7/3/19

اردو افسانے کی تخلیقی جہات مضموڹ نگار صدیق محی الدین



اردو افسانے کی تخلیقی جہات 
صدیق محی الدین
اردو افسانوی ادب کو سمت و رفتار عطا کرنے میں داستانوں کا اہم حصہ رہا ہے۔ بشمول فورٹ ولیم کالج اوردیگر داستانوں کے اثرات سے اردو کے افسانوی ادب نے یقیناًاستفادہ کیا ہے ۔ بعد ازاں سر سید کی علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کو ہمہ جہت ترقی دینے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اردو نثر کی ترقی میں خطوطِ غالب نے بھی لاثانی کردار ادا کیالیکن علی گڑھ تحریک کا کارنامہ یہ ہے کہ سرسید اور تہذیب الاخلاق کی کاوشات سے ہی اردو نثر میں صنف کا تصور عام ہوا۔ افسانوی اور غیر افسانوی نثری اصناف کی باقاعدہ تقسیم یہیں سے ہوتی ہے ۔ خود سر سید نے اس طرح کی نثر ی اصناف کے نمونے پیش کیے۔
بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی ہندوستان میں سیاسی ،سماجی اور معاشی لحا ظ سے نئے تغیرات اور تحریکات کا آغازہوجاتا ہے ۔ اگرچہ ملک میں مغربی ٹکنالوجی اور صنعتی ترقی سے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں ہورہی تھیں لیکن سیاسی سطح پر زبردست بے چینی کا ماحول پیدا ہو چلا تھا۔برطانوی حکومت کے خلاف مظاہرے اور تحریکات شروع ہوچکی تھیں ۔ اسی وقت ملک کے حالات میں فرقہ پرستی کے عناصر بھی پروان چڑھ رہے تھے۔ ہندو احیا پرستی کے ساتھ مسلم لیگ کی سرگرمیاں اور تقسیم بنگال اس وقت کے اہم سیاسی اورسماجی مسائل تھے۔ جیسے جیسے تحریکِ آزادی میں شدت آتی گئی تقسیم ملک کی تحریک بھی شدت اختیار کرتی گئی ۔ عالمی سیاست میں پہل اوردوسری عالمی جنگوں نے سیاسی نظریات کو نئی جہات سے آشنا کیا ۔ مختلف ممالک میں عدم تحفظ کا احساس بڑھنے لگا۔ روس کے اشتراکی انقلاب نے بھی عالمی معیشت کو متاثر کیا ۔ 
غرض بیسوی صدی کے ربع اول میں جہاں پر مختلف سیاسی قائدین حصول آزادی کے لیے کوشاں تھے وہیں پر مختلف ادیب وشاعر بھی اپنی تخلیقات میں آزادی اور اخوت کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔ معاشی لحاظ سے زمینداری اورسرمایہ داری نظام کی جڑیں مضبوط ہو چکی تھیں ۔اسی دور میں اردو میں ناول نگاری کی روایت تو قائم ہوچکی تھی لیکن اردو افسانہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔پریم چند سے قبل اردو افسانہ نگاری میں کچھ انفرادی کاوشات سے قطع نظر اس دور کے سب سے اہم افسانہ نگار یقیناًپریم چند ہی ہیں ۔ پریم چند نے اردو افسانے کو سمت و رفتار و جہت دی ہے ۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’سوزِ وطن ‘ حبُّ وطن اورسیاسی بیداری کے جذبات کا ترجمان تھاجس پر انگریزی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی لیکن اس سے پریم چند کے عزم و حوصلے میں کمی نہیں آئی ۔ ’سوزِ وطن‘ کے افسانوں پر داستانی اسلوب واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ۔ اب پریم چند افسانہ نگاری کو اپنے تخلیقی اظہار کا اہم ذریعہ بنا چکے تھے۔اب ان کے موضوعات کا دائرہ وسیع اورمتنوع ہو چکا تھا۔ ان کا سروکا ر چونکہ دیہی زندگی سے تھااس لیے وہ دیہاتی زندگی کے سماجی ، معاشی اورمذہبی مسائل سے بھی بخوبی واقف تھے۔ غربت ، ناخواندگی،توہم پرستی اورغلط مذہبی رسم و رواج جیسے مسائل سے دیہی سماج آلودہ تھا۔معاشی سطح پر زمینداری اورساہوکاری نظام نے عوام الناس کی زندگی بری طرح سے متاثر کردی تھی۔ ان سب مسائل پر پریم چند کی گہری نظر تھی اور ان کی ترجمانی انھوں نے اپنے افسانوں میں موثر طریقے سے کی ہے ۔کسانوں ،مزدوروں اور محنت کش طبقے کی بدحالی کو عیاں کیا ۔ انھوں نے غریبوں اورکسانوں کے دکھ درد کو قریب سے دیکھاتھا۔ اس دکھ دردکا اظہار اپنی متعدد کہانیوں میں کیا ہے۔ ذات پات کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔غرض پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماجی حقیقت نگاری کی بے مثال روایت قائم کی ہے۔ ’پوس کی رات‘ ’سجان بھگت‘ ’نئی بیوی ‘ اور ’کفن‘ جیسے شاہکار افسانے آج بھی تازہ کار ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے متعدد افسانے آج بھی اثر آنگیز ہیں ۔پریم چند کی اس افسانوی روایت کو آگے بڑھانے والے اہم افسانہ نگار علی عباس حسینی، اعظم کریوی اور پنڈت سدرشن وغیرہ بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں ۔اس دور میں پریم چند ایک قافلہ سالار کی طرح افسانہ نگاری کی قیادت کرتے رہے ۔انھوں نے اردو افسانے کو یقیناًنئی جہات سے آشنا کیا ۔
پریم چندکی سماجی حقیقت نگاری کے متوازی اردو افسانے میں ایک دوسرا رجحان رومان پسند یا ادب لطیف کے تخلیق کاروں کا تھا۔ ان میں نمایاں طورپر سجادحیدر یلدرم ، نیاز فتح پوری ، مجنوں گورکھپوری ، خلیق دہلوی اوردیگر مصنّفین شامل ہیں ۔ نیاز فتح پوری نے اپنے جریدے نگار میں اس رجحان کی خوب پزیرائی کی لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ نیاز فتح پوری یا ادب لطیف کی یہ افسانوی روایت لذت و انبساط تو عطا کرتی ہے،کسی پری تمثال کے عشوہ و ناز اور دلفریبوں سے مدہوش تو کرتی ہے ، یہ تاثر یقیناًلمحاتی ہوتا ہے۔اس سے زندگی کاعرفان اورحقائق کا ادراک نہیں ہوتا۔اس لیے جب آج ہم اس رومانی رجحان کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ اپنے عہد کے سماجی مسائل اورحقائق سے ایک نوع کا فرار تھا۔ادب میں جنسی مسائل اور رومانی احساس شجرِ ممنوعہ نہیں ہے لیکن بقول فیض احمد فیض’ اوربھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘غرض یہ کہ رومانیت کا یہ رجحان ادب میں ایک وقتی شعلہ بن کر رہ گیا۔اس وقت ہندوستان کی سیاسی ،سماجی اورمعاشرتی زندگی شدید بحران کا شکار تھی ۔ آزادی کی تحریک شدت اختیار کرچکی تھی۔ انگریزی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیارکیا جارہا تھا۔ شعر و ادب میں بھی اس کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اردو افسانے کے رجحانات میں ’ انگارے ‘ کی اشاعت یوں کوئی بہت بڑا انقلاب تو نہیں تھا لیکن افسانہ نگاری کی روایت میں ایک نیا تجربہ ضرور کہہ سکتے ہیں ۔ کچھ ہی عرصے بعد ترقی پسند ادبی تحریک وجود میں آتی ہے جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت خود پریم چند نے کی تھی۔یہ تحریک اپنے وقت میں بے حد مقبول ہوئی۔اس وقت کے اہم شاعروں اورادیبوں نے اس کی حمایت کی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ادیب اورشاعر ترقی پسند ہوتا ہے۔وہ انسانیت اور معاشرے کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ترقی پسند تحریک کی بنیاد اگرچہ اشتراکی نظریے پر قائم تھی لیکن اس کے مقاصد بہر حال آزادی، مساوات ، جمہوریت، طبقاتی نظام کاخاتمہ اور اصلاح و ترقی تھے۔آگے چل کر اس میں سیاسی شدت پسندی پیدا ہوگئی جو اس کے زوال کا سبب بن گئی لیکن اس کے باوجودبیسوی صدی میں یہ سب سے بڑی ادبی تحریک تھی۔یہ دور اردو افسانہ نگاری کا زرین دورکہا جاسکتا ہے۔اس عہد میں اردو افسانے کے مختلف رجحانات اسالیب نمودار ہوئے۔پریم چند نے سماجی حقیقت نگاری کی جس روایت کو استوار کیا تھا اس کی توسیع ترقی پسند تحریک کے عہد میں ہوئی۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر،عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی،احمد ندیم قاسمی، اوپندر ناتھ اشک،حیات اللہ انصاری،دیوندر ستیارتھی،سہیل عظیم آبادی،غلام عباس ،اشفاق احمداور ممتازمفتی جیسے افسانہ نگاروں نے آزادی سے پہلے بھی افسانے میں اپنی شناخت قائم کی تھی۔آزادی کے بعدبھی یہ لوگ مسلسل افسانوی تخلیقات میں اضافے کرتے رہے۔انھیں اردو کے عہد ساز افسانہ نگار کہنا چاہیے۔ان افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں متنوع موضوعات اسالیب اور فکری و فنی رجحانات دیکھے جاسکتے ہیں ۔کم وبیش ایک ہی عہد میں رہتے ہوئے ان سب کے متنوع تخلیقی اظہارات سے افسانے نے ارتقاکے ہفت خواں طے کیے اوریہ نثری بیانیہ کی سب سے مقبول اورترقی یافتہ صنف کی حیثیت سے روشناس ہوا۔اس عہد میں ایسے افسانہ نگار شامل ہیں جو آزادی سے پہلے بھی متعارف ہوئے تھے اورآزادی کے بعدبھی اپنی شاہکار تخلیقات سے اردو افسانے کی روایت کوآگے بڑھایا۔منٹو نے آزادی سے پہلے کے سیاسی حالات پر بھی موثر افسانے لکھے جن میں ’نیا قانون‘ ، ’1919 کی ایک بات‘قابل ذکر ہیں ۔آزادی کے بعد تقسیم ہند اور فسادات پر منٹو نے بے حد اثر انگیز اور کامیاب افسانے لکھے اس دور کی افسانہ نگاری کا ایک بڑا اوراہم موضوع تقسیم ہند اور فرقہ وارانہ فساد ات ہیں۔ اس موضوع پر منٹو ،بیدی، عصمت چغتائی، کرشن چندراور احمد ندیم قاسمی وغیرہ نے موثر افسانے لکھے۔فسادات کے سبب بے شمار افراد مارے گئے۔ نقل مکانی اورہجرت نے بے روزگاری جیسے مسائل کو پیدا کیا ۔ سماجی لحاظ سے عدم تحفظ کا احساس شدید ہونے لگا۔غرض تقسیم اور فسادات نے متنوع سماجی ،معاشی اور نفسیاتی مسائل کوجنم دیا۔اس دورکے افسانوں میں ان تمام مسائل کی ترجمانی موثر طریقے سے کی گئی ہے۔ اس دور کے ایک اہم افسانہ نگار حیات اﷲانصاری ہیں ۔پریم چند نے جس سماجی حقیقت نگاری کی روایت کو پیش کیا تھا حیات اﷲانصاری نے اس روایت کی توسیع کی ۔ بطور خاص ان کا افسانہ ’آخری کوشش‘اس نوع کی سماجی حقیقت نگاری کا شاہکارہے ۔ یہ افسانہ پریم چند کے ’کفن‘ کے آگے کی منزلیں طے کرتا ہے۔حیات اﷲ انصاری نے اس کے ذریعے انسانی نفسیات اورسماجی ومعاشی حقائق کا خوبصورت تخلیقی مرقع پیش کیا ہے۔یہ اردو افسانے کی نئی تخلیقی جہات کو ظاہرکرتاہے ۔اس شاہکار افسانے میں حیات اﷲ انصاری نے غربت ،معاشی بدحالی انسان کے شخصی مفادات اور خود غرضی کے روّیے کو موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اس سارے عمل میں انسانی رشتوں کی پامالی افسانے کو المیہ کیفیت سے دوچارکرتی ہے۔غرض ترقی پسند تحریک اوراس کے فوری بعد تک اردو افسانے نے ارتقا کے مختلف جہات طے کیے تھے۔ اپنے عہدکی زندگی کے مختلف مسائل و رجحانات کی ترجمانی افسانہ نگاروں نے بڑی عمدگی کے ساتھ کی ہے۔اب تک افسانے میں بیانیہ تخلیقی اظہار کو اثر انگیز طریقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ کہانی کا آغاز اورپھر اس کا فطری طور پر تدریجی ارتقا اورکسی ایک نقطۂ ارتکاز پر اس کا اختتام منطقی طور پر بھی متاثر کرتا تھا۔ کہانی ،پلاٹ اورکرداروں کا باہمی اتحاد وسروکار افسانے میں وحدت تاثر کو اثر انگیز بناتا تھا۔افسانے کے یہی وہ فنی عناصر تھے جس سے کہانی کے نشیب و فراز اوراختتام میں فطری ربط اور ہم آہنگی پائی جاتی تھی جسے افسانے میں کہانی پن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اب تک افسانہ ایک لحاظ سے خط مستقیم میں سفر کررہا تھا۔ترقی پسند تحریک کے عہد میں کئی نامور افسانہ نگار وجود میں آئے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔اپنے انفرادی فکرو تخیل اور تخلیقی رجحان کی بنا پر انھوں نے اپنی شناخت قائم کی۔ ایسے افسانہ نگاروں میں منٹو، بیدی، اوپندرناتھ اشک کے نام اہم ہیں۔ان افسانہ نگاروں نے اپنے دور کے مسائل و رجحانات کو موثر طور سے پیش کیا ۔ افسانے کی روایت کو فکری و فنی لحاظ سے بھی درجہ کمال کو پہنچایا۔
ترقی پسند تحریک کے ختم ہوتے ہوتے ملک کے حالات بہت کچھ بدل چکے تھے۔ ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آچکا تھا۔ فسادات ، ہجرت ، جلاوطنی جیسے مسائل سے زندگی المناک ہو چکی تھی۔ہجرت کے نتیجے میں بے روزگاری کے مسائل پیدا ہوئے ۔ سب سے بڑھ کریہ کہ لوگوں کو اپنی جڑوں سے کٹ جانے کا احساس شدید ہونے لگا۔آزادی کے بعد اگرچہ ہندوستان نے جمہوری نظام حکومت کو اختیار کیا اورملک کی ہمہ جہت ترقی کے لیے پنچ سالہ منصوبوں پر عمل آوری بھی شروع ہوئی۔ سیاسی لحاظ سے اگرچہ ہندوستان کو اپنے پڑوسی ممالک سے سرحدی تنازعات کے نتیجے میں جنگ بھی کرنا پڑی ۔ ظاہر ہے اس سیاسی بحران کا عام سماجی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے اورلازمی طور پر اس کے اثرات اس عہد کے افسانوی ادب پر مرتسم ہوئے ہیں ۔یہ دور اردو افسانے کے تخلیقی تنوع اور توسیع سے عبارت ہے ۔ اس دور میں ملکی اورعالمی سطح پر ہونے والے تغیرات اور فرد کے انفرادی اوراجتماعی مسائل کی ترجمانی بھی نظر آتی ہے۔اس عہد کے نمایاں افسانہ نگار قرۃ العین حیدر ، قاضی عبدالستار، جوگیندر پال ، انتظار حسین اور رام لعل وغیرہ ہیں ۔ اس نسل کے تخلیق کاروں میں قرۃ العین حیدرایک کوہ پیکر شخصیت ہیں ۔افسانہ نگار کے مقابلے میں ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کا درجہ بے حد بلند ہے لیکن افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی انفرادیت قائم ہے ۔انھوں نے افسانے کو بیانیہ کے تسلسل اور ارتکاز سے آشنا کیا ۔ افسانوں میں کہانی ، پلاٹ اورکرداروں کے باہمی ربط کو مستحکم کیا۔ موضوعاتی لحاظ سے بیسوی صدی کے بدلتے حالات بطور خاص اودھ کی جاگیرداری تہذیب کا خاتمہ اورتقسیم ہند کو وہ ایک زبردست المیہ تصور کرتی ہیں ۔جس سے کروڑوں انسانوں کی زندگی متاثر ہوئی۔ برصغیر کی سماجی، تاریخی اورتہذیبی زندگی شکست و ریخت سے دوچار ہوئی ،قومی اتحاد اوریک جہتی کے تصور کا خاتمہ ہوا۔فرقہ پرستی اورمذہبی منافرت کے نتیجے میں مختلف فرقوں میں سماجی خلا پیدا ہوا ۔ جلا وطن ، ہاوسنگ سوسائٹی ، یاد کی ایک دھنک جلے، پت جھڑ کی آواز، ڈالن والا جیسے افسانے اردو افسانے کی تاریخ کا شاہکار کہے جاسکتے ہیں۔ یہ افسانے ان کی تخلیقی فکر کو وسعت اوربلندی عطا کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں عورت بھی حالات کی ستم زدگی اورفریب خوردگی کی شکار نظر آتی ہے ۔ اگر ان کے معاشرتی تصور پر نظر کریں تو واضح ہوتا ہے کہ متوسط طبقے سے زیادہ اعلیٰ طبقے کی زندگی ہی ان کا مرکز توجہ بنتی ہے۔ ان کے ذہنی و فکری سروکار ہندو پاک کے اعلیٰ طبقے کے افرادکے ساتھ رہے ان کی زندگی سماج کے ان ہی طبقات میں گزری ہے ۔ انھیں اودھ کی قدیم جاگیر داری اور زمینداری سماجی نظام سے گہرا لگاؤرہا ہے۔اس نظام کی سماجی اورتہذیبی اقدار ان کی زندگی کا حصہ رہے ہیں ۔اس تہذیب نے ایک مشترکہ قومی کلچر کو جنم دیا تھا۔ آزادی کے بعد اس تہذیب کے ختم ہونے کا المیہ ان کے افسانوی ادب میں شدت سے محسوس ہوتا ہے۔وحید اختراپنے ایک مضمون میں ان کی افسانہ نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ 1
’’قرۃ العین کے یہاں زمیندار اور اعلٰی عہدے دار طبقے کی عکاسی ابتدا سے تھی لیکن ان افسانوں میں ان کی نگاہ میں تجزیاتی گہرائی آگئی ہے ۔ وہ گذشتہ تہذیب کی خوبیوں کے ساتھ اس کے انحطاط کے اسباب کو سمجھ گئی ہیں۔ ان کا یہ تجزیہ معاشیاتی یا عمرانی مقالہ نہیں، یہی ان کی خوبی ہے۔مواقع ، واقعات اور کرداروں کے عمل کے وسیلے سے وہ ایک تہذیب کی موت اور دوسری کی پیدائش و نمو کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتی ہیں ۔وہ تاریخ اور معاشرے کی تبدیلی کی جدلیات سے واقف ہیں۔ اس جدلیاتی عمل کو وہ خشک فلسفیانہ اور سائنسی اصطلاحات کے بجائے انسانی جذبات و احساس ،اقوال و افعال کے فطری اظہار میں دیکھتی اوردکھاتی ہیں ۔کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی ہمدردی انحطاط پذیر ہوتے ہوئے طبقات کے ساتھ ہے اور وہ نودولتیہ طبقے کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں ۔ ایسا فطری ہے، اس لیے کہ اس طبقے کی کچھ انسانی اقدار تھیں ۔اس نئے طبقے کا تمام تر فلسفہ و عمل غیر انسانی و بہیمانہ ہے ۔نچلا طبقہ ان کا موضوع نہیں لیکن ان کی ہمدردیاں ان کے ساتھ بہت واضح ہیں۔ ‘‘
غرض قرۃ العین حیدر نے اردو افسانے کو اپنے عہد کے مسائل تاریخی ، سماجی اور سیاسی پس منظر میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی کی ہے وہ اعلیٰ انسانی اقدار کو اپنے فکروتخیل کی اساس بناتی ہیں۔ انھوں نے اردو کے افسانوی ادب کو یقیناًنئے رجحانات اورجہات سے آشنا کیا ہے ۔
ان کے معاصرین میں ایک اہم افسانہ نگار قاضی عبدالستار یقیناًاپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں وہ بھی اودھ کی سماجی تہذیبی اور زمینداری نظام کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں بیانیہ اپنے تمام عناصرِ ترکیبی کے ساتھ کہانی میں تاثر کی وحدانیت کو قائم کرتا ہے۔
قرۃ العین حیدر ہی کی روایت کے ایک اہم افسانہ نگار انتظار حسین بھی ہیں ۔ ان کے تخلیقی رجحان کا پس منظربھی تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل ہیں ،بطور خاص ہجرت کا کرب ان کے افسانوں میں نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی انسانی مقدرات ،مذہبی عقائد ، خواہشات انسانی ،اور بشری تقاضوں کو وہ افسانوی تخلیق میں خوبصورت اظہار عطا کرتے ہیں ۔اسطور سازی اور داستانوی طرز اظہار میں انھیں کمال حاصل ہے۔ان کے افسانے ’ہندوستان سے ایک خط‘ ’زرد کتاّ‘ ’آخری آدمی‘ ’خواب اور تقدیر‘ ، ’شہر افسوس ‘اور وہ جو کھوئے گئے ۔یقیناًاردو افسانے کو نئی جہات سے آشنا کرواتے ہیں ۔ اتنظار حسین کا یہ کارنامہ افسانے کی تاریخ میں لاثانی ہے۔
اس دور میں افسانہ نگاری کی اس روایت کا حصہ جوگیندر پال ہیں ۔ جوگیندر پا ل کے اپنے شخصی حوالے سے ہجرت کا مسئلہ دوہرا اور پیچیدگی کا حامل ہے۔ان کی ایک ہجرت پاکستان سے ہندوستان اور پھر دوسری ہندوستان سے افریقہ ، اس ساری کشاکش میں اپنی زمینی اورسماجی ،تہذیبی وابستگی سے علاحدگی اورزندگی جینے کے جتن خود ایک صبر آزمامرحلہ ہے ۔ زندگی کی اس بھاگ دوڑ اورگہماگہمی میں انھوں نے اپنے آپ کو کھویا نہیں بلکہ زندگی اور اس کی رنگارنگی اوراپنے وجود کی بقا کا تحرک واضح ہوتا ہے۔یہ تحرک بنی نوع انسان کے ازلی اورفطری جہد بقا کا مظہر بن جاتا ہے ۔ یہی انسانی زندگی کی صداقت ہے ۔جوگیندر پال کے تخلیقی عمل میں عصری سیاست کی چیرہ دستیاں بھی اجاگر ہوتی ہیں ۔صنعتی معاشرہ کی پیچیدگیاں تنہائی کا شدید کرب ،غریبوں کا نسلی ، معاشی اور تہذیبی استحصال اور خود غرضانہ سیاست سے عصری معاشرہ کی آلودگی جیسے مسائل کو بھی جوگیندر پال نے تخلیقی صداقت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اردو افسانے میں جوگیندر پال کی انفرادیت اسی حوالے سے قائم کی جاسکتی ہے۔
دراصل اردو میں جدید افسانہ اپنے قوی تخلیقی اظہارات کے ساتھ اسی دور سے شروع ہوتا ہے ۔ انتظار حسین ،انور سجاد، جوگیندر پال ،بلراج مین را، سریندرپرکاش ،احمد ہمیش جیسے افسانہ نگاروں نے افسانے کے روایتی اسلوب اورساخت کو بڑی حد تک منہدم کیا ہے ۔ روایتی کہانی بڑی حد تک عام فہم اور خط مستقیم میں سفر کرتی تھی۔جدید افسانے میں پلاٹ کی ترتیب بھی پیچیدہ بن گئی اور زمانی ومکانی و حدتیں بھی اکثر و بیشتر مبہم ہونے لگیں ،اسی مناسبت سے کردارکے اعمال و حرکات بھی غیر واضح اور مبہم ہوگئے۔
افسانے کی تخلیق میں یہ پیچیدگی اور شکست و ریخت کچھ تو شعوری اور تخلیقی تجربات کی وجہ سے بھی ہوئی ،کچھ مغربی فکشن کے اثرات کا نتیجہ ہیں اوربڑی حد تک عصری زندگی کی پیچیدگیاں بھی اس کے لیے ذمے دار ہیں ۔ ایک لحاظ سے یہ ایک فطری عمل بھی ہے ۔ادب میں تخلیقی جدّت بہر حال ایک مستحسن قدم ہے۔ منٹو نے ’پھندنے‘ اور ’ دیوانہ شاعر ‘ جیسی کہانیاں غیر ارادی طور پر نہیں لکھی تھیں ۔ 
جدید افسانے کی روایت اردو میں کافی مستحکم بن گئی ۔ بہت سے لکھنے والوں نے جدیدیت کے اس رجحان کو شعوری طور پر اختیار کیا اورافسانے کی تخلیق کے نت نئے اسالیب اختیار کیے۔ یہ افسانہ نگار اپنی عصری زندگی کی پیچیدگی ،معاشی بحران، سیاست دانوں کی موقع پرستی ،معاشی لوٹ کھسوٹ،اقتدار کا غلط اوربے جا استعمال، بڑے شہروں کی وسعت ، روزگار کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت ،صنعتی معاشرے کے پیچیدہ مسائل ، حفظان صحت کے مسائل غرض عصری زندگی کے متعدد مسائل کی ترجمانی جدید افسانہ نگاروں نے فنکاری کے ساتھ کی ہے۔جدید افسانے میں تخلیقی اظہارات کی یہ تبدیلیاں بڑی سرعت کے ساتھ ہوئی ہیں ۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس عہد میں افسانہ ایک متحرک صنف ادب کے طورپر نمایاں ہوا۔اس رجحان کے تحت لکھنے والوں میں سریندر پرکاش ایک نمائندہ حیثیت رکھتے ہیں ۔اگرچہ انھوں نے کم افسانے لکھے لیکن تخلیقی تنوع اورجدت کے لحاظ سے ان کی کہانیاں دلچسپ اور متاثر کن ہیں ۔بطور خاص ان کے افسانے ’باز گوئی ‘ ، بجوکا‘ ، ’تلقارمس‘ ، ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ سرکس جدید افسانے کا روشن باب ہیں ۔بجوکا معاشی استحصال کی ایک خوبصورت کہانی ہے ۔پریم چند کا ہوری جس طرح زمیندار اور ساہوکار کے ظلم اور استحصال کا شکار تھا اسی طرح سریندر پرکاش نے بھی اپنے عہد میں صنعت کار اورنئی معاشی صورت حال میں استحصالی طاقتوں کی نقاب کشائی کی ہے۔علامتی انداز میں لکھی ہوئی یہ کہانی نئے زرعی و معاشی نظام کی نا انصافی اور ظلم کی ترجمان ہے ۔ کھیت کی نگرانی کے لیے بنایا گیا بے جان بجوکا جسے ہوری نے بانس کی پھانکیں چیر کر کھڑا کیا تھا۔ فصل کی نگرانی کے عوض اپنا حصہ کاٹ لیتا ہے ۔ ہوری یہ سب دیکھ کر چونک جاتا ہے ۔وہ پنچایت سے اس کا فیصلہ کرواتا ہے لیکن پنچایت بھی بجوکاکے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس قابل توجہ ہے۔
’’ گاؤں کی چوپال پر پنچایت لگی۔ پنچ اورسر پنچ سب موجود تھے۔ ہوری اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ بیچ میں بیٹھا تھا۔ اس کی دونوں بہوئیں دوسری عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں اوربجوکا کا انتظار تھا۔ آج پنچایت نے اپنافیصلہ سنانا تھا۔ مقدمے کے دونوں فریق اپنا اپنا بیان دے چکے تھے۔ آخر دور سے بجوکا خراماں خراماں آتا ہوا دکھائی دیا ۔ سب کی نظریں اسی طرف اٹھ گئیں ۔ وہ ویسے ہی مسکراتا ہوا آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ چوپا ل میں داخل ہوا ۔سب غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے سر تعظیماً جھک گئے۔ ہوری یہ تماشہ دیکھ کر تڑپ اُٹھا ۔ اسے لگا جیسے بجوکانے سارے گاؤں کے لوگوں کا ضمیر خرید لیا ہے۔ پنچایت کا انصاف خرید لیا ہے۔وہ اپنے آپ کو تیز پانی میں بے بس آدمی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا محسوس کرنے لگا۔
آخر سرپنچ نے اپنا فیصلہ سنایا ۔ ہوری کا سارا وجود کانپنے لگا۔ اس نے پنچایت کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے فصل کا چوتھائی حصہ بجوکا کو دینا منظور کرلیا اور پھر کھڑا ہوکر اپنے پوتوں سے کہنے لگا۔ 
’’ سنو .........یہ شاید ہماری زندگی کی آخری فصل ہے۔ ابھی تھل کھیت سے کچھ دوری پر ہے ۔ میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی فصل کی حفاظت کے لیے پھر کبھی بجوکا نہ بنانا۔ اگلے برس جب ہل چلیں گے۔بیج بویا جائے گا اور بارش کی امرت کھیت میں سے کونپلوں کو جنم دے گا تو مجھے ایک بانس پر باندھ کر کھیت میں کھڑا کر دینا۔بجوکا کی جگہ پر۔‘‘ میں تب تک تمھاری فصلوں کی حفاظت کروں گا۔جب تک تھل آگے بڑھ کر کھیت کی مٹی کو نگل نہیں لے گا اورتمھارے کھیتوں کی مٹی بھر بھُری نہیں ہوجائے گی ، مجھے وہاں سے ہٹا نا نہیں۔۔ وہیں رہنے دینا۔۔تاکہ جب لوگ دیکھیں تو انھیں یاد آئے کہ بجوکا نہیں بنانا ۔۔ کہ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔ ۔ آپ سے آپ اسے زندگی مل جاتی ہے اور اس کا وجود اسے دراتی تھمادیتا ہے۔ اور اس کا فصل کی ایک چوتھائی پر حق ہوجاتاہے ۔
ہوری نے کہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کھیت کی طرف بڑھا ۔ اس کے پوتے اور پوتیاں اس کے پیچھے تھے اور پھر اس کی بہوئیں اور ان کے پیچھے گاؤں کے دوسرے لوگ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔ 
کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری گرااور ختم ہوگیا۔ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے ایک بانس سے باندھنا شروع کیا اور باقی کے سب لوگ یہ تماشہ دیکھتے رہے۔بجوکا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپہ اتار کر سینے کے ساتھ لگا لیااور اپنا سر جھکا دیا۔
سریندرپرکاش کا یہ افسانہ افسانے کی روایتی ہیئت و ساخت کو قائم رکھتے ہوئے تخلیقی جدت کا بے مثل نمونہ ہے ۔ برخلاف اس کے تلقارمس میں سریندر پر کاش نے کہانی کی روایتی ساخت کو توڑا ہے اور ایک لحاظ سے قول محال کی معنوی جہت کو واضح کیا ہے ۔ یہی بات افسانہ ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ۔ غرض سریندر پرکاش اس جدید افسانوی روایت کے ایک نمائندہ تخلیق کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔اپنے افسانوں کی کم تعداد کے باوجود انھوں نے جدید افسانے کو نئی تخلیقی جہات سے آشنا کیا ہے ۔ 
افسانہ نگاری کے اس رجحان کے نمائندہ نام جوگیندر پا ل ، انور سجاد، بلراج مین رااور انور عظیم ہیں ۔ ان افسانہ نگاروں میں جوگیندر پال نے متعدد موضوعات پر کثرت سے لکھا ہے۔بیسویں صدی کے نصف آخر کی سماجی و معاشرتی صورت حال ، صنعتی معاشرے کی افراتفری، فرد کی تنہائی اورسیاست جیسے مسائل بہت سے افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں شخصی تجربات و واردات کی صورت میں نمایاں ہوئے ہیں ۔ اس سلسلے میں جوگیندر پال کے متعدد افسانے پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ بلراج مین را نے بھی اس پس منظر میں فرد کے ذاتی اور وجودی مسائل کو تخلیقی اظہار عطا کیا ہے ۔ بطور خاص ان کا افسانہ ’ وہ ‘ فرد کے وجودی تشخص اورمعاشرے کی سرد مہری اور لا یعنیت کا ترجمان ہے ۔ افسانے کا کردار ’ وہ‘ آدھی رات کو اپنی آنکھ کھل جانے کے سبب سگریٹ کی ڈبیا سے سگریٹ نکا ل کر لبوں میں تھام لیتا ہے اور کمرے میں مختلف جگہوں پر ماچس تلاش کرتا ہے ۔ اسے ماچس کہیں نہیں ملتی اور وہ گھر سے باہر نکل پڑتا ہے ۔ دسمبر کی سرد رات میں وہ ایک چوراہے پر ٹیوب لائٹ کی روشنی دیکھتا ہے۔ ایک حلوائی کی دوکان کے پاس کوئی سو رہا تھا۔وہ اس سے ماچس طلب کرتا ہے ۔ سویا ہوا شخص اسے پاگل جان کر وہاں سے جانے کو کہتاہے ۔ایک اورراہگیر سے وہ ماچس طلب کرتا ہے لیکن یہاں بھی اسے نفی میں جواب ملتاہے ،وہ آگے بڑھتا ہے ۔راستے میں ایک زیر تعمیر پُل کی لالٹین سے وہ سگریٹ جلانا چاہتا ہے لیکن وہاں کا چوکیدار اسے روک دیتاہے ۔ وہ اس چوکیدار سے بھی ماچس طلب کرتا ہے لیکن چوکیدار اسے پولس تھانے لے کر جاتا ہے ۔پولس تھانے کے کمرے میں ایک میزکے گرد بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے ۔ افسانے سے یہ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ سپاہی نے اس کا بازوتھام لیا۔ وہ سپاہی کے ساتھ چل پڑا ۔ تھانہ اسی سڑک پر تھاجو ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔وہ سپاہی کے ساتھ ایک کمرے میں داخل ہوا۔کمرے میں کئی آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔سگریٹ پی رہے تھے۔ میز پر سگریٹ کے کئی پیکٹ اور کئی ماچس پڑی ہوئی تھیں ۔
صاحب ! یہ شخص پل کے پاس کھڑا تھا۔کہتاہے ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اور ماچس کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
تھانے سے اسے نکال دیا جاتا ہے ۔وہ اسی طرف لوٹ جاتا ہے ، جدھر سے وہ آیا تھا۔ افسانے میں وجودی تشخص اس کی بقا کے ساتھ ہی معاشرے کی لاتعلقی اورسرد مہری عیاں ہوتی ہے ۔
افسانہ نگاروں کی اسی نسل سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار اقبال مجید بھی ہیں ۔انھوں نے جدید افسانے کو اس کے تمام تر امکانا ت برتنے کی کوشش کی ہے ۔ اپنی اس تخلیقی کاوش میں انھوں نے منفرد شناخت قائم کر لی ہے ۔ ان کو افسانے کے بیانیہ عنصر پر کامل قدرت حاصل ہے ۔ افسانے میں علامت ،استعارہ اور دیگر اظہاری صنائع بھی عمدگی سے تصرف میں لاتے ہیں ۔ یوں تو انھوں نے کئی افسانے لکھے ہیں ۔ بطور خاص ان کے افسانے ’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘ اور ایک’ حلفیہ بیان‘ ان کی شناخت بن چکے ہیں ۔ افسانہ ’ دو بھیگے ہوئے لوگ‘ دو اشخاص کے دو مختلف ذہنی روّیوں کو پیش کرتا ہے ۔ بارش میں بھیگے ہوئے دو افراد ایک بوسیدہ سائبان کے نیچے پناہ لیتے ہیں ۔لیکن ایک شخص اس ٹپکتے ہوئے سائبان میں پناہ لینے کی بجائے وہاں سے کسی اورمحفوظ مقام پر جانا پسند کرتا ہے چاہے اس کے لیے بارش میں بھیگنا ہی کیوں نہ پڑے لیکن دوسرا شخص اس ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے ٹھہرنے ہی کوبہتر سمجھتا ہے ۔ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔3
’’دیکھیے اس طرح کھڑے رہنا حماقت ہے ‘‘ اسی درمیان میں نے اسے پھر مخاطب کیا۔ 
’’ تو پھر کیا کریں ؟‘‘ وہ اپنے کندھے ڈالتے ہوئے بولا۔
’’ ہم لوگ یہاں سے نکل چلیں ‘‘۔
’’ مگر بارش بہت تیز ہے ۔‘‘ 
’’ تو کیا ہوا؟‘‘ مجھے غصہ آگیا۔ ’’ ہم لوگ تو ویسے بھی سرسے پیر تک بھیگ چکے ہیں۔ کیا آپ کو اب بھی یہ خوش فہمی ہے کہ اس چھت کے نیچے آپ محفوظ ہیں ؟‘‘
’’لیکن پھر بھی........‘‘ یہ کہہ کر وہ تذبذب میں پڑ گیا۔ 
’’ خیر صاحب میں تو اب یہاں ایک منٹ نہ رکوں گا۔ میں تو چلتا ہوں ‘‘ 
’’ جیسے آپ کی مرضی ؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو اورسکیڑ لیا۔ 
اس کے اس جواب پر میں دل ہی دل میں جز بز ہوا۔میں نے سمجھا تھا کہ میرے اوراس کے درمیان کچھ مشترک تھا۔ سفر کا ارادہ، یکبارگی بارش میں پھنس جانا،ایک ہی چھت کے نیچے سر چھپاناجس کی رگ رگ چھدی ہوئی تھی اور پھر ایک ہی کیفیت میں لگاتا ردونوں کا بھیگنا ۔ اسی لیے میں نے سوچا تھا کہ ایسے حالات میں ہم دونوں کی سوچ بھی کم و بیش مشترک ہوگی لیکن وہ ایسی حماقت آمیز حرکتیں کر رہا تھاجن کا جواز میری سمجھ میں نہیںآرہا تھا۔ 
اس اقتباس سے دو اشخاص کے مختلف ذہنی رویّوں کی ترجمانی ہوتی ہے ۔ چھت کے نیچے رکا ہواشخص اپنی کسی قیمتی شے کو بارش میں بھیگ کر ضائع ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔ یہ قیمتی شے کوئی تحریر ، کوئی وصیت ، کوئی تعویذ ،کوئی یادگار، کوئی تصویریا ایساکوئی اثاثہ جو اس کی جیب میں ہے وہ بارش سے اس کی حفاظت کرنا چاہتا ہے ۔ چھت سے نکل کر جانے والے شخص کے پاس ایسی کوئی شے نہیں تھی ۔وہ ایک ہوٹل میں پناہ لیتا ہے ۔ بارش رک چکی ہے ۔اورکچھ دیر بعد چھت کے نیچے ٹھہرا ہوا شخص بھی وہاں آموجود ہوتا ہے ۔ دونوں میں پھر اسی مسئلے پر گفتگوہوتی ہے اورچھت کے نیچے ٹھہرا ہوا شخص اس سے کہتا ہے چونکہ آپ کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں جو میرے پاس ہے۔4
’’ آخر کیا ہے آپ کے پاس ؟وکیلوں کی طرح پھانسنے کی کوشش مت کیجیے،مجھے غصہ آگیا۔’’ دنیا میں کچھ ضروری نہیں ،یہ سب بکواس ہے‘‘ لیکن وہ کچھ نہیں بولا۔ آرام سے چائے والے کو پیسے دیے اور باہر نکل کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا،’’ جب آپ کی جیب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ جس کی حفاظت آپ کرنا چاہیں تو آپ بھی باہر بھیگنے کی بجائے چھت کے نیچے بھیگنا پسند کریں گے اوراس وقت وہ آپ کی مجبوری ہوگی‘‘۔
دراصل یہی مسئلہ اس افسانے میں نمایاں ہے ۔ اقبال مجید نے فکری سطح پر مختلف اورتکلیف دہ حالات میں بھی اپنی روایاتِ عقائد اور وراثت کی حفاظت کی سعی و جدو جہد کو پیش کیا ہے ۔خواہ اس کے لیے کیسے ہی مشکل حالات سے کیوں نہ گزرنا پڑے ۔ان کے افسانے ’’ ایک حلفیہ بیان‘‘ کے بشمول دیگر افسانے بھی عصری معاشرتی صورت حال کے خوب صورت ترجمان ہیں ۔
جدید افسانہ اردو کے افسانوی ادب میں اپنی شناخت قائم کرچکا تھا۔ جدید افسانے میں ہئیت و تکنیک اوراسلوب و بیان کے متعدد تجربات بھی کامیابی کے ساتھ کیے گئے تھے۔ جدید افسانے نے راست بیانیہ سے انحراف کرتے ہوئے استعاراتی ، علامتی ،کنایاتی اور تجریدی اظہاری وسائل و اسالیب کو بھی اختیار کیا۔ ایسانہیں ہے کہ استعاروں اور علامتوں کا استعمال جدید افسانے سے ہی مخصوص ہے یہ اظہاری وسائل تو داستانوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ لیکن داستانیں بہر حال راست بیانیہ کی حامل ہوتی تھیں۔ جدید افسانے نے راست بیانیہ سے انحراف کیا۔ کہانی ، پلاٹ اور کرداروں کی پیش کش میں بھی جدت اوربڑی حد تک ابہام کو اختیار کیا گیا ۔ یہ طرزاظہار عین فطری بھی ہے ۔ افسانے میں اب صد ہا اظہاری اسالیب وجود میں آچکے تھے۔ اس طرح تخلیقی جدت خود ایک مستحسن قدم ہے۔ افسانے کے ایسے قاری جو پریم چند اسکول کے روایتی بیانیہ کے عادی تھے انھیں ضرور جدید افسانے کی تفہیم میں دشواری پیش آتی ہوگی اور انھوں نے جدید افسانے کو ترسیل کی ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا ، لیکن اب یہ بات بھی پرانی ہو چکی ہے۔ دراصل جدید افسانہ افسانے کے تخلیقی امکانات کی تلاش و تجسس سے عبارت ہے۔ یہی جدید افسانے کی کامیابی اور فنی شناخت ہے ۔ جدید افسانے کا یہ عہد بیسویں صدی کی 60اور 70 کی دہائیوں کو محیط ہے ۔
اس جدید افسانے سے متعلق افسانے کی تنقید کے روّیے بھی بدل گئے ۔ عصری سیاق وسباق میں افسانے کے بدلتے ہوئے تخلیقی رجحانات کے پیش نظر تنقید و قدر شناسی بھی سبھی تعصبات و مفروضات سے آزاد ہوکر کی جانے لگی۔ دراصل افسانے کے تخلیقی رجحانات میں تبدیلیاں بڑی سرعت سے ہونے لگی تھیں۔ اس کے لیے کچھ ملک کے حالات بھی ذمے دار تھے۔ سیاسی بحرانی کیفیت ، ایمرجنسی کا نفاذ ، فرقہ وارانہ فسادات،قحط سالی ، غربت اور بے روز گاری میں اضافہ، آبادی میں اضافہ، صنعتی معاشرے کے نئے مسائل ‘ حفظان صحت کے مسائل ، ہند پاک جنگ کے نتیجے میں غیر یقینی صورت حال جیسے بے شمار مسائل نے سماجی اور معاشرتی صورتحال کو یکسر بدل دیاتھا۔ بطور خاص فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں آبادی کی بقا اورعدم تحفظی کاشدید احساس پیدا ہو چلاتھا۔اس دور میں بھاگل پور ، جمشید پور ، مرادآباد ،علی گڑھ اور ملک کے دیگر شہروں میں فسادات میں کئی لوگ مارے گئے، مالی نقصان ہوا، فرقہ وارانہ سیاست نے سماجی ماحول کو مزید ہلاکت خیز بنادیا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ہندوستانی معاشرے کی یہ ابتر صورت حال نے عوام الناس کو شدید مصائب میں مبتلا کر دیا تھا۔ شاعروں اورادیبوں نے بھی اس صورت حال سے شدیدتاثر قبول کیا تھا۔ لہٰذا ان حالات کی ترجمانی اس وقت کی شاعری اورافسانے میں بھی موثر طریقے سے کی گئی ہے۔افسانہ نگاروں نے راست بیانیہ سے گریز کرتے ہوئے علامتی ، استعاراتی اورتجریدی طرز اظہار کو اختیار کیا۔ اس نوع کے تخلیقی اظہارات میں بہت سے نئے تجربات بھی کیے گئے۔ باقاعدہ پلاٹ کی ترتیب سے گریز کرتے ہوئے کرداروں کی شناخت بھی غیر واضح ہوگئی۔اس طرح افسانے کی کہانی اورقصے میں بھی ابہام پیدا ہوا۔اس لیے افسانے کے قاری اور نقاد بھی جو روایتی ’’ کہانی پن ‘‘ سے آشنا تھے۔ نئے افسانے کی اس تجریدیت اور علامتی طرز اظہار کے سبب اسے مہمل اورناقابل فہم سمجھنے لگے۔ اس دور کے افسانے کی کچھ تجربہ آمیز تخلیقات سے قطع نظر نئے افسانے کا یہ رجحان یقیناًافسانوی روایت میں اضافہ ہی کہنا چاہیے۔ نئے افسانے کی شعریات دراصل زبان اور علائم کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانے سے عبارت ہے ۔ دراصل علائم اوراستعارات کا برمحل استعمال کسی بھی ادبی تخلیق میں معنوی تہہ داری اوروسعت کو راہ دیتا ہے ۔ اوراس کے ذریعے تخلیقی امکانات بھی اجاگر ہوتے ہیں ۔ تخلیق کی یہی جدت نئے افسانے کا خاصہ ہے ۔ اس دور کے لکھنے والوں میں کئی اہم نام ہے جنھوں نے افسانے کو نئے اسالیب اور دلچسپ تخلیقی اظہارات سے آشنا کیا ہے ۔ یہ یقیناًافسانے کی نئی تخلیقی جہات کی نقاب کشائی ہے ۔ راہ مضمون تازہ کبھی بند نہیں ہوتی اورباب سخن ہمیشہ وا رہتا ہے ۔ نئے افسانوں کے ان تخلیق کاروں میں سلام بن رزاق، الیاس احمد گدی، حمید سہر وردی، انور خان، عوض سعید، حسین الحق، ساجد رشید ، شوکت حیات، عبدالصمد اور شفق کے علاوہ کئی اہم افسانہ نگار شامل ہیں۔ انور خان کے افسانے اگرچہ مختصر ہوتے ہیں لیکن ان میں تخلیقی ارتکازشدید طور پر محسوس ہوتا ہے ۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں انھیں کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کے افسانے ’کوؤں سے ڈھکا آسمان‘اور ’ راستے اور کھڑکیاں ‘ اس دور کے کرب ودرد کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان کے افسانے مختصر ہونے کے باوجود بھی کہانی پن کا بھرپور تاثر قائم کرتے ہیں ۔ اس عہد کے ایک اور افسانہ نگار سلام بن رزاق اپنے معاصرین میں نمایاں انفرادیت کے حامل ہیں ۔ ان کے افسانوں میں بھی بیانیہ اظہار کے ساتھ کہانی پن کا شدید احساس ہوتا ہے۔عصری معاشرے کی صورت حال کی ترجمانی انھوں نے اپنے افسانوں میں موثر طریقے سے کی ہے ۔علامتوں اوراستعاروں کا استعمال بھی وہ موثر طریقے سے کرتے ہیں۔ عصری معاشرے کی سماجی اورمعاشرتی صورت حال ان کی کہانیوں میں موثر طریقے سے ظاہر ہوتی ہے ۔افسانوں میں معنوی تہہ داری اور توسیع کے لیے وہ قول محال کے تخلیقی روّیے کو بھی عمدگی سے برتتے ہیں ۔ ان کے افسانے ’ ندی‘ ، ’ بجوکا‘ اور ننگی دوپہرکا سپاہی بطور خاص پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ افسانہ ’ندی‘ میں عصری سیاست کی عیاری اور بالادستی کو موثر طریقے سے پیش کیا ہے ۔ افسانے کا تمثیلی اوربیانیہ دلچسپ ہے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ 
’’ ندی بہت بڑی تھی اوراس کا پاٹ اب بھی اپنی گزری ہوئی عظمت اور وسعت کی غمازی کرتا نظر آتاہے۔ مگر اب اسی طرح خشک ہوگئی تھی کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بے ڈھنگے ٹاپو ابھر آئے تھے۔ حدنظر تک چھوٹے بڑے بے شمار ٹاپو۔ 
ان ٹاپوؤں پر کہیں کہیں خوردہ گھاس اورجنگلی جھاڑیاں بھی اگ آئی تھیں۔ جن میں ہزاروں لاکھوں ٹڈے اورجھینگر شب و روز پھدکتے رہتے ۔ گھاس کے نیچے کیچڑ میں لاکھوں کیڑے رینگتے کلبلاتے رہتے اورجب دوپہر کی تپا دینے والی دھوپ میں کم کم گدلابدبو دار پانی تپنے لگتا تو ندی کی مچھلیاں اس طرح ادھر اُدھر منہ چھپاتی پھرتیں جیسے کسی پہرہدار گھرانے کی بہوبیٹیاں بھرے بازار میں بے نقاب کردی گئی ہوں ۔ 
مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی تھی اورٹڈے جھینگر، کیڑے مکوڑوں اورمینڈکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ دوپہر ڈھلے ندی کے نیم گرم ، گدلے پانی سے چھوٹے بڑے بے شمار مینڈک نکلتے اور ان ٹاپوؤں پر بیٹھ کر ٹراتے رہتے 
’’ میں اس ندی کا وارث ہوں ‘‘ بڑ امینڈک ۔
’’ ہاں ۔ آپ اس ندی کے وارث ہیں ۔‘‘ چھوٹا مینڈک ۔ 
’’ اس ندی کے ایک ٹاپو پر میرا اختیار ہے ‘‘۔ 
’’ اس ندی کے ایک ٹاپو پر آپ کا اختیار ہے‘‘ ۔ 
’’ میں ۔۔۔۔میں ۔۔۔چاہوں تو۔‘‘
بڑا مینڈک مناسب دعوے کے لیے آنکھیں مٹکا مٹکا کر ادھر ادھر دیکھتا اورذرا سے توقف کے بعد کہتا ۔ 
’’ میں چاہوں تو ایک جست میں اس چمکتے سورج کو آسمان سے نوچ کر پاتا ل میں پھینک دوں ‘‘ 
’’ آپ چاہیں تو ........‘‘ چھوٹے مینڈک دھوپ سے اپنی آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے حسب عادت بڑے مینڈک کی تائید کرتے کہ بڑے مینڈک کی خوشنودی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔ پھر پاس ہی کے ٹاپو سے ایک موٹے پیٹ اور پتلی ٹانگوں والا کوئی بڑا مینڈک گمبھیر آواز میں اپنے کسی مقصد سے پوچھتا ۔
’’کون ہے یہ؟‘‘ کو ن ہے یہ احمق؟‘‘ 
ایک طرار مینڈک پھدک کر کہتا۔ 
وہی ہمارا ذلیل پڑوسی ہے جس کے اجداد حضور کے کفش بردار رہ چکے ہیں‘‘
’’ اوہو ‘ اس نمک حرام سے کہو کہ سورج پر کمندڈالنے سے پہلے ہمارے قدم چومے کہ خورشید ہمارے نقش پا کے سوا کچھ نہیں ‘‘ ۔ اس کی لن ترانی کے جواب میں تیسرے ٹاپو سے آواز آتی ہے ۔
’’ یہ کون گستاخ ہے ؟ اسے آگاہ کردو ‘‘ 
اپنی زبان قابو میں رکھے کہ ہم زبان درازوں کی زبانیں یوں کھیچ لیتے ہیں جیسے ملک الموت جسم سے روح۔‘‘
’’ خاموش ، خاموش اس ندی کا ایک ایک ٹاپو ہماری زد میں ہے۔ ‘‘
اپنے اس خوبصورت افسانے میں سلام بن رزاق نے عصری سیاست کی ترجمانی بہت عمدگی سے کی ہے۔
حمید سہر وردی کے افسانوں میں تجریدیت اورابہام کا عمل شدید ہے اس لیے ان کے ہاں معنوی ترسیل مشکل ہوجاتی ہے ۔ ان کے اس تخلیقی روّیے میں تفکر و تعقل کا عنصر بھی اسی شدت سے پایا جاتا ہے۔ ’ کہانی در کہانی ‘ ، ’ لمحہ لمحہ درد‘ ، ’ کھوئے ہوئے راستوں کی شب‘ اورسفید کوّا‘ کے علاوہ ان کے متعدد افسانوں میں یہ صورت حال دیکھی جاسکتی ہے ۔ 
نئے افسانے کا یہ تخلیقی رجحان یقیناًاردو افسانے کی تاریخ کا ایک اہم پڑاؤ تھا۔ بیسویں صدی کا یہ افسانوی عہد اب ہم سے دور جاچکا ہے ۔اس عہد کے افسانوں کو مہمل محض تجرباتی اورنئے پن کافیشن کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ادب میں فکری و لسانی تجربات کے ساتھ تخلیقی امکانات کی تلاش کے کوئی معنی ہیں تو نیا افسانہ یقیناًاس کی ایک اہم کاوش ہے ۔ اسے ہم یقیناًافسانے کی نئی جہات کی تلاش کہہ سکتے ہیں ۔ 
بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے اردو کے افسانوی ادب میں مزید کئی رجحانات نمودار ہوئے۔ ایک رجحان تو نئے افسانے کے رد میں ظاہر ہوا ۔ نئے افسانے کے رجحان پر یہ اعتراض تھاکہ اس میں کہانی پن کا فقدان ہے اوریہ معنوی ترسیل میں ناکام ہے ۔ دوسرے رجحان کے تحت خود نئے لکھنے والوں نے کسی رجحان کی تقلید کے بجائے اپنے فکر و تخیل اورتخلیقی عمل کو اہمیت دی ہے۔ لہٰذا جدیدت اور نئے افسانے کے بعد ایسے کئی افسانہ نگار منظر عام پر آئے جنھوں نے اردو افسانے کی تخلیقی روایت کو آگے بڑھایا اور افسانے میں تنوع، تخلیقی روّیے اوراسالیب وجود میں آئے ۔ ایسے افسانہ نگار جنھوں نے اپنی مخصوص شناخت قائم کی ان میں شموئل احمد ،بیگ احساس ، انور قمر ، طارق چھتاری، نورالحسنین، پیغام آفاقی، انجم عثمانی ، خالد جاوید، ابن کنول ، صدیق عالم اور معین الدین جینا بڑے شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی مزید کئی تخلیق کار ہیں جو افسانہ نگاری کو شوق و ذوق کے ساتھ تخلیق کر رہے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں تمام افسانہ نگاروں کے فکروفن کا تجزیہ ناممکن ہے ۔ لیکن ایسے لوگ جو افسانہ نگاری کے ذریعے اپنی شناخت قائم کررہے ہیں ۔ ان میں م ق خان، رضوان احمد ، شاہد اختر ، اکرام باگ، عشرت ظہیر، نگار عظیم، خورشید اکرم اورمشرف عالم ذوقی وغیرہ اہم ہیں ۔
اردو افسانے کی تاریخ اپنی ایک صدی مکمل کر چکی ہے ۔اس ایک صدی میں افسانے میں جو تنوع ، رجحانات، اسالیب اورتخلیقی روّیے وجود میں آئے،فکری وفنی لحاظ سے افسانہ اردو نثر کی سب سے وقیع اور مقبول صنف قرار پائی ۔ یہ مختلف رجحانات اورتحریکات سے بھی متاثر ہوا۔ہر عہد میں اردو کے افسانہ نگاروں نے اپنی معاصر زندگی کی ترجمانی موثر طریقے سے کی ہے ۔ افسانہ آج بھی اپنی تخلیقی شاہ راہ پر گامزن ہے اور عصری زندگی اور بین الاقوامی مسائل و رجحانات کی بھی ترجمانی کررہا ہے۔فکشن کی تنقید کو افسانے کے تمام رجحانات اور تخلیقی روّیوں کو تمام طرح کے تعصبات اور مفروضات سے بے نیاز ہوکر دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے ۔
حواشی:
.1 وحید اختر: مضمون: قرۃ العین کے افسانے فکر و فن ، مشمولہ، قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ صفحہ 457
.2 سریندر پرکاش: باز گوئی صفحہ 115
.3 اقبال مجید : دو بھیگے ہوئے لوگ صفحہ 289
.4 اقبال مجید: دوبھیگے ہوئے لوگ صفحہ 297
.5 قمر رئیس: نمائندہ اُردو افسانے صفحہ282-83


Siddiq Mohiuddin
Associate Professor, Department of Urdu
Dr. Babasaheb Ambekkar, Marathwara University,
Aurangabad, (M.S.)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...