27/11/20

ساحر لدھیانوی - جی ایم پٹیل

 



عبدالحئی گھر کے تمام بچوں میں اپنی منفرد سوچ، مزاج میں افسردگی اور اپنے برتاؤ کی مناسبت سے کافی نرالے تھے۔ عبد الحئی کی ’ تلخ یادوں کی پرچھائیاں ‘ ان کی ذاتی زندگی پر غالب رہیں اور عبدالحئی کی حسا س طبیعت اور وقت سے پہلے ہی زندگی کی کڑواہٹ نے انھیں کچھ سخت، تلخ اورانقلابی مزاج بنا دیا۔ والد چودھری فضل محمد جاگیردار، فرنگیوں کے طفیل میں ملیں جاگیریں،نہ محنت نہ مشقت، بس فرنگیوں کی خوشامد، عاجزی اورچاپلوسی یہی ان کا مشغلہ رہا۔ جاگیردارانہ رویہ، دولت کا گھمنڈ، عیاشی کے  نت نئے سامان، کبھی میخانوں کے رقص نے انھیں معاشرتی، سماجی اور وایتی زندگی سے کوسوں دور رکھا اور اسی خمار میں وہ ’گیارہ  سو تنیں ‘لے آئے۔ عبدالحئی اور ان کی والدہ نے جب اپنی ناراضگی، نفرت اور غصہ کا اظہار کیا تو فضل محمد نے ان دونوں کو اذیت پہنچانی شروع کردی اور جب ظلم وستم برداشت سے باہر ہوا تو عبدالحئی کی والدہ نے انصاف پانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ عبدالحئی نے عمر کے 12 سال ہی میں والدہ کو انصاف دلانے کے لیے فضل محمدکے خلاف عدالت میں گواہی دے دی۔ فضل محمد بے قابو اور اس قدر غصہ میں تھے کہ انھوں نے عبدالحئی کو جان سے مارنے کی دھمکی دے دی اور جب انھوں نے ماں کی ممتا کو للکارا تو ماں نے اپنے سارے زیورات اور رہی سہی پونجی داؤ پہ لگا دی اور عبدالحئی کی حفاظت کے لیے گارڈ تعینات کردیے۔فضل محمد کی بے رخی، ظالمانہ برتاؤ،  نہ ہی عبدالحئی اور نہ ہی والدہ کے جذبات و احساسات کی کوئی قدر و قیمت۔ بالآخرعبدالحئی نے اس جاگیردارانا روایت کو ٹھکرا دیا اور صرف اس روایت کو قبول کیا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے اور آخری دم تک اسے نبھاتے رہے۔عبدالحئی اور اس کی ماں ان کے چچا جان کے پاس رہنے لگے اور عبد ا لحئی نے اپنی تعلیم جاری رکھی        ؎

ایک   یخ  بستہ  اداسی  ہے  دل  و  جاں  پہ  محیط

اب  مری  روح  میں  باقی  نہ  امید  نہ  جوش

رہ  گیا  دب  کے گراں  بار  سلاسل  کے  تلے    

میری  درماندہ  جوانی  کی  اُمیدوں  کا  خروش   

 عبد ا لحئی کی ابتدائی بنیادی تعلیم ما لوِ یا خالصہ اسکول میں ہوئی۔ امرتا بھی اسی اسکول میں زیر تعلیم تھیں۔ عبدالحئی نے جب امرتاکو دیکھا تو امرتا کی خوبصورتی نے انھیں پاگل کردیا۔عشق کی چنگاری ان کے دل و دماغ میں سلگ گئی جس سے آہستہ آہستہ عشق و محبت کے شعلے لپکنے لگے۔ کالج کی نشاط خیز فضا،گلہائے رنگ و بو اور حسین محبوبہ کے کارواں اور عشق کے راگ الاپتے وادیٔ عشق میں پرواز کا آغاز شروع ہوا۔عبدالحئی نے ا مرتا کا پتہ ڈھونڈ لیا وہاں پہنچ گئے اور امرتا کی چاہت،اس جنون میں امرتا کی ایک جھلک کے لیے وہ بے تاب رہتے۔ جس کے لیے قریبی چائے کی دُکان میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ اپنی نظروں کو امرتا کے دیدار کے لیے متحرک رکھتے۔ بالآخر امرتا نے عبدالحئی کی محبت کے جنون اور نظروں سے جھلکتی عشق کی عبارت کو پڑھ لیا اور اب دونوں میں سُلگ گئیں عشق کی چنگاریاں۔ نزدیکیاں بڑھیں اور دونوں بے تکلف ہوئے، ملاقاتوں کے سلسلے بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان دونوں کی داستانِ عشق جب اسکول کی دیواروں پر پھلانگنے لگیںتو اس کی خبر امرتا کے والد کرتار سنگھ تک پہنچی۔ انھوں نے اسکول کے پرنسپل کی بد نظامی کے لیے انھیں خوب بھلا برا کہا اور پرنسپل سے فوراً  ایکشن لینے کو کہا اور پرنسپل نے عبدالحئی کو اسکول سے بے دخل کر دیا۔اس خطرناک حادثہ نے امرتا اور عبدالحئی کے دل و دماغ پر ایک گہری ضرب، گہری چوٹ اور گہرے عشقیہ زخم لگائے۔ عبدالحئی اور امرتا  دونوں میں عشق گہرا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امرتا نے قسم کھائی کہ وہ اپنی زندگی میں عبدالحئی کو حاصل کر کے ہی دم لے گی اور حقیقی طور سے امرتا اپنی ضد اور اپنی قسم پہ زندگی کی آخری سانس تک قائم رہیں۔ ان کے ٹوٹے، بکھرے ، مجروح جذبات نے عبدا لحئی  میں ایک نئی روح پھونک دی اور عبدالحئی اسی دور طالب علمی میں اپنی معیاری اور پختہ شاعری کا آغاز کیا۔

عبدالحئی نے کالج میں اپنا تخلص ’ ساحر‘  اختیار کر لیا ۔ ان کی تمثیل کاری، منظوم ڈرامہ نگاری، منظر کشی، فنی  مصوری، احساسات اور جذبات کی عکاسی بے مثال تھی ’پرچھائیاں ‘ یہ طویل نظم ان کی زندہ جیتی جاگتی مثال سارے عالم کے سامنے موجود ہے جو ساحر کی طالب علمی کے زمانے کی عشقیہ تخلیق کا ایک سنگِ میل ہے۔ ایک شاہکار ہے۔ پرچھائیاں مشاعروں کی جان بن گئی اور تقریبا ہر مشاعرے میں اس کی فرمائش ضرور ہوتی۔ساحر کی اسی طویل منظوم تمثیل کاری،اس داستان عشق نے اردو ادب میں ایک اعلیٰ ترین مقام پا لیا جو آج بھی برقرار ہے۔ اس طرح ساحر نے کم عمر ہی میں اپنا لوہا منوالیا اور اپنی عشق کی داستان کو امر بنادیا۔ یہ مبالغہ ہر گز نہیں۔  پرچھائیاں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ساحر نے پرچھائیاںامرتا سے اپنی محبت اپنے عشق کے نیک جذبے اور نفیس احساس کی بہترین عکاسی کی ہے       ؎

وہ   پیڑ  جن   کے  تلے  ہم   پناہ  لیتے   تھے

کھڑے  ہیں آج  بھی  ساکت کسی  امیں کی  طرح

انھیں کے سائے  میں  پھر آج  دو  دھڑکتے  دل       

خموش  ہونٹوں  سے کچھ کہنے  سننے  آئے  ہیں

 نہ  جانے کتنی کشاکش   سے کتنی  کا وِش  سے

یہ سوتے   جاگتے  لمحے    چُرا   کے   لائے   ہیں  

 یہی   فضا  تھی ،  یہی  رُت،  یہی  زمانہ   تھا

یہیں   سے  ہم  نے  محبت  کی   ابتدا  کی  تھی         دھڑکتے  دل  سے،  لرزتی   ہوئی  نگاہوں  سے   

 حضورِ   غیب    میں ننھی   سی   ا لتجا  کی تھی

 کہ آرزو  کے کنول کھل  کے  پھول  ہو جائیں    

 د ل   و   نظر کی  دعائیں  قبول   ہو جائیں 

 تصّورات  کی    پرچھائیاں    اُبھرتی    ہیں

کبھی گمان کی  صورت کبھی  یقیں کی  طرح

ساحر سے امرتا کا آغازِ عشق بھی کچھ اسی انداز سے ہوا تھا۔ دونوں ملتے رہے، روحوں میں سماتے گئے۔ جب دونوں کی داستانِ عشق مقامی لوگ گنگنانے لگے، کالج کی دیواروں پر ان کی محبت کی داستاں پھلانگنے لگی۔

 ساحر کے د ل کا سوز، خلش، چبھن اور تکلیف کا احساس ’تلخیاں‘ کے مطالعے سے ہوتا ہے کہ ساحر کس قدر حساس تھا۔ ایک معمولی سا حادثہ، معمولی چوٹ، نا انصافی اسے ہرگز برداشت نہ ہو تی اور وہ فوراََ  اپناردِ عمل ظاہر کرتا اسے کاغذ پر اتارتا اور پڑھنے والوں کو تڑپا دیتا، انھیں رلا دیتا، ان کے ضمیر کو جگادیتا۔ یہی اس کی زندگی کی تلخیاں ہیں۔اس کی تلخ یادوں کا پہلا مجموعہ ’ تلخیاں‘ شائع ہوا  جس میں تقریباً 52نظمیں شامل ہیں۔ چاہنے والوں نے، پرستاروں نے ساحر کے  مجموعۂ کلام و تلخیاں کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور جاگیر دار عبد الحئی  اب عوامی ساحر ’ساحر لد ھیانوی ‘  کا مظہر بن گئے۔تلخیاں کے کئی شمارے چھپ چکے ہیں۔ ساحر درد  و غم اور کسک کی آماجگاہ تھا جس میں مزدوروں، کسانوں اور ہر مظلوم کا درد بھرا ہوا تھا جو اسے کسی پل چین نہ دیتا           ؎

ہر ایک جسم گھائل، ہر ایک روح پیاسی

نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی، یہ دنیا ہے یا عالمِ بدحواسی

یہاں ایک کھلونا ہے انساں کی ہستی

یہ بستی ہے مردہ پرستوں کی بستی، یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی

ساحر ہی تو تھا جو دوسروں کے چوٹ لگنے سے خود مجروح بے چین ہو کر ان کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا        ؎

خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

ذرا ملک کے رہبروں کو بلاؤ

یہ کوچے، یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

 دہلی میں ساحر کو نہ  ہی دلی سکون حاصل تھا اور نہ ہی اپنے کامیاب مستقبل کی کوئی امید انھیں نظر آ رہی تھی! اسی کشمکش، اضطراب و بے چینی کے عالم میں ساحر نے اچانک ہی دہلی چھوڑ دینے کا  فیصلہ کیا۔ اپنی امی کو وہیں دہلی میں  پرکاش پنڈت کے پاس چھوڑ کر اور خود ’بمبئی ‘  پہنچ گئے اور بمبئی میں چار بنگلہ میں کرشن  چندر کے پاس رہنے لگے۔ اب ان کا رجحان بمبئی میں فلمی نغمے لکھنے کی طرف راغب ہوا اور اپنی خواہش کے مطابق اسی جدو جہد میں رہے اور  بالآخر کافی کوششوں کے بعد 1948میں ساحرکو  ’آزادی کی راہ‘ اس فلم کے لیے پہلا گیت لکھنے کا موقعہ ملا۔  نغمے کے اشعار کچھ یوں تھے          ؎

یہ اجڑی اجڑی بستیاں، یہ لوٹ کی نشانیاں

وہ اجنبی پہ اجنبی کہ ظلم کی کہانیاں

اب دکھوں کے باہر، نکل رہی ہے زندگی

بدل رہی ہے زندگی

 فلم کامیاب تو نہیں ہوئی البتہ ساحر نے جادؤئی نگری بمبئی پردستک دے دی۔دو سال بعد 1951 میں فلم ’ نوجوان ‘ کے نغمے لکھے۔ جس کے موسیقار  تھے ’برمن دادا‘۔ ساحر کے لکھے ان فلمی نغموں نے دھوم مچائی۔ نغموں کو فلمی شائقین نے بے حد پسند کیا          ؎

ٹھنڈی ہوائیں، لہرا کے آئیں

رت ہے جواں، ان کو یاہاں، کیسے بلائیں

چاند اور تارے، ہنستے نظارے

مل کے سبھی، دل میں سکھی، جادو جگائیں… ٹھنڈی ہوائیں

 ہدایت کار گرودت  اور  موسیقار  برمن  دادا کی  ’بازی‘ اور  اس کے بعد ’پیاسا‘  ان  فلموں  کے نغموں  نے  مقبولیت  کے سارے  ریکارڈ  تو ڑ  ڈالے  اور ساحراب  فلمستان بمبئی  کے  افق  کا  جگمگاتا  روشن  ستارہ  بن گیا         ؎

تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالے، تقدیر بنا لے

اپنے پہ بھروسہ ہے تو یہ داؤ لگادے، یہ داؤ لگا دے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے،

کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے

جنھیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟

یہ محلوں، یہ تختوں، یہ تاجوں کی دنیا

یہ انساں کے دشمن، سماجوں کی دنیا

یہ دولت کے بھوکے، رواجوں کی دنیا

یہ دنیا اگر، مل بھی جائے توکیا ہے

 ساحر میں تکبر نہیں تھا، اپنی  ذہانت، قلم کی جادو گری اور خود اعتمادی اس قدر کہ چشم ِ زدن میں ساحر نے فلمی دنیا پر اپنا سکہ جمالیا اور آگے آگے زمانے نے وہ دن بھی اجاگر کردیے جہاںفلمی دنیا کی ہر فلم ساحر کے حوالے سے جانی جانے لگی۔ اب  پروڈیوسر کا خواب ہوتا کہ ان کے فلم کے نغمے ساحر کے لکھے ہوئے ہوں۔ ساحر میں یہ خدا داد چیز تھی کہ محبت کے گیت لکھتا تو پیار کرنے والے دو دل دھڑک جاتے، ساتھ ساتھ چرند پر ند بھی تھرکنے لگتے۔ دکھ بھرے گیت میں فنکا ر کے ساتھ ساتھ دھرتی کا سینا کا بھی کانپ جاتا۔ اس طرح ساحر نے اپنے سینہ کی جلن اپنے دکھ دررد،اپنے احساسات کی عکاّسی کی اور ناظرین کو  مقبول ترین نغموں کی سوغات کا  نذرانہ  پیش کیا۔ ہر فلم پرستار بخوبی واقف ہے کہ معرو ف ہدایت کار اور اداکار ’راج کپور جی ‘ کی تقریباً ہر فلم کے موسیقار ’ شنکر جے کشن ‘  ہوا کرتے ہیں۔ لیکن فلم ’ پھر صبح ہوگی ‘ کے لیے محض ساحر کے اصرار پر ’موسیقار  خیام ‘ کو ترجیح دی گئی۔ محض اس لیے کہ ’موسیقار خیام ‘ نے ’ کرائیم اور پنیش منٹ ‘  ناول کو بخوبی سمجھ کر پڑھ لیا تھا  اور اسی ناول پر مبنی فلم ـ ’پھر صبح ہوگی ‘ کی کہانی تھی۔

ہندوستانی فلمیں اکثر فلمی نغموں کے وجہ سے ہی کامیاب ہوتی ہیں مگر فلموں میں صرف موسیقار کا نام ہی نمایاں ہوتا ہے، پردوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ خوددار اور انصاف پسند ساحر نے بڑی ہمت، اور دلیری سے پروڈیوسر  سے تکرار کی کہ’’ جتنی رائیلٹی کی رقم موسیقار کو ملتی ہے اس سے ایک روپیہ زیادہ نغمہ نگار کو  ملنا چاہیے ‘‘۔ سارے  پروڈیوسر  پہلے تو کافی  پریشان ہوئے، پر جب  انھوں نے غور کیا اور ان کی فلموں کی کامیابی کا  جائزہ لیا تو وہ  جان گئے کہ ان کی فلموں کی کامیابی کے روح رواں تو فلمی نغمے ہی ہیں۔ تب انھوں نے ساحر کی شرط مان لی اور یہ بھی  تسلیم کر لیا کہ  ہر فلم کے ’موسیقار‘ کے  نام کے ساتھ ساتھ  ’نغمہ نگار ‘  کا  نام  بھی  نشر  ہوگا اور چھپے گا۔ 

 بچپن میں ساحر کے ذہن پر لگی ضرب نے انھیں تلخ مزاج، افسردہ، اداس بنا دیا، ان کی  خواہشات،  ان کے ارمانوں کو مانوس کردیا۔ احسا سِ کمتری اس قدر کہ ہر  مثبت سوچ میں منفی کو  ترجیح دینا ان کی فطرت میں شامل ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مارے خوف کے وہ ٹرین یا ہوائی جہاز سے سفر کرنا ٹالتے اور صرف  کار  ہی سے سفر کرنا پسند کرتے اور اپنے ساتھ ایک دوسری کار بھی رکھ  لیتے  تاکہ ایک کار میں بگاڑ آجائے تو اس  اضافی کار سے  ان کا سفر مسلسل جاری   رہے۔ ساحرشراب کے عادی بالکل بھی نہیں تھے۔ لیکن جب انھیں ’  لو  بلڈ پریشر ‘کی شکایت ہوئی تو خود  ڈاکٹر نے کچھ الکحل لینے کی اجازت انہیں دے دی۔ انھوں نے بطور  دوا  الکحل پینا شروع کیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ساحر الکحل کے اس قدر عادی ہوئے کہ بعد ازاں  شراب نے ساحر کو پینا شروع کردیا۔ ساحر کو کی نایاب تخلیق  ’کبھی کبھی‘  نے سارے عالم میں  اور کم عرصہ میں اپنی  مقبولیت کی تمام  بلندیوں کو چھو لیا          ؎

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آیا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو، شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی، جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں، کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم ہوکر

ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں

انہی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی

ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں

گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے

کہ تو نہیں ترا غم نہیں، تیری جستجو بھی نہیں

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے

اسے کسی سہارے کی آرزو بھی نہیں

نہ کوئی جادہ، نہ منزل نہ روشنی کا سراغ

بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری

انھیں خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھوکر

میں جانتا ہوں مری ہم نفس، مگر یوں ہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

 ساحر بمبئی میں اور امرتا پریتم دہلی میں مقیم تھیں۔ ساحر امرتا کی ملاقات کے لیے کئی دفعہ دہلی پہنچ کر دونوںکی طالبِ علمی میں ہوئی پہلی محبت کی یادوں کو آباد  و  شاداب رکھتے اور اپنی طویل نظم ’پرچھائیاں‘ میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ امرتا پریتم  ایک پنجابی خاتون نے بڑی بے باکی و دلیری سے ساحر سے اپنے بے لوث، لافانی اور روحانی عشق کو سارے زمانے  کے سامنے اپنی نظم  سنہڑے ‘  اور ’رسیدی ٹکٹ ‘  میں عام کر دیا۔ امرتا کی  داستان ِ عشق میں  ’دہرہ دون کے ایک مشاعرے کے کچھ طربیہ لمحات کا ذکر کافی رومانی ہے۔ جب پریتم کو پتہ چلا کہ اس کے دل کی دھڑکن ساحر بھی اس میں مدعو ہے تو بس وہ مخبوط الحواس ہوئیں۔ موسم کی پرواہ کیے بغیر اس گاؤں پہنچ گئیں اور مشاعرے میں جب ساحرکو اپنے روبرو دیکھا تو بس دیکھتی ہی رہ گئیں۔ مشاعرے کے بعد امرتا اور ساحر دونوں نے قریب 5 کلو میٹر کا فاصلہ ایک ساتھ پیدل طے کیا۔ امرتا نے ساحر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیااور رب سے فریاد کرتی رہی کہ یوں ہی ساحر کا ساتھ رہے اور اسی چہل قدمی میں ساری عمر بیت جائے۔اب خود امرتا کی زبانی بھی عشقیہ کلام حاضر ہے جو ساحر کی سوانح کا اہم جزو بھی ہے۔   ’’جب کبھی ساحر ، مجھ سے ملنے گھر آتا تو جیسے میری ہی خاموشی سے نکلا خاموشی کا ایک ٹکڑا میرے سامنے کرسی پر بیٹھ کر چپ چاپ سگریٹ کے کش پہ کش لگاتا، آدھی سگریٹ کو بجھا کر راکھ دانی میں رکھ دیتا اور جب میں تنہا ہوتی اور عشق کی آگ سینے میں سلگتی تو سگریٹ کے ان ٹکڑوں کو الماری سے نکال کر اپنی انگلیوں سے چھو لیتی تو بس ساحر کی انگلیوں کا لمس مجھ میں روحانی مسرت کا احساس ہوجاتا۔ یہیں سے میں سگریٹ نوشی کی عادی ہوگئی۔ ’’ ایک دن ساحر تھکا تھکایا  میرے گھر دہلی پہنچ گیا۔ میں نے جب اس کے ماتھے کو چھوا تو اسے تیز بخار تھا۔ اس کے گلے میں خشکی، سانسوں میں کھنچاؤ کی کیفیت۔  اس روز میں پیروں پر کھڑی،  پوروں سے،  انگلیوں اور، ہتھیلیوں سے اس کے چھاتی اور گلے پر  وِکس  ملتی رہی اور رب سے فریاد کرتی رہی۔   ’اسی کیف میں گُم، اسی حالت میں میری زندگی تمام ہو جائے ‘‘   ’’ 1946  میں جب میرا بیٹا میرے جسم کی آس بنا تھا۔تب میں نے اپنے خیالات اور اپنے تصّور میں ساحر کے چہرے کو بسا ئے رکھا، جسے زندگی میں نہ پاسکی۔ اسے خوابوں میں پالینے کی ایک کرشمہ ساز کوشش،جسم کا ایک آزادانہ عمل صرف روایت ہی سے نہیں خون اور نسل کی گرفت سے بھی رہائی۔ جب3 جولائی 1947 میں بچے کا جنم ہوا اور جب پہلی بار میں نے اس کی شکل دیکھی تو اپنی خلاقی پر یقین ہوا اور بچے کے واضح ہوتے ہوئے خد و خال کے ساتھ اپنا تصور واقعی ساحر کا متشکل ہوتا نظر پڑا  اور میرے بیٹے کی کی صورت سچ مچ ساحر سے ملتی تھی ‘‘

 ’’  جب مجھے  پتہ چلا کہ ساحردہلی آیا ہے۔ ساحر سے ملاقات کے لیے میں امروز کے ہمراہ  اس ہوٹل پہنچ گئی جہاں ساحررکا ہوا تھا۔گپ شپ بحث کے بعد ٹیبل پر تین گلاس میں شراب چھلک گئی، نہ میں نے اور نہ ہی امروزنے،بس ساحر اکیلا ہی پیتا رہا۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں وہاں واپس گھر نکل گئے۔ آدھی رات قریب 12 بجے ساحر نے مجھے فون کیا۔ساحر نے اپنی اس تنہائی  میں لکھی نظم مجھے سنائی         ؎

محفل  سے اُٹھ جانے والو، تم لوگوں پر کیا  الزام  

  تم آبا د گھروں کے باسی،  میں  آوارہ اور  بد نام                                 

   تم  دنیا کو  بہتر سمجھے،  میں  پاگل  تھا  خوار  ہوا

تم کو  اپنانے  نکلا  تھا،  خود  سے بھی  بیزا ر  ہوا 

دیکھ لیا گھر پھونک تماشہ، دیکھ لیا اپنا انجام

میرے ساتھی، خالی جام

فلم فیئر ایوارڈ  یافتہ نظم ’تاج محل‘  کو ساحر نے ایک تحفے کی صورت  مجھے عطا کیا۔میں نے انمول تحفہ کو ہمیشہ اپنے  سینے سے لگا ئے محفوظ رکھا         ؎

اَن گنت  لو گوں  نے  دُنیا  میں  محبت کی  ہے

کون کہتا  ہے کہ  صادق  نہ تھے  جذبے  ان  کے  

لیکن  ان  کے   لیے تشہیر کا  سامان  نہیں

کیونکہ وہ  لوگ بھی  میری  ہی  طرح مفلس    تھے

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار، یہ محراب یہ تاک

ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

اعزازات :  1970 گولڈ میڈل گورنمنٹ کاجج لدھیانہ، 1970 میں مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ، 1071 میں پدم شری، 1972 سویت لینڈ نہرو ایوارڈ

 فلمی ایوارڈس   :1959تاج محل، 1964،سادھنا (عورت نے جنم دیا مردوں کو)،1977 کبھی کبھی ۔

 ہند و پاک جنگ کے بعد 1972میں ہمارے نوجوانوں نے کچھ فوجی چوکیوں کے نام ساحر کے نام پر رکھے۔  ساحر کی  ’ پنڈت نہرو ‘  پر لکھی نظم کو سِٹی پارک کرنال میں نصب کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کے مجسمہ کے نیچے ان کی وصیت کے ساتھ کندہ کیا گیا۔ سینا سیوا کورپس کے لیے  ’ترانہ ‘  ساحر لدھیانوی  نے لکھا۔  سول لائن لدھیانہ میں ایک سڑک کا نام  1975میں ’ساحر روڈ ‘ رکھا گیا۔

تصانیف: تلخیاں، پرچھائیاں، گاتا جائے بنجارا (گیتوں کا مجموعہ) آؤ کہ خواب بنیں، نظموں کا مجموعہ

25؍ اکتوبر کا وہ دن بھی آگیا جب  ان کی بہن انور سلطانہ ساحر کو ڈاکٹر کپور کے یہاں لے گئیں۔ اس وقت ساحر اچھے خاصے تھے۔

 ڈاکٹر سے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ان کا سر ڈھلک گیا اور وہ خاموش  ہوگئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اس طرح  چشمِ زدن میں ایک ادبی  روشن ستارہ  ٹوٹ گیا آسماں سے۔ ساحر کے لاکھوں پرستاروں، شیدائیوں اور اس کے چاہنے والوں نے نم آلود آنکھوں سے ساحر کو  الوداع کہا۔

سارے ماحول میں ساحر کا مقبول ترین نغمہ گونج اُٹھا    ؎

میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے

کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمے گا کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

کل تم سے جدا ہو جاؤں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں

کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے

مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے

Dr. G M Patel

B5/402,  Bramha Majestic, NIBM Road

Kondhwa Khurd

Pune - 4110048 (MS)

Mob.: 9822 031 031



 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں