20/5/20

حمید الماس بحیثیت مترجم مضمون نگار: زلیخا بیگم




حمید الماس بحیثیت مترجم
زلیخا بیگم

حمید الماس کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا کم عمری میں ہی کی۔ چودہ پندرہ سال کی عمر سے ہی آپ کی شاعری شائع ہونے لگی۔آپ نے شاعری کے مختلف اصناف میں اپنے قلم کا زور دکھایا۔ آپ کو بیک وقت نظم اور غزل دونوں میں مہارت حاصل تھی۔
حمید الماس ایک خوددار اور حساس طبعیت کے مالک تھے۔ حمید الماس وقت شناس اور زمانہ شناس تھے۔ جس طرح سر سید احمد خان نے ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے انگریزی تعلیم کو ضروری سمجھا۔حمید الماس نے بھی ریاست کے مسلمانوں کے لیے کنٹری زبان کو ترقی کے لیے ضروری مانا ہے۔اسی لیے آپ نے اردو داں طبقہ کے لیے کنڑی زبان و ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مضامین لکھے۔جس کے ذریعہ اردو زبان والوں میں کنڑی زبان سیکھنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اس کی زندہ مثا ل آپ کی کتابیں اور رسائل میں شائع ہونے والے مضامین ہیں۔آپ کی کتاب ’سرِدہلیز‘ ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ جس میں حمید الماس نے کنڑا ادب کے ناول، افسانے اور کنڑا شاعری و طنزو مزاح پر پرمغز مضامین قلم بند کیے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ ہمیں کنڑا ادب کی مختصر تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں آپ نے اردو دانوں کو کنڑا ادب سے متعارف کروایا وہیں آپ نے کنڑا والوں کو بھی اردو ادب  سے متعلق مختصر و ضروری معلومات کنڑا زبان میں’سے سے‘لکھ کر فراہم کیں۔ آپ کی تصانیف سے اردو ادب کا خزانہ وسیع ہوا اور کنڑا ادب کے سرمائے میں بھی ترقی ہوئی۔ترجمہ نگاری میں بھی آپ نے چند کتب یادگار چھوڑی ہیں۔
حمید الماس کی جملہ پانچ کتابیں ترجمہ شدہ ہیں۔ ان میں تین نثری اور دو منظوم ترجمہ ہیں۔ ان میں آپ کا شاہکار کارنامہ  شرن بسویشور کے وچنوں کا منظوم ترجمہ ہے۔ جو ’فرمودات‘ کے نام سے 1975 میں شائع ہوا۔ ’فرمودات‘ میں آپ نے شرن بسویشور کے 108  وچنوں کا انتخاب کر کے انہیں اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ’فرمودات‘ حمید الماس کا کنڑا سے اردو کا پہلا ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں انھوں نے وچنوں کو نظم میں ڈھالا ہے۔جو ترجمہ کا بہترین نمونہ ہے۔یہ ترجمہ سے کہیں زیادہ طبع زاد معلوم ہوتا ہے۔ ’فرمودات ‘کی اردو دنیا میں بے حد پزیرائی ہوئی۔ اس پر کئی تبصرے بھی لکھے گئے۔ مختلف انعامات سے بھی نوازا گیا۔ان کی اس کتاب کی مقبولیت کااندازہ یوں لگایاجاسکتاہے کہ اردو کے اہم محقق پروفیسر گیان چند جین نے بھی اپنے تاثرات کچھ اس طرح قلمبند کیے ہیں۔ملاحظہ ہوں:
’’قدیم کنڑا کی روحانی موضوعات کو حمید الماس نے اس سلاست کے ساتھ پیش کیا ہے۔کہ ترجمہ کے بجائے طبع زاد معلوم ہوتے ہیں ۔ان میں شاعری کی جملہ خوبیاں ہیں۔ اردو شاعری کی روایتی غالب موضوعات کے بعد جب ان تازہ روح پرور مطالب کو دیکھا جائے تو واقعی ایک نئی آواز معلوم ہوتی ہے۔‘‘
)یادِرفتگاں: حمید الماس از ملنسار اطہراحمد، ص 78(
حمید الماس کنڑا ادب اور شعری اسالیب کے نبض شناس تھے۔آپ نے پوری دلجمعی سے اردو میں وچنوں کا ترجمہ پیش کیاہے۔آپ کا یہ ترجمہ دیگر مترجمین کے تراجم سے منفرد نظر آتا ہے۔آپ نے ترجمے میں اصل مضمون کو مجروح ہونے نہیں دیا۔شعر کی روح کو قائم رکھا۔آپ کے اس منظوم ترجمہ میں لفظیات کا انتخاب بھی جداگانہ ہے۔جس میں آپ نے ایجازو اختصار سے کام لیا ہے۔ ترجمہ میں آپ نے اردو زبان وشعر کی فضا کو قائم رکھا۔ آپ نے ترجمہ میں سنسکرت اور کنڑا کے کم سے کم الفاظ کا استعما ل کیا بلکہ ان کے استعما ل سے گریزکیا ہے۔زبان کی اصطلا حات کی چابکدستی سے مدد لی گئی ہے۔
خداکی حمد و ثنا میں مہاتما بسویشور نے کئی وچن کہے ہیں۔ ان میں چنندہ وچنوں کو حمید الماس نے ’فرمودات‘ میں ترجمہ کر کے شامل کیا ہے۔وچن کا ترجمہ ملاحظہ ہو     ؎
وچن                       
مری نظرنے ہر ایک سمت تجھ کو پایا ہے
بس ایک تو ہے فقط یو نہی کائنات کی روح
ہیں کائنات میں آنکھیں،تو تیری آنکھیں ہیں
ہے کائنات میں چہرہ،تو تیرا چہرہ ہے
جہاں میں ہیں تو فقط تیرے دست و بازو ہیں
مرے عزیز مرے دیوا کو ڈلا سنگم
ہیں کائنات میں پائوں تو تیرے پائوں ہیں
)فرمودات، ص 18(
اس وچن کے مطالعہ کے بعد کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے۔بلکہ خود حمید الماس کی شاعری معلوم ہوتی ہے۔ہر سمت خدا کی موجودگی،اسی کی آنکھیں،چہرہ، دست و بازو کی موجودگی کا ذکر ہے۔سوائے کوڈلا سنگم کے اس ترجمہ میں کوئی لفظ کنڑا کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ حمید الماس بے شک لفظ شناس تھے۔یہ ترجمہ انگوٹھی میں نگینہ جڑنے کے مترادف ہے۔کنڑا لفظ کے ہو بہو مفہوم دینے والے الفاظ کو بہ حسن و خوبی استعمال کیا گیا ہے۔  
فرمودات کا ایک اور وچن ملاحظہ کریں        ؎   
زر پاس ہے جن کے وہ بناتے ہیں شوالہ
میں مفلس و قلاش بھلا کیسے بنائوں
مندر ہے مرا جسم تو یہ پیر ستوں ہیں
اوپر جو مرا سر ہے وہ سونے کا کلس ہے
اب سنیے مرے دیوا کوڈلا سنگم
دنیا کی ہر چیز تو فانی ہے مگر روح
مرتی نہیں مرتی ہی نہیں اس کو بقا  ہے
)فرمودات، ص53(
حمید الماس نے کمال کا ترجمہ کیا ہے۔لفظوں کو لڑی میں پرو کر ایک ہار کی مانند اس وچن کو اردو نظم میں ڈھالا ہے۔ اصل وچن سے زیادہ ترجمہ کیا گیا وچن مزہ دیتا ہے۔یہ حمید الماس کی ہنر مندی ہیکہ وہ وچن کی اصل روح تک پہنچ کر  قاری کے ذہن کے پردے کھول دیتے ہیں۔اس وچن میں روح کے لا فانی ہونے کی بات پر زور دیا گیا ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جو بندے اور خدا کے رشتہ کو قائم رکھتا ہے۔ خدا  کی اصل عبادت روح سے ہوتی ہے۔مال و زر سے انسان دنیا میں عبادتگاہیں تو بنا سکتا ہے۔مگر جو مال و دولت نہیں رکھتے وہ پوری عقیدت کے ساتھ دنیا و آخرت میں بھی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔حمید الماس کی ہنر مندی ایسی کمال کی ہے کہ وہ ترجمہ کو تاج محل اور الفاظ کو سنگِ مرمر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔آپ کی یہ مہارت ہی انفرادیت کی ضامن ہے۔
حمید الماس کا دوسرا منظوم ترجمہ ’شبِ گرد‘ ہے جس میں انھوں نے کنڑا کے  قدیم و جدید شعرا کا انتخاب کر کے ان کی نظموں کو اردو کا جامہ پہنایا ہے۔میری دانست میں ’شبِ گرد‘ شاعری کی وہ مکمل کتاب ہے جس کے مطالعہ کے بعد قاری کنڑا شاعری کی روایت اور تاریخ، کنڑا شاعری کے رجحانات و ادوار،موضوعات اور کنڑا شاعروںتک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ حمید الماس نے ابتدا ہی میںکنڑا شاعری کا جائزہ لیا ہے۔اس سے آپ کی کنڑا شاعری کی معلومات اس سے دلچسپی  اور گہرے مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔اس کے بعد ان سترہ شاعروں کے نام درج ہیں جن کی نظموں کا ترجمہ کیا گیا ہے۔پھر ترجمہ شدہ نظمیں دی گئی ہیں۔اور آخر میں ان تمام شعراء کا مختصر سا تعارف پیش کیا گیا ہے۔تاکہ قاری کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
شبِ گرد پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلم عمادی ماہ نامہ ـ’سب رس‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’شبِ گرد میں شریک نظموں سے یہ احساس اور مضبوط ہوتا ہے۔شاعری کی بنیاد سماج سے ہٹ کر فرد تک آ پہنچی ہے۔نظموں کے ترجمے اتنی سندرتاسے کیے ہیںکہ کہیں ترجمہ ہونے کا اندازہ نہیں ہوتا۔اس لیے حمید الماس مبارکبادکے مستحق ہیں۔‘‘
)حمید الماس فن اور شخصیت، ص 236(
اردو شاعری کی طرح کنڑا شاعری بھی ترقی کے مراحل طے کرتی رہی۔ابتدا میں روایتی شاعری، ادب برائے زندگی، ادب برائے ادب کے بدلائو آتے رہے۔ رومانی شاعری کی جگہ انسانی و سماجی مسائل نے شاعری میں جگہ بنا لی۔
شبِ گرد میں حمید الماس نے نظموں کا ترجمہ کس طرح کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے        ؎
وی۔جی۔ بھٹ کی نظم کا ترجمہ
مجھے ساری دنیا کے حالات کا علم ہے
مرے روبرو
جو بھی ہوتا ہے
اسکی خبر ہے
مگر میرے اندر جو جوہر ہے
میں اس کے عرفان سے محروم ہوں
(شب گرد، ص 48(
شبِ گرد کی ہر نظم عمدہ ہے۔اس نظم میں شاعر نے خودی کی لاعلمی کو ظاہر کیا ہے۔کہ دنیا میں جو ہو رہا ہے لوگ  جو کچھ کر رہے ہیں اس کا تو علم رکھتے ہیں مگر خود کیا کررہے ہیں اس سے بے خبر رہتے ہیں۔جو ہم باہر تلا ش کرتے ہیںوہ خود میں موجود ہوتا ہے۔جس سے ہم بے خبر رہتے ہیں۔حمید الماس نے کنڑا شاعری کو اردو والوں تک پہنچایا ہے۔
شبِ گرد میں چندرکانت کسنوری کی سترہ نظمیں جو قابل ذکر ہیں۔کسنوری کنڑا کے مشہور شاعر ہیں۔ان کی شاعری عصر حاضر کے مسائل کی ترجمان ہے۔ان کے کلام کا انداز منفرد ہوتا ہے۔ان کی نظمیں اپنے اندر معنویت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ کسنوری کی شاعری میں فطرت کی عکاسی نظر آتی ہے جیسے سورج، زمین، ہوا، پہاڑ، جنگل، سبزہ، پھول، کھیت کھلیا وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ان کے ساتھ ندی‘سمندر پر بھی کلام ملتا ہے۔شاعر کبھی سورج کی بات کرتے ہیں تو کبھی چاند کی گفتگو کرتے ہیں۔حمید الماس کا یہ خوبصورت ترجمہ ملاحظہ کیجیے          ؎
کوئی عصمت مآب دو شیزہ
ایک عرصہ سے برہنہ پیکر
پھر رہی ہے اندھیری راتوں میں
اس کو لانا ہے اک سفید لباس
کیا میرے ساتھ تم بھی آئو گے
)شب گرد، ص 71(
ایک اور نظم کا ترجمہ پیش خدمت ہے         ؎
چاند کے نرم تیز ناخن سے
تیرگی کا لباس پھٹتے ہی
زانوئے شب سے روشنی پھوٹی
)شب گرد، ص 73(
کسنوری کی ایک تمثیلی نظم کا ترجمہ حمید الماس نے بڑی خوبی سے کیا ہے ملا حظہ کیجیے          ؎              
سر پر ہے
مچھلیوں کا ایک طبق
ہاتھ میں مچھلیاں تو پشت پہ بھی
اجلی اجلی سی مچھلیاں ہیں بندھیں
اور کندھوں پہ ہے بڑا سا جال
ایک مچھلی مگر سمندر کے
چوڑے سینے پر تیرتی آئی
(شب گرد، ص 77)
حمید الماس نے کنڑا ادب کے مسلم شاعر کے۔ایس نثار احمد کی نظموں کو بھی اردو کا جامہ پہنایا ہے۔نثار احمد کی شاعری کا مجموعہ’بے نام انگریز‘کنڑا ادب میں بے حد داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔کنڑا ساہتیہ اکیڈمی نے اس مجموعہ کو انعام سے نوازا۔اس کتاب سے حمید الماس نے دو نظموں کا ترجمہ کیا ہے ایک ’ خالی جگہ‘اور’بے نام انگریز‘۔ان نظموں کو اردو میں ترجمہ کرکے حمید الماس نے اپنی وفنکارانہ مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔
حمید الماس کی نثری تراجم میں ’پنجے منگیش رائو‘ پہلا ترجمہ ہے۔ جو’ہندوستانی ادب کے معمار‘  کے سلسلے میں ایک مونوگراف کنڑا کے معروف ادیب شری وی سیتا رامیا نے لکھا تھا۔ اسی مونوگراف کا ترجمہ حمید الماس نے کیا۔کنڑا کے ادیب ایچ۔تپے ردرسوامی کا مونوگراف جو شری بسویشور پرکنڑا میں لکھا گیا ہے۔حمید الماس نے ’بسویشور‘ کے نام سے اسکا ترجمہ کیا۔یہ ترجمہ حمید الماس کا دوسرا نثری ترجمہ ہے۔آپ کا تیسرا نثری ترجمہ کہانیوں پر مشتمل ہے۔اور یہ ترجمہ ’ماستی کی کہانیاں‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ دراصل یہ کتاب کنڑا کے ادب مین اونچا مقام رکھنے والی شخصیت ماستی وینکٹیش آئنگار جو بیک وقت ایک بہترین افسانہ نگار،شاعر اور نقاد کہلاتے ہیں۔ آئنگار کے منتخب پندرہ افسانوں(کہانیاں) کا ترجمہ الماس صاحب نے کیا ہے۔ ایک کہانی کا ترجمہ جو وینو گوپال سرب کی کنڑاکی تخلیق ہے۔جس کا ترجمہ حمید الماس نے اردو میں ’جلوس‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ رسالہ’شعروحکمت‘ میں شائع ہو چکا ہے۔
یہ کہانی شہر منڈالور کے بادشاہ وکرم رایا کے عجیب و غریب فرمان پر مبنی ہے۔وکرم رایا ریاست کے نوجوانوں کا ایک جلوس نکلواتا تھا۔جو سالوں سے رواں دواں ہے۔ ہر روزاس جلوس کے لیے نئے نئے احکام صادر کرتا تھا۔ ایک عرصہ سے  جلوس گشت کرنے کی وجہ سے گھروں میں مرد نام کو بھی نا تھے۔اور یہ جلوس راستہ میں کبھی آرام نہیں کر سکتا تھا ۔حکم تھا کہ اگر راستہ میں کوئی مر بھی گیا تو اس کی نعش کو روندتے ہوئے جلوس آگے بڑھیاور جس باغ، گائوں سے یہ جلوس گذرتا وہاں کے لوگ ان کی خدمت کریں۔ریاست کی ساری عورتیں پریشان تھیں۔گھروں کی دیکھ بھال عورتوں کے ذمہ تھی۔دیکھتے دیکھتے مردوں کی تعداد گھٹتی گئی۔ ہر عورت اپنے بچے کی حفاظت کے لیے فکر مند تھی۔اسی کا ایک اقتباس جس کا ترجمہ حمید الماس نے مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ملاحظہ کریں:
 ترجمہ ’’راچکّا اپنے ایک نورِ نظر کو پہلے ہی کھو چکی تھی۔اب آٹھ سال کا دوسرا لڑکا ہی اس کا واحد سہارا تھا۔وہ خوفزدہ تھی کہ کہیں سنکی مہاراج اور اسکے مصاحبین کی نظریں اس بچے کو بھی نہ کھا لیں۔‘‘
)شعر و حکمت1، کنڑا کہانی ’جلوس)، افسانہ نگار:وینوگوپال سرب، مترجم: حمیدالماس، ص 620(
اسی ریاست کا ایک دانشور کشپ جس کے دو لڑکے جلوس کا شکار ہو گئے وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا تیسرا لڑکا بھی اس کی نذر ہو۔اس لیے اس نے اپنے لڑکے موہن کو زنانی لباس و زیورات پہنانے لگا تھا۔تا کہ کوئی پہچان نہ پائے۔ریاست کا یہ حال تھاکہ ایسی ایک دو مثالیں ہر گھر میں موجود تھیں۔
اس سلطنت کا سپہ سالار سنگا میاّ پریشان تھا کیونکہ عورتیں بغاوت پر اتر آئی تھیں۔انھیں مرد کی ضرورت تھی۔ لہٰذا انھوں نے فیصلہ کر لیا۔ اس کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
ترجمہ’’پھر جلوس نکلا۔ مردوں کے بجائے عورتوں کا جلوس تھا۔ منڈالور کی خوابیدہ نسائیت بیدار ہو چکی تھی۔ لڑکیوں نے اپنی دادیوں اور مائوں کے ساتھ سنگا میا کا گھیرائو کیا۔ ہم شوہر چاہتے ہیں ہم شوہر چاہتے ہیں۔ ہمیں مرد دوست چاہیے۔عورتوں کے اس نعروں سے سارا شہر گونج رہا تھا۔جلوس میں چند عورتیں برہنہ تھیں۔‘‘
)ایضاً، ص 621(
یہ جلوس محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔محل کے داروغہ کیمپّا کو عورتوںنے اغوا کر لیا۔اور ایک مرد نے ہزاروں عورتوں کو آسودہ کیا۔ سنگا میاّ بھی نہ بچ پایا۔اس جلوس کے ہنگامہ میں چھپے مرد جو زنانی لباس میں تھے۔ اپنے کپڑے اتار کر عورتوں کے بغل گیر ہو گئے۔ایک مرد اور کئی عورتیں۔ اس طرح سو بچوں کے ایک والد  ہوئے۔اس کے بعد راچکّا خوش ہو گئی۔اور سپہ سالار کو موت کی سزا دی گئی۔اور بادشاہ ورم رایا بھی نہ رہے۔نئے بادشاہ کے ساتھ نیا فرمان بھی جاری ہوا۔اس ترجمہ کا آخری اقتباس ملاحظہ کریں:
ترجمہ’’نئے مہاراجہ کی تخت نشینی سے پہلے ہی ریاست کے دستور میں تبدیلیاں کی گئی۔کہ عورتوں کی اجازت کے بغیر کوئی جلوس نہ نکالا جائے۔اگر چند صورتوں میں جلوس کی تکمیل اور اس کی گشت ضروری ہو تو صفِ اول میں عورتیں رہیں۔اور چند کو سپہ سالار بنایا جائے اور جلوس کی طوالت ایک میل سے زائد نہ ہو۔‘‘
)ایضاً، ص 622(
حمید الماس نثر نگاری میں بھی ماہر نظر آتے ہیں۔ آپ نے بے حدعمدہ و شائستہ ترجمہ پیش کیا ہے۔یہ ترجمہ کم ہی  محسوس ہوتا ہے۔تخلیق کی جھلک اس میں نظر آتی ہے۔اکثر یوں ہوتا ہے کہ مترجم اصل تصنیف کے الفاظ کا استعمال ترجمہ میں کرتے ہیں۔مگر حمید الماس نے پوری ایمانداری سے ترجمہ کیا ہے۔ان تراجم کے ذریعہ آپ نے مترجم ہونے کا حق ادا کیا ہے۔

Zuleqa Begum (RS)
Dept of Urdu and Persian
Gulbarga University Gulbarga-585106(Karnataka)
Mobile:9008129182


ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں