3/12/19

خاکہ کا فن اور اردو خاکہ نگاری مضمون نگار۔ گلشن آرا


خاکہ کا فن اردو خاکہ نگاری

 گلشن آرا

خاکہ نگاری کی ایک عظیم روایت ہمارے سامنے ہے۔ خاکہ نگاری جسے شخصیت نگاری کے نام سے بھی ہم جانتے اور سمجھتے ہیں ہر عہد، ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے نمونے اور نقوش ملتے ہیں۔انسانی تاریخ کے اوراق اس کے شاہد ہیں کہ کسی شخصیت سے متاثر ہونا، اس سے عقیدت و قربت، محبت اور محبوبیت ایک فطری امر ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ وہ شخصیت کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان، نشیب و فراز ڈوبتی ابھرتی انسانی زندگی کے تمام رنگ و روپ خاکہ نگاری میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں معاملہ مذہبی ہو یا پھر معاشرتی و سماجی، علمی و ادبی ہو یاسیاسی، بڑی شخصیت ہو یا معمولی، عالم ہو یاجاہل،حکمراں ہو یا سماج کا ایک ادنیٰ انسان، مصنف کسی سے بھی متاثر ہوسکتا ہے اور کسی شخصیت کو موضوع و محور بناسکتا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کردیتی ہے۔ اس لیے مصنف کو بہت ہی احتیاط اور صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ایک قدم بہت سوچ سمجھ کر بڑھانا ہوتا ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں بے شمار خاکے لکھے گئے مگرشاہکار کا درجہ کم ہی کے حصے میں آیا۔
فرانسیسی، عربی، روسی، جرمنی، چینی، انگریزی وغیرہ ترقی یافتہ زبانوں میں اس صنف کے کئی شاہکار اور اعلیٰ نمونے ہم آسانی سے تلاش کرسکتے ہیں۔ اردو میں خاکہ و شخصیت نگاری کے لیے ایک اور انگریزی لفظ (Pen Portrait) کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ انگریزی زبان و ادب میں دونوں الفاظ Pen Portraitاور Sketchالگ الگ معنی و مفہوم میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ خاکہ و شخصیت نگاری کے معروف ناقد پروفیسر داؤد احمد رقم طراز ہیں:
Sketchمختلف خطوط کی مدد سے کسی شخصیت کے خد و خال ابھارنے کو کہا جاتا ہے، جب کہ Portrait سے مراد کسی واضح شبیہ کی عکاسی ہے۔ خاکہ کو شخصی مرقع یا شخصیہ بھی کہتے ہیں اور خاکہ نویسی کو شخصیت نگاری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک اچھے خاکے میں ہم کسی شخص کے بنیادی مزاج، اس کی افتاد طبع، انداز فکر و عمل اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس ہوتے ہیں۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے، جس کے لیے خاکہ نگار کی قوت مشاہدہ، فہم و ادراک اور غیر جانبداری کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اور پُر اثر اندازِ بیان کا حامل ہونا ضروری ہے۔خاکہ کسی فرد یا شخص کی مکمل زندگی کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اس کی نمایاں خصوصیات کا اظہار لیے ہوتا ہے۔ خاکہ نگار عموماً شخصیت کی زندگی کے ان گوشوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے، جو نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور بسا اوقات کئی شخصیت انھیں خود بھی چھپا کر رکھتی ہیں لیکن ایک اچھے خاکے کی یہی خصوصیت ہے کہ وہ شخصیت کے محاسن و معائب کو ناقدانہ رویے کے بجائے ہمدردانہ رویے کے طفیل ہر طرح سے سامنے لے آئے، کیوں کہ خاکہ میں بنائی جانے والی تصویر کی اصل شخصیت سے مطابقت ضروری ہوتی ہے، اگر تصویر اصل شخصیت سے ذرا سی بھی مختلف ہوگی تو خاکہ ناقص قرار پائے گا۔ خاکہ صرف اس شخصیت کا لکھا جاسکتا ہے، جس کی شخصیت سے خاکہ نگار کو کسی طرح کی دلچسپی ہو۔ خاکہ کسی پر بھی لکھا جاسکتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، تاجر ہو یا آمر، استاد ہو یا شاگرد، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، پروفیسر ہو یا چپراسی، ولی ہو یا ظالم وغیرہ۔پوری علمی و ادبی دنیا جانتی ہے کہ اردو ادب میں باضابطہ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ کی مشہور و معروف کتاب ’نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘ (1927) سے ہوتی ہے، مگر کچھ محققوں اور ناقدوں نے اس سے بھی قبل اس صنف کے نمونے اور نقوش تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ان میں محمد حسین آزاد، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر محمد حسن، شمیم کرہانی، صابرہ سعید، حسن احمد وغیرہ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں۔ بہرکیف اردو زبان میں خاکہ و شخصیت نگاری کا باضابطہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور اس صنف خاکہ کو آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے والوں میں خواجہ حسن نظامی، شاہد احمد دہلوی، رشید احمد صدیقی، اشرف صبوحی، مولوی عبد الحق، جوش ملیح آبادی، دیوان سنگھ مفتون، خواجہ محمد شفیع، مرزا محمد بیگ، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، کنہیا لال کپور، شورش کاشمیری، فرحت کاکوروی، مالک رام، جگن ناتھ آزاد، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، فکر تونسوی، بیگم انیس قدوائی، منظر علی خاں منظر، قرۃ العین حیدر، کشمیری لال ذاکر، باقر مہدی، انور عظیم، سردار جعفری، مہندر ناتھ، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم، انتظار حسین، چراغ حسن حسرت، سید صباح الدین، لطیف کاشمیری، منصور آفاقی، اے حمید، صادق الخیری، حافظ لدھیانوی، صالحہ عابد حسین، مجید لاہوری، علی جواد زیدی، کرشن چندر، مشفق خواجہ، اقبال متین، ابراہیم جلیس، نظیر صدیقی، غضنفر وغیرہ جیسے لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔اردو خاکہ و شخصیت نگاری کی جدید تاریخ میں ایک اہم نام محمد طفیل کا ہے۔محمد طفیل جسے اردو دنیا محمد نقوش کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ’رسالہ نقوش‘ کے درجنوں شاہکار نمبر دستاویزی حیثیت کے حامل ہیں۔ نقوش کا رسول نمبر نہ صرف اردو بلکہ پوری ادبی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی دوسری کوئی نظیر دنیا کی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ عربی زبان میں بھی نہیں۔ اس تاریخی، روحانی اور عالمی شاہکار رسول نمبر نے محمد طفیل کو پوری ادبی و علمی دنیا میں زندہ و جاوید بنادیا۔ محمد طفیل نے اپنی پوری علمی، ادبی اور صحافتی زندگی میں صرف اور صرف دو ہی ادبی و صحافتی کام کیے، ایک رسالہ نقوش کی ادارت اور اس سلسلے میں ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں اور لکھنے پڑھنے اور علمی و ادبی ذوق و شوق رکھنے والوں سے خط و کتابت کی اورخاکے لکھے۔ ان کے خاکوں کے مجموعوں میں ’آپ‘، ’آداب‘، ’محترم‘،’مکرم‘، ’معظم‘، ’محبی‘، ’مخدومی‘ وغیرہ پوری ادبی و علمی دنیا میں اپنی ایک خاص دلکشی، اہمیت، عظمت، جاذبیت، ادبیت، معنویت اور تہہ داری رکھتے ہیں۔ محمد طفیل نے خود ہی  لکھا ہے کہ جو کام ہم  نے الف سے شروع کیا تھا، ’ی‘ پر ختم کیا۔ محمد طفیل نے جدید اردو خاکہ و شخصیت نگاری کو ایک نئی تازگی و توانائی، وقار و وزن، بلند مقام و مرتبہ عطا کرکے دنیا کی معتبر و مستند زبانوں کے مد مقابل اردو خاکہ نگاری کو کھڑا کردیا۔ جسے ہم کسی طور فراموش یا نظر انداز نہیں کرسکتے۔ محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے فن کو چاول پر ’قل ھو اللہ‘ لکھنے کا عمل قرار دیا ہے۔ محمد طفیل کے خاکے جدید اردو ادب میں ایک نئے باب کا آغاز اور اضافہ ہیں۔
یہاں یہ صراحت بھی ضروری ہے کہ جہاں ایک طرف اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں مردوں کی ایک لمبی فہرست ہے، وہیں اس صنف خاکہ کو چند خواتین خاکہ نگار کو ایک نئی سمت اور رفتار، وقار و بلندی سے روشناس کرانے اور پرچم لہرانے کا کام کیا ہے۔ ان میں قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، صغرا مہدی، جیلانی بانو، بیگم انیس قدوائی، صالحہ عابد حسین، عفت آراء، پروفیسر شمیم نکہت، ادا جعفری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ عصمت چغتائی نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’دوذخی‘ کے نام سے لکھا اور اس کی ادبی و علمی اہمیت و عظمت آج بھی دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے چند ہی خاکے لکھے مگر ان کے خاکوں میں ان کی عالمانہ و دانشورانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ ملتا ہے۔ صالحہ عابد حسین نے کئی شاہکار اور دلچسپ خاکے لکھے۔ جو آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ ہند و پاک کی کئی نامور خواتین نے نہایت ہی خوبصورت اور دلکش خاکے لکھے ہیں۔ میں یہاں بطور خاص ایک ایسی خاتون خاکہ نگار کا تذکرہ کرنا ضروری تصور کرتی ہوں جن کا نام عفت آرا ہے۔ آپ عالمی شہرت یافتہ اردو و انگریزی کے ادیب و ناقد پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی صاحبزادی ہیں اور آپ کا تعلق بھی شعبۂ انگریزی سے رہا ہے اور اب سبکدوش ہوچکی ہیں۔ 
عفت آرا کی کتاب ’نشیب و فراز‘ میں جہاں سفر نامے، مضامین، ترجمے اور کہانیاں ہیں، وہیں تیرہ نہایت  دلچسپ اور خوبصورت خاکے ہیں۔ ان خاکوں میں ’حضرت بی بی فاطمہ زہرہؓ، ایک تاثر‘، ’پروفیسر اسلوب احمد انصاری - پیکر فکر و فن‘، ’ڈاکٹر سید امین اشرف-ایک تاثر‘، ’الوداع اے شمع بزم سخن‘، ’ز-خ-ش- صد ف بے مثال‘، ’خاموش سفر (پروفیسر نقی حسین جعفری کی یاد میں)‘، ’مدر ٹریسا-ایک فرشتہئ رحمت‘، ’رسکن بونڈ- ذرہئ تابناک‘، ’ڈاکٹر شائستہ محسن-ایک شمع فروزاں‘، ’سعیدہ آپا کی یاد میں‘، ’چراغِ سحر تمام ہوا‘، ’جہاں آرا -پیکر یاس و حسرت‘ یہ تمام خاکے مصنفہ کی لیاقت و ذہانت، عرق ریزی و عمیق مطالعہ اور عالمانہ و دانشورانہ صلاحیتوں کی بھرپور غماضی کرتے ہیں۔ خود مصنفہ کے لفظوں میں:
”خاکے لکھنے کا وصف بھی یورپ کے مصنّفین کی دین ہے کیوں کہ Addison and Steeleنے جس مہارت سے خاکہ نگاری کی ہے ان کی تقلید سے دوسرے لکھنے والوں کو بھی تقویت ملی اور انھوں نے اس فن کو تکمیل تک پہنچایا اور پھر ہم نے بھی اسے اپنے انداز میں لکھنے کا شوق پورا کیا۔ لکھنے والوں کو لکھنے کے دوران بڑا ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ کیسے مرقع نگاری بھی بھر پور ہو اور اچھی اور معیاری زبان کا استعمال ہو، قاری کو اپنے مطالعہ میں بھی شریک کیا جاسکے اور اندازِ بیان دلچسپ ہو تاکہ خاکہ نگاری میں کمال حاصل ہو سکے۔ لکھنے کے میدان میں قدم رکھنا گویا تنقید کو دعوت دینا ہے اور اس لیے یہ عمل جوئے شیر لانے کے مقابل ہے۔ اگر کسی بھی لحاظ سے کچھ کمی محسوس ہوگی تو قارئین آپ کی تحریر کو دور ڈال دیں گے اور آپ سر دُھنتے رہ جائیں گے۔ ہم خود بھی تو اچھی چیز کا انتخاب کرتے ہیں اور بیکار شے کو رد کردیتے ہیں“۔ (نشیب و فراز، ص10-11)
شاعری میں جس طرح رباعی کا فن تسلیم کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح اصناف نثر میں خاکہ نگاری کی صنف بھی تسلیم کی گئی ہے۔ مصنف کو اپنی تیسری آنکھ کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اردو میں مرزا فرحت اللہ بیگ سے لے کر غضنفر تک بے شمار خاکے لکھے گئے ہیں۔ سیکڑوں کی تعدادمیں خاکوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے اور آرہے ہیں مگر ان میں چند خاکہ نگار ہی ہیں جو اپنی منفرد و مخصوص پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ غالب پر مالک رام کا لکھا ہوا خاکہ، پروفیسر رشید احمد صدیقی کا اپنے شعبہئ اردو کے چپراسی کندن کا خاکہ اور خود مستند و معتبر ادیب و ناقد پروفیسر نظیر صدیقی کا مرحوم نظیر صدیقی کے نام کا خاکہ آج بھی پڑھنے والے بھول نہیں سکتے۔ 
اردو زبان و ادب میں بھی ادھر کئی برسوں میں کئی شاہکار اور نہایت دلچسپ خاکوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ ان میں مالک رام کا ’وہ صورت الٰہی‘ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا ’آنکھیں ترستیاں ہیں‘، پروفیسر رشید احمد صدیقی کا ’گنج ہائے گراں مایہ‘، پروفیسر نظیر صدیقی کا ’جان پہچان‘، منظر علی خاں منظر کا ’خاکہ نما‘ مولوی عبد الحق، ’چند ہم عصر‘، خواجہ غلام السیدین ’آندھی میں چراغ‘ کے علاوہ کئی مشہور و معروف ادیبوں اور دانشوروں کے خاکوں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔
اردو خاکہ نگاری آج ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکی ہے۔ جس صنفِ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوئی ہو اور دیکھتے دیکھتے اردو خاکہ نگاری کی جدید تاریخ میں کئی ایسے اہم خاکہ نگار ابھر کر سامنے آئے جن کی خاکہ نگاری نے اس صنف کو ایک نئی تازگی و توانائی، دلکشی و شگفتگی اور ادبی وقار و معیار بخشنے کا کام انجام دیا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو خاکہ نگاری کی اس تابندہ و درخشندہ روایت کو فرحت اللہ بیگ کے بعد کی آنے والی نسلوں نے نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ دنیا کی معتبر و مستند زبانوں کے مدِ مقابل کھڑا کرنے کا کام بھی انجام دیا۔ 1970کے بعد صنف خاکہ کی طرح دوسری اصناف سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بھی خاکہ نگاری کے باب میں کئی اضافے بھی کیے۔ آج اردو کے رسائل و جرائد میں بھی کثرت سے خاکے شائع ہورہے ہیں اور دلچسپی سے پڑھے جارہے ہیں۔ 



Gulshan Ara
W/o Dr. Khaliqur Rahman
Madrasa Road, Maripur
(Muzaffarpur - 842001 Bihar)
Mob.: 7070223675, 9934635175
 ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


1 تبصرہ:

  1. اٹک شہر میں ایک کتاب "نشاط سرمدی" شائع ہوئی ہے جس کے مصنف سجاد حسین سرمد ہیں یہ کتاب بھی خاکوں پر مبنی ہے اور اردو ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے

    جواب دیںحذف کریں