29/5/20

قرۃ العین حیدر : چاندنی بیگم مضمون نگار: شمیم حنفی




قرۃ العین حیدر : چاندنی بیگم
شمیم حنفی

قرۃ العین حیدرکے تذکرے میں ’’آگ کا دریا‘‘ کا ذکر ناگزیر سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اردو فکشن کی روایت میں ’’آگ کا دریا‘‘ نے کم و بیش ایک دیو مالا کی حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ فکشن کہ تنقید میں بھی ’’آگ کا دریا‘‘ ایک مرکزی حوالہ بن چکا ہے اور اس کی اشاعت کے بعد وجود میں آنے والے تقریباً تمام اہم ناول اس حوالے کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد قرۃ العین حیدر کے جو ناول شائع ہوئے ان کی وضعیں،موضوعاتی کینوس، اسالیب اور زمانی و مکانی رابطے ایک دوسرے سے بہت مختلف رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ ،  ’’کار جہاں دراز ہے‘‘، ’’گردش رنگ چمن ‘‘ اور ’’چاندنی بیگم‘‘ کی دنیائیں انسانی تجربے کی الگ الگ سطحوں پر آباد ہیں مگر ان کا جائزہ لیتے وقت ہمارے احساسات پر ’’آگ کا دریا‘‘ کا سایہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ہم ان ناولوں کو ان کی اپنی شرطوں پر سمجھنے میں تقریباً نا کام رہ جاتے ہیں۔ انتظار حسین،      عبد اللہ حسین اور جمیلہ ہاشمی کے مطالعے میں بھی ’’آگ کا دریا‘‘ نے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اس کا اثر اردو فکشن کی پوری تنقید پر پڑا ہے۔ اس صورت حال سے جہاں ایک طرف ’’آگ کا دریا‘‘ کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے وہیں ہماری تنقید کے عجز اور معذوری کا بھی کچھ اظہار ہوتا ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے تک ’’ستاروں سے آگے‘‘ اور ’’شیشے کے گھر‘‘ کو اردو افسانے کی تاریخ میں نئی حسیت کے اولین اشاروں سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اسی طرح ’’آگ کا دریا‘‘ اردو ناول کی تاریخ میں ایک نئی روایت کے آغاز کا اشاریہ تھا۔ غرض کہ اردو افسانے اور ناول دونوں کی روایت کا ایک نیا سیاق قرۃ العین حیدر سے منسوب کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ قرۃ العین حیدر کے شعور میں ہمیں اپنے عصر کی بصیرت کا پہلا سراغ ملتا ہے۔ جدیدیت کے میلان کی شروعات، اردو فکشن کے سیاق میں، ہم قرۃ العین حیدر سے کرتے آئے ہیں، یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم اور اس عالم گیر واردات کے پس منظر میں رونما ہونے والے فکشن کے سب سے معروف حوالے، جیمس جوائس کی یولیسز کے بعد اردو میں ہماری نگاہ سب سے پہلے قرۃ العین حیدر پر ہی ٹھہرتی ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ، اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ اردو فکشن میں ما بعد جدیت کے اولین نشانات ہمیں قرۃ العین حیدر کے یہاں ملتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرۃ العین حیدرجدید بھی ہیں اور ما بعد جدید بھی۔
اس فیصلے کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہر گز نہ ہوتا اگر اردو میں ما بعد جدیدیت کے ساتھ سن 1980 کے آس پاس کی پخ نہ لگادی گئی ہوتی اور اس پر اصرار نہ کیا جاتا کہ جدیدیت اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے اور تنقید کا ایک ’’نیا‘‘ ڈسکو رس قائم ہو چکا ہے۔ اصطلاح گزیدہ تنقید کی سب سے بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سوچنے کی طاقت کھو بیٹھتی ہے اور بغیر سوچے سمجھے ایک نئی ادبی ٹرمنالوجی (Terminology)  کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ ایک ہی لکھنے والے کو ، ایک ہی سانس میں جدید اور مابعد جدید قرار دینے کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ تعین قدر کے اس عمل میں زمانی سیاق کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور جدیدیت کی طرح ما بعد جدیدیت بھی ایک فکری رویہ ہے، ایک طرز ِ احساس ہے جس کی دریافت جدید دور اور ما قبل جدید دور کے لکھنے والوں کے یہاں بھی کی جا سکتی ہے۔
خیر، یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور حقیقتاً صرف اس لیے پیدا ہوا ہے کہ اردو میں جدیدیت کے جس مفہوم نے رواج پایا تھا، وہ بہت محدود اور ادھورا تھا۔ اس کے گم شدہ حصوں پر نظر اب اس لیے پڑ رہی ہے کہ اصطلاح کی ماری ہوئی نئی تنقید جو اپنے معاصر ادب کے تجربوں کو سمیٹنے میں ناکام رہی، اب اپنی غلطیوں کا جوازپیدا کر رہی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے بارے میں بھی ہماری تنقید کا فکری تناظر اسی طرح محدود ، یکساں اور سرسری رہا ہے چناں چہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد کے ناولوں کا مطالعہ بھی بالعموم’’آگ کا دریا‘‘ہی کے حساب سے کیا جاتا رہا اور ان میں کسی’’مختلف عنصر‘‘کی دریافت ممکن نہیں ہو سکی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد کے تمام ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے مقابلے میں صرف اس وجہ سے کم تر درجے کے ٹھہرے کہ ان میں کینوس سمٹا ہوا دکھائی دیا۔ ظاہر ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ کی رزمیاتی جہتیں، کرداروں کی ویسی کثرت اور پلاٹ کا ویسا پھیلاؤ قرۃ العین حیدر کے دوسرے ناولوں میں نہیں ملتا۔ اس کے علاوہIrony اور Wit کا ایک عنصر جس پر ’’آگ کا دریا‘‘ میں رومانیت کی دھند چھائی ہوئی تھی، ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ سے لے کر ’’چاندنی بیگم‘‘ تک بہ تدریج نمایاں ہوتی رہی ہے اور چوں کہ اس عنصر کی گرفت میں ہماری کچھ سکہ بند قسم کی ترجیحات بھی آتی رہیں، اس لیے قرۃ العین حیدر سے اصلوبی اور نظریاتی اختلاف رکھنے والے نقادوں نے اس عنصر کی طرف سے یکسر آنکھیں پھیر لیں اور ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد کے ہر ناول کو بہ یک جنبش قلم کم رتبہ ٹھہرا دیا۔
ڈاکٹر محمد حسن کو ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ میں صرف نا سٹلجیا،رومانیت اور تکرار کا تماشا نظر آیا۔ رویے کی یہ زیادتی سب سے زیادہ ’’چاندنی بیگم‘‘ کے سلسلے میں سامنے آئی۔ یہ ناول 1990 میں پہلی بار شائع ہوا تھا اور ہر چند کہ اس کا ہندی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے، مگر قرۃ العین حیدر کے تمام ناولوں میں سب سے کم توجہ ’’چاندنی بیگم‘‘پر صرف کی گئی۔ کسی قابل ذکر مضمون کی بات تو الگ رہی، اس ناول کو قرۃ العین حیدر کے فن پر گفتگو میں ایک عام حوالے کی حیثیت بھی نہیں مل سکی۔ ’’چاندنی بیگم‘‘ کی کم سے کم دو خوبیاں ایسی تھیں جن پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی اور جو تناسب کے اعتبار سے دوسرے تمام ناولوں کی بہ نسبت اس ناول میں زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک تو انسانی سوز اور درد مندی کا وہ پہلو جو عام انسانوں کی زندگی سے علاقہ رکھتا ہے۔ دوسرے تاریخ کی سمجھ میں آنے والی اور مانوس منطق کے بجائے محض اچانک پیش آنے والے واقعات اور ناقابل فہم اتفاقات کے نتیجے میں ہستی کے یکسر تبدیل ہوتے ہوئے محور کا تصور۔ گویا کہ ’’چاندنی بیگم‘‘ کے واسطے سے حقیقت کی طرف قرۃ العین حیدر کا ایک نیا رویہ، ایک نیا تصور حیات اور ایک مختلف تہذیبی اور ثقافتی تناظر سامنے آیا ہے۔ سب سے بڑا اعتراض ’’چاندنی بیگم‘‘ پر یہ کیا گیا کہ چار سو پچیس صفحات پر پھیلے ہوئے اس ناول میں قصہ ابھی ایک سو چونسٹھ صفحے تک ہی پہنچا تھا کہ ناول کی ہیروئن ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ یعنی یہ کہ اس کے بعد، نصف سے زیادہ ناول میں فقط زبردستی کی کھینچ تان ہے اور بات بن نہیں سکی ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں قرۃ العین حیدر نے دو اہم باتوں کی طرف توجہ دلانی چاہی ہے۔ ایک تو یہ کہ
’’جس طرح ہندوستانی عوام، فارمولا فلم پسند کرتے ہیں، ہمارے اہل دانش بھی کیا فارمولا ناول پڑھنا چاہتے ہیں؟یعنی اگر ہیروئن شروع ہی میں چل بسی تو کہانی آخر تک کیسے چلے گی؟ لیکن سنیما کے ناظرین مطمئن بیٹھے رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ موت غلط فہمی ہے۔ ہیروئن پھر نمودار ہو جائے گی۔‘‘
تو اگرچاندنی بیگم آخر تک زندہ نہیں رہتی تو وہ ہیروئن نہیں ہے اور اگر مرکزی کردار نہیں ہے تو ناول کا نام چاندنی بیگم کیوں؟
اور ایک ہیروئن نہیں تو کیا پانچ ہیں؟ یا ان میں سے کوئی اینٹی ہیروئن ہے؟
                           (ایوان اردو، دہلی، اکتوبر1991)
اور دوسرا یہ کہ — ’’زمین اور اس کی ملکیت اس پہلو دار ناول کا بنیادی استعارہ ہے جو پہلے باب کے تعارفی پیراگراف سے لے کر آخری صفحے تک موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی ارتقا کا عمل ، پیہم تغیر، تبدیلی، تخریب و تجدید و تعمیر اور فطرت سے انسان کے اٹوٹ سمبندھ کی اشاریت خاصی واضح ہے۔‘‘
                              (ایوان اردو، دہلی، اکتوبر1991)
اس طرح دیکھا جائے تو قرۃ العین حیدر نے ’’چاندنی بیگم‘‘ میں تجربے اور تصور کی ایک نئی سطح، ایک نئی تخلیقی جہت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے پچھلے ناولوں کی طرح یہ ناول بھی  بادی النظر میں Situational ہے اور انسانی مقدرات اور صورت حال سے بندھا ہوا، لیکن اس کا مجموعی ماحول اور فکری بنت، اس کے ساتھ ساتھ قصے میں واقعات کی نوعیت اور رفتار بہت مختلف رہی ہے۔ ’’دل ربا‘‘ اور ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘‘ سے مماثل ثقافتی سیاق کے باوجود ’’چاندنی بیگم‘‘ کی دنیا بھی خاصی بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس میں واردات اور تجربے کی صورتیں پچھلے تمام ناولوں سے زیادہ متعین، نوکیلی اور ٹھوس ہیں اور داخلی منظر نامے کے بیان سے زیادہ اس ناول میں قرۃ العین حیدر کی توجہ ایک پوری طرح جیتی جاگتی زندگی کو واقعات کے خاکے میں منتقل کر دینے پر رہی ہے۔
قرۃ العین حیدر کی حسیت میں تبدیلی کا یہ عمل بڑی حد تک خاموش اور مبہم رہا ہے۔ ہمارے لکھنے والوں میں اکثریت ایسوں کی ہے جو وقت کے ساتھ بدلتے کم ہیں، تبدیلی کا اعلان زیادہ کرتے ہیں۔ شخصیت میں گہرائی ہو تو تبدیلی بھی ایک تسلسل بن جاتی ہے اور اپنے رویوں میں رونما ہونے والے فرق کی نشان دہی کے لیے اصطلاحوں کا سہارا نہیں لیتی۔ مگر اس گہرائی کو پانے کے لیے بصیرت کی جو خود مختاری درکار ہوتی ہے اس کی مثالیں ہمارے لکھنے والوں کے یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس مسئلے پر قرۃ العین حیدر کے حوالے سے غور کیا جائے تو ایک دل چسپ روداد مرتب ہوتی ہے، رنگا رنگ اور تغیر پذیر۔ ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ کی اشاعت جس دور میں ہوئی وہ خوابوں کے تعاقب اور آدرشوں کی پرستش کا دور تھا۔ چناں چہ، اس دور کے بیش تر لکھنے والوں کی طرح، قرۃ العین حیدر کی بصیرت بھی بہت آزاد نظر نہیں آتی۔چاندنی بیگم کی اشاعت کے وقت صورت حال، ظاہر ہے کہ پہلی جیسی نہیں رہی۔ اب اپنی کہانی سے ایک غیر مشروط تعلق کے اظہار میں لکھنے والا نہ تو جھجکتا ہے، نہ پشیمان ہوتا ہے۔ پچھلے تیس پینتیس برسوں میں جس ادبی کلچر کو فروغ پانے کا موقعہ ملا ہے اس کی سب سے بڑی پہچان اس کی آزادہ روی رہی ہے۔ یہ کلچر اپنے انسانی سروکار، اپنی حقیقت پسندی اور اپنی اخلاقیات پر اصرار کے باوجود اوپر سے عاید کی جانے والی تمام پابندیوں سے انکار کرتا ہے۔ انسان کے حال اور آئندہ کی بابت اپنی تشویش کے اظہار یا اپنی پہچان قائم کرنے کے پھیر میں لکھنے والے کو کسی بیرونی سند کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اس پوری مدت میں جس ادبی روایت کی تشکیل ہوئی، اس کے واسطے ادب تخلیق کرنے والے کی ترجیحات اور پڑھنے والے کے تقاضوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ احساس بھی قائم ہو سکتا ہے کہ مصنف اور قاری ، دونوں تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ ضرورہے کہ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی اکثریت نے تبدیل کے اس عمل کو صرف رسماً قبول کیا ہے۔ اسی لیے اس کا جلسہ بدلا کم اور بگڑا زیادہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ادیب اپنے خود ساختہ اور پسندیدہ رویوں سے اتنی جلدی دست کش نہ ہوتے، نہ جدیدیت سے آگے ما بعد جدیدیت، کا قلعہ فتح کرنے کا اس طرح اعلان کیا جاتا اور نہ ہی ادب میں اور ادب کے قاری میں ایسی سرد اور سنگین دوری پیدا ہوئی ہوتی۔ کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے ہیں اور انسانی تجربے کی مشترکہ وراثت بھی انھیں ایک دوسرے سے مکالمے پر آمادہ نہیں کر پاتی۔
اب اس قصے سے الگ ہو کر، ہم قرۃ العین حیدر کے تخلیقی رابطوں پر دھیان دیں تو ایک اور سچائی سامنے آتی ہے، حسیت کے ارتقا کی ایک ایسی روداد جس میں قرۃ العین حیدر کا کوئی ہم عصر ان سے مماثل یا ان کا  ہم پلہ نہیں ٹھہرتا۔ ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ سے لے کر ’’چاندنی بیگم‘‘ تک، ان کی حسیت کا سفر بہت پر پیچ رہا ہے۔ ’’سفینۂ غم دل‘‘ کو وارث علوی نے ایک حوصلہ شکن تجربے کا نام دیا تھا۔ سو اس سے قطع نظر کر کے،  ’’آگ کا دریا‘‘،  ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘،  ’’کار جہاں دراز ہے ‘‘ ،  ’’گردش رنگ چمن‘‘ اور ’’چاندنی بیگم‘‘ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تمام ناول اپنی اپنی ایک علاحدہ اور خود کفیل دنیا رکھتے ہیں اور انھیں صرف ایک مجموعی تاثر کی روشنی میں یا ایک دوسرے کے حساب سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ ان کتابوں کے باطنی اور بیرونی مظاہر ایک دوسرے کے لیے بڑی حد تک اجنبی رہے ہیں۔ فضا اور ماحول، کرداروں کی ذہنی، جذباتی اور طبقاتی سطحیں، ثقافتیں اور زمانے کی گردشوں کے محور مسلسل تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ان قصوں کے کردار وقت سے، معاشرے سے اور کائنات سے اپنے تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل کرتے رہے ہیں۔ رنگا رنگی کے اس ہجوم میں قرۃ العین حیدر نہ تو اپنی بصیرت کے بنیادی مراکز سے دور ہوتی ہیں، نہ ہی مختلف زمانوں کے مطالبات کی ادائیگی کے ساتھ، ان کی اپنی پہچان میں بھی کوئی بڑا فرق آیا ہے۔ ہر تبدیلی کو ، بہ ہر حال، اپنا جواز بھی ساتھ لانا چاہیے۔ قرۃ العین حیدر کے یہاں شروع سے ہی تخلیقی آزادی کا ایک گہرا شعور، ان کے وجدان میں ایک ہمہ گیری اور مشاہدے میں ایک وسعت موجود رہی ہے۔ اسی لیے ’’آگ کا دریا‘‘ سے ’’گردش رنگ چمن‘‘ تک اور پھر ’’چاندنی بیگم‘‘ تک ان کا سفر معمول کے مطابق اور بہ تدریج رہا ہے۔ ایک دوسرے سے متصادم کیفیتیں ، بہ ظاہر ایک دوسرے سے الگ دکھائی دینے والے رنگ، احساس کی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی لہریں ان کے یہاں اس طرح گھل مل جاتی ہیں جس طرح بدلتے ہوئے موسموں کا منظر وقت کے مہیب اور بے کنار پھیلاؤ میں اپنے لیے گنجائش پیدا کر لیتا ہے۔ اس ردوبدل سے قرۃ العین حیدر کے تخلیقی انہماک میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پرانے قصہ گویوں کے غیر معمولی وقار اور ایک نیم مجذوبانہ استغراق کے ساتھ وہ دھندلی اور روشن ، کالی اور سفید تصویروں کے ساتھ ورق الٹتی جاتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس عمل میں وہ نہ تو کہیں جذباتی دکھائی دیتی ہیں نہ حواس کی گرفت میں آنے والی حقیقتوں سے لا تعلق۔ خاص طور پر ’’چاندنی بیگم‘‘ میں تو ان کی بصیرت کا توازن اور اظہار و اسلوب کا ضبط و نظم حیرت انگریز ہے۔
زندگی کی دھوپ چھاؤں، تہذیبی اور معاشرتی اکائیوں کی تنظیم اور ابتری کو ایک سی سادگی کے ساتھ قبول کرنے کی یہ صلاحیت قرۃ العین حیدر کے ہم عصر ناول نگاروں سے قطع نظر خود قرۃ العین حیدر کے پچھلے تمام ناولوں کی بہ نسبت ’’چاندنی بیگم‘‘ میں تقریباً بے مثال ہے۔ انسانی تجربات کی جس بلند اور بھیدوں بھری سطح تک قرۃ العین حیدر کے واسطے سے ہماری رسائی ہوئی ہے، اس کے حساب سے دیکھا جائے تو ان کی تخلیقیت کا یہ منطقہ غیر معمولی ہے۔ یہ منطقہ پر فریب بھی بہت ہے۔ اسی لیے، اس کے اسرار کو سمجھنا سہل بھی نہیں۔ بہتوں کے نزدیک ’’آگ کا دریا‘‘ سے ’’چاندنی بیگم‘‘ تک قرۃ العین حیدر کے فکشن کی ظاہری صورت اور ساخت میں کوئی قابل ذکر انقلاب رونما نہیں ہوا اور کچھ اصحاب تو اس سے بھی آگے جاکر اب تک یہ کہے جا رہے ہیں کہ قرۃ العین حیدر کے موضوعات اور سروکار کی شناخت اس لیے مشکل نہیں کہ وہ ایک خاص دائرے سے باہر نہیں جاتیں۔ اس قسم کی تعبیر ناقص بھی ہوتی ہے اور احمقانہ بھی کہ بہ ظاہر ایک فرد کا وجود بھی، ایک دائرے کا ہی پابند ہوتا ہے۔ اس نکتے کی طرف ’’چاندنی بیگم‘‘ میں بہت سے اشارے ملتے ہیں:
الحمد و کہتی ہیں: ’’اللہ کی شان دیکھو پھول پتے، درخت، چرند پرند، سب لاکھوں برس سے ویسن ہیں جیسے تھے۔ لیموں ہے تو اس کی مہک مزا وہی ۔ آم ہے۔ جامن ہے۔ کروندہ۔ بھٹا، جو پھل ترکاری چکھو ویسن— بس آدم زاد خراب ہو گیا۔‘‘
منشی بھوانی شنکر سوختہ کہتے ہیں : ہاں احدو، باجی۔ دنیا مقام عبرت ہے۔ آدمی اپنے آپ کو اچھے برے الفاظ میں، نیک بد اعمال میں — سروں میں ڈھال لیتا ہے۔ کبھی بے سرا ہو جاتا ہے۔
الحمد و کہتی ہیں : منشی جی، ہمارے گھر کے پاس امام گنج میں قبرستان ہے۔ ایک بیری ہم نے وہاں ایک مٹی کی خالی ہانڈی پڑی دیکھی تو سونچے منشی جی کہ اس میں کھانا پکایا۔ بھاپ نکل گئی۔ کھانا لوگوں نے کھایا۔ کالی ہانڈی دھو دھا کر رکھ دی۔
وکی میاں سے ایک مکالمہ اس طرح ہے :
’’پچھلے دس ہزار برس میں ‘‘ معراج احمد نے کہا — کبھی کبھی بات بدل بدل بھی تو گئی ہے—‘‘
’’لیکن مستند گواہ بھی ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں۔‘‘ پنکی نے کہا۔ وکی چونکے—’’رومن ٹرمپٹ اور پن پائپ اور بربط اور بطخوں اور بھیڑوں کی ہڈیوں سے بنی وائکنگ بانسریاں—‘‘
’’ہڈیوں کی بانسر یاں؟ وہ متواتر بج رہی ہیں۔ جب سے انسان پیدا ہوا اور مرا — ‘‘  معراج احمد نے کہا — وہ سب پھر چپ ہو گئے ۔ کسی نے کتب خانے کا دریچہ اندر سے بند کر دیا
اور آخری اقتباس صفیہ کی موت کے بعد کی بات چیت سے ہے
چار پانچ مسلمان استانیاں قرآن خوانی کے بعد باہر آکر گھیرے میں شامل ہو گئیں۔
’’اللہ جنت نصیب کرے۔ تین ہفتے کی میری تنخواہ روک رکھی تھی۔‘‘
’’آپ تین مہینے غیر حاضر بھی تو رہیں۔‘‘
’’ اب حساب کتاب کون کرے گا ؟ پنکی میاں یا شہلا؟‘‘
’’ ارے کوثر باجی— ابھی سے یہ قصہ نہ چھیڑیے‘‘
’’ شمیم فاطمہ، جو میری ذمے داریاں ہیں اور اخراجات— ‘‘
ترلا جوشی لوگوں کی آمدو رفت دیکھا لیں۔ ہمیشہ ایک جملہ یہ بھی دوہرایا جاتا ہے :
میرے لائق کوئی کام؟ ہر چیز، روٹین ہے۔ زندہ رہنا۔ مر جانا۔ انتم سنسکار کتنی بھاری روٹین۔ کال کے نوٹس بورڈ پر چپکا ٹائم ٹیبل!‘‘
تجربات کے تنوع کا رسمی تصور رکھنے والا سوچے گا کہ گھوم پھر کر ایک ہی بات نکلتی ہے—آدم زادوں کا اخلاقی زوال۔ روح کا خالی پن۔ اجتماعی پستی اور وقت کے اندھے سیلاب میں انسان کی بے دست و پائی۔ وہی زندگی اور موت کا تماشا ۔ ایک چکر ویوہ ! مگر کیا کیا جائے۔ جس طرح زمین اپنے مدار پر گھومتی آرہی ہے، اسی طرح انسان بھی بناؤ اور بگاڑ ، جینے اور مرنے کے ایک روٹین کی قید میں ہے۔ کبھی اپنے آپ کو ’’سر میں ڈھال لیتا ہے۔ کبھی بے سرا ہو جاتا ہے۔ ‘‘مٹی کی ہانڈی میں ابال آتا ہے۔ پھر خالی ہانڈی دھو دھا کر رکھ دی جاتی ہے۔ ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔ ہڈیوں کی بانسریاں کب سے متواتر بجتی چلی آ رہی ہیں، اور کتنے راگوں میں۔ سب کچھ کال کے نوٹس بورڈ پر چپکے ہوئے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہو رہا ہے۔ قرۃ العین حیدر محض کچھ لکھنے کے لیے نہیں لکھتیں۔ ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی بات ضرور ہوتی ہے اور وہ جانتی ہیں کہ کچھ نہ کہنے کے طریقے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیے جا سکتے۔ ان کی فکر رسمی تنقیدی ضابطوں کی گرفت میں نہیں آتی اور ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے معنی ایک وسیع انسانی تناظر میں متعین کیے جائیں۔ ایک ذمے دار لکھنے والے کی طرح وہ ان سچائیوں کی یاد برابر دلاتی رہتی ہیں جنھیں بھلا کر ہم اپنی انسانیت کا مفہوم بھی کھو بیٹھیں گے۔ پھر بھی، ایک بات اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنی چاہیے۔ یہ کہ اپنے تخیلی تجربے کا جو خاکہ وہ مرتب یا دریافت کرتی ہیں، بے شک ، اس کی اپنی اہمیت ہے اور رسمی تنقید انھی سہاروں سے اپنی چمک دمک قائم رکھتی ہے، مگر عام قاری کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ اس پورے تجربے میں اس کی شرکت کن سطحوں پر ہو۔ مصنف کے تخلیقی طریق کار کو سمجھے بغیر اس شرکت کا کچھ مطلب نہیں نکلتا۔ لیکن، صرف اس طریق کار کی آگہی بھی کافی نہیں ہے کیوں کہ قرۃ العین حیدر کی سطح کا لکھنے والا اپنی بیانیہ حکمت عملی کو ہی مقصود بالذات نہیں بناتا۔ اسے غرض اس بات سے ہوتی ہے کہ اپنے تجربے کو وہ قاری کے شعور میں اس تجربے کی لسانی، فکری، جذباتی، تہذیبی، اخلاقی اور جمالیاتی پرتوں کے ساتھ منتقل کرے۔ اسے اقدار کے ایک تصور تک لے جائے۔ اس پر معمولات میں گھری ہوئی زندگی کے ایک نئے کشف کی صورت میں وارد ہو۔
چاندنی بیگم میں 1947 سے اب تک کے مسلمان معاشرے کو در پیش مسئلے — متروکہ جائدادیں ، خاندانوں کی تقسیم، ہجرت، خاتمۂ زمین داری، کلچرل زوال اور شرفا کے خاندانوں کی مشکلات، ایک نو دولتے طبقے کا ظہور، صارفیت کے فروغ کے ساتھ ایک ’’ نئے نظام اقدار‘‘ کی تعمیر ، پیٹرو ڈالر کی وبا، کلچر ہائی جیک، ان تھک جھگڑے، ایک انحطاط پذیر سیاسی کلچر کے پیدا کردہ سوالات— ان سب پر نظر ڈالی گئی ہے۔ ماضی اور حال کی گڈ مڈ ہو تی ہوئی حدوں کا مذہبی پہلو، رسوم، روایات، عرس کی تقریبات اور ترقی کی گرد میں گم ہوتی ہوئی صورتوں— میراثی، بھانڈ، بھاٹ، مغلانیاں— ان سب کے واسطے سے حقیقی اور علامتی دونوں سطحوں پر ایک ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔ واقعات رمزیے بھی ہیں اور آج کا پورا معاشرہ اپنی سچائیوں کے ساتھ ایک عجیب و غریب قومی تمثیل۔ قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں زبان اور بیان کے وسائل کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ان کے بہت سے جملے اور مکالمے صرف برائے بیان نہیں آئے ہیں، انھیں معنی سے معمور ایک تخلیقی حربے کے طور پر بھی برتا گیا ہے۔ ان میں کہیں متانت اور گمبھیرتا ہے، کہیں طنز اور شوخی ، معاشرتی سیاق کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ لفظ بھی اپنے آپ کو اندر سے بدلتے جاتے ہیں۔ مجرد بیانات سے زیادہ توجہ یہاں ٹھوس، ارضی اور جان دار استعاروں پر کی گئی ہے اس لیے ، ’’چاندنی بیگم‘‘ میں عام انسانی صورت حال کہیں بھی باتوں سے بوجھل نہیں ہونے پاتی:
’’گل عباس دس سال کی تھی جب —ہم حنیفن بوا کے ساتھ یہاں آئے تھے، بمبئی جانے سے پہلے —‘‘
’’ہاں۔ جرمن کی لڑائی چل رہی تھی—اور ممتاز شانتی کی بسنت—‘‘
’’گلاب فلمی ویلن موہن کی طرح اینڈ کر چلتے ہوئے وارد ہو چکے تھے—کٹوردان اور نان کی پوٹلی ماں کے سامنے رکھی۔ باپ کی بات سن کر بولے—’’واہ ابا واہ،بہت اچھے۔ یہ سالے اشراف مردار خور نہیں ہیں اور نیتا لوگ۔ ڈھونگی ، لٹیرے۔ بے گناہوں کو پل کی پل میں یہ سالے بھنو ڈالیں۔ حرام کی کمائی یہ کھائیں۔ ڈوم ہم کہلائیں!‘‘
’’اس کا باپ ، بھائی مکہ مدینہ میں ایرکنڈیشنڈگاڑیاں ڈرائیور کرنے چلا گیا ہے۔ حاجی لوگ بومبے سے فلائی کرتا ہے‘‘— بازی گر بولا — ’’ٹھیک ہے۔ مگر میاں بھائی کو اسلام کی شان اونٹ ہی میں دکھتا ہے۔ اونٹ اور کھجورکا پیڑ اس کی آنکھ کی پتلی میں کھڑا ہے—‘‘
سیاہ مخملیں ٹوپی اتار کر عمر رسیدہ بنن خاں نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’بالے میاں کی بیرق کے میلے، ہماری طرف بھی جگہ جگہ ہو ہیں مگر— ٹیلی ویزن سے ہماری بدھیا بیٹھ گئی— کلیر شریف کی نو چندی میں مشور عالم ناچ گانا ہوتا تھا ایک زمانے سے — لوجی، دس پندرہ سال ادھر مولویوں نے اسے بھی بند کرادیا—‘‘ ماسٹر جی نے خاموشی کے ساتھ اظہار افسوس کیا۔
’’اور سرکار ریچھ بندر نچانے والوں کو پیرس بھیج رہی ہے۔‘‘
’’فارن میں نو چندی بھی ہونے لگی؟‘‘
’’نہیں صاحب۔ ہندوستانی میلہ۔ ڈھول۔ تاشے۔ نفیری جنگلیوں کے اچھل کود، ہبوڑنیں، پہاڑنیں سب چلی جا رہی ہیں۔ ‘‘
’’قرآن شریف میں باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم زمانے کے لوگوں میںادلا بدلا کرتے ہیں۔‘‘بنن خاں آنکھ بند کر کے جھوم گئے۔ پھر بولے۔ ’’حق ہے — تو ماسٹر ، پھر ہوا بٹوارہ۔ منشی جی کی آل اولاد چلی گئی پاکستان۔ اب دیکھو تو قلعہ کھنڈر اور اس کے اندر جنگل کھڑا تھا۔‘‘
’’بنن خاں‘‘ موگرے نے بہت گہری سانس بھری‘‘ ہمارے تمھارے اندر بھی چنگل کھڑے ہیں۔‘‘
شور مچاتی چڑیاں درختوں کی طرف آ رہی تھیں۔
’’وکی ماموں کہتے ہیں پرندوں میں بھی پیغمبر آتے ہوں گے۔ ‘‘
’’ انھیں پیغمبروں کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ لیلیٰ نے پلکوں پر انگلیاں پھریں—‘‘ ’’میں جنگلوں میں بہت رہی ہوں۔‘‘
اس طرح کے نکات اور حوالوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، چاندنی بیگم کو دیکھا جائے تو قرۃ العین حیدر کے تخلیقی رویوں اور رابطوں کی ایک نئی دستاویز سامنے آتی ہے۔ ایک بہت بھری پری، آباد، حقیقی اور رنگا رنگ دنیا جہاں تصورات پر چہروں اور واقعات اور تجربوں کی نشانیاں ثبت ہیں۔ جہاں مشاہدہ احساسات میں گم نہیں ہوتا۔ جہاں زمین ہماری قدموں کے نیچے بھی ہوتی ہے اور آنکھوں کے سامنے بھی۔    قرۃ العین حیدر کی بصیرت کے پیمانے اور وسیلے نہیں بدلے۔ مگر ان سے کام لینے کا طریقہ ضرور بدلا ہے۔ حقیقتوں کا ادراک اب قرۃ العین حیدر نے اپنی قائم کردہ روایت کے اثر سے نکل کرایک نئی سطح پر کرنا چاہا ہے۔ اسی لیے، ’’آگ کا دریا‘‘ کو اردو فکشن کی تاریخ کا سب سے بڑا سنگ میل مان لینے کے باوجود، میں اسے ایک گزرے ہوئے اور دور افتادہ تجربے کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘، ’’ کار جہاں دراز ہے‘‘، ’’گردش رنگ چمن‘‘ اور ’’چاندنی بیگم‘‘  میں قرۃ العین حیدر نے زندگی کے اسرار اور تخلیقی تجربے کی کچھ ایسی جہتیں دریافت کی ہیں، ایسی صورتیں وضع کی ہیں جن کا سراغ ’’آگ کا دریا‘‘ میں نہیں ملتا۔ ان کے رویوں میں اور فن کارانہ برتاؤ میں تبدیلی کا عمل اتنا دھیما اور پیچیدہ رہا ہے کہ ہم اسے تبدیلی کے طور پر اکثر دیکھ نہیں پاتے۔ بس اس کے نقطۂ نظر اور موضوع کی اوپری پر توں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ تحت الارض ارتعاشات ہماری گرفت میں نہیں آتے۔
میں ’’ چاندنی بیگم ‘‘ کو قرۃ العین حیدر کی حسیت کے سفر اور اردو فکشن کی تاریخ میں ایک نئے واقعے کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ’’چاندنی بیگم ‘‘سے پہلے ناولوں میں اس واقعے کا ایک پس منظر، ایک عقبی پردہ تو دکھائی دیا تھا مگر تجربے کی یہ نئی سطح اچھی طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی۔ ’’ دل ربا ‘‘ اور ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو ‘‘ بڑے کینوس کی تصویروں پر داد بیداد اور فلسفہ طرازی کے ہنگامے میں پیچھے جا پڑے۔ ’’چاندنی بیگم ‘‘ قرۃ العین حیدر تحریروں کے سیاق میں، ایک بھولی ہوئی بات کو یاد دلانے کا بہت موثر اور طاقت ور ذریعہ بن کر سامنے آئی، اور یہ کتاب اس حقیقت پر اصرار کرتی ہے کہ قرۃ العین حیدر کی بصیرت کا سلسلہ ’’ آگ کا دریا ‘‘سے آگے بھی پھیلا ہوا ہے، ایک منفرد معاشرتی اور تخلیقی تجربے کی شکل میں۔ اس تجربے کی کڑیاں ہماری علاقائی زبانوں کے ادب کی روایت ، ہماری لوک روایت سے جا ملی ہیں۔ مشرقی بیانیے اور مشرق کی قصہ گوئی کے آلات اور اسلحے، آداب اور طور طریقے اس کے اپنے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کے حوالے سے مغربی افکار اور اسالیب پر طبع آزمائی بہت ہو چکی۔ ہمارے فکشن پر مغرب کے اثرات، بے شک، پڑتے رہے ہیں۔ مگر قرۃ العین حیدر کے معاملے میں خرابی یہ پیدا ہوئی کہ ہم لوگ آزاد تلازمۂ خیال اور شعور کی رو کے مباحث میں ضرورت سے کچھ زیادہ الجھ گئے، کبھی کبھی تو ان کا مطلب اور مفہوم اچھی طرح سمجھے بغیر۔ اسی لیے قرۃ العین حیدر کی تحریریں آج بھی، بہت سے سادہ لوح ناقدین کو مغرب کی روایت میں الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ’’کارجہاں دراز ‘‘ ہے قرۃ العین حیدر نے اس متھ کو توڑنے کی کوشش کی تھی۔ ’’ چاندنی بیگم ‘‘ ان کے اپنے قائم کیے ہوئے فنی ضابطوں ، لسانی رویوں اور عادتوں، آزمائے ہوئے اسالیب سے خود کو کچھ اور آزاد کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ اس کوشش کے آثار ’’ گردش رنگ چمن ‘‘ میں بھی نمایاں ہیں، ہر چند کہ ’’دل ربا ‘‘ اور ’’ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو ‘‘ میں اس کی سطح زیادہ معین اور مرتکز ہے۔ ان میں ہماری عوامی روایت اور حکائی روایت کے عناصر خاصے سرگرم ہیں اور ’’ چاندنی بیگم ‘‘ میں تو ان عناصر کے عمل دخل نے ارضیت کاحر، فطرت کے مظاہرسے ہم آہنگی کا ، اور ان سب کے واسطے سے اپنی زندگی اور اپنے وقت کو سمجھنے کا جو ماحول مرتب کیا ہے، وہ قرۃ العین حیدر کے پچھلے تمام ناولوں سے زیادہ منور ہے۔ موگرا، بیلا، چنبیلی، چاندنی کرداروں کے نام بھی ہیں اور استعارے بھی۔ ان کرداروں کے ساتھ صرف انھی کی شبیہیں نہیں ابھرتیں، احساس اور خیال کے کچھ موسم اور دور پاس کی بستیوں میں ایک عنصری سادگی سے مالا مال، لاپروائی کے انداز میں بکھری ہوئی کچھ سچائیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ یہ زندگی کی عام اور معمولی سطح پر گھنے اور گہرے بھیدوں تک رسائی کا قصہ ہے۔ یہ قصہ اس طور پر ہمیں قرۃ العین حیدر ہی سنا سکتی تھیں۔

پتہ :
شمیم حنفی

B-114, Zakir Bagh

سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2008

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں