19/12/19

ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب کا کردار مضمون نگار: ابو بکر عباد




ملک کی تعمیر و ترقی میں 
اردو زبان و ادب کا کردار


 ابو بکر عباد

یقین کیجیے کہ دنیا کے تمام ملکوں کی تعمیر وترقی،وہاں کی تہذیب و ثقافت کی ثروت مندی اور بنیادی انسانی اوصاف کی تشکیل میں زبان وادب نے اولین، اہم اور مثبت کردار ادا کیے ہیں۔زبان وادب کی اہمیت،ان کا وقار اور ان کی سحر انگیزی انسان کے ابتدائی عہد میں بھی تسلیم شدہ تھی اور آج سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کے زمانے میں بھی مسلم ہے۔ عرب اپنی پاورفل زبان اور معیاری شعروادب کی بنا پر ہی غیر عربی کو عجمی کہتے تھے، اورقرآن کی فصاحت و بلاغت سے متاثر ہوکر اسے شاعری اورصاحب قرآن کو ساحر پکارتے تھے۔ نشان خاطر رہے کہ سائنس وٹکنا لوجی بنی نوع انسان کو جسمانی آسائش فراہم کرتی ہے جس کادوسرا پہلوبہر طور مضرت رساں ہوتا ہے۔جبکہ زبان و ادب روحانی بالیدگی فراہم کرتے ہیں، اخلاقی ترفع عطاکرتے ہیں،جذبات واحساسات کی تنزیہ و تنقیح کرتے ہیں۔
زبان کا کام ایک طرف ابلاغ و اظہار ہے تو دوسری جانب یہ شعر وادب کاوسیلہ یا میڈیم بھی ہے، جو شعر و ادب میں ڈھلنے کے بعد ذات اور انفراد کی حد سے آگے نکل کر اشخاص بلکہ کائنات کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔جس ملک اور قوم کی زبان جتنی زیادہ ثروت مند ہوگی اس کاادب اتنا ہی بلند معیار اور ملک وقوم کی تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی تعمیر وترقی میں سود مند ہوگا۔ (یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی زبان کو پرقوت اور ثروت مند شعر وادب ہی بناتے ہیں)زبان وادب ایک طرف عوام الناس کے لیے محبت و اخلاص اور امن و یکجہتی کی خدمات انجام دیتے ہیں تو دوسری جانب زبان و ادب کو قدیم زمانے سے ظالم و غاصب اقتدار کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کا بھی رواج رہا ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ جنگی اسلحوں کے ذریعے ملک وقوم کو وقتی طورپر غلام بنایا جاسکتا ہے،لیکن زبان وادب سے ذہن و دل کو جیتا جاسکتا ہے،بغاوت کے شعلے بھڑکائے جاسکتے ہیں، بڑے سے بڑا انقلاب بپا کیا جاسکتا ہے،ملک و قوم کو فتح کیا جاسکتا ہے اور کھوئے ہوئے ملک کو واپس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کی دومثالیں ’مقدمہئ شعروشاعری‘ میں مولانا الطاف حسین حالی نے بیان کی ہیں۔ایک یہ کہ: ’ایتھنز‘ سے جنگ لڑ کر’مگارا‘والوں نے جزیرہئ سیلمس کو جیت لیا تھا۔ ایتھنز والوں نے اپنے ہارے ہوئے جزیرے کو واپس حاصل کرنے کے لیے مگارا سے متعدد جنگیں لڑیں لیکن ہر بار انھیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔اور بالآخر ایتھنز والوں نے تمام تر حوصلہ کھونے کے بعد طے کیا کہ اس ذلت آمیز شکست والی جنگ کا ذکر کرنے یاپھر سے جنگ پر ابھارنے والے شخص کو قتل کردیا جائے گا۔لیکن وہاں کے شاعر سولن کو ملک کی یہ شکست آمیز ذلت قبول نہ تھی۔ وہ جزیرہئ سیلمس کو کھونے کے بعد عرصے تک پاگلوں کا بھیس بنا کر گھومتااور لوگوں کو غیرت دلانے اور ان میں نیاجوش و ولولہ پیدا کرنے والے اشعار سناتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایتھنز والوں نے نئے جوش و ولولے کے ساتھ ایک بار پھر جنگ کی تیاری کی اور اپنا ہارا ہوا جزیرہ سیلمس واپس جیت لیا۔ دوسری مثال انھوں نے بائرن کی مشہور نظم ’چائلڈ ہیرالڈپلگرمیج‘ کی دی ہے جس کے ایک حصے میں شاعر نے فرانس،انگلستان اور روس کو غیرت دلائی ہے کہ ان ملکوں نے یونان کے علم وحکمت سے اتنا فائدہ اٹھا یالیکن آج جب کہ یونان کوترکوں نے غلام بنارکھا ہے یہ ممالک یونان کی آزادی کے لیے کچھ نہیں کرتے،ساتھ ہی یونانیوں کو بھی غیرت دلائی گئی ہے کہ دوسروں کے سہاروں پر امید رکھنے کے بجائے اپنے دست وبازو پربھروسہ کرکے ترکوں سے آزادی کی جدوجہد کریں۔  1812 میں اس نظم کے شائع ہوتے ہی پورے یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی۔یوروپ والوں نے اس نظم کو  حرزِجاں بنایا اور بالآخر 1827 میں فرانس، انگلستان، آسٹریا،اٹلی اور روس کی متحدہ فوج نے ترکی سے یونان کو آزاد کرالیا۔ اسی طرح ساؤتھ افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فاموں کو جس طور گوروں نے غلام بنایااور انھیں غیر انسانی سطح پر جینے کے لیے مجبور کر رکھا تھایہ دنیائے انسایت کی المناک تاریخ ہے۔ یقین کیجیے کہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو منور کرنے اور سیاہ فاموں کو انسانی سطح پرلانے والے بغاوت وانقلاب میں شعروادب کا زبردست کردار ہے، جسے ادبی تاریخ میں بلیک لٹریچر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امریکن فکشن نگار ہارپر لی (Harper Lee) کے دو ناول:To kill a mocking birdاور Go set a watch manاس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
تاریخی ثبوت کی بنا پریہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اردو زبان وادب ملک کی تعمیروترقی میں دنیا کے کسی بھی ملک کی زبان،وہاں کی صحافت اوروہاں کے شعر وادب سے کسی بھی طور کم نہیں،بلکہ ان سے چند قدم آگے ہی ہے۔ اردو زبان وادب نے جدوجہد آزادی، انسدادِفسادات، انسانیت کی بقا، علم و حکمت کی اشاعت،سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور ملک کی تعمیر وترقی میں مذکورہ مثالوں سے کہیں زیادہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ذرا لمحے بھر کو یاد کیجیے سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ ایشیاٹک سوسائٹی، حیدرآباد کا’دارالترجمہ‘ اور دلی کالج کے ورناکلر سوسائٹی کو جہاں کے سائنسی، تاریخی،زراعتی، معدنیاتی،صنعتی،طبی، اور دوسرے متعددجدید علوم وفنون کی کتابوں کے اردو ترجموں کو؛جن سے حاصل شدہ نتائج پر نئے ہندوستان کی تعمیر وترقی کی پُرشکوہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اردو ترجموں نے ہمارے ملک کو میڈیکل سائنس، اگریکلچر، زراعت، عمارت سازی، معاشی نظام، سیاسی سوجھ بوجھ اور گھریلو صنعت وحرفت میں خود کفیل ہونے کے راستوں کو پایاب، آسان اور جلد حصول بنایا۔ دنیا کی تاریخی اور تہذیبی کتابوں کے اردو ترجموں نے ملک کی عوام کو مہذب و متمدن بنانے میں اہم کردار نبھایا اور جدیدعلوم وفنون کے حصول کی طرف راغب کیا۔ گیتا، رامائن، مہابھارت، بائبل، گروگرنتھ صاحب، اور بدھ صحیفے ’دھمپد‘ کے علمی اور ادبی اردو ترجموں کو بھی ذہن میں رکھیے کہ ان ترجموں نے مختلف النوع مذہبوں، فرقوں اور قبیلوں والے وطن عزیز کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ کسی بھی مذہب کے راستے کو آپ اختیار کریں ، منزل سب کی ایک ہے، تعلیم سب کی مساوی ہے۔سچائی، ایمانداری، انصاف، برابری،  دلداری اور فلاح انسانیت۔ اردو کے ان منثور اور منظوم ترجموں نے یہ ثابت کیا اور عوام کو یقین دلایا کہ تمام مذاہب اور فرقوں کے پیروکاروں کی مثال ان اینٹوں کی مانند ہے جو ملک وقوم کی عظیم الشان عمارت کو نہ صرف حسن ومضبوطی اور وقار عطا کرتی ہیں بلکہ اسے قائم ودائم بھی رکھتی ہیں۔
ملک کے پہلے اردو شاعر حضرت امیر خسرو نے وطن عزیزکو نہ صرف ایک نئی زبان میں صوفیانہ شاعری، پہیلیاں اورکہہ مکرنیاں دیں بلکہ ہندوستانی موسیقی کو اپنی ایجاد کردہ متعدد راگ راگنیوں سے سجایا، اسے مالا مال کیا۔ دنیا کے چار مشہور ومقبول ڈشوں (کھانوں)میں ایک ’مغلیہ ڈش‘ ہے جو خالص اردو تہذیب کی دین ہے۔ ہندوستان میں چار طرح کے طریقہئ علاج رائج چلے آرہے ہیں۔ ایک آیورویدک، دوسرا یونانی،تیسرا ہومیوپیتھک اور چوتھا ایلو پیتھک۔ سو یقین کیجیے کہ ہندوستان میں یونانی طریقہئ علاج کو رائج کرنے اور فروغ دینے میں اردوزبان کاناقابل فراموش حصہ ہے۔اس کی بیشتر کتابیں اردو میں ہیں،نسخے اردو میں لکھے جاتے ہیں،اس کی زیادہ تر اصطلاحیں اردو کی ہیں اور دواؤں کے نام بھی۔
ہندوستان کے نوابین اور شاعر بادشاہوں نے صرف اردو شاعری کو تشبیہ واستعارات اورتلمیحات کے زیوروں سے آراستہ نہیں کیا، بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بے بہا اضافے کیے،تہذیب و ثقافت کو ثروت مند بنایا، اصول حکمرانی وضع کیے اور تعمیرات اور باغات سے ملک کو دلہن کی مانند سجایا،سنوارا۔ شاہ آفتاب عالم ثانی کی داستان ’قصہ مہر افروز ودلبر‘ محض ایک داستان نہیں، آداب شاہی اور اصول حکمرانی کی کتاب بھی ہے۔ ہمارے سامنے واجد علی شاہ کی تصویر ایک عیاش نواب کی صورت پیش کی گئی، جب کہ اس نے اردو شاعری، ڈرامہ نگاری اور اداکاری کو ایک نئی سمت دی جس نے بعد میں تھیٹر اور سنیما کے لیے زمین ہموار کی۔جسے آگے چل کر اردو شاعر اور ڈرامہ نگار آغاحشر کاشمیری نے تھیٹر کی صنعت کے بطور ترقی دی اور ہندوستان کے شیکسپیئر کہلائے۔ واجد علی شاہ ایک بہترین منتظم بھی تھے جنھوں نے متعدد انتظامی اصلاحات کیں اور پہلی بار فوج کی ڈرل کی بنیاد رکھی۔اسی طرح  دکن کے بادشاہ اور اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں غالباً سب سے پہلے ملک کی محبت اوریہاں کی تہذیب و ثقافت کو بیان کیا، تشبیہ واستعارے کے لیے دیسی الفاظ کا استعال کیا۔عوام کے لیے ہسپتال، درسگاہیں اور خوبصورت عمارتیں بنوائیں، نہریں کھدوائیں،باغات لگوائے۔ اردو کے ایک اور شاعر علی عادل شاہ نے کئی راگ راگنیاں ایجاد کیں، راگوں کی دھن کو بنیاد بنا کر شاعری لکھی جو طریقہ اب فلمی گانے لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ علی عادل شاہ نے راگ، راگنیوں سے متعلق اردو میں کتاب  ’نورس‘ بھی تحریر کی جو موسیقی کے فن پر بڑی ہی اہم اور انوکھی کتاب ہے۔بہادر شاہ ظفر اردو کے آخری شاعر بادشاہ تھے۔ انھوں نے بے کسی اور ضعیف العمری کے باوجودانگریزوں کے خلاف مشترکہ عسکریت پسند ہندوستانی رہنماؤں کو ایک پلیٹ پرفارم پر جمع کیا اور 1857 کی جنگ آزادی کی قیادت سنبھالی۔
1857کی جنگ آزادی کے ہندوستانیوں کے تیار کیے ہوئے غالباً تمام تر دستاویزات یا تواردو میں ہیں یا پھر فارسی میں۔ 1857سے لے کر 1947تک وطن عزیز کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے میں مذہبی، سیاسی اور عسکری تنظیموں اور ان کے جانباز مجاہدین کی جدوجہد اور ان کی عظمتوں سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے، لیکن تسلیم کیجیے کہ ان کے ذہنوں میں وطن عزیز کی عظمت ووقار کی بحالی کے دیے اور دلوں میں آزادی کے چراغ روشن کرنے میں اردو زبان، اردو شاعری،اردو صحافت، آزادی وطن سے متعلق اردو کے مذہبی لٹریچراور اردو شعر وادب نے غلام قوم کے جسم وجاں کی سوکھتی رگوں میں تازہ خون دوڑانے کا کام اور دلوں میں وطن کو آزاد کرانے کاشعلہ بھڑکایا۔اردو زبان میں انگریزوں کے خلاف پوسٹر شائع کیے گئے، فتوے جاری گئے گئے،اخبارات نکالے گئے اورشعروادب کے ذریعے دشمنوں کے خلاف ملک واسیوں کے دلوں میں جذبۂ جہاد اور آزادی کی دیوانگی پیداکرنے کا کام کیا گیا۔اردو زبان وادب نے یونانی شاعر سولن اور انگریزی شاعر بائرن کی نظموں او’ربلیک لٹریچر‘ سے کہیں زیادہ زود اثر، پُرقوت اور جوشیلے طریقے سے انگریزوں کے خلاف  ہندوستانیوں کی ذہن سازی کی،انھیں منظم کیا،اور ان کے دلوں میں وطن عزیز کی آزادی کے حصول کے لیے تن،من، دھن کی بازی لگا دینے کا ولولہ بخشا۔
تسلیم کیجیے کہ دارالعلوم دیوبندجس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ملک کی آزادی اور مجاہدین آزادی کی تیاری کا مشن تھااسے اردو زبان کے معلمین و مصنّفین نے قائم کیا۔یہیں سے انگریزوں کے خلاف ریشمی رومال کی تحریک چلی اور جمعیۃ العلماء ہندجیسی تنظیم عمل میں آئی جو آج تک ملک وقوم کی خدمت میں مصروف ہے۔
دلی کالج کے استاذ ماسٹر پیارے لال کے محب وطن اور علی گڑھ سے سرسید احمد خاں کے جاری کردہ رسالے ’تہذیب الاخلاق‘ اور’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘کو بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے کہ ان رسائل نے نئے تعلیمی، سیاسی، ادبی اورسائنسی خیالات کو عام کیے اور سماجی، معاشی اور معاشرتی اصلاح اور علوم کو فروغ دے کر ایک نئے ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں بنیادی کردار اداکیے۔
ہمارے عہد میں عورتوں کی تعلیم، تانیثیت اور نسائی ادب پر اونچے سروں میں گفتگو کرنے اور پہلا مضمون اور پہلی کتاب لکھنے کادعوی کرنے یاانھیں مغرب کی دین سمجھنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ جب دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص  ہندوستانی سماج میں عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا،انھیں حصول تعلیم بلکہ حروف شناسی تک سے دور رکھا جاتا تھااس زمانے میں اردو ادیب اور اردو زبان وادب نے ہی عورتوں کی تعلیم کے لیے تحریک چلائی،ان کے پڑھنے کے لیے سازگار حالات اور اسباب وجواز فراہم کیے۔ان میں تین نام بے حد اہم ہیں۔ایک دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ مولوی ممتاز علی،دوسرا دلی کالج کے پڑھے ہوئے مولوی نذیر احمداور تیسرا مولانا الطاف حسین حالی۔ مولوی نذیر احمدمغرب اور مغربی تعلیم سے بھی متاثر تھے، جب کہ مولوی ممتاز علی مغرب سے بے پرواخالص مشرقی اور مذہبی انسان تھے۔ مولوی ممتاز علی نے ہندوستان میں عورتوں کے لیے پہلی بار اردو زبان میں ’تہذیب نسواں‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا،جس میں عورتوں کی تعلیم کی وکالت ہوتی،عورتوں کو تعلیمی حقوق سے آگاہ کیا جاتا تھااور انھیں لکھنے پڑھنے کی طرف رغبت دلائی جاتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رسالے کی ایڈیٹر خاتون تھیں اور مضمون نگار بھی غالباً تمام یا بیشترعورتیں ہی ہوتی تھیں۔ حقوق نسواں نام سے انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس میں عورتوں کے حقوق کو مردوں کے حقوق کے برابر ثابت کیا گیا ہے۔
مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے مشن چلایا، رسالے نکالے تومولوی نذیر احمدنے پہلی بار لڑکیوں کے لیے’مراۃ العروس‘ کے عنوان سے اردو کا پہلاباضابطہ ناول لکھا،ان کی تعلیم وتربیت کے لیے فکشن تحریر کیا۔ عورتوں کے حقوق کی بازیافت، ان کی سماجی اہمیت و وقار،ان کی تعلیم وتربیت اوران کی خود مختاری کے حوالے سے ہندستان کے اولین ترقی پسندوں میں سے ایک بے حد اہم نام خواجہ الطاف حسین حالی کاہے۔یہ اپنے وقت کے عظیم اردو شاعر، ادیب اور مصلح ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے نہ صرف عورتوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کی بحالی کی وکالت کی بلکہ’چپ کی داد‘اور ’بیوہ کی فریاد‘لکھ کر بیوہ عورتوں کی دوسری شادی اور ان کے جنسی حقوق کی طرف بھی سماج کے ذہن کو متوجہ کیا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پہلا اسکول بھی اردو فکشن نگار رشید جہاں کے والد شیخ عبداللہ نے کھولاتھاجو خود علی گڑھ میں رچنے بسنے والی اردوتہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک سے عشق،ملک کے تیج تیوہاروں اور یہاں کے مختلف پیشوں سے محبت، آپسی یگانگت و شفقت،اتحاد واتفاق، میل جول اور بھائی چارے کے فروغ کی جیسی مثال اردو زبان،اردو شاعروں اور اردو شاعری نے قائم کی ایسی مثالیں دنیا کی کم زبانوں میں ملیں گی۔اس حوالے سے نظیر اکبر آبادی، علامہ اقبال اور پنڈت برج نرائن چکبست کو روشنی کے مینار کہنا چاہیے۔
اردو زبان وادب کی پہلی باضابطہ اور منظم تحریک ’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘ اپنے منشور میں شعروادب میں عوامی مسائل داخل کرنے،ان کے لیے لکھنے، ملک اور معاشرے سے تمام طرح کے کرپشن، نابرابری،توہم پرستی اورظلم و زیادتی کو ختم کرنے کے علاوہ اس کاایک اہم اور بنیادی مقصد وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا بھی تھا۔ملک میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی ادبی تحریک تھی جس میں جنگ آزادی کو زبان وادب کا لازمی حصہ بنایا گیا اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس تحریک نے اپنا کام بخوبی ادابھی کیا۔
ہندوستانی سنیما کو بے حد بڑی اور منفعت بخش انڈسٹری بنانے کا کردار اگر کسی نے ادا کیا ہے تو وہ ہے اردو زبان وادب۔اردو زبان وادب نے فلم انڈسٹری کو صرف مالی منفعت اور روزگار فراہم کرنے کا ہی ادارہ نہیں بنایا بلکہ پیغام رسانی، مثبت سوچ کے فروغ،قانون کی بالادستی کے قیام،مشترکہ تہذیب وثقافت کے استحکام اور ملک وقوم کو ہر اعتبار سے تعمیر وترقی کی طرف گامزن کرنے کا ایک ایسا وسیلہ بنا دیا جس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ کے۔آصف،کمال امروہوی،مشیر ریاض، مظفر علی، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، محمد رفیع، مجروح سلطان پوری، اور ساحر سے لے کر سلیم خان اور جاوید اختر تک نے فلم انڈسٹری کو ترقی کے جس بام عروج تک پہنچایا ہے اسے فلمی دنیا کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔فلمی نغمے، محفلوں میں گائی جانے والی غزلیں اور مشاعروں نے موسیقی اور شاعری کے حوالے سے ہندوستان کی عالمی شہرت میں خاطر خواہ اضافہ کیاہے۔اسی طرح اردو زبان و ادب نے ٹی۔وی سیریلز کو ایک نئی فکر اوربلند مقام عطا کیا ہے اور عوام میں مقبو ل بیانا۔ اس تعلق سے رامانند ساگر اور راہی معصوم رضا سے لے کرعلی سردار جعفری اور زماں حبیب تک کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
یہ بھی تسلیم کیجیے کہ اردو زبان وادب نے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ،نشست وبرخاست کے آداب اورگفتگو کا سلیقہ بھی سکھایاہے۔
کچھ معصوم دوست یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔بعض معصوم دوست اسے پاکستان کی زبان مانتے ہیں۔
اب اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان یا غیر ملکی زبان کہنے والے معصوموں کو کون سمجھائے کہ یہ عربی اورفارسی زبان  کی طرح نہ تو عرب اور ایران سے آئی ہے،نہ انگریزی کی مانند انگلینڈ اور امریکہ سے۔ خوب جان لیجیے کہ اردو دراصل مغربی ہندی کے بطن سے جنم لینے والی وہ زبان ہے جو صرف اور صرف ہندوستان میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور پھل پھول رہی ہے۔اس زبان نے تمام لوگوں کی طرح تمام زبان کے لفظوں کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی اور اپنی خدمات ملک کے تمام شعبوں کے لیے وقف کیں، انھیں ثروت مند اور خود کفیل بنایا۔خواہ عدلیہ ہو یا مقننہ، یا پھر انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ۔ آج بھی عدلیہ اور فوجداری کی تمامتر نہ سہی بیشتر اصطلاحیں اردو زبان کی دین ہیں۔ سو اس زبان نے ملک کی محبت، اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے قیام،حصول آزادی کی جدوجہد،مشرقی تعلیم،صحافت، سنیما اور ذرائع ابلاغ کے فروغ،وطنیت کے تصور اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تشکیل اور ملک کی ہمہ جہت تعمیر وترقی میں جو کردار ادا کیے ہیں اس کا مکمل اظہار محض ایک مضمون میں بھلا کیسے ممکن ہوسکتاہے۔
Abu Bakar Abbad
Dept. of Urdu
Delhi University
Delhi - 110007
Mob.: 9810532735
bakarabbad@yahoo.co.in



 ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں