24/11/20

مولانا محمد علی جوہر: تعلیمی نقطۂ نظر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (آخری تحریر)- مضمون نگار: ایم نسیم اعظمی

 



مولانامحمد علی جوہر (1878-1931) کا شمار ہندوستان کی ان مایہ ناز اور نابغۂ روزگار ہستیوں میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے ہندوستان میں آزادی، ذہنی فکر ی بیداری، ہندو مسلم اتحاد،خلافت اور قومی تعلیم کی فضاسازی اور فروغ میں تاریخ سازاور انقلاب آفریںکارنامے انجام دیے۔ وہ بیک وقت ممتاز و بے باک مجاہد آزادی،مصلح قوم، سیاسی رہنما، خطیب وصحافی، ادیب و شاعر،مفکرتعلیم اور عالم اسلام میں خلافت کے علمبردار تھے۔ انھوں نے ملک کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اور آزادی سے ہم کنار کرانے کے لیے مایوسی واضمحلال کے عام ماحول میں نئے عزم و حوصلے سے کام لیتے ہوئے نو آبادیاتی نظام کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ کسی بھی حال میں اسے باقی رکھنے یا قبول کرنے سے ہی انکار کرکے اس ذہنیت و تہذیب کے خاتمے کے لیے ایسی ماحول سازی کر دی کہ بالآخر1947 میں انھیں مجبوراً ہندوستان کو آزاد کرنا پڑا۔

مولانا محمد علی جوہر ریاست رام پور میں 10/دسمبر  1878 کو پیدا ہوئے۔ان کا خاندان ریاست رام پورکا وفادار اور خدمت گزار تھا۔اس لیے اس خاندان کے بہت سے لوگ ریاست کے سول اور فوجی محکموں میںملازم تھے۔ مولانا محمد علی کے دادا شیخ علی بخش غالباًپہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے ریاست رام پور کی ملازمت اختیار کی تھی۔ان کے والد عبدالعلی خاں بھی اسی ریاست سے وابستہ تھے اور دوران ملازمت ہی صرف 32 سال کی عمر میں شادی کے چند سالوں بعد ہی ہیضہ کی بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال کے وقت ان کی اہلیہ آبادی بانو(بی اماں )کی عمر 27 سال،شوکت علی کی سات سال اور محمد علی کی دو سال تھی۔عبدالعلی خاں اور آبادی کی کل چھ اولادیں ہوئیں۔بندہ علی کا کم سنی میں انتقال ہوگیا۔نوازش علی بھی تیرہ سال کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ذوالفقار علی،شوکت علی،محمد علی اور محمدی بیگم کی تمام تر پرورش و پرداخت ان کی والدہ آبادی بانو(بی اماں)کے زیر سایہ و نگرانی ہوئی جس میں شوکت علی اور محمد علی ملک گیر اور عالمی شہرت و مقبولیت سے ہم کنارہوئے اور پورے بر صغیراور ساری دنیا میںعلی برادران کے نام سے جانے پہچانے گئے۔ ان کی والدہ آبادی بانو بھی ہندوستان کی اہم ترین خاتون رہنما اور بی اماں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ وہ بڑی بے باک، پر عزم اور با ہمت خاتون تھیں۔

محمد علی سب سے چھوٹے تھے۔ تقریباً پانچ سال کی عمر میں ان کی مکتبی تعلیم کا آغاز ہوا۔ انھوں نے بہت کم دنوں میں کلام پاک ناظرہ ختم کر لیا۔شوکت علی بریلی میں زیر تعلیم تھے اوراکثر تعطیل کے دنوں میں رام پور آتے تھے اپنے چھوٹے بھائی محمد علی کی پڑھائی کا جائزہ لیتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعدمحمد علی بھی ان کے ہمراہ بریلی چلے گئے اور تقریباً چار سالوںتک وہاںزیر تعلیم رہے۔ شوکت علی جب بریلی سے علی گڑھ آگئے اور سر سیداحمد خاں کے قائم کردہ مدرسہ میں داخلہ لے لیا تو محمد علی بھی یہیں آگئے اور دونوں بھائی علی گڑھ میں حصول تعلیم میں لگ گئے۔ محمد علی 1892 تک یہاں رہے اور یہیں سے 1894 میں انٹرنس کا متحان پاس کیا۔ 1898 میں امتیازی نمبروں سے بیس سال کی عمر میں بی۔اے۔ کیا۔اس کے بعد آئی سی ایس (موجودہ آئی اے ایس)کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کی غرض سے لندن چلے گئے مگر آئی سی ایس (ICS)میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ پھر دوبارہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے ’جدیدتاریخ‘ میں بی۔ اے۔ آنرز کی ڈگری لے کر ہندوستان آئے اور رام پوراسٹیٹ ہائی اسکول کے پرنسپل اور ریاست کے چیف ایجوکیشن آفیسر مقرر کیے گئے اور انھوں نے اس منصب پر رہتے ہوئے ریاست رام پور میں بہت سی تعلیمی اصلاحات کا نفاذ بھی کیا۔ اس طرح ان کی عملی زندگی کا آغاز ہی تعلیمی خدمات،نظم وضبط اور تعلیم وتعلم وغیرہ سے ہوا۔لیکن وہ فطرتاً بڑے حق پرست،صاف گو،کھرے اور بے باک قسم کے انسان تھے اس لیے ان کی ریاست رام پور کے عملے اور نواب حامد علی خان سے ہم آہنگی نہ ہو سکی اور بالآخر اختلاف رونما ہو گیا اور انھوں نے ریاست رام پور کی ملازمت چھوڑی دی۔

ریاست رام پور کی ملازمت ترک کرنے کے بعد محمد علی 1903 میں ریاست بڑودہ میں ملازم ہو گئے اور تقریباًسات سالوں تک انتہائی خوش اسلوبی سے اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے بالآخر ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ کر کے صحافت میں آگئے اور اخبارکے اجرا  کا ارادہ کرلیا۔

1911 ’میں کامریڈ‘(انگریزی) کا کلکتہ سے اجراء ہوا۔ 1912 میں دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ہوا تو کامریڈ بھی 12/اکتوبر 1912 سے دہلی سے نکلنے لگا۔ فروری 1913 میں دہلی سے اردو اخبار ’نقیب ہمدرد‘ بھی نکالا جو جون 1914 میں ’ہمدرد‘کے نام سے شائع ہونے لگا۔ مولانا محمد علی کو مسلمانوں کے سارے مسائل و معاملات سے شروع سے ہی دلچسپی رہی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے سچے رہنمااور یہی خواہ تھے۔انھیں مسلمانوں کی تعلیم سے بھی دلچسپی تھی اور تعلیم کو ہی وہ ہر قسم کی ترقی کی کلید اور ہر درد کا مداوا تصور کرتے تھے اس لیے تعلیم کے معاملات میں جہاں پوری سنجیدگی سے غور فکر کرتے تھے وہیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، چنانچہ 1902 میںلارڈ کرزن نے ہندوستان میں تعلیم کو محدود کرنے کی غرض سے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی فیس میں اضافہ کرنا چاہا تو محمد علی نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور ہندوستانیوں کے حق میں نامناسب قرار دیتے ہوئے دہلی کی ایک تعلیمی کانفرنس میں تعلیمی فیس کے اضافے کو نقصان دہ بتاتے ہوئے بڑے صاف لفظوں میں کہا تھا۔

’’یہ کانفرنس لارڈ کرزن کے متعین کردہ فیس سے متفق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعات و مشاہدات اور تجربوں کی بنیاد پر ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی رائے مسترد کر دیںاور گورنمنٹ پر ثابت کریں کہ ان تجاویز سے یہ نقصان ہیں‘‘

علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے میں انھوں نے ’جدید اردو تعلیم کی ضرورت‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھاجس کی کافی شہرت بھی ہوئی تھی اور جو اس زمانے میں انسپکٹر آف اسکول کی رپورٹ کے ساتھ 22/ ستمبر 1890 کو ’رام پور اسٹیٹ گزٹ‘ میں شائع بھی ہوا تھا۔ علی گڑھ میں محمد علی کی قوت حافظہ،مضبوط یادداشت اور وسعت معلومات کا بھی بڑا شہرہ تھا جس کو سن کر مولانا شبلی نعمانی نے بھی انھیں اور ان کے بھائی کو اپنے گھر بلایا تھا اور کھانے پر مدعو کیا تھا اور ان کا امتحان لینے کی غرض سے خلیفہ مامون رشید کی اولاد کا سلسلہ جاننا چاہا تھا نیز خلیفہ کے شجرے کی تفصیل بھی پوچھی تھی اور محمد علی کے تسلی بخش جواب سے خوش بھی ہوئے تھے اور متاثر بھی۔اور ایک مصرعہ دے کراور دوسرا مصرعہ لگا کر شعر مکمل کرنے کے لیے بھی کہا تھا اور جب انھوں نے برجستہ شعر پورا کر دیا تو ان کی ذہانت ووسعت معلومات کا جادو مولانا شبلی نعمانی پر بھی چل گیا اور دونوںمیں اچھے تعلقات بھی ہو گئے جو تاحیات باقی رہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ محمد علی میں اسلام اور تعلیمات قرآنی سے دلچسپی بڑھانے اور ذوق و شوق پیدا کرنے میں شبلی نعمانی کا ہی ہاتھ ہے۔محمد علی انگریزی سرکار کی تعلیمی پالیسی کے زیر اثرعلی گڑھ کے تعلیمی ماحول و فضا اور طریقۂ کار سے مطمئن نہیں تھے اور اسے گھپ اندھیرے سے تعبیر کرتے تھے مولانا شبلی کی موجودگی کو روشن نشان کہا کرتے تھے۔

علی گڑھ میں محمد علی کو اگر چہ مولانا شبلی نعمانی سے کلاس روم میں باقاعدہ فیضاب ہونے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن مولانا شبلی کی شفقت و محبت اور خود محمد علی کے ذوق و شوق نے مولانا کے درس قرآن میں شرکت کے مواقع پیدا کر دیے تھے جس سے محمد علی کو مولانا شبلی سے ایک طرح سے شاگردی کا شرف ہاتھ آ گیا تھا اور اسی شاگردی کی بدولت محمد علی میں قرآن پاک کا ایسا ذوق پیدا ہوگیا تھا جو زندگی بھر باقی رہا اور جس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا۔

جس طرح مولانا شبلی نعمانی کے درس قرآن سے محمد علی متاثر تھے اسی طرح ان کے مرکب تعلیمی افکار و نظریات کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے بعد محمد علی جب اس کے اولین شیخ الجامعہ بنائے گئے تو انھوں نے جامعہ میں درس قرآن کا جو انتظام و اہتمام کیا وہ دراصل علی گڑھ میں مولانا شبلی کے ہی درس قرآن کا جامعہ میں احیاء تھا اور اس بارے میں انھوں نے خود بھی لکھا تھا:

’’بعد ازاں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ نیشنل مسلم یونیورسٹی بنی اورمیں اس کا شیخ الجامعہ مقرر ہوا تو پہلے ہی دن سے میں نے اس امر کا اہتمام کیا کہ اس میں مولانا شبلی کے درس قرآن کا اہتمام کیا جائے۔چنانچہ ہمارے یہاں تعلیمی دن کا آغاز ایک گھنٹہ بھر کے روزانہ درس قرآن سے ہوا کرتا ہے۔جس میں قرآنی آیات کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔لیکن افسوس اس وقت درس دینے کے لیے مولانا شبلی نعمانی موجود نہ تھے‘‘۔

علامہ شبلی نعمانی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسے مرکب تعلیمی نظریات کے علمبردار تھے جو دین و دنیا دونوں لحاظ سے انتہائی مفید و کار آمد  ہو۔ محمد علی بھی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسے ہی تعلیمی نظریے کے حامل تھے جو انھیں دین و دنیا دونوں لحاظ سے کامیابی و کامرانی عطا کر سکے اس لیے مولانا شبلی نعمانی کے تعلیمی نظریات اور محمد علی کے تعلیمی نقطۂ نظر میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔محمد علی فطرتاً اگرچہ جذباتی، جوشیلے اور شدت پسند قسم کے حق گو اور بے خوف انسان تھے لیکن مسلمانوں کی تعلیم کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ، مخلص اور تعمیری فکر رکھتے تھے اور اس میں کسی قسم کی مصلحت اندیشی کے لیے کسی بھی حال میںتیار نہیں تھے۔ وہ ہندوستان میں عام ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی صحیح تعلیمی صورت حال اور ضروریات و تقاضوں سے بھی پورے طور پر واقف تھے اور اس کے مختلف پہلوئوںپر پوری سنجیدگی اور گہرائی سے غور و فکر بھی کیا کرتے تھے۔وہ مسلمانوں کی صنعتی اور حرفتی تعلیم کو بھی ناگزیرتصور کرتے تھے مگر اس سے قبل ان میں عام تعلیم کے فروغ کو لازمی سمجھتے تھے۔ چنانچہ1905 میں جب ہندوستان میں شرح خواندگی افسوس ناک حد تک کم تھی اور تعلیم کا عام رواج بھی نہیں تھا اور تعلیم خصوصاً جنرل ایجوکیشن اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں کے قیام کے بارے میںبحث اور غور و فکر کی جانے لگی تھی تو انھوں نے اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بڑے دو ٹوک اور واضح انداز میں اس بات پر زور دے کر کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم گورنمنٹ اسکولوں کا بائیکاٹ کریں اور تکنیکی تعلیمی اداروں کے قیام میں لگ جائیں۔

خلافت تحریک بیسویں صدی کی سب سے پہلی اور سب سے توانا مذہبی اور سیاسی تحریک تھی اور مولانا محمد علی ہی اس تحریک کے اصل سر خیل اور روح رواں بھی تھے۔ ان کی والدہ بی اماں،بڑے بھائی مولانا شوکت علی اور اہلیہ محمد علی(امجدی بیگم) مہاتما گاندھی اور دوسرے قومی رہنمائوں نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ خلافت تحریک کے پلیٹ فارم اور اسی اخراجات سے پورے ہندوستان کا دورہ کیا تو ہندوستان میں بیداری اور آزادی کی ایک نئی لہر چلنے لگی۔ ہندو مسلم اتحاد کو فروغ حاصل ہوا اور یہ سب اس وقت ہوا جب ہندوستانی مسلمانوں میں بہترین دل و دماغ رکھنے والے علمائے کرام اور دانشوران عظام موجود تھے اور قومی ملی معاملات میں بڑی حد تک ان میں اشتراک فکر و عمل بھی تھا۔جس میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی، شیخ الہند مولانا محمودالحسن، حکیم اجمل خاں، مفتی کفایت اللہ، مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا عبیداللہ سندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سید محمود آغا صفدر، مولانا سجاد بہاری، مسٹر مظہرالحق، مولانا عبدالماجدبدایونی، مولانا سید فاخر الہ آبادی، سید سلیمان ندوی، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی، مولانا سلطان احمد مئوی، مشیر حسن قدوائی، مولانا احمد سعید، مولانا سید احمد دائود تمنوی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا آزاد سبحانی، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی،مولانا حسرت موہانی، ظفرالملک علوی اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ کا نام بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ جنھوں نے خلافت کے معاملے میںپورے خلوص ‘ نیک نیتی اور سرفروشانہ جدوجہد کے ساتھ اپنی شرکت اور سرگرم حصہ داری کا مظاہرہ بھی کیا۔

مولانا محمد علی جوہرایک اہم ترین قومی رہنما، ممتاز اسلامی مدیر اور تعلیمی دانشوربھی تھے۔ہندوستان اور ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے بارے میں ان کی اپنی تعلیمی فکر اور نقطئہ نظربھی تھا۔وہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں سے بخوبی آگاہ بھی تھے۔ انھیں اس بات کا بھی شدید احساس تھا کہ تعلیم کے بغیر ہندوستانی مسلمان مو جودہ اور آئندہ حالات میں ممتاز اہمیت و حیثیت سے ہم کنار نہیں ہو سکتے اس لیے وہ مسلمانوں کے لیے  ایسے تعلیمی ادارے،نظام تعلیم اور طریقۂ تعلیم کے حق میں تھے جن کے توسط سے مسلمان جلد سے جلد تعلیم سے بہرور ہو سکیں اور معاشی لحاظ سے مجبور محض نہ ہوں۔ اس لیے وہ مسلمانوں کی عام تعلیم اور اس تعلیم میںپیشہ ورانہ اور حرفتی تعلیم کی شمولیت کے بھی قائل تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ تعلیم میں صنعت و حرفت  اور تجارت و سپہ گری وغیرہ کا صرف اتنا ہی حصہ شامل ہونا چاہیے جتنارائج الوقت مذہبی تعلیم کے حصول میں کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔تاکہ تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی نوجوان اپنی علمی زندگی میں محض ملازمت کا محتاج نہ رہے بلکہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا اہل بھی ہو۔وہ مسلمانوں کی عام اور ہمہ جہت تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تمدن کی بنیادوں پر مسلم خواتین کی بھی اعلا تعلیم کے ہم نوا تھے۔وہ غریبوں کی تعلیم کے بھی حق میںتھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’غریب طلبا کے لیے اسکول موجود ہیں‘ ارباب اختیار ان کا انتظام اور معیار مقرر کریں کہ ہر شخص خواہ کیسا بھی غریب ہو اس میں داخل ہو سکے‘‘۔ وہ تعلیم نسواں کے بارے میں بھی اپنا الگ اور مخصوص نقطئہ نظر رکھتے تھے۔جیسا کہ انھوں نے کہا بھی تھا:

’’میں سبھی ہندوستانیوں‘ خصوصاً عام مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت اور مستورات کی تعلیم ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے عورتوںکے لیے مستورات کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی عورتوں کا مستور ہونا پسند کرتا ہوں۔میرا مطلب یہ ہے کہ وہ اعلا تعلیم بھی پائیں اور مستور بھی رہیں۔میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یورپ  سے جو بے حیائی کا سیلاب آرہا ہے‘ وہ اس کے ساتھ بہہ جائیںاور یورپ کی شرمناک معاشرت کی تبلیغ کریں۔ہم دنیا کی عام قوموںکی طرح معمولی قوم نہیں‘ ہماری تہذیب و تمدن دوسری قوموں سے بڑھ کر ہے۔‘‘

عہد وسطیٰ میں مسلمانوں کی تعلیمی اور سائنسی ترقی‘ مسلمانوں کے عروج و زوال‘ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ اور ملکی اور عالمی تعلیمی تاریخ کے ساتھ ہی مبادیات تعلیم وغیرہ پر بھی ان کی طائرانہ نظر تھی۔ وہ مختلف عمروں کے طلبا کے مزاج و نفسیات سے بھی بڑی حد تک روشناس تھے۔ان کا اپنا جداگانہ تعلیمی نقطئہ نظر بھی تھا۔اگر چہ وہ عالمی سطح کے بعض تعلیمی مفکرین اور ماہرین تعلیم جیسے ژاں ژاک روسو (1712-1778)، پستالوزی (1746-1827)، فریڈرک فروبل (1782-1852)، ہربارٹ اسپینسر (1830-1903) اور جان ڈیوی (1859-1952) وغیرہ کے تعلیمی نظریات و تصورات سے بالکل مختلف اور ہندوستانی خصوصاً مسلم طلبا کے مزاج و رجحانات سے ہم آہنگ ان کی نفسیات،تقاضوں اور مذہبی، معاشرتی اور تمدنی ضرورتوں اور نزاکتوں کے مطابق ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے پر زور دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر اصل تعلیمی ترقی نہیں حاصل کی جا سکتی۔ وہ یورپ و امریکہ کی تمام تر تعلیمی ترقی و فروغ کا اصل راز مادری زبان کا ذریعہ ٔ تعلیم ہونا ہی مانتے تھے اور انگریزی ذریعہ ٔ  تعلیم کو غلامانہ ذہنیت کی علامت خیال کرتے تھے۔چنانچہ انھوں نے اس بارے میں کہا بھی ہے:

’’ہماری غلامانہ ذہنیت کسی چیز سے اس قدر ثابت نہیں ہوتی جس قدر ایک غیر زبان میں تحصیل علوم کی مشقت رائیگاں سے ثابت ہوتی ہے۔ہم مشرقی تو وحشی لوگ ہیں اور بربریت میں مبتلا ہیں لیکن خود ترقی یافتہ مغربیوں کا کیا شمار ہے۔کوئی انگریز اپنے بچے کو تاریخ سائنس جرمن زبان میں پڑھواتا ہے؟کیا کوئی فرانسیسی یا اطالوی اپنے بچے کو جغرافیہ یا ریاضی انگریزی یا دوسری زبان میں سکھواتا ہے۔لیکن ہماری غلامی اور ہماری غلامانہ ذہنیت کو دیکھ کر ہمارے اسکولوں اور کالجوں کے ہندوستانی اساتذہ بھی جو اکثرانگریزی زبان کوخودبھی اس طرح نہیں جانتے جس طرح انگریز جانتے تھے۔ہندوستانی بچوں کو  تاریخ، سائنس، جغرافیہ اور ریاضی انگریزی زبان میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

اگرچہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا محمدعلی اپنے زمانے میں انگریزی زبان و ادب پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے اور ان کی انگریزی دانی اور انشاء پرداز ی پر ان کے بہت سے ہم عصر انگریزی ادیب و دانشور حیرت زدہ رہا کرتے تھے۔وہ علی گڑھ اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی کے مایہ ناز ہندوستانی صحافی اور انشا پرداز کی حیثیت سے اپنی خاص شناخت بھی رکھتے تھے،لیکن ان کی اپنی مادری زبان اردو کے باعث کبھی کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اردو کے ذریعے ہمیشہ ہر قسم کے علوم و فنون کی تعلیم کی وکالت کرتے رہے کیونکہ وہ مادری زبان ذریعۂ تعلیم بنانے کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح واقف تھے اور ان کے نزدیک اس کی تعلیم میں بنیادی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے التزام کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سب سے جلد اور آسان تعلیمی ترقی کا نسخۂ کیمیا سمجھتے تھے۔

سر سید احمد خاں کی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مولانا محمد علی کی مادر علمی تھی۔اس لیے اس سے ان کا دلی اور جذباتی لگائو بھی تھا اور اس کی ہمہ جہت ترقی کے وہ دل و جان سے خواہاں بھی تھے اور سر سید کے تعلیمی کارناموں کے قدرداںبھی تھے مگر انگریزی حکومت کے زیر اثر ہونے کے سبب اور تعلیمی صورت حال سے غیر مطمئن ہونے کے باوجودبھی اس کی اہمیت و افادیت کو بخوبی سمجھتے تھے اور انھیں اس بات کابھی اچھی طرح احساس تھا کہ یہ علی گڑھ ہی کی دین ہے کہ مسلمانوںمیں جدید تعلیم یافتہ لوگ نظر آتے ہیںاور نئے انداز سے سوچنے والے افراد پیدا ہو رہے اور پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد میں اضافے ہوتے نظر آتے ہیں مگر وہ اس کا بھی ادراک رکھتے تھے کہ انگریزوں کے موجودہ تعلیمی نظام کے تحت فی زمانہ علی گڑھ سے جو تعلیم یافتہ نکل رہے ہیں ان کی اکثریت انگریزوں اور انگریزیت سے مرعوب ہوتی جارہی ہے اور بقول علامہ شبلی نعمانی’’زندہ انگریزوں نے ہمارے زندہ افراد کو مرعوب کر رکھا ہے۔بلکہ مردہ انگریزوں نے ہمارے مردوں پر بھی غلبہ حاصل کر لیا ہے۔اس لیے یہ مرعوب اور مغلوب لوگ آزادی کے مجاہد نہیں بن سکتے‘‘۔اس کے علاوہ بھی بہت ساری وجوہات پیدا ہو گئیں تھی جس سے مسلمان دانشوروں اور رہنمائوں کا ایک طبقہ بہت پہلے سے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے علاوہ ایک دوسرے انداز و معیار کا مسلمانوںکا ایک ایسا مرکزی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھاجس میں مسلمانوں کی مکمل خودمختاری ہواوروہ سرکاری اثرات سے بھی بالکل آزاد ہو جیسا کہ شیخ محمد اکرام نے بھی لکھا ہے:

’’علی گڑھ کالج کے سکریٹری اور سر سید کے خلیفہ ٔ ثانی نواب وقارالملک نے 1912 میں ان مسلمانوں کے لیے جو سرکاری ملازمتوں کے خواستگار نہیں۔ایک جداگانہ جامعہ اسلامیہ قائم کرنے کی اسکیم پیش کی۔نواب صاحب کی خواہش تھی کہ یہ نئی یونیورسٹی گورنمنٹ کے اثرات سے آزاد ہو۔اس میں ذریعہ ٔ  تعلیم اردو ہو لیکن انگریزی ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل درس رہے، اور طلبا کی تعلیم میں مذہبی تربیت اور کفایت شعاری کی تعلیم کو خاص اہمیت ہو۔ نواب وقارالملک اپنے خیالات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متعلق انھوں نے جو مفصل مضمون لکھا تھا،اسے پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کی اسکیم اور جامعہ ملیہ کی عملی صورت میں کوئی خاص فرق نہیں۔اور یہ حقیقت بھی بہت اہم ہے کہ جامعہ ملیہ کی بنامیں سب سے اہم حصہ اس بزرگ (مولانا محمد علی)کا ہے جو علی گڑھ کا اولڈ بوائے تھا اور جس کا بیان ہے کہ تقریباً جو کچھ میں نے حاصل کیا ہے،وہ اسی علی گڑھ کا طفیل ہے‘‘۔

ہندوستان کے بہت سے دانشور اور قومی ملی رہنما ایک عرصہ سے ہندوستان میں مسلمانوں کے ایک ایسے تعلیمی ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو انگریزی عہد میں سرکاری اثرات سے بالکل آزاد ہو اور جس پر مسلمانوں کا کلی اختیار بھی ہو چنانچہ1920 میں عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک کے تحت جب سرکاری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا جانے لگا تھا۔اسی زمانے میں مولانا محمد علی جوہر الہ آباد کے ایک سہ روز اجلاس میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے تھے۔جہاں علی گڑھ کے بعض طلباء نے ان سے ملاقات کی۔ دوران گفتگو مولانا نے یہ خواہش ظاہر کہ ان کی دلی آرزو ہے کہ علی گڑھ کے طلباء کی ایک بڑی جماعت کے سامنے ترک موالات کی حقیقت اور اس کی افادیت پر روشنی ڈالی جائے،تاکہ ہمارے طلبا بھی وطن کے صحیح سپاہی بن سکیں۔ مولانا محمد علی سے الہ آباد میں ملنے والے طلبا نے علی گڑھ میں جاکر اچھا خاصا ماحول بنا دیا جس کے نتیجے میں اتحاد یونین نے مولانا محمد علی کو علی گڑھ مدعو کیا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جوہر، مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ علی گڑھ پہنچ گئے۔مولانا نے ترک موالات اور ہندوستان کی آزادی کے خدوخال کی بڑے موثر اور پر خلوص انداز میں تصویر کشی کی اور علی گڑھ کی جامع مسجد میں قابل ذکر تعداد میں جمع لوگوں کے سامنے حکیم اجمل خاں نے مجوزہ نیشنل مسلم  یونیورسٹی کا خاکہ پیش کیا جس کے مطابق 29/ اکتوبر 1920 کوشیخ الہند مولانا محمودالحسن نے بیماری کی حالت میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیاور اپنی تاریخی افتتاحی تقریر کی۔ 74 لوگوں پر مشتمل ایک فائونڈیشن کمیٹی کی تشکیل کی گئی جس کا پہلا اجلاس 22/نومبر 1920 کو حکیم اجمل خاں کی صدارت میں علی گڑھ میں منعقد ہوا اور مولانا محمد علی جوہر نے کمیٹی کی مدد و تائید سے نصاب تعلیم کی اسکیم تیار کی اور مجوزہ نیشنل یونیورسٹی کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ رکھا گیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام اگر چہ بڑی بے سروسامانی کی حالت میں اور بڑے نا مساعد ماحول میں ہوا تھا۔لیکن مولانا محمد علی اور اس کے دوسرے بنیاد گزاروںکے ذہن میں مستقبل کا ایک وسیع منصوبہ اور ایک عظیم الشان مرکزی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے عزائم تھے اور مسلمانوں کی تمدنی بنیادوں پر ان کی مادری زبان اردو میڈیم سے ہر قسم کی بہتر اور معیاری تعلیم کی سہولیات پیدا کرنے کا نیک اور پختہ ارادہ تھا نیز کم سے کم خرچ میں ایک ایسی مرکب تعلیم کاخیال تھاجو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے مسلمانوں کے لیے مفید اور کار آمد تعلیم کے بندوبست کرنے کی نیک نیت تھی تاکہ ہر شخص تعلیم کی نعمت سے بہرور ہو سکے۔ چنانچہ مذکورہ مقاصد کے تحت مولانا محمد علی جو ہر نے جو نصاب تعلیم،تعلیمی منثور اور نصب العین،ترتیب دیا تھا اس کا بنیادی مقصد ہندوستانی مسلمانوں کی آئندہ ایسی نسلیں تیار کرنا تھا جو وقت و حالات کے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے اور ان میں کبرونخوت کے بجائے ایثار و انکساری اور خادم انسانیت کا جذبہ کار فرما ہو جس کے لیے اس کے پانچ اہم ترین بنیادی عناصر قرار دیے گئے جو مسلمانوں کی قومی تعلیم کے لیے نا گریز تھے۔

1۔        اسلام اور اس سے وابستہ مذہبی علوم کی تعلیم خصوصاًقرآن پاک کی تعلیم۔

2۔        آزادی وطن کے پاک جذبے کی ترتیب اور اس کی نشوونما۔

3۔        علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، ہیئت اور سائنس کی تعلیم۔

4۔        معاش کے لیے مختلف فن و حرفت کی تعلیم۔

5۔        مادری زبان اردو کے ذریعہ ہر قسم کی تعلیم۔

جامعہ کے نصاب اور نظام تعلیم میںمذہبی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی تاکہ طلبا کو بااخلاق مہذب اور با کردار بنایا جا سکے اور تاریخ و سائنس وغیرہ مضامین سے ماضی کے حالات،کارناموں کے ساتھ ساتھ معاصر ترقیات اور مستقبل کے امکانات سے انھیں آگاہی کے ساتھ معاشی اور دوسرے مسائل و معاملات سے باخبررکھا جا سکے۔ چنانچہ پورے تعلیمی طریقہ ٔ کار میں طلبا کو مرکزی اور کلیدی محور کی حیثیت حاصل تھی اور سارے وسائل کو ان کے معاون کی حیثیت دی گئی تھی جس سے ہر قسم کے سردو گرم حالات و مخالف و موافق ہوائوں کی تیزی و تندی کے باوجود بھی جامعہ کا چراغ روشن رہنے میں کامیاب رہا اور خلافت اور عدم تعاون وغیرہ کی تحریکوں کے بعد بھی جب ایسے حالات رونما ہو گئے اور جامعہ کا باقی رکھنا مشکل نظر آنے لگا اور کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہو گیا کہ موجودہ بدلے ہوئے حالات میں جامعہ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اپنا کام بھی انجام دے چکا ہے اس لیے اسے باقی رکھنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں ہے۔ لیکن جامعہ کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر جہاں مہاتما گاندھی نے نئے حوصلے دیئے وہیں بعض اساتذہ اور بہی خواہوں نے نئی تاب و توانائی کے ساتھ جامعہ میں نئی روح پھونکنے کی کامیاب کوشش کی اور ڈاکٹر ذاکرحسین،پروفیسر محمد مجیب اور سید عابد حسین وغیرہ نے ہر قسم کی قربانی دے کر جامعہ کو بہر حال زندہ و باقی رکھنے اور ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایسا کرنے میں وہ اس لیے کامیاب ہو سکے کہ مولانا محمد علی جوہر نے جامعہ میں جو ایثار، قربانی اور خلوص کی فضاتشکیل دی تھی وہ بڑی اہمیت کی حامل تھی اور اسی بنیاد پر جامعہ قائم و دائم بھی ہے۔چنانچہ مسلمانوں کی تعلیم اور جامعہ کا تعارف کراتے ہوئے انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا بھی ہے۔

’’جامعہ نے ابتدا ہی سے جو مقصد پیش نظر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سے سچے خدا پرست مسلمان اور وطن پرست ہندوستانی پیدا ہوں۔اس کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق دوست اور خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست اورحریت پرور ہندوستانی بنایا جا ئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے مذہب کی مختصر اور جامع تعریف یہ ہے کہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی کی تعلیم دینے کی غرض سے مبعوث ہوئے جس نے ع ’’از کلیدین درد نیا کشاد‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس لیے اسلام اور انسانوں کی اس تفریق کو کبھی گوارا نہیں کر سکتا ان کا صرف ایک حصہ دین دار ہو اور باقی دنیا دار ہو۔‘‘

جامعہ ملیہ کے بانیاں نے جس خلوص،نیک نیتی اور اعلیٰ مقصد کے پیش نظر اس کو قائم کیا تھا،اور ان کے ذہن میں جو وسیع منصوبے تھے اور اسے یکے بعد دیگرے جو مخلص افراد ملتے گئے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ زمانے کے سردوگرم اور نت نئے نشیب و فرازسے دوچار ہونے کے باوجود جامعہ آگے بڑھتا گیا۔ 1925 میں یہ علی گڑھ سے دہلی(قرول باغ)اورپھر اوکھلا (جامعہ نگر) میں منتقل ہو کر ایک اعلا معیار کی یونیورسٹی بننے کی طرف بدستور گامزن ہو گیا۔یہ ادارہ اپنے آغاز میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم تک محدود تھا۔اسے ہندوستان کا منفرد اور ممتاز تعلیمی ادارہ بنانے میں سب سے اہم،بنیادی اور نمایاں کردار مولانا محمد علی جوہرکا رہا ہے۔انھوں نے اس کے آغاز میں ہی اس کی انفرادیت پرخاص توجہ دی تھی اوراس کے لیے اس کے نصاب تعلیم،نظام تعلیم اور طریقۂ تعلیم میں ایسے نئے تجربات کو اہمیت دی جو خاص ان کے ذہن کی اُپج تھے اور ان کے مخصوص نقطہ ٔ  نظر کی دین تھے اور جو قدرے مختلف بھی تھے اور روایت و جدت کی آمیزش سے موثر اور کار آمدبھی تھے۔انھوں نے جس انداز تدریس کو فروغ دیا وہ انداز تدریس خاص انھیں کا تیار کردہ تھا۔اس کے بعد کے لوگوں نے بھی اسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جب اس میں اعلا تعلیم کی سہولیات پیدا ہو گئیں اور مختلف مضامین میں اعلا تعلیم کا بندوبست بھی ہو گیا تب بھی یہ اپنے اسی بنیادی اور ممتاز و منفرد انداز پر قائم رہتے ہوئے اس میں مزید توسیع کے لیے سرگرم عمل رہا اور بتدریج اپنے بنیادی اصولوں اور طریقوں پر چلتے ہوئے اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہا اور بدستور آگے بڑھتا رہا۔

ملک کی آزادی کے بعد نئے عزم و حوصلے سے اس کے ذمے داروں نے اسے ترقی دینے کی کوشش کی۔ 1963 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن آف انڈیا (U.G.C.)نے جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کو متصور یونیورسٹی  (Deemed University) کا درجہ عطا کیا، جس سے جامعہ ہندوستان کی ایک اہم اور ممتاز یونیورسٹی کی حیثیت سے اپنے تدریسی اور انتظامی معاملات میں اپنی انفرادی شناخت قائم رکھتے ہوئے نئی شاہراہ ترقی پر گامزن رہا اور ایک نئی رجسٹرڈ یونیورسٹی کے طور پر اپنی تعلیمی،تدریسی اور انتظامی خدمات کی انجام دہی میں پورے طور پر مصروف عمل رہا اور اپنے قیام کے تقریباً اڑسٹھ (68) سالوں بعد1988 میںہندوستانی پارلیامنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت ہندوستان کی ایک مرکزی یونیورسٹی بننے میں کامیاب ہو گیا جس میں مختلف علوم و فنون کی اعلا اور معیاری تعلیم و تحقیق کا معقول بندوبست ہے۔اس کی مختلف اور متعدد فیکلٹیاں اور اس کے دیگر ادارے اپنے تعلیمی اور تحقیقی کاموں کے سبب اپنی الگ اور جداگانہ شہرت و مقبولیت رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اسے ہندستان کی ایک ممتازاور اہم ترین یونیورسٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔اور اس کی حیثیت کی حصولیابی میں مولانا محمد علی جوہر کی فکری بصیرت،ان کی فراہم کردہ بنیادیں اور ان کے تعلیمی نقطۂ نظر کی بہرحال کارفرمائی شامل ہے۔جو اپنی زندگی بھر ایک سچے پکے راسخ العقیدہ مسلمان اور عاشق ہندوستان کی حیثیت سے حق و آزادی کے لیے بر سر پیکار رہے اور بقول پروفیسر خلیق احمد نظامی:

’’ہندوستان نے سیاسی بصیرت، فہم و فراست، تدبیر اور مستقل مزاجی، ایثار اور قربانی کے بہت سے نمونے پیش کیے ہیں،لیکن حق گوئی،بے باکی اور سرفروشی میں کوئی شخص محمد علی جوہر کے درجے کو نہیں پہنچا۔‘‘

جامعہ ملیہ اسلامیہ دراصل مولانا محمد علی جوہر کے خلوص و ایثار، محنت و لگن،تعلیمی فکر و بصیرت اور ان کے تعلیمی نظریات کا ایسا عملی اور زندہ ٔجاوید نمونہ ہے جس کی مثال ہندوستان کی کوئی اور یونیورسٹی نہیں پیش کر سکتی۔ مولانا محمد علی جوہر بہت ساری امتیازی خصوصیات کے حامل تھے۔ان کا انداز گفتگو اور طرز اظہار بڑا استدلالی ہوتا تھا۔ وہ کوئی بات حق و صداقت کے خلاف زبان پر نہیں لاتے تھے۔ اس لیے اپنی بات پر اٹل اور بضد بھی رہتے تھے اور بڑی بڑی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں اور اپنی بات منوانے میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے۔وہ نہ کسی سے مرعوب ہوتے تھے اور نہ ہی مغلوب اور نہ ہی کسی کو مرعوب و مغلوب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ اپنی دھن کے پکے اور اپنے عزائم و منصوبے کی تکمیل کے دیوانے تھے۔وہ کبھی کسی بھی مقصد کے حصول میں کوئی غلط یا ناجائز طریقہ استعمال کرنے کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی اور اپنے زمانے میں پورے بر صغیر میں خلافت تحریک، تحریک آزادی، ہندومسلم اتحاد،عدم تعاون،ترک موالات اور قومی تعلیم کے لیے جو فضا سازی کی اور جن حالات میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسا ادارہ قائم کرکے ہندوستان میں آزادی سے قبل قومی تعلیم کے ادارے کا ایسا نمونہ پیش کیا جو آج بھی ہندوستان کی مثالی یونیورسٹی ہے اور آئندہ بھی رہے گی           ؎

تا قیامت قطع استبداد کرد

موج خون او چمن ایجاد کرد

حوالے

w         سیرت محمد علی۔ مرتبہ :رئیس احمد جعفری

w         محمد علی جوہر حیات و شخصیت،  از ڈاکٹر محمد اطہر مسعود، محمد علی جوہر نمبر نیا دور لکھنؤ،فروری /مارچ 2005

w         مولانا محمد علی جوہرحیات اور تعلیمی نظریات۔از ثناء الحق صدیقی 1975

w         مولانا محمد علی جوہر کی تعلیمی تقاریر ازسید مصطفی بریلوی،العلم کراچی جو ہرنمبر،اکتوبر تا دسمبر 1978

w         مولانا محمد علی جوہر بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز کے۔از محمد سرور1962

w         مولانا محمد علی جوہر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ: قاضی عبیدالرحمن،محمد علی جو ہر نمبر نیا دور لکھنؤ،فروری /مارچ2005

w         موج کوثر:شیخ محمد اکرام۔ادبی دنیا 1962

w         مضامین محمد علی۔از محمد سرور،دہلی،1938

w         محمد علی :جوہر حیات و خدمات۔شہزاد انجم


 

نوٹ:  یہ مضمون جناب ایم نسیم اعظمی صاحب کی آخری تحریر ہے۔ اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے۔ آمین



 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں