9/11/20

ڈراما ’انارکلی‘ اور فلم ’مغل اعظم‘ ایک تجزیاتی مطالعہ - مضمون نگار: افسانہ حیات




ڈراما  انارکلی اور فلم مغلِ اعظم دونوں کاتانا بانا عشق کے روایتی قصے پر بنا گیا ہے، جس میں ایک ادب کی آغوش میں پناہ گزیں ہے تو دوسرا ہندی سیمیں پردے پر جلوہ افروز۔فلم ’مغلِ اعظم ‘ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دورِ حکومت 1556 تا 1606 میں مغلیہ سلطنت کے جاہ و جلال اورشاہی محل سرا کی ایک کمسن خوبصورت کنیز ’انار کلی‘ اورشہزادہ سلیم کے عشق کی داستان ہے۔ اس کا ماخذ امتیاز علی تاج کا ڈراما’انار کلی ‘ ہے۔ امتیاز علی تاج نے ڈراما ’انارکلی‘ 1922 میں تصنیف کیا تھا مگر کتابی شکل میں پہلی بار 1932 میں شائع ہوا۔ڈراما انار کلی کے بارے میںعام خیال یہی ہے کہ یہ ایک روایتی قصہ ہے، امتیاز علی تاج نے خود بھی ا س بات کا اعتراف کیا ہے :

’’ میرے ڈراما کا تعلق ایک روایت سے ہے۔ انار کلی کی فرضی کہانی سنتے رہنے سے حسن و عشق اور ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کی شوکت و تحمل میں دیکھا اس کا  اظہار ہے ‘‘

(امتیاز علی تاج، دیباچہ ڈراما انار کلی، ص7، 1913)

ڈراما انار کلی اردو ڈرامے کا شاہکار ہے۔’انار کلی‘ کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یاجا سکتا ہے کہ فلموں کے خاموش دور سے موجودہ عہد تک اس ْقصے نے بڑے نامور فلم سازوں کو متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں اس قصّے پر کئی فلمیں بنیں اور کچھ بے حد مقبول بھی ہوئیں۔ ان  فلموں سے انار کلی کے قصے کو عوام و خواص میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی مگرتمام شہرت و مقبولیت کے باوجوداس ڈرامے کی ڈرامائیت اوراسٹیج کے حوالے سے عام خیال یہ ہے کہ ڈراما ’انارکلی ‘ کو آج تک کامیابی کے ساتھ اسٹیج نہیں کیا جا سکا  جس کے لیے بعض نقادوں نے اس کی ادبیت، مناظر، مکالموں،طوالت وغیرہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ڈراما کے معتبر نقاد عشرت رحمانی ڈراما ’انار کلی‘کی ادبی شان اور اسٹیج کی معنویت کو ثابت کرتے ہوئے ان اعتراضات کو قابلِ قبول نہیں گردانتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ:

’’بعض ناقدین نے غورو فکر کے بغیر ’انار کلی‘کے بارے میں رائے زنی کی ہے کہ وہ مروجہ اسٹیج  پر اس لیے نہیں کھیلا جا سکا کہ اس کی غیر معمولی طوالت اور ادبی شان اسٹیج کے لیے نا قابلِ قبول تھی حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ مدّت یا دوران کے اعتبار سے ان تمام مروجہ ڈراموں سے تقریباً نصف ہے ۔جو اس دور میں اسٹیج پر کھیلے جاتے تھے۔مکمل ڈراما نہایت اطمینان سے تین گھنٹے کی مدّت میں کھیلا جا سکتا ہے ‘‘

(عشرت رحمانی، اردو ڈراما کا ارتقا، ص  345)

ان اعتراضات سے قطع نظر عشرت رحمانی ڈراما ’انار کلی‘ کو دورِ جدید کا نقشِ اول قرار دیتے ہوئے ڈرامے کوا دبیت،زبان کی خوبی، مکالموں کی چستی اور ڈرامائیت کے لحاظ سے لاجواب ڈراما مانتے ہیں وہ ’انار کلی ‘ کے اسٹیج کیے جانے کے حوالے سے ڈراما کمپنیوں کی مصلحتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں :

’’تاج نے 1922 میں اپنا وہ شاہکار لکھا جو اردو ڈراما نگاری کے دو رِ جدید کا نقشِ اول اورسنگِ میل تصور کیا جاتا ہے۔یہ ڈراما پہلی بار 1932 میں دارالاشاعت پنجاب لاہور کے اہتمام سے شائع ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ ’انار کلی ‘فنی عروج اور دلکش ادبیت کے لحاظ سے بے مثال کارنامہ ہے۔زبان کی خوبی، مکالموں کی چستی اور برجستگی اور ڈرامائی تدبیر گری کی نادرہ کاری لاجواب ہے۔ڈراما کئی با وقار ناٹک کمپنیوں نے کھیلنے کا ارادہ کیا خصوصاًبباکل بھارت کمپنی کے ذی ہوش اصحاب قیام لاہور کے دوران میں اسے تمثیل کرنے کے بڑے خواہش مند تھے لیکن ان میںسے اکثر اپنی محدود ضروریات کے پیشِ نظر اصل ڈراما میں چند تبدیلیوں کے طالب تھے۔تاج صاحب نے نام نہاد مصلحتوں پر اپنے فنی شاہکارکو قربان کر دینا ہر گز گوارہ نہ کیا ‘‘ (عشرت رحمانی اردو ڈراما کا ارتقا، ص 345)

امتیاز علی تاج خود بھی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں :

’’میں نے انارکلی 22 عیسوی میں لکھا تھا۔اس کی موجودہ صورت میں تھیٹروں نے اسے قبول نہ کیا۔جو مشورے ترمیم کے لیے پیش کیے انھیں قبول کرنا مجھے گوارہ نہ ہوا۔‘‘

(سید امتیاز علی تاج،ڈراما انار کلی،دیباچہ، ص 5 ہمالہ بک ہائوس پہاڑی بھوجلہ دہلی6)

 ڈراما ’انار کلی ‘ کو بھلے ہی اسٹیج پر کامیابی کے ساتھ نہ کھیلا گیا ہو لیکن ادب کی آغوش اور فلم کے سنہرے پردے پراس قصّے نے بڑی خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ عوام کے دلوں پر حکومت کی ہے۔فلموں کے خاموش دور سے موجودہ عہد تک ’انارکلی ‘ کے اس رومانی قصے نے بڑے نامور فلم سازوں کو متاثر کیا ہے۔

1912 سے1930 تک خاموش فلموں کا دور رہا ہے۔1927 میں گریٹ ایسٹرن کار پوریشن پنجاب (لاہور) نے ڈراما ’انار کلی‘کی بنیاد پر(Love of a great Mughal Prince) کے عنوان سے خاموش فلم بنائی۔ مگرارد شیر ایرانی نے بہت کم وقت میں ’انار کلی ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنا کر نمائش کے لیے پیش کر دی،اس وقت تک فلم انڈسٹری کاپی رائٹ ایکٹ سے نا آشنا تھی۔ اس فلم کو زبر دست کامیابی حا صل ہوئی۔چند ماہ بعد جب (Love of a great Mughal Prince)   ریلیز ہوئی تو عوام نے اسے ’انار کلی‘ کا چربہ مان کر ٹھکرا دیا۔یہ دونوں فلمیں خاموش تھیں۔ 1931 میں ارد شیر شیرانی نے پہلی ناطق فلم ’عالم آرا‘ بنائی تو1934 میں ’انار کلی‘ کو بھی زبان عطا کی۔ یہ فلم بے حد کامیاب رہی۔اس فلم کی اسکرپٹ اور مکالمے امتیاز علی تاج نے لکھے۔1953 میں نند لال جسونت لال کی ہدایت میں ’انار کلی‘کے عنوان سے ایک اورکامیاب فلم بنی جس میں مرکزی کردار پردیپ کمار اور بینا رائے نے ادا کیے۔اس طرح انارکلی کے اس قصّے پر وقت وقت پر فلمیں بنتی رہیں۔

سب سے اہم اور کامیاب فلم1960 میںہدایت کار کمال الدین آصف کی ہدایت میں بنی فلم ’ مغلِ اعظم ‘ ہے۔کے آصف پہلی مرتبہ ’مغلِ اعظم‘ میں نرگس (انارکلی) چندر موہن (اکبر)اور شہزادہ سلیم آصف جینت(امجد خان ) کو لے کر فلم بنا رہے تھے،فلم کی کافی شوٹنگ بھی ہو چکی تھی مگر اچانک چندر موہن بیمار ہوئے اور اس دنیا کو الوداع کہہ دیااور اس طرح یہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔1946 میں کے آصف نے ’مغلِ اعظم ‘ دوبارہ شروع کی تو پورا سیٹ اب بدلا گیا۔ کے آصف نے اس فلم کو بنانے میں جی جان لگا دی۔اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اردشیر ایرانی (خاموش اور ناطق) انار کلی کے خالق  کے بیٹے شاپور جی نے اس فلم کو فائنانس کیا۔ اس کی نوک پلک سنوارنے میں کے آصف نے 14 سال کا طویل عرصہ اور تقریباََ ڈیڑھ کروڑ کی رقم صرف کی،جبکہ اس دور میں دس لاکھ میں فلمیں بن جایا کرتی تھیں۔کے آصف نے فلم  میںچھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔اس پر وقت،پیسہ اور پوری توجہ صرف کی۔اس فلم ’مغلِ اعظم ‘ میں دلیپ کمار، مدھو بالا، پرتھوی راج کپور، درگا کھوٹے، اجیت،جانی واکر جیسے ستاروں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔فلم کی اسکرپٹ امان اللہ خان، مکالمے احسن رضوی، کمال امروہی، وجاہت مرزانے لکھے۔ موسیقی نوشاد اور گیت شکیل بدایونی نے تخلیق کیے۔اس فلم کے گیت بہت مشہور و مقبول ہوئے خاص طور پر مدھوبالا ’انارکلی‘ پرفلمایا ہوا گیت ’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ بہت زیادہ مشہور ہوا۔اس فلم میں بات اداکاری کی ہو، اسکرپٹ کی ہو،مکالموں کی یا پھر گیت اور سنگیت کے تمام فن کار اعلیٰ درجے صلاحیت کے مالک تھے۔کے آصف نے اس فلم میں فلمی دنیا کے درخشاں ستارے چن چن کر انارکلی کے آنچل میں ٹانک دیے تھے۔

امتیاز علی تاج نے ’ڈراما  انارکلی‘1922میںتخلیق کیا۔ 1960 میںکے آصف نے اس ڈرامے کو فلمی پردے پر پیش کرکے لافانی بنا دیا۔ فلم مغلِ اعظم کو پلاٹ،مکالمہ نگاری، کردار نگاری، موسیقی، رقص، کاسٹیوم وغیرہ ہر لحاظ سے کامیاب فلم کہا جا سکتا ہے۔ مغلِ اعظم کا پلاٹ عشق کی بے لوث داستان اور مغلیہ سلطنت کے جاہ و جلال کے ارد گرد بنا گیا ہے۔جس میں عشق پابندِ وفا اور سلطان  پابندِ اصول ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ثابت قدم ہیں نہ عشق بے وفائی کرتا ہے نہ فرض اپنے اصولوں سے منہ پھیرتا ہے۔کسی بھی ڈراما یا فلم کا بنیادی جز اس کی کہانی اور اس  میںپیوست اس کے کرد ار ہوتے ہیں جواسے مشہور و مقبول اور لا زوال بناتے ہیں۔ امتیاز علی تاج کا ڈراما انارکلی اور کے آصف کی ہدایت کاری میں بنی فلم مغلِ اعظم کا قصہ اور کردار ایک دوسرے سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ مربوط و منسوب نظر آتے ہیں۔

 فلم’مغلِ اعظم‘اور ڈراما ’انارکلی‘دونوں ایک ہی قصے پر مبنی ہیں۔مگر کے آصف نے فلم میں کئی مقامات پر حذف و اضافے سے کام لیا ہے۔ دونوں کی کہانی بادشاہ اکبر،شہزادہ سلیم اور کنیز انارکلی کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے۔یہ ایک عشقیہ داستان ہے جس میںہندوستان کے ہونے والا ولی عہدشہزادہ سلیم محل کی ایک کنیز کے عشق میں اس درجہ گرفتار ہوجاتاہے کہ مغلیہ سلطنت اور بادشاہ جلال الدّین اکبرکے جاہ و جلال سے بے خوف بغا وت کا  علم بلند کر دیتا ہے۔ سلیم کی شخصیت میں شاعرانہ اور عاشقانہ خمیر گھلا ہے۔یہ باغیانہ مزاج اورعاشقانہ خمارمغلیہ سلطنت میں ایک ایسا زلزلہ بن کر ابھرتا ہے جو باد شاہِ وقت اکبر اور ہندوستان کے ولی عہد شہزادہ سلیم کو میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کے روبرو لا کھڑا کرتا ہے۔جہاں ایک طرف ہندوستان کا جلیل القدربادشاہ اکبرِ اعظم ہے تو دوسری جانب ایک کنیز کے عشق کے نشے میں مدہوش باغی شہزادہ۔جس کی سلطنت اور زندگی کا مقصدعشق کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں۔

ڈراما انارکلی اور فلم مغلِ اعظم کے قصے میں جو بنیادی جز ہے وہ عشق کی فتح ہے جو بظاہر محبت کی ہار مگر اصل میں سچی محبت کی جیت ہے۔ڈراما انار کلی اور فلم مغلِ اعظم کی پیش کش،کہانی کردار،واقعات وغیرہ میں کئی مقامات پر فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔اگر ڈراما انار کلی ا ور فلم مغلِ اعظم کے قصے کے حوالے ہی سے گفتگو کریں تو  جس طرح ڈرامے میں کہانی کی ابتدا میں محل کا شاہانہ ماحول، تہذیب کنیزوں کی ہنسی ٹھٹھولی،چھیڑ چھاڑ کی خوشگوار فضا کو پیش کیا گیا ہے۔ فلم مغلِ اعظم میں کہانی کی ابتداکبر اعظم کے محل سے نہیں بلکہ تپتے صحرامیں اکبر کے اس سفر سے ہوتی ہے جس میں لا ولدبادشاہ اکبر اپنے ایک بڑے لشکر کے سا تھ مزارپراولاد کے لیے منّت مانگنے جاتاہے دعا قبول ہوتی ہے محل میں ڈھول تاشے بجتے ہیں اور بلائیں لی جاتی ہیں۔ اسی خوشی میں اکبر سلیم کی ولادت کی خبر دینے والی محل کی ایک کنیز کو کچھ مانگ لینے کی بات کرتا ہے یہ کنیز دراصل انارکلی کی ماں تھی جو بعد میں اس و عدے کے بدلے میں انار کلی کی زندگی بخشوالیتی ہے۔مگر امتیاز علی تاج کے ڈرامے میںاس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔اسی طرح فلم میں اکبر اور سلیم کے درمیان جنگ کے میدان کے واقعات کو جس طرح کے آصف نے فلم کے پردے پر اتارا ہے تاج کے ڈراما میںان واقعات کی وضاحت نہیں ملتی۔ان واقعات کے علاوہ بہت سے واقعات ہیں جنھیں کے آصف نے فلم کے پیرائے میں خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مگر کچھ اہم و ا قعات کا تذکرہ کے آصف نہیں کرتے جس میں انارکلی کے زندہ دیوار میں چنوانے کے بعد اکبر کی پشیمانی اور مجبور باپ کی شفقت اور لاچاری کا منظر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس طرح کے اہم اور چھوٹے چھوٹے واقعات فلم کے قصے کو ڈراما کے قصے سے ذرا مختلف کر کے پیش کرتے ہیں۔جن کی مختلف وجوہات ہیں۔اس سے فلم کی دلکشی،دلچسپی اور کامیابی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فلم مغلِ اعظم اور ڈراما انار کلی کے کر داروں کے حوالے سے گفتگو کریں تو جس طرح امتیاز علی تاج نے اپنے ڈراما میںاکبر،سلیم اور انار کلی کے مرکزی کرداروں کے ساتھ رقابت کے جذبے سے بھرپور دلآرام کا کردار بہت جاندار ہے۔ساتھ ہی انارکلی کی بہن ثریا،سلیم کا دوست بختیار،اور ماں جودھا بائی کے کرداروں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔کنیزوں میں عنبر،زعفران، ستارہ وغیرہ کے کردار بھی کہانی میں حرکت و دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ فلم اور ڈراما انار کلی کے کرداروں میں سب سے ذیادہ متحرک اور متصادم اکبر، سلیم اور انار کلی کے کردار نظر آتے ہیں۔ ڈراما انار کلی کا سلیم ایک شہزادہ،ایک خود سر بیٹا،ایک کنیز کے عشق میں دیوانہ باغی عاشق ہے جو محبت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے۔فلم مغلِ اعظم کا سلیم بھی انھیں خصوصیات کا حامل ہے۔مگر ا س میں فرق یہ ہے کہ جہاں امتیاز علی تاج کا سلیم ماں باپ سے محبت کے جذبات سے عا ری نہیں،جبکہ مغلِ اعظم کا سلیم ان جذبات و احساسات سے ایک دم عاری نظر آتا ہے۔اس پر ماں باپ کی محبت کا کوئی دلی احساس نہیں ہوتا اگر اس کوکسی سے محبت ہے تو وہ صرف انارکلی سے جس کے لیے وہ مغلیہ سلطنت اوربادشاہ اکبر سے ہی نہیں بلکہ اپنے باپ سے کھلی بغاوت کر بیٹھتا ہے۔حالانکہ اس کے بر عکس اکبر کا کردار فلم اور ڈراما دونوں میں ایک فرض شناس باد شاہ کے علاوہ باپ کی شفقت اور محبت کے جذبات سے عاری نہیں بلکہ وہ اپنے فرض کے تئیں مجبور ہے۔جس میں اس کی مجبوری اور لاچاری کا احساس اس وقت بہت گہرا ہو جاتا ہے جب وہ انار کلی کو دیوار میں چنواکر اپنے بیٹے شیخو کے سامنے بے قابو ہو کر رو پڑ تا ہے۔یہ اکبر کے کردار کا رروشن پہلو بھی ہے اور فطری جذبہ بھی۔اسی طرح ڈراما اور فلم دونوں میں انار کلی کا کردار ایک خوبصورت اور وفا کا مجسمہ ہے جو اپنی خوبصورتی، وفا داری،قربانی اور مظلومیت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتی ہے ۔

کسی بھی فلم یا ڈراما میں قصے اور کرداروں کے علاوہ اسے لازوال بنانے میں اس کے مکالمے بڑا اہم رول ادا کرتے ہیں،مکالمے اگر بے جان غیر مربوط ہو ں تو فلم یا ڈراما اپنا اصل تاثرناظرین پر نہیں چھوڑ پاتے۔اس لحاظ سے امتیاز علی تاج کا ڈراما انارکلی اور کے آصف کی فلم مغلِ اعظم  بھر پور ہے۔ڈراما ’انارکلی‘ اور فلم ’مغلِ اعظم‘ کے چند مکالمے ملاحظہ ہوں۔

ڈراما: اکبر بادشاہ۔ مجھے چھو مت،ایک دفعہ باپ کہہ دے۔صرف ابا کہہ کر پکار لے میں تجھے خنجر تک لا  دوں گا۔ خنجر اس کے سینے میں بھونک دینا۔پھر تو دیکھے گااور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا  ہے اوراندر سے کیا ہے، اکبر کا ستم اور اکبر کا ظلم کیوں ہے۔ اس کے خون میں بادشاہ  کا ایک قطرہ نہیں ایک بوند نہیں وہ سب کا سب شیخوکا باپ۔صرف باپ۔وہ باشاہ ہے تو تیرے لیے۔ وہ تیرا غلام ہے اور میرے جگر کے گوشے غلاموں سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔

فلم۔  بادشاہ اکبر: بخدا ہم محبت کے دشمن نہیں،اپنے اصولوں کے غلام ہیں۔

 فلم ۔مان سنگھ: جنگ کے میدان میں تلوار سپاہی کے ہاتھ میں دی جاتی ہے،مایوس عاشق کے ہاتھ میں نہیں۔

فلم ۔ شہزادہ سلیم: میرا دل آپ کا ہندوستان نہیں جس پر آپ کی حکومت چلے۔                

ڈراما۔بادشاہ اکبر: اس بے باک عورت کو لے جائو۔اور زنداں میں ڈال دو۔

فلم۔     انار کلی: انار کلی جلال الدین محمد اکبر کو اپنا خون معاف کرتی ہے۔

فلم ’مغلِ اعظم‘میں کے آصف نے  زبان و بیان اور ادبیت کا خاص خیال رکھا ہے ساتھ ہی کردار نگاری، مکالمے اور  مقامات کے ساتھ مناظر، کاسٹیوم، زیورات وغیرہ پر خاصی توجہ صرف کی ہے۔

سید اخلاق اثر امتیاز علی تاج کے ڈراما ’ انارکلی‘کی اہمیت اورفلم ’مغلِ اعظم‘ کی شہرت و مقبولیت اور اس کی کامیابی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں   :

’’ امتیاز علی تاج نے ڈراما لکھ کر انارکلی کو حیات جاوداں عطا کر دی۔ان کے ڈرامے سے متاثر فلم مغلِ اعظم کو امرتسر سے ٹیلی کاسٹ کیا گیا تو امتیاز اور انارکلی کے شہر کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو گئیں اور ٹیلی ویژن سیٹوں پر آباد یاں سمٹ گئیں ‘‘

(سید حیدر عباس رضوی،اردو ڈراما اور انار کلی،  دیباچہ سید اخلاق اثر ،ص 1976)

یہ بات درست ہے کہ کے آصف نے فلم ’مغلِ اعظم‘ بنا کراس قصّے کو ہی نہیں بلکہ مغلوں کی شان و شوکت، جاہ و جلال،تہذیب و تمدّن کوہر خاص و عام سے روبرو کرا دیا۔اس فلم کی مقبولیت کا عوام پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ اب خاص و عام ان مکالموں کو اپنی گفتگو میں استعمال کرنے لگے۔ جہاں پناہ، ظلِ الٰہی، مہابلی، شہزادے، کنیز، تخلیہ، اقبال بلند وغیرہ جملے خاص و عام کی زبان پر رواں ہو گئے۔ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ڈراما انار کلی کا موضوع، اس کے بے مثال کرداروں اور طویل مگر جاندار مکالموں کی وجہ سے ادب اور ہندوستان کے پردہ سیمیں پر لازوال ہے۔ امتیاز علی تاج  نے ادب کے شیدائیوں کو ڈراما ’انارکلی‘ لکھ کر اور کے آصف نے فلم ’مغلِ .اعظم ‘ بناکر ناظرین کو حسین تحفے دیے ہیں 


Dr. Afsana Hayat

B-2.506, SRS Residency

Sector 88

Faridabad - 121001 (Haryana)

Email: afsanahayaat@gmail.com







کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں