اردو فکشن میں عالمی مسائل
شہناز رحمٰن
ادیب اور فنکار کی نظر اگرچہ پوری دنیا کے معاملات و مسائل پر ہوتی ہے لیکن جس معاشرے میں وہ زندگی گزارتا ہے اس کی تحریروں پر اس معاشرے کا عکس غالب آنا فطری ہے۔چونکہ فکشن کا بیانیہ صحا فتی بیان سے قطعی مختلف ہو تا ہے ا س لیے اردو فکشن میں قومی اور علاقائی سطح پر ہونے والے مسائل کو عالمی مسائل سے علیحدہ کر کے دیکھنے کی کوشش فکشن شعریات کے بر خلاف ہو سکتی ہے۔ کیونکہ فکشن میں بعض ایسے مسائل بھی پیش کیے جاتے ہیں جو کسی ایک خطے یا علاقے سے ہوتے ہیں لیکن اس کی شدت میں تھوڑی کمی یا بیشی کر دی جائے تو عالمی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔مثلاً غربت ہندوستانی معاشرے کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مبنی دو چارافسانے ہر افسانہ نگار کے یہاں مل جائیں گے۔لیکن اگر یہ کہا جائے کہ غربت صرف ہندوستان یا ایشیائی ممالک کا مسئلہ ہے تو یہ بات ناقابل قبول ہوگی کیوں کہ اس دنیا کا ہر خطہ اپنی اپنی سطح پر اقتصادی کشمکش سے دوچار ہے۔ اردو فکشن کے موضوعاتی تنوع کے باوجود غور کرنا ضروری ہے کہ عالمی مسائل کی نوعیت کیا ہے۔
’اردو دنیا ‘جنوری 2018 کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ :
’’ادب ہی کی وجہ سے انسان کے سینے میں سارے جہاں کا درد پیدا ہوتا ہے اور یہی درد کا رشتہ ہے جو ہمیں قوم اور ملک سے ماورا پوری انسانی وحدت اور جمعیت سے جوڑتا ہے۔اسی لیے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم جن مباحث میں الجھے ہوئے ہیں کیا ان سے معاشرے کا کوئی فائدہ ہے... آج انسانی زندگی سے جو مسائل جڑے ہوئے ہیں ان میں غربت، بھکمری، تشدد، ہجرت، پناہ گزینی منطقائی تنازعے،مہلک امراض،نیو کلیائی ہتھیار، بچہ مزدوری، غذائیت کی کمی، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلی، کثافت، جنگی جرائم، نسلی امتیاز اور مذہبی و ثقافتی تصادم بہت اہم ہیں۔ ان مسائل کی تفہیم کی کئی سطحیں ہیں۔جہاں سماجی و سیا سی سطح پر ان مسائل پر غور و فکر کیا جاتاہے۔وہیں حساس اور باشعور فنکار بھی ادبی و ثقافتی سطح پر ان مسائل کی تفہیم کی کوشش کرتے رہے ہیں۔عالمی ادبیات میں بیشتر مسائل زیر بحث رہے ہیں اور ان کے تعلق سے مضامین، افسانے، ناول لکھے جاتے رہے ہیں۔ ہمارے بیشتر ادبا انسانی ہمدردی کے احساس کے تحت ان مسائل پر نہ صرف غور کرتے رہے ہیں بلکہ اس معاشرے کی بیداری کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے ہیں مغرب میں بہت سے ناول اور افسانے انہی مسائل پر لکھے گئے ہیں... اردو زبان و ادب میں بھی انسانی حیات و کائنات کے بنیادی مسائل پر ما ضی میں بھی گفتگو ہوتی رہی ہے اور حال میں بھی مکالمہ جاری ہے۔اردو کا ایک عالمی تناظر ہے،اردو کا فنکار عالمی شعور رکھتا ہے۔غربت، بھکمری،تشدد ہجرت اور نسلی امتیازات مذہبی تصادم وغیرہ کے تعلق سے بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں اور اب بھی لکھے جاتے ہیں۔‘‘(اردو دنیا،جنوری 2018)
اداریہ کے یہ جملے نہ صرف اردو ادب کی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے والے قارئین اور معترضین کو لمحہ فکریہ عطا کرتے ہیں بلکہ ناقدین کو بھی تلاش و جستجو کی راہ پر گامزن کرتے ہیں تاکہ ان فن پاروں کو منظر عام پر لا یا جا سکے جن میں عالمی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔غور کیا جائے تو اردو شعر و ادب کی کوئی صنف ایسی نہیں جو عالمی مسائل کا احاطہ نہ کرتی ہو خواہ وہ شعری اصناف ہوں یا نثری۔ قدیم ادبیات پر نظر ڈالیں تو بڑی حد تک وہاں بھی ایسے مواد کی دریافت ہو سکتی ہے جو اس عہد کے بقدر عالمی مسائل سے تعلق رکھتاہو۔اردو شاعری خصوصاً اردو کی نئی نظم میں شروع سے لے کر اب تک پوری دنیا میں رونما ہونے والے مسائل پر مختلف انداز سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے لیکن نثری اصناف یعنی خود نوشت،آپ بیتی، سفرنامے، رپوتاژ اور صحافتی تحریروں میں تجربات کے بیان کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے اردو کے کئی سفرنامے ایسے ہیں جن کے ذریعہ مغربی ممالک کے سماجی و معاشرتی احوال، ان کے مسائل و مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔اس ضمن میں یوسف کمبل پوش کا سفرنامہ ’عجائبات فرنگ ‘ منشی محبوب عالم کا ’سفر نامہ یوروپ‘قاضی عبد الغفار کا ’ نقش فرنگ ‘ احتشام حسین کا ’ساحل اور سمندر‘ ثریا حسین کا ’پیرس و پارس‘ رام لال کا ’خواب خواب سفر ‘ امرتا پریتم کی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ ‘ اور حمیدہ سالم کی یادیں ’شورش دوراں ‘قابل ذکر ہیں۔ان سفر ناموں اور آپ بیتیوں میں متعدد مقامات پر ایسے مشاہدات و تجربات بیان کیے گئے ہیں جن سے عام انسانی مسائل کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔
موضوع خواہ کوئی بھی ہو،ہر موضوع کے پس پشت انسان دوستی،امن و امان اور مثبت فکر کار فرما ہوتی ہے۔ اسی لیے زندگی کے حقیقی احوال کا احاطہ کرنے والی اصناف میں مصنف اور قاری کے رد عمل کی گنجائش محدود ہوتی ہے جبکہ فکشن میں واقعات،کردار اور مقامات تصوراتی اور تخیلاتی ہوتے ہیں اسی لیے اس کے واقعات آفاقی پہلو رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ فکشن میں بیان کردہ مسائل میں غیر جانب داری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ فکشن ہی ہے جو ابتدا سے لے کر اب تک مختلف مراحل سے گزرا اور اس پر مختلف تحریکوں اور رجحانات کے لیبل لگائے گئے مگر اس کے موضوعات انسان اور انسانی مسائل ہی رہے۔ انسانی مسائل کے اس بیان میں گرچہ یہ تفریق نہیں رکھی گئی کہ یہ کسی فرد کا مسئلہ ہے یا تمام عالم انسانی کا،کیونکہ فکشن کا تخیلاتی بیان اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر بات دوٹوک انداز میں بیان کر دی جائے۔دراصل یہ بات بڑی حد تک فن پارے کے اسلوب، انداز بیان اور متن میں پوشیدہ نکات اور قاری کے عندیے سے طے ہوتی ہے۔
اردو فکشن میں عالمی مسائل کی کا رفرمائی شروع سے ہی رہی ہے۔مارکسزم،سوشلزم،انقلاب روس،کوریا کی جنگ، ہیرو شیما کی تباہی،عالمی جنگیں پوری دنیا کے ممالک پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوئی تھیں۔ان اثرات نے یوروپ کی مادہ پرست اقوام کو نئے سر ے سے سوچنے پر مجبورکر دیا تھا اس لیے بعض جگہ اخلاقی انقلاب کی ضرورت محسوس کی گئی اور بعض مقامات پر روحانیت کے سلسلے میں شک و تردد کی فضا مزید گہری ہوگئی لیکن ہندوستانی عوام پر اس جنگ کی وجہ سے سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔ ادیب و فنکار پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل کو شوکت صدیقی نے ناول ’کمین گاہ ‘،قرۃ العین حیدر نے ’آگ کا دریا ‘ میں بیان کیا ہے،ان ناولوں کا محل وقوع اگر چہ ہندوستان ہے مگرجس کشمکش کا بیان ان واقعات میں ہوا ہے اس سے دنیا کا ہر شخص دو چار تھا۔ اس وقت اقتصادی بدحالی بیشتر ممالک کا عام مسئلہ تھی جس کا اظہار اردو فکشن میں کثرت سے ہوا۔انتظار حسین کا ناول ’بستی‘انسانی ایجادات کی تمدنی تاریخ سے شروع ہوکر پاکستان کے قیام تک رونما ہونے والے حالات کا احاطہ کرتا ہے۔جس میں 1971 کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔عبد اللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں ‘ ایک مخصوص انداز میں عالمی مسئلے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ مصنف نے ماضی کے پس منظر میں حال کے واقعات و مسائل کو دور رس بنانے میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔ ورنہ اخباروں کے ذریعہ ہر روز کئی ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جو تواتر کے ساتھ پوری دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں پیش آتے ہی ہیں جن سے وقتی اذیت تو ہوتی ہے لیکن پھروہ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔مگرعبد اللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘، انتظار حسین کے ناول ’آگے سمندر ہے‘شوکت صدیقی کے ’جانگلوس‘ جیسے واقعات ذہن پر مرتسم ہو جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مضطرب کرتے ہیں۔ ’جانگلوس ‘ میں شوکت صدیقی نےNight of the great suspence اور قیصر تمکین نے افسانہ ’اندھیری روشنی‘ میںMystery party کے حوالے سے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس وقت پوری دنیا میں عام ہو چکا ہے۔ ’لطف اندوزی ‘کے نام پر ثروت مندگھرانوں کے مرد اور عورتیں پولینیسین کلب کی راہ لیتی ہیں اور غربت و تنگدستی سے جوجھ رہی عورتیں کال گرل اور One night stand جیسے عوامل میں ملوث ہو جاتی ہیں۔اس وقت چھوٹے چھوٹے شہروں میں کال گرلزبآسانی دستیاب ہیں۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تنگدستی اور معاشی کشمکش اگر صرف ایشیائی ممالک کے مسائل ہوتے تو یوروپ میں طوائفوں کے کارخانے کیوں کر چل رہے ہوتے۔
جنگو ں کے تناظر میں لکھے گئے ناول اور افسانوں میں غربت، بھوک، دربدری، عزت و انا کی قربانی، تشدد، ہجرت جیسے مو ضوعات کثرت سے سامنے آئے۔کرشن چندر نے ’ٹوٹے ہوئے تارے‘، ’ ڈرائیور کا خط ‘ اور میں انتظار کروں گا،احمد ندیم قاسمی نے ’ہیروشیما سے پہلے ہیروشیما کے بعد ‘ ’ بابا نور ‘اور سپاہی بیٹا، رضیہ سجاد ظہیر نے امن عالم سے متعلق ’نیلی گھڑی ‘جیسے افسانے تحریر کیے۔ ایٹمی جنگوں کے پس منظر میں حیدر قریشی کے افسانے ’حوا کی تلاش ،‘ ’گلاب شہزادے کی کہانی ‘ اور ’کاکروچ ‘ اہم ہیں۔انھوں نے لکھا ہے کہ :
’’1980 کے وسط میں میرا ذہن بار بار ایٹمی جنگ کے امکانی خطرہ کی طرف جاتا تھا۔بعض آسمانی صحیفوں اور مذہبی کتب میں مجھے ایک بڑی تباہی کی خبریں پڑھنے کو ملیں تو میرے اندر کی بے چینی نے مجھ سے کہانی ’حوا کی تلاش ‘لکھوائی۔اس میں ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کو آسمانی صحیفوں اور مذہبی کتب کی روشنی میں دیکھنے کی کاوش تھی۔میری یہ خواہش کہ میں رہوں نہ رہوں،نسل آدم اس دھرتی پر آباد رہنی چاہیے،اس کہانی میں کہانی تقاضے کے مطابق آئی تھی۔اس میں ایک ہلکا سا سیاسی اشارہ بھی تھا۔ عربوں کی تیل کی دولت کی لالچ میں بڑی طاقتوں کا ٹکراؤ اور دونوں کی تباہی۔‘‘
(ایٹمی افسانے،حیدر قریشی،معیار پبلی کیشنز دہلی 1999، ص4)
کشمیری لال ذاکر نے ایڈز جیسی مہلک بیماری پر ناول ’آخری ادھیائے ‘ (2008)لکھا۔جس سے پوری دنیا میں سیکڑوں افراد دو چار ہیں۔انھوں نے اس بیماری کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والے اخلاقی زوال کی صورتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ماحولیات سے متعلق نیر مسعود کا افسانہ ’مارگیر ‘قابل ذکر ہے۔ اس میں انھوں نے درختوں کو کاٹے جانے اور اس کے فوائد سے محروم ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مصنوعی زرخیزی اور خوبصورتی کے لیے پوری دنیا میں جنگلات کو ختم کرنے کی ایک مہم چلا ئی گئی جس کی وجہ سے جڑی بوٹیوں سے تیار ہونے والی دواؤں کا تصور جاتا رہا۔ افسانہ نگار نے یہ احساس دلایا ہے کہ قدرتی چیزوں کے خاتمہ اور مصنوعی اشیا کی بہتات کی وجہ سے ماحولیاتی توازن درہم برہم ہو تا چلا جا رہا ہے اور اس بہاؤ کی زد سے انسانی رشتے ناطے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جب بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیوں نے جنگلات ختم کیے، انسانوں نے اپنی سہولت کے لیے پل، باندھ، کا لونیاں فلک بوس عمارتیں تعمیر کرا لیں،کمپنیوں سے نکلنے والے دھوئیں اور زہریلی گیسوں نے قدرتی ہر یالی کو جھلسا کر رکھ دیااس وقت تمام مما لک کے گرم علاقوں میں گر می سے بلبلا رہے لوگوں نے آواز بلند کی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے محکمے قائم کیے گئے۔ اس پیشہ سے وابستہ کردار’باگھ ‘(عبد اللہ حسین )’خزاں کے پھول ‘(قیصر تمکین )وغیرہ میں موجود ہیں۔عبدا للہ حسین کا افسانہ ’فریب ‘اگرچہ ایک چھوٹی سی بستی لو ہاراں میں پیش آنے والے واقعہ پر مبنی ہے مگر اس کے پس پشت پوری دنیا میں ہونے والی ماحولیاتی تخریب کاری کا منظر سامنے آجاتا ہے کہ کس طرح اہل زر کروڑوں عوام کی پروا کیے بغیر صرف اپنے مفاد کے لیے پانی میں زہریلے کیمیکل شامل کرنے پر ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور پھر اپنا کاروبار چمکانے کے لیے عوام کو مزید دھوکہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف انسان بلکہ مویشی اور فصلیں تک تباہ و برباد اور بستیاں ویران و بنجر ہو جاتی ہیں۔
سمندری ساحلو ں پر Mangrove forest ناپید ہوتے جارہے ہیں،سونامی کی تباہیوں کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ Mangrove جھاڑیاں جو پانی روکنے کے لیے قدرتی ڈھال بنتی تھیں وہ انسانی ہوس کی نذر ہوگئیں۔ ڈاکٹر نجمہ محمود کے افسانے ’جنگل کی آواز‘ میں اس مسئلہ کے خلاف احتجاجی آواز سامنے آتی ہے۔مذکورہ متن میں استعمال کردہ لفظیات کے جمالیاتی پہلوؤں، تہہ در تہہ معنوی امکانات اور فنی محاسن کے علاوہ اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو اس متن کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اپنے اس افسانے کے ذریعہ مصنفہ نے تقریباً تمام عالمی مسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔میکانکی انداز میں انھوں نے مسائل کی فہرست سازی نہیں کی ہے بلکہ ایسا منظر تشکیل دیا ہے جس کی تہہ میں ان مسائل کے اسباب و علل بھی پوشیدہ ہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ یہ کہ افسانے کا پورا ماحول قدرتی مناظر سے اس طرح مزین کیا گیا ہے کہ راوی کے ساتھ قاری پہ سحر آگیں کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ صاف اورتازہ ہوا جس طرح مختلف بیماریو ں کا علاج ہے اسی طرح روح کی سرشاری اور ذات کے عرفان کا ذریعہ بھی۔فلیٹ اور بلند و بالا عمارت کی محبوس گلیوں کی طرح انسانی ذہن جس قدر تنگ ہوتا جا رہا ہے اس کا رمزیہ اظہار بھی اس افسانے میں موجود ہے :
’’یہ صحیح معنوں میں آزاد زندگی ہے۔پہاڑی چشمہ کی طرح آزاد۔۔آزاد نفرتوں سے،منافقتوں،احسان فراموشیوں،خود غرضیوں اور مصلحت پسندیوں سے،آزاد مجبوریوں سے،دھوکے اور فریب سے،یہاں مخلص اور معصوم انسانوں کو استعمال نہیں کیا جاتا،نہ ہی ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔اچھے اور نیک انسان یہاں پھول کی طرح کھلتے اور کھلتے ہیں خوشبوؤ ں سے جنگل کی یہ کائنات مہکتی ہے۔‘‘
اس نے سرگوشی میں سوال کیا۔’’جنگل جب اتنا زندگی بخش ہے تو درختوں کو لہو لہان کیوں کیا جا رہا ہے؟ فطری ماحول کی تباہ کاریا ں اور الجیلی نے کہا تھا ’’پتہ پتہ پر خدا کا نام ہے ‘‘۔کیا ہمیں جنگلوں کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ہم انسان بن سکیں ریزہ ریزہ ہونے کے بجائے مکمل انسان ؟ ‘‘
(جنگل کی آواز،نجمہ محمود، وژن پبلی کیشنز،2003، ص214)
اس افسانے کے ذریعہ مصنفہ نے یہ باور کرایا ہے کہ شجر، حجر، معدنیات، ہوا، پانی، حیوانات، چرند پرند اور خود انسان اس ماحول کا حصہ ہے۔ ان تمام مخلوقات کا فطری انداز میں ہونے اور اپنے مدار میں روبہ عمل رہنے سے کائنات کا توازن بہتر رہ سکتا ہے۔لیکن بڑھتی ہوئی آبادی سائنسی انکشافات کے غلط استعمال اورقدرتی مشیت میں انسانی ہوس کی در اندازی نے سارا نظام حیات بدل کر رکھ دیا۔ اسی وجہ سے راوی کی خواہش ہے کہ انسانوں کو جنگل کی سمت بلا لیا جائے۔کیوں کہ جنگل کے پر سکون اور فسوں خیز ماحول میں بھی راوی کی یادوں سے وہ مناظر محو نہیں ہو تے جن کے سبب پورا عالم تباہی کے دہانے پہ آگیا ہے۔اس سلسلے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں :
’’دنیا شعلے اگل رہی ہے...معصوم انسانوں کو جنگل کی طرف بلا لو... اس دہشت ناک دنیا کے درندے ان متنفسوں پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔خطا جن کی فقط یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ذات کو بچانے کی سعی کی ہے۔ایک دوسرا سیلاب عنقریب آنے والا ہے اور کشتی تیار ہے نسل انساں کے تحفظ کے لیے۔ہم آہنگی سے خائف،عشق سے متنفر،بر باد شدہ دنیا ہماری جلا وطنی کی سبب جو بنی۔درندہ صفت انسان نما شیطانوں کو سرِ دار کوئی نہ چڑھا سکا جب کہ ہم جیسوں کو دار ورسن کی آزمائش سے گزرنا... زہر حیات پینا پڑا۔خون کی ندیاں بہتی رہیں،دجلہ کا پانی سرخ ہوتا رہا،بارود کی بو سے فضائیں مسموم ہوتی رہیں،عزتیں نیلام ہوتی رہیں،معصوموں کی آہیں بلند ہوتی رہیں اور وہ دنیا محض تماشائی بنی رہی۔‘‘ (ایضاً، ص 215)
نجمہ محمود نے وقت اور مقام کے تعین کے بغیر ان تمام مسائل کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو بر سہا برس سے انسان کو درپیش رہے ہیں اوراس وقت بھی اخبار کی سرخیوں میں ہیں۔دوسرے یہ کہ اس افسانے سے ہریالی، زرخیزی، آبشار، جھرنے اور دوسری قدرتی نعمتوں کے ساتھ پانی کے حیات بخش ہو نے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ پانی کا مسئلہ صرف ہندوستان ہی نہیں ایشیا، افریقہ یوروپ سمیت پوری دنیامیں ناقابل تصور حد تک سنگین ہوچکا ہے۔ بے شمار علاقے آلودہ پانی پینے پہ مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئی پانی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ زیرزمین پانی کی صورت حال یہ ہے کہ ٹیوب ویل لگوانے کے لیے ہزار ہزار فٹ کھدائی کے بعد پینے کے قابل پانی دستیاب ہو رہا ہے۔جھیلیں اور تالاب سوکھ رہے ہیں اور جو باقی ہیں ان کا پانی اتنا گدلا اور آلودہ ہو چکا ہے کہ جانور بھی نہ پی سکیں۔اردو افسانے میں اس مسئلہ پر کثرت سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا افسانہ ’پانی اور پیاس‘، اختر آزاد کا افسانہ ’پانی‘، صادقہ نواب سحر کا افسانہ ’میٹر گرتا ہے ‘ پانی کی قلت سے متعلق ہیں۔اسلم جمشید پوری کا افسانہ ’پانی اور پیاس ‘پانی کی طلب، شدت اورمستقبل میں پانی کی کمی پر سامنے آنے والی اذیت ناک صورتحال کی پیشگوئی سے عبارت معلوم ہوتا ہے۔اسلم جمشید پوری کے اس افسانے سے واضح ہوتا ہے کہ پانی کا نہ ہونا ایک بڑی آفت کی آمد کا اشاریہ ہے۔آنے والے دنوں میں پانی کے تعلق سے جن خدشات کا ذکر کیا جارہا ہے وہ سارے عناصر اس کی تہہ میں موجود ہیں۔ اس ضمن میں قمر صدیقی کی مرتب کردہ کتاب ’پانی‘بھی اہم ہے جس میں پانی کے مسائل سے متعلق مختلف نوعیت کی تحریریں جمع کی گئی ہیں اور خورشید حیات کا افسانہ ’پہاڑ،ندی،عورت ‘ علامتی پیرایے میں اس مسئلہ کا اظہار ہے۔ ان تحریروں سے ذرا مختلف مظہر الزماں خاں کا افسانہ ’بستی‘ اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔بستی میں ایک اجنبی شخص کسی مخصوص ضرورت کے تحت تمام گھروں کے نام اور تعداد معلوم کرنے پہ متعین کیا گیا ہے لیکن کوئی بھی صاحب مکان نام بتا نا تو دور پیاس بجھانے کے لیے پانی دینے کا بھی روادار نہیں ہے۔چند سطریں ملاحظہ ہوں۔
’’آپ سے ایک گزارش ہے کہ اگر ایک گلاس پانی مل جائے تو مہربانی ہوگی۔بڑی پیاس لگی ہے۔‘‘
پانی ! ’’دروازے کے پیچھے سے عورت نے حیرت انگیز آواز میں کہا۔۔‘‘ آ پ کس پانی کی بات کر رہے ہیں یہاں کسی بھی گھر میں پانی موجود نہیں ہے کہ سب کے سب ہر طرح کے پیاسے ہیں اور یہ پیاس روز بروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور اس پرچلچلاتی ہوئی دھوپ ڈال دی گئی ہے۔‘ ‘
(بستی، مظہر الزماں خاں،مطبوعہ امروز شمارہ4،ایڈیٹر ابولکلام قاسمی، علی گڑھ 2017،ص169)
مذکورہ افسانے میں پانی سے محروم رکھنے کا ظاہری سبب تو پانی کی قلت ہے لیکن اس کے بعد اگلا ہی جملہ پورے اس مکالمے کا پس منظر تبدیل کر دیتا ہے۔جس سے سماج کی روحانی تشنگی اور محرومی کا اشارہ ملتا ہے۔ افسانہ بنیادی طور پر شناخت کے مسئلے پر مبنی ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں میں ’شناخت ‘ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس دور میں اخلاقی زوال نے رشتے ناطے کی شناخت ختم کر دی ہے۔ لوگ سماجی برتری اور کمتری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بے گانہ ہو چکے ہیں۔شہری زندگی میں ایک ہی عمارت کے مکین ہونے کے باوجود ایک شخص کا دوسرے سے لاتعلق ہونایا ایک ہی شہر کے بیشتر افرادکا ایک دوسرے سے ناواقف ہونے کا المیہ مصروفیت اور صارفی کلچر کی دین ہے۔ جرائم پیشہ افرادکی شناخت نہ ہونے کے باعث بے قصور انسانوں کی گرفتاری کا واقعہ ہر دوسرے دن رونما ہونے کی وجہ سے انسان اپنے آپ میں محدود ہوتا جا رہا ہے۔اس طرح شناخت کے یہ تمام مسائل اس افسانے کے متن کا حصہ نظر آتے ہیں۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ میرا اور میرے گھر والوں کا نام کیا ہے۔‘‘... اور ہاں برائے مہر بانی آپ اس گھر پہ کوئی نشان وغیرہ مت لگا ئیے کیوں کہ اب تک اس بستی کے ہر گھر پہ اتنے نشان لگا ئے جا چکے ہیں۔اتنے نشان لگا ئے جا چکے ہیں کہ اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے۔پہلے ہی کیا کم نشانات موجود تھے جو اور لگائیں جائیں اور نشانات لگا لگا کر ہمیں نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے کہ ہر گھر سے کوئی نہ کوئی غائب ہو جاتا ہے۔‘‘(ایضاً، ص 168)
مظہرالزماں خاں نے اس افسانے میں اختصار کے ساتھ کئی اہم مسائل کی طرف اشارے کر دیا ہے۔اس اجمال کی تفصیل دوسرے فکشن نگاروں کے یہاں قدرے وسیع تناظر میں موجودہے۔عبدا لصمد کے ناول ’دھمک‘ کی پوری فضا سیاسی ہے جس میں سیاست دانوں کی عیاری، سماجی کارکنوں کی مصلحت اندیشی اور فرضی انکاؤ نٹر وغیرہ جیسے حقائق موجودہ دور کی کشمکش کا خاکہ سامنے لاتے ہیں۔ مال و زر کی جنگ میں ہر روز پوری دنیا میں مختلف نوع کے بے شمار حادثات،بم دھماکے اورسازشی قتل کی خبریں دیکھ کر انسان اپنا ذہنی توازن کھوتا جا رہا ہے۔ رضوان احمد کے افسانے ’’گیس چیمبر ‘‘میں ایک ایسے ہی شخص کا واقعہ ہے جس کے دل و دماغ پہ دہشت ناک فضا کے اثرات اپنے نقوش ثبت کر چکے ہیں اور وہ اس طرح کے احساسات سے دو چار رہتا ہے :
’’آنکھیں جل رہی تھیں اور سانس سینے میں گھٹ رہی تھی۔دم گھٹ رہا تھا۔ساری جان سمٹ کر آنکھوں میں آگئی تھی۔میری نظروں کے سامنے موت ناچ رہی تھی.... زہریلی گیس کی گھٹن سے سڑتی ہو ئی سیکڑوں لاشیں...
ٹرک سے کچل کر خون سے لتھڑی ہوئی لاش /قطار در قطار لاشیں۔گرتی ہوئی۔مگر سب لوگ ان کی جانب سے بے توجہ اور ان لاشوں کے گرد منڈلاتے ہوئے آدم خور لالچی گدھ۔
اپنی باری کے انتظار میں کھڑی ہوئی لاشیں... زہریلی گیس میرے پھپیھڑوں کو چھلنی کر رہی ہے۔ اب میں مرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہاہوں۔اس لیے کہ جینے سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے۔‘‘
(کن فیکون،رضوان احمد،تخلیق کار پبلشرز دہلی 1997،ص36)
جنگلات جو بارش برسانے،زمینی تخریب کاری کو روکنے،آکسیجن کی مقدار متعین کرنے،فضائی توازن برقرار رکھنے کے ساتھ جانوروں کا مسکن ہوا کرتے تھے، مفاد پرست انسانو ں نے ا ن سے رہنے کے ٹھکانے چھین لیے۔جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ بے شمار جانوروں کی نسلیں معدوم ہو گئیں۔ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں جانور ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔صرف نمونے کے طور پر انھیں عجائب گھروں میں قید کر کے رکھا جا رہا ہے۔ عاطف علیم کا ناول ’مشک پوری کی ملکہ‘علامتی پیرا یے میں اسی انسانی ہوس پر مبنی ہے۔برسوں تک جنگلاتی تخریب کاری کے بعد جب انسانی زندگی اس کمی کی وجہ سے متاثر ہونے لگی، سیلاب اور سونامی عالمی صورت اختیار کر گئے تب مختلف اداروںں اور ایجنسیوں نے اس کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا لیکن اس میں بھی بدعنوانیاں راہ پاگئیں۔ اس ضمن میں محمد حمید شاہد کا افسانہ ’برشور ‘ قابل ذکر ہے جس میں قحط سالی کے بعد زراعت کے شعبہ میں آنے والی تبدیلی اور کسانوں کی کسمپرسی کو بیان کیا گیا ہے۔
ماحولیا ت اور دوسرے عالمی مسائل کو ڈاکٹر سلیم خان نے اپنے ناول کے بیانیہ میں شامل کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔یہی نہیں انھوں نے سازشی اور طاقتور اقوام کے چہروں کو بھی بے نقاب کیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت کمزور ممالک آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔اس ضمن میں ان کا ناول ’آتش صلیب‘ قابل ذکر ہے۔اس ناول کا جائے وقوع9/11 کے بعد کا امریکہ ہے۔ اس کے ابتدا ئی مناظر فتحیابی کے جشن پر مبنی ہیں جو عراق اور افغانستان سے جنگ اور ان ممالک کی بر بادی کے نتیجے میں اسے نصیب ہوئی ہے۔جہاں جشن سے کہیں زیادہ نئی جنگ پر عوام کو آمادہ کرنے کے لیے مجمع کو خطاب کر کے جوش و ولولہ پیدا کیا جارہا ہے۔اس ناول کے ذریعہ مصنف نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’بے روزگاری ‘ ایک عالمی مسئلہ ہے۔صرف ہندوستا ن یا ایشیائی ممالک کے افراد اس اذیت سے نہیں گزر رہے ہیں بلکہ ہر ملک کے فرد کے لیے اپنی اپنی سطح پر معاشی مسائل درپیش ہیں۔اس کا اندازہ ناول میں پیش کردہ ایک منظر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
’’ولیم جانتا تھا کہ ٹام بے روزگار ہے۔اس ملک میں بے روزگار کا پیٹ تو بھر سکتا ہے لیکن وہ گھر نہیں بسا پاتا۔اس لیے کہ ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کی اکثریت بر سر روزگار ہو کوئی عورت بے روزگار مرد سے بیاہ کیوں رچائے ؟ولیم چاہتا تھا کہ ٹام کو کہیں ملازمت مل جائے لیکن اس کے حلقہ احباب میں نہ جانے کتنے ٹام جیسے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔وہ لوگ اپنی قابلیت کی بنا پر معمولی نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے۔معاشی کساد بازاری کے چلتے اچھی نوکری نہ ملنے کے سبب وہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔‘‘
(آتش صلیب،ڈاکٹر سلیم خان،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2016، ص20)
اس ناول میں ایک جگہ ماحولیات کے حوالے سے زبر دست احتجاج کا منظر پیش کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماحو لیات کے تحفظ کے اصول بنانے والے تخریبی اذہان کی وجہ سے ہی جنگلات خاکستر ہورہے ہیں،گلیشیر پگھل رہے ہیں،بحری سونامی اور طوفان کے آنے کی قدرتی وجو ہ ہو نے کے ساتھ خود انسانی تخریب کاری بھی ہے۔اسی طرح ناول ’زر پرست سر پرست‘ Globalization (عالمگیریت) یعنی مغربی سائنسدانوں اور دانشوروں کے مطابق اس دنیا کی تشکیل نو۔ عالم کاری اور عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین پوری دنیا میں نافذ ہونے کے بعد جو خطرات سامنے آئے ان کا بیان اس ناول میں بڑے فنکارانہ انداز میں ہوا ہے۔اقتدار کی ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو ایک معمولی جزیرے کو دنیا کا اہم ترین سیاحتی مرکز بنانے کے لیے کوئی بھی سطحی اور غیر اخلاقی حرکت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ معروف فکشن نگار، م۔ناگ نے اس ناول کو گلوبل زندگی کے عالمی کینوس پر نقش و نگار ابھارنے سے تعبیر کیا ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ،نیو کلیر اسلحہ سازی کے سامان کی فراہمی سے دہشت گردی اور تباہی کے خطرا ت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔امریکہ جیسی عظیم طاقتیں Nuclear strategy (جوہری حکمت عملی )پر فخر کر رہی ہیں اور نئے نئے اسلحہ بنانے پر کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن ان ہتھیاروں کے غلط استعمال سے جو جانیں تباہ ہو رہی ہیں اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی بلکہ اسے امن و امان قائم رکھنے کے عملی اقدام سے تعبیر کیاجاتا ہے۔عالمی سطح پر رونما ہونے والے مسائل کا اظہار محمد حامد سراج کے یہاں خرد مشین، ایک اور داؤ، چوب دار وغیرہ میں موجود ہے۔ عالم کاری اور اربنائزیشن جیسے معاملات پہ محمد حامد سراج کا افسانہ ’گلوبل ویلج ‘ قابل ذکر ہے۔اس افسانے میں ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد اور اس کے ذخائر جمع کرنے والی مملکتوں پر شدید طنز کیا گیاہے۔اس میں امریکہ کی اس نیو کلیرحکمت عملی کو موضوع بنایا گیاہے جو اس نے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اسی طرح افسانہ ’میکینک کہاں گیا ‘ عالمی یوم صحت منانے والی تنظیموں پر ایک سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہ اس مخصوص دن پر WHO کے بین الاقوامی اور قومی سطح پر صحت کے مسائل گلوبل ہیلتھ کاؤ نسل میں پیش توکیے جاتے ہیں مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا صحت کے متعلق اس مخصوص موقع پر فکر مندی ظاہر کرنے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کیا ’میکینک ‘جیسے عام آدمی کی بیماری کا علاج ممکن ہے،کیا اس شخص کے لیے حکومتیں فکر مند ہو سکتی ہیں جس کے پاس کڈنی ٹرا نسپلا نٹیشن کے لیے وافر رقم نہیں ہے۔ حامد سراج کے یہاں عالمی مسائل کی شمولیت اوپر سے لادی ہوئی چیز معلو م نہیں ہوتی۔کیوں کہ ان مسائل کا اظہار کرداروں کے مکالموں یا ان کی خود کلامیوں میں شامل ہے جو رواں بیانیہ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔مثلاً افسانہ ’بے انت صحرا ‘ میں ایک کردار کہتا ہے کہ ’’ابھی تک کینسر کی طرح ’کیبیلیر یا ‘کا علاج دریا فت نہیں ہوا ہے۔‘‘ اس افسانے میں ٹی وی چینل کیبل کے مضر اثرات اور اخلاقی زوال کو پیش کیا گیا ہے۔
ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں کے حوالے سے ڈاکٹر صبیحہ انور نے افسانہ ’بند کھڑکی ‘کے ذریعہ کئی مسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ شروع میں اس بات کا ذکر ہواتھا کہ مسائل خواہ کسی بھی نوعیت کے بیان کیے جائیں لیکن ادبی تخلیق کی بنیادی ترجیح منفی رویوں کے خلاف احتجاج اور مثبت افکار و خیالات کی ترسیل ہوتی ہے۔چنانچہ مذکورہ افسانہ میں ڈسکوری چینل کے حوالے سے جو منظر کشی کی گئی ہے وہ علامتی پیرائے میں انسانی ہوس اور تخریبی میلانات کی روداد ہے۔اس قبیل کے افسانوں میں ذکیہ مشہدی کا افسانہ ’لاٹھیوں والے ‘ محمد حمید شاہد کا ’جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی ‘اور ابرار مجیب کا افسانہ ’جنگ بند ‘ اہمیت رکھتے ہیں۔
طبی علا ج و معالجہ اور اسپتا لوں میں بدعنوانی صرف ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کا مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر مسائل غربت و افلاس اور معاشی کمزوری کی دین ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ صارفیت نے غریبوں کی زندگی المنا ک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔Pharmaceutical industries سے جو دوائیں تیار ہوکر بازار میں آتی ہیں نصف سے زیادہ منفعت کے ساتھ فروخت کی جاتی ہیں۔ بعض دوائیں اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ ما لی کمزوری کے سبب کچھ لوگ خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ خطر ناک یہ ہے کہ اسپتالوں میں عام مریضوں کے لیے معقول و مناسب انتظام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے بے شمار جانیں موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بیدی کے افسانے ’حیاتین ب‘ اور ’لاروے ‘میں دواؤں کی قلت اور نامناسب انتظام کے علاوہ ماحولیات سے متعلق بھی کچھ اشارے موجود ہیں۔المیہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور نئی حکمت عملی اختیار کرنے کے دو دہائی بعدبھی بے شمار ایشیائی ممالک کی کروڑوں آبادی غربت سے بھی نچلے درجے، بھکمری اور غذائیت کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔
صادقہ نواب سحر کا ناول ’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے۔جو مالی اعتبار سے خوشحال ہے۔لیکن ایک فرد کی کڈنی خراب ہونے کی وجہ سے پورے گھر کا نظام در ہم برہم ہو جاتا ہے۔ہر چھ ماہ پر ڈائیلیسس اور پھر آخر میں کڈنی امپلانٹ کے بعد وہ خاندان financial crisisسے گزرنے لگتا ہے۔صادقہ نواب سحر کا دوسرا ناول ’جس دن سے ‘موجودہ عہد کے تناظر میں لکھا گیا ہے ۔اس ناول میں مسائل اور واقعات اس طرح شیر و شکر ہو گئے ہیں کہ دونوں کو الگ الگ بیان کرنا مشکل ہے۔اس میں ایک جدید معاشرہ سانس لے رہا ہے جس کے لیے امریکہ سے تجارتی تعلق بنانا اور ختم کرنا، سو فٹ وئیر ڈیل،ایچ،آئی،وی ٹیسٹ،جنسی تعلقات بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ناول کے بیان کردہ واقعات میں عالمی مسائل کے بجائے عالمی معیار اور گلو بل دنیا کی تشکیل کردہ طرز زندگی کے مکمل نمونے ملتے ہیں۔
فہمیدہ ریاض کا ناول ’کراچی ‘ کا پس منظر اگر چہ شہر کراچی ہے لیکن بعض واقعات ایسے بھی آئے ہیں جو اس شہر کے علاوہ پوری دنیا کے کسی بھی شہر سے وابستہ کیے جا سکتے ہیں۔مجرم کی قانونی پشت پناہی،پولیس محکمہ کی بدعنوانی،سیاست دانوں کی عیاری،شہریوں کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی نا انصافی،اشتہار بازی کی بنیاد پر پھیلائی جانے والی صارفیت،جنسی،اخلاقی اور معاشی جرائم،بے ایمانی، بد عنوانی،گینگ ریپ،آنر کلنگ جیسے مسائل صرف ’کراچی ‘نہیں بلکہ بر صغیر کے ہر دوسرے شہر میں آئے دن رونما ہوتے ہیں۔آنر کلنگ پہ ’کہانی کی کوہ ندا ‘، ’کفارہ ‘( ناصر عباس نیر)اور ’حجرے والی بی بی‘ (ثمینہ سید)کے ذریعہ ایشیا ئی معاشرے کے حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔
معاصر فکشن نگاروں میں مشرف عالم ذوقی ایک ایسا نام ہے جس کی افسانوی ہی نہیں بلکہ غیر افسانوی تحریریں بھی روزہ مرہ کے مسائل سے متعلق ہیں۔اس ضمن میں ’عالمی مسائل اور ہماری کہانیاں‘ ایک بہترین مثال ہے۔ وہ ایسے فن پاروں پر مکالمہ قائم کرتے ہیں جن میں جدید تر مسائل اور مشتعل جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔نئے اور تازہ تر کی جستجو ان کا بنیادی منشا ء ہے۔ انھوں نے قومی اوربین الاقوامی مسائل کو بڑی خوبصورتی سے اپنے بیانیہ کا حصہ بنایا ہے۔
وحید احمد کا ناول ’زینو ‘پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسائل کا بحر ذخار ہے۔جو ادب کے روایتی قاری کو نئے فکری اور فنی تجربات سے روشناس کراتا ہے۔اس ناول میں شہنشاہیت، ملوکیت، سامراجیت، استعماریت نو آبادیاتی نظام، حکومت کرنے کی مختلف شکلیں، عالمگیریت، پوری دنیا میں معاشی بحران کا مد وجزر،نئی نئی اختراعات، پبلسٹی، اشتہار بازی کی رنگینیوں کے نتیجے میں نمودار ہونے والے ہیجان اور پوری دنیا کے معاشی،سیاسی اور تہذیبی عروج و زوال کے واقعات سے پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس ناول کے کردار ان مسائل سے نبرد آزما نظر آتے ہیں جن مسائل سے اس وقت پوری دنیا جوجھ رہی ہے۔ ان کے مکالموں کے ذریعہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر سوالیہ نشان قائم ہوتا ہے کہ دنیا میں معاشی ترقی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے جو ادارے تشکیل دیے گئے تھے وہ عالمی معیشت پر قابو کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔مال و زرکی ترقی انسانوں کو اخلا قیات سے عاری کیوں بنا رہی ہے۔درج ذیل اقتباس سے صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’کہانی کچھ یوں ہے کہ دنیا میں ایک سو ترانوے ممالک ہیں۔کل آبادی سوا چھ ارب کے قریب ہے۔دنیا کے صرف پانچ ممالک ساری دنیا کی معیشت چلا رہے ہیں یعنی امریکہ،بر طانیہ،فرانس،جرمنی اور جاپان باقی ایک سو اٹھاسی ممالک ان پانچ کے باج گزار ہیں۔ان پانچ ملکوں کی آبادی ساری دنیا کا نوے فیصد ہے۔ساری دنیا کی آدھی مصنوعات ان پانچ ممالک میں پیدا ہوتی ہیں۔ جدید ترین ٹکنالوجی بھی یہ پانچ ہی پیدا کرتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں ان پانچ ممالک میں معاشیات کے الگ الگ تجربے کیے گئے ہیں،جو ناکام ہوئے۔گویا دنیا میں ہر پانچواں انسان مفلس ہے۔آئی ایم ایف اورورلڈ بینک بھی ان پانچ ملکوں کی کرنسی کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی معیشت چلا تے ہیں۔دنیا میں سو ارب لوگ نہایت غریب ہیں اور روزانہ ایک ڈالر کما کر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔مگر لطیفہ یہ ہے کہ غریب ممالک امیر ملکوں کی کفالت کر رہے ہیں۔امیر ممالک من مانی شرائط پر غریبو ں کو قرضہ دیتے ہیں۔غریب ملکوں سے اجناس اور خام مال سستے داموں میں در آمد کرتے ہیں اور اپنی مصنوعات مہنگے داموں انھیں برآمد کرتے ہیں،یہ امیر ممالک اپنی پسند کے ڈکٹیٹر اور حکمراں غریب ممالک پر مسلط کرتے ہیں جو قرضے کی رقم خرد برد کر کے دوبارہ امیر ملکوں کے بینکوں میں بھیج دیتے ہیں۔امیر ممالک اس رقم کو دوبارہ قرضے کی صورت میں غریب ملکوں پر مسلط کر دیتے ہیں۔اس طرح غریب ممالک قرضے کی دلدل میں دھنسے رہتے ہیں۔یہ انتہائی گھناؤ نا استحصالی نظام ہے اور تم اس کے کرتا دھرتا ہو۔اکیسویں صدی شروع ہوئے تین سال گزر چکے ہیں مگر انسان ابھی تک استحصال کا شکار ہے۔یہ ترقی کی کون سی قسم ہے کہ ایک طرف انسان خلا میں چہل قدمی کرتا ہے تو دوسری طرف قحط سالی سے مر جاتا ہے۔‘‘
(زینو،وحید احمد مثال پبلشرز فیصل آباد2007،ص163)
درج بالا اقتباس سے پہلے عالمی معیشت کے توازن بگڑنے پر جو سوال قائم کیا گیا تھا اس کا جواب ان چند سطروں سے بخوبی سامنے آجاتا ہے کہ استحصالی نظام ابھی اس دنیا کا بڑا مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ اس ناول میں پانی کی قلت اورآلودگی،جنگلات کے کٹنے،تیل اور معدنیات کے لیے ملکوں کے مابین کشاکش،سمندری علاقوں میں جینے والوں کے مسائل اور ماحولیاتی مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
گزشتہ صفحات میں جو مسائل بیان کیے گئے ہیں وہ عالمی سطح پر رونما ہورہے ہیں،بڑی حد تک ان سب کا تعلق معاش سے جا کر ملتا ہے۔ جنگوں،بم دھماکوں، زہریلی گیسوں، ایٹمی ہتھیاروں، آلودہ پانی، سیلابوں، سونامیوں اور ماحولیات کی دوسرے تخریب کاریوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نبر آزما ہونے کے لیے غریب عوام کے پاس اتنی مالی فراوانی نہیں ہوتی کہ اپنی مدافعت کر سکے جبکہ اہل زر اپنے پیسوں کے بل بوتے پہ بآسانی مدافعاتی انتظامات کر لیتے ہیں۔معاش کا یہ مسئلہ پوری دنیا کے عوام کے سامنے درپیش ہے اور ایشیائی ممالک میں کچھ زیادہ۔
یوں تو عالمی مسائل پر مبنی فن پاروں کی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے لیکن موضوع کو تلاش کرتے ہوئے فنی وسائل کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔اسی لیے اس مضمون میں صرف ان فن پاروں کو زیر بحث لایا گیا ہے جو موضوع،مواد اور فنی اعتبار سے مکمل اور معیاری کہے جاسکیں۔ کیونکہ عالمی مسائل کی شمولیت،اس پر مبنی پلاٹ کی ترتیب،کرداروں کے درمیان مکالمے اور فضا سازی کا مرحلہ اتنا آسان نہیں کہ ہر مصنف اسے فن کاری سے نبھا سکے۔ اس کے علاوہ افسانوی بیانیہ میں توازن اس طرح قائم رکھنا کہ مسائل کا بیان اخباری رپورٹ یا صحافتی واقعہ کی صورت نہ اختیار کرے۔اس طرح کے موضوعی مطالعات میں یہ آزمائش ہمہ وقت چلتی رہتی ہے کہ فن پارہ مطلوبہ موضوع پر مبنی ہونے کے ساتھ فنی اصولوں کا بھی پابند ہوگا یا نہیں۔پیش نظر مضمون میں موضوع کی تحدید کی وجہ سے گرچہ زیر بحث افسانے اور ناولوں کے فنی جہات کا تجزیہ نہیں کیا گیا ہے لیکن معیار کا خیال ضرور رکھا گیا ہے۔
C/o Syed Ziya Imam
C-4/3, Suroor Apartment
Sir Sayyed Nagar
Aligarh - 202002 (UP)
ماہنامہ اردو دنیا شمارہ مارچ 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں