7/3/19

ساحر لدھیانوی ایک عظیم فنکار مضمون نگار:۔ ناظمہ انصاری



ساحر لدھیانوی ایک عظیم فنکار
ناظمہ انصاری

ساحر لدھیانوی عظیم فلمی نغمہ نگاراور شاعر تھے۔ ان کی شاعری نے نہ صرف خواص بلکہ عوام کوبھی متاثر کیا۔ انھوں نے حیات و کائنات کے بیشتر مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، انسانیت پسندی اور ہیومنزم پر ان کا خاص زور تھا۔ ساحر لدھیانوی کے فلمی نغمے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں لیکن فلم کے علاوہ بھی ان کی ایک ادبی شخصیت تھی اور ادبی حلقے میں بھی ساحر کی شاعری بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ انھیں ادبی حلقے میں اتنی عظمت نہیں مل سکی جتنی فلمی نغمہ نگاری کے میدان میں ملی۔ ساحر یقینی طو رپر ایک مقبول عام شاعر تھے اور ان کے بہت سے اشعار میں آج کی زندگی کی حقیقتیں ہیں، روزمرہ کے مسائل ہیں اس لیے ان کی شاعری انسانی حافظے سے کبھی محو نہیں ہوسکتی۔ ان کی شاعری ہمیشہ دلوں میں نقش رہے گی۔ 
ساحر لدھیانوی8مارچ1921کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم خالصہ اسکول سے حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا،کالج ہی سے شاعری کا آغاز کیا۔
ساحر لدھیانوی ایک ایسی سدابہار شخصیت کا نام ہے جنھیں ان کے دور میں بھی سراہا گیا آج بھی ان کی چاہت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور مستقبل میں بھی ہر دلعزیز رہیں گے۔ساحر لدھیانوی کا مشہور قول ہے کہ’’بمبئی کو میری ضرورت ہے۔‘‘ چونکہ ساحر لدھیانوی ترقی پسند تحریک سے جڑے ہوئے تھے۔اور ترقی پسند شعرا یہ جانتے تھے کہ اپنی بات عوام تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ فلمیں ہیں۔ اسی لیے ساحر نے فلمی دنیا کا رخ کیا۔
لیکن فلمی نغمہ نگاروں سے متعلق کئی سوالات ہماری سماعت سے ٹکراتے رہے ہیں۔ کیا ساحر کی شہرت اور مقبولیت صرف فلمی نغمہ نگاری کی دین ہے؟ کیا ساحر اردو دنیا میں ادبی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا فلمی نغمہ نگار اور ادبی شاعر دو متضاد پیمانے ہیں؟ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی میری ادنیٰ سی کوشش ہے۔ ساحر لدھیانوی کے مطالعہ سے مجھے محسوس ہوا کہ ان کی شہرت صرف فلمی نغمہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ ایسے شاعر تھے جنھوں نے ادبی اعتبار کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے سماج اور فن دونوں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ انھوں نے ایسے شاہکار نغمے تخلیق کیے جو سماجی شعورکی وجہ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کی ’شاہکار‘ نظم ؂
مصور!میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں!
اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھر دے
حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے
لبوں کی بھیگی بھیگی سلوٹوں کو مضمحل کر دے
نمایاں رنگ پیشانی پہ عکس سوز دل کر دے
تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے
جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے
گھنے بالوں کو کم کر دے مگر رخشندی دے دے
نظر سے تمکنت لے کر مذاق عاجزی دے دے 
شاید یہ ساحر کے نغموں کی ہی دلکشی و نغمگی کی جادو بیانی تھی کہ جس نے امرتا پریتم جیسی فنکارہ کو آپ کا دیوانہ بنادیا تھا۔ آپ کی شعری شخصیت کا سحر امرتا پریتم کے سر چڑھ کر بولتا تھا۔وہ ساحر پر دل و جان سے فریفتہ تھیں۔ حالانکہ ساحر بظاہر کوئی خاص شخصیت کے مالک نہیں تھے۔ دبلے پتلے عام سے شخص تھے۔ رنگ بھی تقریباً سیاہ تھا اور چہرے پر بھی ہلکے ہلکے چیچک کے داغ تھے۔ 
اس سلسلے میں احمد راہی اپنے مضمون ’ایک دیا اور بجھا‘جو ’کلیاتِ ساحر‘ کے دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں :
’’وہ اتنا خوبصورت نہیں تھا کہ اسے ٹوٹ کر پیار کیا جاتا۔ بلکہ وہ اپنی شاعری کا تضاد تھا۔‘‘
لیکن امرتا پریتم نے تو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں سے، علمی فنکاریوں سے اور ایک عظیم روشن دماغ شخصیت سے پیار کیا تھا۔ ان کی نظر میں تو شاید آپ سے زیادہ وجیہہ اور خوبصورت شخص پوری دنیا میں نہیں تھا۔
امرتا پریتم اپنی آپ بیتی’رسیدی ٹکٹ ‘ میں لکھتی ہیں:
میں نے جب ساحر سے اپنے پیار کا اظہار کیا۔ تب ساحر کہتے ہیں۔
Very Poor Choiceاور اپنی نظم معذوری میں بھی یہی بات دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ؂
مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آسکتا نہیں
اسی نظم میں غم روزگار کی بھی روداد بیان کرتے ہیں اور اپنے عشق کی شکست قبول کرتے ہوئے اپنی معذوری سمجھاتے ہیں ؂
کس طرح تم کو بنا لوں میں شریک زندگی
میں تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں
یاس کی تاریکیوں میں ڈوب جانے دے مجھے
اب میں شمع آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں
ان کی چاہت کی یہی کشمکش ساحر کی نظم ’یکسوئی‘ میں بھی پائی جاتی ہے ؂
کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟
ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنسا تی کیوں ہو؟
میں سمجھتا ہوں تقدس کو تمدن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو
ساحر کے گزرجانے کے بعدا ن کے ’گل فشاں ‘ مجموعے کے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں امرتا پریتم لکھتی ہیں۔ جو مضمون انھوں نے کورے کاغذ کی داستان نام سے لکھا ہے۔ 
’’میری اور ساحر کی دوستی میں کبھی بھی الفاظ حائل نہیں ہوئے۔ یہ دوخاموشیوں کا ایک حسین رشتہ تھا۔ میں نے اس کے لیے جو نظمیں کہی تھیں۔ اس مجموعۂ کلام کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔‘‘
ساحر ایسے واحد فلمی نغمہ نگار ہیں جنھوں نے دو ایسی فلموں کے نغمے لکھے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی خود ساحر کی زندگی کی کہانی تھی۔’’گرودت کی فلم پیاسا اور یس راج کی کبھی کبھی ‘‘یہ اعزاز اور کسی فلمی نغمہ نگار کو حاصل نہیں ہوا۔خصوصاً پیاسا کے نغموں کوتو اول درجے کی شاعری کہہ سکتے ہیں۔مثلاً ؂
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور اسی طرح آپ کی عشقیہ داستان پر مبنی گیت ؂
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھکو بنایا گیا ہے میرے لیے
وغیرہ ایسے نغمے ہیں جنھوں نے ساحرلدھیانوی کو شہرت دوام بخشااورامرتا پریتم جیسی ادب شناس ادیبہ نے آپ کے عشق میں فریفتہ ہوکر نئی طرزِ زندگی کے لیے ادب شناسی کی نئی راہ ہموارکی۔ حالانکہ اردو کے محققین اور ناقدین نے ان کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیااور انھیں فن شاعری کے اس مقام پر فائز نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ 
شاید اس دور کے عظیم الشان شعرا حضرات کے مدّ مقابل ساحر کا چراغ نہ جلا ہو۔ لیکن ساحر اپنے نغموں، گیتوں اور نظموں کی زبان سادگی اور روانی کی وجہ سے عوام میں ہر دل عزیز رہے۔
ساحر فلمی نغمہ نگار تھے کہ یہ نغمہ نگاری ان کے معاش کا ایک ذریعہ تھی، اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو شاید وہ کوئی اور راہ اختیار کرتے۔ ساحر کو اس کا احساس تھا کہ معاش نے ہی انھیں اس سلسلہ سے جوڑا ہے اس لیے اپنی ایک نظم ’فنکار‘ میں اپنے جذبات اور احساسات کی ترجمانی یوں کرتے ہیں کہ زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ذریعۂ معاش ہے کیونکہ یہ نظم ان کے سچّے جذبات و احساسات کی تڑپ اور ان کے ٹوٹے دل کی ترجمانی ہے ؂
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
آج دکان پہ نیلام اٹھے گا ان کا
تونے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس
آج چاندی کے ترازو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس
جو تیری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں کو
مفلسی جنس بنانے پہ اتر آئی ہے
بھوک تیرے رخِ رنگیں کے فسانوں کے عِوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنائی ہے
دیکھ اس عرصہ گہہ محنت و سرمایہ میں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے
تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے 
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
ساحر کی زندگی ناکام حسرتوں کی ایک داستان ہے۔ آپ کے شعری مجموعے’آؤ کوئی خواب بنیں‘ کے صفحۂ اوّل پر آپ کی یہ تحریر ’خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر‘ آپ کے دکھوں کی غماز ہے ؂
میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا
تیرا وعدہ تو نہیں ہوں جو بدل جاؤں گا
سوزبھر دو میرے سینے میں غم الفت کا
میں کوئی موم نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا
درد کہتا ہے یہ گھبرا کہ شب فرقت میں
آہ بن کر ترے پہلو سے نکل جاؤ
مجھ کو سمجھاؤ نہ ساحر کہ میں اک دن خودہی
ٹھوکریں کھا کے محبت میں سنبھل جاؤں گا
آپ کے گیتوں میں جمالیاتی رعنائیاں بکھری ہوئی ہیں۔ آپ کی نظمیں روزمرہ کی زندگی کے تجربات، حالات و مقامات، کیفیات و احساسات کا منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔ ان کے نغموں کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ نے کائنات کی خوبصورتی کو اپنے اشعار میں موتی کی لڑی کی طرح پرودیا ہے ؂
پر بتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے
سر مئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے
دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے
آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے
ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں
بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے
کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں 
روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے
آپ کے اشعار ذہن و دل پر شبنم کی طرح برستے ہیں اور قاری و سامع کو سرشار کرجاتے ہیں۔ 
ساحر ایک بلندپایہ تخلیق کار تھے، اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ ساحر نے اپنے تجربات و حوادث کو شاعری کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیا، یہی تجربات و حوادث آج کے عام انسانوں کے ہیں، اسی لیے ساحر کی شاعری عوام میں بے حد مقبول ہے۔

Prof. Nazima Ansari
Head, Dept of Urdu-Persion
Gujrat Arts & Science College
Ellis Bridge, Ahmedabad-380006
Mob.No.9377881292
ماہنامہ اردو دنیا   شمارہ  مارچ 2019





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...