28/5/20

گیان چند جین کی ’’پرکھ اورپہچان‘‘ مضمون نگار : سرور الہدیٰ





گیان چند جین کی ’’پرکھ اورپہچان‘‘
سرور الہدیٰ
گیان چند جین کی علمی و ادبی کار گزاریاں کم و بیش نصف صدی پر محیط ہیں۔ ان کی پہلی شناخت تو  ایک محقق کی ہے لیکن ایک ادبی نقاد کے طور پر بھی انھوں نے اپنی تنقیدی و تجزیاتی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ عموماً ہمارے خالص محقق تنقیدی مسائل و نظریات سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھتے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں پروفیسر نثار احمد فاروقی بھی اس فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
گیان چند جین کو میں نے کبھی دیکھا نہیں ۔وہ گذشتہ چند برسوں سے سخت علیل تھے، امریکہ میں قیام تھا اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ جین صاحب کے سلسلے میں اختلافات کا سامنے آنا غیر فطری نہیں کسی محقق یا قلم کار کی خدمات کا اعتراف کسی ایک کتاب کی روشنی میں بھی کیا جا سکتا ہے اسی طرح اعتراضات درج کرنے کے لیے بھی کسی ایک کتاب کو حوالہ بنایا جا سکتا ہے لیکن اعتراف یا اعتراض کی یہ دونوں صورتیں صاحب کتاب کے پورے علمی و ادبی مفر کا احاطہ نہیں کرتیں۔ گیان چند جین ایک اعلیٰ درجے کے محقق تھے اور ان کا علمی و ادبی سرمایہ اردو زبان میں ہے۔ ادب کے ہر سنجیدہ طالب علم کی یادداشت میں ان کی کوئی نہ کوئی تحریر ضرور ہو گی۔ جین صاحب کی ایک پوری کتاب تحقیق کے فن پر ہے جس کا نام ہی ’’تحقیق کا فن‘‘ ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر بنیادی کتاب ہے ۔اس کے موضوعات وسائل سے تحقیق کے تئیں جین صاحب کی حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی دیگر کتابیں ’’اردو کی نثری داستانیں‘‘ ، ’’تحریریں‘‘، اردو مثنوی شمالی ہند میں ‘‘، تفسیر غالب‘‘، ’’لسانی مطالعے‘‘،  ’’تجزیے‘‘،  ’’رموز غالب‘‘، ’’ حقائق‘‘،  ’’ذکرو فکر‘‘،  ’’عام لسانیات‘‘،  ’’ابتدائی کلام اقبال‘‘ ،  ’’کھوج‘‘، ’’مقدمے و تبصرے ‘‘ ،  ’’اردو ادب کی تاریخ‘‘  اور ’’پرکھ اورپہچان‘‘ کسی نہ کسی حوالے سے موضوع گفتگو رہی ہیں۔ میں نے ان کی کتاب ’’پرکھ اور پہچان‘‘ کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ کتاب میں تیس (30) مضامین ہیں اور ان کی ترتیب و اشاعت کا خیال انھیں کیوں آیا اس تعلق سے جین صاحب نے بس اتنا لکھا ہے :
’’میرے پچھلے مجموعۂ مضامین’’ ذکرو فکر‘‘ کی اشاعت کے بعد میرے بہت سے مضامین جمع ہو گئے ہیں۔ میں نے انھیں دو مجموعوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلا ’’کھوج‘‘ جس میں زیادہ تر تحقیقی مضامین ہیں دوسرا ’’پرکھ اور پہچان‘‘ جس میں دو قسم کے مضامین ہیں، پہلے حصے میں تنقیدی دوسرے میں ادبی شخصیات سے متعلق۔‘‘
میں نے مضمون کی ابتدا میں لکھا ہے کہ جین صاحب ایک محقق ہیں لیکن تنقید میں بھی ان کی دلچسپی قائم رہی ہے۔ اس کا بہترین نمونہ کتاب کا پہلا ہی مضمون اسلو بیاتی تنقید پر ایک نظر ہے۔ ہماری موجودہ تنقید اسلوبیاتی تنقید سے بہت آگے نکل چکی ہے لیکن اسلوبیاتی تنقید کے نمونے عہد حاضرکے اہم نقادوں کے یہاں اب بھی مل جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اسلوبیاتی تنقید کا یہ مطالعہ قصۂ پارینہ نہیں۔ میری رائے تو یہ ہے کہ اسلوبیاتی تنقید پر اس سطح کا کوئی اور مضمون سامنے نہیں آیا۔ انھوں نے اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے سیاق میں گوپی چند نارنگ ، مسعود حسین خاں، مغنی تبسم اور خلیل احمد بیگ کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کی تعریف کے تعلق سے شمس الرحمن فاروقی کا ایک اقتباس بھی لگایا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کی نار سائیوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
’’یہ یقینی ہے کہ مفرد صوت کے کوئی معنی نہیں ہوتے اس لیے یہ جذبہ بھی نہیں ہو سکتی۔ لفظ میں معنی ہوتے ہیں لیکن پورے معنی جملے میں آکر ہی اجاگر ہوتے ہیں۔ آوازوں سے آہنگ اور موسیقیت متعین ہوتی ہے اوربس ۔لیکن کسی ایک آواز مثلاً م، ن  وغیرہ سے یہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ نثری جملے یا مصرعے میں اس مخصوص آواز کے علاوہ دوسری آوازیں مجموعی طور پر اس سے کہیں زیادہ تعداد میں ہوتی ہیں۔ اسلوبیات لکھنے والوں نے یہ ستم کیا ہے کہ انھوں نے مفرد آواز میں معانی بسا دیے ہیں۔ انھوں نے شعر کے معنی کو دیکھ کر اسے من مانے طور پر کسی ایک آواز سے منسوب کر دیا ،یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت نہ کی کہ یہ آواز پورے کلام کی آوازوں کی دس فیصد بھی نہیں۔ ‘‘     (’’پرکھ اور پہچان‘‘، ص۔ 3,4)
جین صاحب کا یہ اقتباس در اصل مرزا خلیل بیگ کے درج ذیل موقف کا جواب ہے:
’’آوازیں محض آوازیں نہیں ہوتیں یا مختلف مخارج سے مختلف انداز ادائیگی کے ساتھ پھیپھڑوں سے محض ہوا کے رخ خارج ہونے کا نام نہیں بلکہ آواز ایک جذبہ ہوتی ہے، ایک احساس اور ایک کیفیت ہوتی ہے ... جس آواز میں جتنی تکرار ہو گی اتنے ہی زیادہ معنی اس میں پنہاں ہوں گے۔‘‘
مرزا خلیل بیگ نے آواز کو جذبے اور کیفیت سے مشروط تو کیا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ آواز میں کوئی معنی ہوتے ہیں۔ جین صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ وہ’’ مفرد صوت کے کوئی معنی نہیں ہوتے ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ’’اس لیے یہ جذبہ بھی نہیں ہو سکتی۔‘‘ میرا خیال یہ ہے کہ خلیل بیگ آواز کو محض کیفیت ہی کا نام دینا چاہتے ہیں اور انھوں نے جذبے اور احساس جیسے الفاظ کو بھی کیفیت ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے لیکن جین صاحب نے اس سے یہ پہلو بھی نکالا کہ اگر صوت کے معنی نہیںہوتے تو اس میں جذبہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض آوازیں ہمارے فکرو احساس کی دنیا کو متاثر کرتی ہیں گرچہ اس میں تاثیر پذیری کو ہم کوئی نام یا معنی نہیں دے سکتے۔ گوپی چند نارنگ نے صوت کے تعلق سے بڑی متوازن رائے دی ہے :
’’صوت کی سطح خالص آہنگ کی سطح ہے لیکن اگر اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ آہنگ سے مراد معنی کی کل نفی ہے تو یہ بھی غلط ہو گا کیوں کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آہنگ سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے فضا سازی یاسماں بندی میں مدد ملتی ہے اور یہ فضا سازی کسی بھی معنیاتی تاثر کو ہلکا گہرا یا تیکھا کر سکتی ہے۔ ‘‘
گیان چند جین کو مرزا خلیل بیگ کے استعمال کیے ہوئے لفظ جذبے اور احساس سے یہ مغالطہ ہوا کہ وہ جذبے اور احساس کو معنی کے مترادف سمجھتے ہیں لیکن خود جین صاحب اسی اقتباس میں لکھتے ہیں کہ آوازوں سے آہنگ اور موسیقیت متعین ہوتی ہے۔ گوپی چند نارنگ کے نزدیک آہنگ کا مطلب معنی سے مکمل انکارنہیں ہے بلکہ وہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ آہنگ سے پیدا ہونے والی کیفیت معنی کے تاثر کو ہلکا یا گہرا کر سکتی ہے۔ گیان چند جین کو اول اختلاف در اصل مرزا خلیل بیگ کے اس جملے سے ہے :
 ’’جس آوازکی جتنی تکرار ہوگی اتنے ہی زیادہ معنی ان میں پنہاں ہوں گے۔‘‘
مرزا خلیل بیگ کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ ‘‘ (جس سے مندرجہ بالا اقتباس لیا گیا ہے)  میرے سامنے نہیں ہے ورنہ یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ خلیل بیگ نے آوازوں کی تکرار سے معنی آفرینی کی بات کس سیاق میں کی ہے۔ گیان چند جین نے مسعود حسین خاں ، مرزا خلیل بیگ اور مغنی تبسم کی اسلوبیاتی تنقید کا بہت حد تک جائزہ پیش کیا ہے اور اپنی بات کو دلیل اور مثال سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب حروف اور الفاظ کو کسی مخصوص کیفیت کے اظہار کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے ۔ جین صاحب نے ان مفروضوں کو رد کرتے ہوئے اسی کیفیت کے اظہار میں دوسرے حروف کو بہ طور مثال پیش کیا ہے۔ گیان چند جین کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجیے :
’’ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے غالب کو اس لیے سراہا تھا کہ ان کے نزدیک اس کے قوافی مصوتوں پر ختم ہوتے ہیں (اتفاق سے وہ مصمتوں پر ختم ہونے والی غزلوں کو نظر انداز کر گئے) اس کے برعکس ڈاکٹر نارنگ انیس کے اس لیے مداح ہیں کہ اس کے بیشتر قوافی مصمتوں پر ختم ہوتے ہیں جبکہ دبیر کے یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے...قافیے کا مصمتے یا مصوتے پر ختم ہونا اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ قافیہ اور ردیف کا صوتی اجتماع یعنی ’’زمین‘‘ کتنی شگفتہ ہے۔ مصوتے یا مصمتے سے فرق نہیں پڑتا۔ ترنم کی صورت میں ممکن ہے جیسا کہ حسب ذیل مثالوں سے ظاہر ہوگا۔
(1) قافیے کے آخر اور ردیف کے شروع میں مصمّۃ
             ساری مستی شراب کی سی ہے              (میر)
             کوئی امید بر نہیں آتی                          (غالب)
(2) قافیے کے آخر اور ردیف کے شروع میں مصوّتہ
             ہم سے کھل جاؤ بہ وقت مے پرستی ایک دن   (غالب )
             کوئی دم گر زندگانی اور ہے                  ( غالب)—‘‘
جین صاحب نے کچھ اور مثالیں بھی دی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسلوبیاتی تنقید کی  نار سائیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’کسی مخصوص مصمتے یا مصوتے سے کوئی معنی یا کیفیت منسوب کر دینا ایک مغالطہ ہے۔‘‘
اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے جین صاحب ساختیاتی فکر تک آتے ہیں گو کہ انھوں نے کسی اصطلاح یا فرد کا نام نہیں لیا ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’یاد رہے کہ زبان کی تعریف میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ من مانی لسانی کوڈ ہے (ARBITRARY VOCAL CODE)  یعنی اس میں لسانی نسبت کا مفہوم سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو گرم کہنے سے ہونٹ جل جاتے۔‘‘
گویا کسی لفظ سے کوئی خاص مطلب سمجھنے کا عمل من مانی ہے اور زبان Parole  اور  Kabgye  سے وابستہ ہے۔
اس کتاب کا دوسرا اہم مضمون ’’اقبال کامنسوخ اردو کلام ‘‘ ہے۔ اقبال کا یہ منسوخ اردو کلام کتابی شکل میں سامنے آچکا ہے۔منسوخ کلام کے سلسلے میں لوگوں کا مختلف الرائے ہونا فطری ہے۔ اگر کوئی فن کار اپنے منسوخ کلام کو منسوخ کرنے کی علمی و ادبی دلیلیں بھی پیش کرے تو بھی یہ ضروری نہیں کہ کوئی قاری ان سے اتفاق ہی کرے۔ غالب کا منسوخ کلام جو’’ نسخۂ حمیدیہ ‘‘کے نام سے موسوم ہے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہماری دلچسپی میں اضافہ ہوتا رہا۔ لہٰذا کسی فنکار کا اپنے کلام کو رد کر دینے کے اسباب پر غور کرنا اہم تو ہے لیکن اس بارے میں کوئی حتمی یا قطعی بات نہیں کی    جا سکتی، یہ سارا معاملہ گمان اور اندازے سے تعلق رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گمان اور اندازے میں فن کار کی فکری ترجیحات اور اس کے بدلتے ہوئے رویے کو بڑی اہمیت حاصل رہے گی۔ اقبال نے اپنے کچھ کلام کو مجموعے میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس سے اپنے کلام کے تئیں ان کی حساسیت کا پتہ چلتا ہے۔ جین صاحب نے اس اہم مسئلے پر جو گفتگو کی ہے وہ نہایت ذمہ دارانہ ہے۔ وہ اپنی کسی بات پر اصرار نہیں کرتے۔ اپنے کلام کے کچھ حصے کا متکلم کی نظر میں کم رتبہ ہو جانا کبھی کبھی دھوکے اور مغالطے کا نتیجہ بھی ہوتا ہے لیکن کیا اقبال کے سلسلے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ادب کا ہر سنجیدہ قاری اپنے اپنے طور پر پردے سکتا ہے۔ عبد الواحد معینی نے اپنی مرتبہ کتاب ’’باقیات اقبال‘‘ کے پیش لفظ میں اقبال کے منسوخ کلام کے تعلق سے جس خیال کا اظہار کیا ہے جین صاحب کو اس سے اتفاق نہیں جین صاحب لکھتے ہیں :
’’گو یا منسوخ کلام محض اس وجہ سے حذف ہوا کہ’’ بانگ درا‘‘ کی ترتیب کے وقت وہ ان کی نظر اور ذہن سے اوجھل تھا ،یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔‘‘  ( ص۔ 30-31 )
محمد انور حارث کی مرتبہ کتاب ’’رخت سفر‘‘ اور غلام رسول مہر کی ’’ سرودِ رفتہ ‘‘ کے دیباچوں میں منسوخ کلام کے سلسلے میں جو مفروضات ہیں وہ جین صاحب کو زیادہ اپیل کرتے ہیں۔ ان دونوں کی رایوں سے بحث کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
’’اقبال کے منسوخ کلام کے مرتبین نے عموماً اور ’’سرودِ رفتہ ‘‘کے مرتب غلام رسول مہر نے خصوصاً بڑا معقول جواز پیش کیا ہے کہ جس کلام کو شاعر نے قلم زد کر دیا اسے منظر عام پر کیوں لایا جائے۔ غالب کے منسوخ کلام کی اشاعت کے بعد کسی قسم کے جواز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہاں ناقدین اقبال پر اتنی تحدید لازم آتی ہے کہ وہ منسوخ کلام کی بنا پر شاعر پر کوئی اعتراض نہ کریں۔ ‘‘  (ص۔32 )
گیان چند جین عطیہ فیضی کے نام اقبال کے ایک خط (7جولائی1911)کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اقبال اپنی نظموں کو پرائیویٹ نوعیت کے ذیل میں رکھتے ہیں اور انھیںیہ فکر ستاتی ہے کہ یہ نظمیں شائع نہ ہو جائیں۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے کچھ کو تو ’’کلیۃً‘‘ تلف کر دیا۔ اقبال کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تعلق سے کس قدر ہوشمند اور حساس تھے۔ اس خط سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اقبال نے ایک مخصوص زمانہ کی مخصوص تخلیقات کو ضائع کر دیا اور ان کے چھپنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ گمان ہے کہ اگر یہ تخلیقات رسالوں میں شائع بھی ہو جا تیں تو بھی اقبال انھیں منسوخ کلام کا حصہ بنا دیتے لیکن جین صاحب نے اس خط کی روشنی میں اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔
گیان چند جین نے ان کی ایک منسوخ نظم ’’ابر گہر بار‘‘  یا  ’’فریاد امت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ اسی نظم کا یہ شعر زبانوں پر ہے مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ اقبال کا ہے :
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
گیان چند جین اقبال کی وطن پرستی اور انسان دوستی کو اقبال کی طاقت سمجھتے ہیں لیکن اس کی شکایت ہے کہ رفتہ رفتہ اقبال کی وطن پرستی ملت پرستی کی طرف مائل ہوتی ہوگئی۔ ان کے الفاظ میں :
’’اقبال کا ذہنی ارتقا وطن پرستی سے ملت پرستی کی طرف ہوا۔ ان کے ابتدائی کلام میں قوم پرستی نیز مذہبی ہم آہنگی کے جو اشعار اتنے شدید تھے کہ ان کے بعد کے مسلک پروار کرتے تھے ،انھیں خارج کر دیا ...نظم’’ صدائے درد‘‘ کا ہندوستان کے مختلف فرقوں کے نفاق کی وجہ سے شاعر ہندوستان سے ہجرت کر کے وسط ایشیا چلا جانا چاہتا ہے ... ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ‘‘میں سے وہ بند خارج کر دیا جس میں بدھ مت ، مسیحیت اور اسلام سب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا تھا...۔‘‘ (ص۔39,40,41)
گیان چند جین کو اقبال سے اسی قسم کی کچھ اور شکایتیں ہیں۔ اقبال کے ہر قاری کو اقبال سے اپنے طور پر مکالمہ کرنے کا حق ہے اور یہ حق کو ئی چھین نہیں سکتا اس لیے بھی کہ اقبال اول و آخر شاعر ہیں اور ان کا فکری و فنی کینوس بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ گیان چند جین اقبال کے تعلق سے بار بار ان کی انسان دوستی کو یاد کرتے ہیں لیکن ایک مقام پر ان کے ایک منسوخ نظم کے سیاق میں لکھتے ہیں:
’’افسوس کہ انسان دوستی کی اتنی ارفع نظم جو ملت اور وطن سے بلند تر ہے ان کے بعد کے مسلک کی وجہ سے گردن زدنی کر دی گئی۔‘‘ (ص۔ 42)
’’ان کے بعد کے مسلک اس فقرے سے واضح ہے کہ گیان چند جین کے نزدیک اقبال کے بعض نظموں یا اشعار کے منسوخ ہونے میں اقبال کی مخصوص فکر کا اہم کردار ہے۔ یہ بات بعض دوسرے لوگ بھی کہتے رہے ہیں کہ اقبال کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے۔ گیان چند جین ایک صاحب نظر محقق تھے۔ انھیں یہ کون بتاتا کہ بعد کے مسلک کے باوجود اقبال کے ہاں انسان دوستی کا بلند تر  تصور موجود ہے۔ کچھ مخصوص تاریخی و تہذیبی حوالے اقبال کی شاعری کو کسی فرقے اور طبقے میں بند نہیں کرتے۔ اب یہاں شمس الرحمن فاروقی کا تنقیدی رویہ اصرار کرتا ہے کہ اقبال کو افکار و موضوعات کی روشنی میں نہ دیکھ کر ان کے شعری طریقۂ کار کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فاروقی کے اس ادبی موقف کو پورا ادبی معاشرہ اپنا موقف نہیں بنا سکتا لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں اقبال کو بطور شاعر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اقبال کے افکار کو شعری طریقۂ کار کا پابندسمجھا گیا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ ہاں لفظ ومعنی کی ثنویت کی طرف اشارا ہے۔ گیان چند جین نے اقبال کے منسوخ کلام پر گفتگو کرتے ہوئے ادب کے ادبی معیار کو نظر انداز تو نہیں کیا ہے لیکن یہ پہلو دب سا گیا ہے۔ اقبال کی منسوخ غزلوں کے سیاق میں جین صاحب نے پختہ، فن اور بلندی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اقبال کی منسوخ غزلوں یا غزلیہ اشعار کو محض افکار و موضوعات کی روشنی میں نہیں دیکھتے۔ انھوں نے لکھا ہے :
’’بعض تو فن کی بلندی پر فائز ہیں۔ انھیں ترک کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے بعض اشعار حذف کر دیے جاتے ۔‘‘ ( ص۔47)
جین صاحب مضمون کے اختتام پر رقمطراز ہیں :
’’ظاہر ہے کہ اقبال نے اپنی قلندرانہ بے نیازی کے سبب کوئی بیا ض نہیں بنائی تھی۔ ’’بانگ درا‘‘ کی ترتیب کے وقت انھوں نے کلام کے جمع کرنے میں کوئی توجہ نہیں کی ورنہ کئی پختہ نظمیں اور متعدد خوشگوار و پختہ غزلیں اس طرح حلقۂ بیرون کی طرح مجموعوں سے باہر نہ رہ جاتیں ۔ اقبال جتنے بڑے  شاعر تھے کاش اس پائے کے مدوّن بھی ہوتے۔‘‘ (ص۔49)
 ظاہر ہے کہ جین صاحب کی پہلی رائے سے دوسری رائے مختلف ہے اور غیر شعوری طور پر وہ   عبد الواحد معینی کی رائے سے متفق ہو جاتے ہیں۔
میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اقبال کے منسوخ کلام پر اب تک کا یہ نہایت اہم مضمون ہے اور اس کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔
قاضی عبد الودود پر ان کی ایک کتاب ’’قاضی عبد الودود بحیثیت مرتب متن‘‘ شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب میں ان کا ایک مضمون ’’قاضی عبد الودود اور میں ‘‘ بھی شامل ہے۔ عنوان سے ظاہر ہے کہ جین صاحب اپنے ذاتی تجربوں کی روشنی میں قاضی صاحب کو دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں۔       قاضی صاحب اور جین صاحب اب دونوں ہی ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ قاضی صاحب کی تحقیقی کوتاہیوں کی گرفت کی گئی اور یہ سلسلہ ان کی زندگی سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن ان کے تحقیقی امتیازات اپنی جگہ مسلم ہیں۔ جین صاحب نے ان کی تحقیقی زبان اور طریقۂ کار کی کوتاہیوں کو جس انداز سے پیش کیا ہے ان کا اطلاق قاضی صاحب کی تمام تحریروں پر نہیں ہوتا۔ یہاں ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے ورنہ میں جین صاحب کے ایک ایک اعتراض سے بحث کرتا۔ ہوتا یہ ہے کہ کسی کے بارے میں اگر موثر طریقے پر کچھ عمومی باتیں بیان کر دی جائیں تو وہ مرکز نگاہ بن جاتی ہیںاور ادب کا عام قاری تمام تفصیلات کو سامنے رکھ کر ان عمومی باتوں کا جائزہ نہیں لیتا۔ اس میں شک نہیں کہ قاضی صاحب اپنے بارے میں نہایت حساس تھے اور وہ اپنی کوتاہیوں کو قبول کرنے کے سلسلے میں بہت  فراخ دل نہیں تھے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ تحقیقی نقطۂ نظر سے کم رتبہ تھے۔ جین صاحب نے اپنے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے جو قاضی صاحب سے متعلق تھا۔ جین صاحب کا خیال ہے کہ وہ اس مضمون سے ناراض ہو گئے لیکن خود جین صاحب کا یہ خیال قاضی صاحب کی علمی و ادبی شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں کرتا کہ :
’’ان کے پاس مواد تھا، لیکن ان کا ذہن اسے ترتیب نہ دے سکتا تھا اس لیے وہ کوئی کتاب نہ لکھ سکے، لکھ بھی نہیں سکتے تھے ۔کتاب تو درکنار وہ ایک مسلسل منضبط مضمون لکھنے کے لیے بھی ذہن کو مرکوز نہ کر سکتے تھے۔
 رسالہ ’’آج کل ‘‘ کے اردو تحقیق نمبر میں اصول تحقیق کے مہتم بالشان مضمون کی ابتدا میں صراحت کرتے ہیں :
’’اصول تحقیق پر کوئی باقاعدہ مقالہ لکھنا مد نظر نہیں، چند سر سری باتیں جب ترتیب سے ذہن میں آئیں گی قلم بند کر دی جائیں گی۔‘‘
’’مرتب کر کے منطقی دروبست سے کیوں نہیں پیش کی جائیں گی وجہ صاف ہے کہ وہ تحقیق میںغزل کی ریزہ خیالی سے بڑھ کر ترتیب کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘‘  (ص۔ 20)
گیان چند جین کے یہ الفاظ قاضی صاحب سے ان کی ذاتی رنجش کا اظہار ہیں۔ قاضی صاحب کا ذہن مرتب نہیں تھا وہ کسی مسئلے پر سنجیدگی سے صراحت کے ساتھ کچھ نہیں لکھ سکتے تھے، بہت حیرت انگیز انکشاف ہے۔ غزل پر کلیم الدین احمد کے اعتراض سے فائدہ اٹھا کر جین صاحب نے قاضی صاحب کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اصول تحقیق پر وہ اس وقت بہت تفصیلی طور سے کچھ نہ لکھنا چاہتے ہوں ،اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن جین صاحب نے ان کی وہی تاویل کی جو کوئی نا راض آدمی کر سکتا ہے۔ قاضی صاحب نے باضابطہ کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے اس سے متفق نہیں ہوا جا سکتا۔ کسی موضوع پر ایک مضمون سیکڑوں صفحات کی کتاب پر بھاری پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ دیکھا جا نا چاہیے کہ ان کے متفرق مضامین کس حد تک تحقیقی نقطہ ٔ  نظر سے اہم ہیں۔ ’’قاضی صاحب نے ان کلاسیکی متون یا گمنام اشخاص پر کام کیا جن کی اہمیت کچھ خاص نہیں تھی ۔‘‘ جین صاحب کا یہ اعتراض بھی قاضی صاحب کی مجموعی تحقیقی خدمات کو رد نہیں کر سکتا۔ جین صاحب نے اپنی آرا کو تقویت پہنچانے کی کوشش میںمشفق خواجہ کا ایک خط بھی درج کیا ہے جو انھوں نے جین صاحب کی شکایتوں سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ جین صاحب کا یہ مضمون اس بات کا غماز بھی ہے کہ کسی عہد کا ایک بڑا تحقیقی ذہن اپنے  دو ر کو کتنا متاثر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قاضی عبد الودود سے زیادہ کسی محقق نے اپنے معاصرین کو اتنا ڈرایا نہیں۔ اس کتاب میں کئی مضامین شخصی نوعیت کے ہیںاور جین صاحب نے اپنی مختلف محبتوں اور ملاقاتوں کے بعد ان شخصیات کے بارے میں لکھا ہے۔ ان میں فراق اور سرور صاحب بھی شامل ہیں۔ یہاں فراق اور سرور صاحب کے سلسلے میں ان کے دو اقتباسات پیش کرتا ہوں :
’’میں نے کہا کہ پرانا نصاب چلاآ رہا ہے میں اس کی تشکیل نو کروں گا۔ حیرت ہوئی جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ نصاب میں کچھ ہندو شاعروں کا اضافہ کرو۔ میں خاموش رہا۔ ہندوئیت کی طرف ان کا رجحان دیکھ کر میں نے کہا کہ میرے تقرر سے پہلے فلاں صاحب نے سلیکشن کمیٹی کے ایک ممبر کو لکھا تھا کہ ا یسے محقق کو منتخب نہ کرنا جو اردو تہذیب کا فرد نہ ہو، ان کی در پردہ مراد یہ تھی کہ کسی ہندو کو (یعنی مجھے)نہ لینا۔ فراق صاحب کہنے لگے وہ ٹھیک کہتے تھے ،ہندوؤں میں تہذیب نہیں ہوتی۔ ہندو گنوار ہوتے ہیں۔ گویا چت بھی ان کی پٹ بھی ان کی۔ ‘‘ (ص ۔218-219)
آل احمد سرور صاحب کے سلسلے میں جین صاحب کے اس خیال سے :
’’ سرور صاحب کے دشمنوں کی صف پر نظر ڈالیے عظما کا نگار خانہ ہے۔ اردو کے کیسے کیسے جغادری ، شاعر، نقاد، محقق، خادم اردو دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحقیق میں کوئی تو بات ہے کہ مخالفوں میں اتنے بڑے بڑے عمائد ادب ہیں۔ میں اگر چاہوں کہ ایسے بقراطوں کو اپنا مخالف بنا لوں تو نہیں بنا سکتا، کیوں کہ ہاتھی مینڈک کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کیفیت، و کمیت دونوں میں سرور صاحب کے معاندوں کا معیارو مقدار دیکھ کر رشک ہوتا ہے۔ ‘‘        (ص ۔ 241)
گیان چند جین کو سرور صاحب کے معاندوں کے معیار اور مقدار کو دیکھ کر رشک آتا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جین صاحب کے اختلاف کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ مخالفین کی کثرت میں کچھ اس رشک کا بھی حصہ ہو۔
گیان چند جین نے ’’بس ایک غزل‘‘ کے عنوان سے فضا ا بن فیضی کی غزل کا تجزیہ کیا ہے۔   فضا ابن فیضی کی قادر الکلامی کا سبھی اعتراف کرتے ہیں لیکن ان پر کم لکھا گیا۔ جین صاحب نے جس غزل کا انتخاب کیا ہے وہ زبان و اظہار کی سطح پر خاصی نئی معلوم ہوتی ہے۔ عموماً نئی لفظیات سے پرانا ذہن اجنبیت محسوس کرتا ہے لیکن جین صاحب فضا کی غزل کے ہرشعر پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے حسن و قبح سے بحث کرتے ہیں۔ غزل کا مطلع ہے :
وقت تو ہے سرابوں کی اک رہ گزر کوئی جائے کہاں لے کے پیاسا بدن
دھوپ میں نا مرادی کی جلتا ہے اب پھول جیسی امنگوں کا اجلا بدن
اس غزل کے تجزیے سے اتنا تو واضح ہے کہ جین صاحب متن کے تجزیاتی مطالعے کا ایک خاص سلیقہ رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ غزل کی جمالیاتی فضا کو اپنے قاریانہ عمل کا حصہ بنا کر اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ متن چاہتا بھی یہی ہے کہ اس کے اندرون میں داخل ہو کر اسے اس کی شرطوں پر دیکھا اور پڑھا جائے لیکن جین صاحب کا اختتامیہ غزل کے تجزیاتی مطالعے کی اہمیت و افادیت کو غیر ضروری طور پر کم کر دیتا ہے۔ ان جملوں کی ضرورت نہیں تھی، وہ لکھتے ہیں :
’’اس غزل کا کوئی شعر آزادی سے پہلے نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ اس میں محض سماجی اور خارجی حقیقت نہیں بلکہ داخلی سرگذشت بھی ہے، گویا نئی حسیت عصری حسیت کے ساتھ لب و دنداں ہے۔‘‘ (ص۔ 173)

ڈاکٹر سرور الہدیٰ
نئی دہلی۔
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2008

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں