1/12/20

بچوں کے ادب کے فروغ میں رسالہ نو رکی خدمات - مضمون نگار: سعدیہ سلیم

 



 اردو رسائل کی تاریخ کا جب بھی ذکر ہوگا رسالہ ’نور‘ کا شمار ان رسالوں میں ہوگا جس کے بطن میں علم کے خزانے موجود ہیں۔اس رسالے پر جب کبھی غور کرتی ہوں تو بڑا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔اردو کے کتنے ہی ایسے رسالے ہیں جن کی مدت چند ہی برسوں پر محیط ہے پر رسالہ ’ نور‘ الحمد للہ گزشتہ 65  سالوں تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا۔ اگر ہم اس کی خدمات کے ایک حصے کو لیں تو مضمون نہیں پوری کتاب تیار ہو جائے گی۔

1953 میں 24 صفحات پر مشتمل پندرہ روزہ نور کا اجرا عمل میں آیا۔اس کی قیمت دس پیسے تھی۔اس وقت ہندوستان میں بچوں کی ذہن سازی کرنے والا کوئی دوسرا پرچہ نہیں تھا چنانچہ نور کے ذریعے ننھے منے بچوں کو تشفی بخش روحانی غذا نصیب ہو گئی تھی۔ستمبر 1970 میں نور کا سالنامہ ڈائجسٹ کی شکل میں شائع کیا گیا قارئین نے اسے بہت سراہا۔جنوری سے نور ماہنامہ ہو گیا اور بچوں کا ڈائجسٹ بھی۔

مولانا عبدالحی صاحب اس وقت کے حالات میں جہاں ملت کے بڑوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہب سے وابستگی کے لیے کوشاں تھے وہیں بچوں کی تعلیم و تربیت سے بھی غافل نہیں تھے۔مولانا عبد الحی صاحب گہری فکر و نظر کے حامل ادیب اور صحافی تھے انھوں نے یہ محسوس کیا کہ ننھے منے بچوں کے لیے بھی کوئی رسالہ شائع ہونا چاہیے جس سے انھیں دینی،معلوماتی اور تعلیمی فوائد حاصل ہوںاور ان کو اس میں دلچسپی پیدا ہو۔چنانچہ انھوں نے مائل خیر آبادی صاحب کے تعاون سے ایک ایسا رسالہ مرتب کیا جس میں بہت ہی سادہ زبان میں کہانیاں اور مضامین تحریر کیے گئے کہ جیسے بچوں کے آمنے سامنے گفتگو ہو رہی ہو،انھیں کوئی کہانی زبانی سنائی جا رہی ہو۔ چنانچہ اس رسالے کا اداریہ ’اللہ کے نام سے‘ شروع کیا گیا۔ایک اداریہ دیکھیں جس سے اندازہ ہوگا کہ نور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کس قدر کوشاں تھا:

’’لو بھئی ’نور‘ الحسنات سے الگ چھپ گیا۔پہلا پرچہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ آپ نور کا انتظار کر رہے تھے۔بار بار ہمیں خط لکھتے تھے’نور کب آئے گا؟کہتے تھے کل کا آتا آج ہی آ جائے۔اللہ کا شکر ہے ’نور‘ تیار ہو گیا۔ ہماری دعا ہے کہ ہم اسے اچھے سے اچھا بنا سکیں۔اب نور کے صفحے بڑھ گئے ہیں۔ہم ہر بار آپ کے لیے بہت سی نئی نئی باتیں لکھ کر بھیجیں گے۔ کہانیاں خوب آئیں گی آپ دل لگا کر پڑھیںاپنے ساتھیوں کو پڑھوائیں اور ہاں بھئی دیکھیے ایک بات نہ بھولیے گاآپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو نور میں جو باتیں پسند آئیں وہ ہمیں بھی بتائیں اسی طرح جو باتیں اچھی نہ لگیں وہ بھی لکھ کر بھیجیں۔ہم کو آپ کے خط پڑھنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔جو باتیں جواب دینے کی ہوں گی ہم ان کا جواب بھی چھاپ دیں گے۔ ایک اور بات یاد رکھیں۔ ’نور‘ میں آپ کی لکھی کہانیاں بھی تو چھپ سکتی ہیں، اچھی اچھی مزیدار کہانیاں لکھ کر بھیجیے۔اگر کچھ گڑبڑ ہوگی تو ہم ٹھیک کر لیں گے۔کہانیاں لکھناتو بہت آسان ہے، آپ کوشش تو کریںآپ کو جو کہانی پسند آئے وہی لکھ کر بھیج دیجیے۔اس بار ہم آپ کے خطوں کا جواب بھی چھاپ رہے ہیں۔ آپ کو پڑھ کر بڑا مزہ آئے گا۔اسی طرح بچوں کی آپ بیتی دیکھیے ایسی باتیں تو آپ بھی لکھ کر بھیج سکتے ہیں۔جو بات آپ کو یاد ہو لکھ ڈالیے اور ہاں، دیکھیے تو اس بار کھیل کتنا اچھا ہے آپ اپنے ہاتھ سے بنانے کی کوشش کریں۔ادھر ادھر گھومنے سے تو یہی اچھا ہے کہ آپ ایسے کاموں میں دل لگائیں۔ اچھے بچے وہی کام کرتے ہیں جس سے انھیں کچھ نہ کچھ فائدہ بھی پہنچے۔ انعامی سوال میں حصہ لینا نہ بھولیے گا۔ نور کے پہلے پرچے تو آپ کے پاس ہوں گے نہ ہوں تو ہم سے منگا لیجیے گا اور ہاں اب نور کے رسالے بہت سنبھال کر رکھیے گا کچھ دنوں بعد پھر ایسا ہی انعامی سوال چھپے گا۔اس وقت آپ کے پاس نور کے سب رسالے ہونا چاہئیں۔اچھے بچے اپنی سب چیزیں سنبھال کر رکھتے ہیں‘‘

سیرت کے واقعات اور احادیث شامل کی گئی جو  بچوں کی ذہنی سطح سے بالاتر نہ ہوں۔صحابی و صحابیات اور بزرگان دین کے حالات کہانی کے انداز میں دلچسپ پیرائے میں لکھے گئے۔ نظمیں، حمد، نعت ترانے شامل کیے گئے۔ معلومات، سیر جنگل کے قصے، نوری محفل اور ریڈیو نورستان اور بچو ں سے متعلق لطیفے اور مشغلے شامل کیے گئے۔اور اس رسالے کا نام نور تجویز کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روشنی ساری دنیا میں پھیل گئی اور رسالہ نور سے ہر گھر منور ہوتا چلا گیااور اس طرح کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے عروج پر پہنچ گیا۔

نور نے اپنی عمر عزیز کے 65 برسوں میں کئی خاص نمبر شائع کیے۔سالنامے ان کے علاوہ ہیں اور خاص نمبر بھی ایسے کہ ان کے سامنے دیگر رسائل کے خاص نمبر عام لگنے لگیں۔ ان خاص نمبروں کے موضوعات ہی ان کی انفرادیت کا پتا دیتے ہیںاور انھیں سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نور کے مدیران اور ان کے معاونین کتنے تخلیقی اور زرخیز ذہنوں کے مالک تھے۔ چند منفرد موضوعات ملاحظہ ہوں۔ اجتماع نمبر، نور الانوار نمبر،دلچسپ کہانی نمبر، شکاریات نمبر،سچی کہانی نمبر،عید نمبر،نماز نمبر  وغیرہ۔اس کے ساتھ ساتھ ہر سال کی بہترین کہانیوں،مذہبی تحریروں،معلوماتی تحریروںنظموں وغیرہ پر اول،دوم اور سوم انعامات دیے گئے۔نور میں شائع ہونے والی تحریروں کی زبان شائستہ،عام فہم اور معیاری ہوتی تھی۔نور ہر ماہ نت نئی دلچسپیوں اور گراں قدر معلومات کو دلفریب انداز میں پیش کرنے والا رسالہ تھا۔نور نے بہت کم وسائل کے ساتھ اپنا یہ سفر درخشاں جاری رکھا۔شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور شائستہ سوچ رکھنے والے صنعتکار اور تجارتی اداروں کے مالکان اچھائی کو فروغ دینے والے جرائد کو باوقار انداز میں مالی استحکام فراہم کریں۔میرا یہ خیال ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے اردو میں شائع ہونے والے بچوں کے اس منفرد رسالے کو بطور زریں مثال پیش کیا جانا چاہیے۔

گزشتہ 65 سالوں میں ماہنامہ نور نے بہت سے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔کتابت و طباعت رنگین ہو گئی اور یہ فوٹو آفسیٹ سے طبع ہونے لگا۔نئے نئے کالمس میں بھی اضافہ ہوااور دیگر دلچسپیوں میں بھی۔اب اس میں انٹرویو، شکاریات سلسلے اور جاسوسی کہانیاں بھی جگہ پا گئیں۔ مائل خیر آبادی صاحب ادارے سے الگ ہوکر آزادانہ طور پر تحریری مشاغل میں لگ گئے۔بہار کے ایک نوجوان ’محمود عالم‘ ادارے سے وابستہ ہو گئے جنھوں نے معاون مدیر کی ذمے داری سنبھالی لیکن وہ بھی جلد رخصت ہو گئے پھر سید مستفیض الحسن صاحب جو مرادباد کے مسلم انٹر کالج میں لیکچرار تھے،1973 میں ادارے سے وابستہ ہو گئے۔

ذوق مطالعہ رکھنے والے بچوں کے لیے یہ رسالہ ہر سال ایسے انٹرویو بھی شامل کرتاجس میں بچوں کے لیے لکھاری سے ملاقات ان کے اپنے قاری سے کرائی جاتی تھی۔ بچے جن لوگوں کی کہانیاں،نظمیں اور مضامین پڑھتے ان سے اس طرح انٹرویو کے ذریعے مل کرخوشی اور مسرت ہی نہیں ایک اعزار بھی محسوس کرتے۔

ماہنامہ ’نور‘ میں شائع ہونے والی تحریریں رنگا رنگ اور متنوع ہوتیںیہی وجہ ہے کہ یہ رسالہ مختلف عمروں اور متفرق ذوق رکھنے والے بچوں میں یکساں مقبول ہوا۔تاریخی اور سائنسی کہانیوں سمیت ہر تعلیمی موضوع پر اثر انگیز کہانیاں اور ڈرامے شامل کیے جاتے۔سائنسی تجربات اور فنی معلومات پر مضامین الگ سے دیے جاتے۔ دیگر مضامین میں قرآن و حدیث،سیرت النبی، سیرت صحابی،بزرگوں کے واقعات،اسلامی تاریخی عمارات جس میں عالم اسلام کی شاہکار مساجد سے متعلق معلومات بھی شامل کی جاتیںجو  ماہنامہ نور کے خاص موضوعات ہیں۔

بچپن کی تربیت کے کئی عناصر ہیںماں باپ، ماحول اور اسکول، اسکولی ماحول میں جہاں دوست شامل ہیںوہیں اس زمرے میں کتابوں(لٹریچر) اور دیگر میڈیا کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے گھرانوں میں والدین کا رویہ یہ ہے کہ جن کتابوں کا تعلق نصاب یا اسکول سے ہے وہی کتابیں خریدیں گے پر نصابی کتب سے ہٹ کر دیگر لٹریچر والدین کے نزدیک فضول خرچی ہے۔اگر کوئی بچہ پڑھنے کا ذوق بھی رکھتا ہے تو والدین اس کی ہمت افزائی نہیں کرتے۔مسلم بچوں کا معاملہ تو بہت تشویش ناک ہے۔ہمارے بچوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مادری زبان اکثر اردو ہوتی ہے اور انھیں روانی کے ساتھ کسی اور زبان میں مشق کرائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اردو کا تلفظ بہت غلط ہوتا جا رہا ہے۔ماہنامہ نور نے بچوں کے تلفظ پر بھی بہت غور کیا اور بہت ہی آسان زبان میں اردوالفاظ کا استعمال کیا جس سے بچوں کو بہت اچھی اردو بولنا اور لکھنا آگئی۔یقینا بچوں کا لٹریچر تیار کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہندوستان میں بچوں کے اسلامی لٹریچر کی کمی کی ایک اور بنیادی وجہ بچوں کے لٹریچر کو ترتیب دینے والوں کی عدم ہمت افزائی ہے۔ اگر کوئی بچوں کے لیے کوئی رسالہ نکالتا ہے تو اسے اس حد تک دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ خود اپنا سرمایہ لگا کر شائع کرنا ہوتا ہے۔نہ تو کوئی اشاعتی ادارہ اسے رائلٹی دیتا ہے اور نہ ہی دیگر لوگ اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں نتیجہ اداروں کو بند کرنے تک کی نوبت آ جاتی ہے۔بچوں کے لٹریچر کی تیاری سرپرستی چاہتی ہے اردو زبان میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ مائل خیر آبادی اس میدان کے اہم ادیب رہے ہیں جنھوں نے اسلامی اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے کافی اہم ذخیرہ ادب تخلیق کیا۔ ماہنامہ نور میں بچوں کی نظموں کے علاوہ ان کے بہت اچھے اور دلچسپ ناول بھی شائع ہوتے تھے۔مائل خیر آبادی کا نام ادبی حلقوں میں تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ نثر و نظم دونوں میں ہی مہارت رکھتے تھے۔وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، انھوں نے بچوں کے لیے کئی نظمیں لکھیں جو بالخصوص ماہنامہ نور میں لگاتار شائع ہوتی تھیں۔  ان کی سبھی نظمیں اخلاقی،مذہبی اور اصلاحی ہیں۔

مائل خیر آبادی اپنی نظموں کے ذریعے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں جس سے بچوں میں اللہ کی قدرت کو پہچاننے اور اس کا شکر ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ان کی نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں       ؎

    اے خدا اے خدا شکر و احساں تیرا

ہم کو پیدا کیا اور کھانا دیا

  اے خدا اے خدا شکر  واحساں تیرا

سارا عالم بنایا ہمارے لیے

اور اس کو سجایا ہمارے لیے

 اے خدا اے خدا شکر و احساں تیرا

تونے بھیجا نبی جس سے قرآں ملا

اچھی باتیں ملیں دین و ایماں ملا

 اے خدا اے خدا شکر و احساں تیرا

سب برائی بھلائی بتا دی ہمیں

دین کی راہ سیدھی دکھا دی ہمیں

 اے خدا اے خدا شکر و احساں تیرا

ہے یہ میری دعا میرے اللہ میاں

راہ سیدھی چلا میرے اللہ میاں

 اے خدا اے خدا شکر و احساں تیرا

مائل خیر آبادی نے اسی طرح کی اپنی بہت سی نظمیں تخلیق کیں جس کے ذریعے سے بچوں کی ذہنی اصلاح کی جا سکے۔یوں تو آپ نے اردو ادب سے متعلق نثری کتابیں بھی لکھیں ہیں لیکن آپ کی شہرت بچوں کے شاعر کی حیثیت سے زیادہ ہے۔

اس طرح دیگر بہت سے شاعر اور ادیب ماہنامہ نور میں اپنے اپنے فن کے جوہر دکھاتے چلے گئے جن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں۔

بچوں کے شاعر: مولانا ابو المجاہد زاہد، مرتضی ساحل تسلیمی، خلیل محمودی، سحر رامپوری، مجاہد لکھیم پوری، خالد فوزان

بچوں کے ادیب: مولانا ابو سلیم محمد عبد الحئی، ڈاکٹر ابن فرید، وصی اقبال، ایس فضیلت، مرتضی ساحل تسلیمی، سعید فرحت، تبسم نشاط، ڈاکٹر محمد اطہر مسعود، زبیر گستاخ، سعید ریاض وغیرہ ہیں۔

نور کا ہر کالم اپنی دلچسپی کے لحاظ سے اپنا  ایک الگ ہی مقام رکھتا تھا۔نور میں ایک کالم ’قلمی دوستی‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔قلمی دوستی کے اس مشغلے کے بنیادی مقاصد ہی مختلف ممالک میں دوست بنانا مختلف ممالک کے رہن سہن کی معلومات لینی تھی۔ اسی طرح سے ایک نہایت دلچسپ و معلوماتی کالم ’ریڈیو نورستان‘ تھا جس میں بچوں کی نظمیں وغیرہ نشر کی جاتی تھیں۔ ریڈیو نورستان کی نشر کی ہوئی نظمیں ’ ادارہ الحسنات‘ نے کتابی شکل میں طبع کیں۔

بچے ہر ملک اور ہر قوم کا وہ خوشنما،دیدہ زیب اور معطر پھول ہوتے ہیںجن کی خوشبو کسی بھی قوم کا وہ گلدستہ بنتا ہے جو آنے والی تاریخ میں اس قوم کا اصل چہرہ تمام خدو خال کے ساتھ سلامت رکھتا ہے۔بچوں کے اس رسالے نور نے اس پھول کو ایک گلدستہ بنا کر پیش کیااور فضا کو اپنی خوشبو سے معطر کردیا۔

غرض یہ کہ بچوں کے ادب کے لیے ہر صدی میں لکھا جاتا رہا ہے اور اس کے فروغ کے لیے رسالہ نور نے اپنی بے لوث خدمات پیش کی ہیں ان کو تا قیامت یاد کیا جاتا رہے گا۔مختصر ہم کہہ سکتے ہیں بچوں میں مثبت اور معیاری مطالعے کا اعلیٰ ذوق پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے اور مطالعے کے شوق کو پروان چڑھانے میں ماہنامہ نور نے گزشتہ 65 برسوں میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جسے فراموش نہیں کیا سکتا ہے۔


Sadia Saleem

Research Scholar

Osmania University Main Rd, 

Amberpet, Hyderabad- 500007 (Telengana)

 

 ماہنامہ اردو دنیا، نومبر 2020

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں