27/5/20

تاریخ عربی ادب کی مشہور کتابوں کا جائزہ محمد شاکر رضا





تاریخ عربی ادب کی مشہور کتابوں کا جائزہ
 محمد شاکر رضا

عربی ادب کی تاریخ سے مراد عربی زبان و ادب کا ارتقااور اس کے مختلف ادوار اور زمانوں کی تاریخ ہے جس میں اس زبان کے نامور شعرا و ادبا کا تذکرہ اور ان کے ادبی شہ پاروں کو بیان کیاجاتاہے، عربی ادب کی تاریخ میں اس کی ترقی اور تنزلی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔کبھی کبھی عربی ادب کا استعمال وسیع مفہوم میں بھی کیا جاتاہے جس میں عربی و اسلامی تراث کا تذکرہ ہوتاہے،( اس مقالے میں عربی ادب سے اس کا وسیع مفہوم مراد نہیں ہے)۔ عربی اور اسلامی قوموں کی سیاسی اور سماجی ترقی و تنزلی کے اعتبار سے عربی ادب کی تاریخ کو درج ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیاجاتاہے :
.1           دور جاہلی :  یہ دور پانچویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے جب عدنانیوں نے یمنیوں سے خودمختاری حاصل کی اور 622 عیسوی میں آغاز اسلام پر یہ دور ختم ہوجاتا ہے۔
.2            آغاز اسلام تاعہد بنی امیہ :  یہ دور اسلام کے آغازیعنی بعثت نبوی سے شروع ہوکر 132ہجری میں عباسی حکومت کے قیام پر ختم ہوجاتاہے۔
.3           دور عباسی :  یہ دور عباسیوں کی حکومت کے قیام سے شروع ہوکر 656 ہجری میں تاتاریوں کے ہاتھوں سقوط بغداد پر ختم ہوتاہے۔
.4            دور ترکی :  تاتاریوں کے ہاتھوں سقوط بغداد پر اس دور کی ابتدااور 1220 ہجری میں عصر النہضہ  یا انقلابی تحریک کے شروع ہونے پر اس کی انتہا ہوتی ہے۔
.5           دور حاضر:   محمد علی پاشا کے مصر پر حاکم ہونے سے اس کی ابتداہوتی ہے اور اب تک یہی دور جاری ہے۔
عربی زبان کی تاریخ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، ہر محقق اس بحر بیکراںمیں ڈوب کر موتیاں نکال سکتا ہے، اس میدان میں بے شمار علما اور اسکالروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ دور حاضر میں عربی زبان و ادب کی تاریخ پر جن اصحاب علم وفضل نے کتابیں تحریر کی ہیں ان میں جرمن مستشرق کارل بروکِلمان(C. Brockelmmann)، جرجی زیدان،مصطفی صادق رافعی، طہ حسین،  محمود مصطفی، عمر دسوقی، عُمر فَرّوخ، حنا فاخوری، احمد حسن زیات، اور شوقی ضیف کافی مشہور ہوئے۔
کارل بروکِلمان (1956-1868)کی پیدائش جرمنی کے شہر روستک میں ہوئی اس نے 1890میں فرانس کی ستراسبرگ (Strasbourg) یونیورسٹی سے ’’ابن اثیرکی کتاب الکامل اور تاریخ طبری کے درمیان تعلقات‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، یوروپ کی جامعات میں کارل بروکِلمان کو سامی علوم وفنون اور تاریخ تراث عربی میں بیسویں صدی کے نصف اول کا سرخیل اور امام تصور کیاجاتا ہے، اسے عربی کے علاوہ یونانی، لاطینی، عبرانی، سریانی، ترکی اور فارسی زبانوں پر بھی دسترس حاصل تھی، اس نے عربی زبان وادب کا مطالعہ اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردیاتھا، بروکِلمان نے عربی و اسلامی علوم و فنون پر متعدد کتابیں لکھیں، لیکن جس کتاب کی وجہ سے اسے شہرت دوام ملی وہ ’’تاریخ الأدب العربی ‘‘ ہے، اصلاً یہ کتاب جرمن زبان میں ہے، اس عظیم علمی و اسلامی امانت کو ڈاکٹر عبدالحلیم نجار، یعقوب بکر اور رمضان عبدالتواب نے عرب لیگ کی مالی اعانت سے عربی زبان میں چھ ضخیم جلدوں میں منتقل کیا، اس کتاب میں مشہور مصنّفین اورمشرق و مغرب میں منتشر مختلف عربی و اسلامی علوم وفنون کی کتابیں، مخطوطات، شروح و حواشی اور دیگر تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
عرب علما واسکالروں نے عربی ادب کی تاریخ پر اس سے پہلے جو کتابیں لکھیں ان کا مقصد تعلیمی ہواکرتا تھا، ابن ندیم کی الفہرست، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور اس موضوع پر دیگر کتابیں ادبی ذوق و استعداد کو پروان چڑھانے میں معاون تھیں، لیکن مسلمانوں کی علمی، ادبی اور فکری میراث کی تحقیق و تنقید یا تحلیل و تجزیہ سے یہ کتابیں خالی تھیں، ان میں تاریخی تفصیلات، نحوی و فقہی مدارس کا پرزور بیان، شعرا کے ادبی معرکے اور ادبا و شعرا کے درمیان موازنہ و مقابلہ کی طویل داستان توملتی ہے لیکن اس بات کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے کہ عربی و اسلامی ادب نے علوم وفنون کی ترقی میں کیارول اداکیا یا اس نے تہذیب و تمدن کے حوالے سے دنیا کو کیا دیا، یا حق اور بھلائی کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرنے میں اس کا کیاحصہ رہا، مُترجمِ کتاب ڈاکٹر عبدالحلیم نجار کتاب کی پہلی جلد کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :  ’’عربی زبان کا قاری جب بھی عربوں کے علوم و فنون کو تلاش کرتا، یا یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ عربی زبان نے سائنسی علوم وفنون میں کیا خدمات انجام دی ہیں، یا دنیا کی تہذیب و تمدن کی ترقی میں اس کا کیا رول رہا ہے، یا وہ دنیا کے کتب خانوں میں عربوں کے بکھرے ہوئے علمی و فکری ورثے کو اس غرض سے احاطہ کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ انھیں آیات بیّنات سمجھ کر ان پر فخر ومباہات کرسکے یا انھیں اپنی حیات و بقا کے لیے ذریعہ اور وسیلہ سمجھے، یا کم ازکم یہ معلوم کرسکے کہ اس لازوال میراث سے دنیا کی زبانوں میں کیا ترجمہ ہوا ہے، اس پر کیا تحقیقی کام ہوئے ہیں جن کی وجہ سے علم وادب کو مشرق ومغرب میں ترقی ملی۔ تو (قاری) کی دلی تمناّ ہوتی کہ کاش عربی ادب کی تاریخ پر کارل بروکِلمان کی کتاب عربی زبان میں ہوتی۔ یہ وہ اہم مقاصد ہیں جن پر عربی ادب کی تاریخ لکھتے وقت کارل بروکِلمان کی نگاہیں تھیں اور اس کام کو انجام دیتے وقت مصنف پر جامع عالمی انسانی اقدار کا غلبہ تھا‘‘۔
یہ اقتباس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کارل بروکِلمان نے جس وقت عربی ادب کی تاریخ لکھی شاید اس وقت اس موضوع پر اس طرز کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ لہٰذا بروکِلمان کو اس زاویے سے ادب عربی کی تاریخ کے فن کا موجد اور مؤسس کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے عرب مصنّفین کے اسلوب کے برخلاف عربوں کی میراث کو عقلی، فکری، علمی اور ادبی نقطۂ نظر سے پیش کیا ہے، اس کے بعد مشرق و مغرب میں جب بھی عربی ادب کی تاریخ لکھی گئی تو اس کتاب کے منہج کو نظر انداز نہ کیا جاسکا اور عربی ادب کی تاریخ کی تمام کتابیں اسی نہج پر لکھی گئیں۔ اس کتاب میں بروکِلمان نے عربی ادب کے مختلف ادوار و اماکن اور ان میں مختلف علوم وفنون کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے جو عربی ادب کے آغاز سے عصر حاضر تک کوشامل ہے۔ یہ کتاب عربی اور اسلامی مطالعات کے حوالے سے انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی جلد میں ماضی میں تاریخ ادب پر لکھی گئی کتابوں، ان کے مناہج او رمصنّفین کا تذکرہ ہے۔ دوسری جلد میں 750 سے 1000 صدی عیسوی کے درمیان برپا ہونے والے عرب انقلاب کو بیان کیاگیا ہے، جس میں دور عباسی میں بغداد، جزیرۃ العرب، شام اور مصر کے شعرا کا تذکرہ ہے، اس کے بعد مصنف نے نثری کاوشات کا ذکر کرتے ہوئے کوفہ، بصرہ، بغداد، ایران اور مشرقی ممالک میں عربی علوم و فنون کے ارتقا اور ان کے مختلف مدارس ومناہج پر گفتگو کی ہے۔ تیسری جلد میں تاریخ کی ابتدا، حدیث اور علوم حدیث، فقہ اور فقہی مسالک کا بیان ہے۔ چوتھی جلد میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ادب وثقافت اور علوم وفنون نے قرآن کریم سے کس طرح استفادہ کیا، اس کے علاوہ فقہ،تفسیر قرآن، عقائد، تصوف، فلسفہ، ریاضی، علم الافلاک، جغرافیہ، طب اور سائنسی علوم پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں جلد میں 1010 سے 1258 کے درمیان فروغ پانے والے اسلامی ادب پر گفتگو کی گئی ہے جس میں مختلف ابواب کے ضمن میں شاعری، نثر، بلاغت اور لسانیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چھٹی اور آخری جلد میں بروکِلمان نے ملکوں، شہروں، شخصیتوں اور نبیوں کی تاریخ پر گفتگو کی ہے۔
اس طویل سفر میں بروکِلمان سے کہیں کہیں لغز شیں بھی ہوائی ہیں جن کی طرف عرب علما و اسکالروں نے نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان کی تصحیح و تصویب کاکام بھی کیا، لیکن اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا کے کتب خانوں میں تراث عربی و اسلامی کے جو مخطوطے پڑے تھے ان کا بروکِلمان نے پہلی بارتعارف پیش کرکے تنہاوہ کام کر دکھایا جو اس وقت کے بہت سارے حکومتی اور غیر حکومتی ادارے بھی نہ کرسکے۔
عصر حاضر میں عربی زبان و ادب کے کارواں کو آگے بڑھانے میں جن شخصیتوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں جرجی زیدان (1914-1861) کا نام بھی شامل ہے۔
جرجی زیدان نے کارل بروکِلمان کے طرز پر ’’تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ‘‘ کے نام سے ادبیات عربی کی تاریخ لکھی۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں تین سو ساٹھ صفحات ہیں جن میں دور جاہلی، آغاز اسلام اور اموی دور کا احاطہ کیاگیاہے۔ کتاب کا آغاز تمہیدی مقدمے سے ہوتاہے جس میں زبان کے آداب، مصادر ادب، یونانی ادب اور اسلام سے قبل عربوں کے آداب کا تذکرہ ہے، جاہلی دور کے ادب پر گفتگو کرتے ہوئے جاہلی شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، آغاز اسلام کے دور میں عربوں کے آداب، شاعری اور خطابت میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں، شاعری کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کاکیاموقف تھا، علوم وفنون میں کیاترقی ہوئی، ان سب چیزوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ اموی دور میں اس زمانے کی خصوصیات، ادب میں ان کے اثرات، خطابت، خطبا اور انشا پردازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کی دوسری جلد چار سو صفحات پر مشتمل ہے جن میں عصر عباسی کے آغاز یعنی 132ہجری سے اس کے اختتام یعنی 656ہجری تک کے ادب پر روشنی ڈالی گئی ہے، عصر عباسی کو چار ادوار میں تقسیم کیاگیا ہے اور ہر دور کی سیاسی اور سماجی خصوصیتوں کو بیان کرتے ہوئے اُن ادوارکے علوم وفنون پر گفتگو کی گئی ہے۔ تیسری جلدبھی چار سو صفحات پر مشتمل ہے مگر یہ باقی جلدوں سے اس اعتبار سے الگ ہے کہ اس میں بے شمار علمی و ادبی کتابوں کا تعارف پیش کیاگیاہے، اس جلد میں مصنف نے عباسیوں کے چوتھے دور کے علوم وفنون کے علاوہ مغل اور عثمانی دور کے علوم وفنون پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ چوتھی اور آخری جلد بھی چار سو صفحات پر مشتمل ہے جن میں دور حاضر کے عربی ادب کی تاریخ کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔
’’تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ‘‘ کو علمی حلقوں میں ادبیات عربی کے حوالے سے بڑی پذیرائی ملی، یہ کتاب ادبیات عربی کے میدان میں معلومات کا ایک خزانہ ہے کیونکہ مصنف نے اس کتاب کے ذریعے عربی زبان و ادب کے شہروں، زمانوں، شخصیتوں، امتیازی خصوصیتوں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے اور عربی زبان و ادب کے شائقین اور اسکالروں کو نئی دنیا سے متعارف کیاہے۔
احمد حسن زیات بیسویں صدی میں عربی زبان و ادب کے حوالے سے بہت معروف نام ہے۔
احمد حسن زیات عصر حاضر میں عربی نثر نگاری کے امام تصور کیے جاتے ہیں، ان کا اسلوب بے حد آسان اور واضح ہوتاہے، ان کے بعض معاصرین نے تو یہ بھی دعوی کیاہے کہ زیات کا اسلوب عربی زبان میں بیسویں صدی کے مشاہیر مصطفی صادق رافعی کے اسلوب سے زیادہ واضح، محمود عقاد کے اسلوب سے زیادہ آسان اور طہ حسین کے اسلوب سے زیادہ مختصر ہوتاہے۔ احمد حسن زیات نے اپنی تحریروں میں ادبی، تنقیدی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی زاویوں سے گفتگو کی ہے، انھوں نے مطلق العنانی اور جاگیر دارانہ نظام پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے جمہوریت کی طرف لوگوں کو دعوت دی ہے، آپ نے نام نہاد پارلیمنٹری کونسلوں کی بھی مذمت کی اور عوام کو آزادی کے لیے بیدار کیا، مستشرقین کے اس زعم کا بھی ردکیاہے کہ اسلامی تہذیب وثقافت یونانی تہذیب و ثقافت سے ماخوذ ہے، آپ نے ان دعووں کو بھی باطل قرار دیا جن میں کہا گیا ہے کہ مصر کی قوم دراصل فرعونی قوم ہے اور انھیں عرب سے خود کو الگ سمجھنا چاہیے۔ ادبی، تنقیدی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر اُن کے یہ مقالے اُن کی مشہور کتاب ’’وحی الرسالۃ‘‘ میں یکجا کردیے گئے ہیں۔
احمد حسن زیات نے تاریخ الأدب العربی کے نام سے عربی ادب کی تاریخ 1916میںلکھی،اس وقت تک یہ موضوع لوگوں کے درمیان اس قدر مشہور نہیں تھا۔ بنیادی طور پر انھوں نے یہ کتاب انٹرمیڈیٹ کے طلبا کے لیے تصنیف کی تھی، اس کے پہلے ایڈیشن میں خود مصنف نے کتاب کا ہدف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا :  ’’ہم نے اس کتاب کو ادب کے اساتذہ و ماہرین کے لیے نہیں بلکہ نونہالوں کے لیے لکھا ہے اور تفاصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف بنیادی باتوں پر روشنی ڈالی ہے‘‘۔
مصنف نے اپنی کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے، ابواب سے قبل ایک مقدمہ کا اضافہ بھی ہے۔ مقدمہ میں ادب اور تاریخ ادب کی تعریف کی گئی ہے۔ ادب کی یوں تعریف کی گئی ہے :  کسی زبان کے شعرا ومصنّفین کا وہ کلام، جس میں نازک خیالات و جذبات کی عکاسی اور باریک معانی و مطالب کی ترجمانی کی گئی ہو، اس زبان کا ادب کہلاتا ہے، اور تاریخ ادب کی یوں تعریف کی گئی ہے : ’’کوئی زبان کتنے متفرق ادوار سے گزری، مختلف زمانوں میں اسے ادبا وشعرا نے کس قدر نظم ونثر کا ذخیرہ دیا، اور وہ کون سے اسباب تھے جو اس کی ترقی یا تنزلی او رتباہی کے باعث بنے، یہی وہ علمی مباحث ہیں جنھیںہم اس زبان کے ادب کی تاریخ کہتے ہیں‘‘۔ مقدمہ ہی میں عرب کی بود وباش، ان کے طبقات، مشہور قبائل اور زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے سماجی، سیاسی، دینی اور عقلی احوال پرگفتگو کی گئی ہے۔
پہلے باب کو مصنف نے عصر جاہلی کے لیے مختص کیا ہے، اس میں عربی زبان کے آغاز، نثر کی قسمیں، زمانہ جاہلیت کے مشہور مقررین، شعر کی انواع واصناف اور ان کی خصوصیات، شعرا کے طبقات اور ان کی شاعری کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب میںآغاز اسلام اور عہد بنی امیہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس میں ادب اسلامی کے مصادر و مراجع، شعرا کے طبقات اور تقریر و ادب کے نمونے پر گفتگو ہے۔ تیسرے باب میں عصر عباسی کا احاطہ کیاگیا ہے، اس میں عصر عباسی میں عربی زبان کے ارتقا، نثر و انشا پردازی، شعر میں اس دور کی ثقافت و تمدن کے اثرات، شعری نمونے، شعراے مولّدین، شعرائے اندلس، عہد فاطمی میں مصری علوم و فنون، شعر و ادب، علوم شرعیہ، علوم عقلیہ، قصے کہانیاں اور عربی مقامات کا بیا ن ہے۔ چوتھے باب میں سقوط بغداد کے بعد ترکی دور اور اس زمانے کے مشہور شعراو مصنفین کا تذکرہ ہے۔ پانچویں او رآخری باب میں عربی ادب کی نشاۃ ثانیہ اور اس کے وسائل وذرائع، اس دور کے مشہور مصنّفین، ادبا اور مقررین کا جائزہ لیاگیا ہے۔ مصنف نے کتاب کے آخر میں مشکل و نامونوس الفاظ و تراکیب کے معانی و مطالب بھی بیان کردیے ہیں۔ یہ کتاب تاریخ ادب عربی کے طالب علموں کے لیے بے حد مفید ہے، اِس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب مصر، عراق، شام اور ہندوپاک کی مختلف جامعات و کالجز میں داخل نصاب ہے اور اب تک اس کے سیکڑوں ایڈیشن شاید ہوچکے ہیں۔ مصنفِ کتاب کی وفات یعنی 1968تک ہی یہ کتاب 23مرتبہ چھپ چکی تھی۔ ہر ایڈیشن کو مصنف نے پہلی سے بہتر بنانے کے لیے حذف و اضافہ سے کام لیا ہے۔
عمرفَرّوخ(1987-1906) عربی زبان کے مشہور ادیب، مفکر، مؤرخ اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کی پیدائش لبنان کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی، ان کے والدین کے علاوہ اس گھر کے دوسرے افراد بھی تعلیم یافتہ تھے، ایسی علمی اور پاکیزہ فضا میں عمر فروخ کی نشوونما ہوئی، بیروت کے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا سفر کیا اور فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس دوران انھوں نے جرمنی کے علاوہ یوروپ کے دوسرے شہروں کا بھی سفر کیا اور متعدد قابل اور نامور مستشر قین سے استفادہ کیا۔ عمر فروخ کو عربی کے علاوہ فرانسیسی، جرمن، انگلش، فارسی اور ترکی زبانوں پر بھی ملکہ حاصل تھا۔
عمر فروخ کی کتاب ’’تاریخ الأدب العربی‘‘ کو علمی اور ادبی دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی، اس کتاب کو سب سے پہلے بیروت کے مشہور پبلشردارالعلم للملایین نے 1965میں شائع کیا۔ یہ کتاب چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے،پہلی جلد قدیم ادب یعنی دور جاہلی کے آغاز سے سقوط بنی امیہ تک پر مشتمل ہے، اس جلد میں مصنف نے دور جاہلی کی شاعری، زبان و ادب، سیاسی و ادبی خصوصیات، عرب قبیلوں کے مختلف لہجات اور ان کے طبعی وسماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے، دور جاہلی کی ادبی جہتوںکی خصوصیات اس دور میں شاعری کے رواج، اس کی قدرو قیمت، شعرا کی اہمیت، شعر معلقات، شاعری کی خصوصیات او رنثر نگاری پر انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے اس دور کے عظیم شعرا او رنثر نگاروں پر اہم مباحث لکھے ہیں۔ اس کے بعد مصنف نے آغاز اسلام کا ذکر کرتے ہوئے اس زمانے کی نثر نگاری اور شاعری کے بارے میں گفتگو کی ہے، پھر بنی امیہ کے دور میں شعر اور نثر پر بات کرتے ہوئے مشہور شعرا اور خطبا کی سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسری جلد میں چوتھی صدی ہجری تک عباسیوں کے مختلف ادوار اور ان کے ادب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسری جلد میں پانچویں صدی ہجری کے آغاز سے ترکی حکومت کی تاسیس تک کے ادب کا ذکر کیاگیاہے۔ چوتھی جلد بلادمغرب اور اندلس کے ادب پر مشتمل ہے جس میں فتح اسلامی کے آغاز سے ملوک الطوائف کے اختتام تک کے احوال پر گفتگو کی گئی ہے۔ پانچویں جلد میں مرابطین اور موحدین کے زمانے کے ادب پر بات کی گئی ہے۔ چھٹی جلد بلادمغرب اور اندلسی ادب کے لیے مختص ہے جو ساتویں صدی کے آغاز سے دسویں صدی ہجری کے وسط تک کے ادب کو شامل ہے، اس جلد میں بلادمغرب او راندلس کی ثقافتی زندگی، ان شہروں میں اسلامی تمدن کے ارتقا اور نامور شعر اوادبا جیسے ابن خلدون، معتمدابن عباد، ابن زیدون وغیرہ کی حیات اور کارناموں کا بیان ہے۔ مصنف کا اسلوب یہ ہے کہ وہ مختلف ادوار کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور پر گفتگو کرتے ہیں، اس کے بعد اس زمانے کے شعرا و خطبا کا تذکرہ کرتے ہیں، پھر ان کے شعری اور نثری نمونے پیش کرتے ہیں۔ یہی اسلوب تمام جلدوں میں اختیار کیاگیا ہے۔ آخری جلد کے مقدمے میں مصنف نے بیان کیاہے کہ انھوں نے اس ادبی، شعری، تاریخی اور سماجی ذخیرے کی تالیف کے لیے ہزاروں معلوماتی رکارڈ جمع کیے اور مشاہیر ادب کی تاریخ، سیرت، مصادر ومراجع یادیگر معلومات کے لیے ہر بار انھوں نے ان رکا رڈوں کی طرف رجوع کیا۔ اس سے اس کتاب کی تصنیف میں انھوں نے جو مشقتیں اٹھائی ہیں ان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف پر حکومت کویت نے 1985میں مصنف کو اعزازی سند سے نوازا۔ اسلوب کے اعتبار سے یہ کتاب بے حد دلچسپ او رمواد کے اعتبار سے بے انتہا کارآمد ہے، عربی زبان کے طلبا کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
شوقی ضیف (2005-1910) عصر حاضر کے مایہ ناز محقق، ناقد اور ادیب ہیں، آپ نے ادب، بلاغت، نحو، تذکرہ، سفرنامہ، نثر ونظم اور تحقیق وتنقید میں گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں، آپ کی متعدد تصنیفات مصر اور دیگر ممالک میں داخل نصاب ہیں۔
شوقی ضیف نے معاصر ادب پر بھی لکھا، معاصر ادب پر جو کتابیں لکھی گئیں ان میں ’’الأدب العربي المعاصرفي مصر‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، مصنف نے اس کتاب میں جدید عربی ادب کے ارتقا کی تاریخ بیان کی ہے، 1850سے 1950تک کے سوسالہ شعر وادب کی تصویر کشی کی اور معاصر ادب پر اثر انداز ہونے والے مختلف اسباب و عوامل کا تنقیدی جائزہ لیاہے، شاعری کے ارتقا او رشعری رجحانات کی منظر کشی کی ہے، اس میں نثر کا ارتقا او رمحافظین وجِدّت پسند مصنفین کے درمیان ہونے والے معرکوں کا تفصیلی تذکرہ بھی آگیاہے، ان ادباوشعرا کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے عمدہ اور نفیس ادبی شہ پاروں کا جائزہ بھی لیاگیا ہے، مصنف نے یہ ساری باتیں بڑی گہرائی اور خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کی ہیں جس کی وجہ سے یہ کتاب ایک عظیم ادبی ذخیرہ اور تاریخی شاہکار بن گئی ہے۔ تین سوصفحات پر مشتمل اس کتاب کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب تک اس کے ایک درجن سے زائد ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں، اسے مختلف کالجوں او ریونیورسٹیوں میں داخل نصاب کیاگیا، ہندوستان میں NET اور JRF کے امتحانات کی تیاری کے لیے اسے نہایت معاون اور مفید ماناجاتاہے۔
صاحب تصانیف کثیرہ حنا فاخوری عصر حاضر میں عربی زبان و ادب کے عظیم مصنف، مؤرخ، ادیب اور محقق شمار کیے جاتے ہیں۔
حنا فاخوری کی کتاب ’’تاریخ الأدب العربي‘ ساڑھے گیارہ سو صفحات اور چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عربوں اور عربی زبان کے ابتدائی حالات، ادب جاہلی اور شعرمعلقات کا بیان ہے۔ دوسرے باب میں عہد خلفائے راشدین اور عہد بنی امیہ کی تصویر کشی کی گئی ہے۔اس میں عربوں کی زندگی میں اسلام کے اثرات، خلفائے راشدین اور بنی امیہ کے عہد کی شاعری کی اہمیت، شاعری اور نثر نگاری کے اصناف اور اس زمانے کے علوم وفنون پر گفتگو کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں عہد عباسی کی تاریخ بیان کی گئی ہے جس میں عہدِ عباسی کی شاعری، شاعری میں انقلابی و تجدیدی رجحانات اور نثر نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے، مشہور شعرا اور ادباکی سوانح اور ان کی خدمات پر گفتگو کی گئی ہے، اور عہد عباسی میں علوم وفنون کے فروغ اور ارتقاپر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اس دور میں شعر وادب میں پیدا ہونے والے جمود وتعطل اور اس کے اسباب و عوامل کا بھی جائزہ لیاگیاہے۔ چوتھے باب میں اندلسی ادب کا تذکرہ ہے جس میں فتح اندلس، اندلس کی تہذیب و ثقافت، شاعری، موشحات، مشہور ادبا و شعرا اور اندلس میں علوم و فنون کی ترقی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں باب میں ترکی دور کا بیان ہے، اس باب میں ترکی ادب میں شاعری، نثر نگاری اور اس کے علوم و فنون پر گفتگو کی گئی ہے۔ چھٹے اور آخری باب میں موجودہ دور پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں موجودہ دور کا تعارف، اس دور میں عربوں کی بیداری کے اسباب و وسائل، شعری خصوصیات، نثری اصناف اور موجودہ دور کے مشہور شعرا و ادبا پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیز، کالجز اور دینی مدارس میں عرصۂ دراز سے عربی ادب اور تاریخ عربی ادب پڑھنے اور پڑھانے کا رواج ہے، اس مضمون کی تعلیم و تعلم کے لیے عربی کتابوں پر اعتماد کیاجاتا ہے، عربی کی ان کتابوں سے استفادہ کرنا عربی کے اساتذہ اور طلبا کے لیے تو آسان ہے مگر دوسرے شعبوں کے اساتذہ اور طلبا کے لیے ان کتابوں کا سمجھنا اور ان سے استفادہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسی صورت میں یہ ضرورت پیش آئی کہ عربی ادب کی تاریخ اردو زبان میں لکھی جائے تاکہ اردو داں حضرات جو عربی ادب اور اس کی تاریخ سے شغف رکھتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھا سکیں، چنانچہ اب تک عربی ادب کی تاریخ کے موضوع پر متعدد کتابیں اردو زبان میں لکھی جاچکی ہیں، عربی ادب کی تاریخ کے موضوع پر اردو زبان میں جو کتابیں میرے محدود مطالعے میں آئیں،  ذیل میں مختصراً  ان کا تعارف پیش کیاجارہا ہے۔
اردو زبان میں عربی ادب کی تاریخ پر مولانا عبدالرحمن طاہر سورتی کی ’’تاریخ ادب عربی‘‘ ایک اہم کتاب ہے جو مصری ادیب احمد حسن زیاّت کی مشہور کتاب ’’تاریخ الأدب العربي‘‘ کا ترجمہ ہے۔اس کتاب کو مولانا عبدالرحمن طاہر سورتی نے پاکستان سے شائع کیا تھا۔ مولانا عبدالرحمن طاہر سورتی (1987-1919) عربی اور اردو کے مشہور عالم او رباکمال مدرس تھے، آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں او ردرجنوں کتابوں کے ترجمے کیے۔ البتہ یہ ترجمہ عام طور پر دستیاب نہیں تھا، لہٰذا طلبا کی سہولت کے لیے ڈاکٹر سید طفیل احمد مدنی (لکچرر شعبۂ عربی و فارسی الٰہ آباد یونیورسٹی) نے اسی ترجمہ کو بنیاد بنا کر اس کتاب کی تلخیص کی ہے، اردو ترجمہ میں چند جدید نثر نگاروں، ادیبوں، خطیبوں او رشعرا کا تذکرہ نہیں تھا، اُن کا ترجمہ طفیل صاحب نے اصل کتاب سے کرکے اس تلخیص میں شامل کردیا ہے گویا یہ اس ترجمے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ترجمے کا اسلوب انتہائی واضح اور آسان ہے، ترجمے میں سلاست او رشگفتگی ہے اور یقینا یہ کہا جاسکتا ہے عربی ادب کی تاریخ پر انمول کتاب کا یہ بہترین ترجمہ ہے۔
اردو داں شائقینِ تاریخ و ادب کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، تاریخ ادب عربی میں اس قدر جامع، مختصر اورآسان کتاب اردو زبان میں موجود نہیں ہے جس میں عربی زبان کے آغاز سے دور حاضر تک کے ادبا و شعرا کا جائزہ لیاگیا ہو۔
اس موضوع پر ڈاکٹر سید ابوالفضل (1963-1914) سابق پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے ’’تاریخ ادبیات عربی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جسے 1955 میں پہلی بار ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد نے شائع کیا، بعد میں یہ کتاب انجمن فیضانِ ادب حیدرآباد سے شائع ہونے لگی، اس کا گیارہواں ایڈیشن میرے پیش نظر ہے جو مارچ 2009میں شائع ہوا۔ یہ کتاب پونے تین سو صفحات اور سات ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں جزیرۃ العرب، عرب قوم اور ادب جاہلی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں آغاز اسلام اور عہد بنی امیہ پر گفتگو ہے، تیسرے باب میں عصر عباسی کا تفصیلی ذکر ہے، چوتھا اور پانچواں باب عصر مغلیہ اور عصر عثمانی پر مشتمل ہے، چھٹے باب میں عصر جدید کا ذکر ہے اور ساتویں باب میں نئے ادب اور جدید ادبی رجحانات کا ایک ہلکا سا خاکہ بیان کیاگیاہے۔ مصنف نے اس کتاب کو ایک طویل زمانے تک ادب عربی کی امہات الکتب کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑی محنت اور عرق ریزی سے لکھا ہے، عربی ادب کی تاریخ پر انھوں نے بڑے اہم مباحث تحریر کیے ہیں جن سے اساتذہ و طلبا کی ایک بڑی تعداد نے برسوں استفادہ کیا۔ خاص طور سے حیدرآباد میں اس کتاب کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، یہاں کے متعدد علمی اداروں میں یہ کتاب شامل نصاب ہے۔
اردو زبان میں ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی کی کتاب ’عربی ادب کی تاریخ‘ اس موضوع پر بے حد اہم مانی جاتی ہے، انھوں نے اردو داں طبقہ اور عربی زبان و ادب کے طلبا و اساتذہ کے لیے اس کتاب کو تفصیل کے ساتھ چار جلدوں میں مرتب کرنے کا خاکہ بنا کر کام شروع کیا تھا، جس میں زمانۂ جاہلیت، صدر اسلام، عہد بنی امیہ، عباسیوں کے مختلف ادوار بشمول اندلس، عبوری زمانہ، موجودہ زمانہ اور ہندوستانی عربی زبان و ادب پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کا منصوبہ تھا۔اس خاکہ کے مطابق کتاب کی پہلی جلد 1979میں شائع ہوئی جس میں زمانۂ جاہلی کے احوال اور اس کے شعر و ادب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ طلبا، اساتذہ اور اردو داں حلقہ میں اسے بڑی مقبولیت ملی اور قلیل عرصہ میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ دوسری جلد دس سا ل کے بعد 1989 میں شائع ہوئی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے پر مشتمل ہے، جس میں اس عہد کی امتیازی خصوصیات، سیاسی، اقتصادی، تہذیبی و تمدنی حالات، اس عہد میں نشوونماپانے والے علوم وفنون، شعر وادب اور ان کے ممتاز فنکاروں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیاہے۔ کتاب کی تیسری جلد سنہ 2000 میں شائع ہوئی جو عہد بنی امیہ پر مشتمل ہے، اس جلد میں عہد بنی امیہ کے تاریخی احوال، اس عہد کے علمی، ادبی اور فنّی کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ہے اور تمام اصناف ادب کے فنکاروں، ادیبوں، شاعروں،زبان و لغت کے ماہرین اور مشاہیر کا مفصل تذکرہ پیش کیاگیاہے۔ کتاب کی مذکورہ تینوں جلدیں قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نئی دہلی سے بارہا شائع ہوچکی ہیں۔
 ڈاکٹر شمس کمال انجم (صدر شعبۂ عربی، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری، جموں وکشمیر) نے جدید مصری ادب پر’’جدید عربی ادب‘‘لکھی جو  ’’الأدب العربی المعاصر فی مصر‘‘کا اردو ترجمہ ہے،  ’جدید عربی ادب‘ تین سو پندرہ  صفحات پر مشتمل ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نے 2017 میں جدید ایڈیشن کے طور پر شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر شمس کمال انجم نے بڑی محنت او رعرق ریزی سے ترجمہ کیاہے، ترجمہ سے قبل انھوں نے عربی ادب کے مختلف ادوار کی مختصر جھلک بھی پیش کی ہے، کتاب پر عربی اور اردو زبان کے مشاہیر کے تأثرات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ انھوں نے یہ کتاب اردو داں طبقہ خصوصاً عربی ادب سے شغف رکھنے والے حضرات کے استفادہ کے لیے لکھی ہے۔اس کتاب میں جدید مصری ادب کی تاریخ بیان کی گئہے، جو1850سے 1950تک کے سوسالہ شعر وادب کی تصویر کشی اور معاصر ادب پر اثر انداز ہونے والے مختلف اسباب و عوامل پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر شمس کمال انجم مدینہ یونیورسٹی کے فاضل ہیں، اردو اور عربی دونوں زبانوں پر دسترس کے علاوہ ترجمہ کا ذوق بھی رکھتے ہیں، انھوں نے بے حد دلکش انداز میں ترجمہ کیا ہے، قاری کو کہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اصل کتاب نہیں بلکہ اس کا ترجمہ پڑھ رہا ہے۔
ایک دوسری کتاب لاہور سے محمد کاظم نے ’’ عربی ادب کی تاریخ‘‘ کے نام سے لکھی جو پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے اور سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے 2004میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ایک تمہید اور پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں جاہلی، آغاز اسلام، اموی، عباسی، اندلسی، فاطمی، ترکی اور موجودہ دور کے سیاسی، سماجی اور تمدنی احوال وکوائف، عربی زبان وادب کی اہم شخصیات اور مختلف اصناف ادب پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے یہ کتاب اردو داں حضرا ت خصوصا ان لوگوں کے لیے لکھی ہے جو عربی زبان کا علم نہیں رکھتے، مگر عربی ادب کی تاریخ سے انھیں دلچسپی ہے اور اس سے وہ واقف ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب اردو کے کتب خانے میں ایک اہم اضافہ ہے، اس کے عمدہ اسلوب اور قیمتی مواد سے ادب کے شائقین کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
n            
Dr. Mohammed Shakir Raza
Asst Prof, Dept of Arabic
Maulana Azad National Urdu University
Hyderabad - 500032
Mob.: 9704967694
Email: shaikir@manuu.edu.in


ماہنامہ اردو دنیا ، مئی 2020




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں