27/11/20

اردو رسم الخط - مضمون نگار: ریاض احمد

 



اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔ اس کو ہندوستانی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسی ملک میں پیدا ہوئی او ریہیں پھلی پھولی ہے۔ لفظ ـ’اردو‘ ترکی زبا ن کاا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ اس کا ڈھانچہ تیار کرنے میں کھڑی بولی نے سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔ اُردو کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لیے عربی فارسی حروف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اُردو کا رسمِ خط عربی اور فارسی ہے بلکہ عربی فارسی کی توسیع شدہ شکل ہے۔ اردو جنوبی ایشیا کی وہ زبان ہے جسے لکھنے پڑھنے کے لیے عربی نظامِ ہجا استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جو خط نسخ اور تعلیق سے وجود پذیر ہوا ہے۔ خط تعلیق کا جہاں تک سوال ہے اس کو حسن بن حسین علی فارسی نے فروغ دیا۔اس نے خط رقاع اور خط توقیع سے ایک نیا خط بنایا۔ یہ سرکاری مراسلت کے لیے استعمال ہونے لگا۔خط تعلیق اور خط نسخ کے ملاپ سے ایک تیسرا رنگ ابھر آیا جسے نستعلیق کہا گیا۔اس نے کافی مقبولیت حاصل کی۔خواجہ ابوالمعالی بک نے خط تعلیق میں انقلابی اصلاحات کی۔ انھوں نے فارسی کی مخصوص آواز( پ، چ،گ) کے لیے حروف ایجاد کیے اور اس مقصد کے لیے تین تین نقطے وضع کیے۔ابتدا میں گ پر بھی دو لکیروں کے بجائے تین نقطے لگائے جاتے تھے۔لیکن لسانی اور جمالیاتی ذوق سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث اسے ترک کردیا گیا اور اس کی جگہ دو لکیروں کا استعمال شروع ہوا۔ حافظ یوسف سدیدی نے یاقوت ( پورا نام یاقوت بن عبداللہ الرومی المعتصمی) کو خط تعلیق کا موجد قرار دیا، محمد سجاد مرزا نے خط تعلیق کا اجرا چوتھی صدی ہجری (1000) اور پروفیسر شیخ عنایت اللہ نے ایم ایس ڈیمنڈ کے حوالے سے تیرہویں صدی عیسوی قرار دیا ہے۔محتاط تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اجرا پانچویں صدی ہجری (1107)   میں ہوا۔  

خط نستعلیق نے امیر تیمور کے دور میں ترقی کی۔ مشہور خطاط سید میر علی تبریزی نے خط نسخ اور تعلیق کی آمیزش سے خط نستعلیق ایجاد کیا۔اس خط کے اساتذہ میں میر فریدالدین،جعفر تبریزی،سلطان علی مشہدی، میر علی ہروی، میر عمادالحسنی، حافط نورانہ، صوفی خورشید عالم اقبال،  ابن پروین اور میر پنجہ کش رقم مشہور ہیں۔ شیخ ممتاز حسین جونپوری، ڈاکٹر شیرین بیانی کے نزدیک نستعلیق کے رواج پانے کا زمانہ ساتویں صدی ہجری ہے۔ محمد سجاد مرزا کے نزدیک اس کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری کا ابتدائی دور ہے۔ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اور محمد اسحق صدیقی نے آٹھویں صدی، قیصرانی نے تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی اور پروفیسر شیخ عنایت اللہ نے پندرھویں صدی عیسوی کو ابتدائی دور قرار دیا ہے۔خط نستعلیق میں حروف کے دائرے گول ہوتے ہیں۔جس سے تحریر میں حسن اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔بارھویں صدی کے اوائل میں مرتضی خان شاملو نے خط نستعلیق سے ایک اور خط اخذکیا جسے خط شکستہ کا نام دیا گیا۔ 

 اردو میںفارسی،عربی، ہندی، ترکی اور دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ فارسی حروف میں ٹ، ڈ، اور ڑ کے اضافے سے یہ تعداد 36بن گئی ہے۔ ہمزہ کو شامل کرنے سے 37 ہو جاتی ہے۔ انشاء اللہ خان نے اُردو حروفِ تہجی کی تعداد 85 بتائی ہے۔ پنڈت برج موہن دتاتریاکیفی کے نزدیک حروفِ تہجی کی تعداد47ہے۔ مولوی عبدالحق نے قواعد اُردومیں حروف کی تعداد 36 کے بجائے 50  بتائی ہے کیونکہ انھوں نے ہکاری آوازوں کو بھی حروف گردانا ہے۔ان میں ث، ح، ص،ط،ظ، ع، ق عربی زبان کے حروف ہیں۔ خ، ذ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں ہیں۔ اردو میں نسخ اور نستعلیق میں مقامی مزاج داخل ہونے کی وجہ سے ان کا اسلوب فارسی سے مختلف ہو گیا۔  درحقیقت یہی وہ اسلوب ہے جسے ہم اردو رسم الخط کہتے ہیں۔ اردو کے املا کے مسائل میں اہم مسئلہ یہ گردانا جاتاہے کہ دس مصوتوںکے لیے صرف تین علا متیں یعنی الف‘،’واو ‘اور ’ی ‘ہے۔جو کہ اس طرح سے ہیں:اَ،اِ،اُ،آ،اے،ای،ا و،اوٗ،اَے،اَو۔مصلحینِ زبان اس بارے میں کہتے ہیں کہ زیر،زبر،پیش چونکہ عملاََ استعمال نہیں کیے جاتے ہیں،  اس لیے زبان سیکھنے والے نئے قارئین کے لیے دقت کھڑی ہو جاتی ہے۔چنانچہ حروف کے اوپر نیچے لگنے والی علامتوں کو ختم کرکے ہر مصوتے کو ایک الگ حرف کی شکل دے دی جائے جیسا کہ انگریزی یا رومن حروف میں لکھی جانے والی دیگر زبانوں میں ہوتا ہے۔اس پر اب زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اردو کے حروف کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔کبھی پورا یا آدھا حرف لکھا جاتا ہے تو کبھی اس کا چہرہ۔اس طرح الفاظ کی لکھائی سیکھنا، سکھانا مشکل ہے۔ اس مسئلے پر اگر غور کیا جائے تو یہ بذاتِ خود ایک علمی غلطی ہے جو کہ زبان کا نہیں بلکہ قاری کا معاملہ ہے۔اردوکا دائیں سے بائیں لکھنا بھی کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا ہے یعنی کہ وہ دیوناگری رسم الخط کی وکالت کرتے رہتے ہیں جو کہ اردو کی شبیہ بگاڑنے کے لیے ایک سازش سے کم نہیں۔بعض حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ’مہینہ ‘یا ’تھانہ ‘جیسے الفاظ کے آخر میں’ ہ‘ نہیں بلکہ’ الف‘ آنا چاہیے کیونکہ یہ ہندی میں الف سے لکھے جاتے ہیں۔ یہ اعتراض نیا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے بھی اس پراعتراض جتایا تھا لیکن کسی نے کان نہ دھرا اور وہ الفاظ صدیوں سے ویسے ہی لکھے جاتے ہیں۔اس حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہر زندہ زبان روایت،چلن اور رواج پر چلا کرتی ہے،نہ کہ چند افراد کے ایک کمرے میں بیٹھ کر احکامات صادر کرنے سے۔

جب مسلمانوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی تو وہ اپنے ساتھ فارسی لائے۔ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔ہندی کی مخصوص آوازیں مثلاً ( ٹ، ڈ، ڑ، بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ،کھ، گھ وغیرہ ) کو ادا کرنے کے لیے حروف موجود نہیں تھے۔اردو چونکہ ان تینوں زبانوں کے مرکب سے پیدا ہوئی لہٰذا ضروری تھا کہ ان تینوں زبانوں کی آوازیں ادا کرنے کے لیے علامتیں موجود ہوں۔ فارسی حروف میں شکلوں کی قبیلہ وار تقسیم سے فائدہ اٹھا کر دو نئے نشانات وضع کیے گئے جن کے ذریعے ہندی مخصوص آوازوں کے ادا کرنے کے لیے نئے حرف بنانا ممکن ہو گیا۔ 1857 تک کی تحریروں میں (ٹ ) اور (ڈ) اس طرح لکھتے تھے کہ ان کے اوپر چار نقطے ڈال دیتے تھے۔بعد میں (ط) کی علامت کو بطور نقطہ استعمال کرنے لگے۔ھ کی علامت سے بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ،دھ، ڈھ، ڑھ،کھ، گھ، لھ بنالیے گئے۔ فارسی، اردو، پنجابی، بلوچی،سرائیکی اور براہوی نے نستعلیق اپنایا۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے اس کو چار چاند لگائے۔جب کہ نستعلیق میں  پنجابی، بلوچی، سرائیکی، بروہی اور اردو لکھی جاتی ہے۔

ہائیہ آوازوں والی تحریری شکلوں مثلاً پھ، بھ، تھ، دھ، کھ،گھ وغیرہ کو مفرد حروف کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ حروف کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔ لسانیات کی رو سے’’  حرفــ‘‘سب سے چھوٹی تحریری اکائی ہوتی ہے جس کے مزید ٹکڑے نہیں کیے جاسکتے۔اب اس تحریری اکائی کو لسانیاتی اصطلاح میں ـ’ ترسیمیہ‘ کہتے ہیں۔ مثلاً ب ت پ ج گ وغیرہ۔مخلوط حروف مثلاََ پھ، بھ، تھ، جھ، دھ، کھ وغیرہ کو حروف یا سب سے چھوٹی تحریری اکائی ترسیمیہ کا درجہ اس لیے نہیں دیا جاسکتا کہ ان کی تشکیل دو تحریری عناصر  پ +  ھ=پھ یا۔  د+ھ=دھ کی ترکیب سے عمل میںآتی ہے،  اس لیے انھیں حروف تہجی میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمزہ بھی اُردو میں حروفِ تہجی نہیں ہے بلکہ محض ایک تحریری علامت ہے جس کا استعمال مصوتی تسلسل کے لیے کیا جاتا ہے بہ استثنائے ہمزہ اُردو حروف تہجی کی کل تعداد  36ہے بعض لوگوں نے ہمزہ کو بھی حرف جانا ہے۔ ان کے نزدیک 37حروف تہجی ہیں۔ عربی حروف تہجی کی کل تعداد 28 ہے۔ اُردو کے حروف تہجی میں 28 عربی کے، چار فارسی کے اور چار نئے حروف جو خود اُردو میں وضع کیے گئے ہیں یعنی کل 36 حروف وضع کیے گئے ہیں۔اُردو میں جو چار حروف وضع کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: ٹ، ڈ، ڑ، ے۔ اُر دو رسم الخط نے اعراب وعلامات جیسے زیر، زبر، پیش، مد،اُلٹا پیش، ہمزہ، تشدید اور جزم وغیرہ عربی و فارسی سے مستعار لیے ہیں۔ اور تحریری نظام میں تنوین جیسے مثلاً، فور اورالف مقصورہ جیسے عیسیٰ الف وصل جیسے دارالحکومت، کسرائِ اضافت مثلاً محفل اور واوِ معدولہ جیسے خوش وغیرہ عربی فارسی رسم الخط سے مستعار لے گئے ہیں۔ اُردو کا طرز تحریر اور اندازِ کتابت نستعلیق کہلاتا ہے۔ اس خطِ نستعلیق کا ارتقا ایران میں ہوا تھا۔ خواجہ میر علی تبریزی نے ایران میںعربی کے دو رسومِ خط نسخ اور تعلیق کو ملا کر ایک نیا رسمِ خط ایجاد کیا جو نستعلیق کہلایا۔اُردو کے لیے آج یہی رسمِ خط مشہور ہے اور آج یہ اُردو کا اپنا رسمِ خط بن گیا ہے۔ اُردو کا صوتی نظام مختلف زبانوں سے آئی ہوئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے اسی وجہ سے اس میں صرف ہندی نژاد آوازوںکی تعداد زیادہ ہے۔ مثلاََ ٹ، ڈ، ڑ،بھ، تھ،دھ وغیرہ۔اُردو میں خالص ہند آریائی یا ہندی الاصل آوازیں خالص عربی آوازیں خالص فارسی آوازیں اور دو یا تین زبانوں کی مشترک آوازیں موجود ہیں۔ اُردو میں ہندی نژاد آوازوں کے علاوہ عربی و فارسی کی چھ آوازیں بھی ہیں جو یہ ہیں ف،ز،ژ، خ، غ،ق۔ اُردو رسم الخط میں ذ،ض، ظ کے لیے ز اور ث،ص کے لیے س اور ح کے لیے ہ اور ط کے لیے ت کی آوازیں مقرر کی گیٔ ہیں۔

 مسعود حسین خان ز، ض، ظ، ث،ص، ح اورط کو زائد حروف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صوتی نقطہ نظر سے یہ سب مردہ لاشیں ہیں جن کو اُردو رسم الخط نے اُٹھا رکھا ہے۔ ان کو اُٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلق عربی و فارسی سے ثابت رہے۔ اُردو میں عربی الفاظ براہِ راست عربی زبان سے داخل نہیں ہوئے بلکہ فارسی کے ذریعے اُردو میں آئے ہیں۔اُردو نے ان کو اپنے صوتی آہنگ کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اردو  میں استعمال ہونے والی تمام ضمیریں سنسکرت اورپراکرت سے لی گئی ہیں۔اُردو کے تمام افعال بھی ہندی الاصل ہیں ضمائر کی طرح۔ اُردو کے بنیادی حروف کی تعداد ایک جگہ18 قرار دی گئی ہے۔ اُردو رسم خط میں ایک حرف جب دوسرے حرف کے ساتھ جوڑ کر لکھا جاتا ہے، تو اس کی شکل قدرے تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس حرف کی اس تبدیل شدہ شکل کو ترکیبی شکل کہتے ہیں۔لسانیاتی اصطلاح میں حروف کی تبدیل ہوئی شکل کو  ’زہلی ترسیمیہ ‘ کہا جاتا ہے۔ اُردو کے تقریباً سارے حروف ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر لکھے جاتے ہیں اور اپنی ترکیبی شکلیں یعنی بدلی ہوئی شکلیں وضع کر سکتے ہیں۔ لیکن صرف 9 حروف ایسے ہیں جو اپنے بعد کسی دوسرے کے ساتھ  ملا کر لکھے نہیں جاتے۔ وہ 9 حروف یہ ہیں   ا  د  ڈ  ذ  ر  ڑ  ز  ژ  و۔ اُردو رسم الخط میں اعراب و علامات کی حیثیت ثانوی ہے۔ اعراب و علامات ایک قسم کے مختصر تحریری نشانات ہوتے ہیں۔اُردو رسم الخط میں اعراب و علامات مصوتی، مصمتی، غنائی اور قواعدی کردار ادا کرتے ہیں اور اعراب و علامات کی گروہ بندی  1  مصوتی  2  مصمتی 3  غنائی اور  4 اضافی علامات کے طور پر کی گیٔ ہے۔ اُردو رسم الخط میں بنیادی حیثیت حروف اور ان کی ترکیبی شکلوں یا ذیلی حروف کو حاصل ہے۔

الف:  مصوتی علامات  :  مصوتی علامات مصوتی خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا استعمال مصوتوں اور مصمتوں کی نمائندگی کرنے والے حروف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مصوتی علامات کی تعداد 9 ہے  1  زیر  2  زبر  3 پیش  4   مد5 کھڑا زیر  6  اُلٹا پیش  7کھڑا زبر 8 اُلٹا جزم  اور  9   ہمزہ۔

ب: مصمتی علامات:مصمتی علامات مصمتی خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہیں جن کا استعمال مصمتوں کی نمائندگی کرنے والے حروف کے ساتھ ہوتا ہے۔ مصمتی علامات چار ہوتے ہیں۔  1  تشدید  2  دوچشمی  3  جزم 4  تنوین۔

 ج: غنائی علامات:  غنائی علامات وہ علامات ہیں جو غنہ کو ظاہر کرتی ہیں۔ اُردو رسم الخط میں غنہ کو ظاہر کرنے کے لیے دو علامتیں رائج ہیں:  1۔نون غنہ 2۔  اُلٹا قوس۔

 د :  اضافی علامات :   اضافی علامات سے  کا،  کی،  کے  کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اضافی علامات تین ہیں:

1  زیر 2  ہمزہ  3  بڑی ے (یاے مجہول)

مولانا سید احمد دہلوی کے مطابق اُردو کے ساڑھے پانچ لاکھ الفاظ میں تین چوتھائی الفاظ سنسکرت الاصل ہیں۔  دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی وجہ سے اُردو کے تلفظ  اور املا میں کچھ مسائل بھی ضرور پیدا ہوئے ہیں جن کی بنا پر بعض دانشوروں نے اُردو کے رومن یا دیو ناگری رسم الخط میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ راہی معصوم رضا نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’  اُردو آئندہ پچاس برسوں کی مہمان ہے لہٰذا اُردو  والوں کو چاہیے کہ جتنی جلد ممکن ہو وہ اُردو کے سرمائے کو دیو ناگری رسم الخط میں منتقل کر دیں۔ ’’ علی سردار جعفری اور عصمت چغتائی نے بھی اُردو کے لیے دیوناگری رسم الخط کا مشورہ دیا ہے۔ان دانشوروں  نے کہا کہ اس رسم الخط کو اپنانا چاہیے جس سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکے۔ حاصل کلام یہ کہ اُردو زبان میں  کچھ کمیاں ضرور ہو سکتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے اُردو سرمائے رومن یا دیو نگری رسم الخط میں منتقل کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔

ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اُردو کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اپنا لسانی عمل ہے، اپنے ارتقائی مدارج ہیں اور اپنے قواعد اور اپنا رسم الخط بھی ہے، لغت ہے، صوتی نظام ہے۔ہیئت و تشکیل  کے اپنے اصول ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں جنھوں نے مل کر  اُردو کی انفرادیت کو سنوارا اور نکھارا ہے۔ق  ف  ز  خ  غ حروف صحیح اُردو کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بنیادی حیثیت نہیں رکھتے۔ حاضر ضمیر کی واحد شکل میں اُردو میں تین ذیلی ضمیریں استعمال ہوتی ہیں جو دوسری کسی زبان میں نہیں ہیں۔ اُردو رسم الخط میں لفظوں کے انتخاب میں بڑی گنجائش ہے مثلاً مہہ ،  مہتاب ،   قمر ،  چاند ،  بازار،  دولت ،  روپیہ ،  پیسہ وغیرہ۔ اردو رسم الخط یا اُردو زبان میں (اَت) کا  لاحقہ بھی استعمال ہوتا ہے  جس کا رواج کسی دوسری زبان یا رسم الخط میں نہیں ملتا۔ مثلاً جذبہ سے جذبات،  مشکل سے مشکلات وغیرہ۔ اُردو رسم الخط اور اُردو زبان میں ایسے محاوروں کی تعداد بکثرت ہے جو صفت کو ملا کر بنائے گئے ہیں۔ مثلاََ منہ بنانا، منہ مارنا وغیرہ۔ اُردو رسم الخط میں نسبت کا لاحقہ (ای) ہے۔ اگر لفظ حروف علت پر ختم ہوتا ہو تو (ای) کے بجاے (وی) لا حقہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاًلکھنؤ سے لکھنوی،  دہلی سے دہلوی وغیرہ۔ اُردو رسم الخط نے فرہنگ کی سطح پر عربی و فارسی سے جتنا استفادہ کیا ہے، اتنا اور کسی نے نہیں کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 35 فیصد الفاظ اُردو رسم الخط میں عربی فارسی انگریزی وپشتو زبانوں کے ہیں۔دوسری زبانوں کے مقابلے میں یہ ایک ریکارڈ بھی ہے۔ اُردو اپنے اسالیب، لب و لہجہ، انتخاب الفاظ اور مختلف لسانی و ادبی اقدار کے لحاظ سے تین رجحان میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے رجحان میں عربی و فارسی الفاظ اور تراکیب و تلمیحات میں آتی ہیں۔ دوسرے رجحان میں دیسی سادگی اور سلاست ہے۔ تیسرے رجحان کو انگریزی رجحان کہا جاسکتا ہے۔ جہاں حقیقت پسندی ہے۔

اُردو زبان کی موجودہ خامیوں کے باوجود اُردو رسم الخط کے بدلنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ کیونکہ رسم خط کے بدلنے کے معنی ہیں اپنے ماضی اور اس کی روایتوں سے بے تعلق ہوجانا۔ رسم خط زبان کا نہ صرف خوبصورت لباس ہے بلکہ یہ زبان کی روح بھی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے مطابق کوئی زبان بغیر رسم خط کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُردو بھی اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اُس کا رسم خط زندہ رہے گا۔ تمدن کی تاریخ دنیا کے ہر رسم الخط کے پیچھے ہوتی ہے۔ یا اس طرح کہیں کہ ہر رسم الخط کے پیچھے اُس کے تمدن کی تاریخ ہوتی ہے۔


Reyaz Ahmad

Research Scholar, Dept of Urdu

O.P.J.S University

Churu - 331303 (Rajasthan)

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں