19/8/19

رضا نقوی واہی کے تیر و نشتر مضمون نگار: جابر زماں


رضا نقوی واہی کے تیر و نشتر


 جابر زماں


آزادی کے بعد ہندوستان میں جن لوگوں نے مزاحیہ شاعری میں نام پیدا کیا ان میں فرقت کاکوروی اور شادعارفی کے ساتھ رضا نقوی واہی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ فرقت نے پیروڈی کو اپنا فن بنایا اور اسی کے دائرے میں محدود ہوگئے۔ ان کے یہاں پیروڈی کے اثر سے مزاح کا معیار برقرار نہیں رہتا۔ بلکہ اکثر جگہ مزاح برائے مزاح کی کوشش ملتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی اور ظریف لکھنوی کے بعد رضا نقوی کی آواز و اسلوب سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے طنز و ظرافت کو سنجیدگی اور سنجیدگی کو طنز و ظرافت کا تناظر عطا کیا ہے کہ سنجیدہ اور مزاحیہ موضوعات کی دوئی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں مزاح شرافت و شائستگی کے حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔
سید محمد رضا نقوی واہی [17 جنوری 1914 — 5فروری 2002] کے ادبی اور شعری ذوق کی نشو و نما ان کے آبائی وطن اورپٹنہ کے ادبی ماحول میں ہوئی۔ انھوں نے سنجیدہ شاعری سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیالیکن بعد میں طنز و مزاح کی طرف مائل ہوگئے۔
مزاحیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مصلح کا کردار ادا کرے بلکہ اس کا مخلص ہونا ہی کافی ہے۔ رضا نقوی واہی کی شاعری بھی ’مصلح‘ ہونے کی دعوے دار نہیں۔ اس کے نزدیک صرف افراد و اشخاص کی خامیوں اور برائیوں کی طرف تخلیقی اصولوں کے مطابق اشارہ کردینا ہی کافی ہے۔ ان کی طنز نگاری معاشی اور معاشرتی کمزوریوں کا بے رحم آئینہ ہے۔ وہ کسی فرد واحد کو نشانہ بنانے کے بجائے اداروں اوراجتماعی زندگی کی خامیوں پرانگشت نمائی کرتے ہیں۔ ان کے طنز میں تلخی کے بجائے نرمی ملتی ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالت پر اس طرح وار کرتے ہیں کہ پڑھنے والا مزے لیتے ہوئے ان کا ہم نوا بن جاتاہے۔ شوخی و ظرافت رضا نقوی کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ بڑے سے بڑے المیے کا اظہار مزاحیہ اسلوب میںاس طور پرکر جاتے ہیں کہ مزاج میں سنجیدہ فضا پیدا ہوجاتی ہے الفاظ کے الٹ پھیر کی مدد سے کرداروں اور واقعات کی ایسی مضحک تصاویر پیش کر جاتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ رضا نقوی کی شاعری معاشرے کے اس بڑے طبقے کی سرگرمیوں، رجحانات اور تہذیب و تمدن سے جنم لیتی ہے جسے عوام کہا جاتا ہے۔ ان کی تکالیف، مسائل، غم اور خوشیاں رضا نقوی کے مشاہدے میں آ کر مزاحیہ اسلوب میں اس طور پر ڈھلتی ہیں کہ قاری لطف اندوز ہونے کے ساتھ سیاسی سماجی خامیوں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
رضا نقوی واہی پر گو شاعر ہیں۔ اس کے باوجود ان کا شعری کینوس وسیع اور ان کے کلام میں ہمہ گیری ہے۔ انھوں نے طنز ومزاح کو جو ادبی وقار عطا کیاوہ بہت کم تخلیق کاروں کے حصے میں آیاہے۔ عصری احساس، معاشرتی شعور اور مثبت نقطۂ نظر ان کے شعری خصائص ہیں۔ انھوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا اور جھیلا ہے۔ اردو کی ادبی روایت پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ رضا نقوی واہی کو شاعری کے فن پر دستگاہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ظریفانہ شاعری میں اکبر الٰہ آبادی کو آئیڈیل تو بنایا لیکن خود کو اسی دائرے میں محدود نہیں کیا۔ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، احمق پھپھوندوی، ظریف لکھنوی وغیرہ کے اسالیب سے بھی استفادہ کیا۔ ان کے شعری متن میں گہرا سماجی شعور ملتا ہے۔ ان کے یہاں معاشرے کے کرب کا اظہار اور عوامی جذبات واحساسات کی بے باک ترجمانی ملتی ہے۔ ان کے یہاں طنزومزاح محض پھبتی اورقہقہہ بازی سے عبارت نہیں بلکہ ان کے یہاں تہذیبی قدروں کی پامالی پرگھٹن پائی جاتی ہے۔ وہ زندگی کی ناہمواری اوربے تکے مظاہرکو طنزو تعریض کا نشانہ بناکر صحت مند معاشرے کی تعمیر کا خواب دیکھتے ہیں۔ خودغرض سیاست، رشوت، وعدہ خلافی، دھوکہ بازی، چغل خوری، ریاکاری، عیش پرستی کے خلاف انھوں نے صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔ وہ سماجی قدروں کی تنزلی کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:
صدر دروازے سے داخل ہوں شفا خانے میں گر
کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو، آئے کدھر
چور دروازے سے لیکن گر ہوا ہو داخلہ
نرس ہو یا ڈاکٹر سب آپ پر ہوں گے فدا
آپ کو درپیش ہو پٹنہ سے دلی کا سفر
اور رِزرویشن کسی صورت نہ ملتا ہو اگر
چور دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹا کر دیکھیے
برتھ مل جائے گا فوراً آزما کر دیکھیے
[چور دروازہ]
یہاں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ معاشرے میں عام ہوچکی ہے۔ ہر شخص ’چور دروازے‘ کے استعمال کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اب اسے یہ برائی معلوم نہیں ہوتی ہے۔
حکومت، اربابِ حکومت اور سماج کے ہر طبقے کا فرد ان کی مزاحیہ تنقید کا ہدف بنا ہے۔ انھوں نے اس کمال ہوشیاری کے ساتھ آزادی کے بعد پروان چڑھنے والے سیاسی اور ثقافتی رویے کو اپنی تحریروں کی اساس بنایا ہے کہ کل کا مورخ ہندوستان کے سماجی اور سیاسی تاریخی حقائق تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ ان کے ہر متن کے بطن میں باہمی اخوت، ملی وحدت، انسانی بھلائی اور امن و آشتی کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ انتخابات میں اخلاقیات کا فقدان ہے۔ ان میں حصہ لینے والوں پر کسی طرح کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہر بدمعاش، غاصب اور شاطر شخص حکومت میں شامل ہونے پر تیار ہوتا ہے۔ انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے نام پر بہ طور عطیہ موٹی رقم وصول کرتی ہیں، جسے سیاسی رشوت کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت سازی کے مرحلے ہیں۔ وراثتی سیاست دان بڑی بے شرمی سے اپنی پارٹیاں بدل کر مقتدر جماعت کی رکنیت حاصل کر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے سیاسی لوگ اپنے الیکشن کے دوران پانی کی طرح بہائے گئے روپیوں کو سود سمیت حاصل کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ جس ملک میں سیاست کا یہ چلن ہو وہاں عوامی خوشحالی و ترقی کی امید رکھنا خام خیالی ہی نہیں بے وقوفی بھی ہے:
بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے
جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے
اوروں کا جو حصہ ہے مجھ کو وہی داتا دے
محرومِ بتاشہ ہوں تو پوری و حلوا دے
مفلس کی لنگوٹی تک باتوں میں اتروالوں
احسان کے پردے میں چوری کا سلیقہ دے
[نئے لیڈر کی رعایا ص:87 کلام نرم ونازک]
 رضا نقوی نے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے موضوعات کو وسعت دینے میں خصوصی کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے سیاست، ادب، ثقافت اورمذہب ان تمام موضوعات کو انھوں نے ہدف تنقید بنایا ہے۔ انھوں نے طنز کے سہارے جاں بہ لب معاشرے کی ہر دکھتی رگ پر نشتر زنی کی کوشش کی ہے۔ اخلاقی اقدار کی بے سروسامانی نے معاشرے میں رشوت، سفارش اور جھوٹ جیسی لعنتوں کو عام کر دیا ہے۔ قوموں کو تباہ کرنے والی ان برائیوں پراس وقت سب نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ کرپشن کی زد میں تعلیم جیسا مقدس ادارہ بھی ہے۔ انھوں نے اس محکمے کی لاپروائی اور لوٹ گھسوٹ کو مختلف عناوین میں نشان زد کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نظم کے چند اشعار دیکھیے:
سوالات امتحاں کے حل کیا کرتا ہوں یوں اکثر
کلیجہ منھ کو آتا ہے مورخ کا، مبصر کا
میں دے کر امتحاں ہر فکر سے آزاد رہتا ہوں
سپرد ابا میاں کے، پیروی کرنے کی خدمت ہے
انھیں ہر ممتحن کے گھر کی مٹی کوڑ کھانا ہے
کہ میرا فیل ہونا حق میں خود ان کے مصیبت ہے
[میں اسٹوڈنٹ ہوں؛ پہلا رخ]
استادوں کو فرصت ہی کہاں ہے کہ پڑھائیں
تہذیب سکھائیں ہمیں، اخلاق سکھائیں
کالج میں جو دن رات لڑاتے ہوں سیاست
ایک دوسرے کی خود ہی بناتے ہوں حجامت
دن رات جنھیں اپنی ترقی کی ہوس ہو
انعام کی، اعزاز کی، کرسی کی ہوس ہو
ان سے یہ توقع کہ ہمیں راہ دکھائیں
جو خود ہی ہوں بگڑے، وہ ہمیں خاک بنائیں!
[اسٹوڈنٹ؛ دوسرا رخ]
یہ دونوں حصے ہمارے تعلیمی منظرنامے کی صورت حال کا حقیقی بیانیہ ہیں۔ طنزیہ سیاق عام طور پر مزاحیہ معنی کی تشکیل میں غلو بلکہ اغراق سے استفادہ کرتا ہے۔ لیکن خوبی تو یہ ہے کہ مصنف نے جس مسئلے کو یہاں نشان زد کیا ہے اس میں انھیں مبالغے کی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے۔ بلکہ اس محکمے کی تصویر ہی اتنی بھونڈی بن چکی ہے کہ اسے حقیقی صورت حال میں پیش کرنے کے باوجود قاری اس کی ناہمواری پر قہقہہ لگانے کے لیے تیار کھڑا نظر آتا ہے۔اس کی مزید تصدیق کے لیے دوسری نظم کا ایک متن ملاحظہ ہو:
آپ کی تعلیم؟‘ ’بی اے پاس ہوں عالی جناب!‘
کمبی نیشن؟‘ ہسٹری، اردو ادب، علم الحساب!‘
ہسٹری؟‘ اچھا تو یہ کہیے اشوکا کون تھا؟
پاٹلی پترا کے شاہنشاہ، اکبر کا چچا!‘
میرزا غالب کے بارے میں بھی ہیں کچھ جانتے؟
کیوں نہیں؟‘ ہم شاعر اعظم ہیں ان کو مانتے
ذوق کے شاگرد ہیں ہم عصر میر و شاد ہیں
شاہ نامے کے مصنف ہیں،جگت استاد ہیں
شکریہ! حاضر جوابی آپ کی ہے بے نظیر
آپ آگے چل کے بن سکتے ہیں اک اچھے وزیر
[انٹرویو]
یہاں میں نے بہ طور مثال چند اشعار پر اکتفا کیا ہے۔ ان کے مفہوم پر غور کریں۔ لمحۂ فکریہ ہے ہمارے لیے کہ آج کا طالب علم، حصول علم کے علاوہ دوسرے جملہ اعمال و افعال میں پیش پیش ہے۔ اس کے پاس اگر کچھ نہیں ہے تو صرف علم۔ یہاں نقوی واہی نے جس طرح کے طالب کی تصویر کشی کی ہے ایسا نہیں کہ یہ تمام تر ان کی ذہنی اور تخیلاتی تخلیق ہے۔ بلکہ معاشرے میں جو لوگ اس پیشے سے منسلک ہے ان کا سابقہ ایسے طالب علموں سے اکثر و بیشتر پڑتا ہے۔
رضا نقوی نے ادب وفن کو بھی اپنے طنز کا موضوع بنایاہے۔ انھوں نے اس حوالے سے جو نظمیں کہی ہیں ان کے موضوعات جداگانہ ہیں۔ شعرستان کے عنوان سے جو نظمیں کہی گئی ہیں ان کا تعلق بیشتر ادبی اور تخلیقی موضوعات ومسائل سے ہے۔ اس میں شاعروں کے لیے ایک ہوم لینڈ کی تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی منظوری اور تشکیل کے بعد کا منظر نامہ یوں پیش کرتے ہیں:
اٹھ گئی جب ملک سے اشعار سازوں کی برات
کچھ غذائی مشکلوں سے قوم نے پائی نجات
دفعتاً بے روز گاری کی وبا بھی کم ہوئی
زور شورش کا گھٹا سرکار مستحکم ہوئی
[تشکیل شعرستان کے بعد]
یہ صورت حال تو صرف شاعروں کے تعلق سے ہے۔ نقد و ناقدین کی حالت بھی خراب تھی:
ناقدان شعر کو سب سے بڑا دھکا لگا
گر پڑے سب منھ کے بل ایسا کڑا دھکا لگا
شاعروں کے دم سے تھا وابستہ ان کا روزگار
ساری عزت، ساری شہرت کا ان ہی پر تھا مدار
ان کے قائم کردہ و خود ساختہ معیار پر
جو نہ اترا فٹ، چڑھایا اس کو فوراً دار پر
چیر پھاڑ اشعار کی کرتے تھے ناقد اس طرح
بھیڑ بکروں سے نپٹتا ہے قصائی جس طرح
[تشکیل شعرستان کے بعد]
رضا نقوی واہی تنقید پیشہ افراد سے بہت دل برداشتہ ہیں۔ انھوں نے اس نظم کے علاوہ بھی مختلف عناوین کے تحت اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ ’نقاد‘کے عنوان سے چند اشعار دیکھیے:
ان سے ملیے آپ ہیں جوہر شناس نقد فن
کانپتی ہے دبدبے سے آپ کے روح سخن
جب کہ قسمت بٹ رہی تھی عالم ارواح میں
آپ کورکھا گیا تھا زمرۂ جراح میں
آپ کو اہل قلم سے اک کدورت ہو گئی
نظم ہو یا نثر دونوں ہی سے نفرت ہو گئی
آپ کا قبضہ ہوا تنقید کے میدان پر
اک مصیبت آگئی شعر و ادب کی جان پر
یہ دونوں نظمیں تنقید کے تعلق سے ان کے رویے کو بیان کرتی ہیں۔ در اصل مزاحیہ ادب کی تنقید نہ ہونے کی وجہ سے انھیں خاصی تکلیف ہے۔ ہاں بعض جگہ یہ شکایت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس میں بھونڈا پن در آتا ہے۔ تنقید اگر کسی فن پارے کو توجہ سے نہیں دیکھتی تو یہ ناقد کی خامی ہے نہ کہ بہ ذات خود تنقید کا فلسفہ ہی شہر بدری کے لائق ہے۔
رضا نقوی پیروڈی نگاری اور تضمین کے باب میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی نظم’غالب اور اردو صدی‘ مختصر ہونے کے باوجود اپنے ہدف میں کامیاب نظر آتی ہے:
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
یعنی اردوے معلی کا مآل اچھا ہے
بات کڑوی سہی، لیکن ہمیں کہنے دیجے
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
جشن غالب نے جو بخشی ہے ذرا سی رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
[غالب اور اردو صدی]
یہ چھ مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جس میں غالب کے تین مصرعوں کو تخلیقی انداز میں پرویا گیا ہے۔
رضا نقوی واہی کے شعری اسلوب نے آزادی کے بعد مزاحیہ ادب کو نئی تازگی عطاکی ہے۔ انھوں نے جس کمال ہوشیاری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے خیالات کو شعری پیکر عطا کیے ہیں وہ بہت سوں کے لیے نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہیں۔ اس لیے رضا نقوی کا نام ادب کے سنجیدہ خدمت گار کی حیثیت سے لیا جاتا رہے گا۔ ان کا شعری متن ہر دور میں کسی بھی تنقیدی رویے سے آنکھ ملانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

Mr. Jabir Zaman,
 246-Sutlej Hostel J.N.U.
 New Delhi-110067
Email: jabirzama@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا،مئی 2015




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں