21/5/20

جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کا اردو میں استعمال : صورت حال اور امکانات مضمون نگار: محمد جہانگیر وارثی





جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کا اردو میں استعمال : صورت حال اور امکانات

محمد جہانگیر وارثی


دنیا میں ہونے والی برق رفتار ترقیوں نے نہ صرف انسانی زندگی کو متاثر کیا بلکہ زبان وبیان اور تہذیب وثقافت کو بھی جدّت آشنا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ترقیوں کے پس منظر میں جہاں طبّی معاملات اور طعام و قیام کے نئے نئے مسائل پر غور وخوض کیا جاتا ہے، وہیںوسائلِ علُوم اور معلوماتی ذرائع کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ کیوں کہ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں بے شمارناممکنات ، ممکنات کے زمرے میں آچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شعبہ ہائے زندگانی کے نت نئے مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں ہمارے زاویۂ فکر میں تبدیلی آئی اور ہم مختلف طریقوں سے مستقبل کے مناظر کو بھی ا بھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے مستقبل کے حالات کا جائزہ قیاس آرائیوں سے جڑا ہوگا، مگر جب حال سے مستقبل کو جوڑ تے ہیں تو اِن قیاس آرائیوں میں بہت سی حقیقتیں پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے عہد میں فروغ ِ اردو کے امکانات کا تجزیہ کریں گے تو بہت سی باتیں واضح ہوں گی اور ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ آئندہ اردو ٹکنالوجی کے سہارے کس حد تک اپنا مقام متعین کرے گی۔ کیوں کہ اردو آج نئی نئی ایجادات کے سہارے فروغ پارہی ہے تو ظاہر ہے مستقبل میں ترقیوں کی رفتار کے پروں پر سوار ہوکر مزید آگے بڑھے گی ، مگر اس کے لیے لازمی شر ط ہے کہ اہلِ اردو انفارمیشن ٹکنالوجی کے امکانات پر مسلسل غور وفکر کرتے رہیں۔
اس مضمون میں اَساسی طور پر تین پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ اول، انفارمیشن ٹکنالوجی کے ابعاد وانسلاکات۔ دوم، انفارمیشن ٹکنالوجی اور اردو کا موجودہ استعمال ۔ سوم، انفارمیشن ٹکنالوجی کے تناظر میں اردو کے امکانات۔ 
موجودہ عہد میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی ترقیوں نے معلومات کے تبادلے میں ایک سے ایک شکل پیدا کردی ہے۔ یہ اصطلاح دراصل کمپوٹر کے عہد کی اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اس لیے رائج ہے کہ معلومات کے ضمن میں ہی انقلابات رونما ہوتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق آئندہ پابچ برسوں میں انٹر نیٹ سے منسلک آلات کی تعداد 50 ارب تک پہنچ جائے گی۔گویا ان آلات اور مشینوں سے وہی فرد اور جماعت فائدہ اٹھاسکتی ہے جوان سے جڑ کر خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی طاقت وصلاحیت رکھ سکے۔ اب ظاہر ہے ان مشینوں اور آلات سے زبان کارشتہ جڑا ہوتاہے۔ پروگرامنگ سے لے کر آپریٹنگ تک کے مرحلے میں زبان بھی ایک وسیلے کے طور پر اہم کردار ادا کرتی ہے۔ان آلات سے جو زبان جتنی زیادہ قریب ہوگی ، اتنی ہی اس زبان کی ترقی کی راہیں کھلتی جائیں گی۔امریکی مشہور مستقبل شناس ریمنڈ کرزویل تسلیم کرتے ہیں کہ 2045تک انسان حیاتیاتی مشین کے طورپر ابھرے گا۔ یعنی ہمیشہ کی زندگی پانے میں کسی حدتک کامیاب ہوسکتا ہے۔ حیات وممات کے فلسفے پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ تسلیم کرنا تو ناممکن ہے ، تاہم اس مستقبل شناس کے دعوے سے اتنی بات ضرور سامنے آتی ہے کہ دنیا کا منظر خاصا تبدیل ہوجائے گا اور زندگی کا نظریہ بالکل تبدیل ہوجائے گا۔ اب زبان کے ماہرین کے سامنے بھی نت نئے مسائل آئیں گے کہ اس صورت حال میں زبان کا کس حد تک کردار ہوگا اور کتنی زبان گلوبلائزیشن کے عہد میں اپنے آپ کو زندہ رکھ پائے گی۔
کمپیوٹر سے اردو کے رشتے یا اردو کی بات کی جائے تویہ سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر 40سالہ تاریخ رکھتا ہے۔ کیوں کہ 1980میںمرزا جمیل نامی پاکستانی فرد نے اردو سافٹ ویئر تیار کرنے والی غیر ملکی کمپنی سے رابطہ کیا اور کسی طرح اردو سافٹ ویئر کی شروعات ہوئی۔ہندوستانی اردو اخبارات میں سب سے پہلے روزنامہ ’سیاست‘ اور پاکستانی اخبارات میں ’جنگ ‘ نے اس کا استعمال کیا۔ یہ بیسویں صدی کی نویں دہائی کی بات ہے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اردو اخبارات ورسائل نے اس سے اپنا رشتہ جوڑا۔ اب اس طرح نہ صرف اردو انفارمیشن بلکہ تمام زبانوں کی انفارمیشن کا معاملہ جدید ٹکنالوجی سے جڑ گیا ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی ضروریات کے  بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا موجودہ عہد کے انسان کے لیے آکسیجن کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اگر ایک منٹ کے لیے انٹرنیٹ تعطل کا شکار ہوجائے تو اندازاً اکیس کڑور پیغامات کی ترسیل جمود کا شکار ہوجائے گی۔ زمینی، فضائی اور سمندری سفر متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کاکاروباری نقصان ہوگا۔گویا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ آج کی روحِ عصر ہے۔انٹرنیٹ موجودہ عہد کے دل کی دھڑکن ہے ادھر دل نے دھڑکنا بند کیا اُدھر موت واقع ہوئی‘‘۔
(زبان وادب؛ ششماہی مجلہ؛شعبہ اردو فیصل آباد پاکستان؛ اشاعت 2016؛ ص5)
جب کمپیوٹرسامنے آیا تھا تو اس کی زبان فقط انگریزی ہی تھی۔جس طرح دیگر عالمی زبانوں نے کمپوٹر سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی اسی طرح اردو بھی کوشش کرتی رہی۔ پہلے رومن رسم الخط میں لوگ اردو کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد یونی کوڈ کے استعمال نے انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کو کمپیوٹر سے جڑنے کا خاصا موقع دیا۔ یہاںتک کہ مائیکرو سافٹ نے اس پر توجہ دی ۔ اس حوالے سے ایم مبین لکھتے ہیں:
’’اب دنیا کے کسی بھی کمپیوٹر میں نہ صرف دنیا کی کوئی بھی زبان لکھی جاسکتی ہے بلکہ اس کے ویب صفحات آسانی سے اس کمپیوٹر میں کھل سکتے ہیں اور تیار بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مائیکرو سافٹ نے اپنے ونڈو کے 2000 کے ورژن میں اس تکنیک کو محفوظ رکھا۔ اور ونڈو کے اس ورژن میں انھوں نے ایسے فونٹ تیار کر ڈالے جن سے یونی کوڈ زبان میں تیار کیے گئے کسی بھی صفحات اور فائل آسانی سے کھل جائیں۔انھوں نے ونڈ وکے ساتھ Arile, Thohama,son shavit, Times roman جیسے ایسے کئی فونٹ دیے جن میں یونی کوڈ کی سہولیت موجود ہے۔ ‘‘
  )ایم مبین ، اردو اور انٹر نیٹ ، مشمولہ اردو میڈیا؛ ترتیب؛ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ، 2012، ص347)
جدید ٹکنالوجی سے اردو کو جوڑنے میں یونی کوڈ نے اہم کردار ادا کیا ۔ کیوں کہ اسی کے سہارے اردو کا استعمال فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ ، ٹویٹر ، ای میل کے علاوہ دیگر سوشل نیٹ ورکس پر بہ آسانی کیا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ آن لائن یونی کوڈ کنورٹر نے بھی اردو کے دائرے کو وسیع کیا ہے۔ان پیج سے یونی کوڈ اور یونی کوڈ سے ان پیج میں فائل تبدیل کرنے کی سہولت نے اردو کے فروغ کو یقینی بنایا ہے۔ اسی یونی کوڈ کی دین ہے کہ پی ڈی ایف فائل کے علاوہ سافٹ ویئر میں اردو کی کتابیں ، خبریں، مضامین اور تقاریر ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اب آپ کو انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کے استعمال کے لیے کسی اور زبان کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنے پورے کمپیوٹر کو اردو میں منتقل کرسکتے ہیں۔ ای میل، چیٹنگ، براؤزنگ سب اردو زبان میں کرسکتے ہیں۔ اردو یونی کوڈ کی ایجاد نے یہ ممکن کردکھایا ہے۔ اب آپ گوگل یا کسی بھی سرچ انجن میں جاکر اردو میں ٹائپ کریں اور اردو میں جوابات حاصل کریں۔ ‘‘
(اردو میڈیا،ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ، 2012، ص351)
یہ حقیقت ہے کہ انٹر نیٹ پر اردو کے دائرے کووسیع کرنے میں یونی کوڈ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو سے ناواقف فرد بھی اردو لکھنے کی کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوگیا۔ کیوں کہ صوتی لحاظ سے کی بورڈ کا استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے۔ فونوٹک کی بورڈ اردو ٹائپنگ میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل نٹ ورکنگ سائٹس پر بھی ارد و کاخاصا مواد موجود ہے۔ جن میں شعروادب سے لے کر صحافتی مواد بہت زیادہ ہیں ۔ اسی طرح کمپنیوں اور دیگر تجارتی چیزیں بھی ہیں ۔ ظاہرہے یہ سب یونی کوڈ کی ایجاد سے ہی ممکن ہوپایا ہے۔ 
جدید ٹکنالوجی سے جڑ نے کے بعد کئی سطح پر اردو کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔یو ٹیوب چینلس کے علاوہ بہت سے ایسے واٹس ایپ گروپ ہیں ، جن میں اردو کے مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے ۔ لوگ ان گروپس میں اردو کے متعلق کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔غزلیں ، کہانیاں ، ناول کے حصے، تبصرے، مراسلے اور نئی نئی رائے کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔  ایک سطح پر دیکھا جائے تو یہ چیزیں بہت معمولی ہیں، مگر گہرائی میں جانے سے اندازہ ہوتاہے کہ ٹکنالوجی سے ہر ایک کو بولنے والی زبان مل گئی اور سوچنے والا ذہن۔ کیوں کہ ہر فرد ان سائٹس اور گروپ میں تبادلہ خیال کا حق رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی رائے بھی پیش کرتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو نہ صرف زبان فروغ پاتی ہے،بلکہ انسانی ذہن ودماغ کو تقویت ملتی ہے۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال مثبت طریقے سے اردو میں بھی ہورہا ہے۔بہت سے نیوز پورٹل ہیں۔ ادبی وتخلیقی چیزوں کے لیے بہت سی ویب سائٹس اور بلاگ ہیں۔ ان بلاگ سے بھی اردو کا فروغ ہوا ہے۔ نیوز پورٹل، تخلیقی ویب سائٹس اور بلاگس کی فہرست سازی مقصو د نہیں ہے۔ اس لیے سلسلے وار ان کاشمار نہیں کیا جارہا ہے ۔ البتہ اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ نہ صرف برصغیر ہندو پاک میںبلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں بہترین افسانہ فورم اور نیوز ویب موجود ہیں۔ اس ضمن میں الگ سے یہ کام کرلیے جائیں تو مزید اردو کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔
 ملٹی لنگول ویب سائٹس، اگر ایسی ویب سائٹس ہوں گی تو دیگر زبانوں کے سہارے یوزر اردو کی خبریں اور ادبی چیزیں پڑھیں گے۔ اس لیے انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو کو مزید وسیع کرنے کے لیے ملٹی لنگول ویٹ سائٹس کی شروعات ہو نی چاہیے۔ اس سے کئی فائدے برآمد ہوں گے۔ اول، زبان کا سلسلہ درازہوگا ۔ اس کے علاوہ اشتہارات کے مواقع بھی پیدا ہوں گے ۔ کیونکہ اشتہار دینے والے جب ملٹی لنگول ویب سائٹ کو اشتہار دیں گے تو اس میں اردو کی شمولیت ہوگی اور اس طرح اردو میں اشتہارات تیار کرنے والے بھی سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ آن لائن اردو لرننگ پر خاصی توجہ کی ضرورت ہے ۔یوں تو اردو سکھانے کے لیے کئی ویب سائٹس ہیں، مگر ان پر خاطرخواہ موادہے اور نہ ہی خاطر خواہ ٹائم دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ناقص ویب سائٹس سے اردو سکھانا آسان نہیں ہے۔ اس ضمن میں اردو اکادمیوں اور ملک کے نامور اردو ادیبوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 انفارمیشن کے تبادلے میں تراجم کا اہم کردار ہے ۔ ظاہر ہے جب اس حوالے سے پیش رفت ہوگی تو انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو کا دائرہ وسیع ہوگا ۔ تراجم کے سلسلے میں بھی بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عالمی سطح کی بڑی زبانوں کے مترجم تیار کرنے کے لیے ار دو کی بڑی بڑی اکادمیوں کو حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ کیونکہ تراجم کے سہارے گلوبلائزیشن کے دور میں زبانیں فروغ پائیں گی ۔ تراجم کے امکانات سے اردو کا مستقبل مربوط ہے۔ کیونکہ اس سے معلومات کا بھی تبادلہ ہوتاہے اور تہذیب وثقافت کا بھی ۔ جس عہد میں ہم جی رہے ہیں،اس عہد کے تقاضے بہت نازک ہیں۔ اگر ان تقاضوں کو نظر انداز کردیا گیا تو زبان کا فروغ بہت آسان نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر اردو کو عالمی سطح پر انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں زندہ رکھنا ہے تو بہت سی حکمت عملیاں بنانا ہوں گی۔
انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو کئی سطحوں پر متاثر ہوئی ہے اور اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوا ہے۔ یونی کوڈ کے انقلاب کے بعد اردو سیکھنے کا رواج عام ہوا ہے۔ ہمیشہ اردو زبان کے رسم  الخط کے متعلق بھی بات ہوئی اور آج بھی ہورہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو اپنے رسم الخط سے بھی زندہ ہے۔ کیونکہ اس کی ساخت یونی کوڈ کے عہد میں اسے ممتاز بناتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو کے رسم الخط میں خود بہ خود کچھ نہ کچھ نیا ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ آج سوشل نیٹ ورک سائٹس پر بے شمار لوگ رومن رسم الخط میں اردو کا استعمال کررہے ہیں۔ ان کے استعمال سے اردو کا فائدہ کسی نہ کسی سطح پر ضرور ہورہا ہے، مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اردو رومن استعمال کرنے والے تمام افراد ایک طرح سے رومن اردو لکھ رہے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے کہ ہر ایک کا رومن لکھنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ آخر ان کے الگ الگ طریقے سے لکھنے سے اردو کا کیا نقصان ہوگا یا بھلا ، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اردو رومن رسم الخط کا سلسلہ جاری ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عہد میں یہ امکان ہے کہ آئندہ رومن میں اردو لکھنے والوں کا سلسلہ دراز ہوگا۔ اردو کو رومن میں لکھنے کے لیے باضابطہ کوئی کمیٹی تیار نہیں کی گئی ، مگر ازخود رومن اردو کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اس کے شروع ہونے میں ٹکنالوجی کا بھی عمل دخل ہے۔
اس کے علاوہ ٹکنالوجی کے استعمال سے اردو اسلوب بھی متاثر ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ کاغذ پر اردو لکھنے یا کتاب لکھنے والے اپنے متعینہ قاری کو ذہن میں رکھتے ہیں اور اپنے موضوع ومواد پر دھیان دیتے ہیں ۔ اس لیے ایسے لکھنے والوں کا اسلوب الگ ہوتا ہے ، مگر جب کوئی فرد سوشل سائٹس پر اردو لکھتا ہے تو اس کا اسلوب الگ ہوتاہے۔ وہ اپنے میسیج کو آسان بنانے اور قابل فہم رکھنے کے لیے اپنی زبان میں لچک پیدا کرتا ہے۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کا استعمال بڑی خوب صورتی سے کرتاہے۔ اس طرح اردو اسلوب بھی متاثر ہوا ہے۔ امید ایسی ہی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ سوشل نٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرنے والوں کا اسلوب اور بھی زیادہ متاثر ہوگا۔ الغرض یہ کہا جاسکتاہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ سوشل سائٹس کے ذریعے اردو سے قریب ہونے کے بعد لوگوں میں اردو تہذیب کو جاننے کا شوق بھی پیدا ہوا ہے۔ گلوبلائزیشن کے عہد میں ہر فرد نئی تہذیب جاننے کا شوقین نظر آتا ہے۔ تہذیب کے تئیں لوگوں کو شوقین بنانے میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا اہم کردار رہا ہے۔ ظاہر ہے جب عالمی سطح پر اردو کے تئیں لوگ متجسس ہوں گے تو اردو کا دائرہ وسیع ہوگا۔ میڈیا کے حوالے سے بھی لوگ اردو سے قریب ہوں گے ۔ ادب اور تہذیب کے حوالوں سے بھی لوگ اردو کی طرف متجسس نظروں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ اس صورت حال میں اردو مزید فروغ پائے گی۔ گویا اکیسویں صدی میں اردو کے امکانات بہت ہیں ، مگر شرط یہ ہے کہ کچھ مثبت ومستحکم طریقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ 

Prof. M. J Warsi
Chairman, Dept of Linguistics
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202002 (UP)
Mob.: 09068771999



ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں