قاضی
عبدالستار کا اسلوب
احمد خان
قاضی عبدالستار کسی شخص کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک کلچر اور ایک عہد کا نام ہے۔جس میں اودھ کی زوال پذیر جاگیردارنہ تہذیب، ٹوٹتی، بکھرتی اور سسکتی نظر آتی ہے۔اردو فکشن میں قاضی صاحب کا قد ان کے معاصرین میں بہت بلندہے۔ ان میں تاریخ اور معاشرت کو ہتھیلی پر رکھ کر دیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ وہ بیک وقت ایک شفیق و خوش بیان استاد، ناقد، محقق، مفکر، مدبر اور صاحبِ اسلوب فکشن نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے نمودار ہوتے ہیں۔قاضی عبدالستار کی ولادت سیتا پور (اودھ) کے ایک گاؤں مچھریٹہ میں 9 فروری 1933 کو ہوئی۔ ان کا تعلق جاگیردار گھرانے سے ہے۔ انھوں نے ایک ایسے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولیں جب جاگیر دارانہ نظام زوال پذیر تھا اور تہذیبی قدریں ٹوٹنے اور بکھرنے لگی تھیں۔قاضی صاحب کی تخلیقات میں جاگیردارانہ تہذیب،روایتی اقدار، اخلاقی پستی، معاشرتی جرائم، معاشی زوال، تقسیم ہند، فسادات، ہجرت،عصری حسّیت اور تاریخ کا ایک نگار خانہ آباد ہے جس میں ادبی، سماجیاتی اور تاریخی نقطۂ نظر سے گراں قدر جواہرات بکھرے پڑے ہیں۔ انھوں نے جاگیر دارانہ تہذیب و ثقافت کی ٹوٹتی بکھرتی قدروں کو جس فہم و ادراک اور درو بست کے ساتھ پیش کیا ہے، یہ انھیں کا حصّہ ہے۔اردو فکشن کا یہ نیّرِ اعظم 29 اکتوبر، 2018 کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا لیکن اپنے پیچھے افسانوی ادب کا ایک ایسا سرمایہ چھوڑ گیا، جس کی تابانی ہمیشہ قائم رہے گی۔
قاضی عبدالستار اردو ادب میں صاحبِ اسلوب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو فکشن میں گرانڈ اسٹائل (اسلوبِ جلیل ) قاضی صاحب کا رہینِ منت ہے۔ اردوئے معلی کی روایت اگر چہ اپنی رنگینی، تابناکی اور دلکشی کے لیے مشہور ہے لیکن اس کے اندر شعورو ادراک پر ہیبت اور احساس پر لرزہ طاری کر دینے والا لہجہ اردو کو قاضی عبدالستار کی دین ہے۔ قاضی صاحب کو لفظیات پر دسترس حاصل ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی جادوگری کا یہ عالم ہے کہ قاری ایک جملے کو بار بار پڑھنے اور داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔قاضی صاحب کے اسلوب کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ جاننا بہتر ہوگا کہ اسلوب کیا ہے؟ دراصل فنکار کے اندازِ بیان، طرزِ فکر اور اندازِ تخلیق کو اسلوب کہتے ہیں۔ اسلوب نام ہے منفرد اچھوتے بیان کا۔ اسلوب ادیب اور شاعر کی شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ ندرت ایک اچھے اسلوب کی پہچان ہے۔ اسلوب فنکارکا ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذات کی ترجمانی، عہد اور معاشرے کی عکاسی اور اپنے احساسات و جذبات کو اچھوتے اور مؤثر اندازِ بیان کے ساتھ قاری تک پہنچاتا ہے۔ پروفیسر منظرعباس نقوی:
’’اسلوب ادیب کی شخصیت کا مظہر ہے۔ ابلاغ خیال کا وسیلہ بھی اور ادب کا اہم تقاضا بھی۔‘‘ 1
اسلوب ایک ایسا آرٹ ہے جو مصنف کی ذات، شخصیت، علمی بصیرت،طرزِفکراور اندازِ بیان کا ایک فعال مجموعہ ہے۔ کسی فن پارے میں اس کے خالق کی شناخت اسلوب کا فنی تقاضا ہے۔ اسلوب صاحب اسلوب کے ایک ایک لفظ ایک ایک جملے، اس کی فہم و فراست اور اس کی ذاتِ گرامی کا ضامن ہوتاہے۔ اسلوب کی حیثیت بعض اوقات ایک لباس کی ہوتی ہے جو کبھی تصنع اور مرصع ساز پیکر میں منظر عام پر آتا ہے تو کبھی سادگی، شستگی کے ساتھ۔ اگرچہ خیال الفاظ کاجامہ زیب تن کر کے معرض وجود میں آتا ہے لیکن بیان کی ندرت اورتخاطب کی انفرادیت اسے پایۂ عظمت کو پہنچا سکتی ہے۔مؤثر اسلوب صرف مصنف کی ذات کا ہی ترجمان نہیں ہوتا بلکہ وہ موضوع کے تقاضے اور کردار کی لیاقت کے حساب سے بھی تشکیل پاتا ہے۔بعض اوقات اسلوب مصنف کے افکار اور واقعات کے بھی تابع ہوتا ہے جہاں قاری مصنف کے اندازِ بیان سے بے نیاز اس کے خیالات کی ندرت اور واقعات کی جاذبیت کے سحر میں رہتا ہے۔اس ضمن میں Percy Lubbokکی رائے کچھ یوں ہے:
’’ناول نگار جس اسلوب میں چاہے واقعات بیان کرے، قاری کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ناول نگار کی زبان اور اندازِ بیان سلو لائیڈ کے مشابہ ہے جس میں فلمی کہانی کے واقعات محفوظ ہوتے ہیں۔سنیما دیکھتے وقت ہم صرف واقعات میں محو رہتے ہیں۔ سلو لائیڈ کا خیال ہمارے ذہن میں نہیں آتا۔‘‘ 2
اسلوب کی تشکیل میں ادیب کی علمی استعداد، ادبی ذوق اور ادب سے متعلق اس کے واضح نقطۂ نظر کا براہِ راست دخل ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلوب کو ادیب کا شخصی ترجمان کہا جاتا ہے۔کسی بھی ادیب کے اسلوب پر اس کے عہد اور ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے۔معاشرے کا ادبی ذوق اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، فکری اور اقتصادی نظام کی پیداوار ہوتا ہے جس کا اثر مصنف کے فکری میلان پر ضرور رہتا ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں موضوع کا بھی دخل ہوتا ہے۔ہر موضوع ایک الگ اسلوب کا حامل ہوتا ہے۔ادیب موضوع کے اعتبار سے ہی اپنے اندازِ بیان میں دلکشی، رنگینی اور انفرادیت پیدا کرتا ہے۔مثلاً علمی، تاریخی، سماجی، صحافتی اور سائنسی موضوعات پر ایک ہی مصنف کا طرزِ تخاطب ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ قاضی عبدالستار کے مطابق اسلوب کا انتخاب ادیب نہیں موضوع کرتا ہے۔ذیل کے اقتباس میں انھوں نے موضوعات اور اسلوب کے باہمی رشتے، الفاظ کی موزوں ترتیب اور کردار کی زبان پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے:
’’میں نے اپنے تمام ناولوں میں ان کے موضوعات کے مطابق اسلوبِ نگارش کی تخلیق کی کوشش کی ہے جس طرح مصور کے پاس رنگ ہوتے ہیں اور وہ ہر موزوں تصویر کی مناسبت سے رنگ کا استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح مصنف کے پاس لفظ ہوتے ہیں جن کے انتخاب اور ترتیب سے وہ اپنے اسلوب کو سجاتا ہے اور سنوارتا ہے۔ نہ اکبر، بدھو کی زبان میں گفتگو کر سکتا ہے اور نہ بدھو اکبر کی زبان بول سکتا ہے۔ جن حضرات نے مموں لالہ، سینگ، روپا، ٹھاکردوارہ، پہلا اور آخری خط، شب گزیدہ، صلاح الدین ایوبی اور دارا شکوہ کا مطالعہ کیا ہے انھیں غالب کی نثر بھی مختلف معلوم ہوگی۔‘‘ 3
اسلوب کی تشکیل میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ادیب کس کے لیے لکھ رہا ہے؟ جن کے لیے تخلیق کر رہا ہے ان کا ادبی ذوق کیسا ہے؟ وہ کس طبقے اور کس عہد کے پروردہ ہیں؟ کیونکہ ایک اچھے اسلوب کی پہلی کڑی ترسیل و ابلاغ ہے۔ مصنف جن کے لیے لکھ رہا ہے، ان تک براہِ راست فن پارے کی ترسیل کا نام ہی فنکاری ہے۔
قاضی عبدالستار اسلوبِ جلیل کے علم بردار ہیں، انھیں لفظیات پر دسترس حاصل ہے۔ وہ لفظوں کے ذریعے کرداروں کے مردہ جسم میں روح پھونکتے ہیں۔ شہر کی زبان ہو یا دیہات کی، مقامی زبان ہو یا تہذیب کی، یاکہ علامتی و استعاراتی زبان ہو، قاضی صاحب کو ان پر قدرت حاصل ہے۔ قاضی صاحب کے اسلوب میں عظمت و جلال، کشش و جاذبیت، سادگی و شائستگی و قطعیت، انانیت پسندی، خطیبانہ اندازِ بیان اور تخلیقی نثر کا ایک ہرا بھرا گلستاں آباد ہے۔بقو ل شمس الرحمٰن فاروقی :
’’ قاضی عبدالستار Paradoxes کے بادشاہ ہیں۔ ان کا فن ایڈگر ایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قلم میں گزشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیز قوت ہے۔ان کی سب سے بڑی قوت ان کی حاضراتی صلاحیت ہے جو دوجملوں میں کسی مکمل صورتِ حال کو زندہ کردیتی ہیں۔‘‘4
چونکہ اسلوب ادیب کی شخصیت کا مظہر ہوتا ہے لہٰذا قاضی صاحب کی نگارشات میں جو اسلوب ملتا ہے اس پر ان کے افکارو نظریات اور داخلی حس کا گہرا اثر ہے۔قاضی صاحب جاگیردارانہ نظا م کے پروردہ ہیں۔ اس نظام سے ان کا فطری و جذباتی لگاؤ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ہمدردی جاگیر دار گھرانوں سے واضح طورپر نظر آتی ہے۔ بقول محمد حسن:
’’قاضی عبدالستار کو فضا کا جادو جگانے کا فن آتا ہے۔گو ان کی ہمدردیاں واضح طور پر مرتے ہوئے جاگیر دار طبقے کے ساتھ ہیں جس کی وضع داری اور تہذیبی آب و تاب کو وہ فراموش نہیں کر پاتے۔‘‘5
اسلوب کی تشکیل میں موضوع اور ماحول کا اہم کردار ہوتا ہے۔قاضی صاحب کے معاشرتی ناولوں کا موضوع دیہات کے طبقۂ امرا کے حالاتِ زندگی ہے۔ ان ناولوں میں موضوع اور ماحول کے اعتبار سے ہی قاضی صاحب نے اندازِ بیان اختیار کیا ہے۔ضرورت کے مطابق اگر انھوں نے اردوئے معلی کی زبان سے استفادہ کیا ہے تو اودھی بولی کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔قاضی صاحب نے اپنے ناولوں میں کردار کی زبان کا خصوصی خیال رکھا ہے۔ذیل کے اقتباس میں ایک ہندو کردار کا اندازِ گفتگو ملا حظہ کیجیے:
’’جب سوریہ کے سامنے دیا جلتا ہے تو اندھیرا جاتا ہے...مغل سمراٹ کا مہا کوی اپنے آپ کو صاحبِ عالم کے سرکار میں گونگا پاتا ہے۔من میں لہریں لیتے جوالا ساگر کو ان پوتر چرنوں میں انڈیل دینے کا ساہس (ہمت)نہیں ہوتا۔‘‘ 6
قاضی صاحب کی رنگین بیانی گل افشاں موسموں کی طرح ہے،جہاں خارو گل دونوں اپنے پُر کشش حسن کی طرف قاری کو کھینچتے ہیں اور قاری محویت کے ساتھ اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔قاضی صاحب کے یہاں کرداروں کی اعلیٰ پیکر تراشی اور ایک اچھے اسلوب کے حسن کا بیان ملتا ہے۔قمر رئیس، قاضی صاحب کی علمی و فنی حیثیت اور شب گزیدہ کے متعلق کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
’’قاضی عبدالستار ناول کو قصے کی حیثیت سے دلچسپ بنانے کا گُر جانتے ہیں۔ان کی تخلیقی قوت ہر کردار کو ایک روشن انفرادی پیکر بخشتی ہے۔اودھی بولی کے استعمال سے بھی انھوں نے اپنے کرداروں میں ارضیت اور زندگی کی روح پھونکی ہے۔مجموعی طور پر یہ ناول نئے ذہن میں اور نئی فکر کی اچھوتی تخلیق ہے۔‘‘7
قاضی صاحب کو فضا آفرینی اور ماحول سازی سے انتہائی انسیت ہے۔ وہ پلاٹ کے ہر موڑ پر منفرد فضا آفرینی اور منظر کشی کا جوہر ضرور دکھاتے ہیں۔موصوف کی یہ خوبی ہے کہ ان کے اکثر ناولوں اور افسانوں کا آغاز منظر کشی سے ہوتا ہے۔قاضی صاحب منظر نگاری کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے ذریعے کسی کہانی کو کیسے قائم کیا جاتا ہے۔کہانی کے فن کا یہ ایک بہترین آرٹ ہے جس کے ذریعے کہانی کی فضا اور زمان و مکان پر خصوصی روشنی پڑتی ہے۔ذیل کے اقتباسات میں موصوف کی فنی مہارت اور ندرتِ بیان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’جامع مسجد...مرحوم تاریخ کی مغرور علامت اپنے گنبدوں کے بوجھ کے نیچے کچلی ہوئی دوزانوبیٹھی دونوں میناروں کے عظیم ہاتھ اٹھائے کبھی نہ ختم ہونے والی دعا مانگ رہی تھی...لیکن یہ کس رحیم خداسے کس بدنصیب کی کتنی طولانی دعا ہے، جو قبولیت ہی سے نہیں، تکمیل سے بھی محروم ہے۔‘‘ 8
قاضی عبدالستار کی خوبی یہ ہے کہ وہ کہانی سے کہا نی پیدا کرتے ہیں۔ وہ کرداروں کے حال کو ماضی سے منسلک کر کے نہ صرف قصے میں تہہ داری لاتے ہیں بلکہ کرداروں کے ماضی سے قارئین کو واقف بھی کراتے ہیں جس سے کہانی میں شاخ در شاخ تہہ داری آجاتی ہے اور پیچیدگی بھی۔ قاضی صاحب نے ذیل کے اقتباس میں رونق پور کے نواب میر محمد علی بیگ کی گفتگو کے ذریعے ان کے اجداد کی آن بان، شان و شوکت، اعلیٰ ظرفی اور خود اعتمادی کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔گھاگھرا ندی کے امڈے سیلاب نے جب رونق پور کو اپنے نرغے میں لے لیا تو چودھری گلاب نے نواب سے حویلی چھوڑنے کی استدعا کی لیکن نواب نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا:
’’خدا نہ کرے میں اپنی زندگی میں حویلی کے باہر پاؤں نکالوں اور مرنے والے کے نام پر سیاہی لگاؤں۔ کوئی سو برس پہلے یہیں جہاں حویلی کھڑی ہے یہاں رونق پور کا قلعہ تھا۔ اسی گھاگھرا کی موجوں کی طرح انگریزوں کی توپیں آئی تھیں۔ ان سے آگ برستی تھی اور قلعہ جل کر خاک ہوگیا تھا تو کیا ہم بھاگ گئے تھے؟ ہم مٹ گئے تھے؟ آج پھر مٹ جائیں گے!!‘‘ 9
قاضی عبدالستار کو مرقع کشی میں کمال حاصل ہے۔ وہ کرداروں کی پیش کش میں ان کی شخصیت، زیبائش اور خارجی و داخلی صورت کو جزئیات نگاری کی مدد سے نمایا ں کر دیتے ہیں۔قاضی صاحب، جس معاشرے کو موضوع بحث بناتے ہیں یا جس تہذیب کو اپنے قلم نابغہ سے پروان چڑھاتے ہیں اسے ایک نباض کی حیثیت سے جانچتے، پرکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ان کی نفسیاتی حِس بہت تیز ہے۔ انھوں نے اپنے موضوعات اور کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ جس گہرائی، گیرائی اور فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے، یہ انھیں کا حصہ ہے۔ ان کی گہری سماجی بصیرت بھی اس عمل میں صاف جھلکتی ہے۔ انھوں نے جاگیرداروں کے زوال کو جس درد و کرب کے ساتھ اور منفرد پیرائے میں بیان کیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
قاضی صاحب پیکر تراشی کے فن میں طاق ہیں۔وہ پیکر کے بیان یا مرقع سازی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پیکر تراشی کے ذریعے کردار کی شخصیت، افکار اور قول و عمل کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
مکالمہ، ناول نگار کے اظہارِ خیال کا ایک بہترین آلہ ہے۔ مصنف اپنے کرداروں کی زبان سے، اس کا جو جی چاہتا ہے، ادا کراتا ہے۔مکالمے میں موقع و محل اور کردار کی زبان کا صحیح اور بر وقت استعمال، بڑی کامیابی کی دلیل ہے۔اچھے مکالمے میں چستی،آمد، روانی اور بے ساختگی کا ہونا ضروری ہے۔ قاضی صاحب نے اپنے ناولوں میں اختصار اور ربط کے ساتھ مکالمہ نگاری کی ہے۔ انھوں نے کردار کی زبان کا خاص خیال رکھا ہے اور مرتبے کے لحاظ سے ہی کرداروں کو قوتِ گویائی اور حرکت عطا کی۔
قاضی صاحب نے افسانہ ’آنکھیں‘ میں مکالماتی تکنیک کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔ انھوں نے اس افسانے کو مکالمے کے ذریعے ہی پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اس تکنیک کی مثال شاید ہی کہیں اور دستیاب ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس افسانے پر بیک وقت ایک کامیاب ڈرامے کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔ذیل کے اقتباس میں مغل بادشاہ جہانگیر اور بیگم نور جہاں کے مابین ہونے والی گفتگو میں مکالمے کی ندرت، ڈرامائی فضا اور طرزِ بیان کی اعلیٰ مثال دیکھی جاسکتی ہے:
’’آج کون سی رات ہے بیگم۔‘‘
’’شوال کی چودہویں عالی پناہ۔‘‘
’’بہت خوب... آج کی رات آسمان سے اس لیے اتاری گئی کہ ما بدولت آپ کے سر پر تکمیلِ محبت کا تاج رکھ دیں۔‘‘
’’ظلِ الٰہی...کیا روئے زمین پر کوئی عورت ہے جس کے ہاتھ میں خاتم سلیمانی ہو اور سر پر محبت کا تاج؟‘‘10
قاضی صاحب کرداروں کی زبان کے استعمال میں ماہر ہیں۔وہ زبان کے ذریعے کردار کی شخصیت کی خاطر خواہ ترجمانی کرتے ہیں۔کردار ان پڑھ ہو یا عالم، دیہاتی ہو یا شہری، ان کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
قاضی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کی روح میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کردار کے افکارو نظریات، نفسیاتی پیچیدگی، حرکات وسکنات اور ان کے طرزِ گفتگو کو کچھ ایسے پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ کردار اپنے ظاہری اور باطنی خدو خال کے ساتھ قاری کے دل و دماغ پر چھا جاتا ہے۔اگرچہ ان کے اکثر معاشرتی ناولوں اور افسانوں میں کرداروں کی مقامی اور محاوراتی زبان کا بر محل استعمال ملتا ہے لیکن ان میں ’شب گزیدہ‘ کا اسلوب سب سے زیا دہ دلچسپ، پُر کشش اور بر جستہ ہے:
’’سرکار کے گھوڑے کی خدمت کرتے کرتے عمر بیت گئی تو کا بڑھوتی ماں اب گھر دوار چھوڑ کے کہوں اور چلے جائی!...بات کا کہی مالک۔ رانڈ لڑکی گھر ماں اپنا رنڈاپا لیے بیٹھی ہے تو اوئی بیٹھے نائیں دیت ہیں۔ رستے گلی نکلنا مشکل ہے۔ آج دوپہر میہاں(میں) گھر ماں گھس پڑے، کا ہم گریبن(غریب) کے مرجاد(آبرو) ناہیں ہے مالک۔‘‘ 11
قاضی صاحب کے ناولوں میں جو نسوانی کردار ملتے ہیں ان میں کچھ مسلم جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو کچھ ہندو جاگیردار گھرانے سے اور کچھ کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔لیکن قاضی صاحب کایہ کمال ہے کہ ان کرداروں کی زبان کو انھوں نے ایک دوسرے سے مختلف اور حقیقی لب و لہجہ عطا کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
قاضی صاحب نے اپنے زبان و بیان کے محاوروں میں خصوصاً نسوانی محاوروں کا خوب استعمال کیا ہے۔ انھوں نے محاوروں کے ذریعے معاشرتی نظام کی تہذیبی و فکری اقدار کی ترجمانی کی خاطر خواہ کوشش کی ہے۔ محاوروں کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ہر محاورہ اپنے اندر ایک تہذیب، ایک فکر اور ایک کلچر سموئے رہتا ہے۔قاضی صاحب نے محاوروں سے اپنی نثر کو دل نشیں بنا یا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانو ں اور ناولوں میں محاوروں کا برجستہ استعمال نظر آتا ہے۔
’’یہ جو دنیا کے کتّے ہیں ان کی زبانیں بس لٹکتی رہتی ہیں۔‘‘ اے میاں جوتیوں سے آگے آگے چلتی ہیں۔‘‘12
’’ہاں اللہ کی شان! پیر کی جوتی منہ کو آنے لگے۔ کہاں راجا بھوج اور کہاں بھجوا تیلی۔‘‘13
قاضی عبدالستار ایک خطیبانہ طرزِ تخاطب کے مالک ہیں۔ وہ قاری کو اپنے اندازِ بیان میں اسیر کر نے کا گُر جانتے ہیں۔ان کی عالمانہ گفتگو اور سحر انگیز اسلوب، قاری کے ذہن پر چھایا رہتا ہے۔قاضی صاحب بولتے رہتے ہیں اور سامع سنتا رہتا ہے۔انھوں نے اپنے ناولوں میں اس فن کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔ان کے کردار بعض اوقات جملے کے جملے بولتے چلے جاتے ہیں جیسے وہ خطاب کر رہے ہوں۔ ان کے معاشرتی ناولوں میں قدامت پرست جاگیر دار ایک طرف اپنی تہذیبی اقدار اور روایت کی وکا لت کرتا ہے تو دوسری طرف روشن خیال اور جدت پسند جاگیر دار نئی اقدار کے فوائد بیان کرتا نظر آتا ہے۔در اصل قاضی صاحب نے خطیبانہ لب و لہجے کو اس خوبصورتی سے برتا ہے کہ قاری اس کی کشش اور مٹھاس میں محو ہو جاتا ہے۔
قاضی عبدالستار کے اسلوب میں ان کی انانیت پسندی کی جھلک بھی ملتی ہے۔اسلوب کی یہ انانیت، فکر کی گہرائی، تخیل کی رفعت، زبان کی بلند آہنگی اور ندرتِ بیان میں مضمر ہوتی ہے۔قاضی صاحب کی اکثر تخلیقات متذکرہ نکات سے آراستہ ہیں۔ انھوں نے ہر لمحہ فکری میلان کے نئے گل بوٹے کھلائے ہیں۔ندرتِ بیان کا یہ عالم ہے کہ ہر جملے میں اسلوب کی ایک نئی دنیا بسا دی ہے:
’’سامو گڑھ نے یہی نہیں کیا کہ ہندوستان کا تاج دارا سے چھین کر اورنگ زیب کے سر پر رکھ دیا۔ بلکہ مغل تاریخ کے اس زرّیں باب پر مہر لگا دی جسے اکبر کا عہد کہا جاتا ہے۔‘‘ 14
’’کا غذ کا وہ پرزہ جو یوروپ کی تاریخ میں ایک نیا باب کھولنے کے لیے دمشق آیا تھا لا علم قدموں کے نیچے کچل کر مر گیا جیسے قومیں تاریخ کے قدموں سے کچل کر مر جاتی ہیں۔‘‘ 15
قاضی صاحب کے اسلوب سے عظیم تصّورات کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ بہت ہی اختصار میں بڑی سی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ لفظوں کو موزوں ترتیب دینے میں وہ ماہر ہیں۔ان کے اندازِ بیان کی عظمت اور جلال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی صاحب کے طرزِ بیان کی خوبی یہ ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ سے نہ صرف رنگینی ٹپکتی ہے بلکہ جاہ و جلال اور بلند آہنگی بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔جب وہ خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی کو اپنے ناول میں قوتِ گویائی بخشتے ہیں تو ان کا ہر جملہ تصورات کی عظمت سے مزین ہوتا ہے۔
قاضی عبدالستار ایک ایک لفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ انھیں الفاظ کے درو بست اور موزون استعمال کا فن آتا ہے۔قاضی صاحب کی یہ خوبی ہے کہ انھیں دیہات اور شہر دونوں کی زبانوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ان کا اسلوب پل میں رنگ بدلتا ہے۔ وہ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کردار اور ماحول کے عین مطابق ہوتی ہے۔وہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کرداروں کی زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
قاضی عبدالستار کے یہاں پیچیدہ گوئی، گہرائی اور مشکل پسندی بھی ہے۔ انھیں صنعت کاری کے نت نئے خطرات سے کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ وہ اس کھیل اور مشکل صنعت کو خس و خاشاک سمجھتے ہیں۔لیکن اس کھیل میں کبھی کبھی موضوع یا مرکزی خیال، اسلوب اور صنعت پیمائی کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے۔جس کے باعث قاری مرکزی تھیم سے دور لفظیات کی گنجلک دنیا میں الجھ جاتا ہے۔لیکن یہ کیفیت بہت کم جگہوں پر پیدا ہوئی ہے۔عام طور سے ان کا اسلوب قصّے کے بہاؤ میں مزید تیزی پیدا کرتا ہے اور قاری کو قصّے سے باندھے رکھتا ہے۔قاضی عبدالستار کی یہی جاذبیت قاری کی تشنگی کو ہر لمحہ برقرار رکھتی ہے۔
تخلیقی نثر کسی بھی اسلوب کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اس کے بغیر اسلوب کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ قاضی عبدالستار جیسے صاحبِ اسلوب، اس فن سے مستثنیٰ ہو سکتے تھے۔ انھوں نے اسلوب کی گود میں تخلیقی نثر کے ایسے پر کشش گلشن کو پروان چڑھایا ہے جس کی خوشبو اور ہر یالی سے اردو ادب آج بھی معطّر اور شاداب ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ بقول قاضی عبدالستار :
’’تخلیقی نثر کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا ہے، وہ موضوع کے بیج سے درخت کی طرح پھوٹتی ہے اور شاخ پر پھول کی طرح پھولتی ہے۔تخلیقی نثر کسی رنگ کی بھی پابند نہیں ہوتی۔ تخلیقی نثر پہاڑوں کی وہ برف ہے جو موضوعات کے سورج کی ہر کرن سے رنگ مانگ لیتی ہے اور صد رنگ ہو جاتی ہے۔‘‘ 16
دراصل تخلیقی نثر ہی کسی فن پارے کو گلدستۂ ادب بنا سکتی ہے اور اسلوب کو گل و بلبل کے نغمے اور فغاں سے روشناس کرا سکتی ہے۔ قاضی صاحب کی کوئی بھی تحریر یا نثر ایسی نہیں، جو تخلیقیت سے معرّیٰ ہو۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں تخلیقی نثر کی ایک دنیا بسا دی ہے جس میں سادگی و شائستگی بھی ہے اور دلکشی و رنگینی بھی۔
حواشی و حوالے
1۔ اسلوبیاتی مطالعے، منظر عباس نقوی،ص14
2۔ اردو ناول پریم چند کے بعد، ڈاکٹر ہارون ایوب،پبلشرز لکھنؤ،1978، ص228
3۔ غالب، قاضی عبدالستار، ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1986، ص8
4۔ آئینۂ ایام (قاضی عبدالستار کے بہترین افسانے)،ڈاکٹر محمد غیاث الدین، ایجو کیشنل بک ہاؤس دہلی، ص14-15
5۔ جدید اردو ادب،محمد حسن، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1975، ص56
6۔ داراشکوہ،قاضی عبدالستار،ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1988،ص10
7۔ تلاش و توازن، ڈاکٹر قمر رئیس، دہلی، 1967،ص63-64
8۔ بلا عنوان، مشمولہ آئینۂ ایام، ڈاکٹر محمد غیاث الدین، ص150
9۔ مالکن، مشمولہ آئینۂ ایام، ڈاکٹر محمد غیاث الدین،ص99
10۔ آنکھیں، مشمولہ آئینۂ ایام، ڈاکٹر محمد غیاث الدین،ص214
11۔ شب گزیدہ، قاضی عبدالستار، ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1988، ص14
12۔ غالب، قاضی عبدالستار،ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1986، ص28
13۔ شب گزیدہ،قاضی عبدالستار،ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1988، ص26
14۔ دارا شکوہ،قاضی عبدالستار، ص190
15۔ صلاح الدین ایوبی، قاضی عبدالستار،ص192
16۔ بحوالہ آل احمد سرور(مرتب): اردو فکشن، تخلیقی نثر، قا ضی عبدالستار، ص384
Dr. Ahamad Khan
Asst. Prof, Depf of Urdu, Zakir Husain Delhi College, University of Delhi, Jawaharlal Nehru Marg, New Delhi -110002.
Email: ahmadk71@yahoo.co.in
Ph. 91+9868701491/9540911224
ماہنامہ اردو دنیا شمارہ مارچ 2019
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں