9/11/20

خواجہ غلام السیدین (14؍ اکتوبر 1904- 19 دسمبر 1971) - مضمون نگار: محمد احمد دانش روانوی

 



 خانوادۂ حالی کو بہت امتیاز حاصل ہے ۔ اس میں خواجہ الطاف حسین حالی علوم و فنون و ادب کے سورج تھے اور دیگر افراد خانہ جن میں خواجہ غلام الحسنین، خواجہ غلام السبطین، خواجہ احمد عباس، خواجہ غلام الثقلین، مشتاق فاطمہ، اخلاق حسین، صالحہ عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی ایسے تابندہ ستارے،  جنھوں نے فن شاعری، صحافت، فلم نویسی، تنقید نگاری، سوانح نگاری، خاکہ نگاری وغیرہ علوم و فنون اور ادب کو وہ روشنی دی جس کی کرنوں سے فنون و ادب آج بھی جگمگا رہے ہیں۔

خواجہ غلام السیدین بھی انھیں تابندہ ستاروں، نابغۂ عصر اور عبقری شخصیات میں سے ایک ایسا نام ہے جس نے علم و ادب، خطابت، سوانح نگاری، خاکہ نگاری، تنقید نگاری، لسانیات اور تعلیم کے میدانوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جس سے وہ نہ صرف خاندان حالی کی علمی وجاہت اور تعلیمی اقدار کے مبلغ کے طور پر جانے گئے بلکہ ملک و قوم کا بھی نام روشن کیا اور چار دانگ عالم میں ان کے زریں کارناموں کے سبب شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔

خواجہ غلام السیدین کی ولادت 14؍ اکتوبر 1904 کو ہریانہ کے معروف علمی و ادبی شہر پانی پت کے محلہ سادات میں خواجہ غلام الثقلین کے یہاں ہوئی جو مولانا حالی کی ہمشیرہ وجیہ النساء کے نواسے تھے اور خواجہ غلام السبطین کے بھائی تھے۔ مولانا حالی سے ان کا ایک اور رشتہ بھی تھا کہ ان کی والدہ بیگم مشتاق فاطمہ خواجہ اخلاق حسین کی بیٹی یعنی مولانا حالی کی پوتی تھی۔

جہاں تک خواجہ غلام السیدین کی تعلیم کا تعلق ہے ان کی ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہوئی۔ پانی پت کے ہی مسلم ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے علی گڑھ چلے گئے جہاں موصوف نے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی اور اپنی ذہانت اور علمی قابلیت کی بنا پر وظیفہ پاکر انگلینڈ چلے گئے جہاں کی لیڈز یونیورسٹی سے موصوف نے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔

جہاں تک خواجہ غلام السیدین کی علمی و ادبی فتوحات کا تعلق ہے وہ بیک وقت شعلہ نوا خطیب، ماہر تعلیم اور ادیب بے مثل تھے۔

دوران طالب علمی ہی ٹینس کھیلنے سے لے کر تقریری مقابلوں میں حصہ لینے علمی تقاریب میں زور خطابت دکھانے جیسی صلاحیتوں کا اکثر و بیشتر مظاہرہ کیا۔ اپنی عملی و ادبی زندگی میں اپنی لاتعداد کتابوں اور مضامین کی اشاعت کے ذریعے ادب و فلسفہ، سماجیات، مذہب و اخلاق، تعلیم و نفسیات اور شخصیات جیسے اہم اور مختلف النوع موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ان کے تحریر کردہ افسانوں، انشائیوں، سوانحی خاکوں، ریڈیائی تقریروں، کتابوں پرتبصروں، مقدموں اور تنقیدی مضامین میں سادہ، سلیس، شگفتہ اور دلنشیں نثر کا اسلوب ملتا ہے۔ ان کی تحریروں میں تنقید جیسے موضوعات میں بھی روکھے اور سپاٹ پن کا احساس نہیں ہوتا جو ان کے اظہار و بیان پر کامل دسترس رکھنے کا پتہ دیتا ہے۔ ان کے چند افسانوں میں پریم چند رنگ بھی نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی خودنوشت سوانح جسے بعد میں ان کی بہن صالحہ عابد حسین نے ترتیب دے کر بعنوان ’مجھے کچھ کہنا ہے اپنی زباں ‘ شائع کروایا تھا کے علاوہ متعدد سیاسی اور علمی شخصیات پر مضامین کا مجموعہ ’آندھی میں چراغ‘ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ تفویض ہوچکا ہے۔ اس سے قبل ’روح تہذیب‘ کے نام سے بھی ان کی ایک اور کتاب شائع ہوچکی تھی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موصوف کو مولانا آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب کی صحبتوں اور قرب کا بھی شرف حاصل رہا جس سے ان کے فکر و عمل کو جلا ملی۔ وہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی کے تعلیمی افکار و نظریات سے بہت متاثر تھے۔  اپنی مادر درس گاہ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسی سے بے حد ذہنی وابستگی و قلبی لگاؤ کے سبب ان کی خواہش تھی کہ وہ علی گڑھ لوٹ آئیں جس کی تکمیل یوں ہوئی کہ آپ کو علی گڑھ ٹریننگ کالج کی زبوں حالی و ابتری کے دور میں وائس چانسلر آفتاب احمد خاں کی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی اور وائس چانسلر نے ٹریننگ کالج کے آشوب زدہ حالات کے مداوا کے لیے آپ کو ٹریننگ کالج کا پرنسپل مقرر کیا۔ آپ نے اپنے فکر و تدبر اور انتظامی صلاحیتوں سے ٹریننگ کالج کے مخدوش حالات کو بہتر بنایا۔ آپ کی ملازمت کا بیشتر حصہ ڈاکٹر ضیاء الدین وائس چانسلر کے دور میں گزرا لیکن جب سرراس مسعود صاحب نے یونیورسٹی میں وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے لیڈز یونیورسٹی یا لندن سے کسی ماہر تعلیم کو بلانے کی خواہش ظاہر کی جس پر جواب ملا کہ آپ خواجہ غلام السیدین جیسی ذی علم اور باصلاحیت شخصیت کے موجود ہوتے ہوئے باہر نظر دوڑا رہے ہیں۔ آپ ان کا انتخاب کیوں نہیں کرلیتے اس طرح لیڈز یونیورسٹی کے ماہرین کے ایما پر 1931 میں بحیثیت پروفیسر آپ کا تقرر عمل میں آیا جہاں وہ اپنی مدت کار علی گڑھ کی تعلیمی تحریک میں سرگرم عمل رہے۔

خواجہ غلام السیدین اپنے خاندان کے علمی وقار اور وجاہت پر فخر کرتے ہوئے اپنی خودنوشت میں رقم طراز ہیں:

’’سب سے اہم چیز جس کے لیے میں اپنے خاندان کا شکر گزا رہوں وہ یہ کہ اس نے مجھے ایسے خاندان میں پیدا کیا جس سے بہتر میں خود انتخاب نہیں کرسکتا۔ یہ بات فخر کے ساتھ نہیں بلکہ انکسار کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ نعمت مجھے بغیر کسی استحقاق کے ملی۔‘‘

خواجہ غلام السیدین نے اپنی علمی قابلیت، انتظامی صلاحیت و ذہانت کے سبب ٹریننگ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پرنسپل کے عہدے پر مامور رہنے سے لے کر بحیثیت پروفیسر اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے ڈائرکٹر تعلیمات ریاست جموں و کشمیر اور ممبئی میں وزیر اعلیٰ کے تعلیمی مشیر و مرکزی حکومت کے محکمۂ تعلیم میں ایڈوائزر کے عہدوں جیسے اہم مناصب پر تعلیمی خدمات انجام دیں اور اپنی نمایاں خدمات کے سبب پدم بھوشن جیسے خطاب سے سرفراز ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 1945 میں نواب رامپور کی خواہش پر ریاست رامپور میں مشیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے صرف دو سال کے قلیل عرصے میں موصوف نے ریاست رامپور کے تعلیمی معیار کو بلند کیا اور بعض اہم اور نئی تعلیمی پالیسیاں وضع کیں۔

1947 میں بمبئی کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے مقرر ممبئی گورنمنٹ میں تعلیمی مشیر کی حیثیت سے تین سال تک تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد مولانا آزاد کے ایما پر محکمۂ تعلیمات میں جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ بعدہٗ محکمہ تعلیم میں ہی ایڈوائزر کے عہدے پر مامور ہوئے۔ خواجہ غلام السیدین نے مولانا آزاد کے ساتھ محکمہ تعلیم میں کام کیا۔ بعد ازاں مولانا آزاد نے سیدین صاحب کے ساتھ مل کر ایک نیا تعلیمی نظام قائم کیا۔ اپنے انتظامی مدت کار میں نئے کالجوں اور یونیورسٹی کے قیام، کالج اور یونیورسٹی کی مالی اعانت نئی تعلیمی پالیسیوں کے فروغ میں موصوف کی سعی و کاوش کو ہر جگہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

’’انھوں نے اپنے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہندوستان کے دیگر تعلیمی اداروں کی خوب مدد کی۔ نئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام اور نئی تعلیمی پالیسیوں کے فروغ اور نفاذ میں کوشاں رہتے تھے اور ہمیشہ نئے منصوبے تیار کرتے رہتے تھے۔

(خواجہ غلام السیدین: سرزمین ہریانہ کا ایک بے مثال ماہر تعلیم از پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی، مطبوعہ سہ ماہی جمناتٹ ص 8، جنوری تا مارچ 2019)

سیدین صاحب کو تعلیمی اداروں سے بے پناہ انسیت تھی۔ بحیثیت تعلیمی مفکر اور تعلیمی منتظم ان کی خدمات کو ہرگز بھلایا نہیں جاسکے گا۔

1961 میں جب سیدین صاحب وزارت تعلیم سے سبکدوش ہوئے تو گورنمنٹ نے انھیں کشمیر میں ایجوکیشن ایڈوائزر مقرر کیا۔ غلام السیدین صاحب تعلیم کے میدان میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ بیرونِ ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھی انھیں مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے سارک فیلوفاؤنڈیشن کی دعوت پر امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں توسیعی لکچر دیے۔ عالمی مشن برائے عراق ایجوکیشن ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ آسٹریلیا کے لیے نیو ایجوکیشن فیلوشپ کے بین الاقوامی وفد کے ممبر رہے۔ لندن یونیورسٹی کے علاوہ انھو ںنے ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں توسیعی لکچر دیے۔ (ایضاً)

خواجہ غلام السیدین کو ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں وطن عزیز ہندوستان میں پدم بھوشن جیسے اہم اعزاز اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دیے جانے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر ممتاز اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔

’’سیدین صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا۔ 1962 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔ سیدین صاحب ایک تعلیمی نظریہ ساز یعنی ایجوکیشن تھیورسٹ کے طور پر تسلیم کیے جانے لگے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اپنی سلور جبلی کے موقعے پر دنیا کے سات ممتاز ماہرین تعلیم کو تمغۂ امتیاز اور سند پیش کی۔ ان ماہرین میں غلام السیدین کا نام بھی شامل تھا۔‘‘ (ایضاً)

ان کی تحریروں میں تدبر و تفکر اور ادبی محاسن کو ادب سے متعلق ان کی ذیل کی ریڈیائی تقریر کے اقتباسات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے:

’’ادب کو محض تفریح اور چاشنی کی غرض سے پڑھنا ایک قسم کی ذہنی عیاشی ہے۔ اکثر لوگ ادب کا مطالعہ اس طرح کرتے ہیں گویا ان کو سماجی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ گویا وہ محض الفاظ اور محاوروں کی خوبی یا تشبیہ و استعارہ کی چاشنی کا نام ہے۔ یہ نقطۂ نظر ادب کی توہین ہے۔ وہ دراصل نہ صرف مصنف کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ ارادی یا غیرارادی طور پر سماجی زندگی اور اس کے اغراض و مقاصد اور جدوجہد پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ ادب کے مطالعہ کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ طالب علم اس کی مختلف اصناف میں سوسائٹی کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز سنے۔ اس کے عروج و زوال اس کی کامرانی اور ناکامی اور اس کے عیوب اور محاسن کی تصویریں دیکھے۔

ادب ایک فن لطیف ہے اور فن کی ایک سُر حسن کاری ہے۔ دوسرے لوگوں کی طرح ادیب کے دل و دماغ پر بھی اس کے ماحول کے واقعات اور حالات زندگی کے بزمیے اور المیے اثر ڈالتے ہیں اور چونکہ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہے،  اس کا مشاہدہ زیادہ گہرا اور نظر تیز ہوتی ہے،  اس لیے وہ اس اثر کو زیادہ آمادگی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ اس کے تخیل کی بھٹی میں سے گزر کر وہ ایک ایسی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں وحدت اور یکجہتی ہوتی ہے، حسن اور اثر آفرینی ہوتی ہے۔ جس میں زندگی کا خون جھلکتا اور زندگی کی نبض دھڑکتی دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت  آرٹ اور زندگی کی مصنوعی حدیں اٹھ جاتی ہیں او رحسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حسن بن جاتا ہے، اور ادیب کا حسن کلام انسان کے دل اور اس کی زندگی کی آئینہ داری کرتا ہے۔ میں اسی کو اصل ادب کہتا ہوں...‘‘(تاب زرّیں اردو ادب اور ہریانہ، سنہ اشاعت: 2017، باہتمام کُمد بنسل ڈائرکٹر ہریانہ اردو اکادمی، اکادمی بھون آئی بی 16، سیکٹر 14، پنچکولہ، ہریانہ، ص 150)

 

Mohd Ahmad Danish Ravanvi

Kashany-e-Gulzar

Near Taj Palace, Taj Colony

Raja ka Tajpur

Distt.: Bijnor - 246735 (UP)

Mob.: 9759418047

 

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں