1/12/20

شاہ تراب علی قلندر کی اصلاحی شاعری- مضمون نگار: جاوید احسن

 



حضرت شاہ تراب علی قلندر کاکوروی قدس سرہ (ولادت1768-وفات 1858 ) خانقاہ کاظمیہ کے بانی حضرت شاہ محمد کاظم قلندر کاکورویؒ کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ کا شمار اپنے دور کے نامور عالم، درویش، فقیہ، مورخ، شاعر، خدا ترس،حق شناس اور خدا پرست صوفیوں میں ہوتا ہے۔ آپ ہر طرح کے علم معقولات و منقولات سے بہرہ مند تھے۔ ابتدائی کتابیں مُلّا قدرت اللہ بلگرامی، مولوی معین الدین بنگالی اورملا حمید الدین محدث کاکوروی سے پڑھیں۔فن عروض قاضی القضاۃ نجم الدین علی خاں بہادر ثاقب کاکوروی اور فقہ کی تعلیم مولوی فضل اللہ ساکن نیوتنی سے حاصل کی۔ آپ نے جس مقدس و پاکیزہ ما حول میں آنکھیںکھولیں وہاں پہلے سے ہی علم و معرفت کی مستحکم روایت موجود تھی۔آپ کے والد ماجد نے بیٹے کی استعداد کو بڑھانے کے لیے خود تصوف کی تعلیم دی۔نو عمری میں ہی تیسیرالاحکام، زادالآخرت، منہاج العابدین، کیمیائے سعادت اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تصانیف کو بخوبی پڑھایا۔ حضرت تراب بچپن سے ہی شریعت، طریقت، تزکیۂ نفس تجلیہ روح کے اہم مشاغل میں مصروف ہوگئے۔ بارہ سال کی عمر میں افکار کی مشق،اور پندرہ سال کی عمر میں تلقین و ارشاد کے مراتب کو حاصل کیا،اگرچہ تعلیم و تربیت آپ کے والد نے فرمائی لیکن آپ نے شاہ مسعود علی قلندر (الہ آباد)سے بیعت کی اور انھوں نے ہی آپ کو اجازت بیعت و خلافت عطا کی۔

سترہ سال کی عمر میں آپ کی شادی محمد عوض چکلہ  دار علوی کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوگئی۔والدنے شرع کے مطابق دعا دی کہ ’’اللہ تعالیٰ تم کو  فوائد نکاح سے      منتفع فرمائے اور اس کے ضرر سے محفوظ رکھے ‘‘ آپ سے دو صاحبزادے مولانا شاہ حیدر علی قلندر، حضرت مولانا شاہ تقی علی قلندر اورایک لڑکی پیدا ہوئی۔

شاہ تراب علی قلندر کا علمی و ادبی پایہ نہایت ہی بلند ہے۔ انھوں نے نثر ونظم دونوں میدانوں میں اپنی گراں قدرصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی ادبی کاوشیں کیفیت و کمیت ہر دو اعتبار سے نہایت ہی وقیع ہیں۔ ان کی علمی و ادبی فتو حات کا ثبوت ان کے علمی کارناموں سے ہوتا ہے۔مسعود انور علوی کاکوروی لکھتے ہیں ’’تصوف اور ارباب صفاء سلسلہ میںان کی گراں قدر تصنیفات مقالات صوفیہ، شرائط الوسائط،فتح الکنوز، مطالب رشیدی، مجاہدات الاولیا(یہ پانچوں کتابیں بھی اردو زبان کا جامہ پہن چکی ہیں)نے اہل علم و فضل کے یہاں بڑی مقبولیت حاصل کی۔انھوں نے اپنی ان تصانیف اور بیش بہا مکتوبات کے ذریعہ عبادت و عبود کا مفہوم سمجھا یا،خودی و پنداری کے شیشوں کو چکنا چور کیا،حجابات دور کیے اور بیخودی شوق کی گراں قدر دولت سے دلوں کو مالا مال فرمایا۔‘‘ (آجکل،نئی دہلی، نومبر 2012، ص21)

شاہ تراب علی قلندر ؒکاضخیم اردو دیوان متعدد بار مختلف جگہوں سے شائع ہوا۔یہ کلیات پہلی مرتبہ مطبع نظامی، کانپور سے 1280ھ مطابق 1863 میں شائع ہواجو تین سو اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہے۔اس کلیات میں مثنوی ’عاشق و صنم ‘بھی شامل ہے جو تقریباًڈیڑھ ہزار اشعار پر مبنی ہے۔ مادّہ تاریخ ’بجا ہے داستاں عاشق صنم کی‘ 1218ھ  مطابق 1803 ہے۔ان کے کلیات میں بکثرت ایسے اشعار موجود ہیں جن میں عاشقانہ رنگ پایا جاتا ہے، لیکن اس عاشقانہ رنگ کو محض عاشقانہ شاعری کے ذیل میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔وہ ایک حقیقی صوفی تھے اور انھوں نے عشق کو معرفت الٰہی کا ذریعہ بنایا تھا،اس لیے اُن کی عاشقانہ شاعری میں بھی موج تہہ نشیں کی صورت میں عارفانہ افکار و خیالات کی ہی جلوہ سامانی موجود رہتی ہے،لیکن اس کی شناخت کے لیے چشم بصیرت کی ضرورت ہے۔ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی شاعری کی غرض و غایت صوفیانہ افکار و تصورات کی نقش گری ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں        ؎

سوا ترے تونہ رکھتا کسی سے الفت ہوں

ہوا میں،خلق میں رسوا تری بدولت ہوں

عرفان حق سے جس کی ہوئی ہے نظر بلند

ہفت آسمان پست ہیں اس کی نگاہ میں

  لیلٰی و شیریں سے کیا اس کو کوئی تمثیل دے

جس پری رو سے کوئی شکل بشر ملتی نہیں

شاہ تراب  علی قلندرنے مختلف اصنا ف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن بنیادی طور پروہ غزل گو شاعر تھے۔ان کا فطری میلان تصوف و معرفت الٰہی کی طرف تھا۔ان کے کلام کا زیادہ تر حصہ تصوف ومعرفت،فقر و غنا،حقائق و معارف کی طرف اشارہ کرتا ہے       ؎

حق تعالیٰ عشق اپنا دے تو بہتر ہے تراب

حسن صوری کچھ نہیں اس سے تو جی بالکل اٹھا

یارو خدا شناسوں کی صحبت ہے کیمیا

بیٹھوں تراب صاحب عرفاں کے سامنے

شہر میں اپنے یہ لیلیٰ نے منادی کردی

کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو

شاہ تراب آزاد خیال صوفی شاعر تھے اور ان کی شاعری کا غالب رجحان تصوف ہے لیکن اس کے علاوہ انھوں نے دیگر مضامین سے بھی اپنی شاعری کو مزین کیا ہے تاکہ اُن کی شاعری تعنیات و تحدیدات کا شکار نہ ہو جائے۔انھوں نے اپنی شاعری میں اپنے عہد کی بھر پور عکاسی کی ہے اور معاشرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا ہے۔انھوں نے انگریزی حکومت کا جہاں کہیں بھی ذکر کیا ہے، اس میں حقارت اور نفرت صاف طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔مثلاً 1841 میں انگریزی حکومت نے جب کابل پر حملہ کیا  تو موصوف نے کابل کی خیر وعافیت کی دعا فرمائی       ؎

غول بندر کے چلے ہیں پھر ولایت کی طرف

شیر حق جلد آ خبر لے،کفر کا بندر کھلا

کابل کی فوج نے انگریزی فوج کو بری طرح سے شکست دی اور یہ خبر جب آپ کے کانوں تک پہنچی تو طنزیہ لہجے میں کہا         ؎

جس کا اقبال ہو تنزل پر

وہ چڑھے فوج لے کے کابل پر

جنگ آزادی سے پہلے ہندوستان پر انگریزوں نے جس طرح سے غاصبانہ قبضہ کرلیا اور یہاں کے نظم و نسق کو تباہ و برباد کر نے، اس کی تہذیب کو مٹانے کی جو نارواکوشش کی،اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے     ؎

سرکار کے خزانے میں کوئی رقم نہیں

دفتر میں پیشکار کے ہیں داخلے بہت

اس زمانے میں ہیں مبصر کم

کیوں نہ بازار لیویں اندھے لوٹ

 ایک زمانہ تھا جب ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جا تا تھالیکن انگریزی حکومت کے دور میں ملک کی حالت بدسے بدتر ہوتی جا رہی تھی، اس بد انتظامی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں       ؎

وہی جو چاہے تو ہو انتظام ہندوستاں

کرے جو زلف پریشاں کا اپنے بندوبست

شاہ صاحب نے اُمراکی بزددلی اور بے راہ روی پر بھر پور طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے بہادر لوگ ہیں کہ دشمن فوج کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور ان ظالموں کی تلوار کا ذوالفقار نام کس نے رکھ دیا۔وہ کہتے ہیں         ؎

کیا بہادر ہیں،سپہ سالار ہیں شمشیر جنگ

جن کو وقت جنگ تلوار و سپر ملتی نہیں

کس نے تلوار دے کے ظالم کو

نامور   ذوالفقار   جنگ   کیا

شاہ تراب علی قلندر کاکوروی نے ہندوستان کے سماجی، سیاسی، مذہبی پہلو ؤںپر گہری نظر رکھی اور اس زمانے میں زندگی کے ساتھ کیا کیا پریشانیاں پیش آئیں اس کی جیتی جاگتی تصویر اپنی شاعری میں پیش کی۔ ان کی بصیرت اور ژرف بینی پر غور کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ڈیڑھ صدی قبل کی نہیں بلکہ ہمارے زمانے کی بات ہو رہی ہو۔ایک نام نہاد متقی پرہیزگار،زاہد،ملّا دنیاوی فرائض کی انجام دہی کیسے کرتا ہے اور دنیا میں کس طرح غفلت کی زندگی گزارتا ہے، اس کے بارے میں کہتے ہیں     ؎

تراب انکار رکھتا تھا سماع و وجد سے جو شخص

وہ کیوں دیتا ہے فتوے رقص پر اس کی اباحت کا

کعبہ و مسجد میں جاتے ہو بھلا جی کس لیے

وہ تو ہے دل میں تمھارے پھر تے ہو تم جس لیے

اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد لیکن انسان اتنا نادان ہے کہ اللہ کا حق ادا کرنے کے لیے اسی کے بندوں کے حقوق غصب کر لیتا ہے اور پھر اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے حج کرنے جاتا  ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ انسان کا حق ادا کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اللہ کا۔اللہ کسی بندے کی طرف سے اپنے حقوق کی بجا آوری میں غفلت برتنے کے باوجود اپنی رحمت کے صدقے میں اس کی مغفرت کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی انسان نے کسی انسان کی حق تلفی کی ہو اوراگر وہ  معاف نہ کرے تو اس کی معافی کا ذمہ اللہ نے بھی نہیں لیا ہے۔ اس سلسلے میں شاہ تراب علی فرماتے ہیں      ؎

حق تلف کر کے یہاں،حاجیوں جاتے ہو کہاں

کس لیے پھرتے ہو ایدھر سے اودھر سو سو کوس

رہبانیت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں       ؎

کلمۃ الحق میں اُس سے کہہ دوں صاف

جو سُنے اور کہا مرا مانے

شہر کیا چھوڑ کے بیٹھا ہے تو جنگل میں تراب 

پہلے ہستی کی دکاں اپنی لٹائی ہوتی

شاہ تراب نے گنگا جمنی تہذیب کو اپنی شاعری میں زندہ رکھا ہے۔انھوں نے دوآبہ ٔگنگ و جمن کے حسینوں کو دنیا کے حسین ترین افراد میں شمار کیا ہے۔

واہ   کیا  گنگا  وجمنا      دوآبے  کا   حسن

آب و تاب ایسا نہ ہو کشور پنجاب میں

حق کا جلوہ دیکھ کے صورت میں خوبوں کی تراب

ملک ہندوستان میں سیر ولایت کیجیے

شیریں و لیلٰی پہ عاشق ہوتے کب فرہاد و قیس

گر کبھی وہ دیکھتے معشوق ہندوستان  کے

اس  زمانے کے وکلا آج کے وکیل حضرات سے بالکل مختلف نہیں تھے ملزم کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے عدالت میں کیسے بحث کرتے تھے۔ اس کا  نقشہ اس طرح کھینچا ہے       ؎

کوئی دیکھے تماشا قصہ والوں کا عدالت میں

مثال مرغ کیا وکلاء خوش تقریر لڑتے ہیں

اخبارکی ہر زمانے میں بڑی اہمیت تھی۔ اخبارات نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔لیکن سیاسی نقطۂ نظر سے اس کو کس نظر سے دیکھا گیا وہ شاعر کی زبان سے سنیے     ؎

ترے صدقے میں اے اخبار والے

یہ غفلت اوس کی پرچے میں رقم کر

خبر یہ ہو گئی شائع،نہ عالمگیر ہو کیونکر

شہ خوباں،شکوہ حسن بھی دارا نگر پہنچا

پھر کہا ہے        ؎

کہیو لیلیٰ سے کہ پھر قیس کو وحشت بھائی

ملک صحرا سے یہ اخبار کا چھاپا آیا

شاہ تراب علی قلندر نے اپنے عہد کی درسگاہوں کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ آج کی درس گاہوں سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے     ؎

شوخیاں دیکھ کے طفلانِ پری چہروں کی

راہ لی گھر کی معلم نے دبستاں چھوڑا

جس میں نہ تمیز آئی خوردی و بزرگی کی

شاگرد ہوا تو کیا،استاد ہوا تو کیا

استاد کی عظمت و عزت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں      ؎

نہ ہو شاگرد لائق سے،کبھی ایسی کوئی حرکت      

کدورت جس سے کچھ بھی خاطر استاد میں آئے

قدیم زمانے سے ہی پہیلی کہنے کا عام رواج تھا جس کی مثالیں امیر خسرو کے یہاں بھی ملتی ہیں۔تراب کے یہاں بھی اس روایت کا التزام ملتا ہے۔حقہ کے بارے میں ایک پہیلی اس طرح کہی ہے      ؎

دروں ہے پانی بروں ہوا ‘سر پہ آگ ہے تیز         

کشش سے کرتی ہے وہ ذکر حق خفی و جلی

کثیرالتصانیف ہونے کے باوجود ان کا تذکرہ خال خال ہی ملتا ہے۔محض چند علما اور صوفیہ کے تذکروں جیسے روضۃ الازہر فارسی، الانتصاح عن ذکر اہل الصلاح، مشاہیر کاکوری، سخنورانِ کا کوری،اذکار الابرار،بہارستان تراب، اور تذکرہ گلشن کرم میں ان کے احوال و کوائف،نظریات و افکار کا مختصرذکر کیا گیا ہے۔اردو ادب کی تاریخ پر مبنی بیشتر کتابیں ان کے حالات زندگی و خدمات شعر و ادب کے ذکر سے خالی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی عظیم شخصیت سے اردو ادب کو کما حقہ متعارف کرایا جائے۔


Javed Ahsan

Research Scholar, Dept of Urdu

Allahabad University

Prayagraj- 211002 (UP)

Mob.: 7388137680

Email: javedahasan7@gmail.com

 

ماہنامہ اردو دنیا، اکتوبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں