17/2/20

ولیم شیکسپیئر کا ڈرامہ میکبیتھ: ادب کا شاہکار فن پارہ مضمون نگار۔ محبوب حسن


ولیم شیکسپیئر کا ڈرامہ میکبیتھ:
 ادب کا شاہکار فن پارہ



 محبوب حسن


ولیم شیکسپیئرکا شمار انگریز ی کے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں وفن کاروں میں ہوتا ہے۔ان کی پیدائش انگلینڈکی Avon ندی کے تٹ پر ایک چھوٹے سے قصبے Stratford  میں 26/اپریل1564کوہوئی۔والد جان شیکسپیئر کے کاروبار میں مسلسل نقصان ہونے کے سبب انھیں زندگی کے ابتدائی دنوں میں معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان نامساعد حالات کے سبب ان کی تعلیمی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ والد جان شیکسپیئر اپنے بیٹے کو کاروبار سے منسلک کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں یہ ماحول ذرا بھی راس نہ آیا۔ ان ناسازگار حالات سے دل برداشتہ ہوکر شیکسپیئر لندن پہنچے،جہاں ان کا رابطہ وہاں کی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں سے ہوا۔در اصل بیس برسوں پرمشتمل وہاں کی تخلیقی سرگرمی ولیم شیکسپیئرکی ادبی زندگی میں راہ کا پتھر ثابت ہوئی۔قدرت نے ولیم شیکسپیئرکو بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اگر ولیم شیکسپیئرکے بے مثل ادبی کارناموں اوران کی تخلیقی کائنات کوایک الگ دبستان کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عالمی ادب کا یہ انوکھا فن کار صفحہئ قرطاس پراپنے انمٹ نقوش ثبت کرتے ہوئے 23/ اپریل 1616کو دنیائے آب و گل سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا۔
لندن میں دوران قیام شیکسپیئرنے وہاں کی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے لیے بہت سے اہم ڈرامے تحریر کیے۔ موصوف نے شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں اپنی انفرادیت کا پرچم لہرایا لیکن ان کی کلیدی شناخت ایک ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ہے۔ انھوں نے کل 38ڈرامے تخلیق کیے ہیں،جن میں "Macbeth""King Lear""Othelo" اور "Hamlet"بطور المیہ غیر معمولی شہرت سے ہم کنار ہوئے۔ شیکسپیئر کی ادبی عظمت کی روشن دلیل یہ ہے کہ ان کے ڈراموں کے ترجمے دنیا بھرکی زبانوں میں ہوئے۔ اردو میں احسن لکھنوی اور آغا حشر کاشمیری وغیرہ نے ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں کے حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آغاحشر کاشمیری نے الفریڈ اور شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی کے تحت ان کے چند اہم ڈراموں کو اسٹیج پربھی پیش کیا۔اپنی بیش بہا خدمات کے سبب آغا حشرکاشمیری ہندوستان کے شیکسپیئر کہلائے۔ ہر چند کہ ولیم شیکسپیئر نے ٹریجڈی اورکامیڈی دونوں نوعیت کے ڈرامے تخلیق کیے ہیں،تاہم ٹریجڈی کے میدان میں ان کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے۔ مختلف دبستان تنقید سے وابستہ انگریزی کے بلند پایہ نقادوں نے شیکسپیئرکی تخلیقی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ شاہکارالمیہ ڈرامہ"Macbeth" ان کے فن کی معراج ہے۔ ولیم شیکسپیئر نے ڈرامہ ”میکبیتھ“ کی بنیاد خیروشر کے تصادم پر رکھی ہے۔انگریزی کے بلند پایہ نقاد Edward Dowdenنے حق و باطل کی کشمکش کوہی ان کے ڈراموں کی کلیدی اساس قرار دیا ہے۔
 انگریزی ادب میں ولیم شیکسپیئرایک روایت شکن فنکار کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جدت پسند تخلیقی مزاج کے حامل ولیم شیکسپیئر نے اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگریزی ڈرامے کی رگوں میں جمالیاتی حسن کا تازہ لہو دوڑایا۔ موصوف نے اپنے پیش رو ڈرامہ نگاروں کی قائم کردہ روایات کو یکسرنظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے نت نئی تخلیقی جہتیں عطا کیں۔المیہ ”میکبیتھ“ ان کی جدت پسندطبیعت اور تخیل کی بلندپروازی کا اعلی نمونہ ہے۔ ناظرین کی دلچسپی کے پیش نظرولیم شیکسپیئر نے اس ڈرامے کو اسٹیج کے ہر ممکنہ لوازمات سے آراستہ کیاہے۔ مذہبی عقیدت یا کسی ازم/ نظریہ کے برعکس انھوں نے اپنے ڈراموں میں زندگی کی آفاقی و روشن قدریں پیش کی ہیں۔ در اصل ”میکبیتھ“ Melodramaticنوعیت کا ایک ایسالافانی ڈرامہ ہے،جس میں خیرو شر کی کشمکش اورجرم وتشدد کی انتہا آشکاراہے۔اس ڈرامے کی بنیادپر مختلف ملکوں کی زبانوں میں بہت سی کامیاب فلمیں بنیں۔ ہندوستان کے معروف فلم ڈائریکٹر ویشال بھاردواج کی ہدایت میں ”میکبیتھ“پرمبنی فلم ”مقبول“ 2003میں منظر عام پر آئی، جسے مختلف طبقات میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پانچ ایکٹ پر مشتمل ڈرامہ "Macbeth" میں کرداروں کی خاصی تعداد موجود ہے۔میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ زیر مطالعہ ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں۔ڈرامے کے دوسرے اہم کرداروں میں ڈنکن، میلکم، ڈونالبین، بینکو، میڈکف، لیناکس اورفلیئنس وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ولیم شیکسپیئر نے ڈنکن کو اسکاٹ لینڈ کے راجہ کے روپ میں پیش کیا ہے جبکہ میلکم اورڈونالبین ڈنکن کے صاحب زادے ہیں۔ میکبتھ اوربینکو راجہ ڈنکن کی شاہی فوج میں سپہ سالار کے عہدے پر فائز ہیں۔ فلیئنس ڈنکن کے دوسرے سپہ سالار بینکو کا بیٹا ہے۔انسانی نفسیات کے نباض ولیم شیکسپیئر کے کردار مٹی کے مادھونہیں بلکہ فطری طور پرڈرامے کے پلاٹ کی ترنگوں پر اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈرامہ "Macbeth" کاآغازجنگ و جدال کے خطرناک ماحول میں ہوتا ہے۔بادشاہ ڈنکن کا ایک قریبی رشتہ دار میکڈونوالڈ اس کے خلاف بغاوت چھیڑ دیتا ہے۔ اس غیر متوقع صور ت حال سے ڈنکن بے انتہا فکرمند ہوتا ہے۔وہ اپنے دونوں سپہ سالار وں میکبتھ اور بینکو کواس بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجتا ہے۔ میکبتھ اور بینکو میکڈونو الڈ کی فوج کے خلاف نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے فتح یاب ہوتے ہیں۔میکبتھ اور بینکو میدان جنگ سے واپس ہو رہے تھے کہ راستے میں اچانک ان کی ملاقات تین چڑیل بہنوں سے ہوتی ہے۔یہ تینوں چڑیلیں میکبیتھ اور بینکو کے متعلق پیشین گوئی کرتی ہیں۔ پہلے وہ میکبیتھ کو مستقبل قریب میں اسکاٹ لینڈ کا راجہ بننے کی بات کہتے ہوئے اس کا خیرمقدم کرتی ہیں۔ بینکو کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ بذات خود راجہ نہ بن سکے گا لیکن اس کا بیٹاکبھی نہ کبھی اسکاٹ لینڈ کا حکمراں ضرور ہوگا۔ چڑیلوں کے دام فریب میں پھنس کر میکبیتھ اسکاٹ لینڈ کا راجہ بننے کا خواب دیکھتا ہے۔وہ ایک خط کے ذریعے اپنی بیوی لیڈی میکبیتھ کوبھی اس بات کی خبر دیتا ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی اس کی بیوی بے چین ہو جاتی ہے۔اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ راجہ ڈنکن کے قتل کی خوف ناک سازش رچتی ہے۔ فتح کی اس خوشی میں ڈنکن میکبیتھ کے یہاں مہمان بن کر جاتا ہے۔اپنی بیوی لیڈی میکبیتھ کے باربار سمجھانے کے باوجود وہ ڈنکن کا قتل کرنے سے انکار کر تا ہے۔ لیکن اپنی بیوی کے بار بار اکسانے پر وہ اس گناہ عظیم کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ڈینرکے بعد راجہ ڈنکن کوآرام کرنے کے لیے ایک الگ کمرے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ میکبیتھ تیز دھار ہتھیار کے ساتھ ڈنکن کی خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے۔ خنجرکے ایک ہی وار سے راجہ کا سر دھڑ سے الگ ہو جاتاہے۔ لیڈی میکبیتھ گہری نیند میں سو رہے ڈنکن کی خدمت میں مامور دونوں ملازمین کے جسم پر نہایت چالاکی سے خون کے چھینٹے ڈال دیتی ہے تاکہ قتل کا الزام ان پر لگ سکے۔ڈنکن کے قتل کے بعدمیکبیتھ بار بار اپنے جسم پر لگے خون کے دھبوں کو دھونے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اپنے والد کے قتل کی خبرسنتے ہی اس کے دونوں صاحبزادے میلکم اور ڈونالبین انگلینڈ اور آئرلینڈ بھاگ جاتے ہیں۔
ڈنکن کے قتل کے بعد میکبیتھ اسکاٹ لینڈ کا حکمراں بن جاتاہے۔اس طرح چڑیلوں کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی ہے۔اسکاٹ لینڈ کا حکمراں بننے کے بعد میکبیتھ ظلم کی ساری سرحدیں پار کر جاتا ہے۔ چڑیلوں کی باتوں کو یاد کر کے اسے بینکو اور اس کے بیٹے فلیئنس سے خطرہ محسوس ہو تاہے۔ بینکواور فلیئنس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ان دونوں کو میکبیتھ کی شاہی دعوت میں مدعو کیا جاتا ہے۔پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت بینکو دوران سفر مارا جاتا ہے جبکہ اس کا بیٹا فلیئنس کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ شیطانی طاقتوں کے فریب میں گرفتار میکبیتھ ایک بار پھرچڑیلوں سے ملنے اسی بنجر و سنسان علاقے میں جاتا ہے۔یہ چڑیل بہنیں میکبیتھ کو میکڈف سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ان تخریبی عناصرکے ذریعے میکبیتھ کو یہ بات ذہن نشیں کرائی جاتی ہے کہ کسی عورت سے پیدا شدہ شخص اسے مار نہیں کر سکتا۔ وہ صرف اسی صورت میں شکست کھا سکتاہے جب ویرنام جنگل ڈنسینین پہاڑی کے اوپر آ جائے!آخر میں چڑیلیں اسے اسکاٹ لینڈ کے بادشاہوں کی ایک فہرست دکھاتی ہیں، جس میں بینکو کے بیٹے فلیئنس کا نام سب سے اوپر ہوتا ہے۔ میکبیتھ ان اندھی قوتوں کی جھوٹی باتوں پردوبارہ اعتبار کر لیتا ہے۔اُدھرمیکڈف اپنے بیوی بچوں کوچھوڑ کرڈنکن کے صاحبزادے میلکم کا ساتھ دینے انگلینڈ چلا جاتا ہے۔اس بات کی اطلاع ملتے ہی میکبیتھ اس کے بیوی بچوں کا بے رحمی سے قتل کر دیتا ہے۔ انسانی لاشوں سے شروع ہونے والا یہ سیاسی سفرجلد ہی دونوں کی تباہی وبربادی کا باعث بنتا ہے۔اس دردوالم سے نجات کے لیے لیڈی میکبیتھ خود کشی کرنے پرمجبور ہوتی ہے۔اس کی موت کی خبر سے میکبیتھ غم سے نڈھال ہو جاتا ہے۔
 شہزادہ میلکم اپنے والد کے قتل کا انتقام لینے میکڈف کے ساتھ اسکاٹ لینڈ آتا ہے۔وہ اس جابر بادشاہ سے جنگ کا اعلان کرتا ہے۔میکبیتھ اپنے دشمن میلکم اور میکڈف سے لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچتا ہے۔دوسری جانب میکڈف اپنی فوج کے ہمراہ ڈنسینین پہاڑی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔اپنی تعداد چھپانے کی غرض سے پوری فوج ویرنام جنگل کے درختوں کی بڑی بڑی شاخوں سے خود کو ڈھک لیتی ہے۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ پورا ویرنام جنگل ہی ڈنسینین پہاڑی کے اوپر چڑھ رہا ہے۔یہ حیر ت ناک منظر دیکھ کرمیکبیتھ کے سامنے چڑیلوں کی پیشین گوئی کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ اپنے جانی دشمن میکڈف کو دیکھتے ہی میکبیتھ کہتا ہے کہ کسی عورت سے پیدا شدہ شخص مجھے نہیں مار سکتا۔ میکڈف جواب دیتا ہے کہ میں وقت سے پہلے ہی اپنی ماں کے پیٹ سے چیر کر نکالاگیا تھا۔یہ سنتے ہی میکبیتھ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ آخر کارمیکبیتھ میکڈف کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔اس طرح چڑیلوں کی آخری پیشین گوئی سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔حق کی فتح اور باطل کی شکست کے ساتھ ہی ڈرامہ "Macbeth" کا پلاٹ اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ڈرامہ نگاری کے فن کارمز شناس ولیم شیکسپیئر نے پوری دنیا میں اپنی تخلیقی عظمت کا لوہا منوایا۔کئی صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اس قابل رشک فنکار کی مقبولیت و ہردل عزیزی میں ذرہ برابرکمی نہیں آئی۔انھوں نے اپنے ڈراموں کی فنی وتکنیکی خوبیوں پر خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ولیم شیکسپیئرکے ڈرامے پلاٹ وکردار کی چستی، مکالمے وزبان و بیان کی دلکشی اور اسلوب وطرز بیان کی ندرت کے اعتبار سے اپنا جواب نہیں رکھتے۔موصوف نے ڈرامہ نگاری کے فن پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی بلکہ "Whole world is stage"  جیسے مقولے کو اپنی تخلیقی بصیرت کا ذریعہ تصور کیا۔ولیم شیکسپیئر نے ارسطو کے قائم کردہ اصول ”وحدت ثلاثہ“پر عمل کرتے ہوئے اپنے تخلیقی حسن کو آب و تاب عطا کی۔ ان کے ڈراموں میں وحدت زماں (Unity of time)  وحدت مکاں (Unity of place) اور وحدت عمل (Unity of action) کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔اس ضمن میں ڈرامہ ”میکبیتھ“ کو معتبر حوالے کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔در اصل اس ڈرامے کی کامیابی و دلکشی کا اصل راز اس کے خوبصورت پلاٹ اور عمدہ کردار نگاری میں پوشیدہ ہے۔ "Macbeth"کا پلاٹ نہایت سادہ اورعام فہم ہے۔اس میں کسی قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ نہیں ہے۔”میکبیتھ“ کا پلاٹ اپنے آغاز،وسط اور نقطہئ عروج سے ہوتے ہوئے بے حد منطقی انداز میں اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ولیم شیکسپیئر نے اس ڈرامے میں ضمنی پلاٹ سے شعوری طور پر اجتناب برتا ہے جبکہ ان کے دوسرے اہم ڈرامے "King Lear" اور "Hamlet" میں ذیلی واقعات کی شمولیت ملتی ہے۔
ولیم شیکسپیئر نے اسٹیج کے توسط سے ڈرامے کی فنی و تکنیکی باریکیوں کا عملی مشاہدہ کیا۔انھوں نے اپنے بیشتر ڈراموں میں Soliloquyیعنی خود کلامی کو ایک اہم فنی حربے کے طور پراستعمال کیاہے۔ ڈرامہ نگار اس فنی آلہ کے توسط سے کرداروں کی ذہنی ونفسیاتی کیفیات کو اجاگر کرنے کی کاوش کرتا ہے۔ علاوہ ازیں خود کلامی بعض اوقات پلاٹ و واقعات کی گتھیاں سلجھانے میں بھی کار آمد ہوتی ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے ”میکبیتھ“ میں Soliloquy  ایک ناگزیر فنی Tool کی حیثیت رکھتی ہے۔ڈرامے کے ہیرو میکبیتھ اور ہیروئن لیڈی میکبیتھ کی خود کلامی قارئین کو Katharsis یعنی تزکیہ نفس کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے راجہ ڈنکن اورسپہ سالار بینکوکے قتل کے بعد میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ بے انتہا روحانی کرب سے گزرتے ہیں۔ انسانی لاشوں اور خون کے دھبوں کا احساس شوہر بیوی دونوں کو مضطرب رکھتا ہے۔لیڈی میکبیتھ خون کے گہرے دھبوں وچھینٹوں کوصاف کرنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بار باررگڑتی ہے۔واضح رہے کہ ڈرامہ ”میکبیتھ“موت وتباہی کی کھتونی نہیں ہے بلکہ اس سے انسان کی فطری خامیوں وکمزوریوں کے سیاق میں عقل و دانش اور فکری بصیرت کی روشنی پھوٹ رہی ہے۔
ولیم شیکسپیئرنے اپنے کرداروں کی تشکیل میں نیکی وبدی اور خیروشر دونوں پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مرکزی کردارفطری انداز میں ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کر نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کے اندر زندگی کی رمق اور فطری پن موجود ہے۔کارلائل نے ولیم شیکسپیئرکو فطرت کانباض کہا ہے۔ ڈرامہ ”میکبیتھ“ کی تخلیقی انفرادیت کی ایک خاص وجہ اس کی جاندار کردار نگاری اور مکالمہ نگاری ہے۔ پیش نظر ڈرامے کے کردار ناسازگار حالات سے گھبراتے نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر بے رحم وقت سے آنکھ ملانے کا حوصلہ موجود ہے۔ کرداروں کی زبان سے ادا ہونے والے مکالمے ان کی ذہنی کیفیت اور ان کے طبعی مزاج ومیلانات کے عین موافق ہیں۔ اپنی فکری بصیرت، فنی ادراک،سماجی شعور، سیاسی آگہی اورتخلیقی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے شیکسپیئر نے انگریزی ادب کو کئی لازوال کردار دیے ہیں۔
میکبیتھ ڈنکن کی شاہی فوج کا وفادار سپہ سالارہے۔ بہادری اور قابلیت کے سبب شاہی دربار میں اسے خاص عزت و احترام حاصل ہے۔ لیکن ہوس پرستی اسے قابل رحم بربادی کی تاریکی میں غرق کر دیتی ہے۔ ایک رحم دل بادشاہ کے تئیں بے وفائی و غداری میں اس کی بیوی لیڈی میکبیتھ بھی برابر کی شریک کار ہوتی ہے۔شیکسپیئرنے چڑیلوں کوتخریبی قوت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے، یہ ایک فطری امر ہے کہ نیک اور وفادار انسان حد سے بڑھی ہوئی امیدولالچ کے سبب بربادی وتباہی کے خونی پنجے کا شکارہو جاتا ہے۔شاد عظیم آبادی نے حد سے بڑھی ہوئی امیدوں کو بجا طورپر طلسمی سانپ سے تشبیہ دی ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے لازوال کردار میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ کے توسط سے زندگی کی اس تلخ حقیقت کو آئینہ دکھایا ہے۔Thrillاور Suspenceکی فضامیں سانس لینے والے یہ کردارانسانی زندگی کی آفاقی قدروں کی فلسفیانہ توضیحات پیش کرتے ہیں۔ ڈرامے کا ہیرومیکبیتھ اپنے گناہوں کے شعلوں میں جھلسنے پر مجبور ہوتا ہے تو لیڈی میکبیتھ اپنے گناہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتی۔میکبیتھ اضطرابی کیفیت میں کبھی خنجر کو ہوا میں لہراتے ہوئے دیکھتا ہے توکبھی نیندکی حالت میں یکایک چیخ اٹھتاہے۔
مغربی دانشوروں و نقادوں نے جدوجہد، کشمکش اور تصادم جیسے عناصر کاشمار ڈرامے کی بنیادی خوبیوں میں کیا ہے۔اس امر کی تفہیم اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے اور ہم انسان بحیثیت کردار ”زندگی“ نامی ڈرامے میں مصروف عمل ہیں۔اگرانسان جہدمسلسل سے محروم ہو جائے تو زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے زندگی کے اس فلسفے کی تعبیروتشریح میں ہماری معاونت کرتے ہیں۔ڈرامائی تصادم و کشمکش کی ڈور شیکسپیئر کے ہاتھوں سے کبھی نہیں چھوٹتی۔ "Macbeth" کی یہی خوبی ناظرین کواستعجاب کی پر خطر راہوں سے گزارتی ہے۔شیکسپیئر کا یہ ڈرامہ کشمکش حیات کی ایک نئی شعریات پیش کرتا ہے۔ ڈرامہ "Macbeth" میں داخلی تصادم پیدا کرنے کے لیے موصوف نے  Supernatural Elementsیعنی اساطیری عناصر کو شعوری طور پرشامل کیا۔در اصل ولیم شیکسپیئرکے عہد میں دیومالائی و اساطیری عناصر کے استعمال کا چلن عام تھا۔ انسان کی فطری کمزوریوں و خامیوں کواجاگرکرنے کی غرض سے ”میکبیتھ“میں چڑیلوں کو علامتی حربے کے طورپر استعمال کیا گیاہے۔اردوکے چند ایک ڈراموں میں بھی اساطیری عناصرکی جھلک موجود ہے۔محمد حسن کا معروف ترین ڈرامہ ”ضحاک“اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس ڈرامے کے مرکزی کردار ضحاک کے شانوں پر اگنے والے دوسانپ اورانسانی بھیجا تجویز کرنے والا شیطان اس کی بین ثبوت ہیں۔”میکبیتھ“کی چڑیلوں کی طرز پر یہ بوڑھا شیطان بھی ضحاک کو حیوانیت کے اندھیروں میں بھٹکنے پر مجبور کرتا ہے۔ان دونوں ڈراموں میں مستعمل دیو مالائی عناصر کے پس پشت یکساں مقاصد کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ڈرامہ ”میکبیتھ“ کے پلاٹ کا آغاز ہی تین چڑیلوں کی آمدکے ساتھ ہوتا ہے۔ان چڑیل بہنوں کے ذریعے کی گئی پیشین گوئی ہی ڈرامے کے پلاٹ کو استحکام بخشتی ہے۔
ڈرامہ "Macbeth" اپنی تخلیقی توانائی کے باعث جغرافیائی،لسانی اور زماں و مکاں کی حدود سے آزاد ہے۔ اس ڈرامے کی اشاعت کے بعد لندن میں تخلیقی محاورے کے جدید ڈسکورس کا آغاز ہوتا ہے۔ڈرامہ ”میکبیتھ“ میں قدم قدم پر تصادم اورConflictsکی صورتیں پیش آتی ہیں۔شیکسپیئرنے اس ڈرامے کو اپنی شاعرانہ خوبیوں سے بھی مالا مال کیا ہے۔انھوں نے لندن کے تہذیبی اور روایتی لوک گیتوں سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ولیم شیکسپیئرکے عہد میں  Chorus ڈراموں کااہم حصہ ہوا کرتا تھا،جسے چند کردار اسٹیج پر ایک ساتھ گاتے تھے۔ شیکسپیئرنے ”میکبیتھ“ میں کورس کا خوبصورت اہتمام کیا ہے۔ اس ڈرامے کے آغاز میں چڑیل بہنیں "Fair is foul and foul is fair"کوبطور کورس گول گول دائرے میں گھومتے ہوئے گاتی ہیں۔ اسے ”میکبیتھ“ کے "Keynote"سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس کلیہ کے ذریعہ نہایت دور اندیشی کے ساتھ ڈرامے کے مرکزی نکتے کی جانب اشارہ کیاگیا ہے۔ڈرامہ نگار نے شعری بحر/وزن کے طور پرIambic pentameter کو استعمال کیا ہے۔ ڈرامے میں Chorus" "کی دوسری عمدہ مثالیں بھی موجود ہیں۔ولیم شیکسپیئر کی تخلیقی جدت پسندی اورفنی نیرنگی اس ڈرامے کی Readibilityمیں بھی اضافہ کرتی ہے۔
 اردو ڈرامہ ”انارکلی“ کی طرح "Macbeth"کے بارے میں بھی نقادوں کے درمیان اختلاف رائے موجود ہے۔چند ناقدین نے اسے ڈنکن کا المیہ قرار دیا ہے تو چند ایک نے میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ بعض ناقدین نے اسے مقدر اور حالات کابھی المیہ قرار دیا ہے۔ ممتاز مغربی نقاد Snider نے”میکبیتھ“ کو "Tragedy of imagination"قرار دیاہے۔در حقیقت ڈنکن جیسے نیک دل بادشاہ کے ساتھ پیش آنے والایہ اندوہناک واقعہ ناظرین کو شدیدرنج و غم سے آشنا کر دیتا ہے۔ڈرامے کا ہیرومیکبیتھ اور ہیروئن لیڈی میکبیتھ خیروشر کی کشمکش سے دو چار نظر آتے ہیں۔ ہیرومیکبیتھ ایک دیانت دار سپہ سالارکے طور پر ڈنکن کے خلاف ہونے والی سیاسی بغاوت کوکچلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔وہ اپنی اس عظیم الشان فتح کے لیے اعزازو اکرام سے بھی سرفراز ہوتا ہے لیکن سیاسی ہوس کے باعث اس کی قابل رشک زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ہیرومیکبیتھ سے شدید نفرت و حقارت کے باوجود ہ ہمارے دل میں اس کے تئیں ہمدردی ومحبت کا فطری جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ”میکبیتھ“ کے ہیرو اور ہیروئن کو بے انتہاغمگین اور بے بس دیکھ کرناظرین کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ کرداروں کے ساتھ پیش آنے والی یہ عبرت ناک صورت حال ولیم شیکسپیئرکی تخلیقی تہہ داری،فکری ہمہ جہتی، نفسیاتی ژرف نگاہی اورفنی باریک بینی کی نشاندہی کرتی ہے۔روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والے ایسے مناظر ولیم شیکسپیئر کی تخلیقی عظمت اور فکری بصیرت پر دال ہیں۔ اگراس ڈرامے کاسنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تویہ نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ تمام تر ناقدین و محققین کی آرا میں جزوی سچائیاں پنہاں ہیں۔اس لیے کسی مخصوص پہلوپر اکتفا کرنامناسب نہیں۔ مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ "Macbeth" کرداروں کے علاوہ مقدر اور حالات کا بھی المیہ ہے۔
 ولیم شیکسپیئرکی تخلیقی فتوحات کے پیش نظر یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ موصوف انگریزی ڈرامے کی دنیا میں تخلیقی دستخط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جدت پسند فن کارولیم شیکسپیئرکا ڈرامہ "Macbeth" ایک ایسا تخلیقی چراغ ہے،جس کی کرنیں ادبی فضا کو منور کرتی رہیں گی۔اپنی تخلیقی تازہ کاری وفنی توانائی کی بنا پر موصوف نے انگریزی ڈرامہ نگاری کی روایت کو کامیابی و بلندی کی اس منزل تک پہنچا دیاہے،جہاں سے دونوں طرف ڈھلان شروع ہوتی ہے۔ان کے ڈراموں خصوصاً "Macbeth" میں انسانی زندگی کاجمال و جلال اور فنی قدروں کا حسن موجود ہے۔اس نابغہ روزگار شخصیت کی تخلیقی خدمات کے اعتراف میں ان پر سب سے زیادہ تحقیقی وتنقیدی کتابیں تحریر کی گئیں۔کسی نظریاتی وابستگی سے قطعِ نظراس ادب پارے کی آزادانہ قرأت ہمیں انسانی زندگی کے نفسیاتی شعور اورفلسفیانہ رموز سے آشنا کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ ولیم شیکسپیئر نے”میکبیتھ“کے روپ میں انگریزی ادب کو ایک ایسا لازوال وشاہکار ڈرامہ دیا ہے،جس کی فنی تابناکی تادیر قائم رہے گی۔


Dr Mahboob Hasan
Asst. Professor
Department of Urdu
Deen Dayal Upadhyay Gorakhpur University,
 Gorakhpur, 273009
Mobile: 8381856066



ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں