اردو ناولوں میں عورتوں کی ترجمانی
واثق الخیر
زمانہ قدیم سے ہی عورت پدر سری
سماج میں مسائل سے جوجھ رہی ہے۔ہر دور میں معاشرے نے اپنے اپنے مزاج، ذوق کی
مناسبت سے عورت کو قبول کیا ہے اور اسے نظر انداز بھی کیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے
کہ سماج کی تشکیل اور بقا میں عورت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مرد کے ساتھ مل کر وہ
بنی نوع انسان کو منزل بہ منزل آگے کی طرف بڑھاتی رہی ہے۔ ماقبل تاریخ کا دور ہو
یا تاریخی دور عورت نے ہر دور میں انسانیت کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں بے مثال
کردار ادا کیا ہے۔ اس کا رول تو نمایاں ہے لیکن کیا اس کی حیثیت بھی نمایاں ہے اور
اسے وہ درجہ دیا گیا ہے جس کی وہ مستحق ہے۔ دیکھیے آخر کیا وجہ ہے کہ اکیسویں صدی
کے دوسرے عشرے میں بھی عورت اپنے تشخص کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ وہ معاشرے کی بے
حسی کا شکار ہے۔ اس کے خلاف جرائم کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ آئے دن اخباروں
اور رسالوں میں اس نوع کے واقعات نظر سے گزرتے ہیں۔ کہیں بچیاں مرد کی ہوس کا شکار
ہورہی ہیں تو کہیں شوہر کے ذریعہ بیوی پر ظلم ہورہا ہے۔ ایسے وقت میں عورت ذات جس
ذہنی کرب سے گزرتی ہے اس کو اردو ناول نگاروں نے بیان کیا ہے۔
اردو ناولوں میں ابتدا سے ہی
عورتوں کے مسائل کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔ جن میں ازدواجی تعلقات کی
پیچیدگیوں سے لے کر روزمرہ کی زندگی کے احوال سبھی کچھ شامل ہیں۔ جدید تعلیم کے
اثرات کے سبب انسانی سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کا عکس بھی ناولوں میں
دکھائی دیتا ہے۔ تہذیبی ٹکراؤ اور جدید طرز زندگی کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور گھریلو حادثات و
واقعات اور خاتون خانہ کی حقیقی روداد بھی ناول کا اہم حصہ ہے۔
ایک
عورت کیا سوچتی ہے، کیا محسوس کرتی ہے، اس کی کیا خواہش ہے، کون سے عوامل اس کی
شخصیت کی تکمیل یا تخریب کا سبب بنتے ہیں۔ ان نکات پر سرسید تحریک کے زیر اثر ان
کے رفقاءنے توجہ دی۔ سرسید کے رفقاءعورتوں کو سماج کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم
رکن سمجھتے تھے۔ سرسید کے اہم رفیق پہلے ناول نگار نذیر احمد کو بھی اس کا احساس
تھا۔ اسی نقطۂ نظر سے انہوں نے اپنے ناولوں کا موضوع ہندوستانی سماج کو بنایا۔
انہوں نے ادب میں مافوق الفطرت عناصر جن، بھوت، پریت اور طلسم کے غیر انسانی عناصر
کو ترک کرکے اپنے سماج کے عام انسانوں کے روزمرہ کو بیان کیا ہے۔
نذیر احمد کو اپنے ہم عصروں میں
عورتوں کی اصلاح کی ضرورت اور اہمیت کا شعور سب سے زیادہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ
جاگیردارانہ اور زمیندارانہ دور کی اخلاقی پستی اور معاشرتی انحطاط کے اثرسے طبقہ
نسواں بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے انہوں نے طبقہ نسواں کی پستی کے اسباب اور اس کے
مسائل کو خاص طور سے اپنے ناولوں میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نذیر احمد
کے ناولوں میں توجہ کا مرکز متوسط طبقے کی عورتوں کے مسائل ہیں۔ عورتوں کے مسائل
کی عکاسی کرکے ان کی پستی کے اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں
جاگیردارانہ نظام کی ستائی ہوئی عورت کی جیتی جاگتی تصویر ملتی ہے۔ کیونکہ اس نظام
میں عورت کو مرد اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ نذیر احمد نے عورت کی زندگی کے کسی بھی
پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ان کی آپسی رنجشوں، اخلاقی پستی، جہالت، ضعیف
الاعتقادی، رسم و رواج کی پابندی، مذہب سے بے گانگی اور اسی قسم کی دوسری برائیوں
پر، جن کی وجہ سے اچھی مائیں اور سلیقہ شعار بیویاں نہیں بن سکتی تھیں، بڑی خوبی
سے روشنی ڈالی ہے۔ اس طبقے کی معاشرتی زبوں حالی کا انھیں شدید احساس تھا۔ ناول
’مراةالعروس‘ میں عورتوں کی سماجی بے وقعتی پر روشنی ڈالی ہے۔ نذیر احمد کو
جاگیردارانہ عہد کی ان مظلوم عورتوں سے شدید ہمدردی تھی جو مردوں کی ملکیت بن کر
رہ گئی تھیں اور جنھیں صرف اس لیے جاہل رکھا جاتا تھا کہ مردوں سے مساویانہ حقوق
کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔ وہ عورت معاشی اعتبار سے مردوں کی محتاج تھی اور کسمپرسی
اور بے چارگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی۔ سماجی زندگی میں اسے کوئی خاص اہمیت
حاصل نہ تھی۔
عبدالحلیم شرر نے زیادہ تر
تاریخی ناول لکھے ہیں۔ لیکن ان کے ناولوں میں بھی عورتوں کے مسائل کی ترجمانی ملتی
ہے۔ ان کے ناولوں کی عورتیں بہادر بھی ہیں اور مردوں کے ساتھ میدان جنگ میں شریک
کار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے معاشرتی ناول میں عورتوں کی کم تر حیثیت اور پستی
کو موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے پردہ کی سخت گیری کی مخالفت اسلام کی روشنی میں کی
ہے۔ان کا ناول ’حسن کا ڈاکو‘ میں عورتوں کی تعلیم کی پر زور حمایت ملتی ہے۔ ناول
کا نسوانی کردار ’مہ لقا‘ کو جدید تعلیم سے آراستہ دکھایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی
بتانے کی کوشش کی ہے کہ کالج کے دوسرے لڑکے مہ لقا کی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔
ناول ’خوفناک محبت‘ میں جاگیردارانہ معاشرت میں پلی ہوئی عورت کا کردار پیش کرکے
شرر نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ جاہل اور ناتربیت یافتہ عورتیں گھریلو
نظام اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔ شرر خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے
عورتوں کی تعلیم کو ضروری بتاتے ہیں۔ اسی طرح ناول ’مینا بازار‘ میں روایتی پردے
کی سخت مخالفت کی ہے۔ ناول ’دلچسپ‘ بھی عورتوں کے مسائل کے حوالے سے اہم ہے۔ اس
میں بیوہ کی شادی کی وکالت کی کئی ہے۔
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اپنے
ناولوں میں عموماً لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کے اسباب و علل کو پیش کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی
انھوں نے عورتوں کی زندگی کے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔ سرشار نے اپنے ناولوں میں
اگر ایک طرف مردوں کی جاگیردارانہ ذہنیت اور عیش کوشی کی ملامت کی ہے تو دوسری طرف
بیگمات کے اعلی اقدار، روایات اور عفت و پاکدامنی کا ذکر بھی کیا ہے۔ سرشار بیگمات
کی شوہر پرستی، وفاداری، شرافت اور وضعداری کا اعتراف کرتے ہیں۔ ’سیر کہسار‘ کی
نواب نادر جہاں بیگم اور ’جام سرشار‘ کے نواب امین الدین حیدر کی بیوی ان تمام شریفانہ
صفات کا مجموعہ ہیں جو بیگمات کے کردار کا خاصہ تھیں۔ بیگمات کی یہ نیک نفسی اور
انکساری سرشار کو بہت متاثر کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نازیبا حرکات کے باوجود
وقت پڑنے پر سب کچھ ان پر نثار کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سرشار بیگمات
کی اعلی صفات کے بدلے امرا کی عیاشانہ زندگی کی ملامت کرتے ہیں۔ سرشار عورتوں میں
تعلیم کے حامی نظر آتے ہیں۔ تعلیم کو عورتوں کے لیے مشعل راہ بتایا ہے۔ وہ تعلیم
نسواں پر جگہ جگہ زور دیتے ہیں لیکن ان کا نظریہ تہذیبی قدروں تک ہی محدود رہتا
ہے۔ وہ تعلیم کے ذریعہ نوکری حاصل کرنے کی رائے نہیں دیتے بلکہ تعلیم سے گھریلو
زندگی اور بچوں کی تربیت میں عمدگی اور ہنر لانے کی بات کرتے ہیں۔
راشدالخیری نے بھی اپنے ناولوں
میں عورت پر سماج میں جن مظالم اور ناانصافیوں کو روا رکھا جاتا تھا اس کی دردناک
عکاسی کی ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں زیادہ تر عورتوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔
خانگی پیچیدگیاں اور زن و شوہر کے تعلقات کو ناولوں میں نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔
ان کا ناول ’شام زندگی‘ عورتوں کی تعلیم پر مبنی ہے۔ اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش
کی گئی ہے کہ سماج کو بہتر تبھی بنایا جاسکتا ہے جب عورتیں تعلیم سے آراستہ ہوں۔
وہ یہ تصور کرتے تھے کہ اس دور میں عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا اس کے اور آئندہ
آنے والی نسلوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ اس کے لیے انھوں نے کوشش بھی کی کہ تعلیم
یافتہ مسلمان عورتوں کو مدرسہ نسواں قائم کرنا چاہیے۔ تاکہ مسلم بچیاں اپنے مذہب
اور تہذیب سے بیگانہ نہ رہیں۔ عورتوں پر مغربی تعلیم کے غلط اثرات مرتب نہ ہوجائیں
اس کے لیے وہ خالص مشرقی اور دینی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں۔ ناول ’صبح زندگی‘ میں
نئی نسل کو اپنی اعلی اقدار کی پاسداری کا خیال رکھتے ہوئے ایسی تعلیم حاصل کرنے
کی ترغیب دیتے ہیں جو ان کے لیے بہتر ہو۔
مرزا ہادی رسوا کے ناولوں میں
بھی متوسط طبقے کی عورتوں کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اس طبقے کو رسوا شرفا کا طبقہ
بھی کہتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش انہوں نے جو ماحول پایا اس کی پستی اور خصوصاً شریف
گھرانوں میں جو انتشار تھا اس کو بیان کیا ہے۔ اس انتشار کی ذمہ داری مردوں کے
ساتھ ساتھ عورتوں پر بھی عائد کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ عورتیں جہالت کی وجہ سے
اپنے فرائض منصبی سے ناواقف اور اچھے خیالات کے اکتساب سے محروم رہتی ہیں۔ پس پردہ
رسوا عورتوں کو تعلیم کی دعوت دے رہے ہیں۔ رسوا اپنی مثالی عورت کے لیے جس چیز کی
ضرورت خیال کرتے ہیں وہ ہے تعلیم۔ کیوں کہ جدید دور میں انھیں اس کی اہمیت کا
احساس ہے کہ شرفا کی خانگی زندگی میں انتشار کی بنیادی وجہ عورتوں کی جہالت ہے۔ وہ
اس سے اتفاق رکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں عورتوں کو تعلیم سے محروم کرکے گھروں کی
چاردیواری میں مقید رکھنا قرین مصلحت نہ ہوگا۔ ’اختری بیگم‘ میں ہرمزی کے کردار کے
ذریعہ اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ تعلیم سے عورتوں کے تجربات وسیع ہوں گے۔ زمانے
کے حالات کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور ضرورت پڑنے پر وہ ہمت اور
حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرسکیں گے۔ تعلیم نسواں کے ساتھ ہی وہ شرافت کی
حدوں میں رہ کر آزادی نسواں کے قائل ہیں۔ انہوں نے ایسی پابندیوں کو جو عورتوں میں
بے جاشرم اور جھجک پیدا کرتی ہیں اسے بے ہودہ خیالات سے تعبیر کیا ہے۔
عورتوں کے مسائل کے نقطۂ نظر
سے اگر پریم چند کے ناولوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں عورتوں
کا درد زیادہ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ ان ناولوں میں عورتوں کی قابل رحم اور
دردناک زندگی بدلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف ہر
محاذ پر احتجاج ملتا ہے۔ دراصل پریم چند مساوات، انسانیت، شرافت اور انصاف کے قائل
تھے۔ وہ سماج کے ہر طبقے کو زندگی کی جدوجہد میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتے تھے۔
اس کے لیے ضروری تھا کہ عورت پہلے خودکفیل بنے۔ کیونکہ جب تک عورت معاشی حیثیت سے
مرد ذات کی محتاج رہے گی تب تک وہ دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی رہے گی۔ پریم
چند کے ناولوں میں عورت کے تمام ناگفتہ حالات و کوائف کا نقشہ ملتا ہے۔ وہ شادی
بیاہ کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کی آزادی رائے کے قائل نظر آتے ہیں بلکہ
وہ اس بات کی شدید حمایت کرتے تھے کہ شادی سے قبل عورت اور مرد کو تبادلہ خیال کا
پورا موقع ملنا چاہیے۔ ان کے نزدیک شادی ایک معاہدہ ہے جس کی کامیابی کا انحصار
فریقین کی رضامندی پر ہے۔ پریم چند کے ابتدائی ناول زیادہ تر سماج کے مسائل یعنی
بیوہ، طوائف، تعلیم اور تعدد ازدواج وغیرہ کے مسئلے پر مبنی ہے اور ان میں اصلاح
کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا۔ لیکن بعد کے ناولوں میں انھوں نے عورت کو ایک
سیاسی اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی فعال دکھایا ہے۔ ان سے قبل کسی میں بھی
اتنی جرأت نہ تھی کہ عورتوں کو پسماندگی سے نکالنے کی کوشش کرے اور انھیں مردوں
کے دوش بدوش لاکھڑا کرے۔پریم چند کے ناولوں میں ’چوگان ہستی‘، ’غبن‘ اور ’میدان عمل‘
خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جن میں عورتوں کے احساس و جذبات پوری طرح ابھر کر سامنے
آتے ہیں۔
صغرا ہمایوں مرزا نے بھی اپنے
ناولوں میں عورتوں کی بہتر زندگی کی حمایت کی ہے۔ ان کے دو نوں ناول ’زہرہ‘ اور
’سرگزشت ہاجرہ‘ میں عورتوں کی زندگی کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ناول ’زہرہ‘ میں
امور خانہ داری اور سماج کی فلاح و بہود کے لیے عورتوں کو تعلیم سے آراستہ ہونے کی
تائید ملتی ہے۔ اسی طرح ’سرگزشت ہاجرہ‘ میں امور خانہ داری، بچوں کی تعلیم و تربیت
اور شوہر کی مزاج شناسی کے رموز سے عورتوں کو باخبر رہنے کی صلاح ملتی ہے۔ وہ عورتوں
کو آگے بڑھنے کے لیے مشرقی تہذیب کے ساتھ مغربی تہذیب کے ہنر سیکھنے کی بات کرتی
ہیں۔ اور عورتوں کو ان سے مزین و آراستہ کرکے اپنی زندگی کو سنوارنے کا مشورہ دیتی
ہیں۔ عورت ذات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے وہ چاہتی ہیں کہ عورت پر زور زبردستی نہ
کی جائے اور اسے اپنی مرضی سے جینے کا حق دیا جائے۔
نذر سجاد حیدر کا ناول ’جانباز‘
میں ہیروئن مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر جدوجہد آزادی میں شامل ہوتی ہے۔ جس
سے ان کے اس شعور کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ نہ صرف آزادی نسواں اور مساوات کی خالی
خولی باتیں کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر اسے برتنا بھی چاہتے ہیں۔
قرةالعین حیدر اپنے ناولوں میں
اعلی مسلم سماج کی کہانی بیان کرتی ہیں جس میں عورتوں کے مسائل اور ان کا دکھ درد
بھی سامنے آتا ہے۔ کیونکہ وہ جب بھی سماج کی داستان بیان کرتی ہیں تو اس میں بسنے
والے نسوانی کردار کے مسائل، اس کی لاچاری و مجبوری اور اس پر ہونے والے جبر و
استحصال کو بھی پوری طرح سامنے لاتی ہیں۔ ویسے وہ براہ راست عورت کو موضوع بناکر
ناول کی تخلیق نہیں کرتی ہیں لیکن نسوانی کردار کی وجہ سے عورتوں کے مسائل اس میں
در آئے ہیں۔ انھوں نے کئی ناول لکھے جن میں نسوانی کردار واضح طور پر مرکزی حیثیت
اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’آگ کا دریا‘ کی چمپا ہو یا ’جلا وطن‘ کی کنول
کنواری، ’چائے کے باغ‘ کی راحت کاشانی ہو یا ’دلربا‘ کی گلنار، ’ہاؤسنگ
سوسائٹی‘ کی ثریا حسین ہو یا ’سیتا ہرن‘ کی سیتا، ’آخری شب کے ہم سفر‘ کی دیپالی
سرکار ہو یا ’میرے بھی صنم خانے‘ کی رخشندہ جو جاندار کردار ہونے کے باوجود مردوں
کے جبر و استحصال سے بچ نہیں پاتی ہیں۔ ’آخری شب کے ہم سفر‘ کی دیپالی سرکار
عورتوں کے احساسات و جذبات کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہے۔ وہ سماج کی بندشوں کی
مخالفت اور مردانہ بالادستی والے معاشرے کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔
عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں
عورتوں کے جذبات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ بلکہ ان کی تخلیقات کا موضوع اکثر لڑکیوں
کے روزمرہ کے حالات ہوتے ہیں جسے وہ بڑی تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔ عورت کو سمجھنے
اور سمجھانے کے لیے انھوں نے اس کی جبلت، رہن سہن اور شعوری کیفیتوں کا جائزہ لیا
ہے۔ ٹیڑھی لکیر، ضدی، معصومہ اور دل کی دنیا وغیرہ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ خصوصاً
ان کا ناول ’ٹیڑھی لکیر‘ کا مرکز اور محور ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک
حساس لڑکی شمشاد عرف شمن کی زندگی کے نشیب و فراز اور اس کے تجربات ہیں۔ شمن ہجوم
میں رہ کر بھی تنہائی کے کرب سے ہمکنار رہتی ہے اور اپنے وجود کو بے موقع کہہ
کرکوستی رہتی ہے۔ انھوں نے ناول میں عمر کے ساتھ بدلتے ہوئے شمن کے کردار میں عورت
کی نفسیاتی تبدیلیوں کو پیش کیا ہے۔ ناول کا کردار ’شمن‘ کے ذریعہ عورتوں کے جذبات
پوری طرح اجاگر ہوتے ہیں۔ایسے سماج جس میں لڑکی اپنے ماں باپ اور بڑوں کی بات کو
من و عن قبول کرلیتی ہے خاص طور پر شادی بیاہ کے مسئلے پر جہاں لڑکیوں کو اپنے
انتخاب کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ایسے میں عصمت نے ’شمن‘ کے ذریعہ زمانے کی روایت
کو توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
جیلانی بانو کا ناول ’ایوان
غزل‘ حیدرآباد کے جاگیردارانہ نظام کی المناک داستان ہے۔ اس میں جاگیردارانہ سماج
میں عورتوں پر ہونے والے مظالم اور مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔ ساتھ ہی انگریزوں کی
آمد کی وجہ سے اس سماج کی عورتوں پر پڑنے والے مغربی اثرات اور اس طبقے کی عورتوں
کی دوہری زندگی کے المیے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس ناول میں ایک طرف روایتی
جاگیردارانہ معاشرت میں عورت کی حیثیت اور اس کے کرب کی تصویرملتی ہے تو دوسری طرف
انگریز سامراجیت کے طفیل میں مغربی اقدار اور جدید طرز زندگی نے جو اثرات اس طبقے
کی عورتوں پر ڈالے تھے اور اس کے پس پردہ ان کے استحصال کی جو نئی بساط پھیلی ہوئی
تھی اس کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ناول ’ایوان غزل‘ میں ’کرانتی‘ عورت کے جذبات کی
نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کردار بے حد جاندار اور توانا ہے۔ وہ حالات سے نہیں گھبراتی
ہے بلکہ ان حالات کا مقابلہ کرتی ہے اور سب کو زیر کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ ظلم و
ستم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے اور اپنا حق لینے میں پیچھے نہیں رہتی ہے بلکہ وہ
اپنا حق لینے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔
آمنہ ابوالحسن کا ناول ’پلس
مائنس‘ میں عورتوں کے احساسات و جذبات کی عکاسی پوری طرح ہوئی ہے۔ وہ اپنے ناول کے
ذریعہ لڑکیوں کو اعلی تعلیم کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ اور ساتھ ہی مختلف شعبوں میں
کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ ناول کا کردار یاسمین کو اعلی تعلیم حاصل کرنے
کی خواہش ہوتی ہے لیکن گھر کے سارے لوگ اس کے کالج جانے کو منع کرتے ہیں اور چاہتے
ہیں کہ جلد از جلد اس کی شادی کردی جائے۔ آمنہ ابوالحسن نے ناول کے ذریعہ لڑکیوں
کی تعلیم کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے۔
قاضی عبدالغفار کا ناول ’لیلیٰ
کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری‘ میں عورتوں کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ حالانکہ
طوائف کو ناول میں مرکزیت دی گئی ہے لیکن ناول نگار نے طوائف کے ذریعہ عورت کے
ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے مردوں کے غیر منصفانہ
رویوں اور دوہرے معیار پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کے نسوانی کردار میں اس قدر جرأت و
بے باکی ہے کہ وہ برجستہ سماج پر وار کرتی ہے۔ فرسودہ سماج کے ان ٹھیکے داروں کو
اپنی توجہ کا مرکز بناتی ہے جس کے ہاتھوں عورت مستقل ظلم و جبر اور استحصال کا
شکار ہوتی رہتی ہے۔ان کا نسوانی کردار گرچہ طوائف کی زندگی گزارتا ہے لیکن ان کے
سینے میں بھی ایک عام عورت کا دل دھڑکتا ہے۔ لیلیٰ نہ صرف اپنی مظلومیت کی داستان
سناتی ہے بلکہ مرد اساس سماج پر تیکھا وار بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ کس طرح
گذشتہ پانچ ہزار برس میں خدا کی مخلوق کے نصف حصے کو دوسرے نصف نے اپنا غلام
بنایا۔
عزیز احمد کے ناولوں میں بھی
عورتوں کے مسائل پوری طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ انھوں نے کئی ناول لکھے جس میں کسی نہ
کسی طور پر عورت ذات کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ناول ’ہوس‘ میں عورتوں کی
فطری آزادی کی حمایت کی ہے۔ اگر عورتوں کو مناسب آزادی نہ دی گئی تو ان کے بھٹکنے
کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ ناول ’مرمر اور خون‘ میں بھی عزیز احمد نے لڑکیوں پر بے جا
پابندی کے مضر اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ شادی سے قبل
دوشیزگی کے خاتمے پر ایک لڑکی کو جس صدمے سے گزرنا پڑتا ہے اس کی بھرپور عکاسی
ملتی ہے۔ اس ناول میں عورت کے اسی نفسیاتی ردعمل کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اگر اس کے
لیے یہ سب کچھ غیر معمولی اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو ناول کا کردار عذرا اس نفسیاتی
دھچکے سے بچ سکتی تھی اور اپنے اوپر قابو پاکر وہ اس لمحے کو ٹال سکتی تھی۔ لیکن
تجسس اور ناواقفیت نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا اور نتیجے کے طور پر عذرا اپنی
دوشیزگی سے ہاتھ دھو بیٹھی اور ایک نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوئی۔عزیز احمد عورتوں
کے جذبات کی حمایت کرتے ہوئے مرد اساس سماج کی بے جا پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
عورتوں کے مسائل کی بھرپور عکاسی ناول ’ایسی بلندی ایسی پستی‘ میں بھی دیکھنے کو
ملتی ہے۔ جہاں عورت اور مرد کو برابر کا حصہ دار مانا گیا ہے۔
سعادت
حسن منٹو نے اپنے اکثر ناولوں میں عورت کے جذباتی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھا ہے۔
سماج کی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کو موضوع بناکر عورت ذات کے درد اور ان پر ہونے والے
ظلم کو ظاہر کیا ہے۔ ان کی تخلیقات میں عورتیں جسم فروش تو ہیں مگر ضمیر فروش
نہیں۔ ان کی عورتیں طوائف تو ہیں لیکن ماں کا دل رکھتی ہیں۔ ان کے ہاں ایسی کئی
شریف عورتوں کی کہانی بھی ہے جو مردوں کی شہوت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ منٹو اپنے
ناولوں کے ذریعہ عورتوں کی خوب حمایت کرتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کا ناول ’ایک
چادر میلی سی‘ میں ’رانو‘ کے کردار میں ماں اور بیوی کی صورت میں ہندوستانی عورت
کی فطرت اور اس کی نفسیات کے تمام پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ناول کا کردار ’رانو‘
اپنے شوہر، دیور، سسر، ساس اور بچوں کے درمیان کٹھ پتلی کی مانند ہے۔رانو اپنے
جذبہ درد مندی، ممتا، نسوانی فطرت اور ایثار و قربانی کے ذریعے ان کے درمیان ایک
توازن قائم رکھتی ہے۔رانو پنجاب کے دیہات کی معصوم اور تند خو عورت ہے وہ سماج کی
باریکیوں کا شعور تو نہیں رکھتی لیکن اپنے ہر معاملے کو بہت جلدی سمجھ لیتی ہے۔ وہ
غریبی کہ والے کی بیوی ہے جب اس کا شوہر شراب کی بوتل کے ساتھ گھر آتا ہے تو وہ اس
سے لڑتی ہے اسے نوچتی ہے اور دانتوں سے کاٹ بھی لیتی ہے اور پھر خود ہی مار کھاکر
خاموش بھی ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے مرد کو قابو میں کرنے کے لیے باباہری داس سے ٹونا
بھی کراتی ہے۔ رانو سسرال کی تلخیوں کو سینے میں چھپا لیتی ہے لیکن محبتوں اور
رشتوں کی مٹھاس اس کا انتظار بھی کرتی ہے۔ وہ بہت خوددار بھی ہے مرجانا بہتر
سمجھتی ہے لیکن رحم کی بھیک اس کو برداشت نہیں۔ شرابی شوہر جب اس کو گھر سے نکل
جانے کو کہتا ہے تو اس کو اقتصادی غلامی کا شدید احساس ہوتا ہے لیکن وہ ہار نہیں مانتی
ہے بلکہ عزم کرتی ہے۔ تمام طرح کے دکھوں کے باوجود زندگی جینا چاہتی ہے۔ شوہر کے
مرنے کے بعد سماجی ریتی رواج کے مطابق اسے اپنے اس دیور سے شادی کرنی پڑتی ہے جس
کی خود اس نے پرورش کی ہے۔ ناگواری کے باوجود اس امتحان کا وہ سامنا کرتی ہے۔ لیکن
شادی کے بعد اس کو بیوی کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہوتا ہے تو وہ اس توہین کو
برداشت نہیں کرتی ہے اور شوہر کو اپنے قابو میں کرکے ہی دم لیتی ہے۔ بیدی کے اس
ناول میں عورت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عورت منوانا چاہتی ہے دیوی نہیں۔
حیات اللہ انصاری کا ناول ’لہو
کے پھول‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عورتوں کے مسائل پر بھی گہری نظر پڑتی ہے۔
ناول نگار نے ازدواجی اور سماجی مسائل کو اٹھایا ہے۔ اس مرد اساس سماج میں عورت کا
مقصد صرف تخلیق ہے اور جب وہ اس مقصد میں ناکامیاب ہوتی نظر آتی ہے تو اس کا وجود
بے معنی لگتا ہے۔ خاوند اور دیگر سسرال والے اس کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کے
بجائے اسے طعنے دینے لگتے ہیں اور انجام کار وہ خاوند کے ذریعہ ٹھکرا دی جاتی ہے۔
اس کا مستقبل بالکل تاریک ہوجاتا ہے۔ دوسری شادی بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر آدمی جو
گھر بسائے گا وہ بچوں کی بھی خواہش کرے گا۔ اس لیے ایسی عورت کو اپنی زندگی بالکل
ویران اور بے مقصد نظر آنے لگتی ہے۔ اس طرح کے مسائل ’رام وتی‘ کے کردار میں ملتے
ہیں۔ یہ ایک ایسی عورت کے احساس اور کرب کو بیان کرتی ہے جسے مرد اساس سماج نے صرف
اس لیے ٹھکرا دیا کہ وہ نسل کی افزائش نہیں کرسکتی ہے۔ایسی صورت میں ایک عورت کو
اپنی پوری زندگی فضول اور بے مقصد نظر آنے لگتی ہے۔ ناول میں رجنی کا کردار ایسے
ہی مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ جس کو شوہر نے اسے شک کی بنیاد پر الگ کردیا اور پھر پلٹ
کر بھی نہیں دیکھا۔ جبکہ اس وقت وہ حاملہ ہوتی ہے۔ مرد بہت آسانی سے عورت کو
بدکردار کہہ کر ہر طرح کی ذمہ داری سے آزاد کرلیتا ہے۔ بچوں کی خاطر عورت کو بے
شرم بن کر بازار میں نکلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک شریف عورت سے ایک بازارو
عورت بن جاتی ہے۔
کرشن چندر کا ناول ’شکست‘ میں
بھی عورتوں کے مسائل بخوبی نظر آتے ہیں۔ اس کا کردار ’ونتی‘ کے ذریعے ہندوستان کی
دیہاتی عورت کا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ہندوستانی عورت کی سماجی حیثیت بڑی
حد تک واضح صورت میں سامنے آتی ہے۔ ہندوستان میں رہنے والی عورت کی بے بسی یہ ہے
کہ اسے اپنے خیالات کے اظہار کی بھی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے ونتی کے ذریعے روایتی
ہندوستانی عورت کے سماجی مسائل کو پیش کیا ہے۔ جہاں آج بھی سماج کے خود غرض اور بے
ایمان لوگ عورت کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ’ایک عورت ہزار دیوانے‘
میں خانہ بدوش سماج میں عورتوں کی حیثیت پر اظہار ملتا ہے۔ اس قبیلے کی روایت کے
مطابق عورت بیچنے کی چیز ہے لیکن ناول کا کردار ’لاچی‘ کسی بھی قیمت پر بکنا نہیں
چاہتی ہے۔ وہ صدیوں سے چلی آرہی روایت کے خلاف بغاوت کرتی نظر آتی ہے۔ ’لاچی‘ کو
کئی بار اس کے والدین بیچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ پورے سماج سے ٹکر لیتی نظر
آتی ہے۔ وہ خانہ بدوشی کی زندگی کے بجائے ایک گھر بسانا چاہتی ہے۔ وہ صرف ایک مرد
کی ہوکر رہنا چاہتی ہے۔ خانہ بدوش سماج میں عورت کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی
ہے۔ ناول نگار نے لاچی کے ذریعے خانہ بدوش عورت کی مجبوری، بے بسی اور اس کی
خواہشات کو ظاہر کیا ہے۔ جہاں وہ عام عورتوں کی طرح صرف ایک مرد کی ہو کر رہنا
چاہتی ہے۔ اسے ایک خیمہ نہیں بلکہ گھر چاہیے جہاں وہ خود کو محفوظ خیال کرسکے۔
لاچی اپنی خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑ کر سماجی زندگی گزارنے کی تمنا کرتی ہے۔ لاچی
ایک شخص سے پیار کرتی ہے اور زندگی بھر صرف اس کے لیے وفادار رہنا چاہتی ہے۔ لیکن
اس کے آگے سماج کی بیڑیاں ہیں، رسم و رواج ہیں، جنھیں توڑنا آسان نہیں۔ لیکن لاچی
اپنے پیار کے لیے سب کچھ کرگزرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ اس کے لیے اس کو بڑی بڑی
مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتی۔بلکہ اپنی اس
خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس سے ایک آدمی کا خون بھی ہوجاتا ہے۔ اور اس جرم میں
اسے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں بھی وہ اپنی عزت وعصمت کی اتنی ہی حفاظت کرتی
ہے جتنی کہ پہلے کرتی تھی۔ یہاں آنے کے بعد لاچی کا مختلف عورتوں سے واسطہ پڑتا ہے
اور اسے احساس ہوتا ہے کہ عورت صرف خانہ بدوش قبیلے میں ہی نہیں بک رہی ہے بلکہ اس
مہذب دنیا کے ہر حصے میں عورت کی خرید و فروخت بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔ ہر جگہ
عورت کا جنسی استحصال ہورہا ہے۔ کہیں پیسے کی خاطر اور کہیں نام و نمود کی خاطر
عورت اپنے آپ کو بیچ رہی ہے یا زبردستی بیچی جارہی ہیں۔
شموئل احمد کا ناول ’ندی‘
تانیثیت سے لبریز ہے۔ اس میں ندی استعارہ ہے فطری آزادی، بہاؤ، روانی اور نغمگی
کا۔شموئل احمد انسانی زندگی کو ندی کے رخ پر دیکھنے کے مشتاق ہیں۔ ہماری استعماری
تہذیب نے آدمی کے فطری بہاؤ پر جو باندھ باندھے ہیں، وہ اسے توڑنے کی دعوت دیتے
ہیں۔ندی میں ایک اسکالر لڑکی کے کردار کی تخلیق اسی کے پیش نظر کی گئی ہے۔ ندی کی
ہیروئن مخالف رخ پر تیرنے کی ہمت رکھنے اور زندگی کی خوشبوؤں، رنگوں، گیتوں اور
کہانیوں کو محسوس کرکے جینے والی لڑکی ہے۔ اس کردار کی تعمیر میں یہ خیال رکھا گیا
ہے کہ یہ کردار اخلاقی اقدار کے امتناع کا استعارہ نہ بن جائے۔ اس کردار کا مسلسل
کرب میں مبتلا رہنا اورمرد اساس سماج سے گاہے گاہے نفرت کا اظہار، قاری کو تخلیق کار
کاہم نوا بنا دینے میں کامیاب ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اور ندی ایک دوسرے کی علامت
ہے۔ندی آزاد پسند عورت کا استعارہ اور تانیثیت کی آزادہ روی کی علامت بھی ہے۔ لڑکی
ندی کی طرح آزادی، بہاؤ اور بے رخنہ زندگی چاہتی ہے۔ مگر اس کا شوہر اصولوں اور ضابطوں کی آڑ میں
ندی پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ اس روک سے وہ دھیرے دھیرے نفرت کرنے لگتی ہے۔ مگر
یہ نفرت اسے انحراف پر نہیں آمادہ کرتی بلکہ ایک ابدی کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔
سید محمد اشرف کا ناول ’نمبردار
کا نیلا‘ میں بھی تانیثی فکر دکھائی دیتی ہے۔ حالاں کہ اس ناول میں سرمایہ دار
طبقے کی عیاری کھل کر سامنے آتی ہے۔ جو اپنی انا کو قائم رکھنے کے لیے طرح طرح کے
حربے استعمال کرتے ہیں۔ نیلا اسی کا ایک حصہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ مذہب کا بھی
استعمال کرتے ہیں۔لیکن تانیثیت اس وقت حاوی ہوتی ہے جب کمہار کی بیٹی نے اپنے مجرم
کو پہچانتے ہوئے ٹھاکر کی بہو سے کہہ دیا کہ اونکار نے اس کی عزت لوٹی ہے۔
پیغام آفاقی کے ناول ’مکان‘ میں
مرکزی کردار کے ذریعے مرد اجارہ داری کی مختلف شکلوں کے خلاف ایک ہمہ جہتی مزاحمت
ہے۔ اپنے مکان کو حاصل کرنا دراصل عورت ذات کا اپنے وجود کو حاصل کرنا ہے۔جس کے
لیے مرد اساس سماج کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے۔ عورت اس ناول میں ایک کردار بن
کر ابھرتی ہے جو موجودہ زمانے میں زندگی کی باگ ڈور سنبھالنے اور مرد کو مشقتوں کے
بعد آرام کرنے کا موقع دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیرا کو احساس ہوتا ہے کہ یہ سماج
تھکا تھکاکر، ناامید کرکے، بے چارگی کا احساس دلاکر، قوت، استقلال اور یقین کو
مسمار کردیں گے۔ نیرا اس کے لیے اپنے آس پاس کے لوگوں سے مدد نہیں مانگتی ہے۔ بلکہ
یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ عورت ذات بھی خود خالق کائنات کی طرح ہی ایک مخلوق ہے
جس کے اندر یہ قوت موجود ہے کہ وہ اپنی لامحدود شخصیت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت
رکھتی ہے۔ جو ہر چیز پر حاوی ہوسکتی ہے۔
عبدالصمد کے ناول ’دھمک‘ میں
بھی تانیثیت کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں سندری کے ذریعہ اس تانیثی فکر کو
دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر عورت بدلے کی آگ میں جلنے لگے تو وہ کچھ بھی
کرسکتی ہے۔ وہ اپنے بھائی کی کائرتا پر لعنت ملامت کرتی ہے کہ وقت آنے پر تم لوگ
پولیس کے رحم و کرم پر گاؤں والوں کو چھوڑ آئے۔
الیاس احمد گدی نے اپنے ناول
’فائر ایریا‘ میں ایسی عورت کی زندگی کو پیش کیا ہے جسے سماج بیوہ کا نام دے کر اس
کی ذاتی زندگی کو اس قدر گھریلو اور سماجی پابندیوں میں قید کردیتا ہے کہ ایسی
عورت کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ناول کوئلری میں کام کرنے والے مزدور
طبقے کی زندگی کے مسائل اور صنعتی نظام کے استحصال کو بیان کرتا ہے لیکن اس ناول
میں نچلے طبقے کی عورتوں کے مسائل پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت صرف
جنسی عدم مساوات اور تعصب پرستی کا شکار نہیں ہوتی بلکہ وہ سماجی طبقہ بندی کی وجہ
سے بھی زندگی کی نعمتوں سے دور ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ناول فائر ایریاکا کردار
سہدیو ایک بیوہ پرتی بالا سے شادی کرلیتا ہے لیکن سماج کے شرفا کی طرح مزدور طبقے
کے لوگوں میں بھی اس شادی کو مثبت طور پر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے
برعکس اس کی تنقید کی جاتی ہے۔
علی امام نقوی کا ناول ’تین بتی
کے راما‘ اگرچہ شہری زندگی کی ہولناکی و ہوس ناکی کو دکھاتا ہے لیکن سکّو کے کردار
کے ذریعہ تانیثی فکر کو ظاہر کرنے سے نہیں چونکتا ہے۔ سکّو گرچہ ایک کام کرنے والی
بائی ہے جو پڑھی لکھی نہیں ہے۔ لیکن شادی کے لیے جب ا س سے کہا جاتا ہے تو وہ کچھ
وجوہات کو سامنے رکھ کر صاف انکار کردیتی ہے۔ یہ انکار ہی دراصل تانیثی فکر کو
ظاہر کرتا ہے۔ کیوں کہ پہلے اس طرح کے فیصلوں کو عورتیں بغیر کسی چوں چرا کے قبول
کرلیتی تھیں۔ لیکن شہری زندگی کا اثر کہا جائے یا حالات کے تقاضے اسے انکار کرنے
میں کسی طرح کی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ہے بلکہ منع کرنے کی وجہ بھی بتا دیتی ہے۔
اقبال مجید نے ناول ’نمک‘ میں
ہندوستانی معاشرے میں طبقۂ نسواں کے قید و بند اور بے جا قوانین کی حد بندیوں کو گرفت میں لے کر سماج
میں عورت کی حیثیت اور اس کی حقیقت کو پیش کیا ہے۔
غضنفر کا ناول ’کینچلی‘ بھی
تانیثیت کی فکری اساس کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے۔ ناول کا کردار مینا عورت اور مرد
کو الگ الگ خانوں میں منقسم کرنے اور ان کے دائرۂ
عمل کو متوازی طور پر متعین
کرنے کے خلاف کھڑی نظر آتی ہے۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ پھر مرد
کو ہی کفالت کی ذمہ داری کیوں دی گئی ہے۔ کیا عورت اس کی ذمہ داری اٹھا نہیں سکتی
ہے۔ جب کہ گھریلو کاموں کو عورت بآسانی کرسکتی ہے تو باہر کے کام کیوں نہیں کرسکتی
ہے۔
ترنم ریاض نے ناول ’مورتی‘
تانیثیت کو ملحوظ رکھ کر لکھا ہے۔ پورا ناول تانیثیت کی فکری اساس کے اردگرد ہی
گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ مرد اساس سماج کا عورتوں کے ساتھ برتاؤ کو بڑی
خوبصورتی سے دکھایا ہے۔شوہراور بیوی کے تعلقات میں بیوی کی خواہشات کا نہ خیال
کرنا اور ان کے ذریعے کیے گئے کاموں کو حقیر نظر سے دیکھنا مرد اساس سماج کے لیے
ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ ناول کی ہیروئن ملیحہ عورت کی اسٹیریو ٹائپ امیج سے
انحراف کی خبر دیتی ہے۔ ملیحہ فن کی ناقدری کے باوجود اپنی حالت پر قانع رہتی ہے
اور گھٹ گھٹ کر ذہنی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ فیصل کی رفاقت بھی تبدیلی کے لیے
سازگار ثابت نہیں ہوتی۔ ملیحہ کے کردار سے واضح ہوتا ہے کہ روایتی شادی کے حدود
میں آزادی اور تخلیقیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اس بندھن میں بندھ کر عورت
اپنی ذات کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہتی ہے۔ اس میں ملیحہ کی اس خواہش کو دکھایا
ہے جو دنیا کی ہر عورت چاہتی ہے۔ شادی کے بعد عورت کی سب سے عظیم خواہش ماں بننے
کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ہی عورت مکمل ہوتی ہے۔ لیکن ملیحہ اس سے محروم رہتی
ہے۔ جو اسے مایوس کن مراحل سے گزارتی ہے۔
ثروت خان کا ناول ’اندھیراپگ‘
میں بیوہ کی المناک داستان راجستھانی ثقافت کے تناظر میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہندوستانی
سماج میں بیوہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی دردناک داستان کو ثروت خان نے بیان
کیا ہے۔ ناول میں روپی جو بچپن سے ہی تیز طرار اور ذہین لڑکی ہوتی ہے۔ اس کی شادی
اس وقت کردی جاتی ہے جب اس کے لڑکپن کے ایام ہوتے ہیں۔ پڑھائی کرنے کی اس کی خواہش
ادھوری رہ جاتی ہے۔ ابھی وہ شادی کی خوشیوں کو پوری طرح گزار بھی نہیں پاتی ہے کہ
اس کا شوہر اس دنیا سے داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ بھری جوانی میں اسے بیوگی کی زندگی
گزارنی پڑتی ہے۔ سماجی رسوم کے مطابق اسے مصیبتوں میں ڈالا جاتا ہے۔ جسے وہ برداشت
کرتی ہے اور تھوڑی دھیمی آواز میں کبھی کبھی مخالفت بھی کرتی ہے۔ لیکن جب سسرال کی
طرح میکے والے بھی ویسا ہی سلوک کرتے ہیں تو ان کا دل پوری طرح ٹوٹ جاتا ہے۔ اور
پھر جب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بچپن کی سہیلی کو ان کے پتا جی نے زنابالجبر
کے بعد بدنامی کے خوف سے مار ڈالا ہے تو ان کے اندر کا تانیثی احساس بیدار ہوجاتا
ہے اور پھر اپنے باپ کو سلاخوں کے پیچھے بھیجواکر دم لیتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے
ہیں ناول میں بیوہ کا درد تانیثی بغاوت میں بدل جاتا ہے۔ اس ناول میں تانیثی فکر
ابھر کر سامنے آتی ہے۔
اردو ناولوں میں ابتدا سے ہی
سماج میں پنپنے والے مسائل کو جگہ دی گئی ہے۔ سماج کے ذریعے جب بھی عورت کا ذکر
کیا گیا ہے اس میں عورت کی مظلومیت کا اظہار بھر پور طریقے سے کیا گیا ہے اور اس
بات کی کوشش کی ہے کہ عورت کی آواز کو پوری طرح سے اٹھایا جائے تاکہ ان پر کیے گئے
ظلم کی داستان کسی گوشے میں دب کر نہ رہ جائے۔ عورتوں کے ذریعے مرد اساس سماج کے
خلاف آواز بلند کرنے کی صورت میں ناول نگاروں نے بھی اس تحریک کی بھرپور حمایت کی۔
جس کی جھلک ہمیں اردو کے ناولوں میں ملتی ہے۔ نصف بیسویں صدی کے بعد عورتوں کی
حمایت میں تحریروں میں قوت آئی جو صدی کے اختتام تک باقی رہی اکیسویں صدی میں بھی
جو ناول لکھے جارہے ہیں اس میں بھی عورتوں کے ساتھ آنے والے مسائل کو بخوبی اٹھایا
گیا ہے۔
Dr.
Wasiqul Khair
Flate
No. 302, Plot No. R 213/1,
Sir
Syed Road, Jogabai Extn.,
Jamia
Nagar, South East Delhi
98101383617
wasujnu@gmail.com
واہ بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریںبہت کمال
جواب دیںحذف کریں