محنت ولگن، ذوق وشوق، مطالعے ومشاہدے اور مشقِ سخن سے
انسانی اذہان منوّر ہوتے ہیں۔علم وادب اور زبان وبیان سے گہری واقفیت انسان سے خون
جگر مانگتی ہے۔اک عمر درکار ہوتی ہے زندگی کے کسی میدان میں صحیح مقام ومرتبہ حاصل
کرنے کے لیے۔شعر وادب کی دنیا میں کچھ لوگ مشہور ہوجاتے ہیں اور کچھ مقبولیت حاصل
کرلیتے ہیں۔مشہور ہونا کمال نہیں ہے،مقبول ہونا کمال ہے۔ نمود ونمائش اورشہرت کے
پیچھے بہت سی مصلحتیں، سود و زیاں اورراز ونیاز کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جب کہ
مقبولیت میں شخصی اختصاص وارتکازاور فطری جوہر کی اثرپذیری شامل ہوتی ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن اپنے شعری وادبی اختصاص
کی بنیاد پر علمی وادبی حلقوں میں کافی مقبول رہے ہیں۔اصل بات تو یہ ہے کہ جدید
اردو شاعری اور تنقید وتحقیق کو جن اہلِ قلم نے معیار ووقار عطا کیا ہے۔اُن میں
پروفیسر لطف الرحمن ایک امتیازی حیثیت کے مالک ہیں۔ موصوف ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت
تھے کہ جن کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف ان کی طالب علمی کے زمانے میں ہی ہونے لگا
تھا۔پٹنہ یونی ورسٹی سے اُن کا اردواور
فارسی میں ایم اے گولڈ میڈل کا انعام حاصل کرنا اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ وہ
نہایت ذہین تھے۔ذہانت ولیاقت ہی کی بنیاد پر ان کا تقرر پہلے ٹی این بی کالج
بھاگلپوراور اس کے بعد بھاگلپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ہوا اور وہیں سے
بحیثیت صدر شعبہ سبکدوش ہوئے۔اگرچہ اُنھوں نے سیاسی میدان میں بھی قدم رکھا کہ
جہاں وہ ممبر قانون سازاسمبلی اور پھر حکومت بہار کے کابینہ وزیر کے عہدۂ جلیلہ
پر فائز ہوئے لیکن گونا گوں مصروفیات کے باوجود اُنھوں نے اپنا ادبی سفر جاری
رکھا،جس کے نتیجے میں اُنھوں نے اردو ادب کو پانچ شعری مجموعوں اور سات تحقیقی
وتنقیدی کتابوں سے مالا مال کیا۔اُن کے شعری مجموعوں میں ’تازگئی برگ نوا‘،’ بوسۂ
نم‘، ’صنم آشنا‘، ’دشت میں خیمۂ گل‘اور’راگ بیراگ‘ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔جہاں
تک اُن کی تحقیقی وتنقیدی کتابوں کا تعلق ہے ان میں’جدیدیت کی جمالیات‘، ’نثر کی
شعریات‘،’ نقد نگاہ‘، ’تنقیدی مکالمے‘، ’تعبیروتقدیر‘ اور’فنون لطیفہ اورتخلیقی
تخیل‘اپنے عنوانات اور موضوعات کے اعتبار سے علم وعرفان اورادبی مباحث کے نئے باب
کھولتی ہیں۔
ان کی تحقیقی وتنقیدی کتابوں میں بصیرت وبصارت اور متانت
وسنجیدگی کے نمونے بدرجہ اتم نظر آتے ہیں۔ انھوں نے متعدد مقامات پر اپنے تنقیدی
نظریات کو بھی واضح کیا ہے جن سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تنقید کے سلسلے
میں نہایت سنجیدہ تھے۔یہاں بطور مثال ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔وہ ایک جگہ رقمطراز
ہیں :
’’تنقید
انسانی جبلت ہے۔ انسان کا کوئی عمل تنقیدی احساس وشعور سے بے نیاز وبے تعلق نہیں
ہوتا… تخلیق ادب انسانی وجود کا سب سے گراں قدر اوراعلیٰ ترین عمل ہے۔ادب تجربہ ٔ
حیات کی آئینہ داری نہیں بلکہ اس کی تخلیق نو ہے۔ادب روحانی بصیرتوں اور انسانی
زندگی کے درمیان ایک رابطے کا نام ہے۔شاعری ان دیکھی دنیاؤں کا پروہت ہوتا ہے۔وہ
ایک مقدس تخلیق کار ہوتا ہے جو تفنن طبع کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا حسن کار
ہوتا ہے جو اپنے سماج اور معاشرے میں مختلف سطحوں پرانسانی آرزومندیوں کی تشریح
وتوضیح کرتا ہے۔وہ سماجی صحت،تہذیبی نفاست،مساوات واخوت اور آزادیِ ضمیر کا نگہبان ہوتا ہے‘‘
( مشمولہ
’جہانِ اردو‘سہ ماہی دربھنگہ بہار، شمارہ
نمبر73، جنوری تا مارچ2019 مقدمہ’نقد نگاہ‘
ص223)
محولہ اقتباس کے ایک ایک جملے سے ادب،ادیب
اور تنقید کے بارے میں پروفیسر لطف الرحمن کا موقف ومدعا اوراُن کا نظریاتی ارتکاز
واضح ہوجاتا ہے۔جہاں وہ تنقید کو انسانی جبلت خیال کرتے ہیں تو وہیں وہ تنقید ی
شعور وادراک کو انسانی فکر وخیال اور تفاعل کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیتے ہیں۔اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ غیر ادبی کاموں میں بھی انسان تنقیدی شعور سے کام لیتا
ہے۔اسی اقتباس کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے تخلیق اور تخلیق کار کی
عظمت کو ابھارا ہے اور اسے محقق وناقد پر ترجیح دی ہے۔مزیدبرآں وہ ایک ادیب وشاعر
کو سماج کاایک ذمہ دار فرد قراردیتے ہیں کہ جس کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ
اخباری رپورٹنگ سے گریز کرتے ہوئے اپنے فکر وخیال کی مختلف سطحوں سے انسانی حالات
وواقعات،جذبات واحساسات اور افکار ونظریات ادبی وفنی جمالیات کے تحت اعلیٰ ادب
تخلیق کرے۔پروفیسر موصوف کی تمام تحقیقی وتنقیدی کتب میں اصول تحقیق وتنقید کی
پابندی نظر آتی ہے جو بڑی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ معاصر ناقدین
ادب میں زیادہ تر ادب پارے یافن پارے کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے کی
بجائے شخصیت پرستی پر سارا زور صرف کرتے ہیں۔ادب پارہ یا فن پارہ کوئی صحیفہ نہیں
ہوتا ہے بلکہ بشر کے ہاتھوں وہ سامنے آیا ہوتا ہے اس لیے اُس میں کہیں نہ کہیں
خامی یا کمی تو ہوگی ہی۔ دراصل انسان میں اپنی تعریف سننے اور پڑھنے کا مادہ زیادہ
پایا جاتا ہے۔وہ اپنے عیوب سننے اور پڑھنے کا روادار نہیں ہوتا۔ پروفیسر لطف
الرحمن کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔انھوں نے چونکہ فارسی ادب کا بھی گہرا
مطالعہ کیا تھا اس لیے وہ زبان وبیان کے معاملے میں بھی کافی سنجیدہ نظر آتے
ہیں۔اردو کے کلاسیکی اور جدید ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ان کی تنقیدی نگارشات میں
کئی جگہوں پر کلاسیکل شاعری کے اوصاف پر اظہار خیال نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے اُن کے
پاس گہرا مطالعہ ومشاہدہ اور منطقی واستدلالی ذہن وفکر موجود تھی،جس کے سبب انھوں نے
انتقادی ادب میں بھی اپنی ایک خاص انفرادیت کا نقش قائم کیا ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی شاعری اور تنقید
وتحقیق میں ان کے اختصاص کے سراغ ملتے ہیں۔بلاشبہ عصری اردو تنقید وتحقیق اور جدید
شاعری کے فروغ میں اُن کی حیثیت مسلّمہ ہے۔یوں تو اُن کے کئی تحقیقی مقالے اردو کے
موقر ومعیاری رسائل وجرائد کی زینت بنے ہیں جن کو یہاں زیر بحث لانا ممکن نہیں ہے
مگر پھر بھی نمونے کے طور پر اُن کا ایک طویل مقالہ سہ ماہی ’مژگاں‘ (کلکتہ)کے
’نئی نسل نیا ادب نمبر‘کے خصوصی شمارہ میں صفحہ 688پر شائع ہوا ہے۔ یہ تحقیقی
نوعیت کا مقالہ نہایت معلوماتی اور بصیرت آمیز ہے۔پروفیسر لطف الرحمن نے اس مقالے
کے ابتدائی صفحات میں جدید نظم کے بنیاد گذاروں میں محمد حسین آزاد اور حالی کا
ذکر کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے اُن تمام قد آور شعرا کے نام کااندراج کیا ہے
کہ جنھوں نے ہئیت، اسلوب،مزاج،رویّے،طریق کار، رجحان و میلان، فضا اور آہنگ میں اردو شاعری کو بہت
عمدہ اور دل کے تاروں میں جھنجھناہٹ پیدا کرنے والی نظمیں دی ہیں۔ ان شعرا میں
علامہ اقبال، جوش، چکبست، سیماب، حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، جمیل مظہری، حامداللہ
افسر اور اختر شیرانی کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر
موصوف نے زیر نظر مقالے میں اپنی تحقیق کے مطابق دو اہم تاریخی حقائق کا انکشاف
کیا ہے۔ایک یہ کہ اردو میں آزاد نظم نگاری کی ابتدا جس شاعر نے کی وہ تصدق حسین
خالد ہیں اور دوسری بات یہ کہ نئی نظم کو
جن شعرا نے زیادہ مروج ومقبول بنایا اُن میں اوّلین نام میراجی اور’ حلقۂ ارباب ذوق‘سے منسلک شعرا شامل
ہیں۔بقول پروفیسر لطف الرحمن:
’’اردو
میں آزاد نظم نگاری کی طرف باضابطہ توجہ سب سے پہلے تصدق حسین خالد نے دی۔خالد(پ
1900)نے 1925 سے آزاد نظم نگاری میں اپنے تخلیقی تجربات کا اظہار شروع کیا۔
اُنھوں نے نئی تشبیہات واستعارات کے استعمال سے اپنی نظموں میں اشاریت وایمایت کی
پُر اثر کیفیت پیدا کی۔قدیم موضوعات سخن اور اُسلوب اور اظہار کونظر انداز کرکے
نظم نگاری کی روایت کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھا۔بحور واوزان کے تجربے کیے۔ ایک ہی
نظم میں ایک سے زیادہ بحریں استعمال کیں اور اوزان وبحور میں امتزاج کی حسین اور
کامیاب کوشش کی‘‘
(مشمولہ’نئی نسل نیا ادب نمبر‘سہ ماہی ’مژگاں
‘کا خصوصی شمارہ (کلکتہ) 2009-10ص 688)
’’یہ ایک
بین حقیقت ہے کہ نئی نظم کو زیادہ مروج ومقبول میراجی اور ’حلقۂ ارباب ذوق‘سے
وابستہ شعرا نے بنایا۔ان لوگوں نے آزاد نظم کی ہئیت کو عام کیا۔ترقی پسند تحریک
سے وابستہ شعرا آزاد نظم نگاری کے مخالف تھے۔فیض
نے آزاد نظم کو ذریعۂ اظہار بنایا تو سردار جعفری نے اس کو مطعون
کیا۔دراصل آزاد نظم کو ترقی پسند شعرا عوامی اپیل کے لیے غیر موزوںذریعۂ اظہار
سمجھتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں خود سردار جعفری اور دوسرے ترقی پسند شعرا
نے اس ہئیت کو پابند نظم نگاری پر ترجیح دی۔مخدوم محی الدّین نے بھی دلکش نظمیں
لکھی ہیں جن میں محبت کے پُر اثر گیت شامل ہیں‘‘( ایضاً ص689)
مندرجہ بالا اقتباسات میں پروفیسر لطف الرحمن کا تحقیقی
شعور معاصر نظمیہ شاعری کے حوالے سے کافی بالیدہ اور سلجھا ہوا معلوم ہوتا
ہے۔انھوں نے حقائق کی کھوج میں استدلالی اندازاپنایا ہے اور اس بات کا خاص خیال
رکھا ہے کہ بغیر حوالے کے تحقیق غیر معتبر اور لفاظی قرار پاتی ہے۔ انھوں نے اپنے
تحقیقی مقالے میں 1960 کے بعد آزاد نظم سے تعلق رکھنے والے ان تمام نمائندہ شعرا
کے نام درج کیے ہیں جنھوں نے واقعی آزادنظم نگاری میں امتیازی حیثیت حاصل کی
ہے۔علاوہ ازیں بطور خاص محترمہ زاہدہ زیدی، فیض احمد فیض، اختر الایمان، خلیل
الرحمن اعظمی، مظہر امام، شاذتمکنت، محترمہ شفیق فاطمہ شعریٰ، بلراج کومل، زبیر
رضوی، شہر یار،مخمور سعیدی،ندا فاضلی اور پروفیسر قمر رئیس کی آزاد نظموں کے
نمونے حوالے کے طور پر پیش کیے ہیں۔
لطف الرحمن کی ایک خاص ادبی جہت ان کی شاعرانہ حیثیت سے
تعلق رکھتی ہے۔ان کی غزلوں میں خارجیت یاخارجی معاملات کے بجائے داخلی حالات
وکیفیات اور احساسات کا بیان زیادہ معلوم ہوتا ہے۔اس کی وجہ ان کی جدیدیت پرستی
رہی ہے۔جدیدیت ہی کے زیر اثر ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی باطنی خود کلامی کی
صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔اُن کی شاعری جہاں اُن کے زمانے اور زیست کا حال سناتی
ہے، وہیں انھوں نے دانشورانہ انداز میں
زندگی کی المناکیوں کو بھی اپنا شعری جامہ پہنایا ہے۔شفیع جاوید اُن کی شاعری پر
تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’اُن کے
اشعار داخلی حقیقتوں کے وہ نامے جو خامۂ خونچکاں سے اور فگار اُنگلیوں سے لکھے
گئے ہیں۔ اُن کے یہاں حزن آگیں کیفیتیں اور آگہی کی ایسی روشن منزلیں آتی ہیں جو یہ تاثر دیتی ہیں کہ بات
اتنی ہی نہیں، اس کے پرے بھی کچھ اور ہے کیونکہ تجربات اور واردات کا بحر بے کنار
تو اس طرح ہے کہ اسے طے کرلینا آسان نہیں‘‘
(’دشت میں
خیمۂ گل‘ مشمولہ ’جہان اردو‘سہ ماہی دربھنگہ بہار،شمارہ نمبر73،جنوری تا مارچ2019
ص222)
پروفیسر لطف الرحمن نے آزاداور معریٰ نظمیں
بھی کہی ہیں مگر اُن کا اصلی جوہر غزل میں کھلا ہے۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اگرچہ
ان کی غزلوں میں تخلیقی وفور بہت قلیل نظر آتا ہے مگر اس کے باوجود ایک خاص قسم
کا التزام ہر جگہ ملتا ہے اور کہیں کہیں ایسے اشعار بھی نظر آتے ہیں جن میں
دردوکسک کا سوز وساز موجود ہے یا جن میں داخلیت کے بجائے خارجیت کا اختصار واعجاز
موجود ہے۔ آیئے اُن کے مختلف شعری مجموعوں سے ماخوذ چند اشعار نمونے کے طور پر
ملاحظہ کریں ؎
رفتہ رفتہ اُڑ گئے روشن کتابوں کے حروف
میں بھی ہوں لمحہ بہ لمحہ داستاں ہوتا
ہوا
اتنا چپ چاپ تعلق
پہ زوال آیا تھا
دل ہی رویا تھا،نہ چہرے پہ ملال آیا تھا
بدن میں لو کی
لپک آج انتہا پر ہے
وہ کوئی سانپ سہی آج مجھ کو ڈَس جائے
صلیبوں کی رفعت مقدّر میں تھی
سو ہم ہر
جگہ سراُٹھا کر چلے
عجب ربط ہے تجھ سے مری تمنا کا
میں دشت وقت کا پیکر چمن چمن تیرا
یہی ٹوٹی
ہوئی نیندیں،یہی مسمار اُمیدیں
یہی سب کا مقدّر ہے صدی ہے یہ عذابوں کی
بھاگئی دل کو
مرے مکار لفظوں کی ادا
ذائقہ دل کے لہو کا رُوبہ شرح جاں بھی ہے
فریاد کو بھی ہم
نے سلیقہ بنادیا
آنکھوں کو جھیل،جھیل کو دریا بنادیا
میں تھا نیزے
کی بلندی
پہ مگر میر ا عدو
میرا سر کاٹ کے بھی میرے برابر کب تھا
مندرجہ بالا اشعار کے الفاظ ومعانی پر غور وتدبر کریں تو
معلوم ہوگا کہ شاعر نے احساس محرومی اور اپنے عہد کے پُرآشوب حالات وواقعات کو جس
شعری پیکر میں ڈھالا ہے اس میں جدید حسّیت بھی ہے اور تغزل کا عرفان بھی۔ تشبیہات
واستعارات، علامتیں، اشارے اور کنایے دنیائے شعر واب کازیور ہوتے ہیں۔ لطف الرحمن
کی شاعری میں بحور واوزان کا آہنگ تو ہے ہی شعری صنعتوں کے برمحل استعمال سے جذبہ
واحساس اور فکر وتخیل میں کافی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔بہر کیف پروفیسر لطف الرحمن کا
ادبی سرمایہ اردو شعر وادب میں گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اُن کی
نثر ونظم میں جابجا اُن کے تخلیقی جوہر نظر آتے ہیں کہ جن کا اعتراف اُن کے تمام
ہم عصروں نے کسی نہ کسی صورت میںکیا ہے۔
Dr. Mushtaq Ahmad Wani
Asst. Prof. Dept of Urdu
Baba Ghulam Shah University
Rajori 185234 (J&K)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں