13/11/20

مکتوبات سرسید، باتیں دل کی مضمون نگار: سلطانہ واحدی

 




 اردو میں مکتوبات نگاری کی روایت قدیم ہے۔ مکاتیب کے اولین مجموعے، انشائے خرد افروز، مکتوبات احمدی و محمد اور رقعاتِ عنایت علی ہیں۔  

(سرسید اور ان کا عہد، ثریا حسین، ص 256)

ابتدائی دور کے خطوط میں طویل القاب و آداب، فارسی کے پُرشکوہ الفاظ و تراکیب کا استعمال علمی لیاقت تصور کیا جاتا تھا یعنی مقصدیت کم اور تکلفات زیادہ ہوتے۔ اس طرزِ نگارش کو ارادی طور پر ترک کرنے والوں میں سرفہرست اسداللہ خاںغالب ہیں۔ انھوں نے خطوط میں پرتکلف القاب و آداب کی رسم ترک کرکے انتہائی سادہ طرزِ تخاطب اختیار کیا اور مراسلے کو مکالمہ بنایا۔ ان کی یہ روش مقبول عام ہوئی۔ بعد میں آنے والے ادیبوں نے ان کی تقلید کرکے اس سلیس روش کو عروج کمال تک پہنچایا۔

علی گڑھ تحریک سے اردو ادب میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ تحریک کے ذریعے نظم و نثر میں مقصدیت اور مدعا نگاری پر زور دیا گیا۔ مسجع عبارت آرائی، فارسی الفاظ و تراکیب سے معمور عبارت کو رد کرکے سادہ اور سلیس اندازِ تحریر کو رائج کیا گیا۔

نثر میں سادہ و سلیس طرزِ تحریر کی جو روایت میرامن و غالب نے قائم کی تھی، سرسید اور ان کے رفقاء اس روش پر چل کر کاروانِ سالار بنے۔

سرسید نثرنگار تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات جیسے تعلیم، مذہب واخلاق، سیاست و معاشرت پر قلم اٹھایا اور آسان روزمرہ کی گفتگو کو اپنے اظہارِ مدعا کا ذریعہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایسی نثر لکھنا چاہتا ہوں کہ جس کو گھر کی ماما اور سائیں بھی پڑھ کر سمجھ لے۔

سرسید نے اردو ادب میں نثر و نظم دونوں کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نثر میں مقفع و مسجع عبارت سے معمور ہے تو نظم مدحیہ قصائد سے لبریز۔ اسی طرح غزل عشق و عاشقی کے مضامین اور روئے یار کے گیسو وخدوخال میں قید ہے۔

وہ ادب کے ذریعے سماج و معاشرے میں پھیلی ابتری و خرابیوں کی اصلاح کرنے کے خواہاں تھے۔ محمد حسین آزاد نے کرنل ہالرائیڈ کی مدد سے لاہور میں جدید نظم کے فروغ کے لیے انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی۔ اس میں ہونے والے مشاعروں میں مصرعۂ طرح کے بجائے ایک موضوع دیا جاتا تھا۔ اس مشاعرے میں مولانا حالی نے اپنی مشہور مسدس مدوجزر اسلام لکھ کر سنائی تھی۔ اس نظم کو سرسید اپنا توشۂ آخرت کہتے تھے۔ مسدس کو پڑھ کر ایک خط حالی کو لکھا جس سے ان کی دلی کیفیت وجذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

’’جس وقت کتاب ہاتھ میں آئی، جب تک ختم نہ ہوئی، ہاتھ سے نہ چھوٹی۔ اور جب ختم ہوئی تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہوگئی۔ اگر اس مسدس کی بدولت فن شاعری کی تاریخ جدید قرار دی جاوے تو بالکل بجا ہے۔ کس صفائی، خوبی اور روانی سے نظم تحریر ہوئی ہے، بیان سے باہر ہے۔ متعدد بند اس میں ایسے ہیں جو بے چشم ونم پڑھے نہیں جاسکتے۔ حق ہے جو دل سے نکلتی ہے، دل میں بیٹھ جاتی ہے۔‘‘

اس خط کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’بے شک میں اس کا محرک ہوا اور اس کو میں اپنے اعمالِ حسنہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا پوچھے گا تو کیا لایا تو میں کہوں گا حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں۔‘‘ 

)خطوط سرسید، مرتبہ راس مسعود، ص125)

انجمن پنجاب کے مشاعروں سے اردو شاعری ایک نئے رنگ و آہنگ سے ہمکنار ہوئی۔ فرسودہ روایتی مضامین کے بجائے نئے مضامین اور روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات نے شاعری میں جگہ پائی۔ نیچرل شاعری کا رواج ہوا جس سے دامنِ اردو نے وسعت پائی۔

سرسید کی بھی یہی خواہش تھی کہ اردو شاعری گل و بلبل، محبوب کے گیسو ورخسار کے خواب وخیال کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی پتھریلی زمین پر آجائے اور ہندوستانی ادیب وشاعر حقیقت کی دنیا میں رونما ہونے والے سرد و گرم واقعات کو ادب کا موضوع بنائیں۔ وہ ادب کو مسلم عوام میں بسی اخلاقی پستی و جہالت دور کرنے کا آلہ کار بنانا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں محمد حسین آزاد کو ایک خط لکھ کر اپنی خوشی کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:

’’میری نہایت قدیم تمنا اس مجلس مشاعرہ سے برآئی ہے۔ میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔ درحقیقت شاعری اور سخن وری کی داد دی ہے۔ اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہوگا، اتنا ہی مزہ دے گا۔ لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ ضروری ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کیے جائیں۔‘‘   (ایضاً، ص 125)

سرسید مسلم قوم میں تعلیم کو عام کرنا چاہتے تھے جس کے لیے ان کی بہت سی تحریریں پیش کی جاسکتی ہیں۔ وہ تعلیم کو مسلم قوم کی ترقی کا لازمی جز تصور کرتے تھے۔ قیام لندن کے دوران انھوں نے جانا کہ جب انگلستان کی حالت ہندوستان کی طرح خستہ اور خراب تھی تو وہاں کے سماج کے دو فلاح کاروں (سوشل رِفارمرز ) نے اپنی قوم کو سدھارنے اور بیدار کرنے کے لیے ٹیٹلر اور اسپیکٹیٹر رسالے جاری کیے جس سے وہاں کی قوم میں سدھار ہوا۔ بس سرسید نے بھی ہندوستان واپس آکر ’تہذیب الاخلاق‘ رسالہ جاری کیا جس کا اصل مقصد عوا م کو بیدار کر کے سماجی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہماری سماجی برائی اور خصوصاً مسلم طبقے کی پسماندگی کی وجہ صرف فرسودہ خیالات، ناخواندگی اور جہالت ہے۔ خود سرسید ایک جگہ ’تہذیب الاخلاق‘ کے اغراض و مقاصد تحریر کرتے ہیں:

’’مقصود اس پرچے کے اجرا سے یہ ہے کہ مسلمانوں کی حسن معاشرت اور تہذیب کی ترقی ہو اور جو غلط اوہامِ مذہبی اس ترقی کے مانع ہیں اور درحقیقت وہ مذہب اسلام کے برخلاف ہیں۔ وہ بھی مٹائے جاویں۔‘‘

اس ضمن میں آگے تحریر فرماتے ہیں ’تہذیب الاخلاق‘ کے جاری کرنے سے ہماری قوم کی حالت و معاشرت کی اصلاح مقصود و مطلوب ہے اور اسی واسطے سوشل رفارمر یعنی تہذیب الاخلاق اس کا نام رکھا۔ ‘‘

)سرسید اور ان کا عہد، ثریا حسین، ص 245(

محسن الملک کو خط لکھ کر اس رسالے کو جاری کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لکھا تھا: ’’ہم بیس دوست پانچ پانچ روپے مہینہ جمع کریں گے اور اخبار مفت بانٹیں گے اور قیمت سے بھی بیچیں گے۔ اس میں مسلمانوں کی دین و دنیاوی بھلائی کے مضامین ہوں گے۔ اس میں، میں اور آپ مضامین لکھیں گے اور صلاح ہوگی تو منشی ذکاء اللہ اور منشی نجم الدین صاحب کو بھی مضامین لکھنے میں شریک کریں گے۔‘‘    (ایضاً، ص 244(

سرسید نے ایک خط میں سائنٹفک سوسائٹی کے سکریٹری راجہ جے کشن داس کی فرمایش پر لکھا تھا جس میں جے کشن داس نے سرسید سے قیام لندن کے حالات لکھنے کی فر مائش کی تھی۔ سرسید نے ایک مفصل خط لکھا تھا۔ اس خط میں اس گھر کی لینڈ لیڈی کی تعلیم و تہذیب و اخلاق کی تعریف لکھی ہے کہ اس کی دو بہنیں جو وہاں اکثر آتی تھیں۔ پڑھی لکھی تھیں۔ ان میں سے ایک بیمار ہوجاتی ہے اور دل بہلانے کے لیے سرسید سے کتاب کی فرمایش کرتی ہے۔ سرسید کہتے ہیں کہ میرے پاس مذہبی کتابیں ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی کتاب لے کر پڑھتی ہے۔ صحت مند ہونے پر وہ سرسید کو اس کتاب کی چند عمدہ باتیں بتاتی ہے جس سے سرسید بہت متاثرہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’متوسط درجے سے کسی قدر کم درجہ عورتوں کی کیسی عمدہ تعلیم ہے! کیا یہ تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ایک عورت حالتِ بیماری میں کتاب پڑھنے سے دل بہلاوے۔ آپ نے ہندوستان میں کسی امیر، کسی نواب، کسی راجہ یا کسی مرد اشراف کو ایسی خصلت کا دیکھا ہے؟‘‘

اسی خط میں آگے لکھتے ہیں: ’’میں نہایت خوش ہوں کہ ہمارے بھائی بنگالیوں اور پارسیوں نے کسی قدر شائستگی میں ترقی کرنی شروع کی ہے۔ مگر ہمارے ہم وطن ہندو اور کمبخت مسلمان کوئے جہالت میں پڑے ہیںا ور آئندہ مدت تک پڑے رہیں گے۔ اور شاید مسلمان تو اتنے دنوں تک پڑے رہیں کہ پھر وقت اور زمانہ ان کی ترقی اور شائستگی کا باقی نہ رہے۔ اورجو اب مرض ہے وہ علاج پذیر نہ رہے۔ کیونکہ ان کو یعنی مسلمانوں کو جہلِ مرکب نے گھیرا ہے۔ اپنے باپ دادا کے قصے یاد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے بہتر کون ہے؟ لیکن مجھے خوشی ہے کہ مصر اور ترکی کے مسلمان روزبروز شائستگی میں ترقی کرتے جارہے ہیں۔‘‘

اسی خط میں لندن کی نوکرانیوں اور کیبِ مین کی بھی تعریف لکھی ہے کہ باوجود معمولی تنخواہ پانے کے، وہ لوگ اخبار اور کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’بس جب تک کہ اس قدر ترقی عام تعلیم کی نہ ہو، شائستگی اور تربیت کسی قوم میں آنی، اس قوم کی عزت ہونی ناممکن ہے۔    (مکاتیب سرسید، مشتاق حسین، ص22, 23, 33,34(

سرسید کو مولوی سید مہدی علی نواب محسن الملک سے بہت ذہنی وابستگی تھی۔ ذیل میں دو خطوط دیے جارہے ہیں جس سے ان کے محسن الملک سے تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے:

’’واہ حضرت واہ! بہرحال آپ کا عنایت نامہ آیا۔ خدا کا شکر کیا۔ آپ خوش ہیں اور اچھی طرح ہیں۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ خوش رہو، زندہ رہو۔ مگر میرے آخر عریضہ کا جواب ضرور دو حرفی بھیج دو کہ چھ ہزار روپے کا مدرسے کے لیے وعدہ کیا ہے۔ وہ میری زندگی میں عنایت ہوںگے کہ نہیں؟‘‘   (ایضاً، ص 312)

اسی طرح ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں:

’’جس قدر خوشی مجھ کو آپ کے عنایت نامہ بھیجنے سے ہوئی، بیان نہیں کرسکتا۔ یہ مقولہ کہ ’’الخط نصف الملاقات غلط‘‘ پوری ملاقات کا لطف ہوتا ہے۔ مفارقت میں اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔‘‘   (خطوط سرسید، مرتبہ سر راس مسعود، ص 30(

1868 میں جب اردو کو دفاتر سے بے دخل کرکے ہندی کو عدالتی زبان قرار دینے کی تحریک اٹھی تو اس ضمن میں سرسید نے سر اُدے پرساد سنڈل کو اردو کی حمایت میں ایک خط لکھا:

’’میرے نزدیک اضلاع شمال و مغرب وصوبہ بہار کی عدالتوں میں وہی زبان شائع ہونی چاہیے جس کو آپ ہندی یعنی موجودہ مخلوط زبان کہتے ہیں۔ لیکن میں اس کو اردو کہنا پسند کرتا ہوں۔‘‘     (مکاتیب سرسید، مشتاق حسین، ص 260(

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں ’’اور آپ کا یہ فرمانا کہ اردو زبان میں فارسی کے بہت لفظ مخلوط ہیں، بجا نہیں ہے۔ اس واسطے کہ فارسی کے لفظ اردو میں وہی لوگ زیادہ ملادیتے ہیں جو فارسی جانتے ہیں۔‘‘   (ایضاً، ص 270) 

اسی خط میں آگے لکھتے ہیں ’’ہمیں قانونی و ثائق پڑھنے کے لیے زبان کی نہیں قانون داں کی ضرورت ہے۔‘‘ اور اس کے لیے یورپ کی مثال پیش کی کہ ’’باوجود زبان جاننے کے وہ لوگ قانونی و ثائق کے لیے قانون داں کے پاس جاتے ہیں۔‘‘ آخر میں لکھتے ہیں ’’کوئی شخص فارسی حروف ترک کرکے اس کی جگہ اور حروف قائم کرنے کی ٹھوس وجوہات پیش کرے اور بغیر کسی دقت کے ہندی حرفوں سے ہمارے کاربر آئی ہوسکے تو پھر میں حروفِ مجوزہ جاری ہونے کی نسبت کچھ اعتراض نہ کروں گا۔‘‘    (مکاتیب سرسید، مشتاق حسین، ص 268(

سرسید کی منشی نول کشور سے بھی اچھی رسم وراہ تھی۔ دونوں میں خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ ایک بار اودھ اخبار میں عبدالحلیم شرر کا ایک مضمون ’روح‘ شائع ہوا تو سرسید نے نولکشور سے خط لکھ کر تہذیب الاخلاق میں اس مضمون کو شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی اور نولکشور سے اجازت ملنے پر شرر کا مضمون تہذیب الاخلاق میں شائع کیا تھا۔

1872 میں جب غلام محمد تپش اودھ اخبار کے اڈیٹر تھے،ا نھوں نے سرسید کو خط لکھ کر معلوم کیا تھا کہ ’’آیا نکتہ کی بات‘‘ محاورہ درست ہے یا غلط؟‘‘ جس کا جواب سرسید نے لکھا تھا :

’’جبکہ آپ خود اہلِ زبان ہیں۔ جو آپ کے قلم و زبان سے نکلے وہی سند و محاورہ ہے۔ بہار عجم کی سند کی نہ احتیاج اور نہ کسی قاعدے کی دلیل ضروری ہے۔ صرف اتنا کافی ہے کہ اہلِ زبان بولتے ہیں یا نہیں۔ اور جب خود آپ اہلِ زبان ہیں تو آپ ہی اپنی سند ہیں۔ نکتہ و بات کو ہر جگہ ملادینا البتہ صحیح نہ ہوگا۔ الّا بعض موقعوں پر جو بے ساختہ اہلِ زبان سے نکلا کرتے ہیں صحیح ہے۔ پس جس عبارت میں آداب نے ان کو ملایا ہے، میری دانست میں صحیح و بامحاورہ ہے۔ کچھ غلط ان میں نہیں۔ باقی اس کی وجوہات اس کا لکھنا بے فائدہ ہے۔ خاکسار سید احمد، بنارس،  مورخہ 31؍جنوری 1872‘‘

(نول کشور اور ان کا عہد، مرتبین پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، ص 86(

سرسید نے بے شمار خطوط لکھے۔ ضرورت کے تحت، لوگوں کے ارسال کردہ مکتوبات کے جوابات، لوگوں کے مذہبی شک و شبہات دور کرنے کے لیے مختلف کمیٹیوں، انجمنوں، کالجوں کو خطوط ارسال کیے۔ ان کے مکتوبات ان کی سادگی اور دلی جذبات کا آئینہ ہیں۔ وہ اپنے خط میں محسن الملک کو اس طرح مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قبلہ میرے، مخدوم میرے، محبوب میرے، محب میرے اب تو صاف لکھ دوں جو ہو سو ہو۔ سلامت آپ کا عنایت نامہ پایا اور عجیب کیفیت میں مبتلا کیا۔ کبھی اپنے آپ کو دیوانہ سمجھتا ہوں کبھی تم کو دیوانہ جانتا ہوں۔‘‘ 

)خطوط سرسید، سرراس مسعود، ص 38(

ان کے یہ خلوص، ان کی طبیعت کی سادگی کا مرقع ہیں۔ بقول ثریا حسین کہ:

’’ان کے خطوط میں سادگی، سلاست، جامعیت اور اختصار ہے۔ القاب و آداب کا کوئی خاص اہتمام نہیں بلکہ وہ سادہ اور برمحل القاب کی وجہ سے ان کے یہاں یگانگت اور گرم جوشی کاا حساس ہوتا ہے اور مخاطب سے ان کی وابستگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ 

(سرسید اور ان کا عہد، ثریا حسین، ص 259(

وہ اپنے مکتوبات میں مکتوب الیہ کو اس طرح مخاطب کرتے ہوئے ملتے ہیں: ’’جناب من، صاحب من، محبی و مشفقی، محب دلنوازِ من واہ واہ جناب محسن الملک واہ واہ۔ لیکن سرسید نے کہیں کہیں لوگوں کے مقام و مرتبے کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ مثلاً خانصا حب، مخدوم و مکرم من، جناب مولوی صاحب، مخدوم و مکرم، معظم و محتشم، پرائیویٹ سکریٹری، ہزایکسی لینسی وائے سرائے و گورنر جنرل ہند، بخدمت جناب سکریٹری صاحب، ایم اے او کالج اسٹوڈنٹس برادر ہڈ وغیرہ۔

ان کے مکاتیب سنجیدگی، سلاست و سادگی کا مرقع ہیں۔ ان کا مقصد فقط ترسیلِ مدعا ہے۔ وہ خطوط کو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پرشکوہ عبارت لکھ کر سامعین کو مرعوب کرنا یا عبارت میں مہارت دکھانا مقصد نہیں ہوتا۔ ان کے زیادہ تر خطوط قلم برداشتہ ہیں۔ اس لیے کہیں کہیں جملوں کی ترتیب و قواعد میں معمولی لغزشوں کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف ان کی عدیم الفرصتی ہوسکتی ہے۔ یعنی مکتوب الیہ کو اپنی بات ذہن نشین کرانے کے لیے جو الفاظ بروقت ذہن میں آئے، لکھ دیے۔ انگریزی الفاظ کا کثرت سے استعمال ہے جیسے ریمارک، ڈیر، ٹرسٹیز، سبجیکٹ، میجارٹی، مائنارٹی، رپرزینٹیٹو وغیرہ۔ اسی طرح انگریزی لفظوں کی جمع اردو قاعدے کے تحت بنائی گئی ہے  جیسے اسپیچوں، رپورٹوں، کالونیوں، سوسائٹیوں وغیرہ۔ اسی طرح فارسی کے خط میں اردو الفاظ کا استعمال ہے جیسے گھنٹہ، پھانسی، رجسٹری لکھا ہوا ملتا ہے۔ ان کی اس روایت کے مطابق آج بیشتر الفاظ رائج اور چلن میں ہیں۔

مسلم یونیورسٹی کا قیام ان کی محنت و کاوشوں کا ثمرہ ہے جس سے ہندوستانی قوم ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہے گی۔ ان کے خطوط کے کئی مجموعے خطوطِ سرسید مرتبہ سرراس مسعود، انتخاب مکاتیب سرسید مرتبہ شیخ عطاء اللہ، مکتوبات سرسید شیخ اسماعیل پانی، مکاتیب سرسید مرتبہ مشتاق حسین وغیرہ شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے اور مکاتیب کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔ لیکن وہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شائع  ہونے سے رہ گئے ہیں۔

اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ کتاب خطوط بنام سرسید میں وہ خطوط جمع کیے گئے ہیں جو خطوط سرسید کو لکھے گئے ہیں۔ فرانس کے مشہور اردو کے مستشرق پروفیسر گارسان وتاسی نے ایک خط سرسید کو اردو میں لکھا تھا جب سرسید لندن گئے تھے۔ انھوں نے سرسید کو یہ لکھا تھا کہ انھیں صرف اردو پڑھنا اور ترجمہ کرنا آتا ہے۔ لیکن لکھنا نہیں آتا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ کبھی ہندوستان نہیں آئے۔

گارساں دتاسی نے سرسید کو لکھا تھا:

’’کتاب توریتِ مقدس کی تفسیر جو آپ نے میرے پاس بھیجی ہے، اس کا میں بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس کتاب کی نسبت اپنے ایڈریس میں بہت کچھ ذکر کیا تھا۔ جو کتاب آپ نے دہلی کی عمارتوں کی نسبت تالیف کی تھی میں نے اس کا ترجمہ زبان فرانس میں کرلیا ہے۔‘‘

دتاسی نے اس خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ سرسید کے لندن آنے کی خبر اخبار میں بھیجی تھی لیکن اس میں املے کی کچھ غلطیاں ہوگئی تھیں۔ اس کی معذرت سرسید سے کی تھی کہ میں آپ کی ملاقات سے خوش ہوںگا اور جو کچھ لکھتا ہوں اس کو زبانی بیان کروں گا۔ خط کی تاریخ 17؍جولائی  1869 ہے۔ (خط بنام سرسید، مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی، ص 19(

ایک اور اہم خط امام بخش صہبائی کے نواسے محمد حمید الدین تھانیسری کا ہے جس میں انھوں نے سرسید کے اپنے خاندان پر کیے ہوئے احسانات کا شکریہ ادا کیا تھا اور لکھا تھا کہ امام بخش صہبائی کے جب ایام عذر میں مارے جانے کے بعد پسماندگان کی خصوصی مدد کی تھی اور بڑی کوشش کرکے مولانا مرحوم کی بیوہ اور ان کے دوسرے رشتے داروں کے گزارے کے لیے وظیفے مقرر کرائے تھے، اس کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اسماعیل پانی پتی نے امام بخش صہبائی کے نواسے کا یہ خط حالی کی کتاب ’حیاتِ جاوید‘ سے لے کر اپنی کتاب میں شامل کیا تھا۔  (ایضاً، ص 94(

ان کے مکاتیب ان کی شخصیت کے غماز ہیں۔ ان کے خطوط انفرادی نہ ہوکر اجتماعی ہوگئے ہیں جن میں جگہ جگہ قوم کا درد، خلوص، انسانی ہمدردی، حب الوطنی کا احساس ہوتا ہے۔ خطوط پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی  ایک سے نہیں بلکہ ہم سب سے بات کررہے ہیں۔ ان کے تمام مکتوبات کا ایک مقالے میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے   ع

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے


Sultana Wahidi

D-15, Abul Fazal Enclave

Thokar No 3, Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں