27/11/20

اردو تحقیق اور مولانا امتیاز علی عرشی - مضمون نگار: نوشین حسن




دارالسرور رامپور میں جہاں شعرا ادبا کی ایک کہکشاں آباد رہی ہے، وہیں تحقیق کی دنیا میں امتیاز علی عرشی کا مقام صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ا نھوں نے اردو تحقیق کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کی۔ عرشی نے تحقیق کے ان نئے گوشوں کو تلاش کیا جو ان سے پیشتر پوشیدہ تھے۔ ان کے علمی ادبی کارناموں میں ادبیات،تاریخ و تفسیر، تحقیق و تنقید اور تدوین متن خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی ادب کے لیے وقف کردی اور ہمیشہ نادرو نایاب کتابوں کی تلاش و تحقیق میں منہمک رہے۔ان کی اردو کی مطبوعہ کتابوں میں مکاتیب غالب، دیوان غالب (نسخہ عرشی)،انتخاب غالب، اردو میں پشتو کا حصہ،کہانی رانی کیتکی کی،مجالس رنگین ازانشا، نظام نامہ، رویدادافتتاح، نادرات شاہی از عالم شاہ ثانی، سلک گوہر از انشا، محاورات بیگمات از رنگین، مقالات عرشی، وغیرہ ہیں، ساتھ ہی ان کی غیر مطبوعہ کتابوں میں اشاریہ اودھ کیٹلاگ، خطاطی کی تاریخ، دیوان مومن، فہرست مخطوطات اردو کتب خانہ رضائیہ رامپوروغیرہ ہیں نیز مولانا عرشی کو تدوین متن سے خاص شغف تھااور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے کلاسکی تدوین متن کو اپنی تحقیق کا معیار بنایاحالانکہ یہ تحقیق کا سب سے مشکل اورپیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے،جس میں ذرا سی کوتاہی سے ساری تحقیق رائگاں ہوسکتی ہے۔نیز عرشی نے مذکورہ سبھی دریافتوں کو یکجا کیااور صحیح معلومات کو مقدموں،اختلاف ِنسخ اور اشاریوں میں مندرج کیااور جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حاشیہ نگاری میں اپنی فنی اور فکری اور محققانہ قابلیت کا ثبوت دیا۔مولاناعرشی کی ان سبھی کاوشوں کا مختصراًتعارف پیش ہے:

انتخاب غالب:اس کتاب کی اشاعت 1943 مطبع قیمہ بمبئی سے ہوئی۔ یہ غالب کے اردو فارسی کلام کاوہ انتخاب ہے جو انھوں نے  1866  میں نواب کلب علی خاں کی فرمائش پر ان کی خدمت میں ارسال کیاتھا جس میں سے فارسی کلام کو تو دواوین میں شامل کر دیا گیا باقی اردو کلام کو ناقابل التفات سمجھتے ہوئے کتاب خانے کی ردی گھر میں ڈال دیا گیا تھا۔مدت دراز تک گوشہ گمنامی میں پڑے رہنے کے بعد مولانا امتیاز علی عرشی نے اس اردو کلام کو رامپور رضا لائبریری  سے دریافت کیا جواس وقت بہت بوسیدہ حالت میں تھا۔اس کے چند الفاظ ساقط ہو چکے تھے۔ نیزعرشی نے اس کتاب کی تصحیح کے لیے ’مکاتیب غالب‘ کو اپنا مآخذ بنایا اور غالب کے دوسرے نسخوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد اپنی وسعت ِمعلومات، دقت نظری اورتحقیق کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس نسخے میں بہت سی غلطیا ں راہ پا گئیں ہیں اورغالب کی تصحیح کے بعد بھی اغلاط سے پرُ ہیں۔مولانا عرشی نے 16 صفحات پر مشتمل پر مغز اور معلومات سے پر مقدمہ پیش کیا۔ اس کے آغاز میںوہ فارسی اور اردو زبانوں کے عروج اورزوال پر تبصرہ کرتے ہوئے غالب کی فارسی دانی پر ناز،ان کے ابتدائی اردو انتخاب اور آخری انتخاب کا جامع ومختصر انداز میں معلومات فراہم کی ہیں۔ علاوہ ازیں غالب کے اردو انتخاب کے صفحات، تحریر کا انچ، سطروں کی تعداد، کاغذ کی ساخت، متن کی روشنائی کے استعمال پر بڑی باریک بینی سے تفصیلات درج کی ہیں اس کے علاوہ غالب کی فارسی اور اردو شاعری پرروشنی ڈالی ہے کہ غالب کو اپنی فارسی دانی پر کس قدرناز تھا۔ وہ اردو شاعری کو تنگ خیال کرتے تھے لیکن زمانہ بڑا کارسازہے یہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ اردو نے فارسی کو دھکیلا اور اس کی جگہ پر قبضہ کیا۔ ہر بڑے استاد نے اردو میں طبع آزمائی شروع کی۔غالب کے یہاں بھی طرز بیدل کا خاتمہ ہوا۔ تو ان کا کلام اور بھی نکھر گیا۔ نیزانھیں اردو سخن گوئی میں وہ ناموری حاصل ہوئی جس کے وہ حق دار تھے۔

جیسا کہ ذکرکیا گیاہے کہ غالب کے دیگردواوین کو سامنے رکھ کر مولانا عرشی نے اس انتخاب کی تصحیح کی۔ انھوں نے کلامِ غالب کا انتخاب کرتے ہوئے غالب کے سبھی فارسی اور اردو اشعار جن میں ضرورت سے زیادہ تخیل،بے لطف تشبیہوں اور استعاروں اوریہاں تک کہ ان غزلوں کو بھی جو دوسرے اشعار کے مقابلے میں پست تھیں۔اس انتخاب سے خارج کر دیاہے۔ مولانا عرشی نے اس کتاب کو دو  حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ صفحہ ۱ سے 182 تک غالب کا فارسی کلام جس میں غزلیات، رباعیات شامل ہیں۔ دوسرا حصہ صفحہ 177 سے 182 تک انتخاب غالب اردو ہے جس میں غزلیات، قصائد، مثنوی، رباعیات کو تصحیح کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔اس کتاب کے آخر میں شرح غالب ، اختلاف نسخ فارسی، اردو فہرستیں اور اشاریے کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنی تدوین متن، ترتیب و تصحیح کے لحاظ سے بلند و اعلیٰ مقا م رکھتی ہے۔

اردو میں پشتو کا حصہ :اس کتاب کی اشاعت  1960 شاہین برقی پریس پشاور پاکستان سے ہوئی۔  ضخامت کے اعتبار سے 178 صفحات پر مبنی اس کتاب کی طباعت لیتھو ہے۔ دراصل یہ کتاب لسانیات کے موضوع سے متعلق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ مقالہ ’اردو پر پشتو کا اثر‘ مولانا عرشی نے 1946 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جشن سیمیں کے موقع پر پڑھا تھا۔ اس کتاب میں مولانا عرشی نے اپنی تمام تحقیقی و تنقیدی، فکری و فنی خوبیوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔اس میں انھوں نے اردو میں موجود،اُن تمام پشتو الفاظ پر رسائی کی ہے جس کا اردو کی تشکیل میں حصہ عربی اور فارسی سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے نیزعرشی نے اپنی اس رائے کی تائید میں مستند ماخذوں، اور حوالوں کے ساتھ اپنے دو ٹوک نظریات پیش کیے ہیںمثلاً ہندوستان اور افغانستان کا رشتہ زمانۂ  قدیم سے ایک دوسرے سے مضبوط رہا ہے۔وہاں کے باشندے مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں یہا ں آتے رہے ہیں۔ جنھوں نے یہاں سے دوبارہ جانے کا نام نہ لیا اوریہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ ان میں وہ درویش اور صوفیا بھی تھے جنھوں نے اپنے روحانی طرز عمل سے اس مٹی کو سیراب کیا اور تقریباًپورے ہندوستان میں دارالعلوم قائم کیے۔ ان میں مدت دراز تک عربی اور فارسی کی درس وتدریس کی خدمات انجام دی جاتی رہیں۔یہاں تک کہ ان تمام علوم سے بہرہ ور ہونے کے لیے افغانی طالب علم بھی یہاں آتے رہے ہیں۔نیز ان افغانی طالب علموں نے فراغت کے بعد یہیں ذریعہ معاش تلاش کیا اور آباد ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر افغانیوں نے اپنی جائے پناہ خطۂ روہیل کھنڈ (مشرقی یوپی)میں تلاش کی اور اپنی خود مختار ریاست بھی قائم کی۔ ان کی بود و باش، رہن سہن، رسم و رواج، بول چال پر براہ راست،اس زبان کا اثر پڑا جو آج بھی اپنی خاص وضع و قطع کی بنا پر جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ مولانا عرشی نے اردو زبان میں شامل 152 پشتو الفاظ کی پہچان کی جو ابھی تک روہیل کھنڈ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ 

     یہاں پر مولانا عرشی نے ان نکات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جب دیڑھ سو سالہ حکومت (مشرقی یوپی)میں پشتو کے اثرات اتنے زبردست  پیمانے پر پڑ سکتے  ہیں تو دوسر ے صوبو ں میں برسہا برس سے رہنے والے افغانیوں کے توسط سے اردو زبان پر پشتو اثرات اور بھی کثیر تعداد میں پڑے ہوں گے۔ اپنی اس رائے کی تائید میں پشتو کے ا یک انگریز عالم راورٹی کا بیان درج کرتے ہیں۔

’’یہ حقیقت ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے ایسے  الفاظ ملتے ہیں جو اردو میں بھی نظر آتے ہیں۔میں خالص پشتو اصطلاحیں سمجھنے کی طرف مائل ہوں جو بالکل اسی طر ح ریختہ میں شامل ہوکر گھل مل گئے ہیں۔ جیسے سنسکرت، عربی، فارسی وغیرہ بلکہ پرتگالی اور ملیالم کے لفظ۔‘‘  

عرشی اس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ ہمارے ماہرین لسانیات اور لغت نویس صرف عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت کو ہی اردو زبان کا پیش خیمہ بتاتے ہیں لیکن پشتو کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی۔اس کی اصل وجہ پشتو زبان سے ناواقفیت ہے۔ علاوہ ازیں عربی اور فارسی میں موجود 253  پشتو الفاظ کی طرف بھی نشاندہی کرتے ہیں جو آج بھی بگڑی ہوئی شکل میں موجود ہیں ساتھ ہی ساتھ ان پشتو کہاوتوں تذکیر و تانیث،عربی مذکر جمعوں، عربی مصادر، قدیم اردو پر پشتو کے اثر پر استدلالی انداز سے بحث کرتے ہیں۔ بلا شبہ یہ کتاب اپنی لسانیاتی صفات کی بنا پر اردو ادب کی تاریخ،مستند اور اعلیٰ کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔

 رویداد افتتاح:یہ کتاب 1941 میں ناظم پرنٹنگ پریس رامپور لطیفی پریس سے شائع ہوئی۔یہ کتاب 48 صفحات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کی پتھر کی چھپائی کی گئی ہے۔ دراصل یہ ایک روداد ہے۔ رامپور کی گذشتہ علمی و ادبی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے چند اہل ارباب قلم اور سید شبیر حسین زیدی کی رہنمائی اور اعلی حضرت نواب رضا علی خاں کے توسط سے ’رضا اکادمی ‘ کے نام سے ایک ادارہ تشکیل میں لایا گیا۔ اس ادارے کا مقصد نہ صرف تعلیم کو مخصوص علمی اداروں کے ساتھ منسلک کرنا تھا بلکہ جدید علوم و فنون کے ذریعے نوجوانوں کو ہر قسم کی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ،ان کے لیے علمی و تحقیقی راستوں کو ہموار بھی کرنا تھا۔

چنانچہ اس ادارے کو قائم کرنے کے لیے جوبلی پارک کے پرُ فضاماحول میں عمارت تعمیر کروائی گئی۔ اس کے افتتاح کے لیے ایک مجلس منعقد کی گئی۔ اس مجلس میں رامپور شہر کے ذی علم اصحاب کے علاوہ بیرون شہر کے ذی علم اساتذہ تشریف لائے۔ جن میں مولوی عبدالحق، مولانا سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر اظہر علی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر مسعودالحسن نے اکادمی کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتے ہوئے موثر انداز میں تقریر فرمائی۔

دیوان غالب: (نسخہ عرشی) : اس نسخے کی اشاعت 1958  ہندوستان پرنٹنگ ورکس رامپور سے ہوئی۔ 502 صفحات پر مشتمل یہ دیوان نسخ ٹائپ ہے۔یہ نسخہ اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے یکتاہے۔ مولانا عرشی نے اس نسخے میں غالب کے تمام مروجہ اردو کلام کو تاریخی ترتیب کے ساتھ اہل ذوق کے سامنے پیش کیا جسے بہت سراہا گیا۔دراصل اس نسخے کی بنیاد 1857 کے اُس نسخے پر رکھی گئی ہے جو غالب نے اپنے ہاتھ سے ترتیب دے کر اپنے شاگرد رامپور کے نواب یوسف علی خاں ناظم کی فرمائش پرارسال کیا تھا۔یہ نسخہ مولانا عرشی کو رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ملا۔ انھوں نے سب سے پہلے غالب کے تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام کویکجا کیا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے بعد مختلف مصادر سے استخراج کیا۔ نیز اس نسخے کو تدوین متن، ترتیب و تصحیح کے ساتھ مرتب کیا اور غالب سے متعلقہ تمام معلومات کوجو وہ اپنے کلام میں وقتاً فوقتاً کرتے رہے تھے۔ مولاناعرشی نے ان سبھی معلومات کو حواشی اور دیباچوںمیں شامل کیا۔دراصل نسخہ عرشی ایک حوالے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ نیزمولانا عرشی کی اس بہترین کارکردگی اور جی توڑ محنت کو دیکھتے ہوئے  1961 میں انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

مولانا عرشی نے اس نسخے میں بڑی تفصیل کے ساتھ غالب کی تمام اصلاحوں سے روشناس کروایاہے کہ کس طرح غالب نے تراش و خراش سے اپنی تخلیق کو زیادہ سے زیادہ پر اثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ نیز عرشی نے غالب کے اُن تمام نظریات کوجوانھوں نے شعر و سخن کے متعلق دیے تھے ایک ایک کرکے نمایاں کیا۔نیز نسخہ عرشی کو اولیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ اس میں غالب کا سارا اردو کلام مدون ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو نسخہ حمیدیہ میں شامل تھا۔اس طرح غالب کا وہ تمام کلام بھی جو مختلف بیاضوں، رسائل و اخبارات کے فائلوں اور غیر معروف  ماخذوں میں جمع تھااُسے چن کر،اس نسخے میں شامل کردیاگیا ہے۔

ترجمعۂ  مجالس رنگین :یہ کتاب مشہور ریختی گو شاعر سعادت یار خاں رنگیں  دہلوی 1251ھ؍1835 کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ  1942 رامپور کے اخبار ’ناظم‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ 62 مجالس پر مشتمل اس کتاب کو مولانا عرشی نے مقدمہ اور حواشی کے ساتھ ترتیب دیا اور ان تمام تفصیلات کو بھی درج کیا ہے جو اس کتاب کے وجود میں آنے کا سبب بنیںمثلاً۔اس کتاب کا نام ترجمہ مجالس رنگین اس لیے پڑاکیوں کہ رنگین  ایک ذہین انسان تھے۔ ان کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ شعرو شاعری میں اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ اساتذہ کے کلام کی کمیوں پر گرفت کرلیتے۔ ایک باررنگین اپنے چند احباب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ان میںمیر انشاء اﷲ خاں انشا بھی تھے کہ تبھی رنگین نے اپنی پرانی صحبتیں مزہ لے کر سنانا شروع کر دیں۔سب ان سے بہت متاثر ہوئے۔ لہٰذاان کے احباب مرزا نعیم اﷲبیگ اور میر انشاء اﷲخاں انشا کی فرمائش پر رنگین نے ان تمام صحبتوں کو نظم و نثر میں تحریر کیا اور اس کتاب کا نام’مجالس رنگین‘ رکھا۔

نادرات شاہی:از شاہ عالم ثانی : یہ فارسی، اردو، ہندی زبانوں پرمشتمل ایک دیوان ہے۔اس دیوان کی اشاعت 1944 میں ہندوستان پرنٹنگ ورکس رامپور سے ہوئی۔یہ دیوان 328 صفحات پر مبنی نسخ ٹائپ ہے جو دو رسم الخط میں تحریر کیا گیا ہے۔اس کتاب میں دیوناگری رسم الخط اوپری سطرپر اور نستعلیق نیچے کی سطر پردرج ہے۔ نیز اس کتاب میں ہندی اور اردوکا حسین ترین امتزاج پایا جاتا ہے۔اس دیوان کو نواب کلب علی خاں نے 1866 میں مرزا داغ   کے توسط سے رامپور رضا لائبریری کے لیے خریداتھا۔دراصل اس دیوان کے مصنف نادر شاہ عالم ہیں۔ان کی ولادت (1140ھ۔1728) میں ہوئی۔ بچپن سے ہی نہایت ذہین، فیاض اور سخی انسان تھے۔ان کی تعلیم و تربیت مشرقی نہج پر ہوئی تھی۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی،سنسکرت زبانوں سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ فن انشاء پردازی پر انھیں قدرت حاصل تھی۔ نیز وہ خط نستعلیق اور نسخ کے ماہراور موسیقی کے بھی حد درجہ شوقین تھے۔شاہ عالم کا پورا بچپن قید ونظر بند میں گذرا۔ جب 28 برس کو پہنچے تو عمادالملک کے توسط سے عالمگیر ثانی کے لقب سے تخت نشیں ہوئے۔ چوں کہ ان کے مزاج میں بانکپن زیادہ تھا، جسے دیکھ کربادشاہ نے عمادالملک کے ڈر سے انھیں شہر بدر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ دوران شہر بدر شاہ عالم نے مختلف تاریخی معرکے انجام دیے، جس میں کامیابی اور نا کامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور اردو زبان ترقی کے مدارج طے کر رہی تھی۔اس زبان میں بڑے بڑے اساتذہ پیدا ہورہے تھے۔ شاہ عالم نے اپنی د ل بستگی کا سامان سخن گوئی میں تلاش کیا۔ اب رات دن شعر و شاعر ی کی نشستیں ہونے لگیں۔ شاہ عالم اپنے اشعار اہل سخن کو سناتے اور ان پر رائے بھی لیتے۔ انھوں نے اپنی اس اتار چڑھاؤ کی زندگی میں کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کتابوں میں فارسی دیوان، دیوان اردو، منظوم اقدس، قصۂ شاہ شجاع الشمس اور نادرات شاہی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔

مولانا عرشی نے 62 صفحات کے ایک طویل مقدمے کا آغاز،شاہ عالم کے حالات زندگی، حسب و نسب، تعلیم و تربیت، عادات و اخلاق، ولی عہدی، تاریخی معرکہ آرائیاں، سخن گوئی، اردو کی ترقی، نسخے کی کیفیت اور شاہ عالم کی تصنیفات کو مختلف مصادر کی روشنی میں استخراج کیا۔نیزعرشی نے دلیلوںا ور حوالوں کے ساتھ تمام تفصیلات کو جامع و موثر انداز سے حواشی میں مندرج کیا۔ بہرحال یہ دیوان اپنی تدوین و تصحیح اور تاریخی لحاظ سے مستند و اعلیٰ مقام رکھتاہے۔

سلک گوہر : از انشا:اس کتاب کی اشاعت  1948  اسٹیٹ پریس رامپور سے ہوئی۔ ضخامت کے اعتبار سے 40  صفحات پرمشتمل اس کتاب کی طباعت نسخ ٹائپ ہے جو اردو کے مشہور و معروف مصنف، ریختہ گو شاعر میر انشاء اﷲخاں انشاء  (1233-1818)  کی تالیف ہے۔ وہ نہایت ذہین انسان اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے اور بہت سی زبانوں پر قدرت رکھتے تھے ان میں عربی، فارسی، اردو اور ہندی خاص تھیں۔ نیز وہ خوش خصال، خوش اطوار، خوش بیان تھے۔ نت نئے مضامین کو پیدا کرنے کی صلاحیت جو ان میں تھی وہ کسی اور کو نصیب نہیں تھی۔ نثر ہویا نظم وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ’دریائے لطافت‘، ’کہانی رانی کیتکی کی‘ ان کی بہترین کارکردگی کا بین ثبوت ہیں۔

مولانا عرشی نے ’سلک گوہر‘ کو رامپور رضالائبریری سے دریافت کیا۔اس کتاب کی طرز تحریر صنعت مہملہ(غیر منقوطہ) ہے۔ 8 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مقدمہ میں مولاناعرشی نے انشا کی دوسری بے نقط تصنیفات کاتعارف پیش کیا گیاہے۔ ان میں سے ایک بے نقط قصیدہ، بے نقط دیوان اور فارسی مثنوی ’طورالاسرار‘ کے نام سے(1214-1799)  میں تالیف ہوئی۔ انھوں نے جہاں ا س کتاب کے لطفی سبب کا تعارف کروایا ہے وہیں بے لطفی کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ نیز اس موقع سے متعلق دیگر مخطوطات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انشا نے ہندی، سنسکرت، عربی، فارسی کے بے نقط الفاظ سے زیادہ سے زیادہ مدد لی ہے اور مطالب و معانی سے جدت پیدا کی ہے اوراملا میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ کتاب غیر منقوطہ وصف کی وجہ سے آج بھی ادب میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ نیزمولاناعرشی نے فہرست مضامین کے ساتھ حواشی کو مندرج کیا ہے اور ترتیب و تصحیح کے ساتھ ایڈٹ کیا ہے۔ 

محاورات بیگمات: از رنگین: یہ کتاب مشمولہ اردو ادب، علی گڑھ، اشاعت جولائی ؍ دسمبر 1952 میں نامی پریس لکھنؤ سے ہوئی۔32 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سعادت یار خاں رنگین کے دیوان ریختی کے آخر میں عورتوں کے مخصوص محاوروں اور الفاظ کی فہرست شامل ہے۔ دراصل دیوان ریختہ کے نادرالفاظ کو خان آرزو نے کتابی شکل میں مرتب کیا۔اس کا ایک نسخے رامپور رضالائبریری میں موجود تھا۔ مولانا عرشی نے اس نسخہ کو دستیاب کیا، جس میں دس پانچ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ رنگین کی فہرست کے سارے الفاظ موجود تھے۔ لہٰذا انھوں نے نادر الفاظ اور دیوان ریختی دونوں کی تشریحات کو سامنے رکھ کر مزید تحقیقی حواشی اور اختلاف نسخ کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا۔

کہانی رانی کیتکی کی از انشا :اس کتاب کی اشاعت 1955 میں انجمن ترقی اردو (پاکستان)سے ہوئی۔ یہ کتاب نسخ ٹائپ ہے اور صفحات کی تعداد 65 ہے۔ یہ میر انشاء اﷲ خاں انشاء کی تصنیف ہے جن کا شمار ریختی گو شاعر کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ وہ نہایت ہی ذہین، بذلہ سنجی اورحاضر جوابی میں اپنا خاص مقام رکھتے تھے۔ وہ فارسی زبان کے ماہر اور ہندی کے سبک شیریں الفاظ کا استعمال بخوبی جانتے تھے۔ فارسی کے دیوان کے علاوہ دریائے لطافت،لطائف ا لسعادت، سلک گوہر اور کہانی رانی کیتکی کا شمار ان کی اہم تصانیف میں ہوتا ہے۔ مولانا عرشی کو اس کتاب کا ایک نسخہ رامپور رضالائبریری  میں دستیاب ہوا جس کو انھوں نے دوسرے خطی نسخوں کی مدد سے مرتب کیا۔

مکاتیب غالب:یہ غالب کے اردو اور فارسی خطوط کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی اوّلین اشاعت1937 مطبع قیمہ بمبئی سے ہوئی۔ اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جن کے حواشی اور مقدمے میں ترمیم و اضافے کیے گئے ہیں۔ دراصل غالب کے یہ خطوط نجی کوائف پر مبنی ہیں۔ یہ تمام خطوط غالب کے شاگرد رامپور کے نواب یوسف علی خاں اور ان کے صاحب زادے نواب کلب علی خاں اور ان کے متعلقین کے نام سے منسوب ہیں۔ غالب کے مراسلات کا سلسلہ 1857 سے 1869 کے عرصے تک رامپور کے دربار سے وابستہ رہا۔غالب کو دربار رامپور سے جولائی 1959 سے سو روپے ماہواروظیفہ ملنا شروع ہوا جو انھیں ان کی زندگی کے آخری دنوں تک ملتا رہا۔ نیز ان خطوط کا ایک بڑا ذخیرہ رامپور رضالائبریری میں محفوظ تھا۔ 1936 میں ریاست رامپور کے چیف منسٹر کرنل بشیر حسین زیدی کی اس پر نظر پڑی تو انھوں نے ان خطوط کو مرتب کروانے کا قصد کیا اور اس کام کے لیے مولانا امتیاز علی خاں عرشی کا انتخاب کیااور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی گئی۔ مولانا عرشی نے ان تمام خطوط کو رضالائبریری سے دستیاب کیا اور غالب کے دوسرے مستند ماخذوں سے مقابلہ کرتے ہوئے، تصحیح  متن کے ساتھ ان خطوط کی تمام غیر ضروری باتوں کو حذف کرنے کے بعد اس کو مرتب کیا۔مولاناعرشی نے مکاتیب غالب میں 183  صفحات پر مشتمل مقدمہ تحریر کیا۔یہ مقدمہ اتنا پرمغز ہے کہ اس پر ایک کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔اس مقدمے میں دس اہم عناوین قائم کیے گئے اورہر ایک عنوان میںغالب سے متعلق اہم تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ مقدمے کا پہلے عنوان ’ سرگذشت غالب ‘ ہے جس میں غالب کی حیات و خدمات، سوانحی کوائف، پیدائش، وفات اور مرض کا تعارف پیش کیا گیاہے۔ دوسرا عنوان ’تصانیف‘ ہے۔ اس میں غالب کی فارسی اردو کتابیں مہر نیمروز، دستنبو، نامۂ غالب، دیوان اردو، کلیات فارسی، انتخاب دیوان اردو، انتخاب دیوان فارسی کے علاوہ 15 نادر و نایا ب کتابوںکی عمیق تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ تیسرا عنوان’تلامذہ‘ ہے۔اس میںغالب کے ان تمام شاگردوں کا تذکرہ ملتا ہے جن کے نام یہ خطوط منسوب ہیں۔ مولانا عرشی’ انشائے فن ‘کے تحت انشا پر دازی پر نظر ڈالتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ غالب کو فارسی زبان و بیان کے ساتھ اردو پر بھی قدرت حاصل تھی۔ وہ انشا پر دازی میں یکتا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے خطوط میں نظم کا سامزہ ملتا ہے۔ غالب اپنے خاص طرز تحریر کے ذریعے مکتوب الیہ کا دل جیت لیتے ہیں۔ ان کے یہاں القاب و آداب کے ساتھ شکرو شکایت کے تمام اظہار کے مطالب بڑے ہی خوبصورت انداز میں ملتے ہیں۔ غالب اپنے خطوط میں تاریخ ایک انداز سے نہیں تحریر کرتے بلکہ خط کی ابتدا اوراختتام پر یا درمیان میں جہاںمرضی ہوتی تحریر کردیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں مولانا عرشی نے دیگر عناوین  کے تحت مثلاً لوازمات امارت، انگریزی تعلقات بہادر شاہ ظفر سے تعلقات، تعلقات رامپور، متعلقات انشا، طباعت خطوط وغیرہ پر متنی تنقید کے اعلی نمونے پیش کیے ہیں۔ 

نظام نامہ:یہ ایک کتابچہ ہے۔ اس کی اشاعت  1940  میں لطیفی پریس دہلی سے ہوئی۔14 صفحات پر مبنی یہ کتابچہ نسخ ٹائپ ہے۔ دراصل رامپور کا شمار علمی و ادبی حیثیت سے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی کیا جاتا تھا۔ اس لیے یہاں ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس میں قدیم طرز کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ ان ہی پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ادارے کے لیے اغراض و مقاصد، مینی فیسٹو تیار کیا گیا۔ ادارے کا نام ’رضویہ اکادمی‘ یا’ ادارئہ رضویہ‘طے پایا گیا جس میں خالص علمی جماعت، بلند پایہ مصنّفین، اہل قلم کو یکجاکیے جانے کا منصوبہ بنایا گیا اور ادارے کے ماتحت ایک ایسا شعبہ بھی قائم کرنے کا ارادہ کیا گیا جس میں تصنیفی و تالیفی اور اشاعتی پروگرام کیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں کتابخانہ اور اس میں موجود تمام کتب کی ترتیب و تنظیم و حفاظت کے لیے نگہداشت کا تعین بھی کیا گیاساتھ میں یہ بھی طے کیا گیا کہ تما م ادباو شعر اکی تصنیفات صر ف ادارے کی ملکیت رہیں گی۔بغیر اجازت یہ تحریریں ادارے سے باہر نہیں جا سکتیں۔چنانچہ رضا لائبریری میں موجود اس مینی فیسٹو کو مولانا عرشی نے بڑی سلیقہ مندی کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کروایا۔

مقالات عرشی: یہ کتاب 1971 ریڈنگ پرنٹنگ پریس لاہور سے شائع ہوئی۔ 371 صفحات پر مشتمل یہ کتاب نسخ ٹائپ ہے۔ اس کتاب کو مولانا امتیاز علی عرشی نے مرتب کیا۔ انھوں نے اس کتاب کے لیے 14 مضامین و مقالات کا انتخاب کیا جو اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے ادب میں یکتا مقام رکھتے ہیں۔ ان مضامین میں امام سفیان ثوری کے سوانح حیات اور ان کی تصانیف، صحیح مسلم کا ایک قدیم نسخہ ہندوستان میں نہج البلاغہ کا استاد، امام ابن حزم ظاہری اور ان کی کتاب ’ الانساب‘، رباعیات عمر خیام کا ایک نادر نسخہ،تاریخ محمدی اور اس کے مولف کے احوال و آثار، مولانا آصفی اور ان کی شاعری وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام مضامین مولانا عرشی کی تحقیق و تنقید، ترتیب و تصحیح کے متعلق گراں مایہ سرمایہ ہیں۔

مندرجہ بالا یہ وہ کتابیں ہیںجو شائع ہوکرعرشی صاحب کی حیات میں ہی منظرعام پر آچکی تھیں۔ان سبھی تحریروں کی کافی پذیرائی بھی ہوئی جس سے مولانا عرشی نے ادب کی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ نیز مولانا عرشی کی چند ایسی بھی غیر مطبوعہ تحریریں ہیں جو ان کی وفات کے سبب منظر عام پر نہیں آسکیں۔ان غیر مطبوعہ کتابوں کا مختصراً تعارف مندرجہ ذیل ہے :

اشاریہ اودھ کیٹلاگ: یہ کیٹلاگ ڈاکٹر الواس اشپرنگر کی مرتب کردہ کتابوں اور اشخاص کی فہرست ہے۔ اس فہرست میں اسما کتب تک کام کیا گیا ہے یہ مولانا عرشی کی مستقل علالت کے باعث مکمل نہیں ہوسکی۔

انتخاب ناظم:یہ انتخاب رامپور کے نواب یوسف علی خاں ناظم کی اردو شعر و شاعری پر مبنی ہے۔اس دیوان کی نوعیت 1865 کے کلام پر رکھی گئی ہے۔ مولانا عرشی نے اس کے مبسوط مقدمے میں نواب یوسف علی خاں کے حالات زندگی،نام و نسب اور فن شاعری پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

خطاطی کی تاریخ: مولانا عرشی کی یہ کاوش بھی ادھوری رہ گئی۔  

دیوان مومن:اردو کے مشہور و معروف شاعر حکیم مومن خاں مومن (1800-1850)  کا اردو کلام ہے۔ دراصل مولانا عرشی کویہ کلام رامپور رضالائبریر ی سے دستیاب ہوا جس کے کچھ الفاظ ساقط ہوگئے تھے۔ اب یہ طے کرنا مشکل تھا کہ یہ دیوان کن صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ کیونکہ مومن کی تخلیق کی کل کائنات صر ف دو دیوان تک محدود ہے۔ پہلا ایڈیشن شیفتہ کا اور دوسرا ایڈیشن عزیز الدین عبدالرحمٰن آسی کا تھا۔ مولانا عرشی نے ان دونوں نسخوں کا مقابلہ کیا اور تحقیق کے ذریعے پتا لگایا کہ شیفتہ ہی اس دیوان کے مالک ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیںلہٰذا اس دیوان کی ترتیب و تدوین اس نہج پر کی گئی کہ یہ دیوان شیفتہ کا تصنیف کروہ ہے۔

مختصراًاس امر سے سبھی واقف ہیں کہ تحقیق و تنقید ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔یہ نہایت دقت اور صبر طلب فن ہے جس میں ذرا سی کوتاہی محقق کی ساری محنت کو رائگان کر سکتی ہے۔مولانا عرشی تحقیق کے ان چار ستون میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس فن کو نہ صرف عروج بخشا بلکہ اس میں وسعت پیدا کی اور اپنی رائے کی تائید میں مستند ماخذوں،دلیلوں اور حوالوں کے ساتھ اپنے دو ٹوک نظریات سے متعارف کیا۔نیز مولانا عرشی کا تحریر کردہ ہر لفظ قابل ستائش ہے جس کی اپنی ہی نظیر ہے۔



Dr. Nausheen Hassan

Dept of Urdu, 

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں