مولانا سعید احمد اکبرآبادی اور دہلی
یونیورسٹی
جسیم
الدین
مولاناسعید احمد اکبرآبادی اپنے علم وفضل، اخلاق وسیرت،
جامعیت علم وفن اور تعلیمی وتحقیقی خدمات کے لحاظ سے قدیم اور جدید علمی حلقوں میں
منفرد وممتاز شناخت رکھتے ہیں۔آپ کی علمی ودینی اور تدریسی وصحافتی خدمات کا
دائرہ کافی وسیع ہے۔آپ نے قدیم وجدید دونوں درسگاہوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ایک طرف
مولانا سعید احمد اکبر آبادی دارالعلوم دیوبند سے وابستہ تھے تو دوسری طرف مولانا
نے ذاتی طور پر انگریزی،حساب،جغرافیہ اور تاریخ کا مطالعہ جاری رکھا۔مولاناسعید
احمد اکبر آبادی ہندوستان کے ان گنے چنے علمامیں سے تھے جنھیں اردو، فارسی اور
عربی کے علاوہ انگریزی پر بھی عبور حاصل تھا۔
مولانا کا شمار برعظیم کے ان روشن خیال اور ترقی پسند علما
میں ہوتاہے، جو ہمیشہ نئی باتوں کو اپناتے اور نئی قدروں کا احترام کرتے۔اسی لیے
ہر حلقہ انھیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتاتھا، خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی
ودینی مسلک سے کیوں نہ ہو۔مولانانے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس وتحقیق سے کیا،وہ
سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی، مدرسہ عالیہ، کلکتہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ اور
کئی دیگر اداروں میں مدرس اور لکچرر رہے۔ ہندوستان کے علاوہ یورپ وامریکا کے اہم
تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔مولاناکے علمی اور دینی کمالات
کے اعتراف میں پورپ اور امریکا کی متعدد یونیورسٹیوںنے انھیں وزیٹنگ پروفیسر کے
اعزاز سے نوازا۔1962میں انھیں مک گل یونیورسٹی مونٹریال (کینیڈا) میں بحیثیت مہمان
پروفیسر مدعو کیاگیا۔علاوہ ازیں انھوں نے دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں کے علوم شرقیہ
کے حلقوں کو اپنے خیالات اور علمی موشگافیوں سے بھی متاثر کیا۔
مولاناکی شخصیت کثیر الجہات ہے، ظاہر ہے کہ اس مختصر سے
مقالے میں ان کی تمام جہات کو اجمالاً بھی ذکر کرناناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے،
اس لیے اس مختصر مقالے میں مولاناسعید احمد اکبر آبادی اور دہلی یونیورسٹی کے
علمی رشتے کو اجاگر کیاجائے گااور یہ بتایاجائے گاکہ اس دانش گاہ کا کیامقام
ومرتبہ ہے۔نیز یہاں آپ کے استاذ محترم کون تھے،جن کی رہنمائی نے آپ کی شخصیت کو
عا لمگیر بنادیا۔سب سے پہلے دانش گاہ کی بات کی جائے گی۔ پھربات ہوگی آپ کے استاذ
محترم شمس العلما مولانا عبدالرحمن دہلوی کی،پھر مولاناسعید احمد اکبرآبادی کی۔
دہلی یونیورسٹی ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، جب اس کی
تاسیس عمل میں آئی، اس وقت دہلی میں صرف تین کالجز تھے، سینٹ اسٹیفن کالج،ہندو
کالج اور رامجس کالج۔ سینٹ اسٹیفن کالج کی تاسیس 1881 میں ہوئی۔ہندو کالج کی بنیاد
1899 میں پڑی اور رامجس کالج کی بنیاد 1917میں رکھی گئی۔اب دہلی یونیورسٹی کے
دوبڑے کیمپس ہیں، ایک ساؤتھ کیمپس اور دوسرانارتھ کیمپس، دونوں کیمپسز کے متعدد
کالجز کے علاوہ پوری دہلی میں73کالجز ہیں،علاوہ ازیں میڈیکل کالجزبھی ہیں۔ دہلی
یونیورسٹی کے کالجز کی تین قسمیں ہیں، پہلی قسم میں وہ کالجز شامل ہیں،جو مکمل طور
پر دہلی یونیورسٹی کے ماتحت ہیں، دوسری قسم ان کالجز کی ہے، جو صرف دہلی یونیورسٹی
سے منسوب ہیں،لیکن ان کے اپنے اختیارات ہیں اور تیسری قسم میں وہ کالجز داخل ہیں
جو یونیورسٹی کی تاسیس سے پہلے قائم ہوئے، ان کا انتظام وانصرام کالج کونسل اور
یونیورسٹی کے قوانین کے تحت انجام پاتاہے۔24کالجز ساؤتھ کیمپس میں واقع ہیں،جب کہ
باقی کالج نارتھ کیمپس اور دہلی کے مختلف مقامات پر قائم ہیں۔
سینٹ اسٹیفن کالج کاقیام دہلی یونیورسٹی کی تاسیس سے پہلے
ہوا،لیکن یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد اس کالج کو دہلی یونیورسٹی کے تحت کر دیا
گیا،البتہ اس کے کچھ مخصوص اختیارات ہیں،جو دہلی یونیورسٹی سے علاحدہ ہیں۔سینٹ
اسٹیفن کالج میںجہاں دیگر زبانوں کے شعبے تھے،وہیں عربی وفارسی کا شعبہ بھی
تھا،لیکن دہلی یونیورسٹی میں ضم ہونے کے بعد اس کالج میں عربی وفارسی میں داخلے کا
سلسلہ موقوف ہوگیا، جب کہ اردو کا شعبہ بدستور قائم رہا، لیکن پروفیسر ولی
اختراستاذ شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی اور ڈاکٹر شمیم احمد استاذ شعبۂ اردو سینٹ
اسٹیفن کالج، دہلی یونیورسٹی کی سعی پیہم اور جہد مسلسل کے بعد گزشتہ تین برسوں سے
سینٹ اسٹیفن کالج میں عربی وفارسی میں سرٹیفکیٹ،ڈپلوما اور اڈوانسڈ ڈپلوما میں
داخلے ہورہے ہیں، جویقینا خوش آئند قدم ہے۔فی الحال یہاں عربی وفارسی میں
سرٹیفیکیٹ اور ڈپلوما کے طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں، یہاں ڈاکٹر مجیب اختر استاذ
شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی اور ڈاکٹر ظفیر الدین شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی بحیثیت
استاذ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی کالج کے شعبۂ عربی وفارسی سے مولاناسعید
احمد اکبرآبادی کے استاذشمس العلما مولوی عبد الرحمن منسلک تھے۔ اس شعبے میں
انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں، ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند
نے انھیں جنوری 1932میں ــ’شمس العلما‘ کے معزز خطاب سے سرفراز فرمایا،یہ امر قابل ذکر
ہے کہ اسی سال مولوی ولایت حسین اسسٹنٹ مولوی عربک کالج،مدرسہ بنگال شمس العلما کے
خطاب سے نوازے گئے۔
مولوی عبد الرحمن پروفیسر عربی وفارسی سینٹ اسٹیفن کالج
دہلی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے فیلو تھے۔ آپ نے کئی سال تک ایم، او، ایل
فارسی کے دوسرے پرچے کے صدر ممتحن کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
یہ بیان کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ایم، او، ایل فارسی کے پہلے
پرچے کے صدر ممتحن ڈاکٹر سر محمد اقبال تیسرے پرچے کے قاضی فضل حق گورنمنٹ کالج
لاہور، چوتھے پرچے کے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اورینٹل کالج لاہور اور پانچویں
اورچھٹے پرچے کے مولوی محمد شفیع پروفیسر اورینٹل کالج لاہورتھے۔
دسمبر 1939کے آخری ہفتے میں دہلی میں انجمن ترقی اردو کے
زیر اہتمام’آل انڈیا اردو کانفرنس ‘ منعقد ہوئی، جو نہایت کامیاب رہی، اس میں
کثیر تعداد میں مندوبین، اراکین اور اردو کے شائقین نے شرکت کی۔ شمس العلما مولوی
عبد الرحمن اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلراور کانفرنس کے صدر نواب
مہدی یار جنگ بہادر نے اپنے مطبوعہ خطاب میں پوری مضبوطی کے ساتھ کہا کہ اردو کے
لیے کام کرنا ملک کے لیے کام کرنا ہے، کیونکہ یہ وہ زبان ہے جو ہندوستان کے طول
وعرض میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور یہ کانفرنس اردو کے احیا کاذریعہ ہے۔ انھوں
نے اردوکے حوالے سے مختصر وجامع گفتگو میں عثمانیہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی
اداروںکی اردو کے احیا کے لیے کی گئی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان میں
تعلیمی ادارے مفیدکام کررہے ہیں۔متعدد ممتاز شخصیات جیسے مسٹر گاندھی، پنڈت
جوہرالال نہرو، مسٹر اکبرحیدری، سرتیج بہادرسپرو وغیرہ کے کئی پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
دہلی کے چیف کمشنر نے اردو ریکارڈوں کی ایک نمائش کا افتتاح
کیا۔ دیگر قراردادوں کے علاوہ کانفرنس نے شمالی ہند کی یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ
وہ اردو کواپنا ذریعۂ تعلیم بنائیں۔
یہ تھے مولاناسعید احمد اکبرآبادی کے استاذمحترم شمس
العلما مولانا عبد الرحمن۔جنھوں نے 1934میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کو خط
لکھ کر یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ سینٹ اسٹیفن کالج دہلی آئیں اور عربی میں ایم اے
کریں۔ مولاناسعید احمد اکبر آبادی نے شمس العلما مولانا عبد الرحمن کی آواز پر
لبیک کہا اور کالج میں ایم اے عربک میں آپ نے داخلہ لے لیا۔ایم اے میں آپ نے
امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرکے اپنے استاذ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر
کیا۔دوسال بعد 1936میں جب آپ کے استاذمحترم شمس العلما عبد الرحمن ریٹائرڈ ہوگئے
تو آپ کو ہی شعبے کا استاذ بنایا گیا اورجب دہلی یونیورسٹی میں عربی،فارسی اور
اردو کا شعبہ شروع کیاگیا ،تو آپ کو ان تینوں شعبوں کا صدرمقررکیاگیا۔یہاں آپ نے
چھ سال تک تدریس کے فرائض انجام دیے،اسی کالج میں آپ کے زمانۂ تدریس میں پاکستان
کے سابق صدرجنرل ضیاء الحق آپ کے شاگرد تھے۔
مولاناسعید احمد اکبرآبادی نے قدیم وجدید دونوں قسم کی
درسگاہوں سے نہ صرف اکتساب فیض کیا، بلکہ انھیںدونوں قسم کے اداروں میں درس وتدریس
کابھی زریں موقع بھی ملا۔مولاناسعید احمد
اکبرآبادی نے جہاں محدث العصر علامہ انورشاہ کشمیری،مفتی عزیزالرحمن عثمانی،
مولانا شبیر احمد عثمانی، مولاناحبیب الرحمن عثمانی، مولانا مفتی اعزازعلی، مولاناحسین
احمد مدنی جیسی جبال العلم شخصیات سے قرآن وحدیث اور عربی زبان وادب سیکھا، وہیں
دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ ماہر سرمارس گویئر،وائس چانسلر دہلی یونیورسٹی کی
قیادت میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں شمس العلما مولانا عبد الرحمن سے عربی ادبیات
پڑھی اور پھر یہیں تدریسی خدمات پر بھی مامور ہوگئے۔ اسی لیے مولانا کی ذات وشخصیت
قدیم وجدید علوم وافکار کا حسین امتزاج
تھی۔آپ قدیم علوم کے ساتھ علوم جدیدہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور دونوں کے
تقاضوں سے پوری طرح باخبر تھے۔مولاناسعید احمد اکبرآبادی نے زندگی کو کنویں کے اندر
سے نہیں،بلکہ کائنات کی وسعتوں میں رہ کر دیکھا۔
مولاناسعید احمد اکبر آبادی علمی لیاقت کے ساتھ اعلیٰ
اخلاقی اقدار اور مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے، جس وقت وہ سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی
یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کررہے تھے، تو کسی نے مولانا سے پوچھا کہ آپ نے
عربی سے کیوں ایم اے کرنا پسند کیا، ہندوستان میں اس مضمون کے شعبے بہت کم ہیں،
نوکری مشکل سے ملے گی۔تومولانا سعید احمد اکبرآبادی نے جواب دیاکہ: ’کیا پورے
ہندوستان میں ایک جگہ بھی عربی کی نہیں نکلے گی؟‘ سوال کرنے والے نے کہا :’کیوں
نہیں‘۔تب مولانا نے کہا:’ اگر ایک جگہ بھی کہیں نکلے گی تو میں اپنے آپ کو اس
لائق بناؤں گا کہ اس جگہ پر صرف میرا ہی تقرر ہو‘۔ چناں چہ ایم اے کا امتحان پاس
کرتے ہی وہ سینٹ اسٹیفن کالج میں میں لکچرر مقرر ہوگئے۔یہ جذبہ اور محنت اگر مسلم
طلبہ میں پید اہوجائے تو ہندوستان ہی نہیں، پوری دنیا میں ان کو اپنا حق حاصل کرنے
میں کوئی دشواری نہیں ہوگی،کیونکہ تعصب لیاقت کے آگے بے اثر ہوجاتا ہے۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی مذہبی تنگ نظری اور علاقائی
عصبیت سے حد درجہ بے زارتھے،دارالعلوم دیوبند سے تعلق اور حنفی مسلک پرعامل ہونے
کے باوجود اس مسلک کے دوسرے علما سے یکسر مختلف تھے۔بہ وقت ضرورت حنفی مسلک پر بھی
اپنی انفرادی رائے کا بے دریغ اظہار کرتے،یا اس سے اختلاف رائے ظاہر کرنے میں کسی
طرح کے لیت ولعل سے کام نہیں لیتے۔مولانا اکبرآبادی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ
وہ دور جدید کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھ کر اسلامی تعلیمات کو ان کے مطابق ڈھالنے
کے قائل تھے، ان کایہ بھی خیال تھاکہ علماکی تین قسمیں ہوتی ہیں: ایک قدامت پسند،
دوسری ترقی پسند اور تیسری آزاد خیال۔مولاناکا شمار ترقی پسند علما میں ہوتا تھا،
وہ اجتہاد کو دور حاضر کی ضرورت سمجھتے تھے۔مولانا کے اندر نئے حالات کے مطابق نئی
راہیں پید اکرنے کا احساس وشعور اور مجتہدانہ بصیرت موجود تھی۔اس خوبی نے آپ کو
ہر دو طبقہ میں یکساں مقبول بنادیاتھا۔
مراجع
ماہنامہ برہان،جون1985
ڈاکٹر عقیلہ: جامعۃ دلہی واسہاماتہا فی الادب العربی
محمد حنیف شاہد،شمس العلماط: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،
مارچ2006
Islamic
Culture ,Vol 14,1940
اسراراحمد،’چند یادیں، چند باتیں‘ مشمولہ میثاق،
جلد34، شمارہ، 8، مرکزی مکتبہ تنظیم
اسلامی،لاہور اگست1985
نسیم احمد (سابق وائس چانسلر اے ایم یو علی گڑھ) مولانا
سعید احمد اکبر آبادی : احوال وآثار، ص: 11، ط: شعبۂ سنی دینیات اے ایم یو2005
Dr. Jaseemuddin
R-234/A, 3rd Floor, Jogabai
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025
Mob.: 9711484126
ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں