے اسٹالوں، ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پر معصوم بچے جن کی عمریں ابھی کھیلنے کودنے کی ہوتی ہیں ،چھوٹے سے کاندھوں پر ذمہ داریوں کابوجھ لیے اپنا بچپن قربان کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کرتب بازیوں سے کبھی مزدوری کرکے اور کبھی بھیک مانگ کر اپنے لیے رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔ مصداق اعظمی کی نظم ’میں نہیں چاہتا‘ اسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے
میں نہیں چاہتا کوئی بچہ /ریل گاڑی کا فرش
صاف کرے/نٹ کی رسی پہ اب نظر آئے
جسم کو موڑنے کا فن سیکھے
شیر کے منھ میں ہاتھ کو ڈالے
تپتے بھٹوں کی اینٹ کو ڈھوئے
ہوٹلوں اور شراب خانوں کی
اپنے دامن سے میز صاف کرے
سانپ کو رکھ کے/ اک پٹارے میں
شاہ راہوں پہ بھیک بھی مانگے
ناچ گانے سے سب کو/ خوش کردے
بوٹ پالش میں خوب ماہر ہو
ماں کے آنچل سے دور ہو جائے
باپ کے ساتھ کام پر جائے
میں تو یہ چاہتا ہوں ہر بچہ
اپنے بچپن میں صرف بچہ ہو
موجودہ عہد میں معاشرتی بدعنوانیاں، جرائم، حادثات و اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔انسانی زندگی بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے۔آئے دن انسانیت سوز خبریں، اخباروں کے ذریعہ موصول ہوتی رہتی ہیں۔ انسانی ترقی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اس طرح کے حادثات و واقعات کی خبریں ٹی وی چینلوں اور اخباروں کے ذریعہ سکینڈوں میں ہم تک پہنچ جاتی ہیں۔ دوسری طرف انسانی ذہن نے اپنی سہولتوں کے لیے جو اشیا ایجاد کی ہیں وہی اشیا ان کی تباہی کا سبب بھی بنی ہیں نیز عدم انسانیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ نچلے طبقے کے لوگ جو غربت کی زندگی جینے پر مجبور ہیں اگر ان کی رہائشی جھونپڑیاں کسی وجہ سے آگ کی نذر ہو جاتی ہیں تو موقع واردات پر کوئی ا ن کی مدد کو نہیں پہنچتا۔بچوں کے لیے لکھی جانے والی نظموں میں یہ موضوعات بھی اپنی طرف توجہ مبذول کرانے لگے ہیں۔مظہر الاسلام کی نظم ’پہیلی‘ میں ان تمام صورتِ حال کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے
کوئی طیارہ ا غوا فضا میں ہوا
خیر سے ریل حادثہ ہوتے ہوتے بچا
جھونپڑی ،جھگیاں نذر آتش ہوئیں
عملہ آتش بجھانے کا تھا لا پتہ
بات انصاف کی سچی کہتا ہوں میں
جانے کتنی زبانوں میں چھپتا ہوں میں
مذہبی منافرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انسانیت کا قد اس کے سامنے بونا پڑ گیا ہے۔تمام ممالک آپس میں کسی نہ کسی مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر قابض ہونے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔کبھی ہتھیار، کبھی تیل، کبھی مذہب ،اور کبھی صنعتی ترقی یہ تمام چیزیں ان آپسی جھگڑوں کا باعث ہوتی ہیں ۔بچوں کے ادب میں اس موضوع کوبھی اعتبار حاصل ہوا ہے تاکہ بچوں کے اندر آپسی منافرت کے بجائے آپسی محبت کا جذبہ پیدا ہوسکے۔مرتضی ساحل تسلیمی کی نظم ’ترانہ اتحاد‘میں بچوں کے اندر اتحا د پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے
بھارت،بنگلہ دیش ہویا نیپال ہو پاکستان ہو
ترکی،کویت،کے ایس اے ،لبنان ہو ایران ہو
چین،فرانس و امریکہ ہو یا پھر انگلستان ہو
اب ان میں لڑنے بھڑنے کا کوئی نہ ہرگز کھیل ہو
دنیا کے سب دیشوں کا آپس میں ا یسا میل ہو
ایسے ملیں چنتے ہیں جیسے اینٹیں ہم دیواروں میں
رنگ برنگے پھول گندھے ہوتے ہیں جیسے ہاروں میں
پیار و محبت ،امن و سکوں کب رکھا ہے ہتھیاروں میں
لڑنے کا کارن اب دولت،مذہب اور نہ تیل ہو
دنیا کے سب دیشوں کا آپس میں ایسا میل ہو
مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں بچوں کی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں اب ان کی دلچسپی بے جان کھلونوں ،پریوں اور جانوروں تک محدود نہیں رہ گئی ہے۔ لہذا بچوں کے ادب کے موضوعات بھی تبدیل ہورہے ہیں ان کے ادب میں موضوعات کے سلسلے میں خوشگوار اضافے ہو رہے ہیں۔ دلچسپ نظمیں لکھی جا رہی ہیں مذکورہ مسائل کے علاوہ ہمارے سامنے اور بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنایا جا رہا ہے یا بنانے کی ضرورت ہے۔لیکن بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ناصحانہ انداز نہ غالب ہونے پائے ورنہ بچوں کی دلچسپی برقرار نہیں رہ سکے گی۔
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں