سائنسی علوم کے ترجمے اور دارالترجمہ عثمانیہ یونیورسٹی
نگہت امین
اردومیں سائنسی علوم کی روایت اوراس میں سائنسی موضوعات کو منتقل کرنے کا سلسلہ اگر چہ کافی قدیم ہے لیکن انیسویں صدی کازمانہ اس کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ اس عہد میں مختلف ایسے ادارے قائم ہوئے جن میں علوم و فنون، ادب، سائنس اور درسی کتابوں کے تراجم پر باقاعدہ کام شروع ہوا۔ اس سے قبل 1798 میں ’ کمال الدین حیدر‘ نے ’پرکنس‘ کی تالیف کردہ کتاب کو’بحر حکمت‘ کے نام سے اردو میں منتقل کیا۔ اس میں بھاپ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے19 مغربی رسالوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔1811میں ’کپتان روک‘ نے جہاز رانی پر ایک فرہنگ مرتب کی جس میں ایسے الفاظ کا ترجمہ کیا گیا تھا جو میدان جنگ میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔علاوہ ازیں سید محمد میر نے ’چارلس‘کی طلسم کیمیا سے متعلق ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔1836میں ’ترن لال‘ نے رسالہ علمِ ہندسہ مرتب کیا۔مولوی محمداحمد نے1851میں’چارلس واکر ‘کی انگریزی کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس میں ایک دھات سے دوسری دھات میں ملمع سازی کے آسان طریقے واضح کیے گئے۔سید عبدالرحمن نے ’فارگومن‘کے رسالے’ علم ہیئت ‘کا ترجمہ ’تختہ گراں‘کے نام سے کیا۔یہ سارے تراجم سائنسی علوم پر مشتمل ہیں،لیکن سائنسی موضوعات کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی باقاعدہ کوشش ’نواب میر عثمان علی خاں ‘کے عہد میں ہوئی۔انھوں نے سائنسی موضوعات کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے دارالترجمہ قائم کیا اورجامعہ عثمانیہ قائم کر کے اردو میں ذریعہ تعلیم کا آغاز کیا۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ اس سرزمین پر قائم ہواجہاں اردو زبان و ادب کی ایک خاص اور تاریخی روایت رہی ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں بہمنی خاندان نے 1347میں اپنی خود مختاری کا اعلان کیا۔اس دور کے حکمرانوں نے دکن میں اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے مختلف مراکز قائم کیے جس سے بعد کے سلاطین نے مزید فروغ دیا۔ بہمنی حکمرانوں کو بعد 1508 سے 1687 تک قطب شاہی سلاطین نے اور 1671 سے 1948تک آصف جاہی سلاطین نے دکن پر حکومت کی۔آصف جاہی حکمرانوں کے ساتویں فرماں روا’نواب میر عثمان علی خاں‘کا عہد علم و ادب کے لحاظ سے بہت اہم رہا ہے۔
’سلطان العلوم نواب میر عثمان علی خاں‘کے عہد میں سائنسی علوم کی طرف بطور خاص توجہ دی گئی۔اس عہد کے دو بڑے کارناموں کو اردو ادب کی دنیا میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔پہلا دارالترجمہ کا قیام ہے اور دوسرا عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد ہے۔ اس سے قبل حیدر آباد میں میٹریکیولیشن اور انٹرمیڈیٹ تک دارالعلوم میں اردو اور نظام کالج میں انگریزی ذریعۂ تعلیم تھی مگر اعلیٰ تعلیم کے لیے نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندوستان میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں تھی جہاں اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا ہو۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کالج میں بھی اردو ذریعہ تعلیم کا سلسلہ نچلی سطح تک قائم تھا۔اسی ضرورت کے پیشِ نظر حیدر آباد کے اہل علم اور با شعور افراد شدت سے ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔اس کے لیے پہلی بار 1873 میں ’نواب میر محبوب علی خاں ‘کے عہد میں کوشش کی گئی تھی لیکن ان کوششوں کا کوئی بہترین نتیجہ بر آمد نہیں ہوا تھا۔ اس ضمن میں محی الدین قادری زور رقم طراز ہیں کہ:
’’حیدر آباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا خیال عہد مختارالملک میں پیدا ہو چکا تھااورعہد آصف جاہ سادس میں دو چار مرتبہ تحریر و تقریر کے ذریعے سے اہل ملک نے اس اہم کام کی طرف توجہ دلائی مگر معلوم ہوتا ہے کہ وقت نہیں آیا تھا لہٰذا اس اہم کام کے سلسلے میں جتنی بھی تحریکیں کی گئیں وہ تمام جنگل کی آواز بن کر رہ گئیں۔‘‘ 1
نواب میر عثمان علی خاں کے عہد میں ایسی تحریکیں ان کی تخت نشینی کے بعد ابھریں اور 1914میں یہ کوشش تحریک کی شکل میں نمودار ہوئی۔قیام یونیورسٹی کے لیے دارالعلوم کے طلباء نے ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کر کے منظم طور پریونیورسٹی کی تحریک کو آگے بڑھایا۔دارالعلوم کے علاوہ یونیورسٹی کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں’ انجمن ترقی اردواورنگ آباد ‘کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے سکریٹری بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو زبان کو فروغ دینے اور اس کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’گزشتہ نصف صدی میں جو تغیرات اس ملک میں ہوئے ان پر نظر ڈالتے ہوئے صاف نظر آتا ہے کہ اہل ہند کا مستقبل باقاعدہ اور اعلیٰ درجے کی ترقی کا بہت کچھ دارومدار زبان اردو کی وسعت اور ترقی پر ہے۔اس ملک کی دفتری اور سرکاری زبان بھی اردو ہے جس زبان کو دولتِ آصفیہ کی سرپرستی کا افتخار حاصل ہو اس کی ترقی اور وسعت کے لیے اس ملک کے اعیان و اکابر اور دیگر خوش باش حضرات سے جس قدر بھی اعانت طلب کی جائے بجا اور درست ہوگا ۔‘‘2
اس طرح قیامِ یونیورسٹی کی تحریک میں کسی ایک ادارے،انجمن اورسوسائٹی کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ سیاسی انجمنوں اور تحریکوں کے علاوہ دارالعلوم کے قدیم طلباء کی تحریک،حیدر آباد ایجوکیشنل سوسائٹی،انجمن ترقی اردو حیدرآباد، محکمۂ تعلیمات کی اصطلاحی تجاویزاور مجلس اشاعتِ علوم وغیرہ بھی پیش پیش رہے ہیں۔اس کے علاوہ سر راس مسعود کی بھر پور تائید نے ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کے نتیجے میں دکن کے گوشے گوشے سے اردو یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں سراکبر حیدری نے 1917 میں موجودہ طریقہ تعلیم کے نقائص کی تفصیل لکھ کر میر عثمان علی خاں کی خدمت میں پیش کی :
’’موجودہ طریقۂ تعلیم کی دورنگی اور بے اصولی کو مٹانے کے لیے اور ان خطرات اور خطرناک نقائص کو رفع کرنے کے لیے جو موجودہ طریقۂ تعلیم نے پیدا کیے ہیں اور جو گھن کی طرح ہمارے نظامِ تمدن و معاشرت و قوائے ذہنی و جسمانی کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے ہیں۔ہمیں ایک جدید یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس کی بنیادصحیح اصولِ تعلیم ملکی خدمات اور قومی خصائص پر قائم ہوجس میں قدیم و جدید دونوں خوبیوں سے فائدہ اٹھایا جائے جو تعلیمی بھی ہو اور امتحانی بھی اور ساتھ ہی تالیف و ترجمہ کا کام بھی کرے اور تربیت ذہن اور تحصیلِ علوم و فنون کے لیے اپنی زبان یعنی اردو کو کام میں لائے ۔‘‘3
غرض یہ کہ4 ؍رجب1335ھ بمطابق 26؍ اپریل 1917 کو میر عثمان علی خان نے اس عرضداشت کو شرفِ قبولیت بخشا اور یونیورسٹی کے احکام صادر کرنے کے ساتھ کچھ بنیادی اصولوں کو واضح کر دیا کہ ان اصولوں کی پابندی سے ہی یونیورسٹی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے لکھا ہے کہ:
’’مجھے بھی عرضداشت اور یاداشت کی مصرحہ رائے سے اتفاق ہے کہ ممالک محروسہ کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کی جائے جس میں جدید و قدیم مشرقی و مغربی علوم وفنون کا امتزاج اس طور پر کیا جائے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کے نقائص دور ہو کر جسمی و دماغی و روحانی تعلیم کے قدیم کو جدید طریقوں کی خوبیوں سے پورا فائدہ حاصل ہوسکے۔4
اس یونیورسٹی کا اصل اصول یہ ہونا چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ ہماری زبان اردو قرار دی جائے اور انگریزی زبان کی تعلیم بھی بحیثیت ایک زبان کے ہر طالب علم پر لازمی گردانی جائے لہذا میں بہت خوشی کے ساتھ اجازت دیتا ہوں کہ میری تخت نشینی کی یادگار میں حسب مذکور اصولِ محولہ عرضداشت کے مطابق ممالک محروسہ کے لیے حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کارروائی شروع کی جائے اس یونیورسٹی کا نام (عثمانیہ یونیورسٹی)حیدرآباد ہوگا۔‘‘5
فرمانِ اشاعت کے بعد دکن کے علمی اور ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔قیامِ یونیورسٹی کی منظوری کے بعدمیر عثمان علی خان نے منشورِخسروی جاری کیا :
’’ حیدر آباد دکن میں ایک جامعہ (یونیورسٹی)بنام ’’جامعہ عثمانیہ ‘‘یکم محرم الحرام1337ھ سے قائم کی جائے۔
جامعہ عثمانیہ کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی، اخلاقی، ادبی، فلسفی،طبیعی،تاریخی،طبی،قانونی،زراعتی،تجارتی اعلیٰ تعلیم کا اور دیگر علوم و فنون و سود مند پیشوں اور صنعت و حرفت وغیرہ سکھانے اور ان سب میں تحقیقات و ترقی کا انتظام کرے۔
جامعہ عثمانیہ کی خاص خصوصیت یہ ہو گی کہ جملہ علوم کی تعلیم زبانِ اردومیں دی جائے گی اور اسی کے ساتھ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم بھی لازمی رہے گی ۔‘‘6
عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کو عملی شکل دینے کے لیے سائنس کے مختلف مضامین اور جدید علوم کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کی فراہمی کو اولیت دی گئی۔لہٰذا جامعہ عثمانیہ کے لیے پورے ہندوستان سے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا گیا۔ان اساتذہ کے علمی اور ادبی ذوق کو دیکھ کر طلبا میں بھی اردو ادب کی خدمت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ حیدر آبادمیں سٹی کالج،میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج اوراس سے قبل ورنا کلر اسکول بھی قائم ہو چکے تھے۔اس طرح اب یہ بات واضح ہونے لگی کہ اردو میں بھی سائنسی علوم و فنون کا احاطہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
غرض یہ کہ اکبر حیدری نے 24؍شوال 1334ھ بمطابق 13؍اگست1913 کو علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرنے لیے دارالترجمہ (سررشتہ تالیف و ترجمہ)کے قیام کی درخواست پیش کی اور نواب میر عثمان علی خان نے دارالترجمہ(1917) کی منظوری دے دی۔دارالترجمہ کا قیام عثمانیہ یونیورسٹی سے قبل ہو چکا تھا تاکہ طلباء کے لیے اعلیٰ درجے کی کتابیں اردو میں مہیا ہو سکیں۔اس بات کو عبدالقادر سروری نے اس طرح بیان کیا ہے کہ:
’’جدید اور سائنٹفک درسیات کا ترجمہ اور ان کی اشاعت کا انتظام کرنے کے لیے 14 ؍اگست 1917 کو شاہی فرمان جاری ہوا اور جامعہ عثمانیہ سے قبل 6؍ستمبر 1917 میں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا۔‘‘7
حقیقت یہ ہے کہ دارالترجمہ عثمانیہ اردو زبان کو علوم و فنون سے مالا مال کر نے کی پہلی مستقل کوشش ہے۔ ابتدا میں دارالترجمہ میں صرف مغربی زبانوں کی کتابوں کے تراجم کیے گئے۔بعد میں عربی،فارسی اور مشرقی علوم کی کتابوں کا ترجمہ بھی اردو میں کیا جانے لگا۔ دارالترجمہ کے قیام کا بنیادی مقصد سائنس اور جدید علوم کو اردو میں ترجمہ کرنا اور اردو زبان کو مغربی ذخیرے سے فیض پہچانا تھا۔لہٰذا اس ادارے کے لیے ایسے مترجمین کا تقرر عمل میں آیا جو اپنے مضمون کے ماہر یعنی انگریزی، عربی،فارسی اور اردو پر مکمل دسترس رکھتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان علوم و فنون کا ترجمہ پوری صحت کے ساتھ کریں۔تاکہ وہ علوم و فنون کا ترجمہ نمایاں طور پر انجام دیں۔بقول میر حسن:
’’دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کا قیام اردو زبان کو علوم و فنون سے مالا مال کر نے کی پہلی باقاعدہ اور مستقل کوشش ہے جو بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ دارالترجمہ کی مطبوعات نے اردو میں غیر معمولی وسعت پیدا کر دی، جدید علوم و فنون کا کافی ذخیرہ اردو میں منتقل کر دیا اور علمی خیالات کے اظہار کے لیے گنجائش پیدا کر دی اردو کے ذخیرہ الفاظ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ‘‘8
اس طرح دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں اردو زبان کو ذر یعۂ تعلیم بنایا گیا۔ایسا تجربہ پہلی بارعثمانیہ یونیورسٹی میں ہی کیاجا رہا تھا اور نہ صرف فنون بلکہ سائنس، کامرس، انجینئرنگ، میڈیسن،طب اور قانون کی تعلیم بھی اردو کے ذریعے دی جا رہی تھی۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ نے علوم و فنون کے تراجم کے لیے کچھ کمیٹیاں مقرر کی تھیں جن کا مختصراً ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اول، ’نصاب کمیٹی ‘یہ کمیٹی 1917 میں عمل میں آئی جس کے چیر مین سر اکبر حیدری تھے یہ گیارہ افراد پر مشتمل ایسی کمیٹی تھی جونصاب کا تعین کرتی اور دارالترجمہ کو اصل کتابیں فراہم کر کے تراجم کے لیے منتخب کرتی نیزیونیورسٹی کا انتظام چلانے کے لیے قوانین بھی بناتی تھی۔دوم، ’انتظامی کمیٹی ‘جو1917 میں قائم ہوئی اور حبیب الرحمن خاں شیروانی اس کے صدر تھے۔اس کے قیام کااصل سبب یہ تھا کہ جب دارالترجمہ میں کام شروع ہوا تو جن موضوعات کا تعلق ترجمہ کی مشکلات یا مضامین سے ہوتا تھا۔ ان پر بعض ا وقات مترجمین کی بحث بہت طویل ہوتی تھی۔اس بحث کی روک تھا م کے لیے خاص ’انتظامی کمیٹی ‘کو بنایا گیا۔سوم ’انجینئرنگ کمیٹی‘اس کے صدر عبدالرحمن خاں تھے۔ اس کا مقصد انجینئرنگ کے لیے انگریزی کتابوں کا انتخاب اور ترجموں کا انتظام کرنا تھا۔ علاوہ ازیں سب سے اہم کمیٹی ’وضع اصطلاحات کمیٹی‘ تھی۔ اردو میں عملی اصطلاحیں وضع کرنے کے لیے اس کمیٹی کا قیام ہوا تھا ان اصطلاحوں کے استعمال کے لیے فن سے واقف اشخاص کو رکھا گیا۔جن میں وحیدالدین سلیم، مولوی عبدالحق،نظم طبا طبائی،مرزا ہادی رسوا وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔
دارالترجمہ میں کمیٹیاں چار تھیں یا اس سے زائد، اس ضمن میں اختلاف ملتا ہے۔امیر عارفی نے دارالترجمہ کے لیے جو مضمون لکھا ہے اس میں سات کمیٹیوں کا ذکرکیا ہے جب کہ مجیب الاسلام نے چار کا۔لیکن تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوتاہے کہ بیشتر محققین کا اتفاق چار کمیٹیوں پر ہے۔چنانچہ دارالترجمہ میں کمیٹیوں کی تعداد چار تھی۔
دارالترجمہ میں سب سے اہم مسئلہ اصطلاح سازی کا تھا کیونکہ اصطلاح سازی کی ضرورت ایسی تھی کہ اس سے واقفیت کے بغیر ہم علمی مطالب کے ادا کرنے اوران اشاروں کے مفہوم کو واضح کرنے میں ناکام رہتے۔بقول ’وحیدالدین سلیم ‘ ’’اصطلاحیں درحقیقت اشارے ہیں جو خیالات کے مجموعوں کی طرف ذہن کو فوراًمنتقل کر دیتے ہیں‘‘9۔لہٰذا ضروری تھا کہ ہم جدید علوم کو حاصل کرنااپنا مقصدِحیات سمجھیں اور اپنی زبان کو اصطلاحات اور نئے نئے الفاظ سے آراستہ کریں تاکہ اس کی وسعت میں اضافہ ہو جائے۔اس مقصد کے پیشِ نظر اصطلاح سازی کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو کر اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔مثلاً:
’’انگریزی زبان کی اصطلاحیں بجنسہٰ یا کسی تغیر و تبدل کے ساتھ اردو زبان میں نہ لی جائیں بلکہ انگریزی علمی اصطلاحات کے مقابلے میں اردو علمی اصطلاحات وضع کی جائیں‘‘۔10
پہلا گروہ اپنی رائے اس طرح پیش کرتا ہے :’’تمام الفاظ عربی زبان سے بنانے چاہئیں‘‘۔11
پہلاگروہ مسلمانوں کے پیشِ نظر اپنے دلائل اس طرح پیش کرتا تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی زبان عربی ہے، اس سے سارے مسلمان واقف ہیں لہٰذا اگر اس زبان کے الفاظ سے اسی زبان کے قواعد کے مطابق علمی اصطلاحیں بنائی جائیں تو سارے مسلمان اسے بہتر طریقے سے قبول کریں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ عربی پہلے سے علمی زبان ہے اور مسلمانوں کے سارے علمی کارنامے جو وہ ماضی میں انجام دے چکے ہیں، اسی زبان میں جمع ہیں لہٰذا اگر جدید علمی اصطلاحیں بھی اس زبان کے الفاظ سے اور اسی زبان کے قواعد کے مطابق وضع کی جائیں تو اس کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔
دوسرا گروہ اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ’’جو اردو زبان میں بطورِ عنصر کے شامل ہیں (یعنی عربی،فارسی،ہندی)اور ان لفظوں کی ترکیب میں اردو گرامر سے مدد لینی چاہیے ‘‘۔12
گروہِ ثانی نے اپنی بات کے لیے چار دلیلیں پیش کی ہیں۔اول یہ کہ کسی بھی زبان کی ترقی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس میں غیر زبانوں کے بے شمار الفاظ بجنسہٰ بغیر کسی تصرف کے داخل کر لیے جائیں۔زبان کی ترقی اسی وقت ترقی کہلا سکتی ہے جب وہ تمام الفاظ جن کا اس میں اضافہ کیا جائے اس زبان کی قدرتی ساخت اور اس کے اصلی قواعد کے مطابق بنائے گئے ہوں۔ دوسری دلیل میں وہ لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں مفرد مادوں کی افراط ہے اس لحاظ سے یہ زبان اعلیٰ درجے کی زبان ہے جبکہ اردو کے قدرتی عنصر عربی،فارسی،ہندی زبانیں ہیں ان میں کسی زبان پر قناعت کر لینا ترقی کے دائرے کو محدود کر لینا ہے۔تیسری بات یہ کہ اردو زبان ہندوستان کے مختلف باشندوں نے مل کر بنائی ہے۔ یہ زبان تمام گروہوں کے لیے فائدہ مند ہے تو اگر ہم کسی ایک گروہ کی زبان مثلاً صرف عربی کے الفاظ کثرت سے شامل کریں گے تو وہ فائدہ مند نہیں رہیں گے۔چوتھی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہندوستان میں دو زبانیں یعنی ہندوؤں کے لیے سنسکرت اور مسلمانون کے لیے عربی ذریعہ تعلیم رہی ہے۔اس بنا پر نہ تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ سنسکرت کی اصطلاحوں سے اپنی زبان کو بوجھل کریں اور مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کریں اور عربی اصطلاحیں استعمال کر کے اپنی زبان کو اجنبی اور نامانوس ہونے دیں لہٰذا ہمارے لیے یہی طریقہ ہے کہ اصطلاحیں وضع کرنے میں ان تمام زبانوں سے کام لیں جو اس زبان کی ترکیب میں پہلے سے موجود ہوں۔
مذکورہ بالا دلیلوں کی روشنی میں ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ گروہِ ثانی کے دلائل قابل قبول ہیں۔ ان کی دلیلیں صرف مسلمانوں کے لیے فائدہ مند نہیں تھیں بلکہ ہر قوم کے لیے بہترثابت ہو سکتی تھیں۔کیونکہ دارالترجمہ نے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس میں اصطلاحات وضع کی جائیں اور وضع اصطلاحات کمیٹی کے ممبران نے غوروفکر کے بعد مندرجہ ذیل سات اصول مرتب بھی کیے۔
1۔ اصطلاحیں وضع کرنے کے لیے ماہرانِ زبان اور ماہرانِ فن دونوں کو یکجا ہونا ضروری ہے اصطلاحات بنانے میں دونوں پہلو کا خیال رکھنا لازم ہے تاکہ جو اصطلاحیں بنائی جائیں وہ زبان کے سانچے میں ڈھلی ہواور فن کے اعتبار سے ناموزوں نہ ہو۔
2۔ اصطلاحات بنانے کے لیے عربی،فارسی،ہندی میں سے کسی زبان کا بھی ایسا مادہ لے سکتے ہیں جو سہل ہو جو مروج ہو اور جو موزوں ہو۔الفاظ دوسری زبان سے لے سکتے ہیں لیکن اس کے لغوی قاعدے نہیں لے سکتے۔
3۔ جس طرح اگلے زمانے میں اپنی زبان یا غیر زبانوں کے اسماء مصادر بنائے جاتے تھے مثلاً بولنا، قبولنا، بخشنا وغیرہ اسی طرح اب بھی حسبِ ضرورت اسماء سے افعال بنائے جائیں۔
4۔ حتی الامکان مختصر لفظ وضع کیے جائیں جو اصل مفہوم یا اس کے قریبی معنوں کو ادا کر سکیں۔
5۔ ترکیب میں انھیں اصولوں کو پیشِ نظر رکھا جائے جو اب تک ہماری زبان میں مستعمل ہیں مثلاً ہندی لفظ کے ساتھ فارسی عربی کا جوڑا اور عربی سابقوں خصوصاًلاحقوں کا میل ہندی الفاظ کے ساتھ مثلاًدھڑے بندی،اگال دان،بے کل وغیرہ یا عربی قاعدے سے فارسی ہندی الفاظ کے اسم کیفیت جیسے رنگت،نزاکت کے طرز پر مزاجیت وغیرہ۔
6۔ ہماری زبان کی ایسی اصطلاحیں جو قدیم سے رائج تھیں اور اب بھی اسی طرح کار آمد ہیں انھیں برقرار رکھا جائے البتہ بعض اصطلاحیں جو صحیح نہیں اور رائج ہو گئی ہیں یا جن سے اشتقاق و ترکیب کی رو سے آگے لفظ نہیں بن سکتے انھیں ترک کر کے ان کے بجائے دوسرے مناسب لفظ وضع کر لیے جائیں۔
7۔ بعض انگریزی اصطلاحیں جو پہلے زمانے میں اس وقت کی معلومات کی رو سے تجویز کی گئی تھیں اور حال کی تحقیق سے صحیح نہیں رہیں ان کے بجائے ایسے لفظ تجویز کیے جائیں جو جدید تحقیق کی رو سے صحیح مفہوم ادا کر سکیں اس میں انگریزی الفاظ کی تقید نہ کی جائے ‘‘۔13
ان تمام اصولوں کو وضع کرنے کے لیے دارالترجمہ کے مترجمین کا بہت بڑا زبردست رول رہا ہے جنھوں نے علوم وفنون کا کافی ذخیرہ اردو میں منتقل کر کے علمی خیالات کے اظہار کے لیے گنجائش اور وسعت پیدا کر دی اور غور و فکر اور عرق ریزی سے اس دشوار کام کو آسان بنانے کی کوشش کی۔ مترجمین ترجمہ کرتے وقت سادہ،عام فہم،سلیس،معنوی اور معیاری الفاظ کا استعمال کرتے۔ ادبی اصطلاحوں کے مقابلے میں سائنسی اصطلاحوں کو وضع کرنے میں دشواریاں پیش آتی تھیں کیونکہ سائنسی اصطلاحوں کا تعلق روز مرہ کی ضروریات سے نہیں ہوتا ہے اس کے باوجود مترجمین محنت و مشقت سے سائنسی اصطلاحوں کا استعمال کرتے تھے۔ وضع اصطلاحات کی پہلی مجلس کا انعقاد 1917 میں ہوا تھا۔ اس میں مولوی عبد الحق، وحیدالدین سلیم، مرزا ہادی رسوا، نظم طباطبائی اور مہدی خاں کوکب شامل تھے۔آخری مجلس 1946میں ہوئی جس میں مولوی عبداللہ عمادی،ناظر مذہبی،ڈاکٹر محی الدین قادری زور،محمد نصیرا حمدعثمانی،مولوی عاقل علی خاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
دارالترجمہ کے ترجمہ نگار ہندوستان کے بلند پایہ ادیب،انشاپرداز،مدبر،معلم اور ماہر لسانیات تھے جنھوں نے تراجم کے لیے اپنی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام مولوی عبدالحق کا ہے جنھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی تحریک میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں سے مزید جان ڈال دی اور انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی ممتاز خدمات انجام دی۔ ’اردو ذریعہ تعلیم سائنس‘، ’اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ ‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔علاوہ ازیں مقدمات، خطبات کے مجموعے،تنقیداتِ عبدالحق، مراٹھی زبان پر فارسی کا اثر، اردو کی نشوو نما میں صوفیاء اکرام کا حصہ،مرحوم دہلی کالج اور نصرتی ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ان کے علاوہ علامہ عبداللہ عمادی،مولوی مسعود علی،قاضی تلمذ حسین، چودھری برکت علی اور سید ہاشمی فرید آبادی وغیرہ قابل ذکر مصنّفین ہیں۔ان مترجمین نے مغربی زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ جامع اور بامحاورہ انداز میں کیا ہے۔
دارالترجمہ عثمانیہ کے سائنسی مترجمین میں چودھری برکت علی،قاضی تلمذ حسین، خلیل الرحمن،محمدعبد الرحمن خان، مفتی شاہنواز،شیخ فروز الدین مراد،محمد حسین، محمد نعمت اللہ،محمد نصیر الدین عثمانی،محمد عظمت اللہ،عبد الباری ندوی، محمد سعید الدین،محمد اشرف،ضیاء الدین انصاری، سید ہاشمی فرید آبادی،کرنل فرحت علی،ڈاکٹر غلام دستگیر، حکیم محمد یوسف،حکیم غلام جیلانی اور حکیم کبیر الدین کے نام قابل ذکر ہیں۔
دار الترجمہ نے 17 ؍اگست 1917 سے 1951 تک مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتابیں ترجمہ کی ہیں۔آخر میں دار الترجمہ میں مترجمین کی تعداد کم ہو کر چھ ہو گئی جن میں احسان اللہ،رشید احمد،ڈاکٹر غلام دستگیر،ڈاکڑ یوسف انطونی،محمد حسین اور عبدالرحمن خان شامل تھے۔ 1951 تک دارالترجمہ کی بیشتر کتابوں کی اشاعت ہو چکی تھی لیکن جو طباعت کے مراحل سے نہیں گزری تھیں۔ان مخطوطات کو دار الترجمہ میں محفوظ کر دیا گیا۔نذر آتش کے باوجود یہ کتابیں محفوظ رہیں اور بعد میں نظام ٹرسٹ لائبریری کو بطورِ ہدیہ دی گئیں جو آج بھی وہاں دستیاب ہیں۔ دار الترجمہ کی آتش زدگی کے بارے میں رہنمائے دکن میں لکھا ہے کہ :
’’حیدر آباد 18؍اگست کل رات زبان اردو کی نایاب کتابوں کا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو گیا۔جب کہ دار الترجمہ کی عمارت کو آگ لگ گئی۔ نقصان کی مالیت کا اندازہ اسی ہزار اور ایک لاکھ کے درمیان ہے۔ساری کتب کی فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں۔بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ اور نایاب کتب آ ہنی الماریوں میں جو تباہ ہونے سے بچ گئی ہیں ۔‘‘14
دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کے ذریعہ اردومیں وہ صلاحیت پیداہو گئی کہ اس نے مشرق و مغرب کے درمیان علم کا وہ فاصلہ جو بظاہر بڑی خلیج کی مانند تھا، مٹا دیا۔ دار الترجمہ کے زیر اہتمام شائع شدہ کتابوں کو فنون کے اعتبار سے سات شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر محمد شکیل خاں رقم طراز ہیں :
’’اگر دار الترجمہ کی شائع شدہ جملہ کتابوں کو فنون کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے تو یہ سات شعبوں میں ترتیب دی جا سکتی ہیں۔پہلا شعبہ آرٹس یعنی میٹا فزیکس، سیکالوجی، لاجک اور ایتھکس دوسرا شعبہ ہسٹری اور جاگرافی، تیسرا شعبہ سوشیا لوجی،پولٹیکل سائنس اور اکنامکس چوتھا شعبہ قانون، پانچواں شعبہ ریاضی اور سائنس، چھٹا شعبہ انجینئرنگ اور ساتواں شعبہ زولوجی، بوٹنی اور میڈیسن وغیرہ سے متعلق ہوگا ۔‘‘15
نصیرالدین ہاشمی کے مطابق ان ساتوں شعبوں پرمشتمل مندرجہ ذیل کتابیں طبع ہوئیں جن کی تعداد 359 اور سائنس سے متعلق 73 کتابیں ہیں:
فلسفہ ما بعد الطبیعات،نفسیات،منطق،اور اخلاقیات 59
تاریخ جغرافیہ،تاریخ اسلام،ہند،قدیم،یورپ 118
عمرانیات،سیاسیات،معاشیات 29
قانون ودستور 23
ریاضی،سائنس 73
سیول و میکانیکل انجینئرنگ 27
طب 30 16
ان تراجم کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دار الترجمہ عثمانیہ نے اردو ادب اور ہندوستان کے عوام کے لیے جن علوم و فنون کا انتخاب کیا، وہ نہ صرف ادبی،مذہبی یا شعری تھے بلکہ سائنس،علم حیوانات،علم طبیعات، جغرافیہ، انجینئرنگ، نفسیات، عمرانیات،سیاسیات، معاشیات، طب، جراحی، فلاسفی،منطق،اخلاقیات، قانون اور تاریخ بھی تھے۔
عثمانیہ یونیورسٹی میں اردوکو ذریعۂ تعلیم بنانے کی تمام تر کامیابی دارالترجمہ کی مرہونِ منت ہے لیکن افسوس 1948 میں عثمانیہ یونیورسٹی کے اندر موجود اردو کے بیش بہا ذخیرے کو آتش زدگی کی بنا پر اور میر عثمان علی خان والی دکن کے زوال کے بعد اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا۔ کیونکہ1950 میں عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کی جگہ انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنا دیا گیا۔جس کے نتیجے میں دارالترجمہ کی ضرورت یکسر ختم ہو گئی۔اس طرح دارالترجمہ کی تینتیس سالہ خدمات پر پانی پھر گیا اور اردو زبان جس کی عثمانیہ یونیورسٹی میں اپنی بے پناہ اہمیت اور فضیلت تھی،صفحۂ تاریخ سے مٹا دی گئی۔چنانچہ ایک ایسی یونیورسٹی جو اردو ذریعۂ تعلیم کے سبب ملک میں انفرادی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی تھی،اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی انفرادیت کو کھو دیا۔
بحیثیت مجموعی دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ نے1917 سے لے کر1948تک اپنی عظیم الشان روایات کو بر قرارر کھا۔ ان اکتیس برسوں میں جامعہ عثمانیہ کو مختلف قسم کے مسائل سے دو چار ہونا پڑا اورکتابوں کے ترجمے کے لیے دشوار گزار حالات کا بھی سامناکرنا پڑ ا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اردو زبان کواس قابل بنا دیا کہ وہ سائنس اور تکنالوجی جیسے موضوعات کوبحسن خوب پیش کرنے لگی تھی۔آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں ایسے اداروں کی سخت ضرورت ہے جو دنیا کی نت نئی ایجادات اور علوم و فنون کو ترجمہ کے ذریعہ ہر خاص و عام تک پہچانے کا کام کرے۔کیونکہ مغربی ممالک ترقی کے باوجود بھی دوسری زبانوں کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں ترجمہ کراتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تراجم سے قومیں ترقی یافتہ اور با شعور ہوتی ہیں۔عثمانیہ یونیورسٹی نے یہ کا م ہندوستان کے دوسرے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں سب سے پہلے شروع کیا تھا لیکن آج افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ اس میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنسی علوم و فنون کی اردو زبان میں منتقلی کے لیے مناسب اور موثر اقدام اٹھائے جائیں۔
حواشی:
1۔ عہد عثمانی میں اردو کی ترقی،محی الدین قادری زور،حیدر آباد (1934) ص 87
2۔ اپیل منجانب کانفرنس۔روزنامہ مشیر دکن23مئی1914
3۔ دکن میں اردو،نصیرالدین ہاشمی،نامی پریس لکھنؤ(1963))ص 754
4۔ احکام و کاغذات متعلقہ جامعہ عثمانیہ،حمید احمد انصاری،دارالطبع عثمانیہ حیدر آباد ،ص 1
5۔ عہد عثمانی میں اردو کی ترقی،محی الدین قادری زور،حیدر آباد (1934)ص92 (یا) احکام و کاغذات متعلقہ جامعہ عثمانیہ،حمید احمد انصاری،دارالطبع عثمانیہ حیدر آباد ،ص 1
6۔ احکام و کاغذات متعلقہ جامعہ عثمانیہ،حمید احمد انصاری، دارالطبع عثمانیہ حیدر آباد،ص 95(یا) داستان ادب حیدر آباد،محی الدین قادری زور،سب رس کتاب گھر حیدر آباد (1951)ص188۔
7۔ رہنمائے دکن (گولڈن جوبلی جامعہ عثمانیہ۔خصوصی اشاعت، مضمون جامعہ عثمانیہ تاریخی جائزہ از پروفیسر ہارون خان شیروانی، حیدر آباد دکن 15 ؍اکتوبر 1968۔
8۔ انگریزی تصانیف کے اردو تراجم ،ص117
9۔ وضع اصطلاحات،وحید الدین سلیم،حیدر آباد (1931)ص2
10۔ وضع اصطلاحات،وحید الدین سلیم،حیدر آباد (1931)ص7
11۔ وضع اصطلاحات،وحید الدین سلیم،حیدر آباد (1931)ص8
12۔ اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ،مولوی عبدالحق،انجمن ترقی اردو پاکستان(1949)ص 41
13۔ اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ،مولوی عبدالحق،انجمن ترقی اردو پاکستان(1949)ص42،39
14۔ روز نامہ رہنمائے دکن،حیدر آباد مورخہ 19؍اگست (1955)
15۔ سائنسی و تکنیکی ادب،ڈاکٹر محمد شکیل خاں، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی،ص240
16۔ دکن میں اردو،نصیرالدین ہاشمی،نسیم بکڈپو لکھنؤ (1963) ص 758
Nighat Ameen
Research Scholar, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں