حامدی
کاشمیری: شخصیت اور شاعری
پریمی
رومان
پچھلے دنوں اردو کے ایک معتبر شاعر، نقاد، محقق، دانشور، اور استاد پروفیسر حامدی کاشمیری مختصر علالت کے بعد اردو شاعری کے کارواں سے بچھڑ گئے ۔ وہ ایک محقق نقاد ، افسانہ نگار،اور ناول نگار تھے۔ اکتشافی نظریہ پیش کر کے انھوں نے اردو تنقید کو ایک نئی تھیوری سے آشنا کیا۔ حامدی صاحب نے ابتدائی دور میں افسانے بھی لکھے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ہی شعر و شاعری کا آغاز بھی کیا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا اولین شعری مجموعہ بہت پہلے عروس تمنا کے نام سے شائع ہوا ، جو ان کے ابتدائی کلام پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ان کی شاعری میں نمایاں تبدیلی آنے لگی اور انھوں نے اس میدان میں مختلف مراحل طے کر کے اپنی محنت، لگن اور صلاحیت سے ایک انفرادی مقام بنایا نایافت، لاحرف، شاخ زعفران، وادی امکان، خواب رواں، شہر گماں وغیرہ ان کے چند شعری مجموعے ہیں جن کی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔
حامدی کاشمیری نے اس زمانے میں اپنی شاعری کا آغازکیا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ وہ پہلے پہل اپنی مادری زبان کشمیری زبان میں شعر کہتے تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب انھوں نے کالج کا رخ کیا تو ان کو کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ کالج کی بزم ادب میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور کامیابیوں کی منزلوں کو سر کرتے رہے۔ اسی دور میں کشمیر کے سربرآوردہ شاعر شہ زور کاشمیری جو خود حضرت سیماب اکبر آبادی کے تلمذ میں رہے تھے اور اب فارغ الاصلاح قرار دیے گئے تھے ، سے حامدی صاحب اصلاح سخن لیتے رہے ۔ ڈاکٹر برج پریمی اپنی کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
شہ زور، سیماب اکبر آبادی کے حلقہ تلمذ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ فارغ الاصلاح ہو کر اب آزادانہ طور پر مشق سخن کرتے تھے۔ زبان و بیان پر ماہرانہ قدرت رکھتے تھے ، حامدی نے اپنے سنجیدہ کلام پر شہ زور سے اصلاح لے کر عروض اور زبان کے رموز سیکھے اور اب کالج میگزین کے علاوہ مقامی رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ ابتدا ہفت روزہ وکیل سے کی جب ذرا قدم جم گئے تو ماہنامہ شاعر کے لیے لکھنے لگے۔ شاعر کے مدیر نامدار اعجاز صدیقی نے ہمت اور حوصلہ دیا ۔‘‘
(جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما از ڈاکٹر برج پریمی ص 195-96)
اس طرح سے ان کی حوصلہ افزائی ہونے لگی اور انھوں نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ متواتر لکھتے رہے اور نہ صرف اپنے ارد گرد کے حالات و حادثات قلم بند کرتے رہے بلکہ عالمی پیمانے پر رونما ہونے والے حالات و حادثات کو بھی زبان دے کر اپنی شاعری میں بیان کرنے لگے ۔جہاں تک حامدی کاشمیری کی شاعری کا تعلق ہے اس میں روایتی اور جدید شاعری کا سنگم ملتا ہے ان کی آواز جانی پہچانی لگتی ہے، اس آواز میں تاثر، جذبے کی شدت اور اس کے پس پشت چھپے ہوئے ان کے تخلیقی ذہن کی کارفرمائی ہے اور اس طرح سے ان کی شاعرانہ اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حامدی کاشمیری نے اگرچہ اپنی شاعری کا آغاز روایتی شاعری سے کیا وہ ایک زمانے میں ترقی پسند شاعری کے بھی دلدادہ تھے لیکن جب اس تحریک کا رنگ زائل ہونے لگا اور جدیدیت نے اپنے اثرات سے سارے ادب میں انقلابی تبدیلی پیدا کی تو حامدی بھی اس کی رنگ آمیزی کرنے لگے اور بقول مظہر امام، حامدی کا شمار نئی نسل میں نہیں ہو گا لیکن اگر جموں و کشمیر میں نئی نسل وہ نسل ہے جس نے جدید عصری حسیت اور نئے مزاج کو سب سے پہلے قبول کیا تو پھر یہ نئی نسل حامدی کاشمیری سے شروع ہوتی ہے (ماہنامہ تعمیر ، جموں و کشمیر اردو ادب نمبر1983ص199) حامدی کاشمیری دراصل دو نسلوں کے درمیاں ایک کڑی ہیں جنھوں نے اپنی فکر کی تازگی اوراحساس کی گرمی سے کشمیر کی اردو شاعری میں نیا وقار پیدا کیا اور اس کی آبیاری کی۔
حامدی کاشمیری کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی شاعر ی ہر دور میں ترقی کے زینے طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی ان کی شاعری میں قدیم اور جدید شاعری کا سنگم بخوبی پہچانا جا سکتا ہے۔ حامدی صاحب کی شاعری کے ابتدائی دور کو ہم ان کی شاعرسی کی داخلی کیفیات کا دور کہہ سکتے ہیں۔اس دور کی عمدہ مثال ان کا اولین شعری مجموعہ عروس تمنا ہے۔ اس دور میں وہ روایتی شاعری سے دامن نہ بچا سکے۔ میر، غالب ، اور اقبال کا رنگ ان کے اشعار میں بخوبی پہچانا جا سکتا ہے۔ ا ن کے اس دور کی شاعری میں حسن و عشق کا والہانہ پن ،غم روز گار کے مسائل ، مناظر فطرت کی رنگا رنگی اور روایتی شاعری کے اثرات بخوبی سامنے آتے ہیں۔ نایافت، لا حرف، شاخ زعفران اور وادی امکان حامدی کاشمیری کی شاعری کا دوسرا پڑاؤ ہے، ا ان کے اس دور کی شاعری میں نئے تجربات اور نئے خیالات کے علاوہ ایک مخصوص فکری رحجان پایا جاتاہے۔۔ اس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موضوع کو صحیح معنوں میں برتنے کا فن جانتے ہیں۔ اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے نئے امکانات کی تلاش، پیکر تراشی اور علامتی توسیع پسندی خاص طور پر دکھائی دیتی ہے۔یہ شاعری ان کی ابتدائی شاعری سے مختلف ہے اور ان کے نت نئے رنگوں کا پتہ دیتی ہے ، اس دور میں وہ ترقی پسند تحریک سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ حامدی کاشمیری کی غزلوں اور نظموں میں تجربے کی وسعت اور لہجے کا عمق ملتا ہے یہ تجربے نہ صرف موضوع اور اسلوب کے تجربے ہیں بلکہ زبان و بیان اور علامت سازی کے تجربے بھی ہیں۔ ان میں آج کل کے فرد کی محرومی اور دردو کرب کی گداختگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں مشینی دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول کی صدائے باز گشت محسوس ہوتی ہے۔ انہی خیالات اور تاثرات کو وہ ا یک نئے تناظر میں پیش کرنے میں منہمک ہیں اور اس طرح سے وہ اپنے لیے نیا راستہ متعین کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حبیب کیفوی ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
’’ شاعری اور ادب کے بغیر ان کے لیے سانس لینا محال ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ شاعری اور آرٹ کی جڑیں انسان کی تہذیبی قدروں اور شعوری اور لاشعوری تجربات کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے متنو ع تجربات کی مصور ی ایک ایسے شخصی اور تخلیقی انداز سے کرے کہ فن حسن بن جائے اور جما لیاتی مسرت پیدا کرے ۔‘‘ (کشمیر میں اردو از حبیب کیفوی ص278)
جہاں تک حامدی کاشمیری کی غزلوں کا تعلق ہے، ان میں گہرائی کے ساتھ ساتھ گیرائی بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں میں معنوی تہہ دار ی ،اور کیف و سرور ملتا ہے۔ وہ اظہار کے لیے اپنا خاص شاعرانہ اسلوب خاطر میں لاکر اپنے خیالات و جذبات کی لا شعوری گتھیوں کو بھی شعری پیکر عطا کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں انسانی وجود پارہ پا رہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مصرعوں کی ہم آہنگی، زبان و بیان کا مترنم لہجہ اور غم کی دھیمی آنچ ان کے اس دور کی شاعری کا حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درج ذیل اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں:
خواب کیا خواب کی حقیقت کیا
نور رکھتا ہے دشت ظلمت کیا
ذرہ ذرہ ریت بکھراتی گئی پیلی ہوا
یوں بھی اس کی زندگی کا کوئی شیرازہ نہ تھا
موج انفاس آتشیں ہی نہیں
برف پگھلے گی یہ یقیں ہی نہیں
دشت ہو سے پہلے بھی آئے تھے ویرانے بہت
سن چکے تھے وادیِ احمر کے افسانے بہت
تیرے چہرے پہ غم کا سایہ ہے
کتنے لمحوں کے چاند گہنا لے
پانیوں پر کالی آوازیں رقم ہوتی گئیں
روشنی کے جسم ڈوبے تہہ نشین ہوتے گئے
صبح دیکھا پانی ہی پانی شجر کوئی نہیں
رعشہ پیکر تھے شب مہتاب خمیازہ نہ تھا
حامدی کاشمیری خارجی دنیا میں واقع ہونے والے حالات اور واقعات سے متاثر ہیں لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ تخلیقی عمل میں خارجی زندگی سے انقطاع پر زور دیتے ہیں۔ جب شعر کہنے کے موڈ میں ہوتے تھے تو اس وقت ان کے دل و دماغ میں ایک مربوط ذہنی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ اکثر وہ اپنے وجودسے بھی بے خبر ہوتے تھے۔ ایک تخلیقی دنیا جو حیرت پرور، پر اثر اور نادیدہ ہوتی ہے۔ اس دنیا کی سیاست اور اس میں پیش آنے والے سحر کار انہ واقعات ان کی نظر میں ہوں تو اشعار فوراًان کے ذہن میں ڈبکیاں لینے لگتے تھے اور اس کے بعد مناسب و مترنم الفاظ و پیکر کی تلاش و انتخاب اور بھی سونے پر سہاگے کا کام کرتے تھے۔ خود حامدی کاشمیری کا خیال ہے کہ ہر شعری تجربہ ان کے وجود کی دریافت ہے۔ وہ شعرمیں احساس اور فکر کی ہم آہنگی کے قائل تھے۔ ان کے کلام کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی سطح پر واقع ہونے والے حالات وحادثات ان کے لیے اہمیت ضرور رکھتے ہیں لیکن کائناتی سطح پر انسان کے مشاہدے اور تجربات کو وہ بنیادی اہمیت دیتے تھے۔حامدی صاحب کی غزلوں سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ ان کے یہاں عصری صورت حال کا احساس و ادراک ملتا ہے ۔ خدا، خلد، وجود، موت، ذہن کی معدودیت، جنسی وارفتگی سے فریب پسندی، کرب آگہی، شکست آرزو ، ان کے اہم تجربات ہیں۔ وہ شعر میں پیکریت کے قائل تھے اور زیادہ سے زیادہ پیکروں کی علامتی اہمیت پر توجہ دیتے تھے۔چنانچہ ان کے یہاں برف، وادی، پہاڑ ، سنگ، ہوا ، کمرہ، شجر، بنیادی علامتیں ہیں۔وہ نئی حسیت کی علامتی پیکر تراشی ،پر ساری توجہ مرکوز کرنے کے حق میں تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1960کے آس پاس اردو شاعری میں نئی حسیت کا اظہار ہونے لگا میرے ایک استفسار کے جواب میں انہوں نے بتایا :
’’ شب خون کا اجرا ہونا اور اس میں تخلیقات شائع ہونے کا تاثر پزیری ، نئی حسیت اور نئے تجربات پر جرائد میں مدلل بحث اس صدی کے شروع میں رونما ہوئے واقعات وغیرہ ان سب باتوں سے میں متاثر ہوا ۔‘‘
( حامدی صاحب کے ساتھ ایک گفتگو)
حامدی صاحب کی شاعری کا تیسر ا اور آخری دوربڑا زرخیز دور تھا یہ دور ا ن کی شاعری کے سابقہ دو ادوار سے مختلف ہے۔ اس دور کی شاعری میں وہ اپنے تجربات واضح طور پر مختلف علائم اور استعارات سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پڑھنے والوں تک پہنچاتے ہیں اور اپنی مخصوص لفظیات اور پیکروں سے وہ اپنی شاعری میں ایک الگ اور انفرادی رنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے درج ذیل اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں:
خو اب وحشت کے سب مظاہر ہیں
آسماں کیا ہے یہ زمیں کیا ہے
کوئی لوٹا نہ ساحلوں کی طرف
کس کو معلوم تہہ نشین کیا ہے
آگ کے سایوں میں کالے شبد ویرانے ہوئے
چاندنی کے جسم تھے سانپوں سے ڈسوائے گئے
آنکھ جھپکانے کی بھی فرصت نہ تھی
خود بہ خود یہ زخم لو دینے لگے
چلچلاتی دھوپ میں وہ بھی پگھل کر رہ گئے
دور تک کوئی شجر سنساں راہوں میں نہ تھا
شدت انکار آنکھوں سے عیاں
ارتعاش زیر لب آمادگی
حامدی کاشمیری کی شاعری میں روایتی الفاظ کا استعمال بھی ملتا ہے اور نئی نئی تراکیب اور تشبیہات و استعارات کی چاشنی بھی دیکھنے میں آتی ہے ،جن سے ان کی شاعری میں تازگی اور توانائی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا احساس خود حامدی صاحب کو بھی تھا۔ وہ نئے الفاظ و پیکر کی تازگی ،کو محسوس کرتے تھے ، روایتی الفاظ کو بھی خاطر میں لانے کے حق میں تھے۔ وہ زبان کی حد بندی کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ ان کے یہاں روایتی الفاظ ساقی، میخانہ ،ساغر کے ساتھ ساتھ ستم گر، تیغ و تبر، رعشۂ خمیازہ، روم و عجم، خوابیدہ، خندہ رو، چشم نم، گرد پوش، زہرخندہ، کشت و خون، خوار و زبون، آشفتہ، موج بلا، سنگ و شجر، صد مہر و مہ، شعلہ نگہ ،شریک نوحہ،سوختہ جاں،وغیرہ جیسی فارسی تراکیب ،براہ راست ان کی شاعری میں نظر آتی ہیں اور روشنی ،خواب،دشت، گھر ، سایہ ، بادل ، پانی ، شجر، شب ، ستارے، سناٹے ،سویرا، تتلی، سورج، بدن، رنگ، برف، پیڑ وغیرہ لفظیات ان کی شاعری میں خاص جگہ بنا چکے ہیں۔ مثلاً:
جاگتے نہیں بھولے بھٹکے خواب
دشت ظلمت میں روشنی کے خواب
لا کے رکھ دو یہاں ہول کا دشت
زہر ٹپکا ہے برگ گلاب
خود سے ملنے کی کوئی صورت نہ تھی
مجھ کو مرنے کی کوئی عجلت نہ تھی
پیڑ پتے جل کے خاکستر ہوئے
دوستو یہ بارش رحمت نہ تھی
رکھ لو یہ حرف سبز بھی تیغ و تبر کے ساتھ
بدلیں گے چہرے بھی وہ ستمگر کہیں کہیں
صبح دیکھا پانی ہی پانی شجر کوئی نہ تھا
رعشہ پیکر تھے شب مہتاب خمیازہ نہ تھا
لب لرزاں سے کچھ بھی کہہ نہ پائے
بہت ڈھونڈا سراغ مہ نہ پائے
چاندنی اوڑھے ہوئے آجائے گی
دیدہ و دل ہے عجب آشفتگی
جگمگانے لگے در و دیوار
دل میں انوار آفریں کیا ہے
خواب وحشت کے سب مظاہر ہیں
آسماں کیا ہے یہ زمیں کیا ہے
بے صدا شب میں پرندوں کا سفر جاری رہا
شہر اندر شہروں کو کشت و خون ہو جائے گا
کب کہا میں نے کوئی امید اب باقی نہیں
ہاں یہ دیکھا خندہ رو آئے تھے چشم نم گئے
حامدی کاشمیری کے یہاں روایتی الفاظ کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ اور تراکیب بھی دیکھنے میں آتے ہیں مثلاً پانی کی دیوار، پتھریلی خاموشی،گونگی پرچھائیاں ،منجمد پیڑ، زرد دوپہر، آگ کے سائے، کالے شبد،روشنی کے خواب، بخت خموشیاں، وغیرہ جیسے علامتی الفاظ و تراکیب ا ستعمال سے ان کی شاعری میں ایک نیا آہنگ اور موسیقی پیدا ہو گئی ہے۔
جہاں تک حامدی کاشمیری کی نظموں کا تعلق ہے ان میں بھی شدت، تازگی، اور احساسا ت کی گرمی پائی جاتی ہے۔ ان کی نظموں میں علامتی اور تشبیہاتی نظام۔ الفاظ کو نئے انداز میں پیش کرنے کاڈھنگ، خاص طور پر متاثر کرتا ہے۔ جہاں ان کی نظموں میں کار ثواب، سیاہ کھائی، رعشہ شجر حجر وغیرجیسے الفاظ اور تراکیب کثرت سے ملتے ہیں وہاں ان میں نئی نئی تشبیہات و استعارات بھی نظر آتے ہیں۔ پتھریلے چہرے، پانی کی دیوار، پتھر کی تحریر، ریتیلے ہونٹ ، بوڑھا دروازہ، وغیرہ جیسی تراکیب ان کی نظموں میں اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ان اصطلاحات کو انھوں نے بروئے کار لا کر اپنی شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ چند نظموں کے اقتباسات ملاحظہ کیجیے جن میں خیالات کی تازگی، زبان و بیان کا انوکھاپن اور جذبات و احساسات کی فراوانی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے مثلاً
ہر شے آنکھیں ملتی جاگی، گھبرائی سی/ مٹی کی دیوار خجل ہے/ کیسے ٹیڑھے میڑھے جسم کے گہرے گھاوچھپائے/ کیاری میں پھولوں پر/ دھول جمی ہے/ سبزے کے سینے کھنڈر/دروازوں پر جالے/ کوڑا کرکٹ
(نظم : آنگن کا اقتباس)
میں نے ہتھیلی کھولی/ اک بے نام پرندہ/ فر سے اڑا/ زرکار پروں پر/ نام کوئی کندہ تھا/ نور کی پتی پتی ناچی/ حرف/ ہوا کی نیلی لہروں پر/ شعلہ تحریر ہوئے
(نظم: خواب)
حامدی کاشمیری کی نظموں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں، اسی کو الفاظ کے تانے بانے سے مناسب پیکروں کے ذریعے سے خوبصورت موڑ دے کر پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی فنی چابکدستی اور فنکارانہ خلوص سے اپنی نظموں میں بھی اپنی غزلوں کی طرح نئے رنگ بھر دیے ہیں۔ ان کی نظمیں اپنے مخصوص لب و لہجہ، ڈکشن اور موضوع و ہیئت کے اعتبار سے انفرادی خصوصیت کی حامل ہیں ان میں زبان و بیان کے ساتھ فضا آفرینی، مقام اور ماحول ، کا انوکھا پن ،انتخاب اور بیان کا انفرادی رنگ خاص طور پر جھلکتا ہے۔ان کی نظمیں، آنگن، چنار خواب، دھنک، آنکھیں، اعتراف، نقطے اوراق وغیرہ میں ایک نہ ختم ہونے والے خیالات کا سلسلہ ملتا ہے۔ چنار ایک پرانی نظم ہے اس نظم میں ایک پر اسرار کیفیت ،ملتی ہے خواب، آنکھیں، سفر جیسی نظموں میں شکست خوردگی کا احساس ہوتاہے۔دھنک اور نقطے میں انسانی زندگی کے گونا گوں رنگ ملتے ہیں۔ جن سے کائنات اور اس کے اسرار کا تانا بانا سامنے آجاتا ہے کوہ سبز پر ان کی ایک طویل نظم ہے۔ یہ نظم دراصل بہت ساری نظموں کا سلسلہ ہے جس میں ان کے ذاتی تجربے اور مسائل ملتے ہیں جن کو انھوں نے خارجی رنگ دے کر بیان کیا ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے انوکھے تجربات نظر آتے ہیں۔
حامدی کاشمیری سر زمیں کشمیر کے ایک معتبر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نقاد، محقق اور دانشور تھے۔ اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے ۔
Dr. Premi Romani
D-1806, Asawari Nandad
City Sged Road
Pune - 411068 (MS)
ماہنامہ اردو دنیا شمارہ مارچ 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں