اختر اورینوی: ایک نئی قرأت
اختر اورینوی: عہد سے لحد تک
محمد ذاکر حسین
تلخیص
اختراورینوی نے انگریزی آنرس میں بی۔اے کیااور مشرق و مغرب کا خاصا مطالعہ بھی۔ان کی تنقیدی نگارشات اور افسانے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔اپنی تنقید میں وہ جہاں قرآن، تفسیر، بائبل وغیرہ سے حوالہ دیتے ہیں وہیں ڈاروین، فرنٹزماؤتھز،روڈ وولف، محی الدین ابن عربی وغیرہ کے نظریات سے استفادہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جہاں اپنی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منوایا وہیں اپنی تنقیدی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک معتدل اور متوازن نقادہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ اختراورینوی اپنے معاصرافسانہ نگاروں سے کسی درجہ کم نہیں۔ان کی شاعری انھیں اچھے شاعروں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے۔ ان کی تحقیقی کاوشیں بھی قابل توجہ ہیں۔ ان کی کتاب ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا 1204سے 1857 تک‘کافی مقبول ہوئی۔اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی سے بھی یہ کتاب اشاعت پذیر ہو ئی ہے۔ڈرامہ نگاری میں ’شہنشاہ حبشہ‘ ان کی ماہرانہ چابک دستی کی بہترین مثال ہے۔مجموعی طور پر اختر اورینوی ایک ہمہ جہت فنکار ہیں۔
اس مضمون میں اختر اورینوی کے پہلے افسانوی مجموعے ’منظر و پس منظر‘اوران کا تحقیقی مقالہ ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا1204 تا 1857 ‘‘کی صحیح تاریخ اشاعت کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔
اس مضمون میں اختر اورینوی کاڈرامہ’شہنشاہ حبشہ‘کے علاوہ ایک اور ڈرامے کی دریافت کی گئی ہے جو افسانوی مجموعہ’انار کلی اور بھول بھلیاں‘ (1944) میں شامل ہے۔
اختر اورینوی کی ایک تصنیف ’ایک کاروباری‘ ہے، جس پر شایداب تک ارباب تحقیق و تنقید کی نظر نہیں گئی۔ اختر اورینوی پر شائع ہونے والے نمبرات ’ساغر نو‘ اور، ’مہر نیم روز‘ نیز مونو گراف ’اختراورینوی‘ مصنفہٗ سید محمد حسین،یہاں تک کہ ان پر تحقیقی کام کرنے والوں نے بھی اس تصنیف کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔اس مضمون میں اس پر بھی مختصر گفتگو کی گئی ہے۔ان کے ایک اور ناول ’کارواں‘کا تذکرہ ملتا ہے جو شاید اب تک شائع ہونے سے رہ گیا ہے۔
کلیدی الفاظ
افسانہ نگاری، تنقید، انشاپردازی، تجزیاتی، ترکیبی، انفراد، مطالعہ و محاسبہ، پند و نصیحت، محبت کی خلش، مناظرِ قدرت، حسن و شباب، ناول نگاری، ڈرامہ، صحافت، دائرۂ ادب
اختر اورینوی ایک خوش فکر شاعر، معتدل اور صاحب نظرنقاد،بلند پایہ افسانہ نگار، اچھے ناول نویس، درمیانی محقق،ہر دل عزیز استاد، ایک معاون و مددگار شوہر، بہترین دوست اور کثیر المطالعہ شخصیت کا نام ہے۔اختر اورینوی کے آبا و اجداد میں سے ایک بزرگ سید احمد جاجینری،دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق (1351-1388) کے زمانے میں بغداد سے ہجرت کرکے ریاست بہار کے اُورَین میں قیام پذیر ہوئے۔اختر اورینوی کے والد سید وزارت حسین (متوفی 1975) علی گڑھ میں تعلیم کے درمیان مرزاغلام احمد قادیانی(مدعی نبوت)کی تحریک پر فرقۂ احمدیہ سے منسلک ہوگئے اور اس تحریک کی حمایت میں ایک کتاب ’مرأت الجہاد‘ 1905 تصنیف کی جسے ’مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی کے نام‘معنون کیا۔ 1904 میں سید وزارت حسین کی شادی قصبہ ’کاکو‘ کے معزز خاندان کے ایک فرد مولوی عبد العزیز کی اکلوتی بیٹی شمسہ خاتون عرف خدیجہ سے ہوئی اوریہیں’منجھلی حویلی‘ کاکو(ننھیال) میں اختر اورینوی19اگست 1910 کو پیدا ہوئے۔بسم اللہ خوانی کی رسم رشتے کے نانا محمد یوسف حسین نے ادا کرائی۔جنوری 1923 کو مونگیر ضلع اسکول کے چوتھے (آج کے حساب سے آٹھویں )درجے میں داخل ہوئے۔ ابھی اختر کی عمر محض پندرہ سال کی تھی کہ1925 میں ان کی والدہ شمسہ خاتون عرف خدیجہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ان کا مزار مونگیر میں ہے۔والدہ کے انتقال کے دوسرے سال 1926 میں اختر اورینوی نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔1928 میں سیکنڈ ڈویژن کے ساتھ پٹنہ کالج سے آئی۔ایس۔سی کا امتحان پاس کیا۔پھر پٹنہ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ ابھی وہ تھرڈ ایئر ہی میں تھے کہ مرض سل(ٹی۔بی) کا حملہ ہوا اور علاج کے سلسلے میں رانچی کے اٹکی Sanatorium (سینے ٹوریم) میں بھرتی کرائے گئے جہاں سے وہ تقریباً ایک سال کے بعد رو بہ صحت ہو کر لوٹے مگر اب میڈیکل کی پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ انھوں نے انگریزی آنرس میں داخلہ لے لیا۔25مئی 1933 کو اختر اورینوی کے سرسہرا سجا اور مشہور افسانہ نگار شکیلہ توحید، شکیلہ اختر (25؍اگست 1919۔ 10؍فروری 1994)ہو گئیں۔شادی کے محض ایک سال بعد1934 میں انگریزی آنرس کے امتحان کے دوران خون کی الٹی ہوئی۔ حالت بہت نازک تھی، اسی حالت میں انھیں اٹکی سینے ٹوریم میں بھرتی کرایا گیا اور تقریباً ایک سال بعد دسمبر 1935 میں پٹنہ لوٹے۔1937 میں پرائیویٹ طور پر پٹنہ کالج سے فرسٹ ڈیویژن کے ساتھ ایم۔اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔دسمبر 1938 میں پٹنہ کالج میں لیکچرر کے عہدے پر ان کی تقرری ہوئی۔1956 میں ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا 1204تا 1857‘ کے عنوان پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی۔لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1960 میں ترقی پا کر پروفیسراور پٹنہ یونیورسٹی کے سربراہ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوئے۔1971 میں وہ ریٹائرڈ ہوئے۔اب اختر اورینوی کی صحت تیزی سے گرنے لگی تھی۔ 1972میں علاج کی غرض سے ایک بار امریکہ کا سفر بھی اختیار کیا۔ 1975 میں ان کے والدسید وزارت حسین کااورین میں انتقال ہوا اور تدفین قادیان میں عمل میں آئی۔ والد کے انتقال کے دو سال بعد 30مارچ1977 کو اخترِعلم وادب نے وفات پائی۔دوسرے دن ان کی لاش قادیان لے جائی گئی جہاں تدفین عمل میں آئی۔
اختر اورینوی کی افسانہ نگاری
اختر اورینوی کی تخلیقی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سید محمد حسنین نے لکھا ہے کہ:
’’اختر اورینوی ایک پیدائشی ادیب تھے اور تخلیق کاری ان کی وہبی استعداد تھی۔ مصوری، شاعری اور افسانہ نگاری جیسے لطیف فنی اسالیب سے ان کی فطری دلچسپیوں کا زمانہ جو ملازمت سے پہلے کا دور ہے اس وصف خداداد کے ابتدائی مظاہر ہیں او رعینی بھی۔‘‘1
اختر اورینوی کی تخلیقی زندگی کا آغاز 1927 ہی میں ہو گیا تھا۔ ان کی پہلی کہانی ’رتنا‘ تھی جو طباعت کے مرحلے سے نہ گزر سکی۔ ان کا پہلا طبع زاد افسانہ ’بدگمانی‘ ہے جو1930-31 کے درمیان ماہنامہ ’بہارستان‘پٹنہ میں شائع ہوا۔دوسر ا افسانہ’ زودپشیمانی‘ بھی اسی رسالے میں شائع ہوا۔ ان کا تیسرا افسانہ ’نیاشوالہ‘نیاز فتح پوری کے رسالہ’نگار‘لکھنؤ میں شائع ہوا۔افسانہ’رتنا‘ سے متعلق وہ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’میں نے 1927 کی گرمیوں میں اپنا پہلا افسانہ لکھا جو کبھی شرمندۂ اشاعت نہ ہوا۔ سرخئ افسانہ ’رتنا‘ تھی۔ بڑے چاؤ سے نیاز فتح پوری صاحب کی خدمت میں اپنے جگر گوشے کو روانہ کیا۔ ہفتہ کے اندر ہی نور چشمی سلمہٗ واپس بھیج دیے گئے۔‘‘2
اختر اورینوی کے چھ افسانوی مجموعے ’منظر و پس منظر‘(1942)،’کلیاں اور کانٹے‘ (1941)، ’انارکلی اور بھول بھلیاں‘ (1944)، ’سیمنٹ اور ڈائنامیٹ‘ (1947)، ’کیچلیاں اور بال جبریل‘ (1959) اور ’سپنوں کے دیش میں‘ (1969)میں کل 70؍ افسانے شائع ہوئے۔اس کے علاوہ اختر اورینوی کے مطابق یہ چارافسانے ’تاوانِ جنگ‘، ’سفید و سیاہ اور سرخ‘، ’ایٹم بم‘، ’ایک درخت کا قتل‘ اورپہلا افسانہ ’رتنا‘کبھی شائع نہیں ہوا۔ان میں سے صرف ایک افسانہ ’ایک درخت کا قتل‘سب سے پہلے ماہنامہ ’آج کل‘دہلی کے مئی 1971 میں طبع ہوا،ماہنامہ’مہر نیم روز‘ کراچی کے ’اختر اورینوی نمبر ‘میں بھی شائع ہوا اور ’اختر اورینوی کے افسانے‘ مرتبہ پروفیسر عبد المغنی میں بھی شامل ہے۔اس طرح اختر اورینوی کی افسانوی بساط چھ مجموعوں اورپچھترافسانوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
’منظر و پس منظر‘: اختر اورینوی کا پہلا افسانوی مجموعہ’منظر و پس منظر‘کے نام سے مکتبہ اردو، لاہور نے شائع کیا۔ کلیم الدین احمد نے 6؍صفحات پر مشتمل ’پیش لفظ‘میں فن افسانہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے اختر اورینوی کی ادبی کاوشوں کو اِن الفاظ میں سراہا ہے:
’’اختر کے ادبی کارنامے محدود قسم کے نہیں... ان کے افسانے خصوصاً نہایت مقبول ہیں... ان افسانوں میں سے زیادہ تر (رسالہ) ’معاصر‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا معاصر میں شائع ہونا ہی ان کی اچھائی کی دلیل ہے۔‘‘3
یہ مجموعہ کل19؍افسانے بالترتیب ٹائپسٹ، آخری اکنّی، بوڑھی ماما،کام، بے بس، پاگل، جینے کا سہارا، تسکین حسرت، اندھی نگری، دو مائیں، جونیئر، تاخیر، بیل گاڑی، سینے ٹوریم کا فقیر، مریض، یہ دنیا، پس منظر، اب؟ اور’گندے انڈے‘ پر مشتمل ہے۔سید محمد حسنین اور ماہنامہ ’ساغر نو‘ پٹنہ کا ’اختر اورینوی نمبر‘ نے اس مجموعے کا سنہ اشاعت 1940 لکھا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ خدا بخش اورینٹل لائبریری میں ’منظر و پس منظر‘ کا جو نسخہ مجھے ملا، اس میں بھی سنہ اشاعت درج نہیں لیکن آخری صفحے میں ترقیمے کے طور پرکاتب نے ’محمد شریف عباسی خوشویس، لاہور، مارچ 1942‘ لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ مارچ۔اپریل 1942 میں منظر عام پر آیا تھا۔
اس مجموعے کے افسانوں میں بوڑھی ماما، کام، بے بس، اندھی نگری، تاخیر، یہ دنیا، اب؟ اور ’گندے انڈے‘کے علاوہ تمام افسانے دامن دل کو اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ ذرا ٹھہر کر اس بات پر غور کریں کہ پہلے ہی مجموعے جبکہ ابھی ان کا شعور پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوا، کے اکثر افسانے قابل مطالعہ ہیں۔یہ اعجاز کی بات ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی افسانوی مجموعے میں 4-5؍افسانے بھی قابل مطالعہ ہوں تو وہ مجموعہ کامیاب مجموعوں کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔اس اعتبار سے اورینوی کا یہ مجموعہ چند کامیاب افسانوی مجموعوں میں شامل ہے۔
’کلیاں اور کانٹے‘: اختر اورینوی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’کلیاں اور کانٹے‘ میں 11؍ افسانے شادی کے تحفے، بدگمانی، فٹ پاتھ، زود پشیمانی، شکور دادا، نیا شوالہ، وہ واقعہ، کوئلے والا، بہت بے آبرو ہوکر، پناہ گزیں اور ’کلیاں اور کانٹے‘ پر مشتمل ہے۔یہ مجموعہ پہلی بار مکتبہ اردو، لاہور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے پر بھی سنہ اشاعت درج نہیں۔’ساغر نو‘پٹنہ کا ’اختر اورینوی نمبر‘اور سید محمد حسنین کامونو گراف ’اختر اورینوی‘ مجموعے کا سنہ اشاعت 1941 بتاتے ہیں۔ جب کہ یہ دوسرا مجموعہ ہے جس کی وضاحت اختر اورینوی نے کہیں کی ہے۔ اور پہلے مجموعے ’منظر و پس منظر‘کی اشاعت جیسا کہ اوپر مذکور ہوا؛ 1942 میں عمل میں آئی تھی اس لیے یہ کبھی درست نہیں ہو سکتا کہ اس کی اشاعت 1941 میں ہوئی ہو۔ لہٰذا حالات اور قرائن بتاتے ہیں کہ یہ مجموعہ1943 میں منظر عام پر آیا ہے۔اس مجموعے کے افسانے بدگمانی، فٹ پاتھ، نیا شوالہ، وہ واقعہ اور ’پناہ گزیں‘ کے علاوہ سبھی افسانے قابل توجہ ہیں۔
ان دونوں مجموعوں ’منظر و پس منظر‘اور’کلیاں اور کانٹے‘ میں وہ تمام چیزیں ہیں جومعاصر افسانہ نگار اپنے افسانوں میں برت رہے تھے۔ان مجموعوں کے مشتملات میں روز مرہ پیش آنے والے واقعات بھی ہیں اور کچھ عدیم الوقوع حادثے اور واردات بھی۔ان واردات میں تخیل و تصور کی کارفرمائی بھی ہے اور مشاہدے کی دھمک بھی، ان دونوں مجموعوں میں فرد اور سماج کے مسائل، ان کی ادبی، تہذیب، ثقافتی، سیاسی، پریشانیوں اور دقتوں کوموضوع بنایا گیا ہے۔یہ دور ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور ہے لہٰذا اختر اورینوی کے افسانوں میں ترقی پسندانہ خیالات کا وارد ہو جانا فطری ہے۔ پروفیسر عبد المغنی کے مطابق زیر نظر مجموعوں میں اورینوی تصوراتی اعتبار سے کرشن چندر اور تکنیکی اعتبار سے راجندر سنگھ بیدی کے زیادہ قریب ہیں۔
’انار کلی اور بھول بھلیاں‘: اختر اورینوی کا تیسراافسانوی مجموعہ’انار کلی اور بھول بھلیاں‘ 11؍افسانوں بالترتیب بیداری، ماں،ابابیل کا جوڑا، انار کلی اور بھول بھلیاں، یادگار، ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، تاریک سائے، کواڑ کی اوٹ، آئینہ اور’جنگل‘ اور ایک ڈرامہ’زوال کینٹین‘ پر مشتمل ہے۔ 196؍صفحات کی ضخامت کے ساتھ مرکز ادب، مہندرو، پٹنہ سے شائع ہوا۔ اس پر بھی سنہ اشاعت درج نہیں۔ قیمت 4؍روپئے درج ہے۔[*] خیال رہے کہ ’ساغر نو‘پٹنہ کے ’اختر اورینوی نمبر‘ میں سنہ اشاعت 1944 اور شائع کردہ ادارے کے طور پر’ اقبال بک ڈپو، پٹنہ‘درج ہے۔تلاش و بسیار کے بعد بھی اس اشاعتی ادارے سے شائع ہونے والا نسخہ مجھے نہ مل سکا اور سید محمد حسنین نے بھی اس کا سنہ اشاعت 1944 بتایا ہے جو ظاہر ہے کہ مذکورہ رسالے کے تتبع میں لکھا گیا ہے۔
اس مجموعے کے مشتملات میں سے ’بیداری‘ سے لے کر’انار کلی اور بھول بھلیاں، ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، کواڑ کی اوٹ اور ’آئینہ‘تک تمام افسانوں میں اس دور کا سماج منعکس ہوتا نظر آتا ہے جس میں ترقی پسندانہ خیالات کو مرکزیت حاصل ہے۔افسانہ ’بیداری‘ اور ’تاریک سائے‘ پر سعادت حسن منٹو کی چھاپ دکھائی دیتی ہے تو’جنگل‘پر عصمت چغتائی کے،لیکن انداز پیش کش ان معاصرافسانہ نگاروں سے جدا ہے۔افسانوی مجموعہ’انار کلی اور بھول بھلیاں‘ اختر اورینوی کے افسانہ نگاری کے عبوری دور کے نمائندہ مجموعوں میں شامل ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اختر اورینوی ’منظر و پس منظر‘ اور ’کلیاں اور کانٹے‘کے اورینوی نہیں رہ گئے۔ اب ان کا ذہن و شعور بیدار ہو چکا ہے۔ ان کے نظریات میں وسعت،فکر میں گہرائی او رتجربے میں پختگی آگئی ہے۔
’سیمنٹ اور ڈائنا میٹ‘: اورینوی کا چوتھا افسانوی مجموعہ’سیمنٹ اور ڈائنا میٹ‘ 206صفحات پر مشتمل ہے۔یہ مجموعہ اپنے اندر 8؍افسانوں سیمنٹ، آگے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد، پندرہ منٹ، گھر کو واپسی، پر اب بھی کبھی کبھی، رات بھر اور ’ڈائنا میٹ‘ کو سمیٹے ہوئے ہے۔پہلی باریہ مجموعہ کتب خانہ اسلامیہ، آرہ، بہار سے شائع ہوا۔’ساغر نو‘پٹنہ کے ’اختر اورینوی نمبر‘نے ناشر کے نام کی جگہ صرف یہ لکھا ہے ’ضلع شاہ آبادسے‘اب مجھے خبر نہیں کہ ضلع شاہ آباد، آرہ ہی میں ہے یا کہیں اور ؟ بہر حال کتب خانہ اسلامیہ والے نسخے میں بھی سنہ اشاعت درج نہیں۔’ساغر نو‘پٹنہ کے ’اختر اورینوی نمبر‘ میں سنہ اشاعت 1947 بتائی گئی ہے جسے سید محمد حسنین نے بھی قبول کیا ہے۔
’کینچلیاں اور بال جبرئیل‘: ان کا پانچواں افسانوی مجموعہ’کینچلیاں اور بال جبرئیل‘پہلی باردسمبر 1959 میں ساتھی پبلی کیشنز، دریا پور، پٹنہ۔4 سے شائع ہوا۔196صفحات اور 10؍ افسانوں سیکھ جہور، مکان کی تلاش، اکتاہٹ، ممتا، گرجا کے سائے میں جنت سے دور، انھیں مردے نہ کہو، کل،آج،کل، راج محل میں، ایک معمولی سی لڑکی‘ اور’کینچلیاں اور بال جبریل‘ پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے جس میں شاید ایک آدھ افسانے ہی بھرتی کے کہے جا سکتے ہیں۔’کینچلیاں اور بال جبرئیل‘ عنوان کا افسانہ واحد افسانہ ہے جو دو ۔دومجموعے ’کینچلیاں اور بال جبرئیل‘ اور’سپنوں کے دیش میں‘میں شامل ہے۔ اختر اورینوی مشہور طنز و مزاح نگار رضا نقوی واہی کی طرز نہیں اپنائی۔واہی کے 9؍شعری مجموعے منظر عام پر آئے لیکن ایک ہی نظم کئی مجموعوں میں شامل کر لی گئی۔اور یہ صرف ایک،دو اور چار نظموں کی بات نہیں بلکہ ایسی نظمیں وافرتعدادمیں ہیں۔
’سپنوں کے دیش میں‘: اختر اورینوی کا چھٹا اور آخری افسانوی مجموعہ ’سپنوں کے دیش میں‘ ہے۔ اس مجموعے میں 11؍افسانے کیچلیاں اور بال جبریل، سپنوں کے دیس میں، محشر، نقش قدم، ہیلی پیڈ، حدیں، ضمیر، عید کارڈ،اشٹ گرہ، کرۂ ارض کا ایک سانحہ اور ’جراحتِ دل‘شامل کی گئی ہیں۔
پروفیسر عبد المغنی نے 1977 میں 15؍ افسانوں کا انتخاب’اختر اورینوی کے افسانے‘ کے نام سے اپنے 29؍ صفحے کے وقیع مقدمے کے ساتھ بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ سے شائع کرایا۔ اختراورینوی کواپنے افسانے کا ایک انتخاب شائع کرنے کی دیرینہ خواہش تھی جس کی وضاحت پروفیسر عبد المغنی صاحب نے یوں کی ہے :
’’اپنے افسانوں کے انتخاب کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے اختر اورینوی نے خیال ظاہر کیا کہ اس سے ایک تو ہر رنگ کی تخلیقات کی یکجا نمائندگی ہو جائے گی اور دوسرے ان کی اہم ترین تخلیقات کا ایک مجموعہ مرتب ہو جائے گا۔‘‘4
سید محمد حسنین نے اختر اورینوی کے افسانوں کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور 1940-47 تک اور دوسرا دور 1959-69 تک۔اختر اورینوی کا مشاہدہ گہرا ہے۔ ٹائپسٹ، پس منظر، سیمنٹ، اکتاہٹ، محشر، کلیاں اور کانٹے اور ’شادی کے تحفے‘ان کے کامیاب افسانے ہیں۔اختر اورینوی ترقی پسند تحریک سے متاثر تو ہوئے لیکن وہ اپنے فن میں نظریے کی تبلیغ،بغاوت اور اصلاح کوپیش کرنے میں متشدد نہیں ہوئے۔ وہ پلاٹ سے زیادہ کردار نگاری پر زور صرف کرتے ہیں۔ان کے کردار خود میں گم ہونے کے باوجوداپنی صلاحیت کی داد قاری سے لے لیتے ہیں۔اختر اورینوی اردو کے باکمال افسانہ نگار ہیں۔آل احمد سرور نے ان کے افسانے سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’اختر کا مشاہدہ بہت تیز ہے۔ وہ خارجی اور داخلی ہر قسم کی مصوری کر سکتے ہیں۔کردار نگاری کے گر سے بھی واقف ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دراصل کچھ کہنا ہے۔یہ بڑی بات ہے۔‘‘5
پروفیسر عبد المغنی نے تو جدید اردو افسانہ نگاری کے عناصر اربعہ میں کرشن چندراورمنٹوکے بعد اور بیدی سے پہلے اختر اورینوی کوجگہ دی۔ملاحظہ ہو ان کا مضمون ’جدید اردو افسانہ نگاری کے عناصر اربعہ‘ مشمولہ ماہنامہ ’مہر نیم روز ‘کا ’اختر اورینوی نمبر‘۔مشہور محقق قاضی عبد الودود صاحب نے اختر اورینوی کو اُس عہد کا بہار کا سب سے بڑا افسانہ نگارہونے کا اعزازعطا کیا۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس :
’’ڈاکٹر اختر اورینوی اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں ہیں، اور غالباً اس سے عام طور پر اتفاق کیا جائے گا کہ بہار کے اردو بولنے والوں میں ان سے بہتر افسانہ نویس پیدا نہیں ہوا۔‘‘6
اختر اورینوی کی تنقیدی نگارشات
اختر اورینوی کثیر المطالعہ اشخاص میں سے ایک ہیں۔بہار کے ادباو شعرا کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کا شرف ان ہی کو حاصل ہے۔ ان کی تنقیدی نگارشات ایک درجن سے کچھ ہی کم ہیں۔ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے کسوٹی، تحقیق و تنقید(1950)، تنقید جدید (1950)، قدر و نظر (1955)، سراج و منہاج (1964)، مطالعہ و محاسبہ، مطالعۂ اقبال (1961) اور مطالعۂ نظیر (1962)ہیں، جن کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اختر اورینوی کا تنقیدی شعور بیداراور پختہ ہے۔ انھوں نے تقریباً تمام اصناف سخن پر اپنی تنقیدی مہر لگائی ہے۔ان کی تنقید کا دائرہ وسیع ہے جس میں موضوعات کی افراط ہے۔اگرچہ یہ افراط نصابی مطالبات پورے کرتے ہیں لیکن ان کی اہمیت سے انکار کی گنجائش بہت کم ہے۔سید محمد حسنین نے ان کے تنقیدی مقالوں کو تصنیفی مقالے، شخصیتی مقالے، صنفی مقالے، علاقائی مقالے، لسانیاتی مقالے اور ’نظریاتی مقالے‘ کے 6؍خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کا مطالعہ اختر اورینوی کے محض پانچ مجموعوں تک محدود ہے۔ان میں اور بھی گروپ نکالے جا سکتے ہیں۔اختر اورینوی کی تنقید میں انشاء پردازی کو فوقیت حاصل ہے۔ ان کی تنقید میں دو پہلو صاف نظر آتے ہیں ایک تجزیاتی اور دوسراترکیبی۔شخصیات پر لکھتے ہوئے انھوں نے ان ادبا و شعرا کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے اور نہ ہی انھیں اسفل السافلین تک پہنچانے کی کوشش کی۔یہی اعتدال و توازن اختر اورینوی کا تنقیدی انفراد ہے۔
’کسوٹی‘ :اختر اورینوی کا پہلا تنقیدی مضمون رسالہ’ شمیم ‘پٹنہ میں 1936 میں ’مختصر افسانہ کی فنی خصوصیت‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ’کسوٹی‘ ہے جوپہلی بار ’مکتبۂ خیال‘ پٹنہ سے شائع ہوا ۔اس مجموعے میں کل 14مضامین شامل ہیں جو بالترتیب ’وجہی کا نظریۂ فن و نقد فن، حالی اور مسئلہ زبان، فقۂ ہندی، آخرت نامہ، سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری، فن اور اسلوب کا مسئلہ، نیازافسانہ نویس کی حیثیت سے، عالمی ادب اور ادبِ اردو میں ترقی پسندانہ رجحانات، عصر غالب اور غالب کے قبل اور بعد کے رجحانات، ابن الوقت پر ایک تبصرہ، انشائیہ، غالب کی فنکاری، اقبال اور ٹیگور اور ’صحرا نورد کے خطوط پر ایک نظر‘کے وقیع عنوانات کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں۔
’تحقیق و تنقید‘: پہلی بار شاد بک ڈپو، پٹنہ،سے شائع ہوا۔ اس پراس کی قیمت تین روپئے درج ہے۔ تلاش بسیار کے بعدنہایت بوسیدہ حالت میں مجھے شاد بک ڈپو والا نسخہ ملا جس پر سنہ اشاعت درج نہیں لیکن اس کا دوسرا ایڈیشن جو کتابستان، الٰہ آباد سے 1960 میں شائع ہوا، اس میں اختر اورینوی نے چار صفحے کا مقدمہ تحریر کیا جس میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن 1950 میں شائع ہواتھا۔اس مجموعے میں ڈاکٹر عظیم الدین عظیم ؔ ، عظیم آبادی کی شاعری پر ایک نظر، بولیوں کا سنگم، اردو کی رومانی شاعری، صحرانورد کے خطوط پر ایک نظر، افسانے میں مقصد، فن اور ماحول، انشائیہ، ابن الوقت پر ایک تبصرہ، افسانہ :فنی نقطۂ نظر سے، نیاز افسانہ نویس کی حیثیت سے، افسانے میں حقیقت طرازی و مثال نگاری، ڈراما فنی نقطۂ نظر سے، بہار میں اردو ناول نگاری، سورداس اور تلسی داس پر اردو کا حق اور’اقبال اور ٹیگور‘ جیسے پندرہ وقیع عنوانات کے تحت تحقیقی و تنقیدی مضامین جمع کیے گئے ہیں۔
’تنقید جدید‘: پہلی بار 1950میں شاد بک ڈپو، پٹنہ نے شائع کیا تھا۔اس مجموعے میں کل آٹھ مضامین شامل ہیں۔ اس کا پہلا مضمون ’ترقی پسند ادب‘ اور پھر یکے بعد دیگرے نظیر کی شاعری پر ایک عمومی تبصرہ، ادب میں روایت اور تبدیلیاں، غالب کا فن شاعری اور اس کا نفسیاتی پس منظر، فن غزل اور حضرت عبد المنان بیدل عظیم آبادی اور’تبصرے‘ کے عنوان کے تحت رسالہ ’آفتاب‘کا ’بیسویں صدی کا اردو ادب‘نمبر،رسالہ ’نگار‘کے ’دور حاضر کی شاعری نمبر‘ اور ابو اللیث صدیقی کا مقالہ ’شاعری میں غزل کا مرتبہ‘ پر تبصرہ شامل ہیں۔
’قدر و نظر‘: 18 مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ پہلی بار1955 میں ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس کے مضامین بالترتیب اردو زبان کا ارتقا، بہار میں مثنوی نگاری، بہار میں اردو مرثیہ نگاری، راسخ عظیم آبادی: ایک تعارف، بیان درد، داغ کی شاعری میں لب و لہجہ کی اہمیت، حسرت کی انفرادیت، جبلّتیں اور قدریں، ادب اور نفسیات، جوش:ایک صناع کی حیثیت میں، فیض احمد فیض کی شاعری اور اس کی فضا، حضرت عبد المنان بیدل عظیم آبادی کی شاعری، حضرت حافظ شمس الدین احمد شمس منیری اور ان کی شاعری کا تعارف، اقبال کی شاعری میں درد کا عنصر:ایک مطالعہ، ایک تعارف، اردو شاعری اور غالب:ایک مطالعہ، تخلیق و تنقیداور’ادب و فن کی بنیادی قدریں‘ہیں۔
’سراج و منہاج‘پہلی بار ایوان اردو،پٹنہ سے 1964 میں شائع ہوئی۔ اس میں 18؍مضامین بالترتیب عبد الغفور شہباز کی شاعری، شاد عظیم آبادی، شاد کی غزل گوئی، اقبال کے خط شاد عظیم آبادی کے نام، شاد عظیم آبادی کی ناول نگاری، سلیمان خان جادو کی شاعری، لالہ جگر ناتھ سنگھ، محمد حسن وحدت، عظیم عظیم آبادی کی شاعری پر ایک نظر، جمیل مظہری کی شاعری، پرویز شاہدی کی فنکاری، اجتبیٰ رضوی کی شاعری، علامہ فضل حق آزاد اور ان کا فن ہیں۔
’مطالعہ و محاسبہ‘ مکتبۂ اردو،پٹنہ سے شائع ہوئی۔اس پر سنہ اشاعت درج نہیں۔ پانچ روپئے پچیس پیسے قیمت اور293 صفحات پر پھیلی یہ کتاب 10 مضامین پر مشتمل ہے۔جس میں بالترتیب زبان اور قومیت، شاعری میں روایت اور جدّت، جمالیات، فنکاروں کا مطالعہ، تنقید اور قدروں کا مسئلہ، علی عباس حسینی کی افسانہ نگاری، غالب کے بہاری شاگرد، اقبال کی شاعری پر ایک نظر، مطالعہ مومن اور ’نقد میر۔ اس مجموعے کا پہلا مضمون’زبان اور قومیت‘ قابل لحاظ اور اورینوی صاحب کی تحقیقی بالیدگی کا بین نمونہ ہے۔
’مطالعۂ اقبال‘ اور’ مطالعۂ نظیر‘ اختر اورینوی نے ایک سلسلہ بنام ’سلسلۂ مطالعہ شعرا و ادبا‘ شروع کیا تھا جس کے تحت نامور شعرا و ادبا کا مختصر تعارف اور ان کی تخلیقات و تصنیفات،فکر و فن،اسلوب ومنہاج، داخلی اور خارجی عوامل، ذہنی و نفسی کشمکش،احساسات و جذبات، ماحول، انفرادیت، عہد اور سماج وغیرہ پر مختصرمگر جامع مطالعہ پیش کیا جائے تاکہ مطالعے کوصحیح سمت و رفتار مل سکے۔ یہ سلسلہ 1961 سے شروع ہوا اور 1962 میں ’مطالعۂ نظیر‘ کے ساتھ ختم ہو گیا۔یہ دونوں مطالعے اختر اورینوی کی عملی تنقید کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا تو ہمیں رشحات اختر سے اور بھی نادر مطالعے کا موقع ملتا۔ یہ دونوں کتابچے آزاد پریس، پٹنہ سے شائع ہوئے۔
’انتخاب از بانگ درا مع تنقیدی نوٹ‘: یہ کتاب مجھے نہ مل سکی۔ اس کا تذکرہ اختر اورینوی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’مطالعہ و محاسبہ‘ جو مکتبۂ اردو، پٹنہ سے شائع ہوئی تھی،کے آخری صفحے پراشتہاری طور پر ملتا ہے جس میں مؤلف کے طور پر ڈاکٹر اختر اورینوی، صدر شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ درج ہے۔
اختراورینوی نے تاریخ، فلسفہ، مذہب، عمرانیات اور سائنس کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔اس لیے ان کی تنقید بہت سے نقادوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی تنقید میں سوجھ بوجھ، تخلیقی عناصر کی پہچان،ادبی قدروں سے لگاؤ،مختلف علوم و فنون سے استفادہ،بے لاگ تبصرہ،محاسن و معائب کی بے لاگ نشاندہی اورتعصب سے احتراز پایا جاتا ہے۔ جب وہ کسی شخصیت کو موضوع بناتے ہیں تو اسے آسمان پر نہیں چڑھاتے بلکہ اس کے معائب کی نشاندہی بھی کرتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی ان کی تنقید پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان کی تنقیدوں میں وزن اور وقار ہے۔اور ان کے یہاں وہ حکیمانہ بصیرت ملتی ہے جو تنقید کے لیے از بس ضروری ہے۔ان کی تنقیدیں تاثراتی انشائیے یا عدالتی فیصلے نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں وہ تنظیم ملتی ہے جو سائنٹفک تنقید کی خصوصیت ہے۔‘‘7
اختر اورینوی فرسودہ روایات سے چپکے نہیں رہے اور نہ ہی انھوں نے روایت کو یکسر خارج کر دیابلکہ وہ ان دونوں کے درمیان قدرمشترک کی تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’روایات اگر مکمل ڈھچر نہیں تو اس کی ریڑھ کی ہڈی ضرور ہیں۔‘‘ادب اور پروپیگنڈے کے درمیانی رشتے کی تلاش اختر اورینوی یوں کرتے ہیں:’’ادب ایک کامیاب پروپیگنڈہ ہو سکتا ہے مگر ہر پروپیگنڈہ ادب نہیں ہوتا۔‘‘ان کے یہاں حقیقت نگاری ایک نئے مفہوم کے ساتھ ابھرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’انسان کے سارے جذبات اور لا محدود تخیلات کو موجودہ سٹنگ میں پیش کرنا سچی حقیقت نگاری ہے۔‘‘اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اختر اورینوی ایک معتدل اور متوازن نقاد ہیں اور یہی اعتدال اور توازن ان کی تنقید کا طرۂ امتیاز ہے۔
اختر اورینوی کے تحقیقی کارنامے
’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا 1204 تا 1857‘اختر اورینوی کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں پٹنہ یونیورسٹی سے ڈی۔لٹ کی سند تفویض ہوئی۔سید محمد حسنین نے اس کا سنہ اشاعت1956 لکھا ہے۔ میرے پاس اس کا ایک پرانہ ایڈیشن ہے جو ’لیبل لیتھو پریس‘، رمنہ روڈ، پٹنہ سے شائع ہوا تھا، اس کے سر ورق پر سنہ اشاعت مارچ1957 درج ہے اور شاید یہی پہلا ایڈیشن ہے۔قومی کونسل نے اسے پہلی بار1989 میں اوردوسری بار2014 میں شائع کیا۔عبد القادر سروری نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ڈاکٹر اختر اورینوی نے اپنی تصانیف کے ذریعے اردو کے صف اول کے لکھنے والوں میں اپنی جگہ پیدا کر لی ہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں میں ان کا پایہ بلند ہے۔ ’بہار میں اردو زبان اور ادب کا ارتقا‘(کذا)ان کا اہم کارنامہ ہے۔‘‘8
’مقدمہ‘، ’کتابیات‘ اور ’اشاریہ‘ چھوڑ کر دو ابواب ’بہار میں اردو زبان‘ اور ’بہار میں اردو ادب‘ پرمشتمل ہے۔ پہلا باب ’بہار میں اردو زبان‘کے تحت چار ذیلی عنوانات بالترتیب ’عہد عالمگیر میں لسانی یکسانی‘، ’کھڑی بولی اور ریختہ‘، ’قدیم اردو اور صوفیاے کرام‘ اور ’انگریزی دور میں اردو زبان‘ ہیں۔ دوسرا باب ’بہار میں اردو ادب‘کے نام سے معنون ہے جس میں چار ذیلی ابواب ’بہار میں اردو شاعری‘، ’بہار کے تذکرہ نگار شعرا‘، ’شعرائے شاہجہاں آباد جو عظیم آباد میں آباد ہوئے‘اور ’بہار میں اردو نثر نگاری‘ ہیں۔ ’بہار میں اردو شاعری‘ کے ذیلی عنوان کے تحت 26شعرائے بہار کے حالات زندگی اور شاعری پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے اور ان کے نمونۂ کلام کو پیش کیا گیا ہے۔’بہار میں تذکرہ نگار شعرا‘ کے ذیلی عنوان کے تحت تین تذکرہ نویس شعرا غلام حسین شورش، نواب ابراہیم خاں خلیل اور وجیہ الدین عشقی پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’شعرائے شاہجہاں آباد جو عظیم آباد میں آباد ہوئے‘ کے ذیلی عنوان کے تحت 6 ایسے شعرا پر خامہ فرسائی کی گئی ہے جنھوں نے شاہ جہاں آباد سے ہجرت کر کے عظیم آباد کو اپنا مسکن بنایا۔ ’بہار میں اردو نثر نگاری‘کے عنوان کے تحت بہار کے 13نثر نگاروں کی تصانیف پر ایک تحقیقی نظر اور نمونۂ نثر کو پیش کیا گیا ہے۔آخر میں ’بہار میں اردو ادب کے عام میلانات‘ کے تحت خلاصۂ تحریر پیش کیا گیا ہے۔
اختر اورینوی نے’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا1204 تا 1857‘کے علاوہ بھی تحقیقی کام کیے ہیں جو مضامین کی شکل میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے مجموعوں کسوٹی، تنقید جدید، تحقیق و تنقید، قدر و نظر، سراج و منہاج اور مطالعہ و محاسبہ میں شامل ہیں۔ان میں بولیوں کا سنگم، سورداس اور تلسی داس پر اردو کا حق، بہار میں اردو ناول نگاری، اردو زبان کا ارتقا، بہارمیں مثنوی نگاری، بہار میں اردو مرثیہ نگاری، شاد عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی کی ناول نگاری، اقبال کا خط شاد عظیم آبادی کے نام، محمدحسن وحدت، لالہ جگر ناتھ سنگھ، غالب کے بہاری شاگرد وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
اختر اورینوی میں تحقیق کا مادہ کم تھا۔ تحقیق ایک صبر آزما کام ہے جوغیر متعصبانہ رویہ، صاف و شفاف خیالات،قوی یادداشت، صبر و استقلال اور پختہ استدلال چاہتا ہے جس کے بغیر تحقیق کے میدان میں گھوڑے دوڑانا خطرے سے خالی نہیں۔اختر اورینوی تھوڑا عجلت پسند واقع ہوئے تھے۔ تحقیق کاانھیں اتنا ذوق بھی نہ تھا۔انھوں نے خوداس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ: ’’تحقیق تو محض میں نے یونیورسٹی کے مطالبات کے تحت کی ہے۔ اس کا کوئی خاص ذوق مجھے نہیں۔‘‘9 اس لیے ’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا1204 تا 1857‘ کی اشاعت کے محض بیس مہینوں کے اندر قاضی عبد الودود کا مضمون سہ ماہی رسالہ’نوائے ادب‘ ممبئی میں پانچ قسطوں (نومبر1958۔ نومبر1959) میں شائع ہوا (جو؛ اب ’مقالات قاضی عبد الودود‘ مرتبہ: کلیم الدین احمد، حصہ اوّل کی زینت ہے۔) جس میں اختر اورینوی کی فاش غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اختر اورینوی کی تحقیقی غلطیاں اپنی جگہ لیکن عبد القادر سروری کے مطابق: ’’اس کتاب کے ذریعے پہلی دفعہ ہم بہار میں اردو زبان اور ادب کے ارتقا کی مربوط اور تعمیری تفصیل سے واقف ہو سکے۔‘‘10 اس مقالے میں ’’پہلی دفعہ اردو میں دراوڑی زبانوں کی زیریں تہہSub Stratum کی طرف اشارے ملتے ہیں۔‘‘11 قاضی عبد الودود صاحب کو اس طرف متوجہ کرنے کا سہرا بھی اورینوی صاحب کے سر بندھتا ہے۔ اگر ان دونوں مقالوں کو یک جا شائع کیا جائے تو بہار میں اردو زبان اور ادب کی بہترین تاریخ مرتب ہو جائے گی جو متلاشیان راہ حق کے لیے کافی سود مند ثابت ہوگا۔
اختر اورینوی کی شاعری
اختر اورینوی ایک جمال پرست ادیب ہیں۔ ان کی شخصیت حسن،حسن کی کشش، سپردگی، لچک اور جمال پرستی سے بنی تھی۔ان کی شاعری میں پند و نصیحت، تلقین وموعظت نہیں ملتی۔ ان کی شاعری میں محبت کی خلش، وفا کی پکار، انسانیت کا درداور خلوص و سادگی کی آرزو پائی جاتی ہے۔مناظر قدرت اور حسن و شباب کے بیان میں اختر اورینوی اپنا جواب کم ہی رکھتے ہیں۔وہ ہمیں زندگی کواپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ قریب کرنے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔اختر اورینوی کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آئے، انجمن آرزو (1964) اوریک چمن گل 1969۔پہلے مجموعے کی نظموں ابتلائے محبت، ارمغان شباب، بھیگی ہوئی زلفیں، جلوۂ گریزاں، جلوۂ منزل، خندۂ دزدیدہ، دریائے سون، رومان یافتہ، گریۂ بے اختیار اور ’محبت‘وغیرہ میں رومانیت غالب ہے۔وطن بھی اس کا محبوب ہے جس پر ان کے اشعار ان کی وطن دوستی کی اعلیٰ مثال پیش کرتی ہیں۔ ان کی نظموں کے اشعار ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں جن میں عشق و محبت کے نفیس جذبات کی ترجمانی، حسن فطرت کی دلفریب عکاسی، سنجیدہ خیالات کا اظہار اور عصری حسیت کا انعکاس ہوتا ہے۔سید محمد حسنین، اختر اورینوی کو مشہور مغربی شاعرسوِن برن کے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ انگلش کے مشہور رومانی شاعر Swinburnکی طرح اختر اورینوی بھی خوبصورت اور حسین الفاظ کی مدد سے شاعری میں وجدانی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘12
اختراورینوی کی شاعری میں خوب صورت استعارے، نادرتشبیہات اور حسین و دلکش خیالات جابہ جا اپنی چمک بکھیرتے نظر آتے ہیں،جو ان کی شاعری میں ایک طرح کا ترنم اور غنائیت کی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔انھوں نے روایتی شعرا کی محض تقلید نہیں کی بلکہ ان کی نظمیں اس بات کی غماز ہیں کہ انھوں نے نئی شاعری اور خاص کر انگریزی شاعری سے بھی فائدہ اٹھایا۔اختر اورینوی نے شاعری بہت کم کی لیکن جو کیااور جتنا بھی کیا وہ قابل فراموش نہیں۔
اختر اورینوی کی ناول نگاری
اختر اورینوی کی ایک تصنیف ’ایک کاروباری‘ ہے، جس پر شایداب تک ارباب تحقیق و تنقید کی نظر نہیں گئی۔ اختر اورینوی پر شائع ہونے والے نمبرات ’ساغر نو‘اور، ’مہر نیم روز‘ نیز مونو گراف ’اختراورینوی‘ یہاں تک کہ ان پر تحقیقی کام کرنے والوں نے بھی اس تصنیف کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہ تصنیف مئی 1946 میں نگارستان ایجنسی، اردو بازار، دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کاایک نسخہ ادارہ ادبیات اردو، حیدر آباد میں محفوظ ہے۔ 64صفحات پر مشتمل یہ تصنیف؛ ناول ’حسرت تعمیر‘کا نقش اوّل ہے جس میں بوس (محبوب) کی خود کشی کرنے کی کوشش تک، کی داستان بیان کی گئی ہے۔
’حسرت تعمیر‘ اردوزبان میں جھارکھنڈ کے پس منظر کو بیان کرنے والا پہلا ناول ہے۔ یہ موجودہ شکل میں پہلی مرتبہ’ادارۂ فروغ اردو‘، لکھنؤ سے 1960 میں شائع ہواتھا۔دوسری بار 1997 میں بہار اردو اکیڈمی نے احمد یوسف کے42صفحے کے بسیط مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ اس ناول کے سر ورق پر غالب کا یہ مصرعہ ’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘ درج ہے۔ یہ ناول سات ابواب پر مشتمل ہے۔پوری کہانی چھوٹا ناگپور( موجودہ جھارکھنڈ)کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔یہ دوہرے پلاٹ کا ناول ہے۔ ایک محبوب بوس(کہانی کار کا میزبان) کا اور دوسرا منظر کاجو کہانی کار کا شاگرد ہے۔ بوس جس کا اصل نام محبوب ہے ایک غریب کمپاؤنڈر کا بیٹا ہے جس کی شادی ایک اچھے خاندان کی دوشیزہ سے ہوتی ہے اور وہ اپنے گہنے بیچ کر بوس کو تجارت کے لیے پونجی مہیا کراتی ہے۔ بوس ایک کامیاب تاجر بن جاتا ہے اور اس علاقے میں بھی سائنسی نعمتیں اپنا فیض لٹانے لگتی ہے۔ وہ محبوب انڈسٹریز بناتا ہے ساتھ ہی محبوب نگر بساتا ہے اور اس کی شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔وہ یہیں نہیں رکتا بلکہ اس چھوٹا ناگپور کے علاقے کو بڑا صنعتی علاقہ بنانا چاہتا ہے۔لیکن اس کی ذاتی زندگی پر سکون نہیں ہے۔جب روپئے پیسے کی فراوانی ہو جاتی ہے تو اسے اپنی بیوی آؤٹ ڈیٹیڈ لگنے لگتی ہے اور وہ ایک ایسی بیوی چاہتا ہے جو اس کے ساتھ مالدار لوگوں کے درمیانُ اٹھ بیٹھ سکے۔اسی درمیان پروفیسر نجابت حسین کا ورُود اِس ناول میں ہوتا ہے جو چاہتا ہے کہ بوس کے عہدے کے حساب سے اس کی بیٹی فٹ آئے گی۔ میر گھوسی بھی اپنی لڑکی کا رشتہ چاہتا ہے، مجیب ؛سلمیٰ سوگیتی کارشتہ لاتا ہے تو عذرا بھی بوس کو رجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ان واقعات سے ناول نگار نے اس طرف توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب کسی کے پاس پیسہ آجائے تو چاہے کتنا ہی رذیل ہو، خاندانی پس منظر کچھ ہو، اخلاقیات میں بھی بد ترہو، اس کے باوجود سماج اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔بالآخر بوس دوسری شادی بھی کر لیتا ہے۔مگر نئی دلہن بھی اس کے درد کا مداوا نہیں بن سکتی ہے اور پھر مقدمے کا دور چلتا ہے یہاں تک کہ کورٹ اسے تیس ہزار روپئے نان و نفقہ کے طور پر نئی بیوی کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ دولت کی فراوانی نے محبوب کو تعیش پسند اور جام و مینا کاشیدائی بنا دیا ہے۔وہ اس نشے میں ایسا مخمور ہے کہ شاطر دوستوں کے غلط مشوروں کو بھی پہچاننے سے عاری ہو گیا ہے اور یہی غلط رویہ بوس کے کچھ بننے یا ہونے کی حسرت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ آخر کار مسلم لیگ نیشنل گارڈ کی معاونت کے الزام میں گرفتار ہوکر جیل چلا جاتا ہے۔ اس کے سارے عزائم دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہی عزائم و ارادے کا نامکمل ہونا حسرت تعمیر کا جواز بن جاتا ہے۔ بوس کی پہلی بیوی اس کی رہائی کے لیے تگ و دوکرتی ہے لیکن نئی دلہن کچھ نہیں کرتی بلکہ اس سے ملنے بھی نہیں آتی۔ڈاکٹر وہاب اشرفی کے مطابق یہاں اس ناول کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ یہ ناول ایک ساتھ دو پلاٹ کو لے کر چلتا ہے۔محبوب کی کہانی کے اختتام کے بعدمنظرکی کہانی کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔وہ اس طرح کہ منظر کو دل کے دورے پڑنے لگے تھے۔ لیکن وہ اپنی صحت کی طرف سے متردد نظر نہ آتا تھا۔ اسے فکر تھی تو سرکنڈی اور کالندی کے آدی باسی کسانوں کی۔وہ ان میں انقلاب کی لہر دیکھنا چاہتا تھا۔اسے آدیباسیوں کے تاریک مقدرکی فکر لاحق تھی۔تیسرے ہفتے منظرپر دورے کا شدید حملہ ہوتا ہے، دوسرے روز اس کی بیوی بھی پٹنہ پہنچ جاتی ہے اورتیسرے روز محبوبہ سلمیٰ سوگیتی بھی۔ سلمیٰ سوگیتی کے آنے کے چوتھے دن منظر کی بے قرار روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ناول نگار لکھتا ہے:
’’لیکن اس کی روح تشنہ تھی۔ اس کی بے قرار آنکھوں میں انسان کی ابدی تاریکی کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ تقدیر کو بدلنے کی تمنا، حسن کی تلاش، منزل کی جستجو۔‘‘13
کی حسرت لیے وہ داعیِ اجل کو لبیک کہہ دیتا ہے۔ ناول اس شعر پر ختم ہوتا ہے
وہ جو ہم رکھتے تھے اک حسرت تعمیر سو ہے
بوس محبوب اور منظر کے علاوہ اس ناول میں دیوان سنگھ،مسرور،مجیب،جمیل انور،سلمیٰ سوگیتی، عذرائے شانتی،شمشیر الدولہ،مسٹر گانگولی،کپتان شہباز وغیرہ کل 52کردار ہیں۔اس کے علاوہ کہانی کار خود ناول میں واحد متکلم کی صورت میں داخل ہے۔تقریباً تمام کردارزندگی اور کشش رکھتے ہیں۔ ان کردار وں میں بیسویں صدی کے مڈل کلاس فیملی کی جھلک نظر آتی ہے۔اختر اورینوی نے منظر پر زیادہ زور صرف کیا ہے اگرچہ منظر سے متعلق واقعات جاندار ہیں لیکن اسے محبوب کی حسرت کا جزو لا ینفک نہیں بنایا گیا ہے بلکہ منظر ایک الگ حسرت رکھتا ہے۔منظر ایک مثال پسند اوررومانی نوجوان ہے جو سلمیٰ سوگیتی سے پیار کرتا ہے اور آدیباسیوں کی تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔بوس محبوب حسرت لیے جیل چلا جاتا ہے اور منظر کی حسرت بھی پوری نہیں ہوتی۔اس ناول میں منظر نگاری اس قدر خوبصورت ہے کہ چھوٹا ناگپور اپنے تمام تر قدرتی مناظرکی رعنائیوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ منظر نگاری کے اعتبار سے یہ ناول بہت دنوں تک یاد کیا جاتا رہے گا۔
اختر اورینوی کا ایک اور ناول ’کارواں‘ کا تذکرہ ’ساغر نو‘پٹنہ کے’اختر اورینوی نمبر‘میں ’زیر طبع اور زیر تصنیف کتابیں‘ کے عنوان کے تحت آیا ہے۔تلاش بسیار کے بعد اب تک مجھے اس کے شائع ہونے کا ثبوت نہ مل سکا۔اگر وہ شائع ہونے سے رہ گیا ہے تو کوئی اسے حاصل کرکے شائع کرنے کا ذمہ داری لے لے تاکہ ان کی ناول نگاری کو اور بہتر ڈھنگ سے سمجھا جا سکے۔
اختر اورینوی کی ڈرامہ نگاری
سید محمد حسنین نے لکھا ہے کہ ’’انھوں(اختر اورینوی) نے صرف ایک ہی ڈراما لکھا ہے۔‘‘14 اور مشہور نقاد کلیم الدین احمد نے اختر اورینوی کے پہلے افسانوی مجموعہ ’منظر و پس منظر‘ پر6؍صفحات کا ’پیش لفظ‘ کے عنوان سے افسانے کے فن پر بحث کرتے ہوئے اختراورینوی کے بارے میں لکھا کہ ’’انھوں نے دو ڈرامے بھی لکھے ہیں ‘‘15 اسی کو مفروضہ مان کر میں نے تلاش شروع کی تواختر اورینوی کے دو ڈرامے ایک ’شہنشاہ حبشہ‘ اور دوسرا ’زوال کینٹین افراد تمثیل‘ ملے۔ ’زوال کینٹین افراد تمثیل‘افسانوی مجموعہ ’انار کلی اور بھول بھلیاں‘ (1944) میں شامل ہے۔کلیم الدین احمد کے مذکورہ قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’زوال کینٹین افراد تمثیل‘پہلے افسانوی مجموعے ’منظر و پس منظر‘ کے شائع ہونے سے قبل ہی شائع ہو چکا تھا۔ یہ مختصر ڈارامہ 24؍صفحات اور تین مناظر پر مشتمل ہے۔فاہیان ایک محب وطن نوجوان ہے، ای آیا؛فاہیان کی محبوبہ ہے، کواوچانگ؛فاہیان اور ای آیا کا دوست ہے، چن؛ای آیا کا والدہے، ای کوفو ؛ای آیا کی ماں،اور میچِن؛چِن کی خادمہ ہے۔فاہیان اور ای آیااس ڈرامے کے سب سے اہم کردار ہیں۔یہ ڈرامہ چین و جاپان کی دوسری جنگ (1937-1945)کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ فاہیان ایک محب وطن نوجوان ہے جوجاپان کے مقابلۂ جنگ میں اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور چینی فوجیوں کے ساتھ ایک رضاکارگروہ ’حزب دفاع قومی‘ کاسر گرم رکن ہے اور اپنے ملک کی خاطر سرنگ کھود کر اس میں بارود بچھاتا ہے تاکہ جاپانی سپاہیوں کو روکا جا سکے۔ ای آیا گاندھی جی کے اہنسا کے فلسفے سے بہت متاثر ہے اور جنگ کو ٹالنے کے لیے ستیہ گرہ پر اکساتی ہے۔ لیکن جب جاپانی فوجیوں کے ہاتھوں فاہیان گرفتار ہو جاتا ہے اور فوجی افسر کے لاکھ پوچھنے پر بھی فاہیان خفیہ خبریں دینے سے انکار کرتا ہے تو افسر اسے ہلاک کرنے کا فیصلہ سناتا ہے۔ موقع پر ای آیا بھی گرفتار ہو جاتی ہے دونوں یک جا کیے جاتے ہیں،اتنے میں ای آیا:
’’بجلی کی سرعت کے ساتھ سپاہیوں کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک سپاہی کی رائفل چھین لیتی ہے اور افسر اور سپاہیوں پر گولیاں چلاتی ہے۔ افسر بچ جاتا ہے۔ دو سپاہی مجروح ہو کر گرتے ہیں۔‘‘16
لیکن دوبارہ ای آیا گرفتارکر لی جاتی ہے اور افسر کے حکم کے مطابق دونوں کو گولیوں سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہاں ای آیا کا گولی چلانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب جان پر آبنتی ہے توبڑے سے بڑا اہنسا کا پجاری بھی ہنسا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
’شہنشاہ حبشہ‘ تاریخی لحاظ کا ایک مختصر ڈرامہ ہے جورانچی کے اٹکی سینے ٹوریم میں قیام کے دوران (1934-35)لکھا گیا تھا لیکن اس کی اشاعت 1937 میں عمل میں آئی۔اس ڈرامہ میں پانچ ایکٹ اور بارہ منازل ہیں۔ پہلے ایکٹ میں تین منازل، دوسرے،تیسرے اور چوتھے ایکٹ میں دو۔دو منازل اور پانچویں ایکٹ میں تین منازل ہیں۔شہنشاہ حبشہ، موسولینی، شہزادی فلورا اور اس کا عاشق ڈیڈشا سماچ اس ڈرامے کے اہم کردار ہیں۔ موسولینی کا افریقہ کے ایک پسماندہ ملک کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ، شہزادی فلورا اور ڈیڈشا سماچ کی ملاقاتیں اور اظہار محبت، موسولینی کی حبشہ پر بمباری،شہنشاہ حبشہ کی لاچاریاں، اس کا اقوام متحدہ سے فریاد اور نامرادیاں، ڈیڈ شا سماچ کا میدان جنگ میں گولی کا نشانہ بننا اور شہزادی فلورا کے رو بہ رو دم توڑنا گویا شہزادی اور ڈیڈشا سماچ کی پوشیدہ ملاقات کے علاوہ پورے ڈرامے پر المیہ اور حزنیہ فضا سایہ فگن ہے۔اختر اورینوی نے وحدت تاثر،کردار کے داخلی اور خارجی تصادم و کشمکش اور جاندار مکالمات کے ذریعے اس ڈرامے کو بلند مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
اختر اورینوی کی صحافتی خدمات
اختر اورینوی کی صحافتی سرگرمیاں بھی رہی ہیں۔ وہ مختلف اخبارات و رسائل میں مسلسل لکھتے رہے۔ انھوں نے چند آرٹیکلز تحریر کیے جو 1941 سے 1949 تک رسالہ ’معاصر‘ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔پروفیسر کلیم الدین احمد کے والد عظیم الدین احمد جب شعبۂ فارسی،پٹنہ یونیورسٹی کے سربرا ہ تھے تب انھوں نے ایک ادبی انجمن بنائی تھی جس کا نام ’دائرۂ ادب‘ تھا۔ اس ادارے سے وہ لوگ وابستہ تھے جو محب اردو تھے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے رہا ہو۔اس ادارے کی نشست ہر ماہ ہوتی تھی اور اس میں دو مقالے پڑھے جاتے تھے پھر یہی مقالے ’معاصر‘ میں شائع ہوتے تھے۔جس کے تحت اختر اورینوی کے مقالے بھی شائع ہوئے۔ ’معاصر‘1937 میں ایک ماہنامہ کی شکل میں جاری ہوا جو بعد میں دو ماہی ہوگیا تھا اور 1983 تک جاری رہا۔
شکیلہ اختر نے اپنے شوہر کی صحافتی تحریروں کو ’گزارش‘ کے نام سے 1982 میں شائع کرایا جس میں اختر اورینوی کے 32؍علمی و ادبی مقالے شامل ہیں۔ان مقالات و مضامین میں توازن اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جوان کی فکری اور ادبی صلاحیتوں کی عکاس اور سماجی اور ادبی شعور کی ترجمان ہیں۔
حواشی
1 مونوگراف’اختر اورینوی‘از:سید محمد حسنین،ص:68،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،2004
2 ایضاً،ص:70
[*] قیمت اور صفحات اس لیے درج کیے جا رہے ہیں تاکہ کوئی صاحب نظر اس سے سنہ اشاعت کا اندازہ لگا لے
3 ’منظر و پس منظر‘از:اختر اورینوی،ص:12، مکتبہ اردو، لاہور،1942
4 ’اختر اورینوی کے افسانے‘ مرتبہ:عبد المغنی،ص:32،بہار اردو اکادمی،1977
5 ’منظر و پس منظر‘از:اختر اورینوی،ص:12، مکتبہ اردو، لاہور،1942
6 ’مقالات قاضی عبد الودود‘،مرتبہ:کلیم الدین احمد،جلد اوّل،ص:60،بہار اردو اکادمی، پٹنہ،1977
7 خلیل الرحمن اعظمی،’مہر نیم روز‘کراچی،’اختر اورینوی نمبر‘،ص:228
8 عبد القادر سروری،’مہر نیم روز‘کا’اختر اورینوی نمبر‘،ص:233،کراچی،1977
9 ماہنامہ’ساغر نو‘کا ’اختر اورینوی نمبر‘ص:14،پٹنہ،جنوری1965
10 ماہنامہ’مہر نیم روز‘ کا’اختر اورینوی نمبر‘،ص:233،کراچی،1977
11 ایضاً،ص:234
12 مونوگراف’اختر اورینوی‘از:سید محمد حسنین،ص:80،ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی،2004
13 ’حسرت تعمیر‘از:اختر اورینوی،ص:280،بہار اردو اکادمی،1997
14 مونوگراف’اختر اورینوی‘از:سید محمد حسنین،ص:82، ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی2004
15 ’منظر وپس منظر‘اختر اورینوی،ص:12،مکتبہ اردو، لاہور1942
16 ’انار کلی اور بھول بھلیاں‘از :اختر اورینوی،ص:196، مرکز ادب،مہندرو،پٹنہ
Md. Zakir Hussain
Razvi Store, Qabristan Road, Khirgaon
Hazaribagh- 825301 (Jharkhand)
Email: zrazvi@rediffmail[dot]com
Mob No: 09955171661
سہ ماہی فکر و تحقیق شمارہ جنوری تا مارچ 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں