12/11/20

حقوقِ نسواں کی ایک بلند آواز: پروفیسر شمیم نکہت مضمون نگار: پروین شجاعت

 



ادب کیا ہے؟ ہماری زندگی کا ترجمان ہے۔ انسانی جذبات واحساسات اور بلند خیالات کے فنی اظہار کا نام ہے۔ یہ فنی اظہار کسی ذاتِ واحد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ایک قوم، ایک زبان اور اس کی مکمل تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کا مقصد زندگی کے مختلف مسائل، مشکلات، دکھ، سکھ غرض ہرپہلو، ہررنگ کی ترجمانی کرنا اور معاشرے میں تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی لانا اس لیے ضروری ہے کہ ادب اپنے معاشرے کا ہی ترجمان ہوتا ہے۔ سماج ومعاشرے سے ہٹ کر نہ تو ادیب کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اس کی تخلیق کردہ تحریر کی۔

کسی بھی تخلیق کار کے لیے حساس دل ہونا بہت ضروری ہے۔  ایسا دل جو اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی ہرچیز سے متأثر ہو۔ ہر غلط بات، ہر ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے۔ سوسائٹی میں پھیلی ہوئی خودغرضی کے خلاف اپنا قلم اُٹھائے۔ انسانی بے حسی کے خلاف آواز بلند کرے۔ انسانی زندگی کی قدروقیمت کو کم کرنے والے ہر عمل کے خلاف احتجاج کرے۔ بقول علاّمہ اقبال       ؎

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟

فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں؟

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں؟

ہم نوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں؟

ادب جو زندگی کا پابند ہے، زندگی سے گریز کر ہی نہیں سکتا ہے، احتجاج سے ہمیشہ متأثر ہوتا ہے۔ ہر ادیب کے اندر احتجاج کی خوٗ موجود ہوتی ہے۔ جب بھی وہ معاشرے کے تضادات اور انسان کی محکومی اور بے توقیری پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا ردّعمل اس کی تحریروں میں کم یا زیادہ ظاہر ضرور ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں جبر، قوت اور دہشت کے ذریعے انسانی آزادی کو دبایا گیا تو اس کے نتیجے میں احتجاجی ادب تخلیق ہوا ہے۔ احتجاجی ادب کا بنیادی مقصد لوگوں کو ان کی ذات کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔  ان کے اندر اتنی ہمت اور جرأت پیدا کرنا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ہرظلم وناانصافی کو خاموشی سے برداشت کرنے کے بجائے ان کا نڈر ہوکر مقابلہ کرسکے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرسکے۔ یہ جذبہ، یہ ہمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان لوگوں میں یہ شعور بیدار نہ ہوجائے کہ جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہورہا ہے وہ غلط ہے،  ناانصافی ہے۔ لوگوں میں یہ احساس جگانا ایک بالغ نظر اور حساس دل ادیب ہی کرسکتا ہے اور اس کو کرنا بھی چاہیے کیونکہ جب تک لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ وہ بھی سماج اور معاشرے کا ایک اہم حصّہ ہیں۔ معاشرہ ان کے دم سے قائم ہے اور اس کی ترقی میں ان کا بھی ایک اہم کردار ہے تب تک وہ اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کا مقابلہ کرنے لائق نہیں ہوپائیں گے۔

سماج کی تشکیل انسانوں کے اجتماعی عمل سے ہوئی ہے اور اس اجتماعی عمل میں عورت اور مرد برابر کے شریک رہے ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی ارتقا کے مختلف ادوار میں ان کے باہمی عمل کا تناسب بدلتا رہا ہے لیکن تخلیقی عمل کی اصل حقیقت دونوں کے تعاون ہی سے ظاہر ہوتی ہے۔ تہذیب کے ابتدائی دور سے اس وقت تک کسی نہ کسی انداز میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ عورت اور مرد سماج کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور دونوں کے بغیر ارتقا کا عمل پورا نہیں ہوسکتا۔ لیکن تاریخ وتہذیب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سماج میں اکثروبیشتر عورت کی حیثیت مظلوم کی رہی جو ہرجگہ اپنے حقوق اور انصاف کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔

عورت کی سماجی نا برابری کے خلاف ہمارے ادیبوں نے احتجاج کی صدا بلند کی ہے جن میں مرد وخواتین دونوں ہی شامل ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر تک مسلمان عورتیں قومی وتعلیمی میدان میں زوروشور سے داخل ہوئیں۔ تعلیم کے ساتھ سیاسی وقومی سوجھ بوجھ عورتوں میں اس وقت شائع ہونے والے کچھ اہم رسالوں کے مطالعے سے آئی جن میں مضامین لکھنے والی عورتیں مغربی تعلیم اور سماجی بیداری سے آراستہ تھیں۔ ان لکھنے والی خواتین میں عطیہ فیضی، نذر سجاد، زاہدہ بیگم، زہرہ، خجستہ بانو، بیگم بھوپال ونواب سلطان نے ہرطرح کے مضامین لکھے۔ ان مضامین میں عورتوں کے حقوق اور ان کی تعلیم پر زور دیا جاتا تھا۔ توہم پرستی اور فضول خرچی کے خلاف باقاعدہ تحریک کے طور پر مضامین لکھے گئے۔

اردو میں بہت سی افسانہ نگار اور شاعر خواتین نے اپنی جرأت مندانہ اور روشن خیال تحریروں سے خواتین میں آزادیِ فکر اور آزادیِ نظر پیدا کی ہے۔

اِن نڈر اور بے باک خواتین میں سب سے پہلا نام میں لینا چاہوں گی ڈاکٹر رشید جہاں کا جنھوں نے ’انگارے‘ جیسی تہلکہ خیز کتاب میں شامل ہوکر عورتوں کو ایک نئی راہ اور دعوتِ فکر دی۔ عصمت چغتائی کی تحریروں نے عام رویّے میں تبدیلی پیدا کی۔ قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، زاہدہ حنا، ممتاز شیریں اور شاعرات میں ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، بانو داراب وفا، زاہدہ زیدی اور زہرہ نگاہ وغیرہ ادیباؤں نے خواتین میں آزادیِ فکر کا جذبہ بیدار کیا۔

انھیں خواتین ادیباؤں میں ایک نام پروفیسر شمیم نکہت کا بھی ہے جنھوں نے اپنے افسانوں، خاکوں اور مضامین کے ذریعے خواتین کو گھر اور سماج میں ان کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ان کو اپنے وجود کی پہچان کرائی اور خواتین کے تئیں ہونے والے ہر ظلم وناانصافی کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے احتجاج کیا۔ ان کے بیشتر افسانوں اور مضامین میں ان کا یہ نظریہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے:

’’میری کہانیاں میرے اطراف بکھری ہوئی سچائیاں ہیں جو کبھی پسِ دیوار جھانکتی ملیں، کبھی گاؤں کے کھیتوں میں اُگی دکھائی دیں اور کبھی شہروں کی گہماگہمی کے گرد منڈلاتی ہوئی ذہن پر چھاگئیں اور کبھی تو اپنے گھر میں سانس لیتی محسوس ہوئیں اور جی اُٹھیں۔ دل کی چوٹ جب جب پک کر آنسو بنی۔  تو کہانی کے روپ میں ٹپک پڑی۔‘‘ 1

پروفیسر شمیم نکہت نے نہ صرف اپنے قلم کے ذریعے بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی عام فرسودہ روایات کے خلاف احتجاج کیا۔ عرشیہ جبیں کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ اپنے خاندان میں پردے کی روایت کو انھوں نے ہی توڑا اور اپنی پانچوں بہنوں کی تعلیم وتربیت بالکل اپنی پسند کے مطابق دلوائی۔ نتیجتاً ان کی سب بہنیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، روشن خیال اور لکھنے پڑھنے والی ہیں اور سب ہی کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔ تانیثی نقطۂ نظر ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو ہے۔ خواتین کے حوالے سے ان کے سامنے کوئی کمزور یا ہلکی بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ خصوصاً لڑکیوں کو وہ ہمیشہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے، مردوں کی برابری کرنے اور احساس کمتری کا شکار نہ ہونے کی تلقین کرتی رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کے زیادہ تر موضوع عورتوں کی تعلیم اور ان کی سماجی بیداری کا احاطہ کرتے ہیں۔ خود ان کا تحقیقی مقالہ ’پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار‘ ان کے اِس نقطۂ نظر کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ اس مقالے میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں  :

’’پریم چند کے ناولوں میں عورتوں کے بہت سے کردار ملتے ہیں جو مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی رانی ہے، کوئی طوائف، کوئی سیدھی سادی گھریلو عورت ہے تو کوئی سیاسی وسماجی شعور رکھنے والی قومی کارکن، کوئی بیدار ذہن رکھنے والی فاقہ کش مقروض دیہاتی عورت تو کوئی کلب کی رونق اور شمعِ محفل۔  ان میں آپس میں طبقاتی اختلاف ہے، حالات کا اختلاف ہے، مسائل، جگہ اور ماحول کا اختلاف ہے لیکن ایک چیز ان سب میں مشترک ہے اور وہ ہے ان کا ’دل‘ مادرانہ محبت سے لبریز دل۔  ان کے کسی کردار کو لیجیے اُس میں وہی ہمدردی اور وہی عفو کی قوت ملتی ہے جو ایک ہندوستانی ماں کی خصوصیت ہے۔‘‘2

پروفیسر شمیم نکہت کے فکری نقطۂ نظر کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر قمر رئیس لکھتے ہیں  :

’’ڈاکٹر شمیم نکہت کی اصل قلم رو گھر آنگن کی مانوس فضا، اس کی خوشیاں، محرومیاں اور مسائل ہیں۔ اس قلم رو میں حیات انسانی کے مطالعے کے لیے کتنی وسعتیں اور جہتیں ہیں؟ انسانی رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی کیسی الم ناک داستانیں چھپی ہیں؟ اس کا اندازہ کرنا ہوتو شمیم نکہت کی کہانیوں کو ذرا غور سے پڑھیے۔ دکھوں اور محرومیوں کی آگ میں جلتے ہوئے انسانوں کے کرب کو انھوں نے اپنی روح میں شدّت سے محسوس کیا ہے لیکن اپنے عہد سے ان کا رشتہ دردمندانہ ہی نہیں حریفانہ بھی ہے۔ اپنی ہرکہانی میں وہ سماج کی ناانصافیوں اور ناہمواریوں کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ قاری کو شروع سے اعتماد میں لے لیتی ہیں۔ شمیم کی کہانیوں میں نئے احساس وشعور کے ساتھ ساتھ ان انسانی قدروں کا عرفان بھی ہے جو انھیں عزیز ہیں اور جو ان کے تخلیقی ہنر کا ایک متحرک حصّہ بن گئی ہیں۔‘‘3

پروفیسر شمیم چوں کہ ترقی پسند نظریات کی حامی تھیں اس لیے ان کی کہانیوں اور مضامین میں اس کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اپنے افسانوں میں انھوں نے انسانی نفسیات کا نہایت خوبصورت مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں بحث نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی حقیقتوں کی تہہ داری ملتی ہے۔ اپنے بیشتر مضامین میں انھوں نے خواتین کے مسائل کی عکاسی کی ہے، وہ سماج ومعاشرے میں ان کو برابری کا درجہ دینے کی قائل رہی ہیں۔ اپنے مضمون ’ادب اور خواتین‘ میں وہ لکھتی ہیں  :

’’ادب اور خواتین پر جب گفتگو ہوتی ہے تو میرے ذہن میں باربار یہ بات آتی ہے کہ ادب میں عورتوں کے  Contribution  کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ  اگر انصاف سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق میں خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ نگاری عورت کو اوّلیت حاصل ہے۔ اور شاید یہ اوّلیت ازل سے اس کے اس کے حصّے میں آئی ہے۔  یعنی دنیا کی پہلی شاعرہ لازماً عورت ہوئی ہوگی،  اس لیے کہ رات میں بچّے کو بے چین دیکھ کر اس کے ہونٹوں سے بے اختیار لوری کے نغمے پھوٹ پڑے ہوں گے۔ اسی طرح ننھے منے بچوں کو سلاتے وقت ماں نے چھوٹی موٹی کہانیاں بھی سنائی ہوں گی، یہ الگ بات ہے کہ یہ لوریاں یا کہانیاں تحریر میں نہ آئی ہوں لیکن ان کی تخلیق میں اوّلیت کا سہرا عورت ہی کے سر ہے۔‘‘4

شمیم نکہت نے افسانوں، خاکوں اور دوسری تحریروں کے ذریعے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اس سماجی حقیقت کی تصویر کشی کی ہے جس میں عورت کسی نہ کسی شکل میں سماج کے اہم رکن کی حیثیت سے سامنے آتی ہے،  خود ایک حساس دل خاتون ہونے کی بدولت وہ ایک عورت کی نفسیات، اس کے غم اور خوشی کو بخوبی محسوس کرتی ہیں۔ خواتین کے مسائل کو شدّت سے محسوس کرنے کے بعد وہ ان پر تبصرہ بغیر کسی ڈر کے کرتی ہیں، عورت کے ساتھ سماجی نابرابری کے سلوک کی بات ہو یا اس کے حقوق کی، تعلیم کی بات ہو یا کسی جائز خواہش کی تکمیل کی جب، جہاں اور جس وقت انھوں نے یہ بات محسوس کی کہ عورتوں کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے۔  ان کے قلم نے صدائے احتجاج بلند کی۔ اپنے مضمون ’تحریکِ آزادیِ نسواں‘ میں لکھتی ہیں  :

’’آج عورت کی صف سے بڑی دلیرانہ آوازیں آرہی ہیں،  جن میں ان کی انفرادیت بھی ہے اور ان کا جلال بھی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج بھی صورتِ حال میں صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ نام بدل گیا۔ آج بھی عورت اپنی اولاد سے محروم کردی جاتی ہے۔ آج بھی عورت شوہر کی مرضی کے بغیر ماں نہیں بن سکتی،  اس کا اپنے ہونے والے بچے پر کوئی قبضہ نہیں ہوتا۔  آج بھی جہیز کی آگ میں کتنی ہی لڑکیاں جل کر مرجاتی ہیں یا اس خوش آئند گھڑی کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں۔  قحبہ خانے آج بھی موجود ہیں۔ بلکہ آج تو یہ زہر سوسائٹی میں ایسا پھیلا ہے کہ اُسے کہیں الگ ہی نہیں کرسکتے۔  آج جب کہ عورت کو اقتصادی مجبوری بھی نہیں ہے طلاق کے بعد بچہ باپ کو مل جاتا ہے اور اس کی تمام محنت وممتا کا خون کیا جاتا ہے۔‘‘5

شمیم نکہت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ہرظلم وانصافی کے خلاف انھوں نے صرف آواز ہی نہیں اُٹھائی بلکہ وہ اُن خواتین پر بے حد ناراض بھی ہوتی تھیں جو مرد کے ہرظلم وہرناانصافی کو خاموشی سے برداشت کرتی ہیں،  جنھوں نے اپنے شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دے رکھا ہے اور اس مجازی خدا اور اُس کے خاندان کی خدمت کرنے میں ہی ان کی دنیاوی نجات ہے جن کا صلہ انھیں دوسری دنیا میں ملنے والا ہے۔ ان کا خاکہ ’ثروت آپا‘ ایک مثالی ہندوستانی عورت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ ایسی عورت جو شوہر پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو ہی اپنی زندگی کی معراج سمجھتی ہیں۔ مثال کے لیے ایک اقتباس پیش کرتی ہوں  :

’’یہ باتیں میری سمجھ سے بالکل باہر تھیں۔ کیونکہ میرے خیال میں شوہر دیوتا نہ ہوکر صرف جیون ساتھی تھا اور میں آنکھ بند کرکے شوہر کو سجدہ کرنے والی جنتی عورت کو فرشتہ تو جان سکتی تھی مگر عورت ہرگز نہیں۔ محبت ہو یا خدمت کوئی بھی چیز میں مسلسل یک طرفہ کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘

’’میں ثروت آپا سے صرف اس لیے ناراض تھی کہ انھوں نے خود ہی عورت کو ایک لونڈی کا درجہ دے رکھا تھا۔  ان کے لیے عورت صرف ایثار وقربانی کے لیے ہی بنی تھی اور اس کا بدل بھی وہ نہیں چاہتی تھیں،  وہ تو سب کچھ دوسری دنیا میں ہی مل جائے گا،  ان کے اور میرے خیالات کا تضاد ہم دونوں کو دور کرتا گیا،  مگر اس دوری میں بھی دلوں کی محبت کم نہ ہوسکی۔میں ثروت آپا کو ہمیشہ قابل رحم ہستی سمجھتی رہی اور وہ مجھے بے وقوف محبت کرنے والی بہن سمجھتی رہیں۔‘‘6

یہی وجہ تھی کہ شمیم نکہت کو پریم چند کے ناول گئودان کی ’دھنیا‘ کا کردار مثالی اور اہم نظر آتا ہے۔ دھنیا جو غریب کسان ہوری کی بیوی ہے،  غریب ہے مگر کسی بے انصافی کے سامنے جھکنا نہیں جانتی، کسی زیادتی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوتی،  کبھی اپنے عورت ہونے کا رونا نہیں روتی ہے۔  اس کو اپنے اوپر پورا اعتماد ہے اور جو بات ٹھیک سمجھتی ہے بول پڑتی ہے،  مرد کے عورت پر ہاتھ اُٹھانے کو اس کی ذلیل ترین حرکت سمجھتی ہے، زندگی میں مسلسل جدوجہد کرتی رہتی ہے اور کبھی ہار نہیں مانتی ہے، اس طرح کی عورتیں جو سماج ومعاشرے کی ہربُرائی، ہرغلطی وناانصافی کے لیے احتجاج کریں وہ پروفیسر شمیم نکہت کی پسندیدہ عورتیں ہیں۔ عورت کو خاموشی سے دُکھ ومصیبتیں برداشت کرتے دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ہرعورت کے اندر یہ احساس بیدار ہوجائے کہ وہ بھی سماج کی گاڑی کا ایک پہیہ ہیں۔ سماج ومعاشرے کی تکمیل کا ایک اہم ستون ہیں، ان کے بغیر نہ تو سماج قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی ان کا اپنا گھر، بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی حیثیت نہیں ہے کہ سرجھکائے جس جانب ہانک دیا جائے اُسی طرف چلنا شروع کردیں،  ان کی اپنی ذاتی سوچ، ذاتی فکر اور ذاتی پسند بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی کی مرد کی۔  وہ مرد کی غلام نہیں ہیں،  ان کی زندگی،  ان کی شخصیت کی تکمیل کا ایک اہم حصّہ ہیں۔  وہ بے جان مشین نہیں ہیں کہ ہرحکم کی تعمیل خاموشی سے کرتی رہیں اور جس دن عورت کو اپنی انفرادیت اور اہمیت کا احساس ہوجائے گا اس دن خود بہ خود وہ ہرظلم وناانصافی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی۔ ان کی کہانیوں ’رشتے اور فاصلے‘، ’بِیْمہ‘، ’فیصلہ‘، ’وہ لمحہ‘، اُستانی جی وغیرہ میں ایسی عورت کی تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے جو آہستہ آہستہ اپنے پیر خود زمین پر ٹکارہی ہے۔ خواتین کے مسائل سے متعلق انھوں نے کئی مضامین بھی لکھے ہیں جیسے ’ادب اور خواتین‘، ’تحریکِ آزادیِ نسواں‘، ’اُردو شاعری اور خواتین‘، ’پریم چند اور تحریکِ نسواں‘، ’پریم چند کا عورت کا تصور‘، ’اُردو ناول کا ایک اہم کردار‘، ’دھنیا‘، ’رانو! بیدی کا ایک اہم کردار‘ وغیرہ۔

پروفیسر شمیم نکہت کے مضامین ہوں یا افسانے یا خاکے، سب کا موضوع تقریباً ایک ہی ہوتا ہے یعنی سماج ومعاشرے کی حقیقتوں کی عکاسی خصوصاً خواتین کے مسائل۔ انھوں نے ہندوستانی سماج کی ہرقسم کی عورتوں مثلاً طوائف، بیوائیں، عام عورتیں، بیوی، بیٹی، بہو اور کام کرنے والی عورتوں کے فرائض اور سماج میں ان کے مقام، مرتبے اور حقوق کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی تحریروں میں بہت زیادہ پیچیدگی اور ذہنی کشمکش کا احساس نہیں ہوتا اور ان کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فن کار کی نظر زندگی کے ہرشعبے پر بہت گہری ہے۔ ان کی کہانیوں کے کرداروں میں زندگی اور حرکت، عمل وجدوجہد اور آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی تمنا ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں بڑا تنوع ہے۔ مشاہدے اور تجربے میں باہمی ربط ہے اور اپنی فنی بصیرت سے وہ اُنھیں یوں ملا دیتی ہیں کہ سارے رنگ الگ الگ رہتے ہوئے بھی ملے جلے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ندرت کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہے۔ انسانی حقوق خصوصاً خواتین سے متعلق، ان کے استحصال سے متعلق آواز بلند کرنے والوں کی فہرست جب جب تیار کی جائے گی تو اس میں ایک اہم نام پروفیسر شمیم نکہت کا بھی ضرور شامل ہوگا۔

حواشی

(1)     افسانوی مجموعہ ’دو آدھے‘ ص9، 1989

(2)      پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار، ص286

(3)      تأثروتنقید، ص32

(4)      تأثرات، ص 103

(5)      تأثرات، ص 103

(6)      شمیم نکہت کی ادبی خدمات مصنفہ: اصفیہ شمیم ص 151


Dr. Parveen Shujaat

Mumtaz P G College

Dolly Ganj

Lucknow - 226001 (UP)

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

1 تبصرہ: