13/8/19

بیسویں صدی کے نصف اول میں خاکہ نگاری مضمون نگار: آفتاب احمد آفاقی




بیسویں صدی کے نصف اول میں خاکہ نگاری 

    آفتاب احمد آفاقی

 ادبی سطح پر خاکہ نگاری افراد کے خط و خال،ان کے عادات و اطوار نیز ان کی حقیقی زندگی کو تخلیقی قالب میں دلچسپ و پر لطف انداز میں پیش کرنے کاعمل ہے۔ ہر چند کہ یہ صنف جدید ہے لیکن معلوماتی اور پر لطف ہونے کے باعث اس کا شمار ادب کی مقبول صنفوں میں کیا جاتا ہے ۔خاکے اصلاً خاکہ نگار اور شخصیت کے مابین ایک گہرے رشتے اور متاثر کن اوصاف کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں لیکن ان شخصیات کی حیثیت انفردی ہوتے ہوئے بھی اجتماعی افادیت کی حامل ہوتی ہیں۔
خاکہ نگاری کوشخصیت نگاری ،مرقع نگاری ، قلمی مصوری اور شخصی خاکہ نگاری بھی کہا جاتا ہے ۔اردو انسائیکلو پیڈیامیں اس صنف کو شخصی خاکہ نگاری اور انگریزی میں اسکیچ (sketch)کہا گیا ہے۔ ادبی نقطہ نظر سے خاکہ نگاری کسی شخصیت کی ہو بہو تصویر کشی کا نام ہے ۔ بہ الفاظ دیگر کسی شخص کے ہمہ جہت ، ظاہری اورباطنی خصائص و نقائص اس کے ہم رنگ اور تہہ دار پہلو ؤں کو موثر اور دلچسپ انداز سے اس طرح پیش کیا جائے کہ حقیقی افراد کی چلتی پھرتی تصویر سامنے آ جائے یہی ’ خاکہ نگاری‘ ہے۔ یہ کسی فرد واحد کی گم صم تصویر نہیں بلکہ ہنستی بولتی تصویر ہے جو ہمارے احساس کو بر انگیختہ کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خاکہ نگاری ادب کی صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشیں ہو جاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود اصل شخصیت کو دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ الفاظ کی مدد سے کھینچی گئی ایسی تصویر ہوتی ہے جو بے جان، ساکت اور گم صم کی بجائے متحرک اور فعال ہوتی ہے۔
 اردو میں محمد حسین آزاد کی’ آب حیات‘ سے قبل شخصیت نگاری کی کوئی قابل ذکر رواےت نہیں ملتی البتہ فارسی تذکروں مثلاً میر تقی میر کے ’ نکات الشعرائ‘ اور قدرت اللہ قاسم کے’ نغز‘ میں شخصی اوصاف کے ابھرتے نقوش بہ آسانی تلاش کےے جا سکتے ہیں۔ ان شاءاللہ خاں انشا کی تصنیف ’ دریائے لطافت‘ میں اشخاص کی زبان و بیان ، ،قواعدا ور صرف و نحو کے علاوہ نواب عمادالملک بھاڑامل، مرزا صدرالدین، صفاہائی ملا عبدالفرقان، بی نورن، میر ظفر علی کی مبہم تصویریںنظر آتی ہیں۔ ہر چند کہ دریائے لطافت، کا اصل موضوع لسانی قوت کا اظہار ہے لیکن اس ضمن میں مختلف اشخاص کی زبانوں ، لہجوں اور بولیوں کے اظہار کے طریقوں کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے اس سے کئی تصویریں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ انھی خصائص کی بنیاد پر نثار احمد فاروقی ’دریائے لطافت کو خاکوں کا ابتدائی عکس قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :
اچھے خاکوں کا ابتدائی عکس انشا کی تحریروں میں ملتا ہے ان کے قلم میں اسکیچ لکھنے کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں جن کی جھلک دریائے لطافت میں دیکھی جا سکتی ہے“۔
 سعادت یارخاں رنگین کی تصنیف ’معرکہ زیبا‘ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی قرار دی جا سکتی ہے، جس میں ہم عصر شعرا کا ذکر نہایت مختصر مگر جامع انداز میںملتا ہے۔ جس میں فرد کی شخصیت کے بعض اوصاف کی ہلکی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔البتہ جہاں تفصیلات سے کام لیا گیا ہے وہاں شعرا ءکی تصویریں واضح طور پر ابھر آئی ہیں۔ درد کے متعلق یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
رنگ کسب ریاضت سے زادتن میں نالہ لب پر آہ سرد (حضرت) خواجہ میر (صاحب) تخلص’ درد‘ خلف ا لر شید شاہ گلشن، سحرالبیان شیریں سخن، مصنف کتاب : نالہ عندلیب ‘ شغل حسن پرستی ہے شکیب اوائل میں سپاہی پیشہ صاحب خنجر و تیز زریں (آخر) آخر ترک لباس کر کے سجادہ نشین ہوئے علم موسیقی میں کوک ساز اور علم تصوف کے ہمراز تھے۔ سلسلہ ان کا نقشبندیہ سرود رعنا پسند۔
ان تذکروں میں ضمنی طور پر سہی خاکہ نگاری کی ہلکی شعاعیں پھوٹتی نظر آتی ہیں، جو فنی معیار اور میزان پر کھرے نہیں اترے البتہ خاکہ نگاری کے ارتقا ئی مطالعے کے سیاق میں انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس اعتبار سے محمد حسین آزاد کو تمام تذکرہ نگاروں پر تفوق حاصل ہے کہ انھوں نے آب حیات ، نیرنگ خیال ، دربار اکبری اور سخن دان فارس جیسی عالمانہ ادبی اور تاریخی کتابیں لکھیں اور شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے اس کا مطالعہ کیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تصانیف میں ان کے تنقیدی ، تاریخی، ادبی اور لسانی درک کے جوہر دکھائی دیتے ہیں ۔ہر چند کہ ناقدین آب حیات کو تذکرہ نویسی کے ذیل میں رکھتے ہیں لیکن اس میں نسبتاً خاکہ نگاری پر توجہ زیادہ دی گئی ہے۔اس میں شعرا کی زندگی کے حالات اور واقعات اس طرح پیش کیے گئے ہیں کہ شاعر کی چلتی پھرتی تصویریں خود بخود ابھر آتی ہےں۔بقول نثار احمد فاروقی :
خاکوں کی باضابطہ ابتدا در اصل محمد حسین آزاد سے ہوتی ہے اور شعرا کے بہترین قلمی عکس سب سے پہلے ان کی شہرہ

¿ آفاق تصنیف آب حیات ہی میں ملتے ہیں۔
شمیم حنفی نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ :
آب حیات ، میں کئی تصویریں ایسی ہیں جن میں شخصیت نگاری یا خاکہ نگاری کا کمال دیکھا جا سکتا ہے۔
آزاد نے شعوری طور پر شعراءکے ذہن و فکر ،سیرت وشخصیت کو جامعیت اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے اس ضمن میں خوبیوں کے ساتھ خامیوں کو بھی جوں کا توں پیش کرکے بڑی حد تک شاعر کی سچی تصویر کشی کی سعی کی ہے۔لیکن اپنے استاد ذوق کے تذکرے کے ضمن میں وہ بے حد جذباتی ہو گئے ہیں اور مبالغہ در آ یاہے ۔تاہم مرزا غالب ،شاہ نصیر،شیخ ناصر، سید انشائ، میرتقی میر، مرزا رفیع سوداکے بیان میں جملوں کی بے ساختگی اور الفاظ کی ریزہ کاری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ان شعراءکی ہو بہو تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے۔میر عبدا لحی تاباں کے حسن کی شہرت کی رودا داس طرح بیان کرتے ہیں۔
”....تاباں ایک نوجواں شریف زدہ حسن وخوبی میں اس قدر شہرۂ آفاق تھا کہ خاص وعام اس کو یوسف ثانی کہتے تھے۔گوری رنگت کالے کپڑے بہت زیب دیتے تھے اس لیے ہمیشہ سیاہ پوش رہتے تھے ان کے حسن کی یہاں تک شہرت پھیلی کہ بادشاہ کو بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا معلوم ہوا کہ مکان حبشی خاں کے پھاٹک میں ہے اس کے کو ٹھے پر نشست ہے زمانہ کی تاثیر اور وقت کے خیالات کو دیکھنا چاہےے کہ بادشاہ خود سوار ہو کر اس راہ سے نکلے۔
محمد حسین آزاد نے آب حیات میں شاعری کے علاوہ بچپن،جوانی،اخلاق و کردار، عادات و اطوار، انداز گفتگو، شاعرانہ مزاج، باہمی خلوص، پسند و ناپسند اور ذوق وشوق جیسی جزئیات پر بھی گہری نظر ڈالی ہے اور مختلف واقعات اور لطائف بیان کر کے ان میں دلچسپی بھی پیدا کی ہے جس سے ان شعرا کی زندگی کھلی کتاب بن جاتی ہے ۔ نیرنگ خیال، جو دس مضامین پر مشتمل ہے جس میں ایک خواب کا سا عالم بیان کیا ہے ۔ تاہم میدان میں بیٹھے افراد حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے عالم گیر بادشاہ ، نور جہاں اور شیواجی کے علاوہ حافظ شیرازی،سودا،درد ،میر حسن،انشاءوغیرہ جیسی جید تاریخی و ادبی شخصیتیں حرکت و عمل میں نظر آتی ہیں۔اور یہ خالی تصویریں رنگینی، رعنائی اور دلکشی کے باعث جان دار اور پر کشش بن جاتی ہیں۔
اردو میں فکری اور فنی لوازمات کے ساتھ خاکہ نگاری کی طرح مرزا فرحت اللہ بیگ نے 1927 میں ڈالی جب انھوں نے ڈپٹی نذیر احمد پر لا زوال اور بے نظیر خاکہ لکھا ’ ناقدین اسے موضوع اور فن کے اعتبارسے اردو میں باقاعدہ خاکہ نگاری تصوّرکرتے ہیں۔ اس اعتبار سے فرحت اللہ بیگ کی تصنیف ’ نذیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘ اردو میں باقاعدہ خاکہ نگاری پر مشتمل تصنیف کہی جاتی ہے، جس میں مصنف کا قلم خاکہ نگاری کی فنی بلندیوں کو چھوتا ہے اور ڈپٹی نذیر احمد کی پہلو دار شخصیت پر پڑے پردے ہٹتے ہیں اور پہلی بار ہم انسانی خصائص سے متصف شگفتہ قہقہہ بردوش نذیر احمد کو دیکھتے ہیں وہ خود لکھتے ہیں۔
میں ان واقعات کے بیان میںکوئی سلسلہ بھی قائم نہ کروںگا کیوں یہ بناوٹ کی صورت ہے جس موقع پر جو کچھ سنایا دکھا اس کاجوں کا توں لکھ دوں گا اور ہمیشہ اسی امر کی کوشش کروں گا جہاں تک ممکن ہو واقعات مولوی صاحب ہی کی زبان میں بیان کےے جائیں۔
بہ ہر حال !انھوں نے نذیر احمد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ گہرائی اور غورو خوض کے ساتھ کیا ہے جس سے خاکہ نگاری کے اصول و ضوابط اور بنیادی خصوصیتیں ابھر آتی ہیں ۔اس کے علاوہ فرحت اللہ بیگ نے ایک اور خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کی وصیت پر بہ عنوان ’وصیت کی تعمیل ‘لکھا جو سلیم کی شہرت و شخصیت کے بیان پر مشتمل ہے ان کی تصنیف ’یادایام‘ ،’عشرت فانی‘میں بھی خاکوں کی جھلکیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جس میں خود ان کے بچپن کے واقعات ، شرارتیں ، تعلیم و تربیت اور جزئیات کے ساتھ اساتذہ و احباب کی تصویریں منعکس ہو گئی ہیں ۔
اپنے عربی کے ایک استاد کی تصویرکشی اس طرح کرتے ہیں :
گول گول چہرہ سانولی رنگت ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں سرخ بھرواں داڑھی سر پر کالی مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی جسم پر کشمیر کی چکن اس پر کشمیری کام کا چغہ۔ شاعر تھے اس لیے مذہب سے لاپرواہ تھے ہر وقت گنگناتے رہتے تھے ۔ بعض وقت تو ایسے محو ہو جاتے تھے کہ ساری کی ساری جماعت اٹھ کر چلی جاتی اور ان کو خبر نہ ہوتی ۔ بلا کے ہوشیار آدمی تھے ۔ متین اور سنجیدہ بھی ایسے کہ خدا پناہ۔
دہلی کا آخری مشاعرہ ‘ فرحت اللہ بیگ کی آخری تصنیف ہے جس میںانھوں نے 58 شعرا کو مشاعرے کی مسند پر بیٹھا کر ان کی دلکش تصویریں کھینچی ہیں جن کے مطالعے سے مومن،غالب ، بہادر شاہ ظفر، مرزا فخرو، ذوق،حکیم آغا جان عیش ، زین العابدین وغیرہ کی مکمل اور جاندار تصویریں دکھائی دیتی ہیں اور قاری شعرا کی سیرت،شخصیت ،قابلیت و لیاقت، محبت،تنقیدو ہنسی مذاق، شعر پڑھنے کے انداز ، داد وتحسین کے طریقے سے بہ خوبی واقف ہوجاتا ہے۔
اسی زمانے میں اردو ادب کے معروف انشاپرداز آغا حیدر حسن مرزا کی تصنیف ’پس پردہ‘ وجود میں آئی جس میں مجموعی طور پر پندرہ مضامین ہیں جن میں بیشتر کا تعلق شخصیت سے ہے ۔ ان میں ”بچھڑوں کی جگ بیتی “بیگم نائیڈو، حامد دیوان مباحثہ،سید حسین، استانی،غدر کی کہانی کپڑے والی افضل النساءکی زبانی ، پس پردہ اور نائی کی کرامت وغیرہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔
آغاحیدر حسن نے شخصیت کے حوالے سے دہلی کی عورتوں اور بیگمات کی اردو زبان،لب ولہجہ ، تشبیہہ و استعارے اور انداز گفتگو کو بڑی حد تک محفوظ کر لیا ہے۔ ان کے دو مضامین ’ بیگم نائیڈو‘اور ’حامد دیوان مباحثہ‘ میں سروجنی نائیڈو کی ظاہری تصویریں ان کا لباس ، نشست و برخاست اور آداب شب وروز کی مکمل جزئیات در آئی ہیں جس سے ان کی شخصیت کے دلکش اور جاذب نظر پہلو ابھرتے ہیں علاوہ ازیں شوکت علی، محمد علی، خواجہ حسن نظامی، حسرت موہانی، شاعر سہیل، سید حسن اور حیات اللہ انصاری پر لکھے گئے مضامین میں یہ اکابرین شعراءو ادباعلمی، سیاسی اور ادبی بصیرتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔
مرزافرحت اللہ بیگ کی تقلید میں جن انشاپردازوں نے خاکہ نگاری پر توجہ دی ان میں عبدالرزاق بسمل کا نام اہم ہے انھوں نے اپنی تصنیف ’تذکرہ جمیل‘ میں ہندوستان کی مشہور اور گم نام (64) خواتین کی علمی لیاقت اور قومی و ملّی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے کارہائے نمایاں پر خاکے لکھے ، ان خواتین میں شاعرات ، ادبا اور نامور اصحاب کی بہن ، بیٹی اور بیویاں ہیں۔ ان میں نواب مختارالملک کی بیٹی نورالنساءبیگم ، مشہور شاعرہ اور ادیبہ بیگم عباسی ، ماہر طب مشتاق فاطمہ ، مجاہد آزادی سروجنی نائیڈو اور ادبی تاریخ کی ممتاز شخصیت عطیہ بیگم فیضی کے کارناموں کو بیان کر کے خاکہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔
اردو کے صاحب طرز ادیب اور بلند پایہ انشاپرداز خواجہ حسن نظامی نے ترجمہ ، تاریخ ،تفسیر اور صحافت کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ بلا شبہ قابل قدر ہیں۔ انھوں نے تاریخی ، مذہبی اور سیاسی اشخاص کے علاوہ رفقا، ادبی اصحاب متعلقین اور کچھ ملازموں کے بھی احوال لکھے، تاریخی افراد میں چنگیز خاں، ابولہب، ابوجہل، قارون، فرعون نمرود بہ طور خاص ہیں۔ ان کے علاوہ ہندستان کی مقدس اور مذہبی شخصیات مثلاًرام، سیتا، رادھا کرشن، گرو نانک کے علاوہ عیسیٰ، اللہ رسول اور شیطان پر بھی قلم اٹھایا ہے اور اپنے تخلیقی جوہر کا بھر پور انداز میں مظاہرہ کیا ہے۔
 خواجہ حسن نظامی کے رفقا کا حلقہ وسیع تھا اور ادبی سیاسی نیز مذہبی شخصیتیں ان کے دائرۂ احباب میں شامل تھیں۔ ان میں ظفر علی خاں ، علامہ اقبال ، ابوالکلام آزاد اور آصف علی کے نام بطورِ خاص شامل ہیں۔ خواجہ حسن نظامی نے ان کی تصویریں کھینچی ہیں ان کے مطالعے سے ان شخصیتوں کی افہام و تفہیم بھی ہوتی ہے اور ہم ان ہستیوں کے بہ چشم خود دیکھنے کی لذتیں بھی محسوس کرتے ہیں۔علامہ اقبال کے ضمن میں یہ چند جملے ملاحظہ فرمائیں :
سرو قد گندمی رنگ،پر تمکنت چہرہ،داڑھی صاف شاعر بھی ہیںخوش نویس بھی ہیں ہیڈ ماسٹر بھی ہیں لیڈر بھی ہیں سر بھی ہیں اورپھر صاحب اقبال بھی ہیں آنکھیں ایسی نشیلی کہ ایک آنکھ میں حافظ کا میکدہ دوسری میں عمر خیام کا خم خانہ ،جسم پنجابی و دماغ فلسفی، خیال صوفی،دل مسلمان ، پہلے شاعر بنے بھی پھر بیر سٹر ہوئے اور اب لیڈر ہیں“ص۔6
کچھ اسی انداز میں آصف علی کے متعلق لکھتے ہیں :
میانہ قد، کافی بدن ، رس بھری آنکھیں ،تمکین رنگ،عمرجواں داڑھی مونچھ صاف ، آواز میں لطافت و شیرنی دہلی کے ممتاز اور قدیم شرفا میں ہیں۔بیرسٹر ہیں ،لیڈر ہیں ہندومسلمان میں یکساں ہر دل عزیز ہیں کہ سب کے کام آتے ہیں ۔ان کی تقریر بھی جادو ہے اور تحریر بھی سحر ہے بولتے ہیں تو چہرے کے اعصاب کی حرکا ت میں موسیقی کے پردوں کی سی جنبش پیدا ہوجاتی ہے۔ اور دل کا مطلب ایک عمدہ شعر کی صورت میں بن کر ان کے چہرے پر آجاتا ہے۔
متذکرہ اقتباسات کی روشنی میں علامہ اقبال اور آصف علی کی قابلیت ،صلاحیت، نفاست اور قدوقامت کا ایک ایسا نقشہ ابھرتا ہے جس میں شخصیت کے ظاہری اور باطنی پہلو بڑی شدومد کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی نے بعض شخصیتوں کی قلمی تصویریں بھی بنائی ہیں ،محرنامہ ، پیزیر نامہ، کش بیتی وغیرہ کو اسی زمرے میں رکھا جا سکتا ہے جس میں منظر کشی ،تصویر کشی اور حلیہ نگاری کے ذریعے تاریخی مذہبی واقعات کو بیان کیا ہے اور بیگمات کے آنسو میں ،بیگمات کی جھلکیوں کوان کے ماضی وحال کی زندگی کے تناظر میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ یہ عبرت خیز اور نصیحت آمیز بن گئے ہیں اور قاری کے اندر ہمدردری کا جذبہ فطری طور پر پیدا ہو جاتا ہے۔
خاکہ نگاری کے ضمن میں مولوی عبدالحق کی خدمات بے حد اہم ہیں۔مولوی صاحب بلند پایہ ادیب محقق،مترجم، تاریخ داں اور تحقیق و تنقید نگار تھے علاوہ از یں بہ حیثیت شخصیت نگار ، ان کا پایہ بے حد بلند ہے اور ان کی تصنیف ’ چند ہم عصر ‘ کو اردو شخصیت نگاری کی روایت میں بے مثل اور لا زوال حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے ان بزرگ اور ،مقتدر اصحاب پر طبع آزمائی کی، جن کے اخلاق و کردار آئندہ نسلوں کے لیے رہنما ثابت ہوں۔
مولوی عبدالحق کی مشہور کتاب ’چند ہم عصر‘ 1937 میں شائع ہوئی۔ اس میں اٹھارہ نامور ادبی اور سیاسی شخصیتوں کی سیرت و شخصیت ، اخلاق و کردار ، ایثار و قربانی ، محنت و جفا کشی نیز ملی و قومی خدمات کا تذکرہ ہے۔ ان میں امیر احمد ، پروفیسر مرزا حیرت سید محمود مرحوم، مولوی چراغ علی، مولوی محمد عزیز مرزا، شمس العلما ڈاکٹر سید علی بلگرامی، خواجہ غلام الثقلین، حکیم امتیازالدین ، مولانا وحیدالدین سلیم، گدڑی کا لال، محسن الملک، مولوی محمد علی مرحوم ، شیخ غلام قادر گرامی، حالی اور نام دیو مالی شامل ہیں۔
 ہر چند کہ ان شخصیتوں کے انتقال کے گہرے صدمات ان خاکوں کے محرک بنے اور ان میں حزن و غم سے مملو جذبات کا اظہار کیا گیا ہے لیکن پر کشش اور متاثر کن انداز بیان نے ان خاکوں کو بے حد دلچسپ بنا دیا ہے اور ہم ان بزرگ ہستیوں سے جذباتی طور پر اس قدر قریب ہو جاتے ہیں کہ بلند کردار اعلیٰ قابلیت کی مالک یہ شخصیتیں ہمارے ماضی کا قیمتی اثاثہ معلوم ہوتی ہیں۔ ’خاکہ نگاری کے فنی لوازمات میں خلوص و محبت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور عبدالحق نے اس کا مظاہرہ اپنے ہیرو کے ساتھ بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ حالی کے تعلق سے ان کے یہ خیالات ملاحظہ ہوں :
مرحوم ہماری قدیم تہذیب کا ایک بے مثل نمونہ تھے شرافت اور نیک نفسی ان پر ختم تھی چہرے سے شرافت ہمدردی اور شفقت ٹپکتی تھی۔ اور دل کو ان کی طرف کشش ہوتی تھی ان کے پاس بیٹھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی چیز ہم پر اثر کر رہی ہے در گزر کا یہ عالم تھاکہ ان سے کوئی بدمعاملگی اور بد سلوکی کیوں نہ کرے ان کے تعلقات میں کبھی کوئی فرق نہ آتا تھا۔ جب ملتے تو اسی شفقت و عنایت سے پیش آتے اور کیا مجال کہ اس کی بد سلوکی اور بد معاملگی کا ذکر زبان پر آنے پائے اس سے نہیں کسی دوسرے سے بھی کبھی ذکر نہ آتا اس سے بڑھ کر تعلیم کیا ہوگی۔
مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری کا نمایاں پہلو شخصیت میں پوشیدہ اوصاف حمیدہ مثلاً علم و بصیرت ، قابلیت و استعداد ، اخوت و محبت جذبۂ ایثار اور بے ریائی کو اجاگر کرنا ہے تاکہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس سے روشنی حاصل کر سکیں۔ یہی سبب ہے کہ جہاں چراغ علی کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کا ذکر کرتے ہیں وہیں ان کی محنت و لگن ، گہرے مطالعے کی عادت اور جد و جہد کا بھی بر سبیل تذکرہ کرتے جاتے ہیں’نام دیو مالی‘ اور ’نور خاں‘ جیسے خاکے میں معمولی افرا سے محبت کرنے اور معاشرتی نا برابری کے تصور کو ختم کر کے محض بلند اخلاق و کردار کو معیار بنانے کا درس دیا ہے، لکھتے ہیں :
دولت مند ، امیروں اور لوگوں ہی کے خیالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں غریب امیر کا کوئی فرق نہیں۔ پھل میں گر آن ہے کانٹے میں بھی شان ہے۔
مولوی عبدالحق نے نام دیو مالی کی محنت ، جفا کشی اور دوسری خوبیوں کو اجاگر کر کے پست طبقے میں پوشیدہ صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کی سعی کی ہے جسے خدا ترس، نیک دل اور وسیع المشرب انسان کے قلم کی جادو گری قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب کہ مولانا محمد علی مرحوم کے ذہنی و فکری مصادر اور متضاد اوصاف کو انھوں نے انصاف کی میزان پر جانچ پرکھ کر درج کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولوی عبدالحق نے شخصیتوں کے روشن پہلوؤں کا بڑی گہرائی، دلچسپی اور ایمانداری کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور سیرت و شخصیت کے علاوہ ان کی نجی خوبیوں اور خامیوں کو دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ نتیجتاً یہ شخصیتیں دلچسپ اور سبق آموز بن گئی ہیں۔اردو’ خاکہ نگاری‘ کے فن کو جن ادیبوں نے وقار اور معیار عطا کیا ان میں رشید احمد صدیقی کا نام ممتاز ہے۔ وہ بلند پایہ انشا پرداز ، صاحب طرز ادیب اعلا پایہ کے طنز و مزاح نگار اور بہترین شخصیت نگار تھے ۔ بہ قول سید ابوالحسن ندوی :
رشید صاحب کی کتاب ’ گنج ہائے گرانمایہ‘ اور’ہم نفسان رفتہ‘ پڑھی تو رشید صاحب کے ادب، ان کی انشا پردازی ، معاصرین کی تصویر کشی ، انسانی نفسیات سے گہری واقفیت ، شخصیت کی کلید دریافت کر لینے کی قابلیت اور قلم کی بے جان تصویروں میں جان ڈال دینے کی صلاحیت کا لوہامان لینا پڑا کسی وقت تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی ان دو کتابوںکو ترقی یافتہ مغربی زبانوں میں شخصیات پر بہترین کتابوں میں رکھا جا سکتا ہے اور ان سے آنکھیں ملاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
یوں تو رشید احمد صدیقی کی تنقیدی اور تخلیقی نگارشات کی فہرست طویل ہے، تاہم گنج ہائے گراں مایہ ہم نفسانِ رفتہ، خنداں، ذاکر صاحب اور مضامین رشید ان کی لازوال تصانیفات ہیں جن میں مختلف شخصیات پر قلم اٹھایا گیا ہے جنھوں نے قوم و ملک اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔ رشید صاحب ان کے خلوص ، ہمدردی اور جذبہ ایثار کو قوم و ملت کے لیے سرمایہ ٔ افتخار سمجھتے تھے اس لیے ان کی موت محض کسی شاعر ، ادیب یا مصلح قوم اور مدبر وطن کی وفات نہیں بلکہ نا قابل تلافی قومی خسارہ تسلیم کرتے تھے۔ رشید احمد صدیقی نے 25 سے زائد شخصی خاکے لکھے جن میں دوست احباب اور بزرگ شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیتوں کا تعلق علی گڑھ کے اساتذہ منتظمین اور قومی خدمات گار سے ہے جن سے رشید صاحب بے حد قریب تھے اور عرصۂ دراز تک نشست و برخاست میں ان کے شریک رہے۔
رشید احمد صدیقی کے بیشتر خاکے تعزیتی نوعیت کے ہیں ۔ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے جملے ان کے گہرے احساسات و جذبات کے ترجمان ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ شخصیت نگار ان کی جدائی کے صدمے سے رنجیدہ اور نڈھال ہے۔ سید سلیمان اشرف کے خاکے میں یہ الفاظ’ غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی، دیوانہ مر گیا آخرکو ویرانے پہ کیا گذری‘اس پر دال ہیں اسی طرح اصغر گونڈوی کے انتقال پر جس رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور نہایت افسردہ لہجے میں اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے وہ ان کی دوستی اور باہمی ہمدردی کی بین مثال ہے۔ لکھتے ہیں :
دو ہی رو زکے اندر تار آیا کہ اصغر صاحب نے رحلت فرمائی اور دوسرے دن الہ آباد پہنچا بلویڈ کا راستہ سونا تھا۔ طبیعت بے اختیار ہو گئی۔ خلوص و محبت و مرحمت کا وہ پیکر مجسم ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا تھا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے زندگی کی بڑی مضبوط طناب ٹوٹ گئی، زندگی جو عبارت تھی دوست کی محبت و شیفتگی سے اس میں خلا پیدا ہو گیا۔ایسا خلا جس میں بیابانی برفستانی ہواں اور گورستانی سناٹوں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔
اس زمانے میں بعض ایسی بھی شخصیات تھیں جن سے رشید احمد صدیقی کی چند ملاقاتوں یا خط و کتابت کی حد تک راہ و رسم تھی لیکن ان شخصیات سے انھیں گہری محبت و عقیدت تھی۔ ان میں مولانا آزاد، مولوی عبد الحق اور مولانا محمد علی وغیرہ بطور خاص ہیں۔ رشید صاحب مولانا آزادکی تصانیف ، تحریروں ، تقریروں اور مجاہدانہ روش و ولولوں نیز ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے بے حد متاثر تھے۔واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے مولانا آزاد کی شخصیت کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان پر اس کے اثرات بھی مرتسم ہوئے تھے، لکھتے ہیں :
علم و عرفان اور مذہب کے شرف و سعادت نے ایسی بلند نظری اور خود اعتمادی پیدا کر دی تھی کہ وہ زندگی کے مصائب و مکروہات اور سیاست کے شورو فتن سے پراگندہ خاطر اور تلخ کام نہیں ہوتے تھے جو شخص ہار جیت دونوں میں اپنا سہارا خود ہو اس کو کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں جو نارمل ہو ں اوراپنا سہارا خود ہوں۔
رشید احمد صدیقی نے اپنے عہد کی جہاں مشہور شخصیتوں مثلاً ڈاکٹر عبد الحق ،شفیق الرحمٰن قدوائی ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، سید سجاد حیدر یلدرم اورسر شاہ سلیمان پر قلم اٹھایا ہے وہیں گمنام اشخاص کو بھی اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے ان میں سید محفوظ علی،نواب اسماعیل خاں، نصیر الدین علوی اور مولانا احسن مارہروی بطور خاص قا بل ذکرہیں۔علاوہ ازیں علی گڑھ کا چپراسی کندن،کلرک حسن عبد اللہ اور ایوب عباسی جیسے افراد میں انسانی خوبیوں اور و ضع داریوں کی نشان دہی کرکے انھیں حیات دوام عطا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ادباءو شعراءکی فنی خوبیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے وہ انسانی قدروں کے ساتھ فنی قدروںکے بھی قدر داں تھے ۔جگر، اصغر،اقبال،سجادحیدر یلدرم،حسرت،فانی اور پطرس بخاری وغیرہ کے شخصی اوصاف کے ساتھ ان کا فکری اور فنی محاسبہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹراقبال اور سید سلیمان ندوی کا حلیہ وضع قطع لباس اور روز مرہ کے معمولات کو جس خوبصورتی سے پیش کیاہے اس سے ان کی شخصیت مکمل طور پر سامنے آ جاتی ہے۔صداقت تو یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی ایک کامیاب شخصیت نگار تھے اور شخصیت کو مجسم و متحرک کردینے کا ہنر ان کی سرشت میں داخل تھا۔
اشرف صبوحی نے ان افراد کو اپنی شخصیت نگاری کے لیے منتخب کیاجنھیں ادبی،سیاسی اورمذہبی اعتبارسے کوئی شہرت اورمقبولیت حاصل نہ تھی البتہ وہ قدامت پرستی، عجیب و غریب حرکتوں اورعادتوں ، اپنی شرافت، وضع داری،فرما برداری اوربھولے پن کے باعث مقبول عام ہوئے۔ان کی تصانیف میں ’غبار کارواں‘ اور ’دلی کی چند عجیب ہستیاں‘ شخصیت نگاری پرمبنی ہیں۔ غبارکارواں میں مجموعی طور پر سترہ افراد جن میں صاحب علم ، نانی بستی، پنکھے والے حافظ جی،موٹے آکا،پیر جی سنگھاڑے، مرزا سکندر بخت، کویل زنانہ، خالہ رحمت،کالا بچو،دیوانی آپا، نواب کلام، مرزا چرکٹ،ماسٹرققنس، ننا پہلوان ، اڑے خالہ خوبن اور ملاخیروہیں۔قدیم دہلی سے وابستہ ان اشخاص کا اشرف نے بڑی باریک بینی اور گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور تخلیقی عمل سے ان شخصیت کو پر کشش اور جاندار بنا دیا ہے۔ دیوانی آپا،حافظ جی،نانی بستی،خالہ خوبن کے تذکرے کے ضمن میں اشرف صبوحی نے جس فنکارانہ بصیرت اور فہم کا ثبوت دیا ہے اور بڑی حد تک ان کی انکساری ، مروت اور نیک نفسی کی رہین منت ہے۔
دلی کی عجیب ہستیاں‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پندرہ اشخاص کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان میں خواجہ رئیس،میر باقرعلی،مٹھو بھٹیارا،گھمی کباب، ملن نائی، مرزا چپاتی ٹکیا،گنجے نہاری والے،میر ٹوٹرو، پیرجی کوے،مرزا سفندر یار جنگ، سیدانی بی، نیازی خانم، میاں حسنات ، پرنانی اور بابو مٹکینا شامل ہیں۔یہ تمام افراد اپنی شرافت ، دیانت ،وضع داری اورطورطریقے کی انفرادیت کے سبب اشرف صبوحی کی توجہ کے محور و مرکز بنے۔ قدیم دہلی کی ان عجیب ہستیوں کے تذکرے کی خصوصیات یہ ہے کہ اس میں سیرت و شخصیت کے ساتھ خدوخال ابھرتے ہیں جس سے تصویر واضح طور نمایاں ہو جاتی ہے۔ مرزا چپاتی سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
خدا نخشے مرزا چپاتی کو نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آ گئی، گورا رنگ، بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد، شانوں پرسے ذرا جھکا ہوا، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری داڑھی،چنگیزی ناک،مغلئی باڑ،لڑکپن تو قلعے کے درو دیوار نے دیکھا ہوگا، جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈی سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گذرا ہے، لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔
دیکھا جائے تو اشرف صبوحی نے دہلی کی تہذیب ، آداب ِ معاشرت اورزبان کے جوہر کو ان افراد کے ذریعے منعکس کیا ہے اورمٹتی ہوئی دہلی کی یادگارکو محفوظ کرنے کی شعوری سعی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ شخصیتیں اس عہد کی یادگار ہیںجس عہد میںتہذیب شکست و ریخت سے دو چار تھی، کہہ سکتے ہیں کہ اشرف نے ان افراد کے توسط سے اقداراورتہذیبی نظام کی تصویر کشی کی ہے اور یہی ان کی انفرادیت بھی ہے۔ اردو کے مایہ ناز انشاءپرداز اور ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین کی تصنیف’آندھی میںچراغ‘ کے تیسرے حصے میں مقتدر علمی، ادبی اورسیاسی شخصیتوںکی سیرت ، لیاقت،خدمات اورکارناموں کونہایت فنکاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان شخصیتوں کے اوصاف کی بنا پرعنوانات قائم کیے گئے ہیںمثلاً سحر آفرین(گاندھی جی)،میر کارواں (ابوالکلام آزاد)، مرد عابد(جواہرلال نہرو)،مرد درویش (خواجہ غلام الثقلین)،مجتبائی خاتون( شبنم)،شعلۂ مستعجل (سیدہ خاتون)،مرد مومن (ڈاکٹرذاکر حسین) اوردانائے راز( ڈاکٹر اقبال) یہ درست ہے کہ غلام السیدین نے ان اشخاص کی شہرت ،قابلیت اورمختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی سیاسی،سماجی اور ادبی خدمات کو اصل موضوع بنایا ہے لیکن جزئیات نگاری اور جمالیاتی لطف و کیف کے سبب ان شخصیت پر کشش اوردلچسپ بن گئی ہیں۔ وہ شخصیت کے مختلف پہلوں کو باریک بینی اور فنی نزاکتوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس سے افراد کی جیتی جاگتی تصویر ابھرجاتی ہے۔ مردِ درویش کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
چہرہ روشن، ناک نقشہ درست، آنکھوں کی چمک ذہانت پر شاہد، ہونٹوں کی ساخت اور تنگ دہن متانت اور سنجیدگی پردال، پیشانی فراخی وسعت خلق کا دیباچہ، قد متوسط سے کچھ زیادہ مگرجسم کے لیے موزوں بدن چھریرا،رنگ صاف کھلتا ہوا گندمی چہرہ پر چھوٹی خوشنما داڑھی تھی اورجہاں تک یاد کام کرتی ہے اس پر متانت اوروقارکی خاص شان پائی جاتی ہے۔
غلام السیدین کی شخصیت کی خوبیوں کو خوبصورت الفاظ کے پیکرمیں منتقل کردیا ہے الفاظ کی افراط اوربیان کی روانی نے ان کی عبارتوںکو غور و فکر کا مرقع بنا دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ قاری کو بسا اوقات یہ عبارتیں بوجھل لگتی ہیںتاہم ان کی نثرعلمی ہے جس کے کچھ اپنے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔
عبد الرزاق کانپوری خاکہ نگاری میں بلند مقام رکھتے ہیںجنھوں نے سر سید اور ان کے نامور رفقا کو موضوع بنایا۔ عبد الرزاق کانپوری سر سید کے احباب میں شامل تھے اور ان کے احباب کو قریب سے دیکھا تھا ۔یہ تمام شخصیتیں ادب اور سیاست کے میدان میں ممتاز ہیں اور ماضی کی تاریخ کا اہم حصہ بھی ان کی تصنیف ’یاد ایام‘سترہ اشخاص پر مشتمل فنی اور فکری اعتبار سے کامیاب خاکے ہیں۔انھوںنے جن شخصیتوں کو موضوع بنایا ان میں آنریبل سر سید احمد خان بہادر،شمس العلما شبلی نعمانی، خان بہادر علی خاں، منیر نواز جنگ محسن الملک بہادر،خان بہادر منشی ذکاءاللہ، شمس العلمامحمدحسین آزاددہلوی،شمس العلما حافظ مولوی ڈپٹی نذیر احمد ایل۔ایل۔ڈی دہلوی،شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی، نواب وقارالدولہ، وقارالملک ، مولوی حاجی مشتاق حسین خاں بہادر، منشی محمد رحمت اللہ، رعد مالک نانی پریس و ایڈیٹر، اخبار عالم تصویر کانپوری، مولوی عبد الحلیم شرر لکھنوی ایڈیٹر رسالہ دل گداز، مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی پروفیسرجامعہ عثمانیہ حیدر آباد،دکن، خان بہادر میر ناصر علی ادیب دہلوی ایڈیٹر رسالہ صلائے عام، خان بہادر سید جعفر حسین لکھنوی انجینئرمحکمہ آب پاشی صوبۂ متحدہ اودھ،آنریبل جسٹس سید محمودہائی کورٹ الہ آباد،نواب مسحور جنگ بہادر،سر سید راس مسعود مرحوم شامل ہیں۔
یہ تمام خاکے سر راس مسعود وزیر تعلیم بھوپال کے ایما اورفرمائش پر لکھے گئے جن کامقصد محترم اور معزز اشخاص کے کار ہائے نمایاںکوتواریخ کے صفحات پر محفوظ کرکے نئی نسلوں کی ذہنی و فکری رہنمائی اور ان کی عملی زندگی کی تربیت مقصودتھا۔واقعہ یہ ہے کہ عبد الرزاق کانپوری نے ان مقاصد کو بڑی خوبی کے ساتھ اور دلکش انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ شخصیتیں ہماری نگاہوںکے سامنے آ جاتی ہیں۔محسن الملک کا تعارف اس طرح کرتے ہیں:
تعلیم یافتہ طبقے میں وہ کون شخص ہے جو محسن الملک کے نام اور ان کی قومی خدمات سے واقف نہ ہو لیکن اس موقع پر ہم چند سطروں میں ان کا تعارف کراتے ہیں۔سر سید احمد خاں کے نورتن میں محسن الملک کا درجہ بہت بلند ہے اور سر سید کی طرح وہ خود بھی پچھلے دور اور نیز اصطلاحی معنی میں ایک بڑے شخص تھے جن کا ایثاراور قومی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔
عبد الرزاق کانپوری کی شخصیت نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم تاریخ کی دیو قامت شخصیات سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ہم انھیں اپنے درمیان پاتے ہیں اور ان شخصیات کے توسط سے ماضی کی تاریخ و تہذیب سے با خبر ہوتے ہیں ۔ان اشخاص کے اندر پوشیدہ لیاقتیں ، محبت اور بے لوث خدمات کا جذبہ ،وضع داری اوربنی نوع انسان سے ہمدردی جیسے اوصاف ہماری تاریخ ،تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں۔شبلی پر بے تکلفی کے ساتھ لکھے گئے خاکے سے شبلی اور سرسید کے باہمی تعلقات اور شبلی کی شخصیت کے نکھارنے اور سنوارنے میں سر سید کی فکری جہتوں کے اثرات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ سر سید کے تعلق سے عبد الرزاق کانپوری نے بعض اچھوتے گوشوں کی نشان دہی کی ہے اوررفقا سے علمی امور پر اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے۔ علاوہ سر سید کی رحم دلی، ہمدردی اور خلوص و محبت، ادبی نشست وبرخاست اور گفتگو و ہنسی مذاق جیسی جزئیات کو شامل کر کے سر سید کا مرقع تیار کر دیا ہے۔ کانپوری کے بعض خاکے سوانحی طرز پرلکھے گئے ہیں جن میں اشخاص کی پیدائش ، حسب و نسب ، ابتدائی تعلیم ، کارنامے وغیرہ کا ذکر ہے۔ اکبر الہ آبادی، مولانا حالی اور محمد حسین آزاد پر لکھے گئے خاکے اس کا بین ثبوت ہیں۔
اردوکے ممتازمحقق مالک رام نے ادبی شخصیتوں کو موضوع بنایا جن سے ان کی ملاقات اور مراسم رہے۔ ان کی پہلی تصنیف ’ وہ صورتیں الہی‘ 1946 میں منظر عام پر آئی جن میں دس مشہور ادبی شخصیتوں پر لکھے گئے خاکے شامل ہیں۔ ان میں غالب ،سائل دہلوی، نواب صدریار جنگ، مولانا سید سلیمان ندوی، پنڈت دتاتریہ کیفی، یاس یگانہ چنگیزی، جگر مراد آبادی، نیاز فتح پوری اور غلام رسول مہر کے نام مندرج ہیں۔غالب ان کی تحقیق کا خصوصی موضوع تھا جس سے مطالعہ غالب کے کئی نئے گوشے سامنے آئے جسے یقینا ان کا کارنامہ تصور کیا جائے گا۔
مالک رام نے اکثر ادبی شخصیتوں پر قلم اٹھایا ہے جن سے علمی و ادبی دوستی تھی اس ضمن میں عمر و رتبے کی قید نہ تھی۔صدر یار جنگ کی شخصیت کے باب میں ان کی جچی تلی رائے ملا حظہ ہو :
اصل بات یہ ہے کہ وہ بفضلہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اساسی اور بنیادی طور پر علمی آدمی تھے ان کی روح اورذوق کی تسکین اگر ہوتی تھی تو کتابوں سے یا صاحب علم اصحاب کی صحبت میں رہنے سے۔ جہاں کہیں انھیں یہ دونوں چیزیں نظرآجاتیں ان کا بیرونی پردہ ( جو بہر حا ل عارضی چیز تھی) اٹھ جاتا اور وہ اپنے اصلی روپ میں نمایاں ہو جاتے۔ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔
مالک رام کے خاکوں میں غالب ،سائل دہلوی، جگر مرادآبادی اورصدر یارجنگ پرلکھے گئے خاکے جاندار اور جامع ہیں۔ جن میں انھوں نے ان کی شخصیت کی مکمل تصویرکشی کی ہے۔ روز مرہ کے معمولات ، عادات و اطوار ، کھانا پینا وغیرہ کا معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے جس سے ان کی بھر پور اور تہہ دار شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے، جب کہ مولانا سید سلیمان ندوی، نیاز فتح پوری،غلام رسول مہر اور پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی پر لکھے گئے مضامین ان بزرگوں کے فن اور ادبی خدمات کے ترجمان ہیں۔ جن سے ان کی علمیت اورقابلیت اور تنقید و تحقیق کے فہم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ غالب پرلکھا گیا خاکہ ان معنوں میںمختلف ہے کہ اس میں مالک رام نے غالب کی کتابوں اور مختلف ماخذات کی روشنی میں جو خاکہ تیار کیا ہے اس سے غالب کی شخصیت کی جزئیات واضح طور پر نمایاںہوگئی ہیں اورغالب کی متحرک تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے۔ اس باب میں نثار احمد فاروقی کا تاثر ملاحظہ ہو:
حالی غالب کی آنکھیں دیکھنے والوں میں سے تھے انھوں نے بھی غالب کے عادات و اطوار اورسیرت و اخلاق کا اتنا واضح نقش نہیں پیش کیا ۔ مالک رام نے غالب کو کتابوں میں دیکھا اورمضمون میںہمیں دکھایا۔
مالک رام کی دوسری تصنیف’تذکرہ ٔ معاصرین‘چار جلدوں پر مشتمل ہے جن میں انھوں نے کئی شعراءسے ملاقاتوں کی بنا پر ان کے حالات رقم کیے ہیں۔یہ سوانحی طرز کی تصنیف ہے اور بڑی حد تک محمد حسین آزاد کی تصنیف ’آب حیات‘ سے مماثل ہے۔ مالک رام کی دوسری تصنیف’ کچھ ابوالکلام آزاد کے بارے میں‘ میں آزاد سے ملاقاتیں اوران سے ادبی گفتگو اوران کی ہمدردی کا تذکرہ ہے۔
گذشتہ صدی کے نصف اول میں لکھے گئے خاکے اس لحاظ سے بے حد اہم اور معتبر ہیں کہ ان میں فکری اور فنی لحاظ سے بے حد پختگی، متانت،اور خلوص و دیانتداری پائی جاتی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ان بزرگوں نے اردو خاکہ نگاری کو ایک معیار اور وقار عطا کیا ہے جس میں شخصیت کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم ادبی چاشنی اوراسلوب کے رچا نے اسے لافانی تخلیقات بنا دیا ہے جس کی قدرو منزلت ہمیشہ باقی رہے گی۔
Aftab Ahmad Afaqui
Department of Urdu
Banaras Hindu University
Varanasi (UP)


سہ ماہی فکر و تحقیق۔ جنوری تا جون 2017

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں