5/9/19

ظفر عدیم کی چند منظومات و امتیازات مضمون نگار: منظر اعجاز


ظفر عدیم کی چند منظومات و امتیازات


 منظر اعجاز

ظفر عدیم کی لازوال جنبش قلم نے ورق سادہ پر جو گل بوٹے اور گلزار کھلائے ہیں، ان میں حرکت و حرارت اور رقص و موسیقی کا آہنگ بے مثال ہے۔ اور یہ کمال ان کے اسلوب سے ظاہر ہے۔ مجاز و ساحر کے نظمیہ ڈکشن کے دلدادگان میں ایک وہ بھی تھے لیکن ا نھوں نے خود کو سب سے الگ رکھا اور اس مقام و مرتبے پر ایستادہ کیا جو متقدمین ہی نہیں معاصرین اور متاخرین سے بھی منفرد اور ممتاز ہے۔ ظفر عدیم منثورات و منظومات کی مختلف تخلیقی جہات پر زبردست دسترس رکھتے تھے۔ وہ ہم عصروں میں مزاجاً بھی عدیم النظیر اور فقید المثال تھے۔
ظفر عدیم نے درجن بھر نثری اور شعری تصانیف میں اپنے مخصوص تخلیقی وجدان کے ساتھ ساتھ طرز و اسلوب کی سطح پر بھی اپنے امتیازات برقرار رکھے ہیں۔ ’لالہ رخ‘ طویل منظوم ڈرامہ کے علاوہ بھی انھوں نے منظوم کہانیاں لکھی ہیں۔ غزل کے روایتی دیوان ’دیوان عدیم‘ کے علاوہ بہت سی معرکہ آرا نظمیں کہی ہیں۔ میں یہاں ان کے مجموعہ کلام’بھینی بھینی مہک‘ کے باب ’تاثریت‘ کے علاوہ اسی نوع کی بعض دوسری تاثراتی نظموں کے حوالے پر اکتفا کروں گا۔
 ظفر عدیم کا گھر مظفر پورمیں پکی سرائے چوک کے پاس مسجد سے متصل اور مسلم کلب کے سامنے تھا۔ظفر عدیم کے نو عمری کے زمانے تک مسلم کلب میں بھی شاندار مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ شاعری کا ذوق اور ملکہ خداداد تھا چنانچہ دوسرے مقامی اور غیر مقامی شاعروں کے علاوہ انھوں نے فراق اور جگن ناتھ آزاد کے علاوہ کئی عظیم المرتبت شاعروںکو قریب سے دیکھا اور سنا بھی تھا اور ان کی ذات و صفات سے متاثر بھی ہوئے تھے۔ جگن ناتھ آزاد سے مکالمت اور مراسلت بھی تھی چنانچہ ’ بھینی بھینی مہک‘ کے باب’تاثریت‘ میں ان دونوں سے متعلق نظمیں ہیں۔ ’غریب الوطن۔ شین مظفر پوری ‘کا محرک کیا تھا، کون تھا، اس کا مجھے علم نہیں۔ ’اردو اداس ہے‘ جناب اغفار احمد ناز انصاری کی یاد میں“ ظفر انور کی گزارش پر معرض وجود میں آئی۔ ’مجذوب صفت شاعر جناب الیاس نجم مظفر پوری‘ اس باب کی آخری نظم ہے۔ اس کا محرک ان کے اپنے وجدان کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے اس قسم کی کئی نظمیں اور کہیں جو کسی نہ کسی کی گزارش یا فرمائش پر معرض تخلیق میں آئیں۔ ان کا یہ مزاج عجیب و غریب اور حیرت انگیز تھا کہ وہ اپنی تحریر یا تخلیقات خود کسی رسالے یا میگزین میں اشاعت کے لیے نہیں بھیجتے تھے۔ ان کے کئی افسانے میں نے ’گلبن‘ اور’نیا دور‘ وغیرہ کو بھیجے۔ نیا دور میں جو افسانہ شائع ہوا اور ان کے افسانوی مجموعہ ’پھول اور خوشبو‘ میں شامل ہے، میری ہی تحریک پر مظفر پور کے سفر کے دوران لکھا گیا۔ میں نے ان سے ایک بڑے ناقد کے سلسلے میں تاثراتی نظم لکھوائی جو ’انشا‘ میں شائع ہوئی۔ میں نے فراق کے سلسلے میں مضامین کا مجموعہ ’فراق اور غزل کا اسلوب‘ شائع کیا تو ’بھینی بھینی مہک‘ کے باب’تاثریت‘ میں شریک نظم’وحید العصر: جناب رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری‘ اپنی مرتبہ اس کتاب میں شامل کرلی۔ اس کتاب کے ساتھ فراق ہی سے متعلق ایک دوسری کتاب کا مسودہ کتابت کے مرحلے میں تھا تو فون کے ذریعے فراق سے متعلق ایک نظم کی گزارش کی اور انھوں نے بلاتاخیر نظم ارسال کردی۔ اس کتاب کا عنوان ’فراق ما سوائے غزل‘ ہے اور ابھی یہ شائع نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال وحید العصر: فراق سے متعلق مطبوعہ نظم کا پہلا بند ملاحظہ ہو  
پرواز یوں جلو میں لیے رنگ و بو گئی
فطرت بہار بن کے برائے نمو گئی
لو ح و قلم کو تھام لیا، دست فکر نے
ذات فراق اوج سعادت کو چھو گئی
یہ وضاحت یہاں غیر ضروری نہ ہوگی کہ ظفر عدیم نے فراق کی شاعری بالخصوص غزل کے حوالے سے تاثراتی مضامین بھی لکھے۔ یہ مضامین بھی فرمائشی تھے۔ فراق کا انتقال1982میں فروری کے مہینے میں ہوا۔ میں ’انعکاس‘ نکال رہا تھا۔ میں نے فراق نمبر کا اعلان کیا تو ظفر عدیم سے مضامین کی گزارش کی اور انھوں نے مضامین لکھے۔ ان کا خیال تھا کہ فراق کی اکثر و بیشتر راتیں بے خوابی میں گزریں اور اکثر و بیشتر غزلیں ایسی ہی بے خواب راتوں میں تخلیق پذیر ہوئیں۔ متذکرہ نظم کے دوسرے بند میں ایسے ہی تاثرات کااظہار نظر آتا ہے 
تخلیق لے کے ہاتھ میں قندیل آتی تھی
پہلے پہر، تجلیٔ  تخئیل آتی تھی
ہوتا تھا پھر فراق پہ اسرار کا نزول
جیسے فلک سے آیت ترتیل آتی تھی
اس نظم کا چوتھا بند بھی اسی خیال سے مربوط ہے 
پیراہن نفس میں عروس سخن ملی
شبنم کی چاندنی سے غزل کی کرن ملی
جب پَو پھٹی، تو نجم سحر بول اٹھا فراق
کس شان سے پیمبریِ فکر و فن ملی
ایک نظم کا آخری بند دعائیہ ہے اور اختتام اس کا اس شعر پر ہوا ہے 
جب تک اردو ہے جہاں تاب، ادب میں آزاد
تیرا رتبہ، تری عظمت، ترا اعزاز رہے
 غریب الوطن : جناب شین مظفر پوری۔ مسدس کے فارم میں پانچ بند پر مشتمل ہے۔ شین مظفر پوری نے مدرسہ عالیہ، کلکتہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ آگے کی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ پھر وہیں صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ افسانہ نگاری بھی اسی دوران شروع ہوئی اور تھوڑے ہی عرصے میں انھوں نے شہرت و مقبولیت حاصل کرلی۔ ماہنامہ آرٹسٹ کے مدیر نے آرٹسٹ کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی تو تقسیم کے سانحے سے پہلے دہلی کا سفرکیا اور اس سانحہ کے رونما ہونے کے ساتھ سیل بلا خیز میں بہتے ہوئے لاہور پھر کراچی چلے گئے۔ یہ سفر اتفاقی اور حادثاتی تھا۔ جب وطن واپس ہوئے تو ’سنگم‘ روزانہ پھر ماہنامہ ’صنم‘ اور اخیر میں اردو اکادمی، بہار کے ماہنامہ ’زبان و ادب ‘کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہاں سے سبکدوشی کے بعد اپنے گاؤں باتھ اصلی، سیتا مڑھی، مظفر پور میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور وہیں آخری سانس لی۔ ان کی زندگی جد و جہد اور عسرت میں گزری۔ ظفر عدیم نے اس نظم میں ان کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ سمیٹ لیا ہے۔ پہلا بند ملاحظہ ہو 
نشاں، نقوشِ گزر گاہ چھوڑ آیا تھا
غبار و گرد سر راہ چھوڑ آیا تھا
فضا میں اپنی تڑپ، آہ چھوڑ آیا تھا
شکستہ شمس تھکا ماہ چھوڑ آیا تھا
ضرورتوں کا سمندر عبور کر کے چلا
دیار غیر کو بھی کوہ طور کر کے چلا
شین مظفر پوری نے زندگی کا دو تہائی سے زیادہ عرصہ اپنے دیار مظفر پور سے دور غریب الوطنی میں گزارا۔ دیار غیر سے مراد دلی ہے، جہاں وہ ماہنامہ آرٹسٹ کے مالک کے بلاوے پر گئے تھے اور کچھ ہی مہینے بعد آفت ناگہانی میں پھنسے۔ اپنی سرگزشت’ ’رقص بسمل“ میں شین مظفر پوری نے زندگی کی محرومیوں، مایوسیوں اور کرب و اضطراب پر نہایت ہی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ ہمیشہ مسائل و مصائب سے دوچار رہے۔ اسی معنوی تناظر میں یہ بند ملاحظہ ہو
صعوبتوں میں بھی تخلیق کر گیا کیا کیا
خیال و خواب کے دامن میں بھر گیا کیا کیا
حیات و ذات کے سر سے گزر گیا کیا کیا
 اس ایک شخص کے مرنے سے مر گیا کیا کیا
زباں کا طنز بیاں کا گداز دفن ہوا
ادب کا سوز، زمانے کا ساز دفن ہوا
ایک نظم’اردو اداس ہے‘ جناب اغفار احمد ناز انصاری کی یاد میں تخلیق ہوئی۔ بقول ظفر انور:
”1992میں دہلی کے عظیم صحافی جناب ناز انصاری صاحب کا انتقال حج کے دوران عرفات کے میدان میں ہوگیا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی ان کے انتقال کے بعد میں نے ناز صاحب کی حیات و خدمات پر ایک مجلّہ شائع کرنے کا ارادہ کیا اور ظفر عدیم صاحب سے گزارش کی کہ آپ ایک منظوم خراج عقیدت تحریر فرمادیں تاکہ میں اسے مجلّے میں شائع کردوں۔ میری درخواست انھوں نے قبول فرمائی اور ایک شاہکار منظوم خراج عقیدت لکھ کر میرے حوالے کردیا۔
 اس بیان سے مترشح ہے کہ یہ نظم پچیس سال پہلے لکھی گئی۔ یہ نظم بھی مسدس کے فارم میں چار بند پر مشتمل ہے۔ پہلا بند اس طرح ہے 
وہ اک وجود جو کہ ذہانت کی حد پہ تھا
جس کا لطیف ذوق زمانے کی زد پہ تھا
ایسا جنوں کہ دبدبہ اہل خرد پہ تھا
جو فن کے اوجِ فکر کے طولِ بلد پہ تھا
اس کی لحد کا آج پتہ پوچھتے ہیں لوگ
اک دوسرے سے حرفِ دعا پوچھتے ہیں لوگ
آخری بند میں جناب ناز انصاری کے معیار صحافت و ادب کو نشان زد کرنے کی کوشش تحسین طلب معلوم ہوتی ہے 
وہ ایک شخص جو کہ صحافت کا نور تھا
نازِ ادب تھا بزمِ ادب کا غرور تھا
جس کی زباں میں کیف، قلم میں سرور تھا
قدرت تھی پیشکش پہ بیاں پر عبور تھا
لہجے کا گوشہ نطق کا پہلو اداس ہے
اک شخص کے نہ ہونے سے اردو اداس ہے
 ظفر عدیم نے مجذوب صفت شاعر، جناب محمد الیاس نجم مظفر پوری سے متعلق نظم میں جذب و کیف کی ایک الگ دنیا ہی بسا دی ہے۔ شروع کے تین بند فلسفہ اخلاق کے تناظر میں عمومی تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں بعد کے چار بند میں جناب نجم کی شخصیت اور فن پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ سوز و گداز اور مترنم آواز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے:
نجم شاعر تھا بدلتے ہوئے موسم کی طرح
فکر کی دھوپ بھی تھا، فن کی ہری دوب بھی تھا
یوں بظاہر کوئی فنکار سا لگتا تھا مگر
وہ مدبر بھی تھا، مجنوں بھی تھا، مجذوب بھی تھا
                               
پردۂ سوز میں آواز کے پیکر کا جمال
کرب انفاس کے تاروں میں سموئے جیسے
خنک احساس میں ڈوبا ہوا لہجے کا سکوت
چاندنی اوس بھری شاخوں پہ سوئے جیسے
نجم اک عہد سفر بھی تھا، سفر نامہ بھی
سنگِ میل اور کبھی قندیل نظر آتا تھا
اس میں سمٹی تھی زمانے کے ادب کی تاریخ
وہ سمندر تھا، مگر جھیل نظر آتاتھا
                               
نجم کے فن میں ہے گزرے ہوئے کل کی خوشبو
نجم کی فکر نئے دورکی ضَو پاشی ہے
شعر میںٹانک دیے نجم سحر، لیلی ٔ  شب
شاعری ہے کہ خیالات کی عکاسی ہے
اس نظم کے آخری بند میں رسم زمانہ پر متاسفانہ تاثرات کا اظہار ہے کہ بھولی بسری ہوئی تربت کا خیال آتا ہے تو یادوں کے چراغ جلا لیے جاتے ہیں۔ زندگی میں خراجِ تحسین پیش نہیں کرتے۔ عقیدت کا خیال مرنے کے بعد آتا ہے۔
الیاس نجم مظفر پوری خوش قسمت تھے کہ ظفر عدیم نے ان پر ایسی شاہکار نظم قلمبند کر کے انھیں اردو ادب میں حیاتِ جاودانی عطا کردی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نجم کا ذوق نہایت ہی بالیدہ تھا اور آواز یعنی ترنم بھی ایسا تھا کہ مشاعرے کی محفل پر چھا جاتے تھے۔ لیکن ان کا مجموعہ کلام ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکا اور نہ مستقبل میں آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ وہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے شاعر بھی نہیں تھے۔ البتہ بعض تذکروں میں اکّا دُکّا کلام ملتے ہیں۔ بہر حال ظفر عدیم نے اپنے طور پر حق رفاقت ادا کردیا ہے۔
ظفر عدیم کی نثری تحریر ہو یا شعری تصنیف، اگر باذوق قاری کے ہاتھ لگ گئی تو وہ اس کے طلسم یا سحر سے فوراً آزاد ہونے میں ناکام رہے گا۔ ان کی ہر تحریر دامن کش دل و نگاہ ہوتی ہے۔ زبان کا اسلوب اور بےان کا پیراہن اس قدر کشش انگیز اور تاثر خیز ہوتا ہے کہ قاری اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہوکر کسی اور ہی دنیا میں سانس لینے لگتا ہے۔ ظفر عدیم نے یہ مہارت مطالعے اور مشق سے حاصل کی تھی۔ ادب و شعر کے میدان میں ان کا کوئی استاد نہ تھا۔ وہ سائنس کے طالب علم رہے تھے۔ تعلیم ادھوری رہی یا پوری ہوئی تو وہ دوا کی ایک کمپنی ’اپکا‘ (IPCA) سے بطورMedical Representative وابستہ ہوگئے۔ کئی برسوں تک یہی مشغلہ رہا۔ اردو اور ہندی کے علاوہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ فرّاٹے دارا نگریزی بولتے تھے اور شروع میں انھوں نے انگریزی اخباروں کے لیے کچھ مضامین بھی لکھے تھے۔ ماہنامہ’انجو‘ کی چیف ایڈیٹری(1997) سے ظفر عدیم نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ (1978) میں فلم نگری بمبئی کے کئی پھیرے لگائے۔1978سے 1979 تک، تقریباً ایک سال پروفیسر سید احمد، مکماسٹر یونیورسٹی، کنیڈا کے ایک علمی پروجکٹ’لغات ابجد شماری‘ پر خصوصی مساعد کی حیثیت سے کام کیا۔ اظہار تشکر میں سید احمد صاحب نے ظفر عدیم کی زود فہمی اور سرعت رفتار کی تعریف کی ہے۔ ظفر عدیم حد درجہ زود گو اور زود نویس تھے۔ انھوں نے 1980 میں جب ’ روبی‘ کی ملازمت اختیار کی تو ان کے کام کو دیکھتے ہوئے مدیر گرامی رحمن نیر نے کئی پرانے اور بڑے عملہ کی چھٹی کردی تھی۔
ظفر عدیم نہایت ہی خوبرو، خوش وضع، خوش خلق و اخلاق اور ملنسار قسم کے انسان تھے۔ اجنبیوں سے بھی اس انداز میں ملتے جلتے جیسے ان سے دیرینہ شناسائی ہو، دوستوں کی تو خیر بات ہی الگ تھی۔ میں دلی جاتا تو ان کے مکان کے قریب ہی ایک عزیز کے گھر قیام کرتا اور مغرب کے بعد ان کے درِ دولت پر حاضر ہوتا۔ کبھی کبھار بسمل عارفی بھی آجاتے۔ محفل یاران طریقت جم جاتی، علمی ادبی گفتگو میں وقت کے بھاگنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ اکثر گیارہ بج جاتے۔ وہ ویسے بھی دیر رات گئے بستر پر جاتے تھے۔ پہلے باضابطہ ملازمت’تیج‘ میں ہوئی تھی بعد میں’قومی آواز‘ میں بھی سب ایڈیٹر کی مستقل ملازمت سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران بھی دوسرے اخبارات و رسائل سے وابستگی رہی۔ قومی آواز بند ہوگیا تو رضا کارانہ طور پر سبکدوشی ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کی مصروفیات حسبِ معمول رہیں۔ پھر بھی انھوں نے اپنے پرائے کو کبھی ٹالا نہیں۔ میں نے ”فراق ما سوائے غزل“ کے لیے فون کے ذریعہ ہی ان سے درخواست کی اور انھوں نے نظم بھیج دی۔ ابھی تک یہ کتاب شائع نہیں ہوسکی ہے۔ اس لیے ان کی یہ نظم بھی غیر مطبوعہ رہ گئی۔ میں اسے مکمل صورت میں پیش کررہا ہوں تاکہ پکی سیاہی میں محفوظ ہو جائے۔ظفر عدیم نے اس نظم کے ایک مصرع کو ہی اس کا عنوان بنایا ہے۔ ” تم نے فراق معجزۂ حسن کیا کیا“۔ یہ نظم چھ مصرعوں کے پانچ بند پر مشتمل ہے۔ چھ مصرعی بند کو عموماً مسدس کہاجاتا ہے لیکن یہ بند مسدس کی روایتی ہیئت میں نہیں ہے۔ تکنیک کے لحاظ سے بھی یہ نظم ظفر عدیم کی دوسری نظموں سے مختلف ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تکرار سے بچنے کی شعوری کوشش بھی کرتے تھے۔ پوری نظم ملاحظہ ہو  
تم نے فراق آئینۂ حسن کیا کیا
عکسِ شبیہ عشق پھر افزوں ہوا نہیں
فرقت کا رنگ شام سے شب گوں ہوا نہیں
دردِ چراغ نالہَ مجنوں ہوا نہیں
دل آشنائے ذائقہ خوں ہوا نہیں
تم نے فراق آئینۂ حسن کیا کیا
——
تم نے فراق پیرہن حسن کیا کیا
جسم قبائے نکہتِ ناز اب کہاں سے لاؤں
وہ شعلہ زےرِ پردۂ ساز اب کہاں سے لاؤں
خطِّ ّ شکن، بہ شوقِ نیاز اب کہاں سے لاؤں
تا صبح کیف ہجر دراز اب کہاں سے لاؤں
——
تم نے فراق نیشتر حسن کیا کیا
سوزِ جراحتِ دل بے تاب چاہیے
بہر نشاط دیدئہ بے خواب چاہیے
ربط سکوں بہ حلقۂ گرداب چاہیے
نجم سحر بھی چشمۂ  خوناب چاہیے
تم نے فراق نیشتر حسن کیا کیا
——
تم نے فراق معجزئہ حسن کیا کیا
افسونِ جلوئہ مہ و انجم نہیں رہا
قطرہ بقدر دُردِ تہ خم نہیں رہا
پہلی سی وہ طلب وہ تقدم نہیں رہا
اظہارِ عشق رو بہ تکلّم نہیں رہا
تم نے فراق معجزئہ حسن کیا کیا
——
تم نے فراق دل زدئہ حسن کیا کیا
وہ داغ ہائے عشق تہ آب ہے کہیں
تقدیس جائے عشق تہ آب ہے کہیں
خاکِ شفائے عشق تہ آب ہے کہیں
رازِ بقائے عشق تہِ آب ہے کہیں
تم نے فراق دل زدئہ حسن کیا کیا؟
مجھے یاد آتا ہے کہ وفات سے دو تین سال قبل ظفر عدیم نے ادب کی کسی بڑی زندہ شخصیت پر اس قسم کی ایک نظم کسی دوست کی فرمائش یا گزارش پر کہی تھی، وہ نظم ماہنامہ’انشا‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اور میری نظر سے بھی گزری تھی۔ہوسکتا ہے کہ ایسی نظمیں اور بھی کہی ہوں گی جو آئندہ کبھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

Dr. Manzar Aijaz
Prof. & Head, P.G. Dept of Urdu
A.N. College
Patna - 800013 (Bihar)
Mob.: 9431840245



 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2019

قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں