اردو شاعری کی کلاسیکی شعریات
ابو الکلام قاسمی
سیاق و سباق:
ادب میں ہیئت، موضوع یا نوعیت
کے اعتبار سے مختلف زمروں کی تقسیم کو اصناف کانام دیاجاتاہے۔ اس لیے اصناف نثر کی
بھی ہوتی ہیں اور شاعری کی بھی۔ نثر کی اصناف میں داستان، ناول، افسانہ، انشائیہ،
رپورتاژ، سفرنامہ، خاکہ جیسی تقسیم کو صنفی تقسیم کا نام دیاگیاہے۔ ادبی تنقید،
ہرچند کہ ادب کی تخلیقی صنف میں شمار ہونے کے بجائے تعین قدر کے لیے استعمال کی
جانے والی نثر کو قرار دیا جاتاہے۔ نثر کے بالمقابل اردو شاعری کی اصناف شعری
اظہار کے لیے اپنائے جانے والے مختلف اسالیب اور نمونوں کو قرار دیا جاتاہے۔
جہاںتک اردو شاعری کی کلاسیکی اصناف کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں فن شاعری اور
بلاغت کی تمام روایتی کتابوں میں شاعری کی اصناف کا تعین کرنے کی کوشش ملتی ہے۔
بعض علما نے گو کہ زیادہ تر اصناف کا تعین ہیئت کی بنا پر کیاہے مگر بعض ماہرین
بلاغت اس ضمن میں موضوع کی بنیاد پر مختلف ہونے والی شعری انواع کو اصناف میںشمار
کرتے ہیں۔
صنف کی تقسیم کی بات اگر یہاں
سے شروع کی جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ موٹے طورپر شاعری یا کلاسیکی شاعری دو اصناف
میں منقسم ہے: ایک نظم اور دوسری غزل۔ لیکن اگر ان بنیادی اصناف کی مختلف شقوں کی
تفصیل میں جائیے تو اندازہ ہوگاکہ موضوع کے اعتبار سے جس طرح اردو شاعری کی زیادہ
تر اصناف نظم کے دائرۂ کار میں آتی ہیں اسی طرح ہیئت کے اعتبار سے شاعری کی بعض اصناف غزل کی صنف
سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ نظم کا لفظ بھی
علی العموم شاعری کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے، لیکن جب ہم شاعری کی اصناف کی
بات کرتے ہیں تو اس کے تعین میں یا تو ہیئت اہم رول ادا کرتی ہے یا موضوع کی بنیاد
پر ہیئت کی تقسیم کو قبول کیا جاتاہے یا پھر صنف کے تعین میں بسااوقات ہیئت اور
موضوع دونوں کو ہی ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے۔
اگر کلاسیکی اصناف شاعری کی
جزوی اور ضمنی تقسیم کی بات کی جائے تو صنفی تقسیم خاصی طویل ہوسکتی ہے مگر روایتی
طورپر جن اصناف شاعری کی اہمیت تسلیم شدہ ہے ان میں غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی،
مسمط، رباعی، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، فرد، واسوخت، شہرآشو ب اور گیت کو شمار
کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اصناف میں سے بیش تر کی
بنیاد ہیئت کے تعین سے استوار ہوتی ہے۔ قصیدہ ہو یا مثنوی، مرثیہ ہو یا شہرآشوب،
واسوخت ہو یا بعض اور اصناف، سب میں کسی صورت میں غزل کی ہیئت کا استعمال ملتاہے۔
جب کہ مسمط، رباعی، ترکیب بند، ترجیع بند، فرد اور مستزاد جیسی اصناف کے نام سے ہی
کسی نہ کسی ہیئت کا تعین ظاہر ہوتاہے۔ البتہ مرثیہ، واسوخت اور شہرآشوب ایسی اصناف
ہیں جن میں ہرچندکہ ماضی میں غزل کی ہیئت کا بھی استعمال ہواہے مگر اس کی بنیاد
دراصل موضوع ہے۔ کہنے کو تو موضوعی اعتبار سے قصیدے کے بھی بعض تعینات موضوعاتی بن
جاتے ہیں۔ غزل کی صنف اس پس منظر میں ایک مخصوص ہیئت کا نام ہے مگر اپنے عشقیہ
موضوع اور مخصوص تکنیکی اور ہیئتی نظام کے باعث اس کی ہیئت دوسری اصنافِ سخن کے لیے
نہایت کارگر ثابت ہوتی رہی ہے۔ بلاغت اور فن شعر میں ہیئت کی مرکزیت پر جو باتیں
بھی ملتی ہوں وہ اپنی جگہ ہیں مگر بعد کی تنقید اور صنفی مباحث میں اس سے ملتے
جلتے بہت سے سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ عابد علی عابد اور شمیم احمد کے ان بعض
سوالات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مثلاً یہ کہ شعر کی کون سی قسم صنف ہے اور کون سی
ہیئت؟ یا یہ کہ شعر کی کون سی قسم کب اور کیوں کر صنف کے درجے پر پہنچتی ہے؟ اور
کون سی قسم کن اسباب کی بنیاد پر محض ہیئت بن کر رہ جاتی ہے؟ یہ سوال بھی اُٹھایا
گیاہے کہ اگر شعر کی کوئی قسم صنف کا درجہ رکھتی ہے تو اس کی صنفی شناخت کن وسیلوں
کی بنیاد پر ممکن ہے؟ یا پھر یہ کہ صنف سخن کی شناخت کا بنیادی وسیلہ موضوع ہے یا
ہیئت، یا دونوں؟تا ہم مختلف اصناف اپنی اپنی صنفی شناخت کے لیے مختلف عناصر ضرور
رکھتی ہیں۔ کہیں انتشار خیال، کہیں تسلسل خیال، کہیں موضوع، کہیں اندرونی ہیئت اور
کہیں مخصوص اور ان جیسے عناصر اصناف کا تعین کرتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی بہت اہم ہے
کہ بعض اصناف بالخصوص غزل اور رباعی وغیرہ کی صنفی شناخت میں ان کی مخصوص ہئیتوں
نے کلیدی رول ادا کیاہے۔ اس طرح غزل صنف سخن بھی ہے اور ہیئت بھی۔ یہ الگ بات ہے
کہ ہیئت کے طورپر غزل کی ہیئت نے جیساکہ عرض کیا گیاکہ قصیدہ، مرثیہ، واسوخت اور
شہرآشوب کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
جہاں تک نظم کے عمومی معنی کے
برخلاف صرف نظم یا نظم جدید کا سوال ہے تو یہ دراصل موضوعاتی تنظیم کا نام ہے جس
میں شروع سے ہی ہیئت کا تنوع ملتاہے۔ یعنی ہیئت کی سطح پر تنوع اور موضوع کی سطح
پر تسلسل نظم کی بنیادی شناخت ہے۔ اس قدرے طویل تمہیدی مقدمات سے کلاسیکی اصناف
شاعری کے معاملے میں غزل کی صنف کی جامعیت کا خواہ وہ محض ہیئت کی بنیاد پر ہی
کیوں نہ ہو، اندازہ ضرور ہوجاتاہے۔ اس لیے غزل کی صنف اپنے کلاسیکی رچاو ٔ اور
انجذابی کیفیت کی بنیاد پر دوسری تمام کلاسیکی شعری اصناف کے جوہر کو اپنے اندر
سمیٹ لیتی ہے۔ہماری تنقید کے متذکرہ ہیئت پرستانہ رجحان نے مختلف اصناف کے موضوع
اور مواد کے علاوہ ان کی تہذیبی فضا اور تمدنی مزاج کو بڑی حدتک نظر انداز کیاہے۔
اس لیے بھی بیش تر اصناف کے لیے ہیئت کے تصور کو ہی مرکزی اہمیت دی جاتی رہی ہے،
لیکن کلاسیکی اصناف کو جب ان کے مابہ الامتیاز عناصر کے ساتھ زیربحث لایا جائے گا
تو ہیئتی شناخت کے متوازی ان کی تہذیبی فضا اور تمدنی مزاج کو بھی زیربحث لانے کی
کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں جیساکہ عرض کیا گیاکہ چوں کہ تمام کلاسیکی شعری
اصناف میں کلاسیکی اقدار کے نقطۂ نظر سے غزل کی صنف زیادہ جامعیت کے ساتھ اپنی شناخت متعین کرتی ہے اس لیے
کلاسیکی غزل کی شعریات کو قدرے ترجیح کے ساتھ نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادبیات میں کلاسیکیت کو
ایک ایسے عنصر کی حیثیت حاصل رہی ہے جس کا اطلاق امتدادِزمانہ کے سیاق و سباق میں
ہرزبان کے ادب پر ہوتاہے۔ بادی النظر میںکلاسیکیت کی بنیاد قدامت اور عظمت پر ہوتی
ہے، لیکن کوئی بھی ادب محض قدامت کی بنیاد پر اس لیے عظیم نہیں ہوسکتا کہ امتدادِ
زمانہ نے اگر اس ادب کو اجتماعی اقدار کا ترجمان نہیں بنایا ہے تو نہ تو اس کا
رشتہ سماجی اور اجتماعی قدروں سے قائم ہوتاہے اور نہ امتدادِ وقت کے ساتھ اس کی
ادبی اقدار کو زیادہ مستحکم ہونے کا موقع ملاہے۔ اس بات کی اہمیت یہ بھی ہے کہ جب
ادبی یا سماجی اقدار کو اوّل اوّل اجتماعیت کی ترجمانی کا موقع ملا ہوگا اور پھر
زمانے کے عروج و زوال نے اس کے اقداری استحکام کو مزید پختہ کردیا ہوگا۔ چوں کہ
زمانے کی تبدیلیوں کے باوجود کسی ادب کی سماجی اقدار یا ادبی اقدار جب عملی تجربے
اور آزمائش کی کسوٹی پر پوری اُترتی ہیں تو اس کی عظمت کا ثبوت بھی روزافزوں فراہم
ہوتا چلا جاتاہے۔ یعنی قدیم زمانے کے ادب نے بعد کے زمانوں کے قاری کے لیے جب خود
کو بامعنی ثابت کردیا تو وہ قدامت اپنے آپ عظمت سے ہم آہنگ ہوگئی۔
غزل
:
جہاں تک کلاسیکی غزل کا سوال ہے
تو ہرچند کہ قدیم ترین اردو غزلیں ہمیں دکن میں ملتی ہیں مگر ہم ان کو کلاسیکی غزل
سے محض اس لیے موسوم نہیں کرتے کہ غزل گوئی کے ابتدائی آثار یقینا ہمیں دکن میں
ملتے ہیں لیکن کلاسیکیت کی قدامت کو روایت بننے میں اچھا خاصا وقت لگتاہے اس لیے
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دکن میں کلاسیکی غزل کی خصوصیات پوری طرح متعین نہیں
ہوسکی تھیں۔ پھر یہ بھی ہواکہ دکنی غزل میں وہ بعض ہندوستانی عناصر جو نمایاں نظر
آتے ہیں ان کو امتدادِ وقت نے اپنی روایت سے خارج کردیا۔ مثلاً یہ کہ دکنی اردو
غزل میں گیت کا انداز پایا جاتاتھا یا عاشق کے طورپر تذکیر یا تانیث میں شعر کے
واحدمتکلم کی پیش کش وغیرہ کو اس کے بعد کی پرانی اردو غزل میں تبدیل کردیا گیا،
اس لیے بھی دکنی غزل کو کلاسیکی اردو غزل کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ ایسا اس لیے
بھی ہواکہ جب تک ادبی اور جمالیاتی قدریں بار بار آزما نہ لی جائیں اور ان کو وقت
کی کسوٹی پر بہ خوبی کَس نہ لیا جائے اس وقت تک ان قدروں کو کلاسیکی شعریات کا
مرتبہ ملنا مشکل ہوتاہے۔ اس پس منظر میں غزل کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے
کہ اردو میں کلاسیکی شعریات کے عناصر دراصل سترہویں صدی کے اواخر میں ایک نظام میں
تبدیل ہوناشروع ہوئے .... کلاسیکی شعریات کے اصولوں کا اطلاق بالعموم ان سوالات سے
تعلق رکھتاہے کہ کلاسیکی شعری اصول کیا ہیں؟ یا شعر کی اصل ماہیت کیاہے؟ یا یہ کہ
غزل اور نظم کے مابین امتیاز کیوںکر ممکن ہے اور کسی بھی صنف کی فنی درجہ بندی کے
اصول کیا ہوسکتے ہیں؟ ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے غزل کی کلاسیکی شعریات کو کم
از کم تین شقوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ اوّل یہ کہ کلاسیکی غزل کی جمالیاتی شناخت
کیا ہوسکتی ہے، دوئم یہ کہ کلاسیکی غزل کے پس منظر میں اگر کوئی قدیم تصور کائنات
کارفرما رہاہے تو وہ کیا ہے؟ تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ یہ کائنات آج کی مصروفیات
یا مسلمات سے کیوں کر مختلف ہے؟ اور اگر مختلف ہے تو ظاہر ہے کہ اس قدیم تصور
کائنات کو سمجھے بغیر غزل میں پیش ہونے والے زیادہ تر معروضات جو بڑی حدتک کلاسیکی
مسلمات میں تبدیل ہوچکے تھے، قدیم غزل کی نہ تفہیم آسان ہے اور نہ تحسین۔ تیسری
اہم بات یہ ہے کہ کلاسیکی غزل کی شعریات کہاں کہاں بعض رسومیات میں تبدیل ہوجاتی
ہے؟ کلاسیکی غزل کے سلسلے میں ان سوالات سے الجھے بغیر اس کی شعریات کی نشان دہی
خاصی مشکل ہوجاتی ہے۔
جہاں تک غزل کی جمالیات کا سوال
ہے تو شاید غزل کی صنف اردو شاعری کی کلاسیکی یا غیرکلاسیکی اصناف میں واحد صنف ہے
جس کی جمالیات برسہابرس میں جاکر تکمیل کے مرحلوں میں پہنچی ہے۔ اس جمالیات میں
غزل کی ہیئت کے ساتھ اس کی فنی اور موضوعاتی تحسین کاری نے بھی بڑا اہم کردار ادا
کیاہے۔ ہیئت کے سلسلے میں تو ابتدا میں ہی یہ بات مان لی گئی کہ غزل صنف کا نام
بھی ہے، ہیئت کا نام بھی۔اس لیے صنف اور ہیئت دونوں کے ارتقائی مراحل جو جمالیاتی
خصوصیات غزل میں شامل ہوتی ہیں وہ مختلف تشکیلی عناصر کے طورپر کلاسیکی شعریات کا
حصہ بن گئی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ غزل کے ہرشعر میں جب تک ربط،
روانی، لفظی مناسبت اور بندش کی چستی نہ ہو کلاسیکی غزل نامکمل معلوم ہوتی ہے۔ ربط
سے مراد یہ ہے کہ غزل کے شعر کے محض دونوں مصرعے ہی نہیں بلکہ تمام لفظیات، تراکیب
اور مضمون میں ایک قسم کا ربط ناگزیر ہوتاہے۔ اگر دونوں مصرعوں میں ربط کی کوئی
کمی پائی جاتی ہے تو اسے بڑی آسانی سے دولخت شعر قرار دیا جاسکتاہے، جب کہ روانی
کا تعلق تسلسل سے بھی ہے، وزن سے بھی اور خیال کے ارتقا سے بھی۔ جہاں مناسبت کا
تعلق ہے تو بظاہر ہرغزل کے اشعار میں اس طرح کسی نہ کسی مضمون کو پیش کیا جاتاہے
جس طرح کسی بھی طرح کی شعری صنف میں ،مگر کلاسیکی غزل کی ایک ممتاز خصوصیت یہ بھی
ہے کہ اس کے بیش تر اشعار کے الفاظ ایک دوسرے سے عموماً کوئی نہ کوئی لفظی یا
معنوی مناسبت بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر ایک ہی شعر میں نرگس، دیدہ، سیاہ و
سفید، نگاہ حتیٰ کہ تیر و تفنگ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو یہ سارے الفاظ آنکھ
سے کوئی نہ کوئی مناسبت رکھنے کے باعث خصوصیت یا صفت سے متصف قرار دیے جاسکتے ہیں۔
اس طرح کلاسیکی غزل کی ایک بڑی خصوصیت بندش بھی ہے۔ بندش میں جس قدر چستی ہوگی،
الفاظ میں باہم جس قدر فطری یا فصیح انداز کارفرما ہوگا، ایک ہی نوع کے الفاظ یا
بولتی ہوئی تراکیب استعمال کی گئی ہیں اسی حدتک اشعار بندش کی بہتر سے بہتر مثال
ہوںگے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ کلاسیکی غزل کے اشعار میں الفاظ کا متجانس ہونا بھی
زیادہ مستحسن ہوتاہے۔ اگر غورسے دیکھا جائے تو ربط کا معاملہ ہو، روانی کا ہو،
مناسبت کی بات ہو یا بندش کی یہ چیزیں بھی کسی نہ کسی طرح الفاظ کے باہمی طورپر
متجانس ہونے پر منتج ہوتے ہیں۔ اس کے ذیل میں مناسبات لفظی بھی آتی ہے، مراعاةالنظیر
کی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی لفظی یا معنوی رشتہ بھی تجانس کو
پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرتاہے۔ کلاسیکی غزل کی جمالیات کے سلسلے میں جن عناصر
کا اب تک ذکر کیا گیا اس کا تعلق غزل کی لفظیات سے ہے۔ لفظی جمالیات کے سلسلے میں
سلسلۂ گفتگو کو مزید دراز کیا جائے تو اس بات کو اہمیت دینا بھی ضروری قرار
پاتاہے کہ غزل کے کسی شعر میں اسلوب بیان جتنا انشائیہ ہوگا اتنا ہی شعر کے معنی
میں عدم تعین پیدا ہوگا۔ انشائیہ اسلوب کے مالمقابل خبریہ اسلوب بالعموم معنی کو
قدرے زیادہ متعین کرتاہے اور مفہوم کے مزید پہلوؤں کا امکان ختم کردیتاہے۔
انشائیہ اسلوب کے علاوہ رعایت کو بھی ہم ہرچند کہ لفظی خصوصیت میں شامل کرسکتے ہیں
مگر معنوی مناسبت یا رعایت کو اس دائرے سے خارج نہیں کرسکتے۔ اس طرح نحوی تراکیب
میں صحت کو بھی کلاسیکی غزل کی جمالیات کا اہم حصہ تصور کیا جاتاہے۔
لفظی
جمالیات کے سلسلے میں معنوی امکان کا ذکر آیا ہے اس کا سب سے گہرا تعلق استعارے کے
استعمال اور بالواسطہ طرزِ تکلم کے استعمال سے ہے۔ اس لیے کہ استعارے اور بالواسطہ
انداز گفتگو ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ شعر میں معنوی تہہ داری کیسے پیدا
ہوگی اور شعر پر غوروخوض کہاں تک معنی آفرینی کی گنجائش پیدا کرے گا۔ یہاں یہ بات
بھی خاطرنشان رہنی ضروری ہے کہ معنی آفرینی کا دارومدار تو یقینا لفظوں کے استعمال
کی نوعیت، طرزِتکلم اور استعارے یا علامت یا تمثیل کے استعمال پر ہوتاہے مگر مضمون
آفرینی کا تعلق شاعر یا شعر کے متکلم کے زاویۂ نظر اور جودت طبع پر ہوتا ہے۔ جو
مضامین رسمی طورپر شاعری میں عموماً استعمال کیے جاتے رہے ہیں یا جو مضامین بہ
کثرت استعمال کے باعث پیش پا افتادہ تصور کرلیے جاتے ہیں مضمون آفرینی کرنے والا
شاعر ان میں بھی طرح طرح کے پہلو پیدا کردیتاہے اور کبھی کبھی تو مرکزی خیال کے
گرد کسی نئے اور اچھوتے مضمون کی تلاش کرلیتاہے۔ معنی آفرینی، مضمون آفرینی،
استعارہ سازی وغیرہ کے ساتھ کلاسیکی غزل کی جمالیات کو تشکیل دینے میں کیفیت کو
بھی کم اہمیت حاصل نہیں۔ تذکروں کی تنقید میں تو کیفیت کی اصطلاح کو خاصے مبہم اور
غیرواضح معنوں میں استعمال کیا جاتاتھا مگر رفتہ رفتہ یہ اصطلاح اب جب ابہام کے
دھندلکے سے باہر نکلی ہے تو اس کے معنی یہ مراد لیے جانے لگے ہیںکہ اگر کسی شعر کے
معنی یا مفہوم کو واضح انداز میں بیان کرنے کے باوجود اگر شعر میں کوئی ندرت اور
بڑی خوبی نہیں ثابت کی جاسکتی مگر شعرکا تاثر نہایت گہرا مرتب ہوتاہے تو ہم اسے
کیفیت کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔ کلاسیکی شاعروں میں یہ امتیاز میرتقی
میر کو حاصل ہے کہ ان کے بہت سے اشعار میں معنی کے ساتھ ساتھ یا معنی کے بجائے
کیفیت یا اثر آفرینی کی خصوصیت حددرجہ پائی جاتی ہے۔ اس باعث کہا جاتاہے کہ کیفیت
اس خصوصیت کو بھی کہتے ہیں کہ شعر میں معنی تو کم ہوں مگر اثر بہت زیادہ ہو۔ ان
معروضات کی بنیاد پر اگر کہاجائے کہ کلاسیکی غزل کی شعریات میں اس کی جمالیات کو
مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر غور کیجیے تو بحر، وزن، زمین، قافیے کی تلاش و
جستجو، ردیف کا انتخاب جیسی تمام چیزیں اس جمالیات میں شامل ہیں اور یہ بات بھی
معنی کے وفور اور امکانات کا بہت گہرا تعلق غزل کے ہرشعر کے اکائی ہونے یا ایک ہی
شعر میں بات کو مکمل کردینے سے بھی ہے۔ اس لیے کہ اس اجمال نے استعارہ کا امکان
بھی پیدا کیاہے اور ایجاز، کنایہ اور تمثیل وغیرہ کا بھی۔
کلاسیکی غزل کی شعریات میں جس
طرح اس کی جمالیات اہم رول ادا کرتی ہے اسی طرح اس کی رسومیات اور کلاسیکی زمانے
کے تصور کائنات کا بھی کردار بنیادی ہے۔ کلاسیکی غزل کی رسومیات کا تعلق کلاسیکی
تصورکائنات سے ناگزیر ہے۔ کلاسیکی تصور کائنات میں تقدیر کی مرکزیت اور بالادستی
کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یعنی یہ بات کہ تقدیر غیرمتبدل ہے۔ اس کی وجہ سوائے
اس کے اور کچھ نہیں کہ تقدیر کا تعین اگر ہمارے ہاتھ میں نہیں اور تقدیر کی ساری
کارکردگی تقدیر بنانے والے کی دسترس میں ہے تو یقینی طورپر ہرواقعہ یا معاملہ
ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ یہیں سے غزل میں رنج اور نارسائی کے مضمون کی
افراط کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عاشق کی ہرخواہش اس کی مرضی کے مطابق اس
لیے پوری نہیں ہوگی کہ معشوق کے مہربان ہونے یا نہ ہونے کا تعلق تقدیر سے ہے۔ اس
کا لازمی نتیجہ نارسائی کا احساس ہے اور اس احساس کے باعث عاشق کے دل میں دردمندی
اور دل گدازی بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسانی اخلاق و اقدار بھی مربوط ہوجاتے
ہیں۔ یوں تو تقدیر کا غیرمبدل ہونا ہی عاشق کے مقدر میں ہجر اور فراق کو شامل
کردیتاہے۔ تاہم اس ضمن میں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ عشق کے مضمون کا
ابتدائی اطلاق تصوف کے حوالے سے چوں کہ شروع شروع میں عشق خداوندی یا روحانی عشق
کے معنوں میں کیا گیاتھا اس لیے اگر محبوب، محبوب حقیقی ہے تو اس سے براہِ راست
کسی جواب کی توقع کرنا، انسانی سطح اور انداز کے مطابق مناسب نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ
اس صورت میں عاشق کایک طرفہ طریقے پر چاہے جانے، مدعا ظاہر کیے جانے، خواہش کا
اظہار کیے جانے اور جواب یا دعا کی تاثیر کی موہوم امید دل میں رکھنے کے علاوہ اور
کوئی چارۂ کار بھی تو نہیں ہوتا۔
جہاں تک کلاسیکی غزل کی رسومیات
کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کلاسیکی تصور کائنات کے نتیجے میں ایک بات تو غزل کی
رسومیات میں یہ شامل ہوگئی کہ عاشق تقدیر کا پابند ہے اس لیے ہجر اس کامقدر ہے اور
اسی باعث سے عاشق ہمیشہ مضطرب اور بے قرار رہتاہے اور اسے کامیابی مشکل سے ہی ملتی
ہے۔ مگر جو چیز غزل کی رسومیات کو مرکزیت بخشی ہے وہ یہ ہے کہ غزل کے مضامین میں
بھی عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عشق چوں کہ انسانی زندگی میں ایسا جذباتی داعیہ
ہے جو داعیہ کے ساتھ ساتھ زندگی اور جذبات کا مظہر بھی ہے۔ انسانی زندگی ایسی ہمہ
گیری، جامعیت اور رسائی عشق کے علاوہ کسی اور جذبے کو حاصل نہیں ہوتی۔ یہی جذبہ
کائنات اور خالقِ کائنات کے رشتے کو مستحکم کرتاہے، انسان اور انسان کو باہمی ربط
و تعلق سے ہم آہنگ کرتاہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کائنات کی بقا اور نسلِ انسانی
کے فروغ و تسلسل کا محرک عشق کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں بن پاتا۔ ان تمام اسباب
کی بناپر عشق کی ہمہ گیری سے زندگی کے کسی بھی مرحلے میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کلاسیکی غزل کی رسومیات میںعشق کے جذبے کی مرکزیت کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے اس لیے
غزل کے اس مخصوص محور کو شاعری میں زیربحث آنے والے تمام جذبات اور تمام معاملات
سے زیادہ مقبولیت اور ہمہ گیری بھی بڑی آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ کلاسیکی غزل میں
اس مرکزی موضوع کی قبولیت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ کلاسیکی غزل میں ذاتی یا
انفرادی عشق کے بجائے عشق کو تعمیم کی سطح پر زیربحث لایا جاتاہے۔ اس سے متعلق
کردار بھی نمائندہ عشقیہ کردار ہوتے ہیں۔ اس لیے زید، عمرو، بکر کے بجائے عاشق کا
کردار اگر مثالی ہوتاہے تو وہ قیس و فرہاد کی مثالیت سے کام لیتاہے اور مختلف
نوعیت کے عشق یا عاشقوں کو ایک ساتھ اپنے دائرۂ
کار میں شامل کرلیتاہے۔ اس وجہ
سے عشق اپنی نوع کے اعتبار سے یا جنس کے اعتبار یا فرد کے اعتبار سے یا زمانی
حوالے کے اعتبار سے کتنابھی مختلف ہوگا عاشق کا نمائندہ کردار ان تمام کا احاطہ
کرلے گا۔ کلاسیکی غزل کی رسومیات کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا ذکر ضمنی طورپر
جمالیات کے حوالے سے ہوچکاہے۔ یعنی غزل کی ساخت اور ہیئت سے متعلق جو فنی مسائل
وقت کے ساتھ علماے بلاغت کے مابین تسلیم شدہ بن گئے ان کو بھی کلاسیکی غزل کی
رسومیات میں ناگزیر طورپر شامل تصور کرنا چاہیے۔ غزل کی صنف کی مخصوص تکنیک اور اس
کے ہئیتی نظام کو جب مخصوص رسومیات کی حیثیت حاصل ہوگئی تو اسے لازمی طورپر
کلاسیکی شعریات کابھی حصہ تسلیم کرلیا گیا۔ جس کے نتیجے میں قافیہ و ردیف کی
ترتیب، بحور و اوزان کا انتخاب اور غزل کی مخصوص لفظیات کلاسیکی شعریات کا حصہ بن
گئی۔
غزل کی صنف میں بالعموم اور
کلاسیکی غزل میں خصوصیت کے ساتھ مضامین کی سطح پر بھی انفرادیت کے بجاے تعمیم یا
عمومیت کا خیال رکھا جاتاہے۔ کلاسیکی غزل سے ہی ہم نے یہ سبق سیکھاہے کہ استعارہ
حقیقت یا واقعیت کی نمائندگی کم کرتاہے بلکہ کسی نئی حقیقت کی تخلیق زیادہ کرتاہے۔
اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ استعارہ کی بدولت حقیقت کے متوازی ہمارا واسطہ ایک
نئی حقیقت سے بھی پڑتاہے جو بسااوقات استعارے کی تخلیق کی بنیاد بننے والی حقیقت
سے بھی مختلف ہوجایا کرتی ہے۔ اسی لیے کہا گیاہے کہ مشرقی شاعری حقیقت نگاری سے زیادہ معنی کے امکانات کو بروئے کار
لانے کا نام ہے۔ یعنی جتنے معنی ممکن ہیں وہ سب حقیقی ہیں، اس لیے کہ اگر حقیقی نہ
ہوں تو ان کا وجود میں آنا ہی ممکن نہ ہو۔
نظم
:
کلاسیکی اصنافِ شعر میں بہ ظاہر
تو یہ معلوم ہوتاہے کہ غزل کے بالمقابل نظم کی شعریات کو کلاسیکی اصناف میں بہت
اہمیت کے ساتھ زیربحث آنا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلاسیکی عہد میں اردو کی بیش
تر شعری اصناف نظم کے ذیل میں ضرور آتی تھیں مگر یک موضوعی صنف کو نظم کی صنف کے
نام سے ترقی دینے کا رجحان انیسویں صدی کے وسط سے پہلے مشکل سے ہی تلاش کیا
جاسکتاہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یک موضوعی صنف ِسخن کی روایت ہمیں دکن میں بھی
ملتی ہے اور شمالی ہند میں بھی، بلکہ یوں کہیے کہ شمالی ہند میں نظیراکبرآبادی کی
شاعری میں اس صنف کو نقطۂ عروج حاصل ہوجاتاہے مگر اس زمانے کا ادبی اشرافیہ اس
صنف کو الگ سے صنف کا کوئی مخصوص نام دے کر اس کی شعریات مرتب کرنے کا روادار نظر
نہیں آتا۔ شعراے اردو کے تذکروں میں نظیر کی شاعری کو جس طرح سوقیانہ اور مرتبے سے
فروتر شعری اظہار کا نام دینے کی کوشش کی اس سے ہرشخص واقف ہے۔ تاہم اگر قدیم
زاویۂ نظر کو نظرانداز کرکے زمانۂ حال میں اس صنف کے ماضی کے ان کارناموں کے عناصر ترکیبی کی بازیافت کرنے کی
کوشش کی جائے تو اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہرچند کہ روایتی طورپر یک موضوعی
اصناف اپنی بعض ضمنی اور ذیلی خصوصیات اور شناختوں کے ساتھ کبھی مثنوی، کبھی مرثیہ
اور کبھی قصیدہ اور کبھی کبھی شہرآشوب یا واسوخت جیسے ناموں سے موسوم کردی گئیں
پھر بھی اَن گنت ایسے شعری نمونے ہماری روایت میں ہنوز اپنی انفرادیت کے ساتھ یاد
کیے جاتے ہیں جو نظم کے لفظی معنی یعنی موتی کو دھاگے میں پِرونے، یا ترتیب و
تسلسل کے ساتھ کسی موضوع کو شعری ارتقا سے گزارنے کے سبب اپنی اہمیت کو تسلیم
کرانے پر مصر نظر آتے ہیں۔ اگر صرف نظیراکبرآبادی کی اس نوع کی نظموں کو سامنے رکھیے
تو لازمی طورپر نظم کی شعریات کے کسی تصور کے بغیر ان پر گفتگو کرنے میں حق بہ
جانب نظر نہیں آتے۔
ہمیں یہ بات تسلیم کرنے کے
علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ شعری اظہار کے اصول و ضوابط کی تشکیل میں تہذیبی عوامل
بڑی حدتک اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے انیسویں صدی کے اواخر تک کا زمانہ جس
طرح ادبی اشرافیہ کے اصول و ضوابط سے مشروط تھا اس کا اثر اس کے علاوہ اور کیا
ہوسکتا تھاکہ تہذیبی پیمانے جس صنف کو قدرومنزلت سے نہ دیکھیں ان کو استناد کا
درجہ حاصل نہ ہو، لیکن اب جب کہ گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے میں ادب اور فنونِ
لطیفہ پر کسی ممتاز تہذیبی ادارے کی اجارہ داری کو بے دخل کردیا گیاہے اور خصوصیت
کے ساتھ جدید اور مابعدجدید عہد میں سماجی طبقات کی تقسیم درجہ بندی کے ساتھ عمودی
نہیں بلکہ افقی ہوگئی ہے، تو اپنے آپ پرانی اصطلاح میں گرے پڑے طبقوں، نظرانداز
ہوتی رہنے والی اکائیوں یا کسی مخصوص رتبہ یا مرتبہ کے ساتھ وابستہ موضوعات کو
یکساں طورپر ادبی اور شعری اظہار میں اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال
میں نہ توکوئی موضوع اچھوت رہ گیاہے اور نہ کسی اسلوبِ بیان یا لفظیات کو اقداری
طورپر کم تر قرار دیا جاسکتاہے۔ اس لیے اگر اس سیاق و سباق کی معنویت کے پس منظر
میں نظیراکبرآبادی اور ان جیسے بعض اور شاعروں کی نظموں کو سامنے رکھا جائے تو
اندازہ ہوگاکہ ہیئت کے معاملے میں ہرطرح کی آزادی کو روا سمجھنے کے ساتھ جو نظمیں
معرضِ وجود میں آئیں ان کی سب سے بڑی اہمیت تو یہ سامنے آتی ہے کہ علم شعر کے قدیم
مفروضے پر مبنی ہیئت پرستانہ رجحان اور صنف کے تعین میں ہیئت کو سب سے زیادہ اہمیت
دینے کے بجاے نظم کی صنف ہیئت کے برخلاف صرف موضوع کی بنیاد پر ارتقا کے عمل سے
گزرتی ہے۔ خیال کے ارتقا، موضوع یا مضمون کے مختلف پہلوؤں کی نشان دہی، بات میں بات
نکالنے کے ہنر اور زندگی کے مختلف مظاہر کے محض بیان میں ہی نہیں بلکہ فکری اور
تصوراتی طورپر فلسفیانہ تصورات کی پیش کش کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس
طرح کی نظموں میں حشووزوائد سے پاک ہونے یا ہئیتی طورپر ہرمصرعے کے مربوط ہونے اور
ہرمصرعے کے ناگزیر طورپر خیال کے ارتقا میں شامل ہونے جیسی جو باتیں بیسویں صدی کے
وسط سے اردو میں زیربحث آنے لگی ہیں ان کا اردو نظم کی روایت سے کوئی گہرا تعلق
نہیں۔ یہ تمام شرائط مغربی بلکہ مخصوص طورپر انگریزی نظم کی شعریات کا حصہ رہی ہیں
جس کو بالخصوص ایفآرلیوس اور نظم کے دوسرے انگریزی نقادوں نے مستحکم کیا تھا اور
اردو میں اسے کلیم الدین احمد جیسے مغرب انحصار نقادوں نے عام کرنے میں اہم کردار
ادا کیا۔ اگر اس سلسلے میں علامہ اقبال کی نظموں کی ہیئت کا ذکر کیا جائے تو یہ
بات کلاسیکی شعری اصناف جیسے موضوع کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔ مگر حقیقت تو یہی ہے کہ
نظیراکبرآبادی جیسے شاعروں کی نظم نگاری کا اگر اردو میں کوئی نقطۂ عروج ہوسکتا
ہے تو وہ علامہ اقبال کی نظموں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر اقبال کی نظموں کو منہا
کرکے بھی بات کی جائے تو اردو نظم کی ایک نمایاں روایتی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ
محض فکر و فلسفہ کے بجائے یا اشاروں اور کنایوں میں اپنی بات کہنے کے برخلاف جس
صنف میں وضاحت، صراحت، عدم ابہام کے ساتھ شفاف زبان میں اس طرح اظہار خیال کیا
گیاکہ نہ تو کسی ہیئت کی پابندی تسلیم کی گئی اور اگر کوئی ایک ہیئت ناکافی ثابت
ہوئی تو درمیان میں بھی ہیئت یا اوزان کی تبدیلی کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال لی
گئی۔ وہ ظاہر ہے کہ نظم کی صنف کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی کم
اہمیت کی حامل نہیں کہ نظم کی صنف سے اگر کوئی اور کلاسیکی صنف ِشاعری موضوعی قربت
رکھتی ہے تو وہ مثنوی ہے۔
مثنوی
:
جہاں تک مثنوی کی صنف کا تعلق
ہے تو اس کی قدامت اردو میں ہی نہیں فارسی میں بھی تسلیم شدہ ہے۔ کہاجاتاہے کہ
مثنوی کا اصل مزاج داستانِ عشق کا بیان ہے۔ چوں کہ مثنوی کی صنف میں شروع سے ہی
عام موضوعات سے کچھ زیادہ داستان کا عنصر شامل ہوگیا تھا اس لیے واقعات اور بیانیہ
کا استعمال اس کے اجزا میں بڑی اہمیت کا حامل ہوگیا مگر اس کے ساتھ ہی عشق کے
جذبات و احساسات اور ان کی جزئیات کو بھی مثنوی کے اہم اجزا میں شامل تصور کیا
جانے لگا۔ مثنوی کو بیانیہ شاعری کی معراج بھی کہا جاتاہے جس میں ہرخارجی مظہر یا
واقعاتی بیان، انسان کی داخلی کیفیات اور مربوط یا پیچیدہ جذبات کا عکس بن کر
نمودار ہوتاہے۔ اوّل اوّل رزمیہ کو الگ سے کسی صنف شاعری کی حیثیت حاصل نہ تھی اس
لیے مثنوی کے ذیل میں رزمیہ، عشقیہ اور داستانی نوعیت کی ان تمام طویل نظموں کو
مثنوی کا نام دیا جاتا تھا جو دو دو مصرعوں کی بنیاد پر اپنے قافیہ کے نظام کو آگے
بڑھانے کا اعلیٰ نمونہ ہوا کرتی تھیں۔ مثنوی کو تصورات یا نظریات یا آئیڈیاز کی
شاعری کا نام بھی دینا بہتر تصور کیا جاتاتھا۔ خصوصیت کے ساتھ مثنوی معنوی اور
مثنوی منطق الطیر کو فارسی میں اور پھول بن اور قطب مشتری سے لے کر گلزارِنسیم اور
سحرالبیان تک اردو میں کسی نہ کسی طرح آئیڈیاز اور تصورات کو بھی واقعات اور حکایات
کے ساتھ آگے بڑھانے کا کام انجام دیتی ہیں۔ ویسے وزیرآغا نے اپنی بہت اہم تصنیف
’اردو شاعری کا مزاج‘ میں گیت، غزل اور نظم یا مثنوی کے صنفی جواز پر گفتگو کرتے
ہوئے مثنوی کو محبت کی داستان بیان کرنے والی سب سے اہم صنف بتایاہے۔ وہ کہتے ہیں:
”مثنوی کا اصل مقصد محبت کی داستان کو بیان کرناہے۔ اگر
مثنوی کو مختلف و متنوع خارجی موضوعات کے لیے برتاجائے یا عشقیہ داستان کے بیان
میں محض واقعات کے بیان کو تمام تر اہمیت تفویض کردی جائے تو اس سے مثنوی کا اصل
مزاج مجروح ہوتاہے۔“ (اردو شاعری کا مزاج)
مثنوی کی صنف میں بیانیہ کی سطح
پر داستانی عنصر کی شمولیت اور واقعاتی اظہار کے نت نئے اسالیب نے اور عشق کے
موضوع کی شمولیت کے سبب جذبے یا داخلی کیفیات نے اس صنف کو دوآتشہ بنانے میں اہم
کردار ادا کیاہے۔ اردو اور فارسی میں مثنوی کی ہیئت کے لیے سات بحریں مروّج رہی
ہیں لیکن بعض جدیدنقادوں بالخصوص شمس الرحمن فاروقی نے اس بات سے اختلاف کا اظہار
کیاہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے بڑے مدلل انداز میں درس بلاغت کے اس مسئلے پر اپنی یہ
رائے دی ہے :
”مثنوی کے لیے نہ یہ ضروری ہے کہ چھوٹی بحر میں ہو اور نہ
یہ ضروری ہے کہ اسے چندخاص بحروں میں ہی نظم کیا جائے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ مثنویوں
کی کثیرتعداد چندبحروں میں لکھی گئی ہے اس لیے بعض لوگوں نے یہ فرض کرلیاکہ یہی
بحریں مثنوی کے لیے مخصوص ہیں۔“
ویسے بحر کے مسئلے پر وحیدالدین
سلیم کی کتاب ’افادات سلیم‘ میں مزید وضاحت کے ساتھ اس خیال کا اظہار ملتاہے جس
میں زمانۂ حال کی صورت حال کو اس طرح اجاگر کیاگیا ہے کہ یہ بات بھی کم ازکم گزشتہ
صدی کے اوائل میں ہی شروع ہوجانے والی ہئیتی تبدیلیوں کا احاطہ کرتی ہے :
”زمانۂ حال کے شاعرانہ انقلاب نے شعرا کو مثنوی کی ان
بحروں پر محدود اور قانع نہیں رکھا۔ وہ تقریباً تمام بحروں میں مثنوی لکھتے ہیں۔
اس سے اظہارخیال کے لیے میدان بہت وسیع ہوگیاہے۔ شاعر کو ہرشعر کے سرانجام کرنے
میں صرف دو قافیے سوچنے پڑتے ہیں، جو موقع پر نہایت آسانی سے خیال میں آجاتے ہیں
اور خیال کے تسلسل اور روانی میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوتی۔ یہ آخری طریقہ یعنی مثنوی
کے پیرایہ میں اداے خیال آج کل زیادہ مقبول ہوتاجاتاہے، اور چوں کہ مثنوی کی ان
بحروں پر شاعروں نے اداے خیال کو محدود نہیں رکھا جو قدیم زمانے سے مسلمہ ہیں، اس
لیے اس طریقے میں وسعت اور گنجائش زیادہ نکل آئی۔“ (افاداتِ سلیم، ص:214)
تاہم مثنوی کی ہیئتی اور موضوعاتی
وسعت کا مزید اندازہ لگانے کے لیے مثنوی کے ایک بہت اہم نقاد گیان چند جین کے
خیالات پر ایک نگاہ ڈالنی مناسب ہوگی۔ اس لیے کہ اس اقتباس سے بہت حد تک اندازہ
لگایا جاسکتاہے کہ مثنوی کا موضوع کس قدر لامحدود اور وسیع ہے :
”مثنوی محض قافیوں کے ایک نظام کا نام ہے۔ قصیدہ، غزل اور
مرثیہ کے برخلاف اس کا موضوع ہمہ گیر اور لامحدود ہے۔ ایک ہی مثنوی میں جنگ و جدل
کی کڑک، حسن و عشق کے گیت، پیری کا پندنامہ اور ماورا کے اسرار بیان کےے جاسکتے
ہیں۔ قصیدہ، غزل اور مرثیہ ایسی اصناف ہیں جن کا موضوع کم و بیش متعین ہے۔ اگر ان کے
لیے کسی وزن کی تخصیص نہیں تو مثنوی جیسی لامحدود صنف کے لیے بحر کی تجدید کی کوئی
وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر کوئی ایک وزن مثلاً مفعول، فاعلات، مفاعیل، فاعلن،
غزل، قصیدہ اور مرثیہ جیسی متنوع اصناف کے لیے نازیبا نہیں تو وہ مثنوی کے لیے بھی
کیوں ممنوع ہو۔“
(اردو مثنوی
شمالی ہند میں، ص:68)
شروع میں مثنوی کے سلسلے میں
ہیئت کا تعین کچھ اس طورپر بھی ہوگیا تھاکہ اوّل اوّل مثنویوں میں ردیف کا استعمال
نہ ہونے کے برابر تھا اور مثنوی کی ہیئت عموماً قافیہ پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ مگر
اس بات کو سمجھنا بھی اہم ہے کہ مثنوی کی ہیئت میں اصولاً چوں کہ لچک موجود تھی اس
لیے وقت کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کے اوائل سے ہی نظم کے مثنوی کے متبادل بننے کا
عمل شروع ہوگیا تھا۔ ہرچند کہ بعد کے زمانے میں اکثر لوگ اسے نظم کے نام سے یاد
کرنے لگے مگر بعض ہیئتی مناسبت کے سبب اسے مثنوی کا نام دینے کا عمل بھی جاری رہا۔
شاید اسی باعث اپنے موضوع پر بہت اہم تصنیف ’اصنافِ سخن اور شعری ہیئتیں“ کے مصنف
شمیم احمد نے اپنی کتاب کے متعلقہ موضوع کا اختتام کچھ اس طرح کیا ہے کہ ایک طرف
تو انھوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ آج کے زمانے میں مثنوی کی ہیئت پوری طرح باقی
نہیں اور نظم کے لیے تقریباً تمام کلاسیکی ہئیتوں کی جگہ آزاد نظم کی ہیئت نے لے
لی، مگر دوسری طرف مثنوی کی قدیم اور مخصوص ہیئت کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔
چونکہ ہمارے ہاں ترکیب بندکی
ہیئت پہلے سے موجود تھی جس کے تحت کوئی نظم خیال کی رو اور موضوعات کی رنگارنگی کی
وجہ سے مختلف بندوں میں تقسیم کردی جاتی تھی اور ہربند کا خاتمہ ایک مختلف قافیوں
والے شعر پر ہوتاتھا، جسے ٹیپ کا شعر کہا جاتاتھا۔ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض
شاعروں نے اپنی ان نظموں کو جو مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں، ترکیب بند کے طرز
پر بندوں میں تقسیم کرکے ایک طرح کی جدت پیدا کی، لیکن اسے مثنوی کی کسی ہیئت کا
نام نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ مثنوی کے تمام اشعار ازخود مختلف قافیوں کے حامل
ہوتے ہیں۔ بہرحال اقبال کا ’ساقی نامہ‘ اس طرز کی ایک عمدہ مثال ہے۔
انیسویں صدی کی ساتویں دہائی
میں پہلے محمدحسین آزاد اور قدرے بعد میں الطاف حسین حالی کے اشتراک سے انجمن
پنجاب سے نظم جدید کی جو تحریک روبہ عمل آئی تھی وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے تو
یقینا جدیدنظم تھی مگر آج تقریباً ڈیڑھ سوسال کا عرصہ گزرنے کے بعد اس کو بھی روایت
کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ تاہم اس ضمن میں یہ بات زیادہ قابلِ ذکر ہے کہ آزاد کی
نظمیں ہوں یا شبلی اور حالی کی، ان سب کو مثنویوں کانام بھی دیا گیاہے جو دراصل
مثنوی کی ہیئت میں جدید نظمیں ہیں۔ یہی بات علامہ اقبال کی نظموں کے بارے میں بھی
مبنی برحقیقت ہے۔
قصیدہ
:
مثنوی کے برخلاف قصیدے کی صنف
کے لیے موضوع اور ہیئت دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔ جیساکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ
قصیدہ کی صنف کی روایت عربی قصائد کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ فارسی اور اردو
قصائد میں جس طرح قصیدے کے ترکیبی اجزا کا تعین ہوا اس طرح کی شرائط عربی قصائد کے
ساتھ تو لازم نہیں تھیں لیکن تشبیب کے ابتدائی حصے کو عربی میں غیرمعمولی اہمیت
حاصل تھی۔ اس تشبیب کے حصے کو عربی میں تشبیب یا تمہید بھی کہا جاتاتھا اور غزل
بھی۔ اردو اور فارسی غزل کا جو رشتہ عربی سے قائم کیا جاتاہے اس کی وجہ قصیدے کی
وہی تشبیب تھی جس میں نت نئے انداز میں، موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ عشقیہ یا فکریہ
یا خمریہ موضوعات کو بڑی بلاغت کے ساتھ بیان کیا جاتاتھا۔ اس باعث یہ بھی کہا
جاتاہے کہ قصیدے کی ایک عظمت یہ بھی ہے کہ غزل جیسی عظیم الشان صنف سخن اسی کے بطن
سے پیدا ہوئی۔ فارسی اور اردو قصائد میں عموماً مدح و ذم کے علاوہ پندونصائح،
اخلاق و حکمت، گردش زمانہ اور بہار و خمار کی کیفیات عام طورپر پیش کی گئی ہے۔
عربی میں قصیدے کا موضوع بہت وسیع اور متنوع تھا۔ روزمرہ کی زندگی کے واقعات، ملکی
اور قومی عزت و ناموس کے واقعات، فطری مناظر اور عشق کی واردات جس نت نئے انداز
میں جس طرح عربی قصائد میں بیان کی گئی ہیں اس کی مثالیں دوسری جگہ مشکل سے تلاش
کی جاسکتی ہیں۔ فارسی میں قصیدے کی صنف کو اس طرح کی آزادی حاصل نہیں رہی جو عربی
میں تھی۔ عربی میں جس طرح محبوب کے ذکر، قومی حمیت کے معاملات اور اپنے خاندانی ناموس
پر مبنی قصیدے آزادانہ انداز میں کہے جاتے تھے فارسی میں دربارداری اور حکمرانوں
کی تعریف و توصیف میں آکر مقید ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ اردو میں قصیدے کی صنف اگر کسی
حدتک خوشامد اور تملق پر منحصر رہی تو اس کو فارسی اثرات کے علاوہ کوئی اور نام
نہیں دیا جاسکتا۔ ویسے معاملہ عربی کا ہو فارسی کا ہو یا اردو کا، اس صنف کے ساتھ
مدح اور ذم دونوں یکساں طورپر شامل سمجھے جاتے رہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ قصائد
میں ذم سے زیادہ مدح کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ قدرے بعد کے زمانے میں چوں کہ ذم کے
بیان یا ہجو کے لیے بعض اور اصناف کو خاص کرلیا اس لیے بھی قصیدے کی صنف کے ساتھ
مدح کی وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوتی چلی گئی۔ قصیدے کے لفظی معنی میں خواہ قصد
کرنے کا عنصر شامل ہو یا اس سے مغزغلیظ کا مفہوم اخذ کیا گیاہے، دونوں صورتوں میں
اس صنف میں ہیئت کے شکوہ کے ساتھ لفظی طمطراق، علوم و فنون کے بیان، مشکل اور دقیق
اندازتکلم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ اخلاق، حکمت، فلسفہ اور دوسرے علوم و
فنون کی اصطلاحات اسی انداز تکلم کے شاخسانے ہیں۔
قصیدے کی بنیادی قسمیں تمہیدیہ
اور خطابیہ ہیں، باقی اقسام ضمنی ہیں۔ ہیئت کے نقطۂ نظر سے قصیدے کی ایک تجسیم کو
دعائیہ بھی کہاجاتاہے جس میں تشبیہ نہیں ہوتی۔ اس قسم کے قصوں کا آغاز خطابیہ
قصائد کے برخلاف دعا سے ہوتاہے اور اس کے بعدمدح کے اشعار ہوتے ہیں۔ اس قسم کا
سودا کا ایک قصیدہ ’درمدح عالم گیرثانی‘ ہے جس کے بعض ابتدائی اشعار سے دعا کے
ساتھ قصیدہ شروع کرنے کی نوعیت کا پتہ چلتاہے جو تشبیب سے یکسر مختلف ہے :
رکھے ہمیشہ تری تیغ کار کفر
تباہ
بہ حق اشہد ان لاالہ الااﷲ
فلک پہ سبعہِ سیارہ تاقیام جہاں
پھرا کریں تری مرضیِ شریف کے
ہمراہ
بسانِ پرتوِ خورشید، آسماں پہ
رہے
ترے چراغ سے روشن ہمیشہ مشعل
ماہ
قصیدے میں چوںکہ غزل کی ہیئت
شروع سے ہی مستعمل رہی اس لیے ابتدائی اشعار میں غزل کی بہت سی خصوصیات اپنے آپ
شامل ہوگئیں۔ تاہم تشبیب کے مضامین عربی سے لے کر فارسی اور فارسی سے پھر اردوتک
مرکزی طورپر تو باقی رہے مگر عربی کے مقابلے میں فارسی اور اردو میں تشبیب کے
مضامین میں خاص یکسانیت ملتی ہے مگر اس یکسانیت کے باوجود دونوں میں تنوع ملتاہے۔
یعنی عشقیہ معاملہ ہو، خمریات کا موضوع ہو، بہار کا مضمون ہو، علم و حکمت کی باتیں
ہوں یا نجوم و فلسفے سے متعلق اظہارِ خیال ہو، دونوں زبانوں کے قصائد میں تغزل کے
انداز کو نباہتے ہوئے متذکرہ موضوعات کے ساتھ انصاف ملتاہے۔
جہاںتک سوال قصیدہ کے دوسرے
اجزاے ترکیبی کا ہے تو ہرچندکہ قصائد کی بنیاد توصیف و تعریف پر ہوتی ہے اور تشبیب
کے بعد گریز اور گریز کے بعد تعریف و توصیف کا بیان قدرے تفصیلی بھی ہوتاہے مگر
قصیدہ نگار کی اصل فن کاری کا اندازہ تشبیب سے لگایا جاتاہے یا پھر گریز کے اس شعر
یا ان بعض اشعار سے جن کو تشبیب اور مدح کے درمیان رابطے کی کڑی بنایا جاتاہے۔
یعنی گریز دراصل نام ہی دو مختلف الخیال چیزوں کے درمیان ربط پیدا کرنے کا ہے۔
جہاں تک سوال مدح اور دعائیہ اشعار کا ہے تو ان دونوں اجزا میں نہ کسی خاص ہنرمندی
کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ مختلف قصائد کے مابین اس ضمن میں بہت زیادہ فرق یا تنوع
پایا جاتاہے۔
مرثیہ
:
کلاسیکی اصنافِ سخن میں قصیدے
کے بالمقابل اگر کسی صنف ِسخن کا ذکر بار بار آتاہے تو وہ مرثیہ ہے۔ یہ ذکر پہلے
بھی آچکا ہے کہ اردو کی شعری اصناف میں شہرآشوب اور واسوخت کے علاوہ مرثیہ ہی وہ
صنف ِسخن ہے جس کی شناخت ہیئت کے بجائے موضوع سے ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت
ہے کہ شعری اصناف میں ہیئت کو بنیاد بنانے والی فضا میں موضوعاتی اعتبار سے صنف
ِمرثیہ کا تعین اس شناخت کے مسئلے کو توازن سے ہم آہنگ کرنے کا نمونہ ہے۔ اس صنف کو
قصیدے کے بالمقابل رکھ کر اس لیے بھی دیکھا جاتاہے کہ اکثر سہل پسندانہ انداز میں
یہ بھی کہہ دیا جاتاہے کہ قصیدے میں زندہ لوگوں کی توصیف کی جاتی ہے اور مرثیے میں
مرنے والوں کی۔ یوں تو یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں مگر اس کو دونوں اصناف کی
صنفی پہچان کا وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جہاں تک ہیئت کا سوال ہے تو اس سلسلے میں
اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو شروع میں بہت عرصے تک مرثیہ کے لیے کوئی ہیئت
مخصوص نہیں تھی۔ دکن میں ہی نہیں شمالی ہند میں سودا کے زمانے تک عام نظم کی طرح
مختلف حیثیتوں میں مرثیے مل جاتے ہیں۔ سودا کا یہ ایک بڑا امتیازہے کہ جہاں اس نے
مسدس کے علاوہ بعض اور ہئیتوں میں مرثیے کہے وہیں مسدس کی ہیئت کو مرثیہ کے لیے
مخصوص کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ویسے سودا سے قبل احمد دکنی نے بھی مرثیے کے لیے
مسدس کی ہیئت استعمال کی تھی۔ سودا نے مسدس کو تواتر کے ساتھ استعمال کرنے کے ساتھ
ترکیب بند اور ترجیع بند کی ہئیتوں میں بھی مرثیے کہے۔ یہ بات صرف سودا کے مراثی
کے لیے درست نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی مرثیے کی صنف کے لیے ہی ہیئت کی تخصیص سے
انکار کی روایت ملتی ہے۔ تاہم ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہےے کہ لکھنؤ میں تو مرثیہ
نگاری کو نقطۂ عروج پر پہنچانے والے مرثیہ نگاروں نے مسدس کی ہیئت کو ہی اس کے
تمام امکانات کے ساتھ استعمال کیا مگر شخصی مراثی کے معاملے میں خصوصیت کے ساتھ
مسدس کی ہیئت کی پابندی کم ہی ملتی ہے۔ مرزاغالب نے عارف کا مرثیہ غزل کی ہیئت میں
لکھا۔ الطاف حسین نے غالب کا مرثیہ ترکیب بند میں اور علامہ اقبال نے اپنی والدہ
کا مرثیہ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ مثنوی کی ہیئت میں لکھ کر ہیئتی آزادی کا ثبوت دیا۔ ان
شعرا کے بعد یوں تو بعد میں بھی محمدعلی جوہر، سیماب اکبرآبادی اور حفیظ جالندھری
وغیرہ نے مرثیے کہے اور متعدد ہیئتیں استعمال کیں جس میں صنف مرثیہ کی تاریخ کے لیے
ان شعرا کو کبھی ناگزیر تصور نہیں کیاگیا۔ ان معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کہ مرثیہ کی صنف کی بنیادی شناخت ہمیشہ موضوع پر مبنی رہی، ہیئت پر نہیں۔ مرثیہ کے
اسی مخصوص موضوع نے اس صنف ِسخن کو موثر بھی بنایا اور اس کی صنفی شناخت کو مستحکم
بھی کیا۔ یوں ہیئت کے علاوہ اور اس سے کہیں زیادہ موضوع کا مسئلہ مرثےے کے لیے اس
لیے شروع سے ہی اہم رہاہے کہ اردو کے علاوہ متعدد مشرقی اور مغربی زبانوں میں
رثائی نظموں اور ایلچی کی روایت ملتی ہے۔
اردو میں صنف ِمرثیہ کی روایت
کا سرا عربی کے مراثی سے جاملتاہے۔ عربوں میں کسی عزیز، محبوب یامحترم شخص کی موت
پر شعر یا نظم کہنے کا رواج خاصا پرانا تھا۔ مسلمانوں کی روایت میں حضرت خنساءکا
ذکر اس سلسلے میں باربار آتاہے جنھوں نے اپنے اعزہ کی موت پر نظمیں کہی تھیں۔ ظاہر
ہے کہ عربی میں رثائی نظموں کے لیے اصول و ضوابط مقرر نہیں تھے۔ حد یہ ہے کہ ایران
میں بھی رثائی نظموں کی روایت تو ضرور ملتی ہے مگر وہاں بھی نہ تو حضرت امام حسین
اور اہلِ بیت کی شہادت پر باقاعدہ شعری ذخیرہ ملتاہے اور نہ اصولی طورپر اس صنف
ِشاعری کی شعریات کے اصول برتنے کی کوشش ملتی ہے۔ یہ امتیاز ہندوستان میں اردو کو
حاصل ہے کہ مرثیہ کی صنف کو حضرت امام حسین اور اہلِ بیت کی شہادت اور توصیف سے
مخصوص تو پہلے کردیا گیاتھا مگر اس کے بنیادی اصول کی تشکیل لکھنوی شعرا بالخصوص
میرضمیر کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس ضمن میں بھی
اصولی مباحث کو نظریاتی اور عملی طورپر تحریری شکل کم دی گئی مگر عملی طورپر کثرت
سے ایسے مراثی کہے گئے کہ بڑی حدتک اس صنف کے اجزاے ترکیبی نمایاں ہونے لگے۔ تاہم
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مرثیہ کے لیے اجزاے ترکیبی کی ویسی پابندی تو لکھنؤ میں بھی ملتی
ہے جس طرح کی پابندی ہمیشہ سے قصیدے کے لیے برتی جاتی رہی۔ چہرہ ہو یا سراپا، رخصت
ہو یا آمد، رجز ہو یا رزم اور شہادت ہو یا بین، ان اجزا کا بالترتیب اہتمام مرثیوں
میں ملتا تو ہے مگر لازمی تصور نہیں کیا جاتا۔ ویسے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
مرثیہ کی صنف اور موضوع کے تقاضے کے مطابق شہادت، بین اور رجز کے عناصر لکھنوی
مرثیوں میں عام طورپر ملتے ہیں۔ کربلا کی جنگ اور یک طرفہ فوج کشی جس طرح کے رزمیہ
مناظر کا مطالبہ کرتی ہے اور اپنے ممدوح کی شجاعت و بہادری کو نمایاں کرنے کی خاطر
جنگ و جدل کے عمل، گھوڑسواری کی ہنرمندی، تیروتفنگ اور شمشیرزنی میں مہارت وغیرہ
کے بیان کے علاوہ خاندانی شرافت، جذبۂ قربانی اور سرفروشی کے جیسے جیسے مناظر
ہمیں اردو مراثی میں ملتے ہیں ان کے باعث مرثیہ کی صنف رزمیہ نظموں کی روایت کے
قریب پہنچ جاتی ہے۔ جیساکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ عالمی ادب میں رزمیہ نظموں کی
روایت نہ صرف یہ کہ بڑی مستحکم ہے بلکہ بہت قدیم بھی ہے۔ یونان میں ہومر کی
ایلیدسے لے کر ایران کے شاہنامہ اور ہندوستان کی مہابھارت تک اس کا سلسلہ دراز ہے۔
رزمیہ نظموں کی روایت میں جنگ و جدل کی تفصیل تو اپنی جگہ ہوتی ہے شخصی پابندی یا
قومی عزت و ناموس کی جس عظمت اور وقار کو ان میں پس منظر بنایا جاتاہے اس کے باعث
رزمیہ کے جلال اور ہیبت کے علاوہ قومی حمیت کو تاریخی اور روایتی عظمت سے ہم کنار
ہونے کا موقع ملتاہے۔ اس سلسلے میں مرثیہ کی صنف کا ایک امتیاز اس بات میں پوشیدہ
ہے کہ اس صنف نے ڈرامائی عناصر سے بھی بہت زیادہ فائدہ اٹھایاہے۔ ڈرامے کی صنف میں
مکالموں کی اہمیت، اشخاص قصہ کی انفرادیت اور عمل و ردعمل سے پیدا ہونے والے
ڈرامائی عناصر کو بڑے احتیاط و خوبی کے ساتھ برتا جاتاہے۔ لکھنؤ میں یوں تو
میرضمیر اور خلیق اور دوسرے اہم شعرا نے بھی مراثی کہے مگر جس طرح میرانیس اور
مرزادبیر نے اپنے مراثی کے ذریعے مرثیہ کی صنف کو نقطۂ عروج تک پہنچادیا، اس کی
کوئی اور مثال کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ انیس و دبیر کے مراثی میں زبان و
بیان کو نقطۂ ارتقا تک پہنچانے کے ساتھ اصل واقعۂ کربلا کی تفصیلات میں ہندوستانی عناصر
کی شمولیت سے ہندوستانی سامعین کے لیے اثرآفرینی کی ایک نئی جہت پیدا کردینا اپنی
مثال آپ ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو مراثی نے رثائی نظموں کے اندر رزمیہ
اور ڈرامائی عناصر کی شمولیت سے کئی طرح کے فنونِ لطیفہ کی سرحدیں مٹاکر ایک الگ
شعریات کی تخلیق کی ہے۔
شہرآشوب
:
شہرآشوب کے تحت جو نظمیں لکھی
جاتی تھیں وہ دراصل اسم بامسمیٰ ہوا کرتی تھیں۔ یعنی مرثیہ کی طرح ہی شہرآشوب جیسی
کلاسیکی صنف شاعری ہیئت کے بجائے اپنا انحصار موضوع پر رکھتی ہے۔ یہی سبب ہے
انیسویں صدی تک شہرآشوب کے لیے شہرآشوب کے نام سے زیادہ قصیدہ شہرآشوب کی اصطلاح
استعمال کی جاتی تھی۔ جیساکہ اس بات کا ذکر قصیدے کی بحث میں آچکاہے کہ قصیدہ کے
دائرہ کار میں جہاں تعریف و توصیف شامل رہی وہیں ہجو، ذم اور کسی حدتک صنفی صفات
کا ذکر بھی شامل رہا۔ اس سلسلے میں سودا کے بعض ہجویہ قصیدوں کو بطور خاص حوالہ
بنایا جاسکتاہے۔ اہم بات یہ کہ ہجویہ قصائد کا دائرہ پھیلتے پھیلتے ماضی میں اشخاص
کی ہجو سے آگے بڑھ کر سماج، تہذیب، معیشت اور شہر کی زبوںحالی اور انتشار تک
پہنچتا رہا۔ اس طرح شہرآشوب، قصیدہ کی ہیئت میں بھی کہے گئے اور آزادی کے ساتھ اس
صنف کے لیے مختلف اور متنوع ہیئتیں بھی استعمال ہوئیں۔ اس پس منظر سے یہ اندازہ
بھی ہوتا ہے کہ بیش تر کلاسیکی اصناف میں جس طرح فنی اور تخلیقی اظہار کی سطح پر نت
نئی ہنرمندیوں کے نمونے تلاش کیے جاسکتے ہیں، بالکل اس کے برخلاف شہرآشوب کی صنف
میں ہیئتی خوبیوں اور فنی محاسن کے بجائے اصل موضوع پر زیادہ انحصار ہوتاہے۔ ان
معنوں میں کہ اس صنف سخن سے متعلق زیادہ تر باتیں ایک طرح کے انسانی مسئلے کی صورت
اختیار کرجاتی ہیں۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سماجی مسائل کے تخلیقی اظہار
کے لیے شہرآشوب کی صنف میں ہمیشہ خاص گنجائش سمجھی گئی ہے۔
متذکرہ باتوں سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ شہرآشوب دراصل وہ مخصوص صنف ِسخن ہے جس میں شہریا سماج کی بربادی اور
تباہ کاری کو دردمندی اور ہمدردی کے ساتھ بیان کیا جاتاہے۔ تاہم یہ بات واضح رہنی
چاہیے کہ ایسی نظمیں بھی کچھ کم نہیں کہی گئی ہیں جو شہرآشوب کی تعریف پر پوری تو
اترتی ہیں مگر ان میں شہر کی بدحالی اور ابتری کو طنزوتمسخر، ہجو اور تضحیک کے
انداز میں زیربحث لایا گیاہے۔ اس سے قبل ذکر آچکا ہے کہ جس طرح نظیراکبرآبادی کی
متعدد نظموںمیں ہیئتی اور فنی محاسن پر تو زیادہ توجہ نہیں ملتی مگر اپنے موضوع کو
اس کی تمام تر باریکیوں اور تفصیلات کے ساتھ پیش کیا جاتاہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم
شہرآشوب کا رشتہ اس قسم کی نظموں سے بھی جوڑ سکتے ہیں جس میں فن سے کہیں زیادہ
فکر، موضوع اور مواد کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ شہرآشوب میں عموماً شہر کی
سیاسی، سماجی اور اقتصادی ابتری اور فلاکت و ادبار کو دردمندی کے ساتھ بیان کیا
جاتاہے۔ اس ضمن میں عوام الناس کی مفلوک الحالی، غربت و افلاس کے باعث پیدا ہوجانے
والے اخلاقی زوال، غیرانسانی رویوں اور حدسے زیادہ بڑھی ہوئی مادیت اور کسمپرسی
کابھی بے حد رقت آمیز بیان ہمیں شہرآشوب میں مل جاتاہے۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا
جاسکتاہے کہ زمانۂ حال اور ماضی قریب کے برسوںمیں جس طرح سماج کے مختلف طبقات اور حاشےے پر
پڑی ہوئی اکائیوں کو ادبی و شعری اظہار کے مختلف سانچوںمیں اہمیت حاصل ہوگئی ہے تو
بھلا شہرآشوب جیسی پس ماندگی اور انتشارپسندی پر مبنی صنف ِسخن کو آج کے زمانے تک
اپنانے کا اصول کیوں نہیں رکھا گیاہو۔ اس سلسلے میں زیادہ مناسب جواب اس کے علاوہ
اور کیا ہوسکتاہے کہ شہرآشوب اور ہجویہ نظموں پر مبنی قدیم اصنافِ سخن ہرچندکہ اب
ماضی کی بات معلوم ہوتی ہے مگر دور جدید میں کثرت سے ایسی نظمیں جدید نظموں کے نام
کہی جاتی رہی ہیں جو شہرآشوب وغیرہ کی کمی کی تلافی کردیتی ہیں۔ اس ضمن میں دوسری
اہم بات یہ بھی ہے کہ خود ادب کے دورجدید میں شہر کی مادی، معاشی اور سماجی ابتری
سے کہیں زیادہ اس ابتری کے نتیجے میں تباہی سے گزرنے والی انسانی اخلاقیات اور
قدروں کے زوال کو موضوعِ سخن بنانے کا رویہ گزشتہ تیس چالیس برسوں میں بہت عام
رہاہے۔ اس لیے وہ قدیم اصنافِ سخن جو اس نوع کے موضوعات سے گہرا سروکار رکھتی تھیں
اب ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
اگر شہرآشوب کے عمدہ نمونوں کی
نشان دہی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شہرآشوب سے متعلق موضوعات کو ایک طرف تو ہجویہ
نظموں میں اپنایا جاتا رہا، دوسری طرف علی العموم نظم کے تحت شہرکی ابتری یا
اقتصادی بدحالی کو کافی موثرانداز میں پیش کیا گیا اور تیسرے یہ کہ بطور مخصوص صنف
سخن کے شہرآشوب نے اپنی منفرد اور مختلف حیثیت سے بھی اپنی شناخت کرائی۔ اگر غور سے
نظیراکبرآبادی کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ ان کی اَن گنت
نظموں میں یہ موضوع تمام جزئیات اور تمام پہلوؤں کے ساتھ زیربحث آیاہے۔ ان کی
نظمیں ’آدمی نامہ‘ کے عنوان سے ہو یا غربت و افلاس کی تصویرکشی کے لیے لکھی گئی
ہوں ان کو ہم بڑی آسانی سے شہرآشوب کی تعریف کا مصداق قرار دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے
میں نظیر کے ایک مخمس کو محض نمونے کے طورپر پیش کیا جاتاہے
:
بے روزگاری نے یہ دکھائی ہے
مفلسی
کوٹھے کی چھت نہیں ہے یہ چھائی
ہے مفلسی
دیوار و در کے نیچے سمائی ہے
مفلسی
ہر گھر میں اس طرح سے بھر آئی
ہے مفلسی
پانی کا ٹوٹ جاوے ہے جو ایک بار
بند
اس مثال سے اس بات کا اندازہ
ہوتاہے کہ ہیئت کے معاملے میں شہرآشوب میں ایک قسم کی آزادی ملتی ہے۔ اگر نظیرکا
یہ شہرآشوب مخمس کی ہیئت میں ہے تو سودا کا شہرآشوب غزل کی ہیئت میں ہے۔ مثال کے
طورپر محض دوتین اشعار پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ہئیتوں کے اختلاف کے باوجود شہرآشوب
میں موضوع کی یکسانیت دکھائی جاسکے :
گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں
کسو کی
تنخواہ کا پھر عالم بالا پہ
مکاں ہے
گزرے ہے سدا یوں علف و دانے کی
خاطر
شمشیر جو گھر میں تو سپر بنےے
کے یاں ہے
ہرصبح یہ خطرہ ہے کہ طے کیجےے
منزل
ہرشام یہ دل وسوسۂ سود و زیاں
ہے
اگر صرف ہیئت کے نقطۂ نظر سے
دیکھیے تو یہ مثال قصیدے کی بھی بن جاتی ہے، جب اس سے قبل کے نظیرکے شعروں کی مثال
مخمس کی قرار دی جاسکتی ہے۔
واسوخت
:
اردو کی کلاسیکی شاعری میں
ہرچندکہ غزل، قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ جیسی اصناف کو کچھ اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی
کہ امتدادِ وقت کے ساتھ ان کی شعریات مزید متعین بھی ہوئی اور اس میں زمانی تقاضوں
کے سبب بعض جزوی تبدیلیاں بھی آئیں۔ جن کا اندازہ ان اصناف سے متعلق متذکرہ
تفصیلات سے کیا جاسکتاہے۔ جہاں تک سوال واسوخت، شہرآشوب اور بعض کم مقبول اصنافِ
سخن کا ہے تو ان میں زمانی تسلسل تو بہت زیادہ نہیں ملتا مگر شہرآشوب اور واسوخت
کی ندرت خاصی توجہ طلب ہے۔ شہرآشوب پر قدرے تفصیلی گفتگو کے بعد ’واسوخت‘ کی صنف
کے تعین کی بات کی جائے تو سب سے پہلے معنوی طورپر واسوخت کے لفظ میں جلن اور
اُکتاہٹ پر ہماری نگاہ جاتی ہے۔ اسی لیے واسوخت کی صنف کی ہیئت سے کہیں زیادہ اس
کے موضوع کو اہمیت دی جاتی ہے۔ شروع شروع میں یوں تو مسدس کی ہیئت کو واسوخت کی
مثالی ہیئت سمجھا جاتا تھا، مگر مسدس کے ساتھ واسوخت کی روایت میں مثمن کی ہیئت کے
ابتدائی نمونے ملتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں مثمن اور مسدس کے علاوہ غزل کی ہیئت میں
بہت سارے واسوخت کہے گئے۔ واسوخت کے موضوع کی اوّلیت کے باعث مناسب یہ معلوم
ہوتاہے کہ یہاں واسوخت کی وہ تعریف نقل کردی جائے جو اس کے مالہ¾ و ماعلیہ کا
احاطہ بھی کرتی ہے اور ہیئت کے برخلاف اس کی موضوعاتی وابستگی کو بھی سامنے لاتی
ہے۔ ابومحمدسحر نے واسوخت کی تعریف بہت جچے تلے انداز میں اس طرح کی ہے :
”واسوخت وہ صنف ِسخن ہے جس میں عاشق، معشوق کی متلون مزاجی، کج ادائی اور
ہرجائی پن سے تنگ آکر اس کو جلی کٹی سناتاہے اور غم و غصہ کے عالم میں کسی دوسرے
معشوق سے محبت کرنے کی دھمکی دیتاہے۔ معشوق اس سے سراسیمہ ہوکر عاشق سے ازسرنو قول
و قرار کرتاہے اور عاشق و معشوق کے درمیان صلح صفائی ہوجاتی ہے۔“
واسوخت کی تعریف میں اگر غم و
غصے کا اظہار اور محبوب کے لیے طنزوتعریض کی بات پر اگر زیادہ اصرار کیاجاتا تو اس
صنف ِسخن میں غزل کی صنف کے بالمقابل عاشق کی انا، جرأت اور غم و غصہ کے جذبات کو
نظم کیے جانے کے امکانات کے کئی اور پہلو بھی سامنے آسکتے تھے مگر ان باتوں کے بعد
عاشق و معشوق کے درمیان ہونے والی مصالحت اور معشوق کا ازسرنو قول و قرار کرنے کے
عنصر نے واسوخت کے معنوی اور جذباتی امکانات کو خاصا کم کردیا۔ اس لیے یہ بھی
ہواکہ عاشق کے انداز محبوب کی کج ادائی اور بے رُخی کے ردعمل میں پیدا ہونے والے
سوزوگداز کو جو الم ناکی اور ٹریجڈی کے دوسرے امکانات سے بھی ہم آہنگ ہونے کا موقع
مل سکتاتھا وہ نہیں ہوسکا۔ اگر واسوخت کی بنیادی تعریف کو غزل کی شعریات کے تناظر
میں دیکھا جائے تو آسانی سے یہ تفریق قائم کی جاسکتی ہے کہ غزل کی کلاسیکی روایت
میں عاشق کی نیازمندی، خودسپردگی اور راضی بہ رضا ہونے کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ
کلاسیکی عہد کا تصورِ تقدیر اس بات کا تقاضا کرتاتھاکہ انسان تقدیر کے ہرعمل کے
جواب میں راضی بہ رضا ہے۔ اس باعث کلاسیکی غزل میں عاشق کے حوالے سے رنج و نارسائی
کے مضامین کی افراط ملتی ہے۔ غزل کے مقابلے میں اگر واسوخت کی روایت میں دانستہ
طورپر عاشق کا کردار اگر متحرک اور ردِعمل کا نمائندہ نظر آتاہے تو بجاطورپر
واسوخت کی شاعری میں عاشق کے پندار اور خودداری پر مبنی مضامین کو شروع سے ہی قبول
کرلیا گیاتھا۔ یہاں ہرمصیبت اور ہرطرح کی مظلومیت عاشق کا مقدر نہیں بلکہ عاشق
فطری انداز میں اپنی نخوت اور معشوق کے تغافل پر اپنی بے زاری اور بے التفاتی ظاہر
کرنے میں بھی تکلف نہیں محسوس کرتا۔ اس لیے بعض ماہرین بلاغت کا خیال ہے کہ اگر اس
صنف ِسخن کو مشق و ممارست سے گزارا جاتا تو عاشق کے کردار کے اور بہت سے پہلوؤں
کے نمایاں ہونے کا امکان تھا۔ مگر اس کے برخلاف ہوا یہ کہ یہ صنف سخن عامیانہ
خیالات اور بسااوقات مبتذل جذبات تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اگر نمونے کے طورپر اس صنف
ِسخن کے انداز اور لب و لہجے کی مثال دی جائے تو اس کا ایک شعر پیش کیا جاسکتاہے :
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی
طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں، اور
سہی
جہاںتک غزل اور واسوخت کے
موضوعات کی مناسبت اور دونوں میں عاشق کے رویے کافرق ہے اس کو کلاسیکی غزل کے عاشق
کے رویے اور عشق و عاشقی میں کسی عاشق کے کچھ ایسے مثبت رویے کی تفریق سے جانا
جاسکتاہے جس میں عاشق ایک غیور اور خودکار کے طورپر ابھرتاہے۔ مگر اس حقیقت سے
انکار مشکل ہے کہ واسوخت میں عاشق کے ممکنہ رویوں مثلاً دھمکی، رعونت اور محبوب سے
بے اعتنائی کے اظہار کے جو نمونے ملتے ہیں وہ سارے رویے موضوعات کی سطح پر نہایت
محدود معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے چونکہ واسوخت میں
داستان جیسے بیانیہ اور کردار کے تسلسل کے سہارے کی گنجائش کم تھی اس لیے جذبات کی
اعلیٰ سطح تک پہنچانے کی گنجائش بھی اس کی تمام تحدید کے باوجود موجود تھی۔ مگر
ہوا یہ کہ اس صنف سخن کو مصنوعی فضا اور پامال فرسودہ باتوں سے محفوظ نہیں رکھا
جاسکا۔
گزشتہ سطور میں اس بات کا ذکر
آیا تھاکہ شروع شروع میں جس طرح واسوخت کے لیے مثمن کی ہیئت کا رواج چل پڑا تھا،
اس سے میرتقی میر نے انحراف کرکے مسدس کی ہیئت میں واسوخت کہے۔ اس کا ایک نمونہ
یہاں پیش کردینا مناسب معلوم ہوتاہے :
تنگ اب حد سے زیادہ ہوئے ہیں
یاد رہے
بس بہت ہی ترے اطوار سے ناشاد
رہے
کب تک اس طور کوئی اے ستم ایجاد
رہے
دن کو بیداد رہے رات کو فریاد
رہے
ہے قریب اب، کہ ترے کوچے سے
اُٹھ کر جاویں
بے حمیت ہی ہمیں کہیو اگر پھر
آویں
ہیئت میں تجربے کا یہ سلسلہ
مسدس تک ہی محدود نہیں رہا۔ بعد کے زمانے میں واسوخت دوسری اور ہئیتوں میں بھی کیے
گئے اورجہاں تک غزل کی ہیئت کا سوال ہے تو اس کے اَن گنت نمونے ملتے ہیں جس کی
مثال مومن خاں مومن کی ایک غزل کے متعدد اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے جن کو واسوخت
کے عمدہ نمونوں میں شمار کیا جاتاہے۔ بعض
اشعار اس طرح ہیں :
اب اور سے لو لگائیں گے ہم
جوں شمع تجھے جلائیں گے ہم
برباد نہ جائے گی کدورت
کیا کیا تری خاک اڑائیں گے ہم
بت خانۂ جبیں ہو گر ترا گھر
مومن ہیں تو پھر نہ آئیں گے ہم
Abul
Kalam Qasmi
Department
of Urdu
Aligarh
Muslim University
Aligarh,
(UP)
سہ ماہی فکر و تحقیق، جولائی تا
ستمبر 2017
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں